Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایران کی امرد پرستی کا اثر اردو شاعری پر

عندلیب شادانی

ایران کی امرد پرستی کا اثر اردو شاعری پر

عندلیب شادانی

MORE BYعندلیب شادانی

     

    ایران میں جس وقت عشقیہ شاعری کی طرف توجہ کی گئی، امرد پرستی کی وباء وہاں پھیل چکی تھی۔ چنانچہ دقیقیؔ اور فرخی وغیرہ کے کلام میں جابجا اس کے اشارے نہیں بلکہ تصریحیں پائی جاتی ہیں۔ دقیقیؔ نے تو اپنی امرد پرستی کے طفیل جان گنوائی۔ ایک ترک غلام کے ہاتھ سے جو اس کا معشوق بھی تھا، قتل ہوا۔ 1  

    پھر یہ مرض کسی خاص طبقہ تک محدود نہ تھا، درویش و تونگر، عارف و عامی، شاہ و گدا سبھی اس بلا میں مبتلا تھے۔ محمود و ایاز کی کی داستان، لیلیٰ مجنوں اور شیریں فرہاد کے افسانوں سے کم مشہور نہیں۔ سلطان سنجر سلجوقی کے متعلق صاحبِ تاریخ سلجوقیہ کا بیان ہے کہ، ’’سلطان سنجر کی عادت تھی کہ جو غلام اس کو پسند آتا تھا اسے خریدلیتا، پھر اس سے عشق کرتا اور اس کی عام شہرت ہوجاتی تھی اور جان و مال اس پر صرف کرتا تھا۔‘‘ 2

    یہ گندا مذاق ایک دفعہ شروع ہونے کے بعد برابر بڑھتا ہی گیا۔ شعرائے متقدمین کے آخری دور میں انوری، خاقانی اور ظہیر فاریابی اس اعتبار سے خاص طور پر قابل ذکر ہیں کہ جہاں قصیدہ گویوں کی صفِ اول میں ان کا شمار ہے م وہاں انہوں نے غزلیات کے مستقل دیوان بھی چھوڑے ہیں۔ لیکن عشقیہ شاعری کا جہاں تک تعلق ہے انہوں نے بھی اسی غلاظت کو اچھالا ہے۔ مولانا افضل الدین خاقانیؔ فرماتے ہیں،

    رُخ و سرشکِ من نگر، کہ کردۂ چو سیم وزر
    زہے تبارک اے پسر، قویست کیمیائے تو

    میرے چہرے اور میرے آنسوؤں کو دیکھ، جنہیں تو نے چاندی کی طرح سفید اور سونے کی طرح زرد کردیا ہے۔ اے لڑکے تیرا کیا کہنا! تیری اکسیر (محبت) بہت زوردار ہے۔ 

    شریعتِ شاعری کے پیغمبر 3 یعنی حضرت اوحدالدین انوریؔ کا ارشاد ملاحظہ ہو،

    نقشے نگاشت خطش از مشک سودہ برگل
    دامے فگندزلفش بروزِ روشن از شب

    تیرے رخسار پر تیرا خط ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے گلاب کی پتی پر مشک سے کچھ نقش و نگار بنا دیے ہوں۔ 

    مولانا ظہیرؔ فاریابی امردپرستی میں اپنے دونوں پیش روٓں سے سبقت لے گئے۔ ارشاد ہوتا ہے،

    طفلِ شوخے بردہ از کف اختیارم اے ظہیر
    در ہوائے عشق اودر کہنہ سالی می روم

    اے ظہیرؔ! ایک چلبلے لونڈے نے میرا اختیار مجھ سے چھین لیا۔ اس بڑھاپے میں، میں اس کی محبت میں مبتلا ہوں۔ 

    یہ غزل کا ابتدائی دور تھا۔ یہاں تک کہ خلافتِ بغداد کی تباہی کے بعد عشقیہ شاعری کا عہدِ شباب آپہنچا۔ پیغمبرِ غزل یعنی حضرتِ سعدی کا ظہور ہوا۔ انہوں نے اس نغمہ کواس زورسے چھیڑا کہ سارا ایران گونج اٹھا۔ سعدیؔ شاعر ہونے کے علاوہ ایک زبردست مصلح اخلاق بھی تھے۔ دل بہت دردمند پایا تھا۔ چنانچہ جب انہوں نے دیکھا کہ قوم کی قوم بداخلاقی ار معصیت کی تاریکیوں میں بھٹکتی پھر رہی ہے تو ان کاجی بہت کڑھا اور انہوں نے ان گمراہوں کی ہدایت کے لیے گلستاں اور بوستاں کے کبھی نہ بجھنے والے دو چراغ روشن کردیے۔ 

    دوسرے ذمائم اخلاقی کے سوا امرد پرستی شیخ کے زمانے میں عام ہوگئی تھی۔ صوفیہ ’’المجازقنطرۃ الحقیقہ‘‘ 4 کے پردے میں کھلم کھلا سادہ رویوں سے عشق کرتے تھے۔ شیخ نے نہایت سختی کے ساتھ اس بدکاری کے خلاف آواز بلند کی اور صوفیوں نے اپنی شہوت رانیوں کے لیے جو ایک ڈھونگ بنایا تھا اس کا پردہ چاک کردیا۔ فرماتے ہیں،

    گروہے نشینند باخوش پسر
    کہ ماپا کبازیم و اہلِ نظر

    لوگ ایک خوبصورت لونڈے کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو پاکباز اور اہل نظر ہیں۔ 

    زمن پرس، فرسودۂ روزگار
    کہ برسفرہ حسرت خوردروزہ دار

    مجھ تجربہ کار بڈھے سے پوچھ کہ روزہ دار دسترخوان پر (کھانے کے بجائے) حسرت کھاتا ہے۔ 

    ازان برگ خرما خورد گو سپند
    کہ قفل است برتنگِ خرما وبند

    بکری اس وجہ سے کھجوری کی پتیاں کھاتی ہے کہ کھجور کے بورے کا منہ بند ہے۔ 

    اور صوفیوں کا یہ جو دعویٰ ہے کہ خوش جمالوں کی صحبت سے ہمارا مقصود صنعتِ ایزدی کا مطالعہ ہے، اس کی تردید اس طرح کرتے ہیں،

    چراطفلِ یک ر وزہ ہوشش نہ برد
    کہ درصنع دیدن چہ بانع چہ خرد

    ایک دن کے بچہ کو دیکھ کر اس کے ہوش کیوں نہ جاتے رہے، کیونکہ صنعت الٰہی کے مطالعہ کے لیے تو بچہ اور بڑا دونوں برابر ہیں۔ 

    محقق ہمان بیند اندر ابل
    کہ درخوبرویانِ چین وچگل

    اہل نظر کو ایک بے ڈول اونٹ میں بھی وہی بات نظر آتی ہے جو چین و چگل کے حسینوں میں دکھائی دیتی ہے۔ 

    پھر اس فعل شنیع کی برائیاں اس طرح بیان کرتے ہیں،

    سر از مغزودست ازدرم کن تہی
    چو خاطر بہ فرزندِ مردم نہی

    سر کو عقل اور ہاتھ کو روپیہ سے خالی کردے اگر تو کسی کے فرزند سے دل لگاتا ہے یعنی اس عش قبازی میں عقل اور دولت دونوں فنا ہوجائیں گی،

    مکن بدبہ فرزندِ مردم نگاہ
    کہ فرزندِ خویش برآید تباہ

    کسی کے بیٹے پر بری نظر نہ ڈال، ورنہ تیرا بیٹا بھی برا اٹھے گا۔ 

    شیخ کا یہ منشا ہرگز نہیں کہ عشق و عاشقی سے توبہ کرکے ہر شخص زاہدِ خشک بن جائے بلکہ اس کا مقصود اس بداخلاقی کی اصلاح کرنا اور محبت کو اس کے فطری مرکز پر لانا ہے۔ چنانچہ مشورہ دیتا ہے،

    زنِ خوب و خوشخوے آراستہ
    چہ ماند بہ نادانِ نوخاستہ

    ایک خوبصورت، خوب سیرت اور آراستہ عورت کو بھلا ایک نوخیز امرد سے کیا مناسبت۔ 

    خرابت کند شاہدِ خانہ کن
    بروخانہ آباد گردان بزن

    خانہ برانداز امرد تجھے برباد کرے گا۔ جا عورت سے اپنا گھر بسالے۔ 

    مگر قیامت تو یہ ہے کہ ملک کے اس رجحانِ عام کا سیلاب سعدی کو بھی اپنے ساتھ بہالے گیا اور آخر انہیں بھی علی الاعلان کہنا پڑا کہ،

    ہمہ دانند کہ من سبزۂ خط دارم دوست
    نہ چودیگر حیوان سبزہ صحرائی را

    سب جانتے ہیں کہ میں سبزۂ خط کاعاشق ہوں۔ دوسرے جانوروں کی طرح جنگل کی گھاس کا نہیں۔ 

    اور پھر صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے اس فعل کو قابل تحسین بھی ٹھہراتے ہیں،

    نامِ سعدی ہمہ جارفت بہ شاہد بازی
    دین نہ عیب است کہ درمذہبِ تحسین است

    شاہد بازی میں ہرجگہ سعدی کی شہرت ہوگئی اور شاہد بازی کوئی عیب کی بات نہیں بلکہ ہمارے مذہب میں تعریف کے قابل ہے۔ 

    خواجہ حافظ جن کا مرتبہ ایران کے غزل گو شعرا میں سب سے بلند ہے، بہت عالی مرتبت صوفی اور عارف باللہ سمجھے جاتے ہیں اور ان سے امردپرستی کی نسبت اور توقع کسی طرح مناسب نہیں مگر اس کا کیا علاج کہ با ایں ہمہ تقدس کم از کم اشعار میں انہیں بھی ایک ’’نازنین پسر‘‘ سے دل بستگی ہے۔ فرماتے ہیں،

    اے نازنین پسر تو چہ مذہب گرفتہ
    کت خونِ ماحلال ترا زشیر مادرست

    اے نازک اندام لڑکے آخر تو نے کون سا مذہب اختیار کیا ہے جس کی رو سے تیرے نزدیک ہماراخون ماں کے دودھ سے زیادہ حلال ہے۔ 

    اس کے علاوہ دوسرے اشعار سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کا محبوب خطِ سبز یا سبزۂ خط کا مالک ہے،

    گردِ عذارِ یارمن یا بنوشت حسن خط
    ماہ زمہر روے او راست فتادہ ورغلط

    جب سے حسن نے میرے محبوب کے رخسار کے گرد خط لکھا یعنی سبزہ آغاز ہوا، چاند اس کے آفتاب جیسے چہرے سے غلطی میں پڑگیا یعنی اسے آفتاب سمجھا۔ 

    سبز پوشانِ خطت برگردِلب
    ہمچو خورانند گردِ سلسبیل

    اے محبوب تیرا خطِ سبز تیرے لب کے گردایسا معلوم ہوتا ہے جیسے چشمۂ سلسبیل کے کنارے سبز پوش حوریں کھڑی ہوں۔ 

    پھر اسی ایک نوخط پر بس نہیں۔ آگے چل کر اس سے زیادہ کھل کھیلے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے،

    چند بنازپرورم مہر بتان سنگدل
    یادِ پدر نمبکنند ایں پسرانِ ناخلف

    (کب تک ان سنگدل معشوق کی محبت کو ناز و نعمت سے پالوں۔ یہ تو ایسے ناخلف بیٹے ہیں کہ اپنے باپ کی بھی یاد نہیں کرتے پھر مجھے اِن سے کیا توقع ہوسکتی ہے۔)

    میرا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ خواجہ حافظ واقعی امردپرست تھے لیکن ان کے اشعار سے کم از کم اس بات کا ثبوت ضرور ملتا ہے کہ ان کے عہد میں امردپرستی نہ صرف یہ کہ معیوب نہ سمجھی جاتی تھی بلکہ فیشن میں داخل تھی اور ہر شاعر اپنے اشعار میں سوسائٹی کے مذاق اور ملکی رواج کے مطابق کسی نوخط یا سادہ رو سے عشق کا اظہار ضرور کرتا تھا۔ 

    امردپرستی کی یہ وبا ایران سے بڑھتے بڑھتے ہندوستان تک آپہنچی تھی، جس کے ذکر سے شاعروں کے دیوان بھرے پڑے ہیں۔ یہاں مثال کے طور پر ہم ہندوستان کے سب سے بڑے فارسی گو شاعر امیرخسرو کا ذکر کریں گے۔ امیرخسرو وہی بزرگ ہیں جن کے تقدس اور بزرگی کی بناپر ہندوستان کے لوگ آج تک انہیں حضرت امیر خسرو کہتے ہیں اور حق یہ ہے کہ وہ اس احترام کے مستحق ہیں لیکن انہوں نے بھی اس کوچہ کی بہت کچھ خاک چھانی تھی۔ حسن سنجری کے ساتھ ان کے عشق و محبت کا افسانہ بہت سے مؤرخوں اور تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے۔ ان کے زمانہ میں سوسائٹی کا جو مذاق تھا اور جس سے وہ خود بھی متاثر ہوئے تھے، اس کی مثالیں ان کے کلام میں جابجا ملتی ہیں۔ فرماتے ہیں،

    ہنگامِ گل ست بادیدہ باید
    ساقی و حریفِ سادہ باید

    بہار کا موسم ہے۔ شراب اور ساقی اور ایک سادہ رو معشوق چاہیے۔ 

    خضر گر برلبش آید شکندر و زۂ خویش
    کان پسر درتہ لب چشمۂ حیواں دارد

    حضرت خضر اگر اس کے لبوں تک پہنچ جائیں تو اپنا روزہ توڑدیں کیونکہ اس لڑکے کے ہونٹوں کے نیچے آبِ حیات موجود ہے۔ 

    چو سبزہ خویش راخطِ تو خواند جائے آں باشد
    کہ گل از خندہ برخاک اوفتد غنچہ شکم گیرد

    سبزہ اگر کہے کہ میں بھی تیرے خط کی مانند ہوں تو یہ بالکل بجا ہے کہ پھول ہنستے ہنستے زمین پرلوٹ جائے اور کلی اپنا پیٹ پکڑ لے۔ 

    ہندوستان کے سلسلہ میں آخری دور یعنی عہدِ عالمگیر کے دومشہور شاعروں کا ذکر کردینا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ان میں سے ایک ’’سرمدشہید‘‘ ہیں جنہیں ہندوستان کے ’’عرفا‘‘ میں ایک خاص درجہ حاصل ہے اور جن کی رباعیاں آج بھی نہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ یہ بزرگ جب ہندوستان میں تشریف لائے تو ٹھٹہ میں ایک خوبرو ہندو لڑکے پر فریفتہ ہوگئے جس کانام ’’ابھی چند‘‘ تھا۔ چنانچہ اسی کے متعلق فرماتے ہیں،

    نمیدانم دریں چرخِ کہن دیر
    خدائے من ابھی چند است یا غیر

    معلوم نہیں کہ اس دنیا میں ابھی چند میرا خدا ہے یا کوئی اور۔ 

    جب دہلی پہنچے تو بقول صاحب تذکرۂ حسنی ’’ان کے موحد انہ کلام کی وجہ سے داراشکوہ خلفِ شاہجہاں بادشاہ اُن کا معتقد ہوگیا۔‘‘ کیوں نہ ہو۔ امرد پرستی کاآخری نتیجہ ’’واصل بحق‘‘ ہوجانا ہے۔ انجام کار برہنہ پھر نے کے جرم میں سجکم اورنگ زیب قتل کیے گئے۔ 

    دوسرے شاعر مولانا محمد اکرم متخلص بہ ’’غنیمت‘‘ ہیں۔ جنہیں اپنی شہرۂ آفاق (یا رُسوائے عالم) مثنوی ’’نیرنگِ عشق‘‘ کی بدولت تقریباً ڈھائی سو برس سے ہندوستان میں غیرمعمولی شہرت حاصل ہے۔ یہ بزرگ نواب مکرم خاں کے ملازم تھے جن کے صاحب زادہ ’’عزیز‘‘ کو ایک نچکیاں لونڈے ’’شاہد‘‘ سے عشق ہوگیا تھا۔ مثنوی میں اسی داستانِ محبت کو بیان کیا گیا ہے۔ مکتب کے ذکر میں فرماتے ہیں،

    پری بزمے کہ مکتب بود نامش
    زروے حسن صد کنعان غلامش

    مکتب نہ تھا، پری خانہ تھا اور حسن کے لحاظ سے سوکنعان اس کے غلام تھے کیونکہ کنعان نے اگر صرف ایک حسین یعنی یوسف پیدا کیا تو یہاں سیکڑوں یوسف موجود تھے۔ 

    نشستہ ہر طرف طفلے پری زاد
    بفنِ دل ربائی ہر یک استاد

    ہر طرف ایک پر ی وش بیٹھا ہوا تھا جو دل چھین لینے کے فن میں استاد تھا۔ 

    اس کے بعد ہر لڑکے کے حسن و جمال اور دلربایانہ حرکات کی علیحدہ علیحدہ تعریف کی ہے اور ان کے باہمی معاشقہ کا بھی تذکرہ ہے۔ ’’شاہد‘‘ کے مکتب میں جانے کے متعلق ارشاد ہوتا ہے،

    بمکتب می رود طفلِ پریزاد
    مبارکباد مرگِ توبہ استاد

    ایک طفل خوبرو مکتب کو جاتا ہے۔ ایک نئی موت استاد کو مبارک ہو۔ کیونکہ جب کوئی خوبصورت لڑکا مکتب میں داخل ہوتا تھا تو معلم صاحب اس پر مرمٹتے تھے اور اس طرح ہر خوبرو کے داخلہ کے وقت انہیں ایک نئی موت سے سابقہ پڑتا تھا۔ 

    قیامت ہے کہ یہ مثنوی سیکڑوں برس داخل نصاب رہی اور مدرسوں میں لڑکوں کو پڑھائی گئی۔ گویا سوسائٹی نے شروع ہی سے لڑکوں کو امردپرستی کی تعلیم دینے کا معقول بندوبست کردیا تھا۔ اس کے علاوہ استاد اور معلم کے لیے بھی اپنے خوبرو شاگردوں سے عشق بازی چنداں قابل اعتراض نہ تھی۔ اورنگ زیب جیسے متشرع بادشاہ کے عہد میں مثنوی غنیمت جیسی گندی تصنیف کا عالم وجود میں آنا اور پھر مقبول ہونا بجائے خود اس وقت کی سوسائٹی کے رجحانات اور میلانات کی بہترین تفسیر ہے اور اس کے متعلق ہمیں کسی اظہارِ خیال کی ضرورت نہیں۔ 

    ہندوستان کے شعرا کا ذکر تو بطور جملۂ معترضہ تھا۔ اب ہم پھر ایران کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ کسی اور کا تو ذکر کیا، جامیؔ جیسے مقدس بزرگ، عالم دین اور صوفی صافی بھی ملک کی اس زہریلی ہوا کے اثر سے نہ بچ سکے۔ فرماتے ہیں،

    خط سبزت نگرم نے رُخِ خوباں کہ بہ است
    سبزۂ باغ توازلالۂ راغ دگراں 

    میں تیرا خطِ سبز دیکھتا ہوں، دوسرے حسینوں کا منہ نہیں دیکھتا کیونکہ تیرے باغ کاسبزہ دوسروں کے جنگل کے لالہ سے بہتر ہے۔ 

    متاخرین یعنی سولہویں صدی عیسویں کے صوفی شعرا میں سحابیؔ استرابادی بہت بلند مرتبہ بزرگ گزرے ہیں۔ تقریباً بیس ہزار رباعیاں یاد گار چھوڑی ہیں، جن میں حقایق و معارف کے دریا بہائے ہیں۔ تیس برس تک نجف اشرف میں حضرت علی کے مزار پر معتکف رہے اور اس تمام مدت میں کبھی روضۂ اقدس سے قدم باہر نہ نکلا۔ اسبابِ دنیوی میں سے ایک چٹائی اور ایک لوٹے کے سوا اور کچھ ان کے پاس نہ تھا۔ آخر ۱۰۱۰ھ میں وہیں وفات 5 پائی۔ یہ سب کچھ تھا مگر خط مشکین کا ذکر ان کے یہاں بھی موجود ہے اور ایسے صریح الفاظ میں کہ اس کی کوئی صوفیانہ تاویل بھی نہیں کی جاسکتی،

    زاں رُوخطِ مشک سود برخاست
    آتش بنشست دود برخاست 6

    اس کے چہرے پر خطِ سیاہ نمودار ہوا۔ آگ بجھ گئی اور دھواں اٹھا۔ 

    اس غیرفطری میلان کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایران کی عشقیہ شاعری ان حالات و واقعات کے بیان سے یکسر محروم ہوگئی جو فطری عشق و عاشقی کا لازی نتیجہ ہیں اور ان کی جگہ ایسی بہت سی چیزیں داخل ہوگئیں جن کا وجود ایران اور ایران کی شاعری دونوں کے لیے باعثِ ننگ ہے۔ 

    ہر ایرانی شاعر کے محبوب کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ وہ بے انتہا ظالم اور بے وفا ہے۔ اس کی تمام عنایتیں رقیبوں کے لیے وقف ہیں۔ عاشق اس کے لطف و کرم سے ہمیشہ محروم رہتا ہے۔ اس کے اخلاق حددرجہ پست اور اطوار بالکل غیر شریفانہ ہیں۔ میں مدتوں حیران رہا کہ یہ صفاتِ رذیلہ ایران کے حسینوں کے لیے کیوں مخصوص ہیں، میں نے بارہا اس پر غور کیا کہ ایران کے ہزاروں شاعروں میں سے جن کا کلام ہم تک پہنچا ہے، کیا کوئی ایک بھی ایسا خوش قسمت نہیں تھا کہ اسے باوفامحبوب ملتا۔ آخر محبت تو دونوں ہی جانب سے ہوتی ہے۔ یہ بات دوسری ہے کہ ہم اصطلاحاً مرد کو عاشق اور عورت کو محبوب (معشوقہ) قرار دیتے ہیں مگر درحقیقت دونوں ہی ایک دوسرے کے عاشق اور دونوں ہی ایک دوسرے کے محبوب ہوتے ہیں۔ 

    پھر کیا سبب ہے کہ ایران میں کبھی کسی محبوب کو اپنے چاہنے والے سے محبت نہیں ہوئی۔ آخر بہت غوروفکر کے بعد یہ نکتہ سمجھ میں آگیا کہ ایرانی شاعر کے معشوق کی بے وفائی اور ’’ستم رانی‘‘ بالکل فطری ہے۔ بات یہ ہے کہ ایک امرد کا حسن شاعر کی فریفتگی کا باعث تو ہوسکتا ہے لیکن خود شاعر میں وہ صفاتِ سادہ روئی کہاں کہ اس کے محبوب کے جذباتِ محبت برانگیختہ کرسکیں۔ اس لیے چاہت یک طرفہ رہتی ہے اور محبت کا جواب محبت سے نہیں ملتا بلکہ نہیں مل سکتا۔ اسی کا نام شاعروں نے محبوب کی بیوفائی اور ایذا رسانی رکھا ہے۔ 

    اب ان میں بھی دوقسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے آپ بیتی بیان کی ہے اور دوسرے وہ جنہوں نے دوسروں کی نقالی کی ہے۔ نتیجہ بہرحال واحد ہے۔ چونکہ اردو شاعری سوفیصدی فارسی شاعری کا چربہ ہے، اس لیے لازمی طور پر یہی مضامین اور یہی خیالات اردو میں بھی آگئے۔ وہاں کچھ اصل تھی کچھ نقل، یہاں سراپا نقل۔ غرض اردو کی عشقیہ شاعری بھی ان واردات و کیفیات اور واقعات و معاملات کے ذکر سے یکسر خالی رہ گئی جو محبت کے دوران میں طرفین کو پیش آتے ہیں۔ بشرطیکہ محبت فطری ہو۔ یعنی عاشق مرد اور معشوقہ عورت ہو اور دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہوں۔ 

    چونکہ اختصار کی انتہائی کوشش کے باوجود تمہید کافی طویل ہوگئی۔ لہٰذا تبصرہ کے لیے اب صرف کسی ایک شاعر کو منتخب کرنا پڑے گا۔ اس زمانہ میں مرزا غالبؔ کو اردو کا بہترین شاعر اور غزل گویوں کا بادشاہ تسلیم کیا جاتا ہے، اس لیے ہم دوسرے خرافات گویوں سے قطع نظر کرکے صرف انہیں کے کلام سے مثالیں پیش کریں گے اور بتلائیں گے کہ ان کے یہاں تغزل کس حدتک پایا جاتا ہے۔ ان کا محبوب کن اخلاق و اطوار کا انسان ہے اور سوسائٹی کے کس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ خود کس قسم کے جذبات کے مالک ہیں اور جن خیالات کا انہوں نے اظہار کیا ہے وہ حقیقی اور فطری محبت کی دنیا میں کہاں تک واقعی کہلانے کے مستحق ہیں۔ 

    سب سے پہلے اس امر کی تحقیق ضروری ہے کہ مرزا غالبؔ کا محبوب مرد ہے یا عورت۔ اس کی صنف کی تعین میں ہمیں مندرجہ ذیل اشعار سے مدد مل سکتی ہے،

    سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
    یہ زمرد بھی حریفِ دمِ عیسیٰ نہ ہوا

    آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
    دودِ شمع کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست 7

    سمجھ کر کرتے ہیں بازار میں وہ پرسشِ حال
    کہ یہ کہے کہ سرِ رہگزر سے کیا کہیے 

    تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
    میں اور دُکھ تری مژدہ ہائے دراز کا

    وہ آیا بزم میں دیکھو، نہ کہیو پھر کہ غافل تھے 
    شکیب و صبر اہلِ انجمن کی آزمایش ہے 

    مے وہ کیوں بہت پیتے بزمِ غیر میں یارب
    آج ہی ہوا منظور اُن کو امتحاں اپنا

    مرزانے صاف صاف بتادیا کہ ان کا محبوب داڑھی والا ہے۔ چونکہ داڑھی مردوں ہی کے ہوتی ہے، اس لیے ماننا پڑے گا کہ وہ مرد ہے۔ اس کے علاوہ وہ بازاروں میں پھرتا ہے۔ بازاروں ہی میں لوگوں سے پرسشِ احوال بھی کرتا ہے۔ مردانہ محفلوں میں شریک ہوتا ہے۔ نظربازیاں کرتا ہے۔ شراب پیتا ہے او ربہت پیتا ہے۔ ان تمام باتوں سے بھی صاف ظاہر ہے کہ وہ مرد ہی ہے۔ کیونکہ مرزا غالبؔ کے زمانہ میں یہ سب باتیں عورتوں کے لیے ممنوع اور ناممکن تھیں۔ البتہ بازاری عورتیں اس کلیہ سے مستثنیٰ ہیں۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ سب اشعار ایک ہی محبوب کی شان میں نہیں کہے گئے ہیں بلکہ مختلف اشخاص کے متعلق ہیں تو ماننا پڑے گا کہ مرزا کے بعض محبوب امرد تھے اور بعض کسبیاں اور شاید یہی قیاس زیادہ صحیح ہے کیونکہ خود مرزا کے قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے،

    اسداللہ خاں تمام ہوا 
    اے دریغا دہ رندِ شاہد باز

    اگر اس امر کا ثبوت درکار ہو کہ مرزا کے متعد و محبوب تھے تو مندرجہ ذیل اشعار سے مل جائے گا،

    ان پری رویوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
    قدرتِ حق سے یہی حوریں اگر واں ہوگئیں 

    اسد زندانی تاثیر الفت ہائے خوباں ہوں
    خمِ دست نوازش الخ

    ظاہر ہے کہ اس قسم کی محبت کرنے والا کہاں تک محبت کے صحیح مفہوم سے آشنا ہوسکتا ہے اور اس کی محبت کس حدتک صحیح معنی میں محبت کہی جاسکتی ہے۔ یہ تو معلوم ہوگیا کہ مرزا کے محبوب کس طبقہ کے لوگ تھے۔ آئیے اب ذرا ان کے اخلاق و صفات پر بھی ایک نظر ڈال لیں،

    کتنے میٹھے ہیں تیرے لب کہ رقیب 
    گالیاں کھاکے بے مزہ نہ ہوا

    واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب
    یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہوگئیں 

    ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
    تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے 

    سن اے غار ت گرِ جنسِ وفا سن
    شکستِ قیمت دل کی صدا کیا

    تو دوست کسی کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا
    اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ ہم پر نہ ہوا تھا

    کیا آبروے عشق جہاں عام ہو جفا
    رُکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر

    ہم اور وہ بے سبب رنج آشنا دشمن، کہ رکھتا ہے
    شعاعِ مہر سے تہمت نگہ کی چشمِ روزن پر

    تو وہ بدخو کہ تحیر کو تماشا جانے
    غم وہ افسانہ کہ آشفتہ بیانی مانگے 

    صد حیف وہ ناکام کہ اک عمر سے غالبؔ
    حسرت میں رہے ایک بتِ عربدہ جوکی

    گالی گلوج، تو تڑاق اس کا شیوہ ہے۔ بے وفا اور ستم گر ہے۔ بے سبب آزار دیتاہے، بے وجہ رنجیدہ ہوجاتا ہے۔ عاشق سے دشمنی کرتا ہے۔ بدخو اور عربدہ جو ہے۔ ان اشعار کے علاوہ مرزا کے یہاں اور بھی بہت سے اشعار ہیں، جن میں محبوب کے انہیں صفات کا بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ مرزا کی زبانی اُن کے محبوب کے چند صفات اور بھی سن لیجیے۔ 

    درپردہ انہیں غیرسے ہے ربطِ نہانی
    ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردہ نہیں کرتے 

    مے وہ کیوں بہت پیتے بزم غیر میں یارب
    آج ہی ہوا منظور ان کو امتحاں اپنا

    کیا خوب تم نے غیر کو بوسہ دیا نہیں
    بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے 

    غیر سے رات کیا بنی یہ جو کہا تو دیکھیے
    سامنے آن بیٹھنا اور یہ دیکھنا کہ یوں 

    بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر وقت نگاہ
    جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے 

    صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو یہ خوکہیں
    دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کیے 

    ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
    آپ آتے تھے مگر کوئی عنان گیر بھی تھا

    میں مضطرب ہوں وصل میں خوفِ رقیب سے
    ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں 

    درپردہ اسے غیروں سے تعلق ہے۔ غیر کی محفل میں بیٹھ کر شراب پیتا ہے اور بہت پیتا ہے۔ غیر کو بوسہ بھی دیتا ہے۔ کبھی کبھی رات کو بھی غیر کے ساتھ رہتا ہے مگر مرزا بے چارے کو بوسہ نہیں دیتا اور دل چھین لینے کی فکر میں ہمیشہ لگا رہتا ہے۔ کبھی بغیر مانگے ہی بوسہ دے دیتا ہے۔ کبھی مرزا کے یہاں آبھی جاتا ہے۔ اگرچہ دیر سے پہنچتا ہے کیونکہ ایک بے غیرت (رقیب) سدِ راہ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی رات کو مرزا کے یہاں بھی رہ جاتا ہے اگرچہ مرزا کو دھڑکا ہی لگا رہتا ہے کہ کہیں رقیب روسیاہ نہ آجائے اور سارا بنا بنایا کھیل بگڑ جائے۔ مرزا کے ساتھ اس ہرجائی، بدچلن، آوارہ گرد معشوق نے جو سلوک کیے، وہ بھی سننے کے قابل ہیں،

    ہوگئی ہے غیر کی شیریں زبانی کارگر
    عشق کا اس کو گمان ہم بے زبانوں پر نہیں 

    ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
    غیر کی بات بگڑجائے تو کچھ دور نہیں 

    واں گیا بھی میں تو اس کی گالیوں کا کیا جواب
    یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہوگئیں 

    ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
    تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے 

    درپہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
    جتنے عرصہ میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا

    خدایا جذبۂ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے
    کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھینچتا جائے ہے مجھ سے 

    ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
    یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے 

    بوسہ نہیں نہ دیجیے دشنام ہی سہی
    آخرزباں تو رکھتے ہو تم گر وہاں نہیں 

    اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
    اس قدر دشمن اربابِ وفا ہوجانا

    رقیبوں کے بہکانے سیکھانے سے مرزا غالبؔ سے بدظن ہوگیا۔ یہاں تک کہ مرزا کا ذکر برائی کے ساتھ سننا بھی اسے گوارا نہ تھا۔ مرزا اس کی گالیوں کے ڈر سے اس کے یہاں نہیں جاتے تھے۔ آخر ایک دن گئے تو اس نے تو تڑاق شروع کردی۔ مرزا بے چارے مہذب آدمی، بس اتنا ہی کہہ سکے کہ اے حضرت والا، بھلا یہ کیا اندازِ گفتگو ہے۔ خیر کسی نہ کسی طرح وہ اتنے پر راضی ہوگیا کہ مرزا اس کی ڈیوڑھی پر پڑ رہا کریں مگر بدمعاشی دیکھو کہ ابھی مرزا اپنا بستر کھول کر بچھا ہی رہے تھے کہ اس نے کہا اپنا بوریا بندھنا سمیٹو اور یہاں سے چلتے پھرتے نظر آؤ۔ جتنا مرزا نے اس کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، اتنا ہی وہ ان سے کھینچتا گیا۔ یہاں تک کہ بالکل بیزار ہوگیا۔ آخر مرزا نے تنگ آکر کہا کہ خدارا کچھ منہ سے تو بولو اور کچھ نہیں تو گالیاں ہی دو مگر اس نے اِن سے کوئی سروکار ہی رکھنا پسند نہ کیا۔ 

    یہ تو خیر جو کچھ تھا سو تھا مگر ایک دفعہ اس بدذات نے مرزا کے ساتھ ایسا پاجیانہ سلوک کیا کہ سن کر ہر شریف آدمی کا خون کھولنے لگتا ہے،

    میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی
    ہنس کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں 

    زندگی میں تو وہ محفل سے اٹھا دیتے تھے
    دیکھوں اب مرگئے پر کون اٹھاتا ہے مجھے 

    اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ
    اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو

    نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
    بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچہ سے ہم نکلے 

    ایک دفعہ محفل جمی ہوئی تھی۔ اغیار بھی تھے، مرزا بھی تھے اور وہ شہر آشوب بھی۔ مرزا نے اس سے کہا کہ بزم نازنین میں غیر کی موجودگی کچھ مناسب نہیں۔ مطلب یہ تھا کہ رقیب کو اٹھادو۔ اس ستم ظریف نے انہیں کو محفل سے اٹھادیا۔ خیر مرزا کے لیے یہ کوئی نئی بات نہ تھی، پہلے بھی وہ کئی مرتبہ مرزا کو اپنی محفل سے نکال چکا تھا۔ مرزامحفل سے تو اٹھ گئے مگر دروازہ پر جم کر بیٹھ گئے کہ اب چاہے جو کچھ ہو یہاں سے تو نہ جائیں گے۔ اسے جب خبر ہوئی کہ حضرت ابھی تک ڈیوڑھی گھیرے بیٹھے ہیں تو اس نے انہیں نہ صرف وہاں سے اٹھوادیا بلکہ نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ اپنے کوچہ ہی سے نکلوادیا۔ 

    اس میں شک نہیں معشوق کے ہاتھوں مرزا بیچارے کی بہت بری گت بنی مگر واقعہ یہ ہے کہ وہ اسی سلوک کے مستحق تھے۔ دراصل انہوں نے خود ایک ڈھونگ بنایا تھا۔ وہ جو محبوب کے کے ظلم و ستم برداشت کر رہے تھے تو اس لیے نہیں کہ انہیں اس سے کچھ محبت تھی بلکہ وہ اس کے واسطہ سے کسی اور دل ربا (چھوکرے) کو اڑالینے کی تاک میں تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں،

    ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پر عاشق ہیں
    تکلف برطرف مل جائے گا تجھ سا رقیب آخر

    بہرحال جو صورت بھی ہو، ان بدسلوکیوں کے باوجود اور پھر ان حالات میں، جن کی کچھ تفصیل اشعار ذیل میں مذکور ہے، مرزا نے جو رویہ اختیار کیا تھا، وہ بھی عجائباتِ روزگار میں سے ہے،

    اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کئے
    بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کئے 

    اس کی بزم آرائیاں سن کر دلِ رنجوریاں
    مثل نقشِ مدعائے غیر بیٹھا جائے ہے 

    جانا پڑا رقیب کے درپر ہزار بار
    اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو میں 

    غیر پھرتا ہے لیے یوں تیرے خط کو کہ اگر
    کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے 

    رہے ہے یوں گہہ و بیگہ کہ کوئی دوست کو اب 
    اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے کیا کہیے 

    مے وہ کیوں بہت پیتے بزم غیر میں یا رب
    آج ہی ہوا منظور ان کو امتحاں اپنا

    قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالبؔ
    وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے 

    کیا خوب تم نے غیر کو بوسہ دیا نہیں
    بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے 

    غیر سے رات کیا بنی یہ جو کہا تو دیکھیے
    سامنے آن بیٹھنا اور یہ دیکھنا کہ یوں 

    مرزا کو معلوم ہے کہ ان کا محبوب غیروں سے نظربازیاں کرتا ہے، ان کی محفلیں گرماتا ہے، رقیب کے یہاں اکثر جاتا ہے، اس سے خط و کتابت بھی کرتا ہے۔ خود رقیب، اکثر، وقت ناوقت اس کے کوچہ ہی میں نظر آتا ہے۔ وہ بزمِ اغیار میں شراب خوری بھی کرتا ہے۔ رقیب کے ساتھ سفر میں بھی جاتا ہے۔ اس کو بوسہ بھی دیتا ہے بلکہ رات کو بھی اس کے ساتھ رہتا ہے۔ مرزا کو یہ تمام واقعات معلوم ہیں بلکہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر اللہ ری رواداری کہ اُف نہیں کرتے۔ سب کچھ سہتے ہیں اور صرف اتنا کہتے ہیں کہ،

    تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
    مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

    اور جب وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوتا تو کہتے ہیں کہ اچھا،

    قطع کیجیے نہ تعلق ہم سے 
    کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

    پھر اپنے دل کو اس طرح سمجھا لیتے ہیں،

    نہیں نگار کو الفت نہ ہو، نگار تو ہے
    روانی روش و مستی ادا کہیے 

    اور اتنے ہی پر بس نہیں کرتے بلکہ صبح ہوتے ہی کان پر قلم رکھ کر گھر سے نکل جاتے ہیں تاکہ اگر کوئی اس ہرجائی کو خط لکھوائے تو انہیں سے لکھوائے،

    مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
    ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے 

    اللہ اللہ کیا محبت ہے۔ عالی حوصلگی اور بلند نظری اسی کانام ہے۔ غیور اور خود دار انسان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ’’رواداری‘‘ کی ایسی مثالیں محبت کی عملی دنیا میں ڈھونڈھے نہ ملیں گی۔ 

    مرزا نے اس آبرو باختہ معشوق کے ہاتھوں اپنے قتل کا واقعہ بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ ہم اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ 

    ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں 
    تو ہی جب خنجر آزمانہ ہوا

    آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
    عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا

    مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں کہ ہے
    پر گل خیالِ زخم سے دامن نگاہ کا

    عجب نشاط سے جلاد کے چلیں ہیں ہم آگے
    کہ اپنے سایہ سے سرپاؤں سے ہے دو قدم آگے 

    مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سراڑ جائے
    جلاّد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ہاں اور

    چھوڑ کر جانا تنِ مجروح عاشق حیف ہے
    دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگیں ہیں اعضا نمک

    کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
    ہائے اس زودپشیماں کا پشیماں ہونا

    اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل
    میرے پتہ سے غیر کو کیوں تیرا گھر ملے 

    لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل کہ کیو ں اٹھا
    گویا ابھی سنی نہیں آواز صور کی

    مرزا نے ایک روز اس جلاد سے کہا کہ ہمیں قتل کردو۔ اگر تم قتل نہ کروگے تو پھر ہم کس سے اپنے کو قتل کرائیں گے۔ اس نے کہا دقت یہ ہے کہ اس وقت نہ تو میرے پاس تلوار ہے جس سے قتل کروں نہ لنک لاٹ کا تھان کہ قتل کے بعد اس سے تمہارا کفن تیار کیا جائے۔ خیر اس دن تو بات ٹل گئی۔ دوسرے دن مرزا تلوار اور کفن دونوں چیزیں لے کر پہنچے اور کہا کہ لو میں سب سامان لے آیا، اب تو قتل کردو۔ اس نے کہا اچھی بات ہے۔ چلو قتل گاہ میں۔ یہ سن کر مرزا خوشی سے ناچتے ہوئے مقتل پہنچے، اس نے جلاّد کو حکم دیا کہ اڑادے سر اس بدذات کا۔ چنانچہ بیچارے مرزا قتل ہوگئے اور سنگدل قاتل ان کا زخمی لاشہ چھوڑ کر چلتا بنا۔ اتنا بھی نہ کیا کہ زخموں پر نمک چھڑکتا جاتا۔ مگر قتل کرکے بہت پچھتایا۔ ظلم و ستم سے توبہ کی اور مرزائے مغفور کو اپنی گلی میں دفن کردیا۔ لیکن حشر کے دن جب مرزا نے قبر سے سرنکالا تو قاتل ان سے لڑپڑا کہ تو ابھی سے کیو ں اٹھ بیٹھا۔ 

    ضرور ہے کہ مرزا کے قتل کی پاداش میں اس جلاّد قاتل کو پھانسی یا حبس دوام یا کالے پانی کی سزا ملی ہوگی مگر یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ مرزا اس بارے میں بالکل خاموش ہیں۔ ممکن ہے بعض نافہم لوگ یہ اعتراض کریں کہ مرزا اپنی موت کے بعد کے حالات کیسے لکھ سکتے تھے جو اپنے قاتل کا انجام بھی درج دیوان کرجاتے۔ مگر یہ معترض کی غلطی ہے۔ جب انہو ں نے یہاں تک کہہ دیا کہ میرے قتل کے بعد قاتل اپنی جفاؤں پر پشیمان ہوا اور توبہ کی اورپھر مجھے اپنے کوچہ میں دفن کردیا اور پھر حشر میں جب میں اٹھا تو مجھ سے لڑنے لگاکہ تم ابھی سے کیوں اٹھ کھڑے ہوئے تو وہ بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے یہ اطلاع بھی چھوڑ سکتے تھے کہ قاتل کا کیا انجام ہوا۔ لیکن انہیں اپنے قاتل سے غیرفطری محبت تھی، اسی لیے اس کا پردہ فاش نہیں کیا۔ 

    مرزا کی وفات کے متعلق ان کے دیوان میں ایک اور حکایت بھی مذکور ہے،

    ہوں کشمکشِ نزع میں ہاں جذبِ محبت
    کچھ کہہ نہ سکوں پر وہ مرے دیکھنے کو آئے 

    اسد ہے نزع میں چل بے وفا خدا کے لیے
    مقامِ ترکِ حجاب و وداعِ تمکیں ہے 

    مند گئیں دیکھتے ہی دیکھتے آنکھیں ہے ہے
    خوب وقت آئے ہو تم عاشقِ بیمار کے پاس

    ان اشعار سے معلوم ہوتاہے کہ مرزا قتل نہیں ہوئے بلکہ آزارِ فراق سے گھل گھل کر جان دی۔ نزع کے عالم میں بھی وہ اپنے جلاد معشوق سے ملنے کے آرزومند تھے مگر جب وہ بیدرد نہ آیا اور ان کی حالت خراب ہونے لگی تو انہوں نے ایک قاصد بھیجا۔ اس نے جاکر کہا کہ بے وفا! مرزا کا دم نکل رہا ہے۔ خداکے لیے اب تو چل کر دیکھ لے۔ وہ آیا، مرزا میں ابھی کچھ جان باقی تھی اور طاقتِ گفتار بھی۔ مرزا نے اسے دیکھ کر کہا کہ واہ حضرت واہ۔ آپ اب تشریف لائے ہیں جب ہمارا خاتمہ ہوچکا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آخری شعر مرزا کانہیں بلکہ ان کی وفات کے بعد ان کے کسی دوست نے ان کے بے وفا محبوب کو مخاطب کرکے فی البدیہہ کہا تھا۔ بہرحال اس کا تعین اہلِ تحقیق کے ذمے ہے۔ 

    بقولِ مصنفِ ’’یادگار غالبؔ‘‘ مرزا نے ۷۳ برس کی عمر میں حیات کی کشمکشوں سے نجات پائی مگر افسوس کہ ان کا بے وفا معشوق ان سے ہمیشہ بیزار ہی رہا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ کچھ دنوں اور زندہ رہتے تو غالباً وہ بے درد راہ پر آجاتا،

    آہی جاتا وہ راہ پر غالبؔ
    کچھ دنوں اور بھی جئے ہوتے 

    لیکن یہ محض ان کا حسنِ گمان ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ ایک طرحدار نو خط بھلا ایک ۷۳ برس کے بوڑھے کے آغوش کی زینت بننے کے لیے کس طرح آمادہ ہوجاتا۔ 

    واقعہ گوئی اور معاملہ بندی کو عشقیہ شاعری میں جو اہمیت حاصل ہے، محتاجِ بیان نہیں۔ لیکن وہی لوگ ان مضامین کو خوبی کے ساتھ بیان کرسکتے ہیں جوآپ بیتی بیان کرتے ہیں۔ پھر یہ راہ ایسی دشوار گزار اور پرخطر ہے کہ ذرا سی لغزش اور بے احتیاطی سے شاعر ابتذال کے غار میں جاگرتا ہے۔ مرزا نے معاملہ بندی کے جو نمونے پیش کیے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ قارئین خود فیصلہ کرلیں کہ یہ خیالات کس پایہ کے ہیں اور ان کے مصنف کو عشقیہ شاعری کی دنیا میں کون سادرجہ ملنا چاہیے،

    درپہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا 
    جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا

    دھول دھپا اس سراپا ناز کاشیوہ نہیں
    ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن

    دھوتا ہوں جب میں پینے کواس سیم تن کے پاؤں
    رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاؤں 

    بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر وقت نگاہ
    جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے 

    اسدؔ خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
    کہا جو اس نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے 

    صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو یہ خو کہیں
    دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کیے 

    مرزا کی عشقیہ شاعری کے جو نمونے ہم نے پیش کیے ہیں، انہیں انصاف کی نظر سے دیکھنے کے بعد غالباً ہر شخص ہماری اس رائے سے اتفاق کرے گا کہ اس قسم کا کلام خواہ وہ مرزا کا ہو یا کسی دوسرے شاعر کا اردو زبان کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ جن واقعات و حالات کا ان میں ذکر ہے انہیں دنیائے محبت سے کوئی دور کابھی تعلق نہیں، البتہ بدذوقی، بے حسی، بے غیرتی اور نانجیبی کا مظاہرہ اچھی طرح کیا گیا ہے۔ کیا انہیں اشعار کے مصنف کو ہمیں اپنی زبان کی عشقیہ شاعری کا بہترین استاد تسلیم کرلینا چاہیے اور کیا عرقِ خجالت میں غرق ہوئے بغیر ہم اس قسم کے اشعار اردو کی عشقیہ شاعری کے نمونہ کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ 

    اردو کے شاعروں کی زبانی ایک عام شکایت یہ سننے میں آتی ہے کہ غزل کا میدان بہت تنگ ہے، اس لیے کہ فارسی اور اردو کے اساتذہ سب کچھ کہہ گئے۔ اب کوئی نیا مضمون اور نیا خیال کہاں سے لائے۔ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ غزل کا میدان وسیع اور بہت وسیع ہے مگر شرط یہ ہے کہ کہنے والے کو حقیقی اور فطری محبت سے سروکار رہا ہو اور اسی روداد کو وہ بیان بھی کرے، ورنہ اگر صرف نقالی پر مدار رہا تو فارسی اور اردو کے ہزاروں شاعروں کی طرح وہ بھی ایک خاص دائرہ میں محدود ہوکر رہ جائے گا۔ 

    کیا اچھا ہوتا کہ یا تو مرزا غالبؔ عشقیہ شاعری کو ہاتھ ہی نہ لگاتے یا پھر جب اس مضمون کو چھیڑا تھا تو فقط نقالی نہ کرتے، بلکہ صرف ان واقعات کو اپنے اشعار کا موضوع بناتے جو انہیں اپنی ’’حیات معاشقہ‘‘ میں پیش آئے تھے۔ بشرطیکہ انہیں صحیح معنی میں کبھی عشق و عاشقی سے سروکار رہا ہو۔ کیونکہ امرد پرستی کو عشق و محبت کے نام سے پکارنا اس شریف جذبہ کی انتہائی توہین کرنا ہے۔ کیا اچھا ہو کہ اردو کے حامی اس قسم کا کلام جس قدر بھی دستیاب ہوسکے، جمع کرکے ایک بار فنا کردیں تاکہ اردو کا دامن اس مستقل داغِ معصیت سے ہمیشہ کے لیے پاک ہوجائے۔ 

    آخر میں اس حقیقت کوواضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہمارا مقصد فقط غالبؔ کے کلام پر نکتہ چینی ہرگز نہیں بلکہ ہمارا موضوعِ بحث وہ کلام ہے جس میں امرد پرستی کا ذکر ہے۔ جو بازاری ہوس کاریوں کامرقع ہے، جس میں بے حسی اور بے حمیتی کی تعلیم دی گئی ہے، جس میں خودداری اورغیرت مندی کے جذبات کو بری طرح کچلا گیا ہے، جس میں محبت کو جی بھر کے ذلیل کیا گیا ہے، جس میں جلاّد محبوب کے ہاتھوں عاشق کے قتل کا ذکر بار بار ہوا ہے۔ 

    مختصر یہ کہ جس میں حقیقی جذبات و واردات کی ترجمانی اور سچے واقعات کی مصوری کے بجائے فقط ایرانی شاعری کے مکروہ و مذموم حصہ کی تقلید اور نقالی کی گئی ہے۔ اب ایسا کلام خواہ غالبؔ کا ہو یا کسی دوسرے کا، ہمارے نزدیک سبھی سوختنی ہے۔ اس باب میں ہمارے سبھی شعرا ’’ایک ہی کشتی کے سوار‘‘ بلکہ ’’ایک ہی حمام کے ننگے‘‘ ہیں۔ جیسا کہ ہم ابتدا میں کہہ آئے ہیں، تبصرہ کے لیے غالبؔ کا کلام صرف اس لیے منتخب کیا گیا کہ وہ اردو کے مایۂ ناز شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ جب عشقیہ شاعری کی انہوں نے یہ درگت بنائی ہے، تو ظاہر ہے کہ ان سے ادنیٰ درجہ کے لوگوں نے اسے کیسا تباہ کیا ہوگا۔ 

    اس مضمون کی دوسری قسط میں ہم بعض غیرمعروف شعرا کے کلام سے عشقیہ شاعری کے ایسے نمونے پیش کریں گے جو حقیقی محبت کے آئینہ دار ہیں۔ ان میں اکثر چیزیں ایسی ہوں گی جو پہلی بار دنیا کے سامنے آئیں گی۔ جنہیں اردو یا فارسی کے ’’اساتذہ‘‘ نے کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا۔

     

    حاشیے
    (۱) آتشکدہ۔ ذکر دقیقی
    (۲) شعرالعجم، حصہ چہارم، ص۲۰۱، اعظم گڑھ ایڈیشن
    (۳) در شعر سہ تن پمیبرانند
    ہرچند کہ لانبی بعدی
    ابیات و قصیدہ وغزل را
    فردوسی و انوری و سعدی
    حالانکہ پیغمبر اسلام کی حدیث ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، لیکن شریعتِ شعر کے تین پیغمبر ہیں۔ مثنوی کا فردوسی، قصیدہ کا انوری، اور غزل کا سعدی
    (۴) عشقِ مجازی عشقِ حقیقی کی سیڑھی ہے۔ 
    (۵) مآثرالکرام، ص۱۴، حیدرآباد ایڈیشن
    (۶) منقول از بیاضِ باسطیؔ۔ مرید حضرت خواجہ محمد باسط و تلمیذ شیخ علی حزیں و شمس الدین فقیرؔ المخاطب بہ شیرافگنن خاں۔ مولف نے بقولِ خود یہ بیاض ۱۱۶۲ھ کے بعد مرتب کی۔ 
    (۷) مرزا کا یہ شعر بظاہر سحابیؔ استرابادی کے اس شعر سے ماخوذ ہے،
    زان رو خطِ مشک سود برخاست
    آتش بنشست دُود برخاست

     

    مأخذ:

    ساقی،دہلی (Pg. 8)

      • ناشر: شاہد احمد دہلوی
      • سن اشاعت: 1937

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے