Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مخلوط زبان

مولوی عبدالحق

مخلوط زبان

مولوی عبدالحق

MORE BYمولوی عبدالحق

     

    (یہ مقالہ انجمن روح ادب الہ آباد کے اجلاس منعقدہ ۲۱ دسمبر ۱۹۴۱ میں پڑھا گیا)

    جناب صدر و حضرات!
    اردو پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ یہ مخلوط زبان ہے۔ یہاں کی خالص زبان نہیں۔ دوغلی ہے۔ اس سے تو کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ ٹھیٹ ہندوستانی زبان ہے اور رسوا ہندوستان کے کسی دوسرے ملک میں نہیں بولی جاتی۔ اب رہی یہ بات کہ یہ مخلوط ہے تو مخلوط ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ ایک اعتبار سے خوبی ہے۔

    یوں تو دنیا میں کوئی زبان خالص نہیں۔ ہر زبان نے کسی نہ کسی زمانے میں دوسری زبانوں سے کچھ نہ لفظ لیے ہیں۔ یہاں تک کہ جو زبانیں مقدس کہلاتی ہیں وہ بھی اچھوتی نہیں لیکن جسے ہم مخلوط زبان کہتے ہیں اس کی خاص حیثیت ہوتی ہے۔ مخلوط زبان سے مراد وہ زبان ہے جو دو زبانوں کے آپس میں گھل مل جانے سے ایک نئی صورت اختیار کرلے اور اس کا اطلاق ان دو زبانوں میں سے کسی پر بھی نہ ہو سکے جس سے مل کر وہ بنی ہے۔ اس کی مثال بعینہ ایسی ہے جیسے دو اجزا کیمیائی طور سے اس طرح ترکیب دیے جائیں کہ وہ اپنی ہیئت، تاثیر اور خاصیت میں ایک نئی چیز بن جائیں۔ اب اس کا طلاق ان دو اجزا میں سے کسی پر بھی نہ ہو سکےگا۔ یہی حال اردو کا ہے جو فارسی اور ہندی کے سنجوگ سے بنی لیکن اب ہم اسے نہ تو ہندی کہہ سکتے ہیں اور نہ فارسی، اردو ہی کہیں گے۔

    اس قسم کی مخلوط یعنی کھچڑی زبانوں کے وجود میں آنے کے کئی سبب بیان کیے گئے ہیں۔ منجملہ ان کے ایک ملک گیری ہے۔ ایک ملک گیری تو یہ ہوئی کہ حملہ آور آیا اور لوٹ کھسوٹ کے چل دیا۔ دوسری قسم ملک گیری کی یہ ہے کہ فاتح نے کسی ملک کو فتح کرکے اس کا الحاق اپنے ملک سے کر لیا یعنی اسے اپنی سلطنت کا صوبہ بنا لیا۔ پہلی صورت میں ظاہر ہے کہ فاتح قوم کا کوئی اثر مفتوح قوم پر نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو نہایت خفیف اور عارضی جو قابل اعتبار نہیں۔ دوسری صورت میں یا تو یہ ہوتاہے کہ فاتح جبراً اپنی زبان اس دیس میں جاری کر دیتا ہے یا اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ دونوں صورتوں میں زبان کے مخلوط ہونے کا امکان نہیں ہوتا۔

    لیکن ملک گیری کی ایک تیسری قسم بھی ہے، وہ یہ کہ فاتح مفتوح ملک میں آکر بس جاتا اور اس ملک کی قوم سے مل جل کر زندگی بسر کرنے لگتا ہے۔ اس کا اثر دیرپا اور مستقل ہوتا ہے اور اس صورت میں دو قوموں کے ملنے سے ان دونوں کی زبانوں میں بھی ٹکر ہوتی ہے۔ اگر فاتح میں رواداری ہے اور مفتوح سے برابر کا برتاؤ کرتا ہے تو دونوں کے ملنے سے ایک نئی تہذیب اور نئی زبان پیدا ہو جاتی ہے۔ اسے ہم نہ فاتح کی تہذیب اور زبان کہہ سکتے ہیں اور نہ مفتوح کی بلکہ ان میں دونوں کی تہذیبیں اور زبانیں برابر کی شریک ہوتی ہیں اور دونوں قومیں اس کی بانی اور اس کی وارث ہوتی ہیں۔ اگر یہ نہیں تو پھر کسی مخلوط زبان یا تہذیب کے پیدا ہونے کی گنجائش نہیں ہوتی۔

    مثلاً انگریز اس ملک میں ڈیڑھ دو سو برس سے حکمراں ہیں اور انگریزی کا رواج بھی ملک بھر میں غیر معمولی طور پر پایا جاتا ہے۔ دفتروں، عدالتوں، اسکولوں، کالجوں، اسمبلیوں، کونسلوں اور تجارت خانوں میں اسی کا رواج ہے۔ یہاں تک کہ ذریعہ تعلیم بھی انگریزی ہے اور باوجود کہ وہ گھر گھر پہنچ گئی ہے، اس پر بھی وہ یہاں اپنا گھر نہ کر سکی، اس کا اثر ہماری زبانوں پر ضرور ہوا اور بہت کچھ ہوا لیکن اس نے ہماری کسی زبان سے میل نہ کھایا، اس لیے کہ حکومت کے غرور اور قومی وقار نے انگریزوں کو ہندوستانیوں سے الگ الگ رکھا اور وہ یگانگت اور معاشرتی بے تکلفی جو ہم مذاقی اور ہم آہنگی سے پیدا ہوتی ہے نہ ہونے پائی اور تیل پانی کا ملاپ نہ ہوسکا۔ مولانا حالی کا قول صحیح نکلا،

    سانپ سے جس طرح رہتا ہے سپیرا دور دور
    حکم راں تیرے یونہیں تجھ سے رہیں برکراں

    لیکن مسلمانوں کی حالت جدا تھی۔ انھوں نے ہندوستان فتح کیا اور کچھ عرصے کے بعد یہیں بس گئے اور یہیں کے ہو گئے اور جب دلی میں ان کی حکومت کو استقلال ہوا اور ان میں اور اہل ملک میں ربط ضبط بڑھا تو اس کے ساتھ ساتھ فارسی اور مقامی زبان میں بھی ربط ضبط بڑھتا گیا اور جیسا کہ دستور ہے کاروباری اور ملکی اور معاشرتی ضرورت سے مسلمان بول چال میں ہندی لفظ استعمال کرنے کی کوشش کرتے اور ہندو فارسی لفظوں کی۔ ہوتے ہوتے بغیر کسی ارادے اور خیال کے خود بہ خود ایک نئی زبان کا ڈول پڑنا شروع ہو گیا۔ اس وقت کون کہہ سکتا تھا اور کسے معلوم تھاکہ آئندہ یہ دوغلی بولی جیسے اہل علم اور اہل فکر حقیر سمجھتے تھے، ایک دن مسند ادب و انشا پر جلوہ گر ہوگی۔

    مخلوط زبان میں ہوتا یہ ہے کہ غیر زبان جو کسی قوم کو سیکھنی پڑتی ہے، مخلوط نہیں ہوتی بلکہ اس کی اپنی زبان غیر زبان کے میل سے مخلوط ہو جاتی ہے۔ بعینہ یہی حال مسلمانوں کے آنے کے بعد ہوا۔ فارسی مخلوط نہیں ہوئی بلکہ مقامی زبان فارسی سے مخلوط ہو کر ایک نئی زبان بن گئی اور ہندی میں فارسی مخلوط کرنے والے ہندو تھے۔

    بات یہ ہے کہ جب کبھی ہم غیر زبان کے سیکھنے یا بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ہماری اپنی زبان کا کوئی لفظ نہ آنے پائے۔ ہماری کوشش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو صحیح اور فصیح زبان بولیں اور اس بات کی سخت احتیاط کرتے ہیں کہ ہماری گفتگو یا تحریرمیں ہماری زبان کے الفاظ یا طرز ادا کا شائبہ نہ پایا جائے۔ غیر زبان کے بولنے یا لکھنے میں ہم جس بات سے اس قدر پرہیز کرتے ہیں اس کا ہم اپنی زبان میں مطلق خیال نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر یوں سمجھیے کہ جب کوئی ہندوستانی، انگریزی بولتا یا لکھتا ہے توتا امکان اپنی گفتگو یا تحریر میں اپنی زبان کا لفظ یا اسلوب آنے نہیں آنے دیتا اور جہاں تک ہو سکتا ہے اہل زبان کی تقلید کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انگریزی لب و لہجے کی نقل اتارنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ (شروع شروع میں تو بعض ہندوستانی جنھیں انگریزی بہت چر گئی تھی، اپنی زبان بھی انگریزی لہجے میں بولنے لگے تھے۔)

    برخلاف اس کے اپنی زبان میں بیسیویں انگریزی لفظ بلاتکلف استعمال کر جاتا ہے۔ یا تو اس سے اپنی مشیخت یا علمی فضیلت جتانی مقصود ہوتی ہے یا پھر ناواقفیت اور کاہلی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔ ناواقفیت اس لیے کہ اپنی زبان سے پوری طرح واقف نہیں اور کاہلی اس معنی میں کہ اسے اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ اپنی زبان میں ان کے مترادف تلاش کرے۔ اس میں وہ کسی قدر مجبور بھی ہے۔ فاتح قوم کی زبان کے متواتر مطالعے، لکھنے، بولنے اور سننے سے معمولی اور عام ضروریات کے لفظ بھی اس کی زبان پر اس طرح چڑھ جاتے ہیں کہ بلا ارادہ بھی اپنی زبان میں بول جاتاہے۔ چنانچہ تیس چالیس برس پہلے سویلزیشن، ریفارم، پولیٹکل، سیلف رسپکٹ وغیرہ الفاظ ہماری زبان میں عام ہو گئے تھے۔

    یہ عام اصول ہندوستان کے اسلامی عہد میں بھی حرف بہ حرف عمل میں آیا۔ ملکی تسلط کے وقت فاتح قوم کی زبان فارسی تھی۔ امراء، بادشاہ، دربار اور دفتر میں رسائی کا بڑا ذریعہ یہی زبان تھی اور جیسا کہ ہونا چاہئے اور ہوتا آیا ہے اہل ہند نے فارسی سیکھنی شروع کی اور ایسی سیکھی کہ استاد ہو گئے۔ فارسی کا جاننا حصول علم و معاش ہی کی خاطر نہ تھا بلکہ فارسی تہذیب و شائستگی کی علامت سمجھی جاتی تھی اور جیسا کہ دستور ہے، فیشن میں داخل ہوگئی تھی۔ متواتر مطالعے، انشا وشعر وسخن کی مشق، سرکاری اور دفتری نوشت وخواند کی وجہ سے اہل ملک کی طبائع میں ایسی رچ گئی تھی کہ انھوں نے فارسی لفظ ملکی زبان میں بلا تامل داخل کرنے شروع کر دیے۔

    یہ بھی ایک مسلم اصول ہے کہ غیر زبان کے لفظ جو کسی زبان میں داخل ہو جاتے ہیں یا کسی زبان کو مخلوط کرتے ہیں تو وہ اصلی زبان کی صرف ونحو کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ یہی صورت اس مخلوط زبان اردو میں پیش آئی کہ فارسی کا اثر اسماء و صفات تک رہا۔ البتہ بعض حروف عطف مثلاً اگر، مگر، اگرچہ، لیکن وغیرہ آ گئے۔ اصل صرف ونحو بالکل دیسی زبان کی رہی، اور جب ضرورت پڑی، فارسی، عربی لفظوں کو ہندی قالب میں ڈھال کر اپنا بنالیا۔ مثلاً عربی الفاظ، بَدَل، کفن، دفن، قبول، بحث سے بدلنا، کفنانا، دفنانا، قبولنا، بحثنا مصدر بنالیے، اسی طرح فارسی سے بخشنا، فرمانا، نوازنا، داغنا وغیرہ بنالیے گئے۔ یہ سب اردو ہوگئے، فارسی عربی نہیں رہے۔

    زبان کے خالص ہونے کا خیال در حقیقت سیاسی ہے لسانی نہیں۔ اس کا باعث قومیت کا بے جا فخر اور سیاسی نفرت ہے۔ جرمنوں نے فرانسیسی لفظوں کے خلاف جہاد کیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک مدت تک ان کے ملک میں فرانس کا ادبی اور سیاسی تسلط رہا۔ یہ خیال ان کے دل میں کھٹکتا تھا اور اس غصے میں انھوں نے فرانسیسی لفظ نکالنے شروع کیے۔ اسی طرح اور اسی بنیاد پر زکس نے جرمنی لفظوں اور یونانیوں نے ترکی لفظوں کا اخراج شروع کیا۔ شیواجی کے زمانے میں مرہٹی سے فارسی لفظوں کے خارج کرنے کی تحریک ہوئی۔ آئرلینڈ میں محض انگریزوں کی مخالفت میں آئرش زبان کے زندہ کرنے کی جد وجہد جاری ہوئی۔ ترکوں نے عربی فارسی لفظوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ ایرانیوں نے بھی ایک زمانے میں عربی لفظوں کے نکال دینے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہی مگر اب ترکوں کی دیکھا دیکھی عربی لفظوں کے نکال دینے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔

    ان سب کی تہہ میں سیاسی غم و غصہ ہے۔ اگر بدگمانی نہ سمجھی جائے تو غالباً یہی خیال بعض جماعتوں میں ہماری زبان سے عربی فارسی الفاظ کے اخراج کا محرک ہے۔ لفظ جب ایک بار زبان میں آ گیا اور رائج ہو گیا تو وہ ہمارا ہوجاتا ہے، غیر نہیں رہتا۔ اسے غیر سمجھ کر نکال دینا سخت بے دردی ہے۔ وہ اب جائے تو کہاں جائے۔ کیونکہ اب اس کا رنگ روپ بدل گیا ہے۔ بعض وقت اس کا تلفظ اور مفہوم بھی کچھ کا کچھ ہوجاتاہے۔ اصل وطن میں تو اس کا ٹھکانا نہیں رہا اور یہاں سے دیس نکالامل گیا۔ اس کی حالت یہودیوں کی سی ہو جاتی ہے یعنی نہ گھرا نہ درا۔

    زبان میں یہ ہٹلری جائز نہیں۔ مثلاً منصوبے کا لفظ ہے تو عربی نسل کا مگر ہماری زبان میں اس کے معنی ہی اور ہوگئے ہیں۔ ارادہ، تجویز وغیرہ۔ یہ اس ہیئت اور معنوں میں اردو لفظ ہے اور اسے نکالنے کا ہمیں کوئی حق نہیں، یہی حال اور بہت سے لفظوں کا ہے جو ہماری زبان میں آکر ہمارے ہو گئے ہیں۔ مثلاً تماشا، تلاش وغیرہ جن کے معنی اصل زبان میں کچھ اور ہیں اور ہماری زبان میں کچھ اور۔

    ان وطن پرستوں کا یہ خیال ہے کہ بدیسی لفظوں سے ہماری زبان ناپاک اور خراب ہو جائےگی۔ ہمارے قومی احساس کو ٹھیس لگےگی۔ اس سے ہماری زبان کی بے مائیگی ظاہر ہوگی، نیز غیر زبانوں کے الفاظ سے زبان بوجھل اور بھدی ہو جائے گی۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ بدیسی لفظوں سے زبان خراب نہیں ہوتی بلکہ برخلاف اس کے اس میں وسعت اور قوت اور شان پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ بہت سے غیر ضروری الفاظ بھی باہر سے آکر داخل ہو جاتے ہیں۔ غیرضروری سے میری مراد ان لفظوں سے ہے کہ جن کے ہم معنی لفظ پہلے سے زبان میں موجود ہیں۔ لیکن مترادف الفاظ سے کوئی نقصان نہیں بلکہ زبان میں اضافہ ہو جاتا ہے اور زبان کی فطرت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ ایک مدت کے استعمال کے بعد مترادف الفاظ کے مفہوم میں خود بہ خود ایسے نازک فرق پیدا ہو جاتے ہیں جس سے زبان کی لطافت بڑھ جاتی ہے اور وہ لفظ جو پہلے غیر ضروری سمجھے جاتے تھے ضروری ہو جاتے ہیں۔

    یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ بدیسی الفاظ سے زبان بوجھل اور بھدی ہوجاتی ہے۔ وہ لفظ جو غیرزبان سے آ کر داخل ہوجاتے ہیں وہ اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ زبان میں پوری طرح کھپ جاتے ہیں اور ان کی اجنبیت بالکل جاتی رہتی ہے اور ان میں اور دیسی لفظوں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ اس لیے وہ زبان پر بار نہیں ہوتے بلکہ اس میں آسانی اور وسعت پیدا کرتے ہیں۔

    انسانی خیال کی کوئی تھاہ نہیں اور نہ اس کے تنوع اور وسعت کی کوئی حد ہے۔ زبان کیسی ہی وسیع اور بھرپور ہو، خیال کی گہرائیوں اور باریکیوں اور نازک فرقوں کو صحت کے ساتھ ادا کرنے میں قاصر رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے اداکرنے کے لیے طرح طرح کے جتن کیے جاتے ہیں۔ مترادف الفاظ ایسے موقعوں پر بہت کام آتے ہیں۔ مترادف الفاظ سب ہم معنی نہیں ہوتے، ان کے مفہوم اور استعمال میں کچھ نہ کچھ ضرور فرق ہوتا ہے۔ اس لیے ادائے مطالب میں ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

    خاص کر شاعری کے اغراض کے لیے مترادف الفاظ کا کثرت سے ہونا بہت کام آتا ہے۔ شاعر ان کے ذریعے سے لطیف سے لطیف خیال اورنازک سے نازک جذبات کو ادا کر سکتا ہے۔ پھر اسے ردیف و قافیے کے لیے بہت سہولت ہو جاتی ہے۔ ادیب اور شاعر کے لیے لفظ کا انتخاب بڑی اہمیت اور قدر و قیمت رکھتا ہے۔ ایک برمحل صحیح لفظ کا انتخاب کلام میں جان ڈال دیتا ہے۔ مخلوط زبان میں انتخاب کی بہت گنجائش ہوتی ہے۔ ذوق کا شعر ہے،

    مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے
    مسیح و خضر بھی کرنے کی آرزو کرتے

    خاصا شعر ہے مگر کوئی خاص بات نہیں۔ میری تقی میر اسی مضمون کو یوں ادا کرتے ہیں،

    لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا
    کب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزا جانا

    یہاں ’’کھپا جانا‘‘ کے لفظ نے کیا کام کیا ہے، کوئی دوسرا لفظ رکھ کر دیکھیے یہ بات نہیں آئے گی۔ اسی شعر میں ’لذت‘ اور ’مزہ‘ دو مترادف لفظ ہیں، اگر ایک ہی لفظ دونوں جگہ استعمال ہوتا تو شعر سست اور بے مزہ ہو جاتا،

    محبت ہے یا کوئی جی کا ہے روگ
    سدا میں تو رہتا ہوں بیمار سا

    ہماری زبان میں مرض، بیماری، روگ عارضہ مترادف ہیں لیکن ایک سچا شاعر یا ادیب خوب سمجھتا ہے کہ کون لفظ کہاں استعمال کرنا چاہیے۔ اسی شعر میں جی کے ساتھ ’روگ‘ کی جگہ مرض یا بیماری یہ لطف نہ دے گا۔

    غرض فارسی کے میل سے ہماری لغت میں بے بہا اضافہ ہوا ہے۔ الفاظ کے ساتھ ساتھ خیالات بھی آ جاتے ہیں۔ صرف لفظوں کا ذخیرہ کوئی چیز نہیں، بڑی چیز ان کا استعمال ہے جو خیال کے صحیح طور پر ادا کرنے میں ہے۔ مترادفات کے نازک فرق، خیالات میں صفائی اور صحت بیان پیدا کرنے میں بڑی مدد دیتے ہیں اور یہ نہ بھی ہو تو ایک فائدہ یہ ہے کہ بار بار ایک لفظ کے اعادے سے جو بیان میں بھدا پن آ جاتا ہے، وہ رفع ہو جاتا اور کلام میں حسن پیدا ہو جاتا ہے۔

    اگر زبان کی قدر و منزلت ان مقاصد کے پورا کرنے میں ہے جن کے لیے زبان بنی ہے تو ہمیں اس امر کوماننا پڑےگا کہ غیرزبان کے الفاظ داخل ہونے سے ہماری زبان کو بے انتہا فائدہ پہنچاہے۔ عوام کی زبان یعنی کھڑی بولی جس پر اردو کی بنیاد ہے، اس قدر محدود تھی کہ اگر اس میں فارسی عنصر شریک نہ ہوتا تو وہ کبھی علم وادب کے کوچے سے آشنا نہ ہوتی اور اس وقت جو اردو میں اظہار خیال کے نئے نئے ڈھنگ پیدا ہوگئے ہیں، وہ ان سے محروم رہتی۔

    اردو میں ہندی اور فارسی لفظ مل جل کر شیر وشکر ہو گئے ہیں اور عام بول چال، محاوروں اورکہاوتوں میں بے تکلف آ گئے ہیں۔ مثلاً تم کس باغ کی موٗلی ہو، اِکّے دُکّے کی خیر، اشرفیاں لٹیں اور کوئلوں پر مہر، ایک آنکھ میں شہد ایک آنکھ میں زہر، لاکھ کا گھر خاک ہو گیا، اللہ کادیا سر پر، خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں، بد اچھا بدنام برا، بدن پر نہیں لتّا پان کھائیں البتہ، باہمن مشری بھاٹ خواص، اس راجہ ہوئے ناس وغیرہ وغیرہ سیکڑوں کہاوتیں ہیں۔ یہی حال محاوروں کا ہے مثلاً اللہ بیلی، آنکھوں میں خار لگنا، خدا لگتی کہنا، آنکھوں پر پردہ پڑ جانا، لہو لگا کے شہیدوں میں ملنا، اللہ میاں کی گائے۔

    مخلوط زبان میں ایک آسانی مرکب الفاظ کے بنانے میں بھی ہوتی ہے۔ دیکھیے ہندی فارسی کے میل سے کیسے اچھے اچھے مرکب لفظ بن گئے ہیں مثلاً دل لگی، نیک چلن، جگت استاد، بھتیج داماد، گھر داماد، سمجھ دار، گنڈے دار، اُگال دان، عجائب گھر، کفن چور، جیب گھڑی، امام باڑہ، منھ زور وغیرہ وغیرہ ہزاروں مرکبات ہیں۔

    مخلوط زبانوں کے بننے کے دوران میں ایک اور بات بھی عمل میں آتی ہے جو قابل غور ہے یعنی ان میں سے ہر زبان کو اس خیال سے کہ جانبین کو ایک دوسرے کی بات آسانی سے اور جلد سمجھ میں آ جائے، اپنی بعض خصوصیات ترک کرنی پڑتی ہیں اور صرف ایسی صورتیں باقی رکھنی پڑتی ہیں جو یا تو مشترک ہوتی ہیں یا جن کا اختیار کرنا دونوں کے لیے سہل ہوتا ہے اور اس طرح دونوں میں ایک توازن سا پیدا ہو جاتا ہے جو فریقین کے لیے سہولت کا باعث ہوتا ہے۔ اردو کے بننے میں بھی یہی ہوا۔ فریقین یعنی ہندو مسلمان دونوں نے اپنی اپنی زبانوں میں کتر بیونت کی۔ اپنی مخصوص خصوصیات ترک کیں اور اس قربانی کے بعد جو نئی زبان بنی اسے اختیار کر لیا، جو اب بھی ہماری ملکی اور قومی زبان ہے اور ہندوستان کی مشترک اور عام زبان ہونے کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ ہم نے اسے قربانی کرکے حاصل کیا ہے اور کسی کا منھ نہیں ہو سکتا کہ ہم سے چھڑائے۔

    ایک حکیم کا قول ہے کہ ’’غیر اقوام کے لوگوں کو اپنی قوم میں اس طرح جذب کر لینا کہ اپنے اور غیر میں امتیاز نہ رہے، بلاشبہ مشکل ہے لیکن غیر زبان کے الفاظ کو اپنی زبان میں اس طرح جذب کر لینا کہ معلوم تک نہ ہو کہ یہ غیر ہیں، اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔‘‘ یہ استعداد اردو میں بہ درجہ کمال موجود ہے۔ اس میں سیکڑوں ہزاروں لفظ غیر زبانوں کے اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ بولنے اور پڑھنے والوں کو خبر تک نہیں ہوتی کہ دیسی ہیں یا بدیسی، اپنے ہیں یا پرائے۔

    غرض ہماری زبان ایک خوش اور ہرا بھرا گل دستہ ہے جس میں رنگ برنگ کے خوب صورت پھول اور نازک پتیاں ہیں۔ کیا ہم اس وہم سے کہ اس میں گلاب بدیسی ہے اور کچھ پتیاں باہر کے پودوں کی ہیں، انھیں نوچ کر پھینک دیں گے؟ اگر کوئی ایسا کرے تو سراسر نادانی ہے۔

    مجھے سر تیج بہادر سپرو کے اس قول سے حرف بہ حرف اتفاق ہے کہ ’’یہی زبان جسے ہم اردو کہتے ہیں تنہا وسیلہ ہے جس سے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی تہذیب کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہی وہ ذریعہ ہے جس سے ہندو مسلمانوں میں اتحاد پیدا کیا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں اس سے بڑھ کر کوئی غلطی نہیں ہوسکتی کہ اس زبان کو مٹانے اور اس رشتے کو توڑنے کی کوشش کی جائے۔

    مأخذ:

    خطبات عبدالحق (Pg. 159)

    • مصنف: مولوی عبدالحق
      • ناشر: انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
      • سن اشاعت: 1944

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے