Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کلام مومن پر ایک طائرانہ نگاہ

نیاز فتح پوری

کلام مومن پر ایک طائرانہ نگاہ

نیاز فتح پوری

MORE BYنیاز فتح پوری

    اگر میرے سامنے اردو کے تمام شعراء متقدمین و متاخرین کا کلام رکھ کر (بہ استثنائے میرؔ) مجھ کو صرف ایک دیوان حاصل کرنے کی اجازت دی جائے تو میں بلا تامل کہہ دوں گا کہ مجھے کلیات مومن دے دو اور باقی سب اٹھا لے جاؤ۔ ایک سننے والے کے دل میں قدرتاً اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ میں ایسا کیوں کہوں گا اور اس ترجیح کا سبب کیا ہو سکتا ہے؟ اس مقالہ میں اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے، جس سے مقصود مومن کی شاعرانہ قیمت کا اندازہ کرنا ہے۔

    اگریہ صحیح ہے کہ دنیا میں حقیقتیں نہیں بدل سکتیں، تو پھر ذوق انسانی کے اختلافات بھی صرف تعبیرات کے اختلافات ہیں، شاعری حقیقت نہیں ہے بلکہ حقیقتوں کا اظہار ہے، صداقت نہیں ہے بلکہ صداقتوں کی تعبیر ہے، خود کوئی کیفیت نہیں ہے بلکہ کیفیت کا ایک بیان ہے اورتعبیر بیان کا اختلاف فطرت انسانی ہے۔

    انسان کی قوت شعور بہ حیثیت ایک فطری قوت ہونے کے تمام افراد میں مشترک ہے لیکن بہ لحاظ احساس و تاثر وہ ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہے۔ انسان کادماغ اپنی ساخت کے لحاظ سے مختلف زاویے رکھتا ہے اور انہیں زوایا کے لحاظ سے اس کے خطوط ِنظر میں انحراف پیدا ہوتا ہے اور یہی وہ نظام فطرت ہے جس نے امیال و عواطف، کیفیات وجذبات، خواہشات و داعیات میں امتیاز پیدا کر کے ایک ہی جنس کے مختلف افراد میں خطوط تفریق کھینچ دیے اور کسی کو مومن بنا دیا اور کسی کو غالبؔ، کسی کو میرؔ کر دیا اور کسی کو سوداؔ۔

    سورج وہی ایک چیز ہے اور اس کا طلوع و غروب وہی ایک، لیکن ایک دل میں وہ مسرت و نشاط ہے اور دوسرے دل میں حیرت و جبروت، وہ اس کو دیکھ کر گنگنانے لگتا ہے اور یہ معبود سمجھ کر سجدے میں گر پڑتا ہے، پھر نہ ہر شاعر گبر ہے اور نہ ہر گبر شاعر، حالانکہ اس کی شاعری اور اس کی پرستش دونوں کا سر چشمہ وہی ایک آفتاب ہے۔ موسم بر شگال کا وہی ایک پپیہا ہے جو کسی شاد کام کے لئے شیریں پیامِ سر خوشی ہے اور کسی جگہ طعن جدائی پر کوئی بروگن یہ کہنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ ’’ڈاروں کی پنکھ مروڑ۔‘‘ اسی خیال کو اور زیادہ وسیع کیجئے اور داد دیجئے اس کی، جس نے اس تمام طوفان کو سمیٹ کر صرف اس ایک فقرہ میں بھر دیا کہ ’’حسنک واحد و عبارتناشتی۔‘‘

    پھر جن اصول کے ماتحت جذبات و کیفیات میں اختلاف پیدا ہوتا ہے، انہیں اصول کے زیر اثر ان کے سمجھنے میں بھی اختلاف پیدا ہونا ضروری ہے اور اسی بنا پر نہ میں اپنی پسندیدگی پر آپ کو مجبور کر سکتا ہوں اور نہ آپ مجھ سے اپنی عدم پسندیدگی کو بجبر تسلیم کرا سکتے ہیں اور سب سے پہلے یہی دشواری ایک نقاد کے سامنے آتی ہے، جو بسا اوقات اسے سیدھے راستہ سے ہٹا دیتی ہے، لیکن جن لوگوں نے ان دشواریوں کو محسوس کر کے اصول نقد منضبط کئے ہیں وہ بہت محفوظ ہیں، اگر ان پر عمل کیا جائے اور حقیقت یہ ہے کہ ان پر عمل کئے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ کسی خیال پر نقد کرنے کے لئے سب سے پہلے اصول فطرت پر نظر ڈالنا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ خیال کس حد تک درمیانی منازل طے کرتا ہوا فطرت کے ساتھ ساتھ چلا ہے اور اگر کوئی شخص اسی طرح فیصلہ کرنے پر قادر ہو تو پھر دوسرا اصول یہ ہے کہ اس کو صرف اپنی ہی رائے پر اعتماد کرنا چاہئے ا ور سمجھ لینا چاہئے کہ جو کچھ میں کہتا ہوں وہی صحیح ہے۔ چنانچہ اسی اصول کے مطابق میں مومن کے کلام پر ایک سر سری نظر ڈالوں گا۔

    تمہید میں اس قدر عرض کرنا ضروری اسی لئے خیال کیا کہ بعد کو یہ سوال نہ پیدا ہو کہ مومن کے متعلق اظہار خیال کن اصول پر کیا گیا ہے۔ ہر چند یہ بالکل صحیح ہے کہ شاعر پیدا ہوتا ہے اور یہ بھی غلط نہیں کہ اس کی اس وہبی قوت کا نشوونما ماحول سے بھی بڑی حد تک متاثر ہوتا ہے۔ ا گر ابن المعتز شاہی خاندان سے نہ ہوتا تو بقول ابن رومی یہ شعر بھی نہ کہہ سکتا۔

    فانظر الیہ کز ورق من فضۃ

    قد اثقلتہ حمولۃ من عنبر

    ہلال کو دیکھ کر ’’عنبر کے بار سے دبی ہوئی چاندی کی کشتی کی طرف‘‘ خیال منتقل ہونا اسی وقت ممکن ہے کہ جب کسی نے ان چیزوں کو دیکھا ہو جاہلیت عرب کے شعرا کا فطرت پرست ہونا اسی بنا پر تھا کہ سوائے مناظر قدرت کے کوئی اور چیز ان کے سامنے نہ تھی لیکن کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شاعر اپنی ذوق فطری کے خلا ف کسی ماحول میں پہنچ جاتا ہے اور ایسی صورت میں اس پر گردوپیش کی چیزوں کا بہت کم یا بالکل کوئی اثر نہیں ہوتا۔

    مومن کا ماحول بھی وہی تھا جو غالب و ذوق کا۔ سلطنت مغلیہ کا آخری چراغ، ستارہ سحری کی طرح جھلملا رہا تھا اور شعرا عصر اسی کو غنیمت جان کر حریصانہ انداز کے ساتھ اس سے مستفید ہونے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ ا س میں شک نہیں کے انحطاط و زوال کے عام سوگوار انہ مناظر کا اقتضا یہی تھا کہ اس وقت کی شاعری بالکل متشائم ہوتی لیکن ہمیں اس تلخ حقیقت کا اظہار کرنا پڑےگا کہ سوائے بہادر شاہ ظفر کے جوبراہ راست انقلاب کا شکار تھا، اور جو پوری طرح زوال حکومت کا درد اپنے دل میں لئے ہوئے تھا، کوئی ایک شاعر بھی اس وقت ایسا نہ تھا جو تاریخ اسلام ہند کے اس حد درجہ دردناک منظر سے متاثر ہوا ہو۔ ذوق کو ظفر کے استاد ہونے کا حق حاصل تھا اور وہ بالکل خلاف ضمیر ظفر کو ’’شہنشاہ عالم و عالمیاں‘‘ کہہ کہہ کر اس مفلس و بے دست و پا بادشاہ کو لوٹنا چاہتا تھا، غالب یہی حسرت اپنے ساتھ لے گئے کہ وہ کیوں نہ ذوق کی جگہ ہوئے اور ہر چند انہوں نے اپنی خلش چھپانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ غالبؔ کایہ کہنا،

    استاد شہ سے ہو مجھے پر خاش کا خیال

    یہ تاب، یہ مجال، یہ طاقت نہیں مجھے

    ایک ایسی تعریض اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے کہ اس سے زیادہ اظہار رشک کی شدید مثال شاید کوئی اور مل سکے اور میرے ایک فاضل دوست کا خیال تھا کہ غالب کی یہ غزل جس کا ایک مشہور شعریہ ہے،

    وہ بادہ شبینہ کی سر مستیاں کہاں

    اٹھئے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی

    زوال سلطنت مغلیہ کا مرثیہ ہے لیکن یہ تاویل بالکل ایسی ہی ہے جیسے حافظ کی شراب کو آب کوثر قرار دینا۔ الغرض اس وقت کے شعرا سب کے سب اس احساس سے بالکل بیگانہ تھے اور مومن بھی اس بے حسی سے باکل مستثنی نہیں سمجھے جا سکتے، لیکن اسی کے ساتھ ان پر اس قدر بے حسی کا بھی الزام عائد نہیں ہو سکتا کیونکہ انہوں نے نہ کبھی بادشاہ کی تعریف میں قصیدہ لکھا اور نہ کسی امیر کو سراہا، جس کی ایک وجہ تو ان کی غیور و خود دار فطرت تھی اور دوسرا سبب یہ تھا کہ وہ سمجھتے تھے ایسے وقت میں بادشاہ کی تعریف کرنا حقیقتاً زخم پر نمک چھڑکنا ہے۔ اگر زیادہ گہری نظر سے ان کے کلام کو دیکھا جائے تو یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس وقت کی سیاسیات سے نا بلند نہ تھے اور قومی خودداری کا جذبہ ان میں اس قدر موجود تھا کہ جہاد پر انہوں نے ایک مثنوی ہی سپرد قلم کر دی اور دیوان میں بھی بعض اشعار ایسے پائے جاتے ہیں جن کا روئے سخن فرنگیوں کی طرف ہے۔

    بہرحال پہلی چیز جو مومن کو اپنے عہد کے دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہے، یہ ہے کہ ان کے کلام سے کسی جگہ خوئے گدا یا نہ کا اظہار نہیں ہوتا۔ غالب کا رشک کہئے یا خودداری، اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ’’اپنے کافر کو خدا کو بھی نہ سونپ سکے۔‘‘ لیکن صاحب کے کف دست پر چکنی ڈلی دیکھ کر خوشامد و تملق پر مجبور ہو ہی گئے اور اسی کے ساتھ جب تنخواہ ملنے میں دیر ہوئی تو اپنے فاقوں تک کا ذکر کرنے سے احتراز نہ کیا، ذوق کاتو خیر ذکر ہی کیا کہ وہ اس باب میں غالبؔ سے بھی فرو تر تھے۔

    جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ خلاف فطرت ماحول کا اثر بہت کم یا بالکل نہیں ہوتا، وہ مومن پر منطبق ہوتا ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے شاہانہ دربار تک رسائی اور بیجا مدح سرائی کو اچھا نہیں سمجھا، لیکن ماحول کا جس قدر حصہ ان کے احساس صحیح کو متاثر کر سکتا ہے، ا س سے متاثر ہوئے اور ان کا اظہار بھی انہوں نے کیا، لیکن اسی کے ساتھ یہ امر ضرور تعجب انگیز ہے کہ ایک شخص مثنوی جہاد تو لکھ سکتا ہو لیکن کوئی شہر آشوب نہ لکھے، حالانکہ معاملات حسن و عشق میں وہ بڑے بڑے ماتم خیز اشعار لکھنے کا اہل ہو۔

    دوسری خصوصیت جو مومن کو اپنے دیگر ہم عصر شعرا سے ممتاز کرتی ہے، یہ ہے کہ رنگ تغزل میں ان کا کلام اس چیز سے بالکل پاک ہے جس کو تصوف یا عشق حقیقی سے موسوم کیا جاتا ہے۔ وہ خود بھی کہتے ہیں،

    مومن بہشت و عشق حقیقی تمہیں نصیب

    ہم کو تو رنج ہو، جو غم جاوداں نہ ہو

    بظاہر یہ امر کچھ ہلکا کر دینے والا معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص کا کلام تصوف کی چاشنی سے خالی نظر آئے لیکن اگر یک نقاد غزل کو غزل ہی کے نقطہ نظر سے دیکھےگا تو یوں بھی تصوف کے کلام کو خارج کر دےگا کیونکہ غزل کے اندر ایسی باتوں کاا ظہار جو تغزل سے علیحدہ ہوں، میرے نزدیک کوئی معقول بات نہیں ہے۔

    تصوف کے حدود وہاں سے شروع ہوتے ہیں جہاں عقل کی پرواز ختم ہوتی ہے اور فضا جو ماوراء سرحد عقل و شعور ہے، اس کے وسعت کی کوئی انتہا نہیں یہاں تک کہ مجانین و مجاذیب کی بے معنی باتیں بھی وہاں کوئی نہ کوئی مفہوم اخیتار کر لیتی ہیں۔ اس لئے میرے نزدیک تغزل میں تصوف کو شامل کر لینا ایک غزل گو شاعر کاکمال نہیں بلکہ اس کا عجز ہے۔ مومن نے اسی دنیا کا عشق کیا اور اس میں جتنے تجربات تلخ و شیریں ہو سکتے ہیں وہ سب انہوں نے حاصل کئے، وہی ہجر و وصال کی مادی کیفیات، وہی شکوہ و شکایات، وہی رقیب کا کھٹکا، وہی التجائیں، وہی تدبیریں۔ الغرض وہ تمام جذبات جو عناصر محبت سے تعلق رکھتے ہیں سب مومن کے ہاں پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم مومن کے معشوق کا کیرکٹر ان کے کلام سے متعین کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ بازاری جنس سے زیادہ وہ حیثیت نہیں رکھتا لیکن بایں ہمہ مومن کا کمال شاعری دیکھئے کہ اگر ایک طرف پستی سے اس قدر قریب ہے کہ ادنیٰ سی لغزش بھی اسے بازاری شعرا کی صف میں ملا سکتی ہے تو دوسری طرف بلندی کا یہ عالم ہے کہ غالب کی انتہائی پرواز بھی اس کی فضا تک نہیں پہنچتی (لیکن یہ سب انہیں حدود کے اندر جن کو حدود تغزل کہا جاتا ہے۔)

    دنیا میں کسی کتاب کے متعلق یہ گفتگو کرنا کہ وہ اخلاق پر اچھا اثر ڈالتی ہے یا برا، لایعنی سی بات ہے۔ اگر کوئی تنقید ہو سکتی ہے تو صرف یہ کہ وہ اچھی لکھی گئی ہے یا بری۔ اس لئے کسی شاعر کے متعلق یہ گفتگو کرنا کہ اس کی شاعری اخلاق کو خراب کرنے والی ہے، میرے نزدیک درست نہیں لیکن سخافت بہر حا ل سخافت ہے اور اس کو کبھی پسند نہ کیا جائےگا۔ مومن اس خصوصیت میں منفرد ہے۔ اس نے نہایت عریاں طور پر معاملات حسن و عشق کا اظہار کیا لیکن اسی کے ساتھ نہ کسی جگہ فن مجروح ہوا اور نہ دنایت پیدا ہوئی۔ ان کے ہاں ذلیل سے ذلیل جذبہ بھی نہایت بلند طریق پر ظاہر کیا گیا ہے۔

    مومن کا محبوب بھی جرات و انشا کی طرح بازاری ہی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ جرات و انشا کا عشق بھی بازاری ہے اور مومن بہت بلندی سے دیکھتے ہیں اور اسی بلند فضا تک محبوب کوبھی لے جانا چاہتے ہیں۔ جراتؔ و انشاؔ اگر اپنی تمنا میں کامیاب نہیں ہوتے تو وہ ترک محبت کے لئے بھی آمادہ ہو جاتے لیکن مومن کی پاکیزگی ذوق کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی امید کو بھی اس عالم آب و گل سے جدا قرار دے کر ایک غیر فانی چیز بنا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی محبت کی فضا محبوب و جلوہ محبوب سے بھی بےنیاز ہو جاتی ہے، چنانچہ لکھتا ہے،

    قطع امید سے سر کاٹنے کو کیا نسبت

    مجھ میں وہ دم ہے ابھی جو ترے خنجر میں نہیں

    میں نہیں سمجھتا کہ تمناکو اس سے زیادہ رفیع و جلیل بنایا جا سکتا ہے۔ مومنؔ کا عشق باوجود مادی ہونے کے اس د درجہ بلند فتادگی رکھتا ہے کہ وہ اپنی ہر ناکامی کا شکار خود ہی بننا پسند کرتے ہیں اور محبوب سے کوئی مطالبہ ایسا نہیں کرتے جو شان عاشقی و محبوبی کے خلاف ہو۔ زمانِ ہجراں میں عاشقوں یا شاعروں کا واویلا خاص چیز ہے لیکن مومن کا ذوق اس باب میں یہ ہے،

    تانہ پڑے خلل کہیں آپ کے خواب ناز میں

    ہم نہیں چاہتے کمی اپنی شب د راز میں

    پھر وہ اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات وہ اس سے بھی زیادہ بلند ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی تمام تکالیف کواس قدر صبر و ضبط کے ساتھ برداشت کرنا چاہتے ہیں کہ اس کا بیان بھی تیر و پیکاں سے کم نہیں ہوتا۔ ملاحظہ ہو شعر،

    جانے دے چارہ گر شبِ ہجراں میں مت بلا

    وہ کیوں شریک ہو مرے حال تباہ میں

    میرے خیال میں مومن ہی ایک ایسا شاعر ہے جو نفسیاتی رموز کو سمجھ کر شاعری کرتا ہے اور ایسی معنوی نزاکتیں پیدا کرتا ہے کہ غور سے تجزیہ کرنے کے بعد ان کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً اس کا ایک شعر ہے،

    دن رات فکر جور میں یوں رنج اٹھانا کب تلک

    میں بھی ذرا آرام لوں، تم بھی ذرا آرام لو

    بظاہر کس قدر سادہ شعر ہے۔ ’’محبوب سے کہہ رہا ہے کہ مجھ کو ستانے کی فکر میں رات دن الجھے رہنا بے کار پریشان ہونا ہے۔ کچھ دیر کے لئے اس خیال کو ترک کرکے سکون حاصل کرو۔‘‘ اس حد تک تو ہر شاعر کہہ سکتا تھا لیکن یہ ٹکڑا کہ ’’میں بھی ذرا آرام لوں۔‘‘ صرف مومن ہی کے دماغ میں آ سکتا تھا، قابل غور امر ہے کہ مومن نے یہ کیوں کہا، ’’میں بھی ذرا آرام لوں۔‘‘ ایک کھلی ہوئی وجہ تو یہ ہے کہ اس طرح وہ محبوب پر ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ ’’اب بھی مجھے کافی ایذا پہنچ چکی ہے اور اس لئے مزید فکر جور بیکار ہے۔‘‘ لیکن اس سے زیادہ گہری بات ایک اور ہے۔ فطرت انسانی ہے کہ جب کسی کے فائدہ کی بات بتائی جاتی ہے تو وہ غور کرتا ہے کہ کیوں ایسا مشورہ دیا گیا اور اس کو کیا غرض تھی کہ وہ میرے فائدہ کی بات بتاتا۔ اس لئے گمانِ بدکی بنا پر بعض مرتبہ وہ مشورہ قبول نہیں کیا جاتا لیکن اگر ساتھ ہی ساتھ مشورہ دینے والا یہ بھی لکھ دے کہ اس میں تھوڑا سا فائدہ میرا بھی ہے تو پھر غور و تامل کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور اس کو بالکل موافق فطرت سمجھ کر مان لیا جاتا ہے۔ مومن کا یہ کہناکہ ’’میں بھی ذرا آرام لوں۔‘‘ بالکل اسی قبیل سے ہے۔

    مومن نے رقیب کا ذکر کثرت سے کیا ہے اور موجودہ زمانہ میں اس کو معیوب سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس سے محبوب کی سیرت پر اچھی روشنی نہیں پڑتی لیکن اول تو مومن کے عہد میں اس قسم کے مضامین معیوب نہیں سمجھے جاتے تھے اور اگر ہوں بھی تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر اس قسم کے مضامین کوئی شخص مومن کی طرح لکھ سکے تو کیونکر ان سے قطع نظر ہو سکتی ہے۔ جراؔت و انشا کے ہاں رقیب و دشمن کے متعلق جس قسم کے خیالات کاا ظہار کیا گیا ہے، وہ یقیناً دائرہ تہذیب سے خارج ہے لیکن مومن تو ان کا بھی ذکر صرف اپنا ہی دل خون کرنے کی حد تک کرتا ہے اور کسی جگہ حد ود عاشقی سے متجاوز نہیں ہوتا مثلاً،

    ذکر اشک غیر میں رنگینیاں

    بوئے خوں آئی تری گفتار سے

    ہے نگاہ لطف دشمن پر تو بندہ جائے ہے

    یہ ستم اے بے مروت کس سے دیکھا جائے ہے

    عرفی کانہایت معرکۃ الآرا شعر ہے۔

    ہمرۂ غیری و می گوئی بیا عرفی تو ہم

    لطف فرمود ی بروکایں پائے را رفتار نیست

    اس میں شک نہیں کہ اسلوب بیان اور ندرت ادا کے لحاظ سے نہایت عجیب و غریب شعر ہے اور مشکل سے اس مضمون میں کسی ترقی کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ خاص کر یہ ٹکڑا ’’کایں پائے را رفتار نیست‘‘ عجب لطف دے رہا ہے، لیکن جب مومن اسی مضمون کو پیش کرتے ہیں تو عرفی کے شعر کا ہی ٹکڑا بالکل بے معنی نظر آنے لگتا ہے۔ مومن کا ارتقا ملاحظہ ہو،

    غیر کے ہم راہ وہ آتا ہے میں حیران ہوں

    کس کے استقبال کو جی تن سے میرا جائے ہے

    وہاں محبوب کو غیر کے ہم راہ دیکھ عرفی کے قدم نہیں اٹھتے اور جھنجھلا کر کہہ دیتا ہے کہ تشریف لے جائیے، میں ساتھ نہیں دے سکتا۔ یہاں مومن کی جان ہی اس منظر کو دیکھ کر نکلی جا رہی ہے جس کو وہ استقبال سے تعبیر کر تا ہے لیکن استقبال کس کا؟ یہ خود اس کی سمجھ میں نہیں آتا۔ مومن عدو کی کامیابی سے آگاہ ہو چکے ہیں لیکن باوجود اس کے، احترام محبت ملاحظہ کیجئے،

    جاں نہ کھا، وصل عدو سچ ہی سہی پر کیا کروں

    جب گلہ کرتا ہوں ہمدم وہ قسم کھا جائے ہے

    ان کے دیوان میں کثرت سے ایسے شعر ملیں گے جن میں عدو کی کامیابی اور اپنی حرماں نصیبی کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ہر جگہ ایک نئی کیفیت کے ساتھ اور عشق کی پوری نیاز آگینیوں کو لئے ہوئے، یہاں تک کہ ایک جگہ وہ بھی یہ کہہ گذرتا ہے،

    لے شب وصل غیر بھی کاٹی

    تو مجھے آزمائےگا کب تک

    میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس سے زیادہ پر درد طریقہ فراوانی جذبات کے اظہار کا اور کیا ہو سکتا ہے۔ محبوب کی ستم رانیوں سے بیزار ہوکر ترک الفت کا خیال کبھی ان کے دل میں آتا ہی نہیں۔ اگر آتا بھی ہے تو اس طرح کہ اظہار میں صد ہزار توثیق الفت پنہاں رہتی ہے، لکھتے ہیں،

    ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے

    تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی

    دنیائے شاعری مشکل سے ایسے ایجاز سدید، بیان جزیل اور عبارت انیق کی پاکیزہ مثال پیش کر سکتی ہے۔ مومن اسلوب ادا اور قدرت بیان کا بادشاہ ہے۔ وہ معمولی سی معمولی بات کا اظہار کرتا ہے تو بھی اس لطف کے ساتھ کہ اس میں جدت پیدا ہو جاتی ہے اور ذہن سامع بے اختیار انہ طور پر اس سے لطف اٹھاتا ہے۔ پھر وہ اسی سلسلہ میں جب انہونی کو ہونی او رہونی کو انہونی ثابت کرجاتا ہے تو عجیب سماں پیدا ہو جاتا ہے۔

    شب فراق کی انتہائی تکلیف سے مر جانا یا مرنے کی آرزو کرنا بالکل قدرتی خواہش ہے اور اگر کوئی شاعر اس کے خلاف جائےگا تو یقیناً فطری ادعا کے خلاف کرے گا لیکن ملاحظہ ہومومن کس حسن کے ساتھ اس کی توجیہہ کرتا ہے،

    شب فراق میں بھی زندگی پہ مرتا ہوں

    کہ گو خوشی نہیں ملنے کی پر ملال تو ہے

    مومن کی ایک اور خصوصیت جو بہت کم کسی اور کے ہاں پائی جاتی ہے، یہ ہے کہ کہیں کہیں وہ ایسے مخفی لیکن نہایت پر کیف مفہوم کے نشانات چھوڑ جاتا ہے کہ ہر شخص کی نگاہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتی۔ پھر کہیں یہ خصوصیت وہ ترکیب الفاظ سے پیدا کرتا ہے۔ مثلاً،

    کثرت سجدہ سے وہ نقش قدم

    کہیں پامال سر نہ ہو جائے

    دعا بلا تھی شب غم سکون جاں کے لئے

    سخن بہانہ ہوا مرگ نا گہاں کے لئے

    پامال اک نظر میں قرار و ثبات ہے

    اس کا نہ دیکھنا نگہ التفات ہے

    تھا محور خ یار میں کیا آئینہ دیکھوں

    معلوم ہے یار و مجھے جو رنگ مرا ہے

    اور کہیں بالکل سادگی ہے مثلاً،

    وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اب

    تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے

    پہلے مصرعہ میں لفظ پشیماں سے یہ بات ظاہر کی گئی ہے کہ کہنے والا مر چکا ہے۔ لفظ اب سے نتیجہ کا بےمعنی ہونا ظاہر کیا ہے اور دوسرے مصرعہ سے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ وقت ایسا تھا کہ میں پھر زندہ ہوتا اور تیری پریشانی سے فائدہ اٹھاتا کیونکہ اس کے بعد ممکن ہے تو میری محبت کی قدر کرتا لیکن اس میں ایک اور لطیف مفہوم مومن نے پوشیدہ رکھا ہے۔ کہتا ہے، تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے؟ کیوں کہ زندگی کی خواہش کی جاتی ہے اس لئے کہ میری لاش پر وہ پشیمان آیا ہے اور یہ منظر ایسا ہے کہ مجھ کو اس پر اپنی جان نثار کر دینی چاہئے۔ مومن زندگی اس لئے نہیں چاہتا کہ و ہ اس سے زندگی کا لطف اٹھائے بلکہ محض اس لئے کہ محبوب کی اس ادائے انفعال پر اس کو نثار کر دے۔

    مومن کا ایک مخصوص انداز بیان جو غالب کے ہاں کمتر اور دوسرے شعرا کے ہاں بالکل نہیں پایا جاتا، کسی واقعہ کے بیان میں درمیانی کڑیوں کو ملانے کی خدمت، ذہن سامع کے سپرد کر دینا ہے۔ پھر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سننے والا نہایت آسانی کے ساتھ اس خلا کو پر کر کے مفہوم تک پہنچ جاتا ہے جیسے،

    جیب درست لائق لطف و کرم نہیں

    ناصح کی دوستی بھی عداوت سے کم نہیں

    مدعا یہ ہے کہ ناصح کہتا ہے اپنی جیب و گریباں کی حالت درست کر لوں لیکن اس کی دوستی بھی عداوت ہے، کیونکہ اگر اس کے کہنے پر عمل کر کے چاک جیب و داماں میں رفو کر لوں گا تو پھر محبوب کے لطف و کرم کا اہل کیونکر اپنے آپ کو ثابت کر سکوں گا۔ اس شعر میں یہ ٹکڑا کہ ’’ناصح ایسا ایسا کہتا ہے‘‘ بالکل مخدوف ہے۔ اسی زمین کا دوسرا شعر ہے،

    بے جرم پائمال عدو کو کیا گیا

    مجھ کو خیال بھی ترے سر کی قسم نہیں

    اس شعر میں اور زیادہ مخدوفات ہیں اور ایک پوری داستان کی داستان بیان کی ہے۔ مومن محبوب کے پاس بیٹھے ہوئے نیاز عشق کوپیش کر رہے ہیں۔ محبوب نے جس عدو کو بے جرم پامال کر دیا ہے، مومن کی طرف مائل توہے لیکن اس خیال سے کہ مومن کو عدو کی بے جرم پامالی کاحال معلوم ہو گیا ہے، کچھ رک رک کر مل رہا ہے، کیونکہ ممکن ہے مومن اس واقعہ کے علم کے بعد التفات کی قدر نہ کرے یا بد ظن ہو جائے۔ مومن محبوب کی اس کیفیت کا اندازہ کر کے یہ خیال اس کے دل سے نکالتے ہیں۔ اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر میرے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا تو مجھے کوئی پروا نہ ہوگی۔ تم التفات کرو، خواہ اس کا نتیجہ وہی کیوں نہ ہو جو عدو کوبے جرم پامالی کی صورت میں بر داشت کرنا پڑا۔

    دکھاتے آئینہ ہو اورمجھ میں جان نہیں

    کہو گے پھر بھی کہ میں تجھ سے بدگمان نہیں

    اس شعر کا سمجھنا اس علم پر موقوف ہے کہ جب کسی کو سکتہ ہو جاتا ہے یا کسی کی موت کے متعلق پورا یقین کرنا ہے تو اس کے چہرہ کے قریب آئینہ لے جاتے ہیں کہ اگر ذرا بھی سانس ہوگی تو آئینہ پر نم پیدا ہو جائےگا اور اس طرح حال معلوم ہو جائےگا کہ واقعی مر گیا ہے یا نہیں۔ کبھی خلا پورا کرنے کے لئے بہت زیادہ غور کامل اور فکر عمیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً،

    عدو اس اوج پر شاکی ہے شاید غصہ آ جائے

    ملا دے خاک میں یہ تو بھی شکر آسماں کیجئے

    کیا گلے ہوتے اگر اوروں پہ بھی رحم آجاتا

    شکر صد شکر کہ میرا سا ترا دل نہ ہوا

    کس دن تھی اس کے دل میں محبت جواب نہیں

    سچ ہے کہ تو عدو سے خفا بے سبب ہوا

    تھی کمیں میں غارت بوس و دہن ہنگام خواب

    شب کی بیداری سحر کا خواب رہزن ہو گیا

    قلق کشتہ سخت جانی ہے پھر

    امید اجل آفریں ہو چکی

    مومن کبھی کسی بات کو معمولی طریقہ پر ادا نہیں کرتے اور اپنے مدعا کو ایک خاص پر لطف پیچ سے ظاہر کرتے ہیں اور ا س خصوصیت سے ان کا سارا دیوان بھرا پڑا ہے۔ مثلاً انہیں یہ کہنا تھاکہ ناصح کی نصیحت بالکل بے اثر چیز ہے، اس کو اس طرح بیان کیا،

    بات ناصح سے کرتے ڈرتا ہوں

    کہ فغا ں بے اثر نہ ہو جائے

    مومن کا محبوب بھی انہیں کی طرح ہے کہ جب وہ مومن کو تڑپتے ہوئے دیکھ کر طعن کرنا چاہتا ہے تو غیر کے صبر و سکون کا ذکر کرتا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو،

    صبح سے تعریف ہے صبر و سکون غیر کی

    کس نے شب مجھ کو تڑپتے پیش در دکھلا دیا

    مومن کا یہ کہنا مقصود ہے کہ محبوب ان کا ذکر کرنا ہی نہیں چاہتا، خواہ وہ برائی سے کیوں نہ ہو۔ اس کے اظہار کے لئے تلاش مضمون ملاحظہ ہو،

    ذکر کر بیٹھے برائی سے ہے شاید میرا

    اب وہ اغیار کی صحبت سے حذر کرتا ہے

    ایک جگہ یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ شب فرقت میں خود اپنے آپ کو ہلاک کروں گا۔ لیکن ملاحظہ ہو اس پامال مضمون کو کس رعنائی کے ساتھ بیان کیا ہے،

    دشنہ چھین لے گا کیا ہم نشیں شب فرقت

    آپ جب نہیں اپنے کون میری جان اپنا

    اسی زمین کا ایک شعر ہے، جس میں یہ ظاہر کیا ہے کہ ہم نے اس کوچہ میں اتنا زمانہ صرف کر دیا کہ شہر کی حالت بالکل بدل گئی۔

    بعد مدت اس کُوسے یوں پھرے بتنگ آ کر

    جائے جائے پھرتے ہیں پوچھتے مکاں اپنا

    مدعا یہ کہنا ہے کہ ہماری ہر تحریر وہ دشمن کو دکھا دیتا ہے۔ اس کو اس طرح ظاہر کیا،

    راز نہاں زبان اغیار تک نہ پہنچا

    کیا ایک بھی ہمارا خط یار تک نہ پہنچا

    یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ غیر کی تپش دل صحیح نہیں ہے، بلکہ صرف وہ اس کی نمائش کرتا ہے۔ اس کو یوں لکھتے ہیں،

    مانے نہ مانے منع تپشہائے دل کروں

    میں غیر تو نہیں کہ تماشائے دل کروں

    مومن اپنے محبوب سے صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اغیار سے سر گوشیاں نہ کیا کیجئے۔ اس کو اس طرح ادا کرتے ہیں،

    غیر سے سر گوشیاں کر لیجئے پھر ہم بھی کچھ

    آرزو ہائے دل رشک آشنا کہنے کوہیں

    مدعا یہ کہنا ہے کہ تمہاری خودبینی بڑھتی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ میری وارفتگی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس کے لئے مومن نے جو قیامت خیز انداز بیان اختیار کیا ہے، ملاحظہ ہو،

    خود بینی و بےخودی میں ہے فرق

    میں تم سے زیادہ کم نما ہوں

    محبوب کی بے التفاتی یا دشمنی عاشق کی موت ہوتی ہے لیکن مومن اس کو اپنی زندگی کا سبب بتاتے ہیں۔ توجیہ ملاحظہ ہو،

    ہیں آرزو سے مرگ کی بے التفاتیاں

    جینا مرا محال تو دشمن اگر نہ ہو

    مومن کے ذہن ہی میں یہ بات نہیں آ سکتی کہ سوائے کاشانہ محبوب کے کعبہ کوئی اور ہو سکتا ہے۔ اندازبیان ملاحظہ ہو،

    مومن سوئے شرق اس بت کافر کا تو گھر ہے

    ہم سجدہ کدھر کرتے ہیں اور کعبہ کدھر ہے

    گریباں کی چاک کی وسعت کو ظاہر کرنا تھا، تو اس کے لئے یہ انداز بیان اختیار کیا،

    وسعت جنوں کے جائے صدقے کہ چین سے

    پھیلائے پاؤں ہم نے گریباں کے چاک میں

    الغرض مومن کا یہ انداز بیان ان کے کلیات میں ہر جگہ نظر آتا ہے اور کوئی غزل اس رنگ سے خالی نہیں ہے۔ مومن فارسی ترکیبیں استعمال کرنے میں بھی خاص ملکہ رکھتے تھے اور اس باب میں جو چیز انہیں غالب سے ممتاز کرتی ہے وہ ترکیبوں کی نزاکت ہے۔ غالب کی فارسی ترکیبوں میں اشکال لفظی کے ساتھ دقت معنی بھی اور مومن کے ہاں ترکیبوں کی لطافت کے ساتھ مفہوم وسیع ہو جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مومن و غالب دونوں نے فارسی ترکیبوں کے استعمال میں عرفی و بیدل کا تتبع کیا اور بہت سی ترکیبیں وہی یا اسی نوع کی اختیار کیں جو عرفی و بیدل کے ہاں پائی جاتی ہیں لیکن یہ بھی یقینی ہے کہ اس باب میں مومن کو نہ صرف اولیت بلکہ افضلیت حاصل ہے۔ غالب کے اردو کلام کا بڑا حصہ محض انہیں ثقیل ترکیبوں کی وجہ سے حذف ہو چکا ہے لیکن موجودہ نسخہ میں بھی جا بجا اس کی مثالیں نظر آتی ہیں۔ مومن کے ہاں یہ ترکیبیں اس قدر حسن لطافت کے ساتھ ملی ہوئی ہیں کہ نہ خود غالب کی طرح مومن کو ان کے حذف کرنے کی ضرورت پڑی اور نہ دنیا نے ان کے قبول کرنے سے انکار کیا۔ ہر چند غالب کے اس شعر سے کہ،

    طرز بیدل میں ریختہ لکھنا

    اسداللہ خاں قیامت ہے

    یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ غالب نے بیدل کو سامنے رکھ کر فارسی ترکیبیں استعمال کیں لیکن یہ بھی یقینی ہے کہ اس کی تحریک پیدا ہوئی مومن کے کلام کو دیکھ کر، پھر چونکہ غالب اپنی فطرت کی بنا پر یہ نہ چاہتے تھے کہ لوگ مومن کا متبع سمجھیں۔ اس لئے انہوں نے ا س میں بہت زیادہ گہرا رنگ پیدا کرنا چاہا اور اس طرح کلام مومن سے امتیاز پیدا کرنے کی کوشش میں اول اول ان کے قلم سے اس قسم کے اشعار نکلے جو باوجود ثقل تراکیب کے کوئی ندرت مفہوم نہ رکھتے تھے۔ مثلاً،

    جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغ جگر ہدیہ

    مبارکباد و اسد غم خوار جان درد مند آیا

    جز قیس کوئی اور نہ آیا بروئےکار

    صحرا مگر تنگی چشم حسود تھا

    دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا

    عشق نبرد پیشہ طلبگار مرد تھا

    شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا

    تماشائے بیک کیف بروں صد دل پسند آیا

    بہ فیض بیدل نومیدئ جاوید آساں ہے

    کشاکش کو ہمارا عقدہ مشکل پسند آیا

    ہوائے سیر گل آئینہ بے مہری قاتل

    کہ انداز بخوں غلطیدن بسمل پسند آیا

    شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا

    تا محیط بادہ صورت خانہ خمیازہ تھا

    یک قدم وحشت سے درس و فتر امکاں کھلا

    جادہ اجزائے دوعالم دشت کا شیرازہ تھا

    مانع وحشت خرامی ہائے لیلی کون ہے

    خانہ مجنون صحرا گرد بے دروازہ تھا

    لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ یہ انداز شاعری نہ محمود ہے نہ مقبول تو مجبوراً انہیں پھر مومن ہی کی سطح پر آنا پڑا اور اس میں شک نہیں کہ غالب اس میں بہت کامیاب ہوئے۔ ذیل کے اشعار کو آپ مومن کے اشعار میں ملا دیجئے تو امتیاز دشوار ہو جائےگا،

    ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا

    نہ ہو مرنا تو جینے کامزا کیا

    نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں

    شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا

    نگاہ بے محابا چاہتا ہوں

    تغافل ہائے تمکیں آزما کیا

    دماغ عطر پیراہن نہیں ہے

    غم آوارگی ہائے صبا کیا

    یہ قاتل وعدہ صبر آزما کیوں

    یہ کافر فتنہ طاقت ربا کیا

    مومن کے ہاں قسم اول کا اغلاق یا ثقل ترکیب تقریباً مفقود ہے، ان کے ہاں بالکل عرفی کی سی شگفتگی پائی جاتی ہے اور کہیں کہیں وہ عرفی سے پورا استفادہ بھی کرتے ہیں۔ عرفی کے قصیدہ کا ایک شعر،

    دران دیار بہ سودارود دلم کہ دہند

    جوئے ملال بہ عمر ابدبہ بسیاری

    مومن لکھتے ہیں،

    اہل بازار محبت کا بھی کیا سودا ہے

    عشرت عمر ابد قیمت غم دیتے ہیں

    ذیل کے چند مثالوں سے مومن کی فارسی ترکیبوں کا صحیح رنگ معلوم ہوگا۔

    دیتے تکلیف شب ہجر میں آہ اپنے پاس

    نقد جاں پیشکشِ مرگ کے قابل نہ ہوا

    یہ عذرِ امتحانِ جذبِ دل کیسا نکل آیا

    میں الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا

    سرشکِ اعتراضِ عجز نے الماس ریزی کی

    جگر صد پارہ ہے اندیشہ خوں گشتہ طاقت کا

    گر وہاں بھی یہ خموشی اثر افغاں ہوگا

    حشر میں کون مرے حال کا پرساں ہوگا

    لگی نہیں ہے یہ چپ لذت ستم سے کہ میں

    حریف کشمکش نالہ و فغاں نہ ہوا

    کیا مجھ میں دم بھی لینے کی طاقت نہیں رہی

    کیا شور نالہ ہائے عزا بار کم ہوا

    پہنچے وہ لوگ مرتبہ کو مجھے

    شکوہ بخت نارسا نہ رہا

    کیوں جور متصل سے ترے غیر کھینچ گئے

    میں کیا حریف کشمکش دم بہ دم نہ تھا

    شعلہ دل کو ناز تا بش ہے

    اپنا جلوہ ذرا دکھا دینا

    بیکاری امید سے فرصت ہے رات دن

    وہ کاروبار حسرت و حرماں نہیں رہا

    صبر بعد آسائش اس قلق پہ مشکل تھا

    عیش جاوداں نکلا رنج جاوداں اپنا

    ہوش میں آ تو مجھ میں جان نہیں

    غفلتِ جرات آزما کب تک

    جرم معلوم ہے زلیخا کا

    طعنہ دستِ نار سا کب تک

    غیر سے سر گوشیاں کر لیجئے پھر ہم بھی کچھ

    آز رو ہائے دل درد آشنا کہنے کوہیں

    چشمک مری وحشت پہ ہے کیا حضرت ناصح

    طرز نگہ چشم فسوں ساز تو دیکھو

    ارباب ہوس ہار کے بھی جان پہ کھیلے

    کم طالعی عاشق جاں باز تو دیکھو

    جنت میں بھی مومن نہ ملا ہائے بتوں سے

    جو رِاجلِ تفرقہ پرداز تو دیکھو

    ان اشعار میں ا ندیشہ خوں گشتہ، خموشی اثر فغاں، ناز تابش، جور متصل، غفلتِ جرات آزما، حریف کشمکش د م بدم، شوق شکوہ اثر کی ترکیبیں کس قدر پاکیزہ، لطیف اور رنگ تغزل میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ محبت میں انسان پر دو کیفیتیں طاری ہوتی ہیں ایک وہ جس کا تعلق اس خیال سے ہوتا ہے کہ مستحق الفت ہمیں ہیں اور اس کیفیت کے تحت جو جذبات پیدا ہوتے ہیں ان میں نیاز عشق سے زیادہ پندار عشق پایا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شکوہ و شکایت، طنز و طعن، جلی کٹی کی کیفیت زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے۔ دوسری حالت وہ ہے جب الفت میں ارتقا پیدا ہوتا ہے اور مادی احساسات، ضعیف ہو کر ایک خاص انداز کی والہانہ شیفتگی، بے غرضانہ فتادگی، خود فراموشانہ ربودگی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر اس وقت محبت، خیال، شوق، آرزو، بیان غرض ہرچیز میں ایک بلند قسم کی سادگی پائی جانے لگتی ہے اور اس میں کلام نہیں کہ بلند معیار کی غزل اسی کیفیت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔

    مومن کی شاعری کا عنصر غالب وہ ہے جو قسم اول کی کیفیت سے متعلق ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ کبھی کبھی ان پر دوسری قسم کی بھی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور اس کیفیت کے ماتحت جو کچھ انہوں نے لکھا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسا اسے ہونا چاہئے اور اس کو پڑھنے کے بعد ہم اس فضا میں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے میر و درد کی شاعری کے حدود شروع ہوتے ہیں۔ غالباً نا موزوں نہ ہوگا اگر مثالاً چند اشعار یہاں درج کئے جائیں۔

    پھوڑا تھا، دل نہ تھا یہ موے پر خلل گیا

    جب ٹھیس سانس کی لگی دم ہی نکل گیا

    اس کوچہ کی ہوا تھی کہ میری ہی آہ تھی

    کوئی تو دل کی آگ پہ پنکھا سا جھل گیا

    دیدۂ حیراں نے تماشہ کیا

    دیر تک وہ مجھے دیکھا کیا

    وہ حال زار ہے میرا کہ گاہ غیر سے بھی

    تمہارے سامنے یہ ماجرا بیاں نہ ہوا

    کچھ قیس اور میں ہی نہیں سب کے سب موے

    اچھا تو درد عشق کا بیمار کم ہوا

    صبر نہیں شام فراق آ چکو

    جس سے کہ بیزار تھے تم، سو گیا

    سحر تک شام سے تجھ بن یہی حالت رکھی دل نے

    نہ مجھ کو چین دیتا تھ نہ آپ آرام لیتا تھا

    نہ مانوں گا نصیحت پرنہ سنتا میں تو کیا کرتا

    کہ ہر ہر بات پر ناصح تمہارا نام لیتا تھا

    روز کہتا تھا کہیں مرتا نہیں ہم مر گئے

    اب تو خوش ہو بے و فا تیرا ہی لے کہنا کیا

    چارہ گر زنداں میں اس کے آستاں سے لے گئے

    ایک بھی میری نہ مانی لاکھ سر پٹکا کیا

    کیا خجل ہوں اب علاج بے قراری کیا کروں

    دھر دیا ہاتھ اس نے دل پر تو بھی دل دھڑکا کیا

    سینہ پہ ہاتھ دھرتے ہیں کچھ دم پہ بن گئی

    لو جان کاعذاب ہوا دل کو تھامنا

    بےسیر دشت و با دیہ لگنے لگاہے جی

    اور اس خراب گھر میں کہ ویراں نہیں رہا

    نارسائی سے دم رکے تو رکے

    میں کسی سے خفا نہیں ہوتا

    تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

    جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

    چارہ دل سوائے صبر نہیں

    سو تمہارے سوا نہیں ہوتا

    شب رہے تجھ بن زبس بے چین و بےآرام ہم

    صبح تک رویا کئے لے لے کے تیرا نام ہم

    ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم

    پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم

    کس کی خبر اب ا ٓنے کی ہے کس کے لئے ہے یہ بے تابی

    کس لئے ہم ہیں ہر دم پھرتے، آتے ہیں اورجاتے ہیں

    دم بدم رونا ہمیں چار و ں طرف تکنا ہمیں

    یا کہیں عاشق ہوئے یا ہو گیا سودا ہمیں

    جانے دے چارہ گر شب ہجراں میں مت بلا

    وہ کیوں شریک ہو مرے حال تباہ میں

    نہ پوچھو کچھ مرا احوال میری جاں مجھ سے

    یہ دیکھ لو کہ مجھے طاقت بیان نہیں

    کہاں ہے تاب ناز برق اے کاش

    جلا دے آتش گل آشیاں کو

    اے ناصحو آ ہی گیا وہ فتنہ ایام لو

    ہم کوتو کہتے تھے بھلا اب تم تو دل کو تھام لو

    صبح عشرت ہے وہ نہ شام و صال

    ہائے کیا ہو گیا زمانے کو

    آتی ہے بوئے داغ شب تار ہجر میں

    سینہ بھی چاک ہو نہ گیا ہو قبا کے ساتھ

    سامنے جب وہ شوخ دل ربا آ جائے ہے

    تھامتا ہوں پر یہ دل ہاتھوں سے نکلاجائے ہے

    حال دل کیونکر کہوں میں، کس سے بولا جائے ہے

    سر اٹھے بالیں سے کیا کچھ جی ہی بیٹھا جائے ہے

    بخت بد نے یہ ڈرایا ہے کہ کانپ اٹھتا ہوں

    تو کبھی لطف کی باتیں بھی اگر کرتا ہے

    دیوار کے گر پڑتے ہی اٹھنے لگے طوفاں

    اب بیٹھ کے کونے میں بھی رویا نہ کریں گے

    اب یہ صورت ہے کہ اے پردہ نشیں

    تجھ سے احباب چھپاتے ہیں مجھے

    ہم بھی کچھ خوش نہیں ہوفا کر کے

    تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی

    بقدر جوش تڑپنے کو تھا ولے پس قتل

    وہ بےقرار ہوئے آ گیا قرار مجھے

    انتخاب بالا پہ سر سری نگاہ سے بھی یہ بات معلوم ہو سکتی ہے کہ مومن کے ان اشعار میں جن جذبات کا اظہار کیا گیا ہے، وہ ان سے بہت مختلف ہیں جو ان کے دوسرے اشعار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ مومن کا اصلی رنگ یہ نہیں ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اگر ان کی محبت اگر ذرا بلند ہو جاتی تو پھر آج یہ جستجو نہ ہوتی کہ اردو شاعری میں دوسرامیرؔ کون ہو سکتا ہے۔

    مومن کا کلیات مطالعہ کرنے کے بعد ایک شخص اس نتیجہ پر پہنچنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ ان کی محبت کا ہدف اگر شاہد ان بازاری کا طبقہ نہ تھا تو اس کا استعمال ضرور یہاں ہو سکتا تھا اور ایک عام کیفیت جو کلام مومن کے مطالعہ کے بعد انسان پر طاری ہو سکتی ہے اس کا تعلق کچھ اسی قسم کے جذبات سے ہے۔ یہاں تک کہ اگر واقعی کوئی شخص اس کوچہ سے نابلد ہو، تو بھی اس کے اندر اس قسم کی تحریک پیدا ہو سکتی ہے۔ اور اگر نابلد نہ ہو تو پھر وہ اپنی کیفیات کے ا ندر جس قدر لطف کلام مومن سے پیدا کر سکتا ہے اس کی کوئی حد و پایاں نہیں۔ مومن کے ہاں تشبیہات تقریباً مفقود ہیں۔ استعارات ہیں لیکن زیاد ہ نہیں۔ کنایہ کی افراط ہے اور پوری تکمیل کے ساتھ، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جو کیفیات تشبیہات کے ذریعہ سے پیدا کی جا سکتی ہیں، ان کا بھی فقدان ہے۔ مثلاً محبوب کی آواز کی تعریف ایک جگہ انہوں نے اس طرح کی ہے،

    دشنام یار طبع حزیں پر گراں نہیں

    اے ہم نفس نزاکت آواز دیکھنا

    اس شعر میں کوئی تشبیہ و استعارہ نہیں ہے لیکن نزاکت آواز کا بیان جس انداز سے کیا گیا ہے، اس میں وہی بلکہ ا س سے زیادہ اثر موجود ہے جو ایک تشبیہ کے ذریعہ سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جگہ اس سے بلند ہو کر انہوں نے تشبیہ بھی دی ہے، لیکن وہ تشبیہ بھی کیفیاتی ہے۔ شعلہ سالپک جائے ہے آواز تو دیکھو۔

    الغرض مومن نے اپنے سارے کلیات میں سوائے حکایات حسن و عشق کے اور کسی چیز سے سرو کار نہیں رکھا، اور اس سلسلے میں جتنے پہلو گفتگو کے نکل سکتے ہیں یا جس قدر تلخ و شیریں تجربات حاصل ہو سکتے ہیں، وہ سب کے سب کسی نہ کسی صورت سے ان کے کلام میں پائے جاتے ہیں، اور ان کا یہ رنگ تغزل اس قدر گہرا تھا کہ قصاید تک اسی کیفیت سے لبریز ہیں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ اشعار کسی قصیدہ کے ہیں،

    تم اور حسرت ناز آہ کیا علاج کروں

    میں نیم جاں نہ رہا امتحان کے قابل

    چلا ہی جاتا ہوں میں گو چلا نہیں جاتا

    غضب ہے شوق رسائی و دوری منزل

    خدا سے ڈر بت بے درد ہے یہ کیا انصاف

    کہ تو جفا سے نہ ہو اور وفا سے ہوں میں خجل

    وہ تند خو کہ اگر جور سے پشیماں ہو

    تو بہر عذر کرے ناز ہائے تاب گسل

    بد گمانی نے دعا سے بھی رکھا محروم آہ

    راز دل غیر سے کس طرح میں کرتا اظہار

    دھوم ہے تابشِ خورشیدِ قیامت کی مگر

    مجھ سے اللہ نہ پوچھےگا عذاب شب تار

    غیر کو بام پہ آ جلوہ دکھایا تم نے

    یہ نہ دیکھا کہ پڑا ہے کوئی زیر دیوار

    بیم رسوائی و اندیشہ بدنامی سے

    کیا کروں کر نہ سکا وحشت دل کا اظہار

    شاد شاد آئے عیادت کو دم آخر تم

    ایسے بے درد پہ کرتا ہے کوئی جان نثار

    نیک نامی نہ سہی مجھ کو ہے تم سے سروکار

    چھوڑ دوں آج وفا گر ہو وفا سے بیزار

    وہ جلے محفل دشمن میں جو ہو شمع لقا

    مجھ کو چھیڑا نہ کرو تم سے کہا ہے سو بار

    آپ دیکھا، نہ سنااور سے، پر جھوٹ نہیں

    تیری آنکھیں کہے دیتی ہیں نہ کرنا انکار

    جوش وحشت ہے یہ، ناصح نہ پنہانا زنجیر

    دیکھ دیوانہ نہو، میں نہیں پابند رسوم

    نوجواں جب کوئی جاتا ہے جہاں سے ناشاد

    تازہ ہوتا ہے تجھے داغ امید مرحوم

    کر دیا خواہش بے داد نے احوال تباہ

    تو تو ظالم نہیں زنہار پہ میں ہوں مظلوم

    جب منایا مجھے اس نے وہی الفت وہی دل

    یہ غلط ہے کہ اعادہ نہیں بہر معدوم

    اسی کے ساتھ جب شوکت الفاظ اور رفعت خیال کی طرف توجہ کرتے ہیں تو بہتر سے بہتر قصیدہ گو شعرا کے صف میں بھی ممتاز نظر آتے ہیں۔ ثبوت میں وہ قصیدہ ملاحظہ کیجئے جو اس مقطع سے شروع ہوتا ہے،

    صبح ہوئی تو کیا ہوا، ہے وہی تیرہ اختری

    کثرت دودسے سیہ شعلہ شمع خاوری

    مومن کی مثنویاں خاص چیز ہیں اور ان میں انہوں نے اپنی جولانی فکر کی پوری آزادیاں دکھائی ہیں۔ ان کے کلیات میں علا وہ غزل، قصیدہ، مثنوی کے تضمین، ترجیع بند، تخمیس، قطعات، رباعیات، تاریخیں اورمعمے بھی نظر آتے ہیں اور سخت سے سخت نقاد بھی ان کو کسی جگہ سے گرا ہوا ثابت نہیں کر سکتا۔

    مأخذ:

    انتقادیات (Pg. 24)

    • مصنف: نیاز فتح پوری
      • ناشر: عبدالحق اکیڈمی، حیدرآباد
      • سن اشاعت: 1944

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے