Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کیا جدیدیت کی اصطلاح اب بھی بامعنی ہے؟

باقر مہدی

کیا جدیدیت کی اصطلاح اب بھی بامعنی ہے؟

باقر مہدی

MORE BYباقر مہدی

    آج کا موضوع خاصا آزمائشی ہے۔ کلیدی لفظ ہے ’’اب بھی‘‘ یعنی کل تک جدیدیت بامعنی تھی۔ اصطلاحیں اپنے معنی کیسے کھو دیتی ہیں۔ میرا یہ سوال اس بات کا متقاضٰی ہے کہ بحث علمی سطح پر ہو یعنی مجھے اس کا جواب دیتے ہوئے نہایت OBJECTIVE ہونا چاہئے اور میں اس کی کوشش بھی کروں گا مگر اس سے پہلے چند باتیں ضروری ہیں۔

    جدیدیت کی اصطلاح اردو ادب میں مختلف معنی ومفہوم رکھتی تھی اور رکھتی ہے۔ جب حالی نے پیروی مغرب کی تجویز پیش کی تھی تو اس وقت انگریزی میں جدیدیت کے وہ معنی نہیں تھے جو بعدمیں ایلیٹ وغیرہ نے دیے۔ حالی صنعتی تہذیب کو لبیک کہنا چاہتے تھے گوکہ انہیں صنعتی انقلاب کے جان لیوا اور خوش آئند دونوں قسم کے اثرات کا علم نہیں تھا۔ ان کے دور میں پیروی مغرب کی تجویز ایک جدت تھی۔۔۔ پھر حلقہ ارباب ذوق اور ترقی پسند تحریک نے جدیدیت کے الگ الگ معنی ومفہوم پیش کیے۔ ایک نے نئے تجربے اور ذات کے ستون تعمیر کرنے کی کوشش کی تھی، دوسرے نے سماجی حقیقت نگاری کو جدیدیت کی کاٹ سمجھ کر سوویت مارکسزم کو اپنایا تھا۔ یہ بحث خاصی پرانی ہے۔ پھر ترقی پسند مصنفین کی تحریک پارہ پارہ ہو گئی اور جدیدیت ایک سیلاب کی طرح اردو ادب پر چھا گئی تھی۔

    اب ترقی پسند مصنفین نے اپنے بکھرے ہوئے شیرازے کو پھر منظم کیا ہے، دوسر ی طرف جدیدیت کے پرشور علم بردار جیسے شاعرعین اور واو، پروفیسر گاف، ناقد شین بھی اپنی اپنی روش چھوڑکر شاہ راہ میں شامل ہو گئے ہیں۔ عمیق حنفی اور وحید اختر ترقی پسند مصنفین میں شامل ہو گئے ہیں اور دوسرے حضرات ایک نئی انجمن کے عہدیدار بن گئے ہیں یعنی ذات کا ستون پاش پاش ہو گیا ہے اور بہ ظاہر ذاتی مفادات نے سرکش رجحانات کو پامال کر دیا ہے۔۔۔ یہ ہیں اس وقت کے منظرنامے کی جھلکیاں!

    میں نے جدیدیت کے سلسلے میں ۱۹۶۶ میں ایک مضمون ترقی پسندی اور جدیدیت کی کشمکش لکھا تھا اوریہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ جدیدیت ترقی پسندی کا رد ہے، اس لیے کہ ترقی پسندی STATUSQUO کا شکار ہو گئی تھی اور اس مضمون میں جدیدیت کو ایک سرکش رجحان قرار دیا گیا تھا۔ یہی نہیں تدریسی حلقوں نے جو جدیدیت کو لبیک کہا تھا ان کی فیشن پرستی کے خلاف بھی دلائل پیش کیے تھے، اس لیے کہ ہندوستان میں دقیانوسیت کی پناہ گاہیں تعلیمی ادارے تھے اور ہیں اور آج جبکہ جدیدیت کو وہی لوگ ہدف ملامت بنا رہے ہیں جو کل تک اس کا کلمہ پڑھتے تھے، تو میری بات خودبخود صحیح ثابت ہو گئی ہے۔ میں نے ایک شعر بھی کہا تھا جو جدیدیت کو صحیح پس منظر میں پیش کرتا ہے،

    شاعری، آوارگی، رندی، نقیب سرکشاں

    شاعری تہذیب کے محلوں کی معماری نہیں

    سرور صاحب نے اپنے ایک مختصر مضمون میں جدیدیت کی اصطلاح کی بحث یوں شروع کی ہے،

    ’’MODERNISM کا اردو ترجمہ میرے نزدیک جدت پرستی یا تجدد پرستی ہونا چاہئے MODERNISM اور MODERNITY میں فرق ہے، اگرچہ بعض حلقوں میں ان الفاظ کو مترادف سمجھا گیا ہے۔ MODERNITY کے لیے اردو میں ’’جدیدیت‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے میں اس اصطلاح کو برتوں گا۔ MODERNISM میں دو پہلو ایسے ہیں جو یہ اصطلاح استعمال کرتے وقت ہمیں ذہن میں رکھنے چاہئیں۔ اول تو یہ اصطلاح ابتدا میں کلیسا کے حلقوں میں مذہبی اصطلاح کے لیے استعمال کی گئی تھی جس سے روایت کی بجائے عقل پرزور تھا۔ دوسرے جدت پرستی میں جدیدیت کے علاوہ موجودہ دور کے صنعتی کمالات یا فیشن کے خاص پہلوؤں کی پرستش کا پہلو بھی ہے جو ظاہر ہے جدیدیت MODERNITY کی روح کو کم اور اس کی ظاہری شان وشوکت یا مقبول قدروں کو زیادہ عزیز رکھتا ہے۔‘‘

    اس مضمون کے آخر میں سرور صاحب فرماتے ہیں، ’’ادب میں جدیدیت کے معنی حسن کے کلاسیکل تصور پر قناعت کرنے کی بجائے معمولی صورت بلکہ بدصورتی میں حسن دیکھنے کے ہیں۔ جدیدیت ایک بت ہزار شیوہ ہے، اس لیے ادب میں یہ سورنگوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ کہیں یہ علامت سے کام لیتی ہے، کہیں ابہام سے، کہیں پرائیویٹ حوالے سے۔‘‘

    میں یہ باتیں سرور صاحب کے حوالے کے بغیر بھی کہہ سکتا تھا مگر ان دنوں سرور صاحب کا ذکر کرنا فیشن پرست ثقافتی حلقوں میں معیوب سمجھا جاتا ہے اور ہر وہ اہم ادیب جو ان حلقوں میں معزول ہو جاتا ہے، مجھے پسند آتا ہے۔ سرور صاحب نے جدیدیت کو اس کے وسیع معنوں میں پیش کیا ہے۔ آج اگر یہ اصطلاح بے معنی سمجھی جاتی ہے تو کیوں؟ کیا جدیدیت اردو زبان کے تخلیقی ترسیل میں مانع ہے؟ کیا جدیدیت کا نشتر ٹوٹ گیا ہے؟ اور کیا جدیدیت، رجعت پسندی کا دوسرا نام قرار پا چکی ہے؟ یہ تین سوال جدیدیت کی اصطلاح کو تین سطحوں پر جانچنے کی کوشش ہیں۔

    تخلیقی عمل ایک پراسرار عمل ہوتے ہوئے بھی خاصا جانا پہچانا عمل بنتا جا رہا ہے۔ زبان کو نئی نئی اختراعات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش جدیدیت کو فروغ دیتی ہے۔ اس کے لیے نئے الفاظ، امیجری اور ہیئتی تجربے ضروری ہیں۔ ادبی دنیا میں کوئی شجر ممنوع نہیں ہے اور جدیدیت کا سب سے بڑا کارنامہ زبان کو تخلیقی عمل میں زندہ اور صدرنگ بنانا ہوتا تھا اور ہوتا ہے۔ کیا اردو ادب میں اب یہ عمل اپنی آخری منزل تک پہنچ گیا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ ختم ہونے والا سلسلہ نہیں ہے۔ ہاں اس کی رفتار سست پڑ سکتی ہے اور اس کی تخلیقات یک رنگی کا شکار ہو سکتی ہیں۔ اس میں قصور جدیدیت کا نہیں اس کے ماننے والوں کا ہے۔

    آخر ترقی پسندی کا احیا بھی تواس لیے کیا گیا ہے کہ غلطیاں یا تنگ نظری کا شکار ترقی پسند تھے۔ ترقی پسندی یعنی مارکسزم نہیں۔ کم ازکم مارکس کی مارکسزم نہیں! اس لیے کہ وہ طریقہ کار ہے عقیدہ نہیں۔ جہاں تک نشتر ٹوٹنے کا سوال ہے تو وہ نئی نسل جس نے ترقی پسندوں کے خلاف آوازیں بلند کی تھیں وہ پل کے دوسر ی طرف پہنچ چکی ہے یعنی ’’بالغ نظری‘‘ کا شکار ہو گئی ہے اور نوجوانی کا وفور، فکر کی تیزی اور آواز کی صلابت کھو بیٹھی ہے۔ یہ تو عمر کا تقاضا تھا۔ صرف اس لیے جدیدیت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ میں نے اپنے ایک مضمون ’’جدیدیت اور توازن‘‘ میں لکھا تھا کہ جدیدیت کو سب سے بڑا خطرہ دوراندیشی یعنی مصلحت سازی سے ہے اور آخر یہی ہوا۔ نئی نسل کے بیشتر شاعر و ادیب متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور یہ اپنی موقع پرستی کے لیے تاریخی اہمیت کا مالک سمجھا جاتا ہے۔

    کیا جدیدیت رجعت پرستی کے ہم معنی ہے؟ اس لیے اب یہ اصطلاح اپنے معنی کھو چکی ہے۔ میری رائے میں اس قسم کے فیصلے مفتیان ادب ہی صادر کر سکتے ہیں۔ ایک شعر ہے،

    کیا سمجھیں اد ب کویہ نئے پیرمغاں ہیں

    کیوں تشنہ لبوں کے لیے اک جام بہت ہے؟

    اصطلاحیں اپنے معنی کھوتی ہیں، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ میں اس سے انکار نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ انہیں نئے معنی ومفہوم دے کر پھر تروتازہ کیا جاتا ہے اور اس طرح خزاں اور بہار کے موسم اصطلاحوں کی دنیا میں بھی آتے رہتے ہیں۔ تو کیا جدیدیت کی اصطلاح اپنے معنی کھو چکی ہے؟ بار بار اپنے مضامین کا حوالہ دینا نہایت معیوب معلوم ہوتا ہے مگر کیا کیا جائے کہ میری دو ایک ’’پیشن گوئیاں‘‘ صحیح ثابت ہو چکی ہیں۔ اس لیے میں یہ عرض کروں گا کہ جدیدیت کی اصطلاح اپنا رنگ وروغن کھو سکتی ہے، غیرفیشن ایبل ہو سکتی ہے اور مر بھی سکتی ہے اس لیے کہ جدیدیت بنیادی طور سے تخلیقی عمل سے جڑی ہوئی ہے اور اگر یہ اس سے کٹ کر مفادات کا ذریعہ اور ذاتی ترقی کا وسیلہ بن جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ اپنے سرچشمے سے الگ ہو کر خشک ہو جائےگی۔۔۔ اور جدیدیت کبھی قافلہ بناکر سفر نہیں کرتی یہ تو تنہا سرکش مسافر کی ہم راز ہے،

    دوچار تھے جو توڑ کے صحرا نکل گئے

    اک قافلہ سا دشت روایات ہی میں تھا

    مجھے اس موقع پر ایک اہم مضمون یاد آ گیا۔ ایک نئے امریکی ناقد WILLIAM A. JOHNSEN نے اپنے مضمون TOWARDS A REDEFINITION OF MODERNISM میں لکھا تھا کہ ہر نئی نسل گزری ہوئی اصطلاحوں کو نئے معنی ومفہوم پہناتی ہے۔ اس نے آئرس مرڈو IRIS MERDOCH کے حوالے سے کہا تھا کہ انگریزی ادب کی جدیدیت ایلیٹ، ہیوم اور رچرڈ کے تصورات کو رد کر چکی ہے، جن کا عقیدہ تھا کہ فن کا غلطی سے انسانی پیرایے میں ادراک کیا گیا ہے۔ وہ صرف مثالی پیکر علامت اور محض اظہار کو حاصل فن سمجھتے تھے یعنی جدیدیت زندگی اور فن کے مسائل سے برسرپیکار ہونے کا بھی نام ہے اور اس طرح اس نئے ناقد نے جدیدیت کو بدلے ہوئے ادبی ماحول میں نئے معنی دینے کی کوشش کی تھی۔

    جدیدیت کے ایک معنی، ایک راستہ اور ایک صفت نہیں ہو سکتی۔ یہ متضاد جذبات اور افکار کی ترجمانی کرتی رہی ہے اور کرتی رہےگی۔ صرف EMPHESIS کا فرق ہوتا ہے اور یہ فرق ہمیشہ قائم رہےگا۔ جدیدیت کا کوئی پیرمغاں اور خلیفہ بھی نہیں ہو سکتا اور جب بھی اس کو دائرے میں قید کرنے کی کوشش کی جائےگی، یہ چھوئی موئی کی پتیوں کی طرح سکڑ کر رہ جائےگی، جیسا کہ اس وقت ہو رہا ہے۔ کل تک جو ناقد ’’کمٹ منٹ‘‘ کو اصلی گناہ کہتے تھے، آج وہ ادب کے لیے لازم وملزوم سمجھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ زندگی کی تلون مزاجی کے ساتھ ساتھ ہی ادبی اصطلاحیں زندہ یا مردہ ہوتی ہیں۔

    میری رائے میں جدیدیت اب بھی ان لوگوں کے لیے بامعنی ہے جو آزادی اظہار وافکار کو اپنا آدرش بنائے ہوئے ہیں۔ جدیدیت کو اور بامعنی اور فکرخیز بنانے کی بات ایک اور مبحث کی متقاضی ہے۔

    مأخذ:

    تنقیدی کشمکش (Pg. 81)

    • مصنف: باقر مہدی
      • ناشر: خیاباں پبلی کیشنز، ممبئی
      • سن اشاعت: 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے