Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جدیدیت اور توازن

باقر مہدی

جدیدیت اور توازن

باقر مہدی

MORE BYباقر مہدی

     

    ادب میں نئے رجحانات یا تحریکوں کی ابتدا سرکشی سے ہوتی ہے۔ جیسے فیوچرازم اور سریلزم۔ اس سرکشی کے ابتدائی نقوش دیکھے جائیں تو معلوم ہوگا کہ اگر سرکش ادیب ’’صالح رول‘‘ اختیار کرنے کی کوشش کرتے تو جدیدیت کی تحریکیں اور رجحانات اور کلاسیکی ادبی اقتدار سے نہ ٹکراتے بلکہ کسی نہ کسی قسم کی مفاہمت کو ’’نئی ادبی صورت گری‘‘ دی جاتی اور اس طرح ایک STATUSQUO معمولی سی تبدیلی کے ساتھ قائم رہتا۔

    مگر جدیدیت کا حرف اول ’نفی‘ رہا ہے اور اس نفی کا دوسرا قدم اظہار و بیان اور تجربات کے ’’دشت امکان‘‘ میں رکھا جاتا رہا ہے۔ ا س دوسرے قدم کے بعدیہ اندازہ لگانا صحیح نہ ہوگا کہ یہ کوئی سفر ہے، جس میں کلاسیکی اقدار کی طرح تسلسل، فوری ابلاغ اور مرعوب کن انداز ہوگا، بلکہ یہ سفر کی بجائے ایک ایسی جدوجہد ہے جو SELF CONFLICT سے شروع ہوتی ہے اور مسائل سے CONFRONTATION برابر کرتی رہتی ہے۔ اس لیے جدیدیت کی کوئی ایسی تعریف DEFINITION ممکن نہیں، جس کو عصا بناکر’’ادب کا دریائے نیل‘‘ پار کیا جا سکے۔ ہاں اس کو چند خصوصیات سے پہچانا جا سکتا ہے۔

    اس سے پہلے کہ میں جدیدیت کے مفہوم کو اس کی چند خصوصیات سے بیان کروں، یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ سرور صاحب کے مضمون ’’جدیدیت کے مفہوم‘‘ کا تنقیدی جائزہ لوں، جو میری ناچیز رائے میں ’’توازن اور جدیدیت‘‘ کے ملاپ کو پیش کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ سرور صاحب کا خیال ہے کہ جدیدیت وہی کام ادب میں کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو پہلے مذہب یا فلسفہ کرتے تھے۔ اس خیال کے اظہار کے بعد دوسری اہم بات یہ ہے کہ خلا پر کرنا، نجی مذہب یا فلسفہ کا رول ادا کرنا۔ سرور صاحب نے پورے تیقن سے یہ نہیں کہا کہ جدیدیت ادب میں خلا پر کر سکےگی، بلکہ صرف اس کوشش کا ذکر کیا ہے۔ یہ کسی قسم کا اپنے خیال پرشک کا اظہار نہیں، بلکہ ایک احتیاطی تدبیر ہے اور یہ پہلا حربہ ہے جو توازن، جدیدیت پر ’’دوستانہ حملہ‘‘ کرنے کے لیے اختیار کرتا ہے کیونکہ اس طرح توازن آپ کو زیادہ عقیل اور شریف (WISE & RESPECTABLE) ظاہر کر سکتا ہے۔

    اس سے پہلے کہ اس موضوع پر گفتگو آگے بڑھائی جائے، توازن کے مفہوم کو سمجھ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ توازن کا اپنا وجود عدم نہیں ہوتا۔ یہ دو انتہاپسند نظریوں اور مخالف رجحانات اور تحریکوں کی وجہ سے جنم لیتا ہے اورا پنی روانی اور اپنا مقام بدلتا رہتا ہے۔ کبھی اس سرے کے قریب اور کبھی اس سرے کے پاس، یعنی دو مخالف نظریوں کی کشش ہی اس کے وجود کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اس طرح کبھی اس میں یعنی توازن میں ایک رجحان کی جھلک ملتی ہے اور کبھی دوسرے کی اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ ایک ’’پسندیدہ ملغوبہ‘‘ بھی بناتا ہے جس کی ہردلعزیزی تقریباً یقینی ہوتی ہے۔ بہرحال توازن کو یقینی طور سے گرفت میں لانا بےحد مشکل ہے، اس لیے کہ یہ INTERPRETATIONS کے کئی دروازے اور کھڑکیاں کھلی رکھتا ہے۔ بہانہ تو تازہ ہوا کا ہوتا ہے مگرمقصد گرفت میں آنے سے فرار ہی ہے۔

    توازن کی اس خصوصیت کو سمجھنے کے بعد سرور کے مضمون کی طرف مراجعت ضروری ہے۔ سرور صاحب فرماتے ہیں کہ، ’’کہنا یہ ہے کہ ادب میں جدیدیت کے واضح تصور پر موجودہ دور میں ادب کے صالح رول کا انحصار ہے، کیونکہ اس صالح رول پر انسانیت کی بقا کا دارومدار ہے۔‘‘ (شب خون ۴۵ ص ۴)

    اس بیان پرغور کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ یہ صرف ہماری زندگی کا سوال نہیں ہے بلکہ انسانیت کی بقا کا مسئلہ ہے۔ ایک طرف تو یہ جدیدیت کوغیر ضروری اہمیت کے امکانات سے لبریز کر دیتا ہے۔ دوسری طرف جدیدیت کے نشتر کی STING کو بے ضرر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ یعنی جدیدیت پر دنیا کا دارومدار ہے اوراب جدیدیت کو کوئی ایسا قدم نہ اٹھانا چاہئے جس سے خطر ے کی بوآتی ہو، کیونکہ یہ پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ ادب کو فلسفہ اور مذہب کا کام دے کر سرور صاحب نے ’’نجات کے کام‘‘ کا ایک سلسلہ جاری کر رکھا ہے، وہ صرف اتنا ہے کہ فلسفہ اور مذہب کی جگہ جدیدیت کو دے دی ہے۔

    یہ رویہ ہی جدیدیت کے منافی ہے کیونکہ جدیدیت کی ابتدا سرکشی سے ہوتی ہے اورسرور صاحب نے اپنے پورے مضمون میں یہ لفظ استعمال کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ اس لیے نہیں کہ انہیں اس سے نفرت ہے، بلکہ اس لیے کہ اس کے استعمال کے بعد توازن کا برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور سرور صاحب نے اپنے پورے مضمون میں جدیدیت کے مفہوم کو قابل قبول بنانے کے لیے نہایت بے ضرر بناکر پیش کیا ہے۔ جس کا تفصیلی ذکر آگے آئےگا۔

    جدیدیت کے سلسلے میں مضمون کے پہلے پیراگراف کے آخری جملے ملاحظہ ہوں، ’’ایک گر وہ جو جدیدیت کی روح سمجھتا ہے اور اس کے ہر روپ کا تجزیہ کرکے اس سے مناسب توانائی اخذ کرتا ہے مگر دوسرا گر وہ موجودہ آزادی خیال اور جدید نسل اور قدیم نسل ہر خلیج سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے وجود کی اہمیت کو منوانے کے لیے اور اپنے مختلف ہونے کا جواز پیش کرنے کے لیے جدیدیت کے نام پر ہر سماجی، اخلاقی اور تہذیبی ذمہ داری سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔‘‘ (شب خون ۲۵ ص۔ ۳)

    اس پیراگراف کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلی ہی نظر میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قدیم ادبی اقتدار سے مخالفت میں دو گروہ ہیں۔ ایک سماجی، اخلاقی وتہذیبی ذمہ داری قبول کرتا ہے، دوسرا نہیں۔ ان دو گروہوں کی نشاندہی بھی ’’فساد خلق‘‘ سے بچنے کے لیے نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی سماجی اور اخلاقی اور تہذیبی ذمہ داری کی وضاحت کی گئی ہے۔ توازن کی دوسری خوبی ’’ابہام کا حسن‘‘ ہے یعنی دلیل دو دھاری تلوار نہ ہو، بلکہ صرف ’’اچھائیوں‘‘ کو پیش کرے اور اس طرح کہ اچھائی کا واضح تصور بھی قائم نہ ہو سکے۔ اس طرح توازن ایک ایسے سراب کو جنم دیتا ہے جس کی جستجو جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔

    ان معنوں میں کہ ’’مناسب توانائی حاصل کرنے کا نسخہ‘‘ ہر خوراک کے بعدبدل جاتا ہے اور توازن قائم کرنے کی مسلسل کوشش ایک قسم کا NERVOUS BREAKDOWN پیدا کرتی ہے۔ اسی پیراگراف کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہو جائےگا کہ قدیم ادبی اقتدار کی مخالفت دو نسلوں کے درمیان خلیج سے پیدا ہوتی ہے اور نئی نسل کے دو گروہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ایک توانائی اخذ کرنا چاہتا ہے، دوسرا شہرت وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ پہلا صالح گروہ قدیم ادبی اقتدار سے کھلم کھلا نبردآزما نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ وہ احتیاط، توانائی اور ’’جدیدیت کی روح‘‘ کوسمجھتا ہے۔ کیا واقعی جدیدیت کی روح کو بغیر سرکشی، بغیرمروجہ سماجی اور تہذیبی اقدار کی نفی کے سمجھا جا سکتا ہے؟ میں اس سوال کا جواب اس مضمون کے آخر میں دوں گا۔۔۔ اب اس مضمون کے دوسرے اہم حصوں کا مطالعہ کیا جائے، تاکہ توازن اور جدیدیت کے ملاپ کی تصویر دیکھی جا سکے۔

    اس مضمون کا چھٹا پیراگراف سرور صاحب کے خوبصورت انداز نگارش کا ایک بہت اچھا نمونہ ہے، اس لیے طوالت کے خوف کے باوجود نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں،

    ’’جدیدیت کسے کہتے ہیں؟ وہ کون سی آواز ہے جو اس دور کے ادیبوں اور شاعروں کے یہاں مشترک ہے؟ خواہ شاعر اورادیب ایک دوسرے سے کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں۔ وہ کون سی خصوصیت ہے جو ہم کسی نہ کسی طرح پہچان لیتے ہیں اور جب کسی فن پارے میں اسے پاتے ہیں تو بےساختہ اس سے محبت یا نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اس کی خصوصیت، آواز، مزاج یاروح کو ہم کیسے واضح کریں؟ کیا یہ الہام ہے، کیا یہ علامتی رنگ ہے، کیا پرائیویٹ حوالہ REFERENCE ہے؟ کیا یہ مختلف اور متضاد آوازوں کے ٹکرانے کا دوسرا نام ہے؟ کیا یہ ابدی قدروں کی بجائے وقتی اور ہنگامی قدروں کی عکاسی ہے؟ کیا یہ تعمیم کی بجائے منفرد یا شخصی انداز کہی جا سکتی ہے؟ کیا اس کی روح طنزیاتی ہے یا کنایاتی؟ اور بظاہر ایک سنجیدگی اور اس سنجیدگی کے پردے میں طنز جسے ہجو ملیح بھی کہہ سکتے ہیں۔

    کیا یہ ہیروپرستی کے خلاف اعلان جنگ کانا م ہے اور ہرہیرو کے مٹی کے پاؤں دکھاکر سب کو ہیرو بنانے کا حیلہ؟ کیا بت شکنی کے پردے میں یہ ایک نئی ہیروپرستی ہے؟ کیا اس کا مقصد محض کسی شہرت کی سطحیت کو واضح کرنا اور کسی آئیڈیل، ادارے یا شخصیت کے ساتھ جو جذباتی غلاف ہے، اس کا پردہ چاک کرنا ہے؟ کیا یہ انسان کی بلندی کا رجز ہے یا اس کی پستی کا المیہ؟ کیا یہ سائنس کا قصیدہ ہے یا اس کا مرثیہ؟ کیا یہ علوم کی روشنی ہے، ادب کے کاشانے کو منور کرنے کا دوسرا نام ہے یا ایک نوزائیدہ بچے کی حیرت، خوف اور جستجو کے جذبے کی مصوری؟ کیا یہ انسانی شعور کے ارتقا کی کہانی کا تازہ ترین باب ہے یا اس کے لاشعور کے تہہ درتہہ رازوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش؟

    کیا یہ روایت، فن، قدیم سرمایے کی صدیوں کی کمائی سے محرومی اور اس پرہٹ دھرمی کی آئینہ دار ہے؟ یا یہ بے زاری ناواقفیت کی بنا پر نہیں، بلکہ سچی بے اطمینانی اور تجربے کی آخری حدوں کو ضبط تحریر میں لانے کا نام ہے؟ یہ اور ایسے بہت سے سوالات ہیں جو کیے جا سکتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ ان میں سے ہر سوال ایک جواب بھی رکھتا ہے، جو اپنی جگہ غلط نہیں مگر تعبیروں، توجیہوں اور تصویروں کے اس جنگل میں ایک واضح اور جامع تصور آسان نہیں، پھر بھی یہ کوشش ضروری ہے؟ ‘‘ (شب خون ۲۵ ص۔ ۵)

    جیسا کہ اس پیراگراف سے پہلے میں نے عرض کیا ہے کہ یہ بڑا خوبصورت حصہ ہے، اس کو تو کئی بار پڑھنا ضروری ہے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ سرور صاحب جدیدیت کو توازن سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ’’خطرناک سوالات‘‘ پوچھنے میں نہیں جھجکتے، مگر جواب دینے کا ایک انوکھا اور دلچسپ طریقہ نکال لیتے ہیں یعنی کچھ شاعروں کی روح کی پکار سن لینا چاہئے۔ بہرحال اس پیراگراف کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ ایک طرف اس کے انداز نگارش سے پوری طرح لطف اٹھایا جا سکے۔ دوسری طرف کم از کم سوالات کی واضح صورت نکل سکے۔ اس میں اہم جملے اور الفاظ مندرجہ ذیل ہیں،

    (۱) آواز، مزاج یا روح کی وضاحت کا سوال ہے۔۔۔؟ 
    (۲) مختلف اور متضاد آوازوں کے ٹکرانے کا دوسرا نام۔۔۔؟ 
    (۳) ہیروپرستی کے خلاف اعلان جنگ اور سب کو ہیرو بنانے کا حیلہ۔۔۔؟ 
    (۴) کسی آئیڈیل ادارے یا شخصیت کے ساتھ جو جذباتی غلاف ہے، ا س کا پردہ چاک کرنا۔۔۔؟ 
    (۵) کیا یہ علوم کی روشنی سے ادب کے کاشانے کو منور کرنے کا دوسرا نام ہے۔ یا نوزائیدہ بچے کی حیرت، خوف اور جستجو کے جذبے کی مصوری؟ 
    (۶) کیا یہ انسانی شعور کے ارتقا کی کہانی کا تازہ ترین باب ہے یا اس کے لاشعور کے تہہ درتہہ رازوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش؟ 
    (۷) کیا یہ روایت، فن، قدیم سرمایے کی صدیوں کی کمائی سے محرومی اوراس پرہٹ دھرمی کی آئینہ دار ہے، یابے زاری ناواقفیت کی بناپرنہیں، بلکہ سچی بے اطمینانی اور تجربے کی آخری حدوں کو ضبط تحریر میں لانے کا نام ہے۔۔۔؟ 

    ان سوالات کے فوراً بعد یہ کہا گیا ہے کہ ’’ہر سوال ایک جواب بھی رکھتا  ہے جو اپنی جگہ غلط نہیں۔۔۔‘‘ اور اس کے بعد واضح اور جامع تصور کے ملنے کی دشواری کی فکر ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ان سوالات کو واضح کرکے پوچھا جاتا تو یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی کہ ان سوالات کا جواب ہے بھی اور غلط بھی نہیں ہے، یعنی جواب کچھ اتنا صحیح بھی نہیں ہے۔ سب سے بڑی دشواری جو سرور صاحب نے اپنے لیے کھڑی کرلی ہے وہ ہے ایک ساتھ کئی متضاد سوالات کا اجتماع۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ان سوالات کو نقاب پوش رکھا گیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو بےحد جستجو کے بعد مل بھی گیا تو صرف ’’اپنی جگہ غلط نہیں ہوگا۔‘‘ 

    یہاں یہ نوٹ کرا دین اضروری سمجھتا ہوں کہ اس پورے پیراگراف کا انداز نہایت متوازن ہے اور ہر سوال میں اس کا COUNTER PART دوسرا حصہ چھپا ہوا ہے۔ میرے ذہن میں یہ پیراگراف کئی بار پڑھنے کے بعدیہ سوال اٹھتا ہے، کیا واقعی سرور صاحب جدیدیت کے مفہوم کو واضح کرنا چاہتے ہیں؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کیا ان سوالات کے ایک ایک جواب سے (جو اپنی جگہ غلط نہیں ہوگا) واضح اور جامع تصور ممکن نہیں ہے؟ 

    اس کے تو یہ معنی ہوئے کہ ’’جدیدیت کیا ہے‘‘ کا واضح اور جامع تصوران کے ایک ایک جواب میں، بلکہ دو یا کئی جوابات سے ممکن ہے، جب ایک سوال کے ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ جواب اپنی جگہ غلط نہ ہوں تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یا تو ہر سوال کئی جوابات چاہتا ہے یا ایک سوال کا ایک صحیح جواب ممکن ہے۔ اگر پہلی صورت ہے تو اس سوال کے سارے جوابات کو لکھ کر ان کا تجزیہ کرنا چاہئے اور ان میں سب سے زیادہ صحیح کو اولیت دینی چاہئے۔ لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سارے سوالات صرف ادبی حسن کے لیے پوچھے گئے ہیں اور مقصود ان کا جواب لینا نہیں ہے؟ میری ناچیز رائے میں یہ سوالات جدیدیت کو واضح کرنے کی بجائے اور الجھادیتے ہیں۔ پھر بھی میرا خیال ہے کہ ان سوالات میں ایک ساتھ جدیدیت کی چند خصوصیات کی طرف اشارے کیے گئے ہیں۔ یہ چند خصوصیات ان سوالات کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں،

    (۱) یعنی ایک ایسی خوبی کی وضاحت جس کا اظہار بظاہر ممکن نہیں ہے جیسے آواز، مزاج یا روح۔ 

    (۲) اس لیے کہ یہ مختلف اور متضاد آوازوں کے ٹکرانے کا دوسرا نام ہے یعنی اگرآواز، مزاج اور (یہاں روح کا لفظ استعمال نہیں ہواہے) واضح ہو بھی جاتا تو کچھ خاص وضاحت نہ ہوتی، اس لیے کہ جدیدیت مختلف اور متضاد آوازوں کے ٹکرانے کا نام ہے۔ ظاہر ہے کہ مختلف آوازوں کا ٹکرانا ایک شور یا ایک طرح کا نغمہ پیدا کرتا ہے۔ یہاں سرور صاحب نے انفرادی آواز، مزاج اور روحوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے مگر ایسی کہ جن کی وضاحت ممکن نہ ہو۔ پھر انفرادیت کیسے ممکن ہوگی؟ 

    (۳) اسی طرح ہیروپرستی کے خلاف اعلان جنگ والے سوال پر نظر ڈالئے تو معلوم ہو جائےگا کہ جدیدیت کی ایک خصوصیت اینٹی ہیروازم ہے۔ مگر اس سوال کا دوسرا ٹکڑا نئے ہیرو کی پرستش کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے، یعنی بت شکنی بھی ایک طرح کی بت پرستی ہے، یا بت شکنی نہیں ہے بلکہ سب کو ہیرو بنانے کی کوشش میں بت شکنی اور بت پرستی ساتھ ساتھ ہیں۔ 

    (۴) علوم کی روشنی والے سوال سے پتہ چلتا ہے کہ جدیدیت کی ایک پہچان نئے علوم کی جانکاری ہے، مگر جدیدیت کا ایک گروہ صرف نوزائیدہ بچے کی حیریت، خوف اور جستجو پر اکتفا کرتا ہے۔ یعنی بچے کی حیرت، خوف اور جستجو اور ’’علوم کی روشنی‘‘ کے جو یا ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اس کی بجائے سوال کی کوئی اور شکل ہونی چاہئے تھی، کیونکہ یہ علم KNOWLEDGE حاصل کرنے کا سوال ہے، علوم کے ذریعے یا اپنے تجربے کے ذریعے۔ 
    اسی طرح بقیہ سوالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ’’آخری منزل‘‘ پر پہنچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ’’جدیدیت سچی بے اطمینانی اور تجربے کی آخری حدوں کو ضبط تحریر میں لانے کا نام ہے۔‘‘ اب سوال یہ ہے کہ کیا سچی بے اطمینانی اور تجربے کی آخری حدوں کو چھونے، جاننے کی کوشش ادیب کے صالح رول کو ادا کرنے میں مدد دیتی ہے، یا مناسب توانائی اخذ کرنے والے گروہ کے لیے یہ ممکن نہیں ہے؟ 

    اس کے بعد مثالوں میں کنگسلے امس اورفلپ لارکن کے ساتھ بودلیئر، لارکا، اور ایلیٹ کو پیش کیا گیا ہے۔ شاید سرور صاحب کی نظر سے کنگسلے امس، فلپ لارکن اور جان وین کا بیان نہیں گذرا جس میں ان شعرا نے جدیدیت کو ہدف ملامت بنایا تھا۔ نیواسٹیسٹمین کے سابق ادبی مدیر اور ناقدکار ملبر نے اپنی کتاب FIFTEEN YEARS OF ENGLISH WRITING کے دیباچے میں لکھا ہے کہ کنگسلے امس اور اس کے ساتھیوں نے جدیدیت کی کھلی ہوئی مخالفت کی اورادب کی بوہیمین بغاوت پر تاجرانہ سنجیدگی COMMERCIAL SERIOUSNESSکوترجیح دی۔ یہی نہیں بلکہ وہ پیشہ ورکمیونسٹ دشمن ادیبوں میں سب سے پیش پیش ہے۔ ویت نام کے مسئلے پر اس نے کھل کر امریکی جارحیت کا ساتھ دیاہے۔ 

     اس کے علاوہ جیمس بانڈ CULT کو فروغ دینے میں اس کا بڑا ہاتھ ہے۔ پچھلے سال اس نے یوتشتکو اور راؤفلر کے مقابلے میں لندن کی ادبی فضا میں وہ ہنگامہ برپا کیا کہ ہندوستان کے اہم اخبارات نے بھی اس ہنگامے کا ذکر کیا اور نیواسٹیسٹمین کے ایڈیٹر پال جانسن نے اس کی امریکی سامراجی دوستی پر کھل کر تنقید کی۔ یوتشتکو اور راؤفلر کا مقابلہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک اہم جگہ کے انتخاب کے سلسلے میں ہوا تھا۔ یہاں کنگسلے امس کا تفصیلی ذکراس لیے کیا گیا ہے کہ جدیدیت کی وضاحت کے سلسلے میں اس کی مثال ’’اپنی جگہ غلط‘‘ نہیں، بلکہ بے موقع اور غلط ہے ۔ ظاہر ہے کہ سرور صاحب کو اس کی خالص سیاسی سرگرمیوں کا علم نہ تھا۔ 

    دوسرے میں نے اس لیے بھی ذکر کیا ہے کہ سرور صاحب یہاں توازن کا دامن پکڑنے کے باوجود متزلزل ہو گئے۔ البرٹ مرے نے MILTON THE MODERN PHASE میں ایذراپونڈ اور ایلیٹ کی ملٹن پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ملٹن کے ان ناقدوں نے فخریہ کہا تھا کہ ملٹن کا اثر شاعری سے ختم ہو گیا اور اس تنقید کے تیس سال بعد ہی خود ایذراپونڈ اور ایلیٹ کا اثر بھی انگریزی کے نئے شاعروں پر نہیں رہا۔‘‘ بہرحال وہ ملٹن کی اہمیت ثابت کر رہا تھا، مگر میں یہ مثال اس لیے دے رہا ہوں کہ آج جدیدیت کی وضاحت کے لیے نئے جدید ادیبوں اور شاعروں کی مثالیں دینی چاہئے تھیں جیساکہ جان فلیچر نے اپنی کتاب NEW DIRECTION IN LITERATURE میں کیا ہے۔ ایلیٹ وغیرہ کا ذکر صرف PIONEER پیش روکی حیثیت سے آ سکتا ہے۔ 

    ان مثالوں سے سرور صاحب جدیدیت کی وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس مضمون کے ایک اورحصے کا تنقیدی تجزیہ ضروری ہے۔ سرور صاحب فرماتے ہیں، ’’جدید شاعر یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ مصرعہ خیال سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں اور ایک پیچیدہ بحث اتنی ہی الجھی ہوئی اور اکھڑی کھڑی زبان میں بیان کرتا ہے تاکہ خیال کے موڑ پر اس کا ابہام اور اس کا تضاد سب آ جائے، گوکہ اس کی وجہ سے جدید شاعری کے پڑھنے والے کم ضرور ہوتے، مگراس کا ابہام اور خطابت کے خلاف اس کا جہاد دراصل ذہن کی اس روکو پکڑنے کی کوشش ظاہر کرتا ہے جس کے لیے موجودہ الفاظ یا ناموزوں ہیں، یا بے جان۔۔۔‘‘ (شب خون ۲۵ ص ۷) 

    یہ اس مضمون کے اہم جملے ہیں۔ اس میں سرور صاحب نے جدیدیت پر ابہام کے الزام کی مدافعت کرتے ہوئے STREAM OF CONSCIOUSNESS کاسہارا لیا ہے۔ مگر مصرعے اور خیال کو الگ کرکے نہایت قدیم طرز تنقید کا ثبوت دیا ہے۔ اب اس مضمون کے چند اور اقتباسات ملاحظہ ہوں، ’’غرض کہ آزاد نظم کے فروغ اور اس میں علامتی اظہار کو ہم جدیدیت کا خاص اظہار کہتے ہیں۔۔۔‘‘ (ص ۸) 

    ’’جدید شاعری ایک شخصی اور نجی اسرار بن گئی ہے۔ یہ فرد کی تنہائی کا عکس ہے۔ آج انسان اپنی کائنات میں کوئی اطمینان کا گوشہ نہیں بنا سکتا۔۔۔ سماج میں گروہ بندی، مذہب کی بندشوں اور روایت سے رشتے کا ڈھیلا ہونا، تبدیلیوں کی تیز رفتاری، یہ سب باتیں شاعر کو اپنی دنیا اور گردوپیش کی دنیا میں تعلق پیدا کرنے سے روکتی ہیں، وہ اپنے آپ سے رشتہ قائم نہیں کر پاتا۔ تنہائی سے گھبراکر وہ تنہائی کی منزلیں طے کرتا ہے۔ افادی، اخلاقی، سیاسی شاعری اسے زہر لگتی ہے۔ یہ خیالات سے بغاوت نہیں، دوسروں کے خیالات کا غلام ہونے سے بےزاری ہے، لیکن ان سب باتوں کے پیچھے ایک نئے عقیدے کی جستجو بھی ہے۔ شاعری اس ہیجان اس تخمیر میں ہے جو غم، غصہ، طنز کوئی بھی کیفیت پیدا کر سکتا ہے۔ نثر میں آٖپ اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں نظم میں اپنے تک۔۔۔‘‘ 

    ان جملوں کوغور سے پڑھنے والا یہ آسانی سے سمجھ لےگا کہ جدید شاعر صنعتی تبدیلیوں کی تیز رفتاری کی وجہ سے ہراساں ہے اور کیوں کہ اس کی پناہ گاہ مذہب اور روایت نہیں رہی ہے تواسی لیے وہ تنہا اورغم زدہ ہے، لیکن یہاں بھی سرور صاحب نے یہ کہہ دیا کہ مذہب اور روایت کی بندشوں کو توڑنے میں اس کا ہاتھ بھی رہا ہے۔ پھر جدید شاعر کے سلسلے میں یہ اقتباسات، ایک رخی ہی سہی تصویر ضرور کھینچتے ہیں۔ 

    اس مضمون کا آخری حصہ توازن کی بڑی اچھی مثال ہے۔ ملاحظہ ہو، ’’پھر بھی جدیدیت صرف انسان کی تنہائی، مایوسی، اس کی اعصاب زدگی کی داستان نہیں ہے۔ اس میں انسان کی عظمت کے ترانے بھی ہیں۔ اس میں فرد اور سماج کے رشتے کو بھی خوبی سے بیان کیا گیا ہے، اس میں انسان دوستی کا جذبہ بھی موجود ہے مگر جدیدیت کا نمایاں روپ آج آئیڈیالوجی سے بےزاری ہے۔ فرد پر توجہ، اس کی نفسیات کی تحقیق، ذات کے عرفان، اس کی تنہائی اور اس کی موت کے تصور سے خاص دلچسپی ہے، اس کے لیے اسے شعروادب کی پرانی روایت کو بدلنا پڑا ہے۔۔۔ سوسن لینگر نے غلط نہیں کہا ہے، ’’آرٹ ایسے فارم کی تخلیق ہے جو انسانی جذبات کی نقالی نہیں کرتے، ان کی علامت ہوتے ہیں۔‘‘ 

    سرور صاحب جدیدیت کو صرف مشروط طریقے سے ہی قبول نہیں کرتے، بلکہ اس کے نشترکی STING نکال کر اسے بے ضرر، مہذب اور قابل قبول بنانے کی ناکام کوشش بھی کرتے ہیں، اس لیے کہ جدیدیت، سرکشی سے ابتدا کرکے بورژوائی اخلاقی اقدار (جیسے خیروشر کے تصورات، جرم وسز اکے قوانین) کے خلاف شدید احتجاج کرتی ہے۔ جان فلیچر نے تو بودلیئر اور فلابیر کی تحریروں سے مثالیں دی ہیں کہ یہ شاعر وناول نگار بورژوائی ماحول کے شدید خلاف تھے اور اس طرح بیشتر جدید ادیب وشاعر ہر ملک میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہے تھے اور ہیں، جہاں تک اظہار بیان میں تجربے کا سوال ہے، تو اس میں ہر قسم کے تجربات کے لیے دروازہ کھلا رہتا ہے اور جدید شاعر مہمل، بے معنی کی الزام کی پرواہ کیے بغیر معنی کی نئی جستجوکار سیا اور تجربے کی نئی گہرائی کا جویا رہتا ہے۔ 

    جدید شاعری صنعتی شہر کی پیداوار ہے۔ جب جارج اسٹانیر نے کہا تھا کہ NOTHING IS MORE ACADEMIC THAN MODERNLISM MADE FRIGID ’’جدیدیت کو سرد بنانے سے زیادہ مدرسانہ عمل اور کوئی نہیں ہے۔‘‘ تو اس کا مطلب یہی تھا کہ جدیدیت کو اکیڈمک ماحول میں رکھ دیا جائے تو وہ اپنی گرمی کھو دیتی ہے۔ جدید ادب کی تعلیم کے سلسلے میں LIONELL TRILLING نے لکھا ہے،

    ARNOLD USED THE WORD MODERN IN A WHOLLY HONORIFIC SENSE SO MUCH SO, INDEED,THAT-WE SEEMS TO DISMISS ALL TEMPORAL IDEAS FROM THE WORDL & MAKE IT SIGNIFY CERTAIN TIMELESS INTELLECTUAL AND CIVIL VIRTUES---
     (PAGE 70 –LITERATY MODERNISM) 

    ظاہر ہے کہ سرور صاحب کا توازن میتھیوآرنلڈ سے آگے کا تصور ہے۔ مگر بنیادی طور سے جدیدیت کو قابل قبول بنانے کے لیے اس کو ایک سرد تصور میں ڈھال لیا گیا ہے۔ اگر جدید ادیبوں اور شاعروں نے توازن کی تلاش کی ہوتی تو جدیدیت کا فروغ ممکن ہی نہ تھا۔ یہاں سرور صاحب یہ کہیں کہ جدیدیت سے ہمدردی نے انہیں ترقی پسندوں کا حریف بنا دیا ہے، تواس کے لیے عرض کروں گا کہ ترقی پسندی اب ایک OBSOLETE تحریک ہے اور تمام تر ترقی پسندی کی برائی کرنے والے جذباتی (جواس کے ابتدائی دور کے بعد اس تحریک سے الگ رہے) خواجہ احمد فاروقی، ڈاکٹر عابد حسین جیسے ثقہ لوگ اب اس میں شامل ہیں۔ ۶۶ء میں کانفرنس ہونے کے باوجود ۶۸ء میں اس کے احیاء کے لیے دوبارہ اپیل کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ’’ترقی پسندی‘‘ ان مسیحاؤں سے زندہ نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ مردے مردوں کو زندہ نہیں کر سکتے۔ 

    بہرحال جدیدیت کے مفہوم کو توازن کے پیمانوں سے نہیں واضح کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ذہنی رویہ نہیں ہے۔۔۔ بلکہ RADICALISM کی ایک اہم شاخ ہے۔ کیا توازن کی تلاش میں سریلزم کی تحریک جنم لے سکتی تھی، جس نے اظہار کے معنی ومفہوم کو بدل دیا تھا؟ اس تحریک کے سلسلے میں کامیو کے الفاظ سنئے، ’’قطعی بغاوت، کامل انحراف، اصول پرستی کی حد تک تخریب کاری، لایعنیت کا احترام اور پیروی۔۔۔ یہ ہیں اجزائے ترکیبی سرریلزم کے، جو تمام اقدار کی مسلسل جانچ، پرکھ اور محاسبے کو اپنا بنیادی فریضہ قرار دیتی ہے۔۔۔ نتائج اخذ کرنے سے سرریلز م کا انکار، دو ٹوک، فیصلہ کن اور فکرانگیز ہے۔‘‘ 

    لیکن سرریلزم کی تحریک بھی جب اس سرکشی سے آگے چلی تو اس نے مارکسزم سے مفاہمت کرنے کی کوشش کی اور دوسری جنگ عظیم کی ابتدا کے بعد اندر ے برتیان کا مارکسزم سے ٹکراؤ ہو گیا، جس سے دونوں نہ پنپ پائے۔ اس کے باوجود سرریلزم کا اثر آج بھی دنیا کے ادب اور فلم پر باقی ہے۔ 

    توازن کی دوسری اہم مثال ڈاکٹر وحید اختر کے اس خیال سے دی جا سکتی ہے، جس میں انہوں نے جدیدیت کو ترقی پسندی کی توسیع کہا ہے اور جدیدیت کے بارے میں میرے خیال کو فارمولا۔۔۔ توسیع میں یہ خیال عیاں وپنہاں ہے کہ عمارت وہی ہے، صرف اس کی ایک منزل اوپر یادائیں اور بائیں بڑھادی گئی ہے۔ یہ بنیادی طور سے ترقی پسند نظریے کو نیا روپ دینے کی ناکام کوشش ہے، انہیں میرے خیال پر یہ اعتراض ہے کہ میں نے غیر محفوظ کی ایک صفت جدیدیت کے ساتھ کیوں چسپاں کردی ہے؟ میرا جملہ ملاحظہ ہو، ’’جدید شاعری غیرمحفوظ، تشنہ، شکستہ دل، جری، سرکش جوانوں کی شاعری ہے۔‘‘ (اردوادب نمبر۳، ص ۱۲۳) 

    اس جملے پر تنقید کرنے سے پہلے وحید اختر نے جدیدیت کی ایک اہم خصوصیت بیان کی ہے کہ ’’جدیدیت میں سب سے غالب عنصر انتہاپسندانہ اور تنگ نظرانہ کلیوں کے خلاف بغاوت ہے۔۔۔‘‘ (ہماری زبان۔ یکم مئی ۶۸ء) 

    انہوں نے پہلے توخود ہی میر ے خیال کو فارمولا قرار دیا۔ پھر جدیدیت کی خوبی انتہاپسندی کی مخالفت قرار دی۔ انہوں نے اگر دنیائے جدیدیت کے رجحانات اور تحریکوں کا مطالعہ کیا ہے تو انہیں یہ بخوبی معلوم ہوگا کہ جدیدیت کے پیش رو اور علمبرداروں کو نہایت ثقہ، قدیم اور ESTEBLISHMENT کے حامی ادیبوں نے ’’انتہاپسند‘‘ کا لقب دیا ہے۔ آخر کسی کو انتہاپسند کیوں کہا جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں، جتنا کہ نظر آتا ہے۔ اگر مروجہ ادبی اظہار سے مکمل بغاوت کی کوشش کی جائے تو وہ حلقہ جوصرف ’’مناسب توانائی‘‘ اخذ کرنے پر ہی اکتفا کرتا ہے، اور وہ حلقہ جو ہر قسم کی سرکشی کو انتہاپسندی سے تعبیر کرتا ہے، دونوں اظہار وبیان کے سرکشانہ اظہار کو انتہاپسند کہیں گے۔ 

     پہلا حلقہ ’’خوشگوار تبدیلیوں‘‘ کو لبیک کہتا ہے مگر روایات سے انحراف کو انتہاپسندی اور دوسر احلقہ اس پہلے حلقے کی رائے سے متفق ہوکر بغاوت کو جرم قرار دے دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند علی سردار جعفری، بنے بھائی اور سرور صاحب کی فہرستوں میں صرف ایک نام مشترک ملتا ہے وہ ہے وحید اختر کا نام۔ اس طرح وہ دونوں حلقوں میں سرفراز ہوکر ’’عظمت کی سند‘‘ حاصل کرنے میں کبھی نہ کبھی کامیاب ہو جائیں گے۔ اپنے اسی مضمون میں وہ ادبی معیاروں کی دہائی دیتے ہیں کہ جدیدیت انتہاپسندی کی شکار ہو رہی ہے اور غیرادبی معیار پر زور دے رہی ہے۔ 

    اس سلسلے میں مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ ادبی معیار کی تخریب تشکیل سے پہلے ضروری ہے اور پھر اہم تجربات کے دور میں معیار سے کہیں زیادہ اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ نئے نئے اظہاروبیان کے طریقے اختیار کئے جائیں نہ کہ’’اعلیٰ اور عظیم‘‘ شاعری کا چوکھٹا لے کر اس میں قابل قبول خوشگوار تبدیلیاں کر لی جائیں۔۔۔ میری اس بات کا کہ جدید شاعری صنعتی دور اور بڑے شہروں کی شاعر ی ہے، وحید اختر غلط مطلب نکال کر کہتے ہیں، ’’جدیدنہ تو صرف صنعتی شہروں میں زندگی کے بکھرنے اور غیرمحفوظ ہونے سے عبارت ہے اور نہ صرف تنہائی کے احساس سے۔۔۔‘‘ 

    ’’جدیدیت داخلی تجربے اور اظہارذات کے ساتھ حیات وکائنات کے مسائل کی آگہی کا بھی نام ہے، جدیدیت میں سیاسی اور سماجی شعور کے شاعرانہ اظہار کی بھی جگہ ہے۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ (ہماری زبان، یکم مئی ۶۸ء ص ۶) 

    صنعتی انقلاب سے جدیدیت کے نقوش ڈھونڈنے کی کوشش ہرکس وناکس کو ایک ہی زاویہ نگاہ سے دیکھنے کی ناکام کوشش ہے۔ سوال یہ ہے کہ انگریزی یا فرانسیسی کی جدید شاعری کے مراکز کہاں تھے؟ یہ مراکز لندن یونیورسٹی، سوبورن یونیورسٹی میں تھے؟ بلکہ لندن اور انگلستان کے دوسرے اہم صنعتی شہر اور پیرس تھے۔ یہی نہیں اکثر فلم، آرٹ اور ادب کے نئے سرکش رجحانات ننھے ننھے گاؤں، بند قصبوں اور پرسکون چھوٹے شہروں میں نہیں پلے ہیں۔ خود ترقی پسند ی بمبئی میں کمیونسٹ پارٹی کی مضبوط تحریک ہونے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے شہروں پر اثرانداز ہوئی۔ 

    اس کے علاوہ جدیدیت کو مشینی شہروں سے الگ کرکے درس گاہوں کے ’’معزز، بالغ نظر اور محفوظ‘‘ شاعروں میں پرورش دینا جدیدیت کوقدیم اور ترقی پسند حلقوں کے لیے قابل قبول بنانے کی معصوم کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس سلسلے کی بحث میں وحید اختر نے آگے چل کر کہا ہے، ’’صنعتی شہر کے مسائل کو جدیدیت کی بنیاد مان لینا بھی ایک میکانکی رویہ ہے۔ اس فارمولے کے تحت اس سے زیادہ میکانکی اورکتابی شاعری وجود میں آ سکتی ہے۔۔۔‘‘ (ہماری زبان۔ یکم مئی ۶۸ء ص۔ ۷) 

    جہاں تک میکانکی انداز کی شاعری کا سوال ہے، تواس کے امکانات ہر جگہ ہیں۔ کوئی انیس، اقبال، جوش اور سردارجعفری (اس فہرست میں سردارجعفری کا نام شامل کرنا انہیں ان شعرا کے ہم پلہ سمجھنے کی کوشش نہیں ہے، صرف مثال کے طور پر ان کا نام بھی لے لیا گیا ہے) کے کلام کا غائر مطالعہ کرے، تو پتہ چلےگا کہ ان شعرا کا ایک حصہ ’’قادرالکلامی کی مشین‘‘ سے ڈھل کر ہی آیا ہے اور اس پر میکانکی ہونے کی مہر بھی لگی ہوئی ہے۔ 

    بات میکانکی شاعری کی نہیں ہے۔ بات تجربات کے متنوع اور SHOCKS کی ہے جو ایک جدیدذہن کے لیے ضروری ہے اور اس کے امکانات IVORY TOWER میں رہ کر ممکن نہیں ہیں۔ خود ترقی پسندوں کا زوال اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ یہ لوگ بڑے شہر میں رہتے ہوئے بھی اپنے اپنے قیمتی زرنگارخانوں میں بند ہو گئے اوراس طرح ان کی شاعری میں جو رہی سہی جان تھی، وہ چلی گئی اور صرف قادرالکلامی رہ گئی۔ 

    DISCENTکے مشہور ایڈیٹر IRVING HOWE نے اپنے مضمون ’’جدیدیت کا خیال‘‘ میں بحث کو ختم کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’جدید ادب کا مرکز اور محور عدمیت (NIHILISM) ہے۔ دونوں موضوع اور علامتی معنوں میں ایک راکشس مغلوب ہوا ایک راکشس مفتوح ہوا۔ ایک خوف جو جدید ذہن کو ہراساں کیے ہوئے ہے، بے معنویت ہے اور پھر ابدی موت۔ ہمیں خداؤں کی موت پریشان نہ کرتی، اگر ہمیں یہ یقین آ جائے کہ وہ مر گئے ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ مرنا نہیں ہے۔ جدید حسیت ہمارے مردانہ وار حالات سے مقابلہ کر رہی ہے ابدی احیاء کے لئے جبکہ وہ اپنے خاتمے کی جستجو میں بھی منہمک ہے۔‘‘ (ادبی جدیدیت ص ۴۰۔ ۳۹) 

    ترقی پسندی قدامت سے مفاہمت کرکے متوازن ذہنوں کی شاعری بن گئی اورآخر اس کی صف میں اختر اورینوی اور ڈاکٹرعابد حسین بھی آ گئے اور ترقی پسند بننا سماجی ترقی کا BADGE تمغہ بن گیا۔۔۔ جدیدیت کے سلسلے میں توازن کی تلقین کرنے والے بھی اسے معصوم، خوبصورت، بے ضرر اور قابل قبول بنانا چاہتے ہیں، لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جدیدیت اور توازن کا کبھی میل نہیں ہوا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ جدیدیت کے رجحانات پائمال ہو جائیں، چھپ جائیں مگروہ توازن سے ملاپ کرکے زندہ نہیں رہ سکتی۔ 

    (یہ مضمون ۲۴ مارچ ۶۹ء میں پروفیسر آل احمد سرور صاحب کی صدارت میں پڑھا گیا تھا۔ یہاں ترمیم کے بعدشائع کیا جا رہا ہے۔)

     

    مأخذ:

    تنقیدی کشمکش (Pg. 43)

    • مصنف: باقر مہدی
      • ناشر: خیاباں پبلی کیشنز، ممبئی
      • سن اشاعت: 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے