Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لمعہ طور مظفر پور

حقانی القاسمی

لمعہ طور مظفر پور

حقانی القاسمی

MORE BYحقانی القاسمی

    لیچی، مظفرپور کی شناخت کا صارفی حوالہ ضرور ہے۔ مگر اس سے اس شہر کی باطنی عظمت یا حشمت ظاہر نہیں ہوتی۔اسکی داخلی توانائی اس کی تخلیق و تہذیب میں ہی مضمر ہے کہ دانش کی دنیا میں تخلیقیت ہی عظمت کا حوالہ بنتی ہے۔ تخلیق ہی اقداری نظا م کی تشکیل کرتی ہے۔Enculturationکا فریضہ انجام دیتی ہے اور معاشرہ کو Anomieسے محفوظ رکھتی ہے۔

    ہر سرزمین کی طرح مظفرپور کی بھی اپنی ایک شخصیت ہے جس کے داخلی اور خارجی اسالیب اسکی عمارتوں اور اشخاص کی شکل میںنمایاں ہیں۔مگر اس کی شخصیت کا اصل انعکاس تخلیقی افراد میں اس طرح ہوتا ہیکہ شہر ، ایک شخص اورپھر انجمن میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ زمین بھی اپنی شخصیت کی ترتیب و تنظیم کچھ اس طرح کرتی ہے کہ اس کا داخلی آہنگ اجتماعی وجود میں تحلیل ہو جائے۔ اور پھر اسی سے شہر کے وجود کی مابعد الطبیعاتی کلیت منکشف ہوتی ہے اور شہر کی سوشیو بایولو جی سے بھی آگہی ہوتی ہے۔

    مظفر پور شہر کی شناخت کے تشکیلی اجزاء کو استحکام تخلیق نے ہی عطا کیا ہے جو گو کہ فرد کی اظہاری قوت کا اشاریہ ہوتی ہے۔ مگر اسی سے وہاں کی اجتماعی تخلیقی توانائی کی فضا بھی تشکیل و ترتیب پاتی ہے۔

    ادب کے مختلف شعبوں اور اصناف کو یہاں کے متو طن اور مقیم افراد نے جو وسعتیں عطا کی ہیں وہ اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ہیں اور یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ یہاں کی زرخیز مٹی میں تجسس، تفحص، حسن تخیل اور ندرت اظہار کی کونپلیں پھوٹتی رہتی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے اس سرزمین سے تعلق رکھنے والے ایسے بھی شعراء ہیں جن کی شاعری میں بے پناہ تخلیقی وفوراور کیفیت تحیر ہے۔مضطر مظفر پوری کے اشعار میں کیسی کیسی موجیں ہیں کہ حیرتوں کے دروا ہو جاتے ہیں۔ ایسی ایسی ندرتیں اورایسی جدت طرازیاں کہ گویا کلاسیکی شاعری کا باب کھل گیا ہو:

    پوچھا کہ پائوں کیوں نہیں پڑتے زمیں پر

    بولی صبا کہ آتے ہیں ان کی گلی سے ہم

    اف نگاہِ نیم بسمل کا اثر

    دور تک روتا ہوا قاتل گیا

    سر بھی قاتل کا دل بھی قاتل کا

    ہائے کوئی نہیں ہے بسمل کا

    مٹی نصیب ہو نہ سکی کوئے یار کی

    آخر اٹھا دیے گئے ان کی گلی سے ہم

    اٹھ گیا قیس اٹھ گئی لیلیٰ

    پردہ اب تک اٹھا نہ محمل کا

    تڑپ رہی ہے جو ابر سیاہ میں بجلی

    فراق میں یہی نقشہ تھا ہو بہ ہو میرا

    مظفر پور کے چند اور اشعار جن سے وہاں کی تخلیقی زرخیزی اندرت افکار اور جدت اظہار کاانعکاس ہوتاہے:

    خوشتر عجب نہیں مری مٹی وہیں کی ہو

    اک ربط خاص ہے مجھے ان کی گلی کے ساتھ

    (خوشتر مظفرپوری)

    جو کچھ کہا کہا نہیں اس کا گلہ مجھے

    تو بے وفا ہے آپ نے یہ کیا کہا مجھے

    (احقر مظفرپوری)

    ایک احسان رہ گیا سر پر تمہاری تیغ کا

    ورنہ جو کچھ مشکلیں تھیں آج آساں ہو گئیں

    (اختر مظفر پوری)

    اور اونچی ہو گئی دیوار زنداں دیکھنا

    جیسے کوئی جرم ہو سوئے گلستاں دیکھنا

    (خوشتر مظفر پوری)

    کسی کو کیا خبر بسمل کے دل پہ کیا گذرتی ہے

    یہاں سب ہیں خم ابروئے قاتل دیکھنے والے

    (سید مظفر پوری)

    کہتے ہیں کہ نتھونی لال وحشی بھی یہیں کے تھے جن کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

    مزاج حسن کو میں نے بدل دیا وحشی

    غرور عشق ہے سرخی مرے فسانے کی

    اور اسی طرح ظفر حمیدی (جو حافظ قرآن تھے ،بعد میں MBBSہوئے اور لندن سے ایم آر سی پی کی ڈگری حاصل کی)کے یہ شعر اپنے اندر تخیل کی بے کراں کائنات سمیٹے ہوئے ہیں:

    حوصلہ چائیے تعمیر نشیمن کیلئے

    شکوہ خانہ بر انداز سے کیا ہوتا ہے

    کتنی مبہم ہے ابھی وقت کے دل کی دھڑکن

    ایک ٹوٹے ہوئے بربط کی صدا ہو جیسے

    بچ گیا کل کسی حکمت سے نشیمن اپنا

    آج کی تند ہوا دیکھئے کیا کرتی ہے

    مظفر پور کے یہ شعر ایسے ہیں جن میں تخیل کی بلندیا ں، رعنائیاں سمٹ آئی ہیں اور ان میں زبان زد خلائق بننے کی قوت بھی موجود ہے اوریہی وہ اشعار ہیں جن سے مظفر پور شہر کے داخلی احساس و آہنگ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

    مظفر پور سے ہی فارسی کے ایک اہم شاعر کا تعلق ہے۔جن کا نام منشی کیولا پرساد فقیر تھا۔ جن کے بارے میں فصیح الدین بلخی نے اپنی کتاب تذکرہ ہندو شعرائے بہارمیں لکھا ہے کہ’’ منشی کیولا پرشاد فقیر ساکن مظفر پور ، بڑے ذی علم شاعر وادیب اور خوشنویس تھے۔ عربی ، فارسی ، سنسکرت اور اردو پر بھی پوری دستگاہ رکھتے تھے۔‘‘

    ڈاکٹر رضوان اللہ آروی نے ان کی شخصیت و شاعری پر لکھتے ہوئے بڑے اہم انکشافات کئے ہیں۔ انھوں نے انکی خوشنویسی کے تعلق سے فصیح الدین بلخی کے حوالے سے لکھا ہے کہ : ’’ ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک رباعی اس قدر خوب صورت نستعلیق میں لکھی ہوئی ہے کہ اگر یا قوت زندہ ہوتا تو اس کی پوری داد مل سکتی تھی۔ دیکھنے والوں کا اس صفحہ سے نظر ہٹانے کو جی نہیں چاہتا۔‘‘

    منشی کیولا پرشاد کے بارے میں ڈاکٹر رضوان آروی نے بہت معتبر اور مستند معلومات فراہم کی ہیں اور یہ واضح کیا ہے کہ ان کا دیوان حضرت علی کی منقبت پر مشتمل ہے اور یہ بہار کی اولیات میں سے ہے۔ انھوں نے ان کے سوانحی اور شعری کوائف کے تعلق سے لکھا ہے کہ’’ شاعری میں جناب فقیر کو داروغہ سید مبارک علی طالب ( ایک غیر معروف شاعر) سے تلمذحاصل تھا، جن کی کئی غزلیں دیوان فقیر میں شامل ہیں۔ جناب فقیر کی سوانح کا واحد ذریعہ ان کی ایک اردو مثنوی ہے جس سے ان کے حالات پر روشنی پڑتی ہے۔ اس کے بعض اشعار اس بات کی طرف اشارہ کناں ہیں کہ منشی کیولا پرشاد راجہ رام نراین موزوں کی اولاد میں تھے۔ وہ کہتے ہیں:

    میں احوال اپنا لکھوں مختصر

    نہیں کذب کا اس میں کچھ ہے اثر

    کہ تھے ازبزرگان من رنگ لال

    دو فرزندان کو لکھوں ان کا حال

    (یہاں دو فرزندوں سے مراد نراین اور ان کے بھائی دھیرج نراین ہیں)

    منشی کیولا پرشاد کے اشعار میں جناب فصیح بلخی نے ایک اردو دیوان قلمی، ایک اردو مثنوی اور چند قلمی وصیلوں کا ذکر کیا ہے۔ جو انہیں سید شاہ تقی حسن بلخی کے کتب خانے سے دستیاب ہوئے تھے۔ لیکن حیرت ہے کہ ان کی نگاہ سے فقیر کا ایک مطبوعہ فارسی دیوان مخفی رہ گیا:

    فصیح الدین بلخی نے اپنا تذکرہ جولائی 1961میں مکمل کیا ہے جب کہ فقیر کا فارسی دیوان 1872کے آس پاس مطبع متھلا، مظفر پور سے شائع ہو چکا تھا جس کا واحد نسخہ، خدا بخش لائبریری میں موجود ہے۔ سرورق کی اس عبارت سے دیوان کا مختصر صوری تعارف ہو جاتا ہے:

    ’’ من تصنیفات شاعری مثال شیریں مقال عاشق زار حیدر کرار منشی کیولا پرشاد صاحب خورشید رقمی کتاب لا جواب مسمی بہ دیوان فقیر معروف بہ عاقبت بخیر ، حسب فرمائش شیخ بہرام علی صاحب طالب العلم بہ مطبع متھلا واقع قصبہ مظفر پور رونق طبع یافت‘‘۔

    (بحوالہ بازیافت ، دارالاشاعت ، خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف ، پٹنہ ،1996ص 102)

    ڈاکٹر آروی نے ذات رسول سے ان کی عقیدت کا شناس نامہ اس ہفت بند نعت شریف کو قرار دیا ہے جو انھوں نے 1286ہجری میں مظفر پور میں قلم بند کیا تھا۔ اور جسے فصیح الدین بلخی نے خانقاہ فتوحہ کے کتب خانہ سے حاصل کر کے اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔

    اصغر علی بیدل کا تعلق بھی مظفر پور سے تھا جو اڑیسہ میں جا کر مقیم ہو گئے اور وہاں کی تاریخی اور تخلیقی شناخت کا ایک روشن نشان بن گئے۔ ان کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے ہی تاریخی دلائل اور شواہد سے یہ ثابت کیا کہ عہد مغلیہ میں اڑیسہ کا اولین دارالسلطنت پوری ضلع کا مقام پپلی ( پیر پلی) تھا (بحوالہ حفیظ اللہ نیول پور، اڑیسہ میں اردو ص 392) ۔ اڑیسہ کی تمدنی علمی فضا پر ان کی تحقیقات قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ راونشا کالج کٹک میں اردو فارسی شعبہ کے صدر اور شمس الدین منیری کے شاگرد اصغر بیدل اچھے شاعر بھی تھے۔ ممتاز ناقد پروفیسر کرامت علی کرامت نے شعرائے اڑیسہ کے تذکرے پر مشتمل اپنی گراں قدر تالیف ’آب خضر میں ان کے اشعار درج کئے ہیں جس سے ان کی قدر ت کلامی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:

    شباب آیا کسی کا کہ ایک فتنہ نے

    نکالی راہ نئی سر اٹھا کے آنے کی

    قسمت نے جب چمن سے نکالا تو ہم کوکیا

    فصل بہار ہو کہ خزاں کا زمانہ ہو

    سنا ہے ان کو نیند آتی ہے سن کر داستاں کوئی

    مگر نیند آئے جس سے وہ ہماری داستاں کیوں ہو

    شاعری کے علاوہ صحافت کے میدان میں بھی مظفر پور کی جلوہ نمائیاں کم نہیں ہیں۔ اسی شہر سے کبھی اخبار الاخیا ر جیسا پندرہ روزہ اخبار نکلتا تھا۔ جس کے مالکان میں بابو اجودھیا پرشاد منیری اور منشی قربان علی قربان تھے۔ اسکا پہلا شمارہ 10ستمبر 1868میں شائع ہوا۔ یہ اتنا اہم اخبار تھا کہ قاضی عبدالودود جیسے عظیم محقق نے اس کی تفصیلات یوں لکھی ہیں:

    اخبارالاخیار کے صفحہ اول میں مرقوم ہوا کرتا تھا یہ ’’ سینٹفک سو سیٹی (کذا) صوبہ بہار، کا اخبار تھا اور مطبع چشمہ نور’’ واقع قصبہ مظفر پور ضلع ترہت‘‘ میں چھپا کرتا تھا۔ یہ مہینہ میں دو بار نکلتا تھا اور اسکی سالانہ قیمت جس میں ڈاک کا محصول شامل نہ تھا، بارہ روپے تھی ۔ اسکے صفحہ ۱ میں یہ شعر بھی ہوا کرتا تھا۔

    چشمۂ نورلمعہ طوراست

    پرچہ بینی ضیا آن نور است

    ایک شمارے میں ۱۶ صفحات (تقطیع) ہوا کرتے تھے اور کاغذ اتنا برا استعمال ہوتا تھا کہ اب ’’ ہاتھ آئیں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے‘‘ کا معاملہ ہے۔ (بحوالہ چند اہم اخبارات و رسائل ، قاضی عبدالودود، ادارہ تحقیقا ت اردو پٹنہ1993ص 61) اس کے علاوہ ڈاکٹر سید احمد قادری کی تحقیق کے مطابق مظفر پور سے ممتاز تربیت (1880)مہر انور(شیخ محمد حسن ضیا) نسیم شمال 1946))ہفتہ روزہ ندائے عوام (سبط حسن رضوی) مرکز انوار (علوی القادری) لمحہ نور (شجاعت علی) گرم ہوا (ایس ہدی، عظیم اقبال) کردار ( نقی امام) شعاع مہر (1871) شہادت (مولانا امان اللہ) رضوان ( عطا الرحمن عطا کاکوی، سید علی حیدر نیر) بزم فکر وا دب ( ڈاکٹر شمیم احمد ) المحبوب (بسمل مظفروی) انعکاس (منظر اعجاز) ادراک ( قمر اعظم ہاشمی ، محمد سلیم اللہ) جیسے رسائل و اخبارات مظفر پور سے نکلتے تھے ۔ ان اخبارات کے علاوہ مظفر پور سے تعلق رکھنے والے اور بھی مدیران ہیںجن میں عارف اقبال (مدیر اردو بک ریویو دہلی)، ابرار رحمانی ( ایڈیٹر آج کل نئی دہلی) ،عتیق مظفر پوری اور تمنا مظفرپوری کے نام اہم ہیں۔ عتیق مظفر پوری نے افسانوی دنیا کے نام سے ایک رسالہ سلطان گنج پٹنہ سے نکالا جس کی ادبی حلقوںمیں خاطر خواہ پذیرائی ہوئی۔ اسی رسالے کے چوتھے شمارے (اکتوبر1986) میں شین مظفر پوری ( محمد ولی الرحمن موضوع باتھ اصلی ضلع سیتا مڑ ھی سابق مظفر پور) کا انٹر ویو شائع ہوا تھا جس میں انھوں نے انو آپا اور بند کمرہ کے بارے میں بتایا ہے کہ ان پر بہت زیادہ ردعمل ہوا اور فحش نویسی کا الزام بھی لگا۔ اسی شمارے میں شین صاحب کی ایک اہم تحریر ’کتا جو دانشور نہ تھا‘ بھی چھپی تھی جو ادبی حلقوںمیں موضوع بحث بنی رہی۔ تمنا مظفر پوری نے اطفال ادب گیا ، بچو ں کی دنیا گیا کے نام سے رسالے نکالے۔

    مظفر پور کا تنقیدی منظر نامہ بھی منور ہے کہ سلسلہ نقد سے ایسی شخصیتیں جڑی ہوئی ہیں جنہوں نے تنقید کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے اور اپنے تنقید ی تحرکات سے نئی طرفیں کھولی ہیں۔ ان میں پروفیسر نجم الہدیٰ (فن تنقید اور تنقید نگاری، مسائل و مباحث) ، ڈاکٹر خورشید سمیع، پروفیسر قمر اعظم ہاشمی( اردو میں ڈرامہ نگاری بہار کے نظم نگار شعرائ)، پروفیسر عبدالواسع اور ڈاکٹر ارشد مسعود ہاشمی (شکیل الرحمن کی غالب شناس، نفسی تجربے اور ادبی تخلیق) اور ڈاکٹر امتیاز احمد (شعبہ اردومسلم یونیورسٹی علی گڑھ) کے نام قابل ذکر ہیں۔ عبدالواسع کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوںنے بہار میں اردو سوانح نگاری اور فن سوانح نگاری پر نہایت ہی کتا بیں لکھی ہیں۔ جو اتنی مستند ہیں کہ ڈاکٹر وزیر آغا جیسے ناقد یہ اعتراف کیا کہ ان کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ اس کی موجودگی میں اس موضوع پر پیش کی گئی دیگر کتابوں کی حاجت نہیں رہتی نہ صرف اس لئے کہ ڈاکٹر عبدالواسع نے اپنے مطالعے میںتمام ماخذات کو برتاہے اور اپنے موضوع کے سلسلہ میں تمام ممکنہ معلومات یکجا کر دی ہیں بلکہ اس لئے بھی انہوں نے فن سوانح نگاری کو ایک تیسری آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘

    اس کے علاوہ’ مفہوم کی سمت‘ ا ن کی ایک اہم کتاب ہے۔ جس میں 14مضامین ہیں اور یہ تمام مضامین نہایت اہم اور عرق ریزی کا مظہر ہیں۔ ولی کا تصوف ، غالب اور ظرافت کا فن ، یادگار غالب کا سوانحی جائزہ، انیس کی جذبات نگاری، مسدس حالی کی قدر و قیمت، شاد عظیم آبادی کی سوانح نگاری، مسجد قرطبہ ایک شاہکار، علم زبان، اردو کی ابتدا و آفرینش، تنقید ، تخلیق اور نظریات ، اردو تنقید پر مغرب کے اثرات ، اردو تنقید ذات و کائنات، سوانح نگاری کا فن ، بہار میں اردو سوانح نگاری، یہ وہ مضامین ہیں جن مین ان کی تنقیدی بصیرت اور امعان نظر کے نقوش مرتسم ہیں۔ ڈاکٹر عبدا لواسع کا کام اتنا اہم ہے کہ ان پر مناظر عاشق ہرگانوی نے پروفیسر عبدالواسع فن اور شخصیت کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی اور اس طرح عبدا لواسع کے تنقیدی اطراف و ابعاد کا احاطہ کیا۔ پروفیسر عبدالواسع کا تعلق گو کہ نالندہ ضلع کے استھانوں سے ہے۔ مگر بہار یونیورسٹی مظفر پور سے ان کا تدریسی تعلق رہا ہے۔

    فکشن کے میدا ن میں بھی مظفر پور حسن مطلع کے ذیل میں آتاہے۔ یہیں سے شین مظفر پوری(جن کا افسانہ حلالہ بہت مشہور ہوا)، شفیع جاوید ، نعیم کوثر، منتخب فریدی، سلیم سر فرازوغیرہ کا تعلق ہے۔شفیع جاوید عصری فکشن کا ایک اہم نام ہے۔ گو کہ ان کا تعلق گیا سے ہے۔ مگر ان کی پیدائش مظفر پور میں ہوئی اور ان کا پہلا افسانہ ’’ آرٹ اور تمباکو ‘‘ مظفر پور کے دوران قیام ہی شائع ہوا۔ دائرے سے باہر، کھلی جو آنکھ ، تعریف اس خدا کی، رات شہر اور میں، ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ بحیثیت افسانہ نگار ان کی شناخت مستحکم ہے۔

    تحقیق کے میدان میں ایک اہم نام ڈاکڑ ایس ایم زیڈ گوہر کا ہے جنہوں نے اردو میں پہلی بار رپورتاژ کے فن کی نہ صرف قدریں دریافت کیں بلکہ اسے ادب کیصنف قرار دیتے ہوئے اس کے تشکیلی عناصر، صنفی امتیازات اور افتراقی اجزاء پر عالمانہ گفتگو کی اور نثری ادب کی اس جدید صنف کے نقوش واضح کئے اور اس کی صنفی نوعیت کا تعین کیا۔انھوں نے ممتاز رپوتاژ نگاروں میں مرزا فرحت اللہ بیگ ، (دہلی کا یادگار شاہی مشاعرہ) کرشن چندر، (پودے) شاہد احمد دہلوی(دلی کی بپتا)، محمود ہاشمی(کشمیر اداس ہے)، قرۃ العین حیدر( ستمبر کا چاند)، کے رپورتاژوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ اور آخر میں انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ:

    ’’رپورتاژ کی صنف افسانوی بصیرت اور تاریخی شعور رکھتی ہے، اس لئے فطری طور پر اس کے اسلوب کی کشش انگیزی اور معنویت بڑھ جاتی ہے۔ اگر چہ یہاں واقعات کا استنادی پہلو نمایاں رہتا ہے اور حقائق کی پیشکش ہی کو اہمیت حاصل ہوتی ہے، اس کے باوجود اسلوب تحریر خشک اور بے کیف نہیں ہوتا۔ کیونکہ رپورتاژ نگار کی ذاتی اور داخلی کیفیتیں اس کے حسن و اثر کو بڑھا دیتی ہیں۔ وہ چشم دید واقعات کا محض منشی اور محرر نہیں ہوتا۔بلکہ اپنی تخلیقی قوت اور فنی بصیرت سے انہیں ایسی روشنی بخشتا ہے جو ان واقعوں کی تابناکی و توانائی کو زیادہ توجہ طلب اور دیر پا بنا دیتی ہے۔ اس کے پیش نظر تاریخ ہوتی ہے، تاریخ سے وابستہ غیر معمولی واقعات و سانحات بھی ہوتے ہیں، اور ان واقعوں کے پس منظر میں موجزن جذبہ و احساس بھی۔ وہ ان تمام عناصر کو ایسے امتزاجی رنگ میں پیش کرتا ہے کہ رپورتاژ کی اسلوبی قوت پائیدار اور ادبی قدروں کی مظہربن جاتی ہے۔ اس فنی نوعیت کے رپورتاژ اردو میں کم لکھے گئے ہیں۔

    عام طورپر ڈائری یا اخباری رودادوں میں بھی روز مرہ کے واقعات قلمبند کئے جاتے ہیں۔ مگر یہاں نہ مورخانہ شعور ہوتا ہے، نہ فنکار انہ بصیرت اور نہ تخلیقی اسلوب! فنی طورپر رپورتاژ کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اس میں یہ تینوں عناصر متوازن رنگ میں پیش کئے گئے ہوں اور رپورتاژ نگار نے ضبط و نظم سے کام لیا ہو۔

    واقعہ نگاری، کردار نگاری اور ماحول آفرینی کے اجزاء رپورتاژ کے ضروری عناصر ہیں۔ لیکن ان تینوں عناصر کے بر تائو کا رنگ ، افسانہ سے مختلف ہوتا ہے۔ افسانہ میں تخیل و تصور، احساس اور جذبہ کی رنگ آمیزی کا پہلو بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ افسانہ نگار، کردار حسب ضرورت خلق کرتا ہے، واقعات گڑھتا اور نئے ماحول کی تشکیل بھی کرتا ہے۔رپورتاژ نگار کو نہ اس کی مہلت ہوتی ہے، نہ اس کی گنجائش۔ وہ حقائق حیات ہی سے واقعات کا انتخاب کرتا ہے۔ ان میں غیرضروری اضافے یا تخفیف کی اجازت اسے نہیں ہوتی ہے۔ اس کے کردار بھی معلوم و مقرر ہوتے ہیں۔ وہ ان کی سیرتوں کی تشکیل بھی اپنی خواہش یا مرضی کے مطابق نہیں کر سکتا ۔ جن حالات اور ماحول میں واقعات رونما ہوتے ہیں، ان میں بھی کسی طرح کی تبدیلی کا حق اسے حاصل نہیں ہوتا۔ وہ رپورتاژ کے صنفی تقاضوں کو اس احتیاط اور خوش اسلوبی سے برتتا ہے کہ قاری ان تمام حقیقتوں کا ادراک ایک فطری ڈھنگ میں کرتا چلا جاتاہے۔

    رپورتاژ کے اسلوب تحریر کا بیانیہ پہلو بھی اس کے صنفی امتیاز کا سبب ہے۔ رپورتاژ نگار تمام واقعوں اور تجربوں کو ایک فطری سادگی، سہولت اور تسلسل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ اس کے اسلوب میں تصنع نہیں ہوتا، آرائش اور جذبہ و احساس کی فراوانی بھی نہیں ہوتی ہے۔ لیکن وہ واقعوں کو ان کی داخلی کیفیتوں سے اہم آہنگ کر کے پیش کرتا ہے۔ انداز بیان کی پیچیدگی چونکہ ذہنی رکاوٹ کاسبب بنتی ہے اور اس کا بوجھل پن اسلوبی رخنہ پیدا کرتا ہے، اس لئے رپورتاژ کے لئے سادگی و صفائی اور شادابی تحریر ضروری ہے۔ فنی طورپر رپورتاژ کی کامیابی کیلئے اس میں اس عنصر صفت کا موجود ہونا لازمی ہے۔ 134-135)اردو رپورتاژ نگاری پر گو کہ ڈاکٹر عبدالعزیز کی کتاب پہلے ہی چھپ چکی تھی۔ مگر ریسرچ کی سطح پر اردو میں رپورتاژنگاری پریہ اپنی نوعیت کی پہلی کتا ب ہے۔ کیونکہ اس میں صرف رپورتاژ جمع نہیں کئے گئے ہیںبلکہ اس کے صنفی لوازمات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور تحقیق و تدقیق کے جملہ تقاضوں کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔

    اس شہر کے لئے باعث ناز و فخر بات یہ بھی ہے کہ یہیں کے موضوع مہر تھا، کانٹی سے ماہر اقبالیات بدیع الزماں (پ: 22اگست 1922، م: 9ستمبر2010) کا تعلق ہے جنہیں اقبال سے بے پناہ عشق اور لگائو ہے کہ انھوں نے اقبالیات کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔ شائد ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جسے انھوں نے چھوڑا ہوا۔ اقبال شناسی کے ضمن میں ان کی کتابیں( اقبال کے کلام میں قرآنی تعلیمات، اقبال: شاعر قرآن، اقبال کا پیام نوجوانان اسلام کے نام، مجھے ہے حکم اذاں، رہ گئی رسم اذاں) بہت اہمیت کی حامل ہیں۔

    شبیر احمد حیدری بھی مظفر پور کی اہم شخصیت تھے بینی آباد کے ساکن حیدر نے احوال و آثار محمد افضل سر خوش پر نہایت عمدہ تحقیقی کام کیا ہے۔ اخلاق جلالی، چہار مقالہ، برگزیدہ قصائد عرفی کی ترتیب ترجمہ اور تحشیہ نے انہیں تحقیق میں انہیں امتیاز عطاکیا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے