مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات : ڈاکٹر شکیل الرحمن
مرزا غالب کی شخصیت نے ان کی شاعری کو چار چاند لگانے میں مدد کی۔ ان کا رکھ رکھائو، ان کی گفتگو، احباب کی محفلوں میں شرکت، طرز زندگی اور سیاسی اور سماجی معاملات و حالات پر ان کاردعمل اور ان جیسے دوسرے کچھ ایسے عوامل تھے جن کے سبب مرزا کی شخصیت اور شاعری دونوں لائق توجہ بن گئیں۔ ان کے روزنامچے، ان کے خطوط اور پھر فارسی میں دوسری نثری تحریریں ایسی ہیں جن کو دیکھ کر ان کی ہمہ جہت شخصیت کے گہرے ہونے اور ان کے علمی اعتبار سے فائق ہونے کا پتہ چلتاہے۔
غالب عہد مغلیہ کے آخری چشم وچراغ بہادرشاہ ظفر کے زمانے میں شاعری کر رہے تھے۔ دربار شاہی میں ان کی رسائی بھی تھی بلکہ ذوقؔ دہلوی کے بعد غالب کو ہی ظفر کے استاد شاعری ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ مغل عہد میں رائج رقص و سرود کی محفلوں اور ان کے آداب و اطوار کے ساتھ ساتھ اس عہد کی موسیقی و مصوری، رقص اور فن تعمیر سے ان کی گہری وابستگی تھی۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ فطری طور پر وہ فنون لطیفہ کی ان شاخوں سے اپنی ذہنی ہم آہنگی تسلیم کرتے تھے۔ قصوں، کہانیوں، داستانوں اور اساطیر سے بھی انھیں گہرا شغف تھا۔ یہ سب عوامل ایسے ہیں جو غالب کو فن کے اعلی منصب پر فائز کرتے ہیں۔ سب سے بڑی بات غالب کے ساتھ یہ تھی کہ ان میں قوت اکتساب بہت تھی۔ ان کا وژن (Vision) بالیدہ اور جمالیاتی شعور پختہ تھا۔جمالیاتی شعور پختہ ہونے کے لیے محسوسات اور مدرکات کی ضرورت پڑتی ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالب کے اندر جوقوت مشاہدہ تھی اس کا دارومدار ان کے مدرکات و محسوسات پر تھا۔ جمالیاتی مشاہدہ تسویہ اور تعدیل پر منحصر کرتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہوا ہے: اَلَّذِیَ خَلَقَکَ فَسَوَّاکَ فَعَدَلَک فِی ایِّ صُورَۃٍ مَا شَائَ رَکَّبَک۔ (82: 7-8)
غالب کے جمالیاتی وجدان وشعور کو شکیل الرحمن نے دریافت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ کوشش غالب کے تمام شارحین کبار کے لیے مشعل راہ ہے۔ان کی کتاب ’’مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات‘‘ (ص588، اشاعت اول 1987)،غالبیات کی تفہیم کا ایک نیا زاویہ پیش کر تی ہے۔ شکیل صاحب کی غالب فہمی کا سرا داستان اور اسطور،رقص وسرود‘مصوری اور دوسرے آرٹ سے ملتاہے۔غالب کے شعری جہان میں پوشیدہ طلسمی وداستانی تلازموں کی جستجو اور پھر ان کا تجزیہ جس طرح شکیل الرحمن نے کیا ہے، اس سے ان کی محنت اور موضوع سے ان کی دل چسپی کا اندازہ ہوجاتاہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’وسعت معنی کے پیش نظر غالب نے صورت، تصویر،پیکر اور محا کات وتمثال کی ایک انتہائی خوبصورت،حد درجہ پر کشش اور معنی خیز کائنات خلق کی ہے کہ جس میں ان کا جمالیاتی شعور مسلسل متحرک نظر آتاہے اور ہم اس کائنات میں داخل ہوتے ہیں تو داستانی روایات کے احساس کے ساتھ صورتوں،پیکر وں،تصویروں اور تمثالوں کے طلسمیات کی گرفت میں آجاتے ہیں،بلا شبہ یہ ایک عظیم تخلیقی کارنامہ ہے۔(ص 121) شکیل الرحمن نے باتیں بہت پتے کی کہی ہیں، لیکن غور کریں تو اس اقتباس میں صورت،پیکر،تصویر اور تمثال کو دہرایاگیاہے۔اس اقتباس کے دو حصے کر دیے جائیں تو اسکا یہ عیب زائل ہو جاتاہے۔آئیے اس تخلیقی کارنامے اور حرکت وعمل اور طلسمی وداستانی فضاآفرینی کے ذیل میں اشعار دیکھیں :
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
ثابت ہوا ہے گردن مینا پہ خون خلق
لرزے ہے موج مئے تری رفتار دیکھ کر
موج خود حرکت وعمل اور جمالیاتی تگ ودو کی علا مت ہے۔اس نوع کے دو اشعار اور دیکھیں جن میں ’ موج ‘ سے کام لیا گیاہے :
دیکھو تو دلفریبئی انداز نقش پا
موج خرام یار بھی کیا گل کتر گئی
مری آنکھوں میں یارو اشک ایساموج مارے ہے
کہ جیسے ساغر سیمیں میںصہبا موج مارے ہے
جس متحرک جمالیات کا ذکر غالب کے حوالے سے ہورہاہے،شکیل الرحمن نے اس حوالے سے غالب کی شعری جمالیات کا مرکزومحور،رقص کو بتایاہے۔ شرح وبسط کے ساتھ انھوں نے غالب کے فارسی اور اردو اشعار کی روشنی میں ’رقص‘ کے حوالے سے جمالیاتی رموز کو پیش کیاہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ ’’رقص جمالیات کا سر چشمہ ہے‘‘ (ص 419 )۔ یہاں انھوں نے رقص کاذکرذات کے حوالے سے کیا ہے :ذات یا وجود کا رقص ایساہے کہ احساس اور جذبے کی متحرک حسّی تصویریں نقش ہو جاتی ہیں۔‘‘ (ص 419) یہاں انھوں نے غالب کی ایک فارسی غزل پیش کی ہے جس کی ردیف’’ رقص ‘‘ ہے۔اس کا مطلع ہے :
چوں عکس پل بہ سیل بہ ذوق بلا بہ رقص
جا را نگاہ دار و ہم از خود جدا بہ رقص
شکیل الرحمن نے غالب کی شاعری کے حوالے سے ہندوستانی اور مغل جمالیات کا تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔ ان کی فکری اور تنقیدی بساط پر جمالیاتی مُہرا بڑی شان سے خرام پا نظر آتا ہے۔ غالب کی جمالیات اور طرز احساس کی تفہیم شکیل الرحمن کے اس اقتباس میں ملاحظہ کیجیے:
’’ہند مغل جمالیات کا وہ طرز احساس کہ جس نے ہندوستان کی مٹی کی خوشبو کے ساتھ اپنی تازگی، نئے پن اور انوکھے پن کا احساس حضرت امیر خسرو کی موسیقی، تاج محل کی تخلیق اور میر تقی میر کی شاعری میں دیا تھا، غالب کی شخصیت سے جذب ہوکر انتہائی متحرک صورت میں نقطۂ عروج پر پہنچ جاتا ہے اور ایک کلچر کی جمالیاتی تکمیل کا احساس بخش دیتا ہے‘‘۔ (ص 420)
میں جب ذاتی طور پر انسان کے ذہنی سفر اور جمالیاتی احساس پر غور کرتا ہوں تو علامہ اقبال کا تخلیقی جلال و جمال ان مصرعوں میں نمودار ہوتا ہے اور مجھے متحیر کردیتا ہے۔ ڈاکٹر نصیر احمد ناصر لکھتے ہیں کہ قرآن حکیم کی رو سے جمال اور جلال، حسن کی دو صفات ہیں، جمال کی خاصیت رحمت و نزاکت اور جلال کی قوت و جبروت۔ (اقبال اور جمالیات: ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، ص 165)۔ اس جلال و جمال کو اقبال نے دوران خون اور فکر خالص کا حصہ بنا لیا ہے۔ بات غالب کے حوالے سے ہو رہی تھی مگر یہ حوالہ اوپر دیے گئے اقتباس کی تفہیم میں معاون ثابت ہوگا۔ اقبال کے یہ اشعار ملاحظہ کرلیجیے:
سینۂ شاعر تجلی زار حسن
خیزد از سینائے او انوار حسن
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و زاغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
آیاکہاں سے نالۂ نے میں سرور مے
اصل اس کی نے نواز کادل ہے نہ چوب نَے
یہاں بات اپنی بھی کہنی تھی اور شکیل الرحمن کی جمالیاتی تنقید کی بھی۔ علامہ اقبال کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
’’حسن کی دریافت اور پہچان کے لیے اقبال نے ایک بڑا سفر کیا ہے… تجلی زار حسن جو سینۂ شاعر ہے، وہ حسن جو فطرت اور کائنات میں ہے اور وہ حسن جو خالق کائنات ہے یہ سب ایک وحدت کی صورت محسوس ہونے لگتے ہیں۔‘‘
(محمد اقبال 1993، ص21)
حسن کی دریافت اور تجلی زار حسن کے حوالے سے شکیل الرحمن نے اقبال اور غالب کے شعری سرمائے کی بخوبی چھان پھٹک کی ہے۔ ان کی جستجو ہمیشہ ٹھوس نکات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ وہ ہوا میں باتیں کرنے کے بجائے کلام سے بین ثبوت فراہم کرتے ہیں تاکہ قارئین کو شبہ نہ رہ جائے۔ احساس جمال اور جلال کو شکیل الرحمن نے غالب کے کلام میں تلاش کیا ہے اور اپنی آراء کے ساتھ ساتھ فارسی اور اردو کے اشعار بھی پیش کیے ہیں — ان آراء کے کچھ حصے اور چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’خلوت و جلوت میں جلال و جمال کی کثرت آرائی ہے، حسن مطلب باہمہ بھی ہے اور بے ہمہ بھی، تمام اشیاء و عناصر میں جذب بھی ہے اور ماورا بھی…‘‘
’’وجود کی ہر تجلی میں اسی کا جلال و جمال ہے :
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئینہ دایم نقاب میں
’’زندگی بڑی خوبصورت اور انتہائی دلکش ہے، فرش تا عرش موج رنگ کا طوفان ہے:
صد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھائیے
طاقت کہا ں کہ دید کا احساں اٹھائیے
جلوہ از بس کہ تقاضائے نگہ کرتاہے
جوہر آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا
’’جلال و جمال کی وحدت کا احساس، خلوت و جلوت میںجلال و جمال کی کثرت آرائی، زندگی کے حسن، اشیاء و عناصر کے جمال اور ذات اور کائنات کے رنگوں، آوازوں اور خوشبوئوں کی یکسانیت سے ملتاہے‘‘۔
وہی اک بات ہے جو یاں نفس واں نکہت گل ہے
چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا
جام ہر ذرہ ہے سرشارِ تمنا مجھ سے
کس کا دل ہوں کہ دوعالم میں لگایا ہے مجھے
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
اس طرح غور کریں تو معلوم ہوگا کہ غالب کی شاعری میں جو جلال و جمال کی کرنیں ضو پاشی کر رہی ہیں، شکیل الرحمن انہی کرنوں کی یافت میں منہمک ہیں۔ انھوں نے جس طرح غالب کی اصطلاحوں اور ترکیبوں کے تلازموں اور تلمیحوں تک پہنچنے کی کوشش کی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ غالبیات کے کسی دوسرے ماہر نے اس انجذاب و انہماک سے وہاں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہوگی۔ پھر یہ جمالیاتی توجیہات کے لیے جس دقّت نظری کی ضرورت ہوتی ہے، شکیل الرحمن نے اسی دقت نظری سے کام لے کر اپنی تنقیدی بصیرت کو صیقل کیاہے۔
جمالیاتی تجربے کے تحت وحدت اور وجدان و عرفان کو بھی شکیل الرحمن نے اپنا موضوع بنایا ہے۔غالب کے شعری و جدان میں جو جمالیاتی شعور موجزن ہے اس کی نشاندہی شکیل صاب نے کرنے کی کوشش کی ہے۔ تخلیقی آرٹ کا ذکر کرتے ہوئے انھوںنے اپنے مطالعے کے حصار میں رسوں کے عرفان، بدھ ازم کے وِجنن واد، موڈرن فزکس، آنند، ہندوستانی جمالیات کے درشن، سمکار (Samkara) اور آفاقی جمالیاتی تجسیم (Universal Vicariation) کو لے لیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ جمالیاتی تجربہ ایک متحرک تخلیق ہے جس کاارتقا ہوتا ہے۔ کروچے کا ماننا کچھ ایسا ہی تھا اور غالب اسی شعری و تخلیقی تحرک کی تصدیق کرتے ہیں۔ اقبال بھی یہی سمجھتے ہیں:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں
آئیے شکیل الرحمن کی جمالیاتی کشید اور تنقیدی بصیرت کی ہم آمیزی دیکھیں اور منتخب اشعار بھی ساتھ ساتھ ملاحظہ کریں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ذات کے عرفان نے جمالیاتی وحدت کا جو حسی تصور دیا ہے اس سے غالب دو نہایت ہی اہم رجحانات شدت سے ابھارتے ہیں:
.1 ذات کے وسیلے سے حیات و کائنات کے جلال و جمال کو پہچاننے کا رجحان ذات کی ایسی بیداری کہ اشیا و عناصر اورحیات و کائنات کی جمالیاتی وحدت کا عرفان حاصل ہو…
.2 تصوف کی روشنی پی کر اور اس کے رسوں سے آشنا ہوکر خدایا حسن مطلق کے وجود کو مرکز حسن بناکر تمام اشیاء و عناصر اور حیات و کائنات کے حسن و جمال کی وحدت کو شدت سے محسوس کرنے کا رحجان۔ (ص 510-513)
اشعار :
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا
از مہر تابہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کو شش جہت سے مقابل ہے آئینہ
ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے
پر تو سے آفتاب کے ذرہ میں جان ہے
در شاخ بود موجِ گل از جوشِ بہاراں
چوں بادہ بہ مینا کہ نہا نست و نہاں نیست
اس باب میں 39 اشعار ہیںجن میں سے میں نے ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کے تحت صرف چھ اشعار درج کیے ہیں۔ اسی میں آگے چل کر فارسی کے گیارہ اشعار ملتے ہیں۔ یہاں طوالت کے سبب چھوڑتا ہوں اور ’’ذات کے عرفان‘‘ اور ’’جمالیاتی وحدت‘‘ کے حوالے سے گفتگو اور تجزیے کے بعد شکیل الرحمن جس نتیجہ پر پہنچے ہیں اس کو پیش کرتا ہوں:
’’جمالیات کے ان دو بڑے نظام کی خوبصورت آمیزش سے جو سیپ پیدا ہوا اس سے غالب ایک انتہائی نادر موتی کی مانند باہر نکلے ہیں۔ تجربوں کا وقار، ان کی طاقت اور ان کی تمام گہرائیاں، ان سے گہرا بامعنی رشتہ رکھتی ہیں۔ یہ خود کو ایک کل (Whole) میں تبدیل کرنے کا عمل ہے کہ جس سے فطرت، جبلت، جذبہ، عقل و دانش سب کے توازن کا زبردست احساس ملتاہے۔ ان دونوں رجحانات نے جہاں ہر شئے میں اظہار کی شدت کے جلوے دکھائے ہیں وہاں رقص اور تحرک کے شدید ترین احساس کو پیدا کرتے ہوئے تخلیقی تخیل اور فینتاسی، سے نئی جمالیاتی دریافت کا اک معنی خیز پر اسرار سلسلہ قائم کردیا ہے کہ جس سے ’ہند مغل جمالیات‘ میںایک مستقل عنوان قائم ہوجاتا ہے‘‘۔ (ص 516)
عرفان ذات، ہمارے ذہن کو تصوف کی طرف لے جاتا ہے، جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ غالب بیدل کے خوشہ چیں رہے ہیں۔ جزو میں کل یا کثرت میں وحدت کا نظر آنا گویا وحدت الوجود کا نظریہ ہے۔ شکیل الرحمن نے بیدل اور غالب کے اشعار کا تقابل اور تفاعل پیش کیا ہے۔ یہاں غالب نے بیدل سے جو اکتساب کیا ہے اس کی طرف بھی اشارے ہیں لیکن اس کی وضاحت بھی ہے کہ غالب ذہنی و جذباتی رشتہ رکھنے کے باوجود اپنے مزاج، تیور رجحان اور تخلیقی رویے کے لحاظ سے مختلف ہیں۔(ص 570)۔ اس باب پر تفصیل سے بحث نہیں کرتے ہوئے غالب کی شاعری اور ہند مغل آرٹ میں مصوری کے حوالے سے گفتگو آگے بڑھائی جاتی ہے۔
مصوری پر شکیل الرحمن نے اپنی کتاب ’ہندوستانی جمالیات جلد دوم‘ میں بھی تفصیل سے لکھا ہے۔ مصوری اور مجسمہ سازی کو باریکی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس باب میں انھوں نے قدیم تحقیق پیش کی ہے۔ غاروں، دیواروں اور برتنوں پر کی گئی نقاشی کا سراغ لگایاہے۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ مصوری مجسمہ سازی کی بنیاد رہی ہے۔ (ص 115، ہندوستانی جمالیات حصہ دوم)۔ یہاں پوری تاریخ پیش کرنے کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش۔ یہاں مغل عہد کے حوالے سے مرزا غالب کے شعری وجدان کو مصوری سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شکیل صاحب نے غالب کو جس زاویہ سے دیکھنے اور پرکھنے کا کام انجام دیا ہے، اس طرف کسی دوسرے ماہر غالبیات کی نظر نہیں اٹھی ہے یا پھر یہ کہ یہ کام کچھااتنا مشکل تھا کہ کسی نے اس طرف قدم بڑھانے کی ہمّت ہی نہیں کی۔
مرزا غالب کی شاعری میں ہند مغل مصوری کا عکس نظر آتا ہے۔ غالب کی شخصیت کی اتنی جہتیں ہیں کہ تمام کا احاطہ مشکل ہے۔ امکانات کی مختلف النوع جہات میں ایک اہم جہت مصوری بھی ہے۔ غالب نے شعوری اور غیرشعوری طور پر مغل آرٹ اور وسط ایشیا، چین، عراق، ترکی، مصر وغیرہ کی جمالیات اور اس کی روایات سے رشتہ قائم رکھا ہے۔ شکیل الرحمن نے غالب کی شعری تخلیق کے حوالے سے ان کے وژن کو Discover کرنے کی انتہائی کوشش کی ہے۔ انھوں نے بڑی جانفشانی سے ہر ایک باب کے لیے غالب کی فکری و فنی جہتوں کو روشن کرنے کا نیا طریقہ اختیار کیا ہے۔ کہنا چاہیے کہ ہر باب اپنا ایک واضح Synopsis بھی رکھتا ہے۔ مصوری کے حوالے سے انھوں نے لکھا ہے۔
’’وہ ایک مصور ہیں ’آئینہ‘ ان کا کینوس بھی ہے، جلوہ صد رنگ پیش کرتے ہیں۔ ہند مغل مصوری نے بھی انھیں ایک وژن عطا کیا ہے اور اس مصوری سے ان کے تخلیقی رشتے کی وجہ سے نت نئی متحرک تصویریں بنی ہیں اور آرائش و زیبائش کا ایک نیا معیار قائم ہوا ہے‘‘۔ (ص169)
مصور کے لیے کائنات کی اشیا کا ادراک ضروری ہے۔ صحرا، جنگل، جبال و سفال سب سے گہری وابستگی ہونی ضروری ہے۔ مصوری بھی شاعری ہے جو رنگوں اور برش قلم سے وجود پذیر ہوتی ہے۔ لیکن غالب شاعری میںیا شاعری کے ذریعہ مصوری کرتے ہیں، یہ لائق توجہ ہے۔ اوپر کے اقتباس کو غور سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ غالب کی مصوری کے آلات (Tools) رنگ اور برش نہیں یا وہ کینوس نہیں جس کا استعمال ایک نرا مصور کرتا ہے۔ شکیل صاحب نے ’آئینہ‘ کو کینوس بتایا ہے۔ شاید یہ توجیہ مناسب بھی ہے کہ آئینہ میں ہی صورت متشکل ہوتی ہے۔ ایک مصور بھی کسی شئے کی شبیہ ہی پیش کرتا ہے۔ مرزا غالب آئینہ کو کینوس کے بطور استعمال کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غالب کا ذوق شعر اور ذوق مصوری دونوں ایک دوسرے کے لیے توانائی بہم پہنچاتے ہیں۔ امداد امام اثر نے اس ضمن میں بڑی متوازن رائے دی ہے:
’’جو جو امور صحیح مذاق شاعری کے لیے درکار ہیں وہی امور صحیح مذاق مصوری کے لیے بھی درکار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مصوری اور شاعری میں اس قدر مجانست ہے کہ جب انسان کا مذاقِ مصوری صحیح ہوتاہے تو شاعری کا مذاق بھی درست ہوتا ہے۔ جب ہوں گے تو دونوں فنون کے مذاق صحیح ہوں گے یا دونوں کے غلط ہوں گے‘‘۔ (’کاشف الحقائق‘، ترقی اردو بیورو، 1982، ص 79)
غالب مصوری کرتے ہیں تو نوک قلم اور فنکاری کے برش سے۔ ظاہر ہے کہ غالب کا ذوق صحیح، دونوں معنوں میں درست ہے۔ غالب کے ذہن میں مانی ایک حسی پیکر کے طور پر اُبھرتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہماری قوت باصرہ اس مقام کو پہنچ جائے۔ مانی اور مانویت (Mancichaeism) کا ایک طویل سفر ہے، جس نے پوری دنیا کو اور بالخصوص وسط ایشیا کو خوب خوب متاثر کیا۔ جو تخلیقی بصیرت مانی کے کارناموں کو گنجینۂ معنی کا طلسم بناتا ہے وہی تخلیقی بصیرت مرزا غالب کو بھی گنجینۂ معنی کا طلسم بنادیتی ہے۔
غالب اپنی غزلوں میں مانی کو طرح طرح سے پیش کرتے ہیں۔ ان کے سامنے مغل آرٹ اور اپنی روایات کے نمونے موجود تھے۔ مغل فنکاروں کے نوادرات اور خوبصورت محلوں اور قلعوں کے منقش در و دیوار بھی ان کے سامنے زندہ اور متحرک تھے۔ شکیل الرحمن نے شرح و بسط کے ساتھ غالب کی جمالیاتی حس کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ مانی اور غالب کو شکیل صاحب نے اپنی جمالیاتی تنقید کی عینک سے دیکھا اور پرکھا ہے۔ اس تجزیہ سے انھوں نے جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ دلچسپ ہیں۔ بقول شکیل الرحمن:
’’مانیؔ کا اسلوب ایک پیکر جمال کی طرح ان کے ذہن سے وابستہ تھا، چین، بت خانہ چین، مانی اور طرز مانی یا اسلوب مانی کا ذکر کرکے دراصل وہ اپنی اعلیٰ فنی روایات اور جلال و جمال کے تئیں اپنی بیداری کا احساس عطا کرتے ہیں۔ تزک بابری سے لال قلعے تک مغل فنکاری کی پوری داستان اپنے تمام جلووں کے ساتھ ان کے سامنے موجود تھی اور جو حسی سطح پر بت خانہ چین اور نگارخانہ مانی کے معیار کو چھوتے تھے‘‘۔ (ص 183)
یہاں جو اشعار پیش کیے گئے ہیں ملاحظہ کیجیے:
نقش، رنگینیٔ سعیِ قلمِ مانی ہے
یہ کمر دامنِ صد رنگ گلستاں زدہ ہے
زلف تحریر پریشان تقاضا ہے مگر
شانہ ساں، مو بہ زباں خامۂ مانی مانگے
یہاں شکیل الرحمن کا ایک اور تجزیہ لطف سے خالی نہ ہوگا، لکھتے ہیں:
’’غالب مصوری اور مصوروں کے عمل کو شاعری کی جلوہ گری تصور کرتے ہیں۔ نقش بندی کے عمل کو بت پرستی اور صریر خامہ کے آہنگ کو نالۂ ناقوس سے تعبیر کرتے ہوئے انھوں نے مصوری میں شاعری کی روح کا مشاہدہ کیا ہے۔
بت پرستی ہے بہارِ نقش بندی ہائے دہر
ہر صریر خامہ میں، یک نالۂ ناقوس تھا
(ص 189)
اس شعر کی تشریح میں ڈاکٹر گیان چند جین سے جو چوک ہوئی ہے اس کی طرف بھی شکیل الرحمن نے اشارہ کردیا ہے۔ ڈاکٹر گیان چند نے لکھا ہے۔ ’’مناظر دنیا کی اچھی اچھی تصویریں کھینچنا بت پرستی ہے کیونکہ یہ غیراللہ کے حسن کی طرف مائل کرتی ہے۔ اس طرح نقاش کے قلم کی ہر آواز سنکھ کی آواز بن جاتی ہے جسے ہندو لوگ مندر میں بجاتے ہیں‘‘۔ (تفسیر غالب، ص 116)
اس کے ذیل میں شکیل صاحب لکھتے ہیں اور صحیح لکھتے ہیں:
’’مناظر دنیا کی اچھی اچھی تصویریں کھینچنے کو بھلا کون بت پرستی کہتا ہے۔ مناظر دنیا کی اچھی اچھی تصویریں کب غیراللہ کی طرف مائل کرتی ہیں۔ مناظر دنیا کو تو خدا کے حسن کے جلوئوں سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔ غالب تو خود ایک بڑے بت تراش اور بت پسند ہیں… اور مصوری کو جسے وہ خود ’’بہارِ نقش بندی ہائے دہر‘‘ سے تعبیر کررہے ہیں ایسی بت پرستی قرار دیں جو غیر مناسب یا معیوب ہو‘‘۔ (ص 189)
سچی بات یہی ہے کہ ڈاکٹر جین سے چوک ہوگئی ہے۔ یہاں تو بت پرستی مثبت انداز میں پیش کی گئی ہے۔ غالب کا صریر خامہ نالۂ ناقوس کی صفت رکھتا ہے۔ ناقوس کی آواز بت خانہ میں بت پرستی کے وقت ابھرتی ہے۔ یہاں غالب صریر خامہ میں مصوری والی صفت کا بیان کرتے ہیں۔ صریر خامہ سے ایک بت خانہ منقش ہوگیا ہے۔ یہ تخلیقی وفور اور فکر عالی کا نمونہ ہے۔ شکیل الرحمن نے اس شعر کے ذیل میں غالب کی قوت نقش گری اور شعور مصوری کا ذکر کیا ہے اور تفصیل سے نالہ ناقوس اور اس کے آہنگ کے تاریخی اور تہذیبی تلازمات کی روشنی میں غالب کی وسیع النظری پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ غالب کی تشریح آسان ہے لیکن تفہیم و تعبیر قدرے مشکل۔ اس عمل میں کوتاہی بھی ہوسکتی ہے۔ غالب تو ایسا طلسمی اور کنفیوژنگ شعری تمثال پیش کرتے ہیں کہ تنقید اور تنقید نگار کی سانس اکھڑ جاتی ہے۔ لیکن Close Reading سے اس کی معنوی پرتیں کھلتی جاتی ہیں۔ شکیل الرحمن نے غالب کی جمالیات کو صحیح طور پر سمجھنے اور پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ غالب کے ذہن پر نقاشی اور مصوری کس قدر حاوی ہے، اس شعر سے اندازہ کیجیے:
بہ وقت کعبہ جوئی ہا، جرس کرتا ہے ناقوسی
کہ صحرا فصل گل میں رشک ہے بت خانۂ چیں کا
قاری کے ذہن میں اس کی پہلی قرأت سے الٹی سیدھی تعبیریں پیدا ہوسکتی ہیں۔ لیکن بار بار اور بغور اس کی قرأت کی جائے تو غالب کی شاعری میں شعور مصوری اور احساس جمال کو دیکھا جاسکتا ہے۔ شکیل صاحب لکھتے ہیں:
’’قافلہ کعبے کی طرف جارہا ہے۔ جرس بج رہا ہے، جنگل پر بہار آئی ہوئی ہے۔ جنگل کیا ہے فصل گل کا آئینہ ہے… ناقوس کا آہنگ حسن کے جلوئوں اور پیکروں اور دیوتائوں کے جلال و جمال کا پراسرار تاثر عطا کرتا ہے۔ حسن پسندی اور حسن پرستی نے جرس کا آہنگ تبدیل کردیا ہے۔ اسی کے ساتھ فنکار کا ذہن بت خانۂ چین کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے اور جنگل کے خوبصورت پھولوں اور پتوں اور خوبصورت درختوں اور پودوں کا حسن اور ان کی روشنی اور خوشبو اسے چین کے پیکر تراشوں، مجسمہ سازوں اور نقش گروں اور مصوروں تک پہنچادیتی ہے۔‘‘(ص 193)
مرزا غالب کی شاعری میں کچھ لفظوں کے خاص معانی ہیں۔ یوں تو ہر شاعر کے یہاں لفظوں کے خاص معانی ہوتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہ نکالا جائے کہ اس سے لفظوں کی معنوی جہتوں کی تحدید ہوتی ہے۔ اوپر جس طرح جنگل، پیڑ پودے اور پھول پتے غالب کے لیے رنگوں کا کام دیتے ہیں اسی طرح غالب کے یہاں طائوس اور پر طائوس اور بیضۂ طائوس رنگوں کے استعارے ہیں۔ محبوب کی انگلیوں کو غالب نے مصور کے قلم سے تشبیہ دی ہے جس کی صراحت شکیل صاحب نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ کردی ہے۔ اپنی باتیں کرنے سے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا غالب کے شعروں کو جس طرح سمجھنے اور سمجھانے کی کامیاب کوشش شکیل الرحمن نے کی ہے، آپ کے سامنے ان کی تحریر اسی طرح پیش کردی جائے۔ غالب کی شاعری میں جمالیات کے جو نقوش ابھارے ہیں وہ شکیل الرحمن ہی کے بس کی بات تھی۔ بات چوں کہ شعر غالب میں مصوری کی ہو رہی ہے اس لیے یہ شعر دیکھیے اور شکیلیاتی تعبیر و تشریح سے اقتباس بھی ملاحظہ کیجیے:
جوں پر طائوس جو ہر تختہ مشق رنگ ہے
بسکہ ہے وہ قبلۂ آئینہ محو اختراع
’’جس طرح کوئی مصور تختہ مشق رنگ کو سامنے رکھ کر مختلف رنگوں سے کوئی نقش ابھارتا ہے اسی طرح محبوب بھی آئینے کے سامنے اپنے چہرے پر طرح طرح کی رنگینیوں کے اختراع میں مصروف ہے، آئینے پر محبوب کے رنگوں کا جلوہ وہی ہے جو تختۂ مشق رنگ پر ہوتا ہے جس طرح پر طائوس تختۂ مشق رنگ کا جوہر ہے اسی طرح محبوب کی انگلیاں مصور کے قلم کی طرح عمل کر رہی ہیں‘‘۔ (ص 194)
شکیل الرحمن کا ذہن مصوری سے ناگزیر طور پر ہم آہنگ ہے۔ انھوں نے سفر نامۂ روس یعنی ’قصہ میرے سفر کا‘ (1976)، میں بھی مصوری اور مجسمہ سازی کے نمونوں کی خوبصورت تشریح پیش کی ہے۔ ان کی ہر تشریح میں تخلیقی رویہ (Creative Attitude) کار فرما نظر آتاہے۔ بلکہ تہذیبی تخلیق کے نمونے شکیل الرحمن کی تنقیدوں اور دوسری نوعیت کی تحریروں میںبھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ ان کی تنقید میں جو تخلیقیت ہے اس کی نشاندہی کئی ہم عصر نقادوں نے کی ہے۔ جس نقطۂ نظر سے شکیل الرحمن نے غالب کی تشریح و تعبیر پیش کی ہے وہ واقعی اچھوتا ہے۔ پروفیسر اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں:
’’حیرت زدہ ہوں کہ شکیل الرحمن نے اتنا بڑا کام اتنی دقت نظر اور بصیرت کے ساتھ کیسے انجام دیا۔ اس موضوع پر اس سے بہتر کتاب کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ غالب کے کلام کی تفسیر اس نقطۂ نظر سے اور اتنے اعلیٰ اور وسیع پیمانے پر ابھی تک کسی نے نہیں کی۔‘‘ (شکیل الرحمن ایک لجنڈ، ص 223)
اسلوب صاحب کی رائے میں صداقت اور خلوص ہے۔
غالب کا یہ شعر دیکھیے اور اس کی مصوری کی داد دیجیے:
گریہ بزم باغ کھینچے نقش روئے یار کو
شمع ساں ہوجائے قطِ خامۂ بہزاد گل
شکیل صاحب نے لکھا ہے کہ ’بزم باغ‘ مغل مصوری کا ایک مقبول اور ہر دلعزیز موضوع ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک جہت تو یہ ہے کہ اگر بہزاد اس منظر کی تصویر کشی کرے تو محبوب کے خوبصورت چہرے یا نقش روئے یار کا یہ اثر ہو کہ اس کے قلم کی نوک پھول بن جائے، نقش روئے یار کا اثر بہزاد کے قلم پر ہو، چہرے کی سحر انگیزی کا یہ ردعمل خود ایک تصویر بن جاتا ہے اور بہزاد کی حیرت انگیز مسرت کا ایک تاثر ملتاہے۔ شمع کے سر پر بھی گل پیدا ہوتا ہے اس سے دوسری جہت پیدا ہوتی ہے۔ بزم باغ میں محبوب کے چہرے اور اس کے نقش کو ابھارنے کی کوشش بہزاد بھی کرے تو ناکامی اس کی تقدیر بن جائے اس کے قلم پر شمع سا گل آجائے۔
مرزا غالب کی تفہیم کی کوشش پہلے بھی ہوتی رہی ہے اور اب بھی جاری ہے لیکن غالب کی شاعری میں جو جمالیات کی جہتیں موجود ہیں ان تمام کے حوالے سے اور بالخصوص رقص، موسیقی اور مصوری کے حوالے سے انھیں پیش کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ کام دیدہ وری اور دقت نظری کے ساتھ نہایت ہی پرکشش اسلوب اور جمالیاتی رنگ میں شکیل الرحمن نے کر دکھایا۔ غالب کو اگر اس زاویہ نظر سے دیکھنا اور پڑھنا ہو تو اس میں شکیل صاحب کی تخلیقی تنقید ہی کام آسکتی ہے۔ بقیہ دوسرے نقادوں نے کئی مقام پر بقراطیت کے زعم میں غالب کے شعری جمال کو پامال بھی کیا ہے۔ غالب کے ذہن میں کینوس بھی ہے اور رنگ بھی، برش بھی ہے اور افکار بھی۔ اسے تصویر بنانے میں کیا دقت ہوسکتی ہے۔ دیکھیے غالب اپنی قوت مصوری و متخیلہ سے کیسی کیسی تصویریں بناتا ہے۔ کینوس پر مصوری کے نمونے دیکھیے:
گل کھلے، غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی
سر خوشِ خواب ہے، وہ نرگس مخمور ہنوز
حلقۂ گیسو کھلا دودِ خطِ رخسار پر
ہالہ دیگر بہ گردِ ہالۂ مہ ہوگیا
خط جو رخ پر جانشین ہالۂ مہ ہوگیا
ہالہ، دودِ شعلۂ جوالۂ مہ ہوگیا
شب کہ وہ گل باغ میں تھا جلوہ فرما اے اسد
داغِ مہ جوشِ چمن سے لالۂ مہ ہوگیا
ایسا لگتا ہے جیسے مصور فنکار نے محبوب، باغ، پھول، گیسو، ہالہ، رخسار، نرگس مخمور، غنچے، داغ مہ اور لالۂ مہ کی تصویریں صفحہ قرطاس (کینوس) پر کھینچ کر رکھ دی ہیں۔ ان اشعار کی صراحت اور تعبیر شکیل الرحمن نے بڑی خوبصورتی سے پیش کی ہے۔
دراصل ایسے نازک اشعار میں تحیر کا ایک ایسا عالم خلق ہوتاہے جو سامع یا قاری کو سکتہ میں بھی ڈال دیتا ہے اور کینوس پر غور کرنے سے تمام مذکور اشیا متصور ہوکر متحرک ہوجاتی ہیں اوریہی ہے مصور شاعر کا کمال۔ اس کام کے لیے غالب کے اپنے Tools بھی ہیں۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں:
’’غالب کی شاعری میں صفحہ بے نقش، قط خامہ، نقش، نقش بندی، گرد تصویر، صریر خامہ، پیکر آرائی، تختۂ مشق رنگ، دریائے رنگ، نقطۂ پرکار، برنگ سایہ، شوخی رنگ، شوخیٔ نیرنگ، تصویر چاک، طلسم رنگ، شوخیٔ صد رنگ وغیرہ کا جو استعمال ہے، اس سے مصوری سے ان کے ذہنی رشتے کی خبر ملتی ہے‘‘۔ (ص 198)
غالب کی شاعری میں جو مصوری اور تصویر کشی کے نمونے ملتے ہیں ان پر شکیل الرحمن نے صفائی اور تخلیقی فکر سے روشنی ڈالی ہے۔ غالب کے ذہن نے روایتوں اور تہذیبوں سے جو کچھ کشید کیا تھا انھیں اپنی شاعری میں یوں ضم کردیاکہ کوئی ِذہین قاری ہی ان کی جڑوں تک پہنچ سکتا ہے۔ غالب اور ہند مغل جمالیات میں ایسے بہت سے اشعار پیش ہوئے ہیں۔ یہاں صرف چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
شکل طائوس گرفتار بنایا ہے مجھے
ہوں وہ گلدام کہ سبزے میں چھپایا ہے مجھے
گر دکھائوں صفحۂ بے نقش رنگ رفتہ کو
دستِ رد، سطر تبسم یک قلم انشا کرے
عکس رخ افروختہ تھا تصویر بہ پشت آئینہ
شوخ نے وقت حسن طرازی تمکیں سے آرام کیا
ہے جہاں فکر کشیدن ہائے نقش روئے یار
ماہتاب ہالہ پیرا گردۂ تصویر ہے
موقوف کیجیے یہ تکلف نگاریاں
ہوتا ہے ورنہ شعلۂ رنگ حنا بلند
حسن خود آرا کو ہے مشق تغافل ہنوز
ہے کف مشاطہ میں آئینہ گل ہنوز
شکیل الرحمن نے غالب کی شاعری کی ترکیبوں اور پیکروں کی ایک فہرست بھی مرتب کردی ہے جن کی تعداد 263 ہے اور یہ تراکیب ابتدائی شاعری سے تعلق رکھتی ہیں۔ فن تعمیر، نقاشی اور مصوری نے غالب کے ذہن کو بہت متاثر کیا تھا، لہٰذا اسی کی مناسبت سے غالب نے اپنی شاعری میں رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے۔ ان ترکیبوں اور پیکروں نے ہند مغل جمالیات کی تصویر کو غالب کی شاعری میں اور بھی صاف اور شفاف کردیا ہے۔ مغل آرٹ نے غالب کی شاعری کو اردو شاعری کا عمدہ اور دلکش آرٹ بنادیا۔ شکیل الرحمن نے غالب کی شاعری اور تخلیقی بصیرت کی تفہیم کے لیے بہت سے سوالات بھی قائم کیے ہیں اور اپنی تنقیدی اور تخلیقی قوت سے ان کے جواب بہم کرنے کی کامیاب کوشش بھی کی ہے۔
اول تو سوال قائم کرنا ہی ایک مشکل امر ہے، پھر یہ کہ تشفی بخش جواب بھی فراہم کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے غالب کی تفہیم کے لیے خلاصہ کے طور پر نکتے بیان کیے ہیں جن کی اہمیت قیمتی Quotations سے کم نہیں۔ شاعری کو سمجھنے کے لیے شکیل الرحمن کی شرح و تعبیر کو پڑھنا ضروری ہے۔ اس معنی میں کہ ان کے اندر تفہیم شعر کے لیے شعر کے باطن اور لہو میں اترنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے ان کی شعری تفہیم کا تجربہ ایک سچا تخلیقی تجربہ بن جاتا ہے۔ شکیل الرحمن لہو اور سرخ رنگ کے بارے میں چند حقائق اور نکات پیش کرتے ہیں، جو ان کے آئندہ طریقہ تجربہ کو تقویت بخشتے ہیں۔ چند نکات دیکھیے:
w آدم کاایک نام سرخ زمین (Red Earth) بھی ہے۔
w عہد نامہ قدیم میں روح کو لہو کا پیکر کہا گیا ہے۔
w بائبل میں کہا گیا ہے کہ روح لہو میں سفر کرتی ہے۔
w لہو (سرخ رنگ) پہلے انسان کا حسی تصور بھی ہے اور عظیم ماں (Great Mother) کے لاشعوری احساس کی علامت بھی۔
w عورت کالہو تخلیق کا جوہر ہے۔ پرانے قبائلی حسی تصورات میں اس تصور کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ (ص 2570)
اور بھی بہت سے حقائق اور اساطیر کو بطور نکات کے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ غالب لہو اور سرخ رنگ دونوں پر عاشق ہیں اور ان استعاروں کے بڑے شاعر ہیں۔ اس کے ذیل میں پندرہ اشعار بھی پیش کیے گئے ہیں۔ کچھ اشعار دیکھیے اور شکیل الرحمن کی غالب فہمی کی داد دیجیے:
میں نے جنوں میں کی جو اسد التماس رنگ
خون جگر میں ایک ہی غوطہ دیا مجھے
اچھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصور
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی
غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا
درد دل لکھوں کب تک جائوں ان کو دکھلا دوں
انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا
ہے خون جگر جوش میں دل کھول کے روتا
ہوتے جو کئی دیدۂ خونابہ فشاں اور
گویا غالب لہو رنگ شعری تمثال کا شاعر ہے۔ اگر غالب کی شاعری سے رنگ، رقص اور تحرک ہٹا دیے جائیں تو کچھ نہیں رہ جاتا۔ حرارت اور رنگینی نے غالب کے شعروں کو جمالیات کا آئینہ خانہ بنادیا ہے۔ غالب کا تخلیقی وژن اور شعری تجربہ بڑے ہی ارفع مقام پر جلوہ افروز ہے۔ آئیے ذرا رنگوں کی دنیا بھی دیکھتے چلیں جن کی تفہیم کا فریضہ شکیل الرحمن نے ادا کیا اور سب سے الگ ہٹ کر کیا ہے، جو منفرد ہے اور غالب کی شاعری کی طرح متحرک و جلال و جمال کا آئینہ بھی۔ سترہ اشعار میں سے صرف یہ اشعار دیکھیے:
بسکہ شرم عارض رنگیں سے حیرت جلوہ ہے
ہے شکستِ رنگ گل آئینہ پردازِ نقاب
عمر میری ہوگئی صرفِ بہارِ حسنِ یار
گردشِ رنگ چمن ہے ماہ و سالِ عندلیب
ہے تصور میں نہاں سرمایہ صد گلستاں
کاسۂ زانو ہے مجھ کو بیضہ طائوس و بس
آگے چل کر ایک اور جگہ رنگ اور اس کے تاثرات کو واضح کرنے کے لیے 19 اشعار پیش کیے گئے ہیں، اور اس سے پہلے طائوس کے حوالے سے متعدد اشعار کی تعبیریں پیش ہوئی ہیں جو بلاشبہ رنگوں کے طلسم اور مصوری کو پیش کرتے ہیں۔ کیوں نہ یہاں بھی شکیل الرحمن کے زاویۂ انتخاب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ اشعار ملاحظہ کرلیے جائیں:
رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتنِ گلہائے ناز کا
اچھا ہے سر انگشت حنائی کا تصور
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی
کرے ہے بادہ ترے لب سے کسب رنگ فروغ
خط پیالہ سراسر نگاہِ گلچیں ہے
گردشِ ساغرِ صد جلوۂ رنگیں تجھ سے
آئینہ داری یک دیدۂ حیراں مجھ سے
بادہ، لہو اور سرخ رنگ کے پیکروں کو غالب کی شاعری میں جس طرح محسوس کیا جاسکتا ہے دوسرے کسی شاعر کے یہاں مشکل سے ہی ان پیکروں کو اس طرح محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی نے پیش کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کی بھی ہوگی تو وہاں تحرک کے بجائے انجماد اور جمال و جلال کے بجائے پھیکے پن اور ضعف کی صورت پیدا ہوگئی ہوگی۔ شکیل الرحمن نے غالب کی فارسی شاعری سے بھی اکتساب کیا ہے اور مثالیں پیش کی ہیں۔
غالب کے شعری اظہار اور فکری اسرار کی پرتیں کھولنے کے لیے شکیل الرحمن نے تخلیقی تنقید سے کام لیا ہے۔ لفظوں اور ترکیبوں، اصطلاحوں اور پیکروں کی چھان پھٹک کرکے ان کے باطن میں اترنا اوران کی توجیہات، ان کی جہات ان کے رموز اور فنکارانہ استعمال کو شرح وبسط کے ساتھ نہایت ہی رواں اسلوب میں پیش کرنا آسان نہیں۔ شکیل الرحمن کی جمالیاتی بصیرت ان کی تنقید کو بھی تخلیقی رنگ میں ڈبو دیتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ ان کی نثر میں بوجھل پن اور اکتاہٹ کا شائبہ نہیں ملتا۔ غالب کے ڈکشن کو انھوں نے جس طرح کھنگالا اور ان کی تہوں میں اترنے کی جیسی فنکارانہ کوشش کی ہے وہ قابل رشک ہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ غالب کی جولانیٔ طبع نے شکیل الرحمن کی تنقیدی بصیرت کو مہمیز کرکے رواں اور سبک بنادیا ہے۔ شعروں کی تشریح اور Paraphrasing کا ان کا اپنا طریقہ ہے جو دلچسپ اور موثر ہے۔
ابھی اوپر لہو اور سرخ رنگ کا ذکر ہوا ہے۔ غالب کے اشعار میں رنگوں کی ایک دنیا آباد ہے۔ سرخ رنگ اور لہو کے بعد شکیل الرحمن نے سبز اور سیاہ رنگوں کی تلاش کی ہے اور پھر حوالے کے طور پر اشعار اور ان کی تعبیریں پیش کی ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’سیاہ اور سبز دونوں حسن کی علامتیں ہیں، غالب کی شاعری میں جہاں ان دونوں رنگوں کا حسن ظاہرہوا ہے وہاں سرخ رنگ کے امتزاج اور سرخ رنگ کے تاثر کے ساتھ ان کے جلوہ ریز شعری تجربوں کی رنگ آمیزی میں کشش پیدا ہوگئی ہے۔ غالب نے تیرگی اور سبزے کو اپنے احساس حسن سے جلووں کی صورتیں عطا کردی ہیں۔‘‘ (ص 287)
شکیل الرحمن نے سبز اور سیاہ رنگوں کے حوالے سے غالب کی شاعری میں جو ترکیبیں استعمال ہوئی ہیں، ان کی بھی ایک منتخب فہرست پیش کردی ہے۔ جیسے افعی زلف سیہ، سنگ زمرد کا مزار، خط سبز، داغ لالہ، خُم رنگ سیہ، پرطوطی، سبزہ رنگ، حسن سبز، غبار سرمہ، غبار دشت وحشت، تیرگی اختر، داغ مہہ، سایہ، خیال سیاہ، دیدۂ آہو وغیرہ۔
جمالیات غالب کی تفہیم و تعبیر کے لیے شکیل الرحمن نے دشت تنقید و تخلیق کی خاک چھانی ہے۔ انھوں نے تو غالب کی شاعری کو مغل جمالیات کا عنوان ہی قرار دیا ہے، اور ان کا یہ تجزیاتی بیان مستحکم ہے۔ یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ تمام ماہرین غالبیات میں شکیل الرحمن کی تفہیم و تعبیر کی ڈگر بالکل منفرد ہے جو معتبر اور دلچسپ بھی ہے۔ وہ غالب کے محقق نہیں لیکن شعر غالب کے سچے فہیم ہیں۔ ان کی تعبیری نادرہ کاری سے غالب کی شاعری اور بھی جمال آگیں اور تحیر آمیز ہوجاتی ہے۔ انھوں نے غالب کی مشہور نظم ’’مثنوی چراغ دیر‘‘ کی جو تعبیریں پیش کی ہیں ان سے غالب کے ماہرین کو بہت کچھ روشنی مل سکتی ہے۔ اس فارسی مثنوی میں انھوں نے تیس صفحات کے اپنے تجزیے سے رنگ بھرا ہے۔ کئی ماہرین غالبیات جیسے مسعود حسین خاں (غالب اور آہنگ غالب)، ڈاکٹر عبدالغنی (مقالہ: مرزا غالب کا سفر کلکتہ اور بیدل، مشمولہ صحیفہ، غالب نمبر جنوری1969)، نیاز فتح پوری (نگار، غالب نمبر، جنوری 1961)، ظ۔انصاری (غالب شناسی) کے حوالے دیے ہیں اور دوسرے ماہرین غالبیات کی طرف اشارے کیے ہیں۔ انھوں نے جس طرح اس مثنوی کے باطن کو کھنگالا ہے اس سے ان کا زاویہ تنقید اور طرز اظہار سمجھ میں آجاتا ہے۔ انھوں نے تو باضابطہ اس مثنوی کے سوز گداز اور جلال و جمال کو سمجھنے کے لیے نقشے اور Diagram بنائے ہیں اور پھر ان کی وضاحت پیش کی ہے۔ یہاں بھی بنارس کو ذات سے ہم آہنگ کیا ہے اور مختلف رنگوں جیسے سرخ رنگ، نیلے رنگ اور بنفشی رنگ کے تحرک و جہات کی جمالیاتی توجیہ پیش کی ہے اور یہ بتانے اور جتانے کا اہتمام کیا ہے کہ ’مثنوی چراغ دیر‘ محض حسن بنارس کی منظر کشی یا تصویر کشی نہیں ہے جیسا کہ بیشتر نقادوں نے لکھا ہے۔ تین رنگوں کی پیش کش کے بعد ان کی صراحت انھوں نے اس طرح کی ہے:
’’پہلا رنگ سرخ ہے یعنی جبلت کا رنگ، دوسرا آسمانی یا نیلا ہے جو آسمان کا رنگ بھی ہے اور روح اور باطن کا رنگ بھی اور تیسرا اسی سرخ اور نیلے کے امتزاج سے بنا ہوا بنفشی (Voilet) ہے جسے نفسیات کے بعض علماء نے صوفیانہ تخیل کا رنگ کہا ہے۔‘‘ (ص331)
اس کے بعد پھر ان رنگوں کی مناسبت سے مثنوی کے ٹکڑے اور پھر ان کی تشریح و تعبیر پیش کی گئی ہے۔ آگے ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’شہر بنارس بہشت و فردوس کی صورت میں سامنے ہے۔ اس دیر کے سامنے عقیدت سے سر جھک جاتاہے۔ حسن بنارس سرمستی اور وجدانی کیفیت کا باعث بنتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کے جلوے باطن کے جلوے بن جاتے ہیں اپنے وجود کے حسن اپنے باطن کے جمال اور اپنی روح کی روشنی کا احساس غیر شعوری طور پر بڑھتاہے۔ شہر کا جلوہ باطن کاجلوہ اور باطن کاجلوہ شہر کا جلوہ نظر آنے لگتا ہے۔ جمیل تر احساسات شعری تجربے بن جاتے ہیں… خود شاعر کو اس کا علم نہیں رہتاکہ کس لمحے وہ خارج میں ہے اور کس لمحے باطن میں… شاعر اس شہر کو اپنے وجود کی بہشت کا آئینہ بنالیتا ہے‘‘۔ (ص 317)
شکیل الرحمن نے اس مثنوی کے پہلے اور تیسرے حصے کو اہم قرار دیتے ہوئے دوسرے حصے کی تصویر کشی کو نسبتاً کم اہم بتایا ہے جبکہ بیشتر نقادوں نے اس دوسرے حصے کی روشنی میں اس مثنوی کو حسن بنارس کی پیش کش کا ذریعہ بتایاہے۔ شکیل الرحمن نے اس مثنوی کے چند اشعار پیش کرتے ہوئے سوال اٹھائے ہیں کہ اگر مثنوی کا موضوع بنارس کا حسن ہی ہوتا تو اپنی سانس کو صور محشر، اپنی خاموشی کو اسرار محشر، اپنی ذات کو رگ سنگ اور اپنی تحریر کو چنگاریوں سے تعبیر کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ مثنوی کے یہ اشعار دیکھیے:
نفس باصور دم سازست امروز
خموشی محشرِ رازست امروز
رگِ سنگم شرارے می نویسم
کفِ خاکم غبارے می نویسم
دل از شور شکایت ہا بجوش است
حباب بے نوا طوفاں خروش ست
بہ لب دارم ضمیر آلا بیا نے
نفس خوں کن جگر پالا فغانے!
دراصل شکیل الرحمن یہ بتانا اور دکھانا چاہتے ہیں کہ غالب کبھی بھی محض خارجی تصویرکشی نہیں کرتے بلکہ ہر جگہ ان کی ذات ان کا وجود ساتھ ساتھ ہم آہنگ ہوتاہے۔ تبھی تو جلوئوں اورحسن بنارس کی تصویر کشی سے پہلے اپنی ذات کے کرب اور اپنے اضطراب اور اپنی طبیعت کی گداختگی کا ذکر کیا ہے اور یہیں سے المیہ نشاط اور کیف کا دروازہ کھلتاہے جس میں حسن بنارس ایک جیتی جاگتی دلہن کی طرح داخل ہوکر غالب کاجمال وضع کرتا ہے۔یہ آرٹ بھی ہے اور شعور جمال کا اظہار بھی۔ ’مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات‘ ایک ایسی تصنیف ہے جسے تنقیدی تصنیف کے بجائے آرٹ اور فنون لطیفہ کا خوبصورت نمونہ کہا جانا چاہیے۔ اس میں جو پگھلن اور ریشمیت ہے وہ تخلیقی شعور کو ابھارنے کاکام کرتی ہے۔ ہماری غالبیات اور اس کی تنقید میں اس کتاب کی جو اہمیت ہے وہ مسلم اور مستحکم ہے۔ لوگوں نے اس سے صرف نظر کیااور چھپ چھپ کر پڑھتے اور عش عش کرتے رہے۔ اس تخلیقی تنقید کی بازیافت شاید آئندہ کی نسل کرے گی۔ شکیل صاحب کے ہم عصروں نے تو تعصب کی عینک چڑھا رکھی ہے کیوں کہ جب وہ اس تخلیقی تنقید کو پڑھتے ہیں تو انھیں اپنی اکھڑی اکھڑی نثر سے گھن آنے لگتی ہے۔ ان کی بھی مجبوری ہے، سو یہ کرب بھی غالب کا جمالیاتی کرب بن گیا ہے۔ اپنی بات کی توثیق کے لیے سردار جعفری کو نقل کرتاہوں۔ وہ اس کتاب پر ردعمل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’…میراخیال تھاکہ لندن میں منعقد ہونے والے غالب سمینار میںاسی کتاب پر مقالہ پیش کروں لیکن انگریزی میں لکھنا بہت دشوار ہے۔ غالب کے شعر اور شکیل الرحمن کی نثرکاترجمہ کرنا آسان کام نہیں ہے‘‘۔
نہایت اعلیٰ درجہ کی تخلیق ہے۔ یہ کام شاعری کی طرح تخلیقی ہے جس میں خون جگر صرف ہواہے… میںاس کو دیوان غالب اور دیوان حافظ کی طرح بھی پڑھتا ہوں‘‘۔ (سردار جعفری 1987)
یہ ایک افسوسناک پہلو ہے کہ شکیل الرحمن نے اس قدر بیش بہا آثار چھوڑے لیکن اہل اردو نے اور بڑی بڑی تنظیموں نے انھیں جیسے بالکل ہی فراموش کردیا۔ آج تک انہیں ساہتیہ اکامی کا انعام تک نہیں مل سکا۔ حالانکہ ان کے کارناموں میں جو توانائی اور استحکام ہے ان کی بنیاد پر وہ بے شک گیان پیٹھ کا استحقاق رکھتے ہیں۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کو اس بات پر ہنسی آجائے۔ اگر رونے کے مقام پر کوئی ہسننے لگے تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ مجھے معلوم ہے کہ ان کی بے نیازی اور ان کا سائیں پن انھیں ان انعامات سے دور ہی رکھے گا۔ لیکن یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ انھیں آئندہ نسلیں بڑے ہی ذوق و شوق سے اپنے مطالعے کا حصہ بناتی رہیں گی۔
(سہ ماہی ’مباحثہ‘ پٹنہ، جلد4، شمارہ 23، جنوری تا مارچ 2006)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.