Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مرزا رسوا کے قصے کچھ ادھر سے کچھ ادھرسے

عبد الماجد دریابادی

مرزا رسوا کے قصے کچھ ادھر سے کچھ ادھرسے

عبد الماجد دریابادی

MORE BYعبد الماجد دریابادی

     

    مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات
    تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہو گئی

    جس نے موت کو دعوت ان الفاظ میں ۳۱، ۳۲ سال قبل دی تھی، اس کی شمع حیات واقعتاً اکتوبر۱۹۳۱ء میں گل ہوکر رہی۔ موت کو جب آنا ہوتا ہے جب ہی آکر رہتی ہے۔ شاعر کی طبیعت ممکن ہے حیات سے اسی وقت سیر ہو چکی ہو لیکن خود حیات اس وقت شاعر سے سیر نہیں ہوئی تھی۔ موت تو جبھی آئی جب اسے آنا تھا اور جب آئی تو بہتوں نے یہ بھی نہ جانا، کہ کس نام کے رسواؔ اور شعروادب کے رسیا کو اپنے ہم راہ لیتی گئی۔ سدا رہے نام اللہ کا۔ بقا نہ کسی شاعر کو نہ شاعری کو، نہ ادب کو، نہ ادیب کو، کیسے کیسے افسانہ گو اور افسانہ نویس آئے اور کیسی کیسی مزیدار کہانیاں سنانے بیٹھے مگر، دیکھتے ہی دیکھتے خود انہیں کی زندگی افسانہ بن گئی۔ باقی رہنے والا بس جو ہے، وہی ہے۔

    ذاتِ معبود جاودانی ہے
    باقی جو کچھ کہ ہے وہ فانی ہے

    جو رونقِ محفل ہوتے ہیں وہ ایک ایک کرکے اٹھتے جاتے ہیں لیکن محفلِ کی رونق جو کی توں! لسان العصر اکبر کے الفاظ میں،

    دنیا یونہی ناشادیوں ہے شاد رہےگی
    برباد کیے جائےگی، آباد رہےگی

    ناول نویسی کی عمر اردو میں مرزا سوداؔ کی عمر سے بڑی ہے۔ سرشارؔ اور شررؔ اور دوسرے حضرات اپنے اپنے رنگ میں اس چمنِ کاغذی کی آبیاری شروع کر چکے تھے۔ کہنا چاہیے کہ انیسویں صدی عیسوی کے ساتویں اور آٹھویں دہے میں انگریزی ناول بھی اردو میں خاصی تعداد میں منتقل ہو چکے تھے جب کہیں جاکر مرزا محمد ہادیؔ، مرزاؔ لکھنوی بی اے نے انیسوی صدی کے نویں دہے میں اس کوچہ میں قدم رکھا۔ آدمی پڑھے لکھے صاحبِ علم شریف خاندان تھے۔ شمار شہر کے متین وثقہ طبقہ اور اہلِ علم میں تھا۔ ناول نویسی کا مشغلہ اس وقت تک کچھ ایسا معزز نہ تھا، غرض کچھ وضع قدیم کا پاس، کچھ اپنے علمی وقار کا لحاظ، داستان سرائی کرنے بیٹھے تو چہرہ پر ’’مرزا رسوا‘‘ کا نقاب ڈال لیا، حالانکہ یہ نقاب تھا اتنا باریک کہ جو چاہے وہ ایک ایک خط و خال، ایک ایک بال باہر سے گن لے۔

    اردو میں ناول بہتوں نے لکھے، اچھے اچھوں نے لکھے، پر ان کا رنگ سب سے الگ، ان کا انداز سب سے جدا، نہ ان کے پلاٹ میں ’’سنسنی خیزیاں‘‘ نہ ان کی زبان میں ’’غرابت زائیاں‘‘ نہ ان کے اوراق میں ’’برق پیمائیاں‘‘ اور نہ ’’کوہ تراشیاں‘‘ نہ ان کے الفاظ ’’ترنم ریز‘‘ نہ ان کی ترکیبیں ’’ارتعاش انگیز‘‘ نہ ان کی تصویر رزم میں ’’برق پاشیاں‘‘ نہ ان کی داستان بزم میں ’’ابتسام آرائیاں۔‘‘ پلاٹ وہی روز مرہ صبح و شام کے پیش آنے والے واقعات جو آپ ہم سب دیکھتے ہیں۔ زبان وہی گھر اور باہر کی ستھری اور نکھری بول چال جو ہم آپ سب بولتے ہیں۔ قصہ کے مقامات نہ لندنؔ، نہ ماسکوؔ، نہ برلنؔ، نہ ٹوکیوؔ۔ بس یہی لکھنؤ وفیض آبادؔ، دہلیؔ والہ آبادؔ۔ افسانے کے اشخاص نہ لندھورؔ، نہ سند باد، نہ تاج الملوک نہ ملکہ زرنگارؔ، بس یہی حکیم صاحب اور شاہ صاحب، راجہ صاحب اور نواب صاحب، میر صاحب اور مرزا صاحب، عسکری بیگم اور عمدہ خانم، امراؤجان اور بوانیک قدم۔ کہتے ہیں کہ صاحب کمال لاولد رہ جاتا ہے، اس کی نسل آگے نہیں چلتی۔ اپنے طرز کا موجد بھی یہی ہوتا ہے اور خاتم بھی وہی۔ مرزا سوداؔ کا بھی کوئی خلف معنوی آج تک پیدا نہ ہوا۔

    پیش رو اکثر اور معاصرین بیشتر تکلفات میں الجھ کر رہ گئے۔ رسواؔ تصنع سے پاک اور آورد سے بے نیاز۔ ابھی ہنسار ہے تھے، ابھی رلانے لگے۔ مزاح وگداز، سوز و ساز، شوخی ومتانت سبھی اپنے اپنے موقع سے موجود، لیکن آمدوبے ساختگی ہر حال میں رفیق۔ شستگی وروانی ہر گوشۂ بساط میں قلم کی شریک۔ جو منظر جہاں کہیں دکھایا ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرصع ساز نے انگوٹھی پر نَگ جڑ دیا ہے، ہر نقل پر اصل کا گمان، ہر عرض میں جوہر کا نشان، تصویر پر صورت کا دھوکا، الفاظ کے پردہ میں حقیقت کا جلوہ۔

    ناول بہرحال ناول ہی ہوتے ہیں۔ اخلاق کے مسائل اور تصوف کے مقالات نہیں ہوتے۔ اور پھر ناول بھی وہ جو نہ تاریخ ہوں، نہ اصلاحی۔ ’’شریفؔ زادہ‘‘ کو چھوڑ کر جسے ناول کہنا بھی درست نہیں۔ باقی ناولوں امراؤ جانؔ، ذاتِ ؔشریف، افشائے راز اور اختریؔ بیگم کا پلاٹ تمام ترمعاشی وخانگی ہی ہے۔ اور ناول میں بجز حسن وعشق کے مضامین اور ہجر ووصل کی داستانوں کے اورہوتا کیا ہے؟ خیال ہوتا ہوگا کہ ان ناولوں میں نوجوانوں کے لبھانے اور نوعمروں کے جذبات نفسانی کے بھڑکانے کا سامان افراط سے موجود ہوگا۔ لیکن توبہ کیجئے، فحش وعریانی الگ رہی، رکاکت وابتذال بھی کہیں آنے نہیں پایا اور کہیں دو ایک جگہ جہاں صحیح مصوری اور سچی عکاسی کو اس کے سوا چارہ نہ تھا، وہاں بھی انداز بیان زیادہ سے زیادہ لطیف اشارہ وکنایہ کا رکھا ہے۔ بس یہ معلوم ہوتا ہے کہ راستے میں کوئی گندی نالی پڑ گئی ہے اور آپ ہیں کہ رومال ناک سے لگائے لپ جھپ لمبے لمبے ڈگ رکھتے اس سے گزرے چلے جا رہے ہیں۔

    تقریباً ہر افسانہ شریف گھرانوں میں بار پانے کے قابل، پڑھتے جائیے اور حیاتِ بشری میں دَرک و بصیرت حال کرتے جائیے۔ آپ ادھر افسانہ کی لذت میں محو رہیں گے اور ادھر عبرت وہدایت کے گھونٹ بلاتکلف حلق سے اترتے چلے جائیں گے۔ کونین کی گولی پر شکر اس طرح لپٹی ہے کہ بڑے سے بڑے ضدی بچے بھی اس کو دیکھ کر پھسل پڑیں اور مچل مچل کر اس کی طرف لپکیں۔ ناصح کی تلخ نوائیوں کا رونا سب روتے آئے ہیں، یہاں حضرت ناصح گھل مل کر اور راز دار بن جاتے ہیں اور چپکے چپکے سرگوشیوں میں سب کچھ کہہ سن ڈالتے ہیں۔ کیا مولیٰ کی کریمی اور کارسازی ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا کہ ع قیس تصویر کے پردہ میں بھی عریاں نکلا، یہاں ہادی’’رسوا‘‘ ہوکر بھی ہادی ہی بنا رہا۔

    مشاعرے آپ نے بہت سے دیکھے ہوں گے۔ ایک مشاعرہ کا نقشہ، مرزا صاحب کا کھینچا ہوا تصور کی آنکھوں سے ملاحظہ فرمائیے، ’’گرمیوں کے دن تھے۔ مہتابی پر دو گھڑی دن رہے چھڑکاؤ ہوا تھا تاکہ شام تک زمین سرد رہے، اسی پر دری بچھا کے اجلی چاندنی کا فرش کر دیا گیا تھا۔ کوری کوری صراحیاں پانی بھر کے کیوڑا ڈال کر منڈیر پر چنوا دی گئی تھیں، ان پر بالو کے آبخورے ڈھکے ہوئے تھے۔ برف کا انتظام علیحدہ کیا تھا، کاغذی ہانڈیوں میں سفید پانوں کی سات سات گلوریاں سرخ صافی میں لپیٹ کر کیوڑے میں بساکر رکھ دی گئی تھیں۔ ڈھکنوں پر تھوڑا تھوڑا کھانے کا خوشبودار تمباکو رکھ دیا تھا۔ ڈیڑھ خمے حقوں کے نیچوں میں پانی چھڑک چھڑک کر ہارلپیٹ دیے تھے۔ چاندنی رات تھی، اس لیے روشنی کا انتظام زیادہ نہیں کرنا پڑا۔ صرف ایک سفید کنول دورے کے لیے روشن کردیا گیا تھا۔ آٹھ بجتے بجتے سب احباب، میر صاحب، آغا صاحب، خان صاحب، شیخ صاحب، پنڈت صاحب وغیرہ وغیرہ تشریف لائے۔ پہلے شیر فالودہ کے ایک پیالے کا دور چلا، پھر شعروسخن کا چرچا ہونے لگا۔‘‘

    رسمی انکسار کے بعد شعر سنائے جا رہے ہیں اور داد بھی خوب مل رہی ہے، اسی انداز سے اور انہیں جچے تلے لفظوں میں جو مشاعروں کے لیے مخصوص ہو چکے ہیں بے تکلف احباب ہیں، آپس میں نوک جھوک بھی چلی جا رہی ہے۔ کلام سارے کا سارا خود جناب رسواؔ کا ہے، اسی کو مختلف اصحاب کی زبان سے ادا کرایا ہے، امراؤ جان کا تخلص اداؔ رکھا ہے، کسی صاحب کے مقطع میں مخمور باندھا ہے۔ افسانہ گوئی کے وقت اپنے کو رسواؔ کے پردہ میں چھپاتے تھے۔ شاعری کی دنیا میں اپنا نام مرزا کہہ کر چمکایا ہے۔ خوب خوب شعر نکالے ہیں۔ کچھ ادھر ادھر سے ملاحظہ ہوں،

    دل میں کھب جائےگی قاتل کی ادا ایک نہ ایک
    کارگر ہوگا کبھی تیرِ قضا ایک نہ ایک

    کوئی حوروں پہ فدا کوئی بتوں پر شیدا
    ڈھونڈہی لیتا ہے انسان خدا ایک نہ ایک

    لطف زبان و لطف مضمون دونوں موجود۔ چھوٹی بحروں میں تو شناوری بہت ہی خوب کی ہے۔

    شب فرقت بسر نہیں ہوتی!
    نہیں ہوتی سحر نہیں ہوتی

    شور فریاد تا فلک پہنچا
    مگر اس کو خبر نہیں ہوتی

    جان دینا کسی پہ لازم تھا
    زندگی یوں بسر نہیں ہوتی

    ہے یقیں وہ نہ آئیں گے پھر بھی
    کب نگہ سوئے در نہیں ہوتی

    اب کس امید پر نظر میری
    شکوہ سنج اثر نہیں ہوتی

    غلط انداز ہی سہی وہ نظر
    کیوں مرے ے حال پر نہیں ہوتی

    اے اداؔ ہم کبھی نہ مانیں گے
    دل کو دل کی خبر نہیں ہوتی

    بعض مشاعروں میں غزل کا ضمیمہ ہزل بھی ہوتی ہے۔ غزل کا نمونہ آپ نے دیکھ لیا۔ متانت بزم اگر اجازت دے تو دو شعر ذرا ہزل کے بھی سنتے چلیے۔

    ہمیں رشک آئے اپنے سے ہمیں سے غیر ہوپیدا
    ہم ایسے دو نظر آئیں اگر معشوق احول ہو

    یہ کیا خوب دوئی میں وحدت دکھائی ہے اور وحدت سے دوئی نکالی ہے۔

    کبھی گالی سنا بیٹھے کبھی جوتا لگا بیٹھے
    حکومت کا مزا آئے اگر معشوق ارزل ہو

    کسی عاشق نے کبھی کیوں اپنی شرافت کی یہ کفش کاری کی ہوگی۔ یقین ہے کہ نہ ایسے قافیے آپ کے سننے میں آئے ہوں گے، نہ مضمون کی یہ نازک خیالیاں۔

    ابھی بھی بیان ہو چکا ہے کہ مرزاؔ صاحب افسانہ نویسوں کے حلقہ میں رسواؔ تھے اور شاعری کی بزم میں مرزاؔ۔ متعدد نظمیں، مثنویاں وغیرہ افسانوں سے بہت قبل کی کہی ہوئی ہیں۔ ۱۸۸۷ء میں ایک مستقل منظوم ڈراما، مرقع لیلیٰ مجنوں، کے نام سے لکھا۔ یہ غالباً پہلی تصنیفی کوشش تھی۔ نومشقی کے آثار جابجا نظر آ رہے ہیں، اور سن بھی یقیناً نوجوانی کا رہا ہوگا، پھر بھی کلام بحیثیت مجموعی پختہ اور استادانہ ہے۔ لکھنؤ کی شاعری کا اس وقت عام رنگ کیا تھا؟ اب کس کے منہ میں دانت ہیں جو اسے صاف صاف بیان کرے۔ مرزاؔ نے آنکھیں جس فضا میں کھولی تھیں اور نشونما جس ماحول میں پایا تھا، چاہئے تھا کہ خود بھی آنکھ بند کرکے اسی ڈھرے پر چل پڑتے لیکن خدا کی قدرت کہ جب محفل کے گرمانے کو اٹھے تو گل وبلبل، مہندی اور سرمہ، دوپٹہ اور آنچل کے مصنوعی مضامین کی جگہ دل کے جذبات اور قلب کے واردات ہی موزوں ہوکر زبان ودہن سے نکلے،

    دن رات سیر کرکے سفید و سیاہ کی
    تصویر کھینچتے ہیں تیرے جلوہ گاہ کی

    کیا کیا ہے نامہ اعمال کو سیاہ
    ہم شاعروں کو فکر رہی ہے گناہ کی

    میری غزل دلوں پہ نہ کیوں کر اثر کرے
    صورت ہے ہوبہو میرے حالِ تباہ کی

    لیلیٰ مجنوں کا افسانہ محبت کسے نہیں معلوم، ڈراما میں وہی قصہ منظوم ہے جو عام طور پر زبان زد ہے۔ جابجا اپنی غزل بھی سناتے گئے ہیں۔ قصہ کے اجزاء کا دہرانا یہاں منظور نہیں، سیکڑوں مرتبہ کے سنے ہوئے پامال قصہ کے دہرانے میں لطف ہی کیا ہے۔ البتہ مرزا نے آج، 1نہیں آج سے ۴۵سال قبل جو اصلاح لکھنؤ کے رنگ تغزل میں کر دی تھی، ذراس پر ایک اچٹتی سی نظر ک رلیجئے،

    بے نوائی ہو مقدر میں تو کیجئے عاشقی
    یہ بہانہ خوب ہے ذلت اٹھانے کے لیے

    اپنے صورت گر سے پوچھوں میں اگر مقدور ہو
    کیا بنایا تھا مجھے تو نے مٹانے کے لیے

    ہجر کی شب کے بنانے میں بھی تھی اک مصلحت
    طول آخر چاہیے تھا کچھ زمانے کے لیے

    کہیں کہیں بے ساختہ اپنے معاصروں کی بولی بھی بول گئے ہیں۔ مثلاً

    عشق کا کل یہ وہ سودا ہے جاتا ہی نہیں
    مار سے قید سے زنجیر سے کیا ہوتا ہے

    کیا سنائیں تمہیں افسانہ ہجر کا کل
    ایسی الجھی ہوئی تقریر سے کیا ہوتا ہے

    لیکن عام انداز یہ ہے،

    دیکھئے عالم تقدیر سے کیا ہوتا ہے
    لاکھ تدبیر ہو، تدبیر سے کیا ہوتا ہے

    اب سنا ہے کہ جفا سے بھی پشیمان ہیں وہ
    اور پھر آہ کی تاثیر سے کیا ہوتا ہے

    گوش مشتاقِ سخن دل متمنیٔ وصال
    تو ہی کہدے تیرے تصویر سے کیا ہوتا ہے

    کچھ کھٹک سی ہے کلیجہ میں مگر زخم نہیں
    کیا بتائیں کہ ترے تیر سے کیا ہوتا ہے

    قصے نثر میں ہوں یا نظم میں، ظرافت اور شوخی اگر ان کی جان نہیں تو ان کے لیے عرض لازم سے کم بھی نہیں، بلکہ جوناٹک اسٹیج پر کھیلے جاتے ہیں ان میں تو کامک کادرجہ کچھ اس سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے اور عاشقانہ مثنویوں میں تو شوخی کے ڈانڈے اکثر عریانی اور فحاشی سے مل مل گئے ہیں۔ مرزا صاحب ظرافت پر آتے ہیں تو ہنساتے ہی نہیں، ہنساتے ہنساتے لٹادیتے ہیں۔ ایک بازاری منچلا طرارؔنامی اسٹیج پر آتا ہے اور شرم وحیا کا جامہ اتار، باپ کے سامنے اپنی آشنا خیلا کا نام لیتا ہے اور پھر انہیں والد ماجد سے فرمائش یہ ہوتی ہے کہ ان سے ملوا دیا جائے۔ زبان، لب ولہجہ، الفاظ سب کے ٹھاٹھ وہی بازاریت اور لُچپن کے ہیں۔ کہتا ہے،

    مجھے خیلا سے ملوا دے ابے باوا ابے باوا
    نہیں تو ہاتھ دھو مجھ سے ابے باوا ابے باوا

    نہ میں بیٹا ہوں پھر تیرا نہ تو باوا ہے پھر میرا
    جوکی پہلو تہی تو نے ابے باوا ابے باوا

    جیسی روح ویسے فرشتے۔ پدر بزرگوار آخر ان کے بھی باپ تھے۔ جناب خونخوار خاں صاحب ایک پدرانہ دم خم کے ساتھ تن کر کھڑے ہوتے ہیں اور اگر پسر نتواند پدر تمام کند کے مصداق جو اب اسی زبان میں دیتے ہیں،

    یہ کیا انداز ہیں تیرے، ابے مردک ابے گرگے
    یہ کیسے سیکھے ہیں شیوے ابے مروک ابے گرگے

    ابے باوا ابے باوا یہ کیا بکتا ہے تو مرغے
    ابے یہ گفتگو ہم سے ابے مردک ابے گرگے

    سعادت اطوار بلند اقبال، اکڑ اکڑ کر اپنا فخریہ سناتے ہیں،

    اڑائے خوب کنکوّے ابے باوا ابے ابے باوا

    بڑھایا سات تاری پر تو اکثر تبیلی کاٹی
    دیے وہ ڈور پر مانجھے ابے باوا ابے ابے باوا

    لڑا میدان جب راجہ سے اور نواب دولہا سے
    نکالے ہم نے بھی لگے ابے باوا ابے ابے باوا

    کبوتر کی ہوا آئی تو لے کر ہاتھ میں چھینی
    اڑائے خوب ہی پٹھے ابے باوا ابے ابے باوا

    ہوا جب راگ کا لہر املے ہم تان سن خاں سے
    بڑھائے خوب یارا نے ابے باوا ابے ابے باوا

    ہوا یاروں میں جب رہنا چرایا ماں کا سب گہنا
    اڑائے خوب گلچھرے ابے باوا ابے ابے باوا

    خونخوار خاں اب پورے خونخوار بنے ہوئے دانت پیس کر گرجتے ہیں،

    گھرانے کی مٹائی آبرو کم بخت یوں تونے
    ابے تجھ سے خدا سمجھے ابے مردک ابے گرگے

    اڑاتا ہے کبوتر تو لڑاتا ہے بٹیریں تو
    ابے او الوّ کے پٹھے ابے مردک ابے گرگے

    سناتا ہے ہمیں کیوں تو ہمیں کیا کام ہے اس سے
    ابے او مرغی کے بچے ابے مردک ابے گرگے

    ابے کیا کالا پانی پی کے تو آیا بھٹی سے
    یہ کیسے آتے ہیں بھبکے ابے مردک ابے گرگے

    ابے بیٹا ہے توکس کا غلط ہے یہ تیرا دعویٰ
    ہمارا نہ ہم تیرے ابے مردک ابے گرگے

    اور مصرعہ تو یہ ارشاد ہوا ہے؟ ابے یہ گفتگو ہم سے ابے مردک ابے گرگے!کسی چمن اور سبزہ زار کی سیر کرتے کرتے دفعتاً آپ کے قدم ایک گندی گلی میں آپڑیں تو آپ بے اختیار یہی چاہیں گے کہ کہیں جلدی سے اتنا راستہ ختم ہو، اور آپ پھر کھلی ہوئی خوشبودار ہوا سے اپنے مشامِ جاں کو معطر کرنے لگیں۔ عجب نہیں کہ اس منظر سے بھی آپ کچھ اسی طرح بے زار ہوئے ہوں لیکن یہ محض آپ کے قدیم مشرقی معیار کا اثر ہے جو ایسے منظر تکلیف دہ نظر آئے۔ اس روئے زمین پر ایسے ایسے ملک بھی آباد ہیں جہاں نہ باپ کا ادب کوئی چیز ہے نہ بزرگوں کا لحاظ، بے باکی، بے تمیزی کا نام وہاں کی اصطلاح میں عین آزادی اور آزاد خیالی ہے۔ اور اب بیسویں صدی عیسوی کا وسط طے کر لینے کے بعد خود آپ کا ملک ان منظروں سے ناآشنا کب رہا ہے؟

    مرزاؔ صاحب نرے شاعر یا افسانہ نویس نہ تھے۔ فلسفہ و حکمت کے بھی رازدار تھے اور یہ رنگ بھی ان کاکہیں چھپتا نہیں ہے۔ مثنوی ہو یا غزل، ڈرامہ ہو یا افسانہ سب کہیں پھوٹ ہی آتا ہے۔ مجنوں کی حیرانیاں دکھاتے دکھاتے دفعتاً یہ خیال آ گیا کہ مجنوں تو مجنوں تھا ہی، جو بڑے بڑے ہوشیار اور فرزانۂ روزگار مانے گئے ہیں، انہوں نے بھی اس کارخانہ حیرت کے سمجھنے میں کیسے کیسے غوطے کھائے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض بعض تو ایسے بہکے کہ سرے سے صانع عالم ہی کے وجود سے انکار کر بیٹھے۔ ان دانش مندوں کی تردید انہیں کی زبان، اور اصطلاحات میں ملاحظہ ہو،

    کھول تو آنکھ ذرا دیکھ تماشا کیا ہے
    وہم ہے یا کہ حقیقت ہے یہ دنیا کیا ہے

    تو یہ کہتا ہے ہیولیٰ کے یہ سب ہیں دھوکے
    پھر ہیولیٰ بھی تو دھوکا ہے یہ دھوکا کیا ہے

    پھر کہا تو نے کہ دیکھا نہیں خالق کوکبھی
    اِک ذرا غور تو کر جی میں تو کہتا کیا ہے

    تو نے دیکھا ہے انرجی وہیولیٰ کو کبھی
    پھر جو قائل ہے تو اس کا تجھے سودا کیا ہے

    بے بنائے تو کسی کے نہیں بنتا کچھ بھی
    تجربہ ہم کو بتا دے کہ بتاتا کیا ہے

    مان لے تو کہ نہیں کوئی بنانے والا
    پھر قیاس اپنا ذرا دیکھ تو بنتا کیا ہے

    اس کا ہونا نہیں واجب تو نہیں کچھ ممکن
    پھر اگر کچھ بھی نہیں ہے تو یہ جھگڑا کیا ہے

    مرقع کا خاتمہ لیلیٰ کی موت پر ہوتا ہے۔ وفاداری عاشق کی ضرب المثل ہے لیکن یہاں محبوب بھی پیکر وفا ہے۔ نوجوان لیلیٰ ناشاد و نامراد دنیا سے رخصت ہورہی ہے، باپ کا محل کا محل کھڑا ہوا ہے، اسی محل کے ایک گوشہ میں یہ حسرت نصیب دم توڑ رہی ہے۔ دم واپسیں ہے اور اس وقت یہ بول نوعمر وناشاد مرنے والی زبان سے نکل رہے ہیں۔

    ہم نہیں ان میں جو ہیں موت سے ڈرنے والے
    اس کا کیا غم، یونہی مرجاتے ہیں مرنے والے

    ہے خوشی موت کی خود زیست سے بیزار ہیں ہم
    دم ٹھہر جائے، تو ہم کب ہیں ٹھہرنے والے

    اب تو ٹھنڈک پڑی جی میں کہ ہوئے ہم برباد
    آج تو خوش ہوئے الزام کے دھرنے والے

    لو کہے دیتے ہیں، ہم قیس پر دم دیتے تھے
    اب کدھر بیٹھے ہیں رسوا، ہمیں کرنے والے

    پاک الفت تھی ہمیں اس کا خدا عالم ہے
    پاک دل ہوتے ہیں اللہ سے ڈرنے والے

    غسلِ میت مجھے دیتا ہے مرا دیدۂ تر
    دیکھو اس طرح نکھرتے ہیں نکھرنے والے

    اجلا اجلا وہ کفن اور وہ پھولوں کی مہک
    مرکے بھی آہ سنورتے ہیں سنورنے والے

    مجنوں دور سہی، اس کا تصور تو پاس ہے۔ اس خیالی پیکر سے جو جو وصیتیں ہو رہی ہیں، انہیں ذرا کڑا کر سن لیجئے،

    مرے مجنوں کو مرے بعد یہ دینا پیغام
    اے محبت میں مری حد سے گزرنے والے

    تجھ پہ لیلیٰ ہوئی قربان تیری جان سے دور
    دیکھ یوں بات پہ مرجاتے ہیں مرنے والے

    بیوفا تو تو کہا کرتا تھا ہم کو اے قیس
    تو سلامت رہے اے نام کے دھرنے والے

    حشر کے دن تجھے اللہ سے لیں گے اے قیس
    صبر کر صبر کہ یہ دن ہیں گزرنے والے

    تو نہ کڑھنا تجھے میری غم الفت کی قسم
    اس کا کیا غم یونہی مرجاتے ہیں مرنے والے

    مصنف عشق مجازی کا قصہ لکھنے بیٹھا تھا، اس کے ختم ہوتے ہی مصنف کو خود اپنے افسانۂ حیات کے انجام کا خیال آجاتا ہے اور آداب افسانہ نگاری بھول بھال بے اختیار ہوکر ایک ٹھیٹھ مشرقی اور ایک سچے کلمہ گو کی شان سے نظم میں نہیں، نثر میں ناظرین سے التجا کرنے لگتا ہے کہ ’’اے ناظرین والا تمکین، میں دعا کرتا ہوں اور تم آمین کہنا کہ جس طرح عشق مجازی میں مجنوں کا انجام ہوا، اسی طرح عشق حقیقی میں ہمارا تمہارا خاتمہ بالخیر ہو آمین ثم آمین۔‘‘ ترقی پسندبالکل معذور ہے اگر وہ ایسے ’’ملاّ نے‘‘ کو ڈارما نویسوں میں ادنیٰ درجہ دینے سے بھی انکار کر دے۔

    لیلیٰ مجنوں پر فاتحہ خیر پڑھیے۔ ان غریبوں کو صدیاں ہو چکیں۔ مرزاؔ صاحب کا اصلی میدان ماضی نہیں حال تھا، پردیس نہیں دیس تھا، لکھنؤ آپ کا خوب دیکھا بھالا ہوا ہے۔ آئیے ایک مرتبہ ا س کی سیرمرزا صاحب کی رہنمائی میں کریں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ لکھنؤ ۱۹۵۳ کا نہیں اس سے ۷۰، ۷۵ سال قبل کا ہے۔ بہرحال اس لکھنؤ کی گلی گلی ان کی چھانی ہوئی ہے۔ ان سے بہتر رہنما یہاں کی سیر کے لیے کون ملے گا۔ سب سے پہلے ایک حکیم صاحب سے نیاز حاصل کرتے چلیے۔ دیکھا آپ نے بھی انہیں بارہا ہوگا۔ تعارف اب مرزا صاحب کرائے دیتے ہیں۔

    ’’میانہ قد، گندمی رنگ، الفربہ، ناک نقشے میں کسی قدر بھداپن، گول چہرہ، آنکھیں کسی قدر چھوٹی، سن شریف چالیس سے کچھ اوپر، اس نسبت سے توند کی استدارت اور ضخامت کو بھی قیاس کر لیجئے مگر اپنی صورت شکل پر حد سے زیادہ نازاں تھے۔ اکثر اوقات آئینہ پیش نظر رہتا تھا۔ کسی قدر شرعیت مزاج میں تھی اس لیے داڑھی منڈوائی تو نہ جاتی تھی، مگر اس قدر باریک کترواتے تھے کہ اگر خوردبین سے دیکھی جائے تو بھی بمشکل نظر آئے۔ موچھوں میں سفید بال اس کثرت سے تھے کہ ان کو چنتے چنتے حجام عاجز ہو جاتا تھا۔ خضاب کی کئی مرتبہ صلاح دی گئی مگر اس کی نوبت ابھی تک نہ آئی تھی یا تو کوئی مجرب نسخہ دستیاب نہ ہوا تھا یا یہ کہ حکیم صاحب اس کو علامت پیری تصور کرتے تھے اور بالوں کی سفیدی ایک امر عارضی تھا۔

    ابھی حکیم صاحب کا سن ہی کیا تھا۔ خوش غلافی میں بھی حکیم صاحب اہتمام مزید فرماتے تھے۔ کپڑوں کی قطع وبرید کا بھی اچھا سلیقہ تھا۔ اچھے اچھے درزی ان کے کپڑے بیونتتے ہوئے گھبراتے تھے۔ انگرکھا جس کی چولی ثقاہت اور بانکپن کی وضع میں حدفاصل ہو، اس تناسب کو حکیم صاحب سے بہتر کوئی نہ جانتا تھا۔ یہہ سب سامان اس لیے تھا کہ آپ کو مالدار عورتوں کی صیادی کا نہایت شوق تھا۔ آپ کی ہمت مردانہ ہر وقت اس طرح مبذول رہتی تھی کہ کوئی وثیقہ دار بیگم پھنس جائے تاکہ مدت العمر چین سے بسر ہو۔ اکثر جگہ پیغام سلام تھا مگر ابھی تک کوئی سونے کی چڑیا جال میں نہ پھنسی تھی۔‘‘

    حلیہ مبارک تو اب غالباً ذہن سے کبھی نہ نکلے۔ لگے ہاتھ جناب حکیم صاحب کے مطب کی بھی زیارت ہوتی چلے اور حکیم صاحب کے احباب اور خدمت گار خاص میاں نبی بخش سے بھی یاد اللہ ہو جائے تو بہتر ہے ایسے موقعے روز نہیں ملا کرتے۔

    ’’ابھی حکیم صاحب گھر سے برآمد ہوکے ایک کرسی پر بیٹھے ہیں، آدمی نے حقہ بھر کے سامنے رکھ دیا ہے۔ حکیم صاحب نے حقہ کے دوہی ایک کش پیے ہوں گے کہ دوصاحب اور اپنے اپنے گھروں سے نکل کر بعد معمولی سلام علیک اور مزاج پرسی کے سامنے مونڈھوں پر آ بیٹھے۔ ان میں سے بھی ایک صاحب کے ہاتھ میں ڈیڑھ خمہ حقہ ہے خوب سلگا ہوا۔‘‘

    حکیم صاحب میر صاحب واللہ آپ کا حقہ تو اس وقت قیامت کر رہا ہے۔

    میر صاحب (حقہ حکیم صاحب کے سامنے لاکے) لیجئے ملاحظہ فرمائیے۔

    حکیم صاحب جی تو یوں ہی چاہتا تھا تو پھر (اپنے حقہ کی طرف اشارہ کرکے) یہ حقہ

    میر صاحب مجھے مرحمت ہو۔

    حکیم صاحب خدا جانے نبی بخش (خدمت گار) کس طرح حقہ بھرتے ہیں۔ ڈیڑھ پہر ہو گیا ابھی تک سلگا ہی نہیں۔

    نبی بخش صاحب (زیرلب مسکراکر) اے حضور ابھی تو بھر کے رکھا ہے بھاری توا ہے سلگتے سلگتے سلگےگا۔ لائیے، پھونک دوں اگر ایسا ہی جلد ی کا شوق ہے تو سلفہ بھروا لیا کیجئے۔ نبی بخش حقہ سے چلم اتار کے چلے ہی تھے کہ میر صاحب نے چلم ہاتھ سے لے لی۔

    میر صاحب اب کیا حقہ کو غارت کروگے، دیکھو میں درست کیے دیتا ہوں۔

    حکیم صاحب آپ نہ تکلیف فرمائیے، درست ہوجائےگا (نبی بخش کی طرف آنکھ سے اشارہ کیا) 

    نبی بخش پھر چلم لینے کو بڑھے تھے کہ۔

    میر صاحب نہیں تم رہنے دو میں درست کرلوں گا۔

    داروغہ صاحب (دوسرے صاحب جو ابھی تک چپکے بیٹھے تھے) یہ ممکن نہیں اب میر صاحب چلم کی جان نہ چھوڑیں گے۔

    حکیم صاحب اس میں تو شک نہیں کہ جیسا شوق حقہ کا ہمارے جناب میر صاحب کو ہے ایسا بھی کم ہوتا ہے۔

    داروغہ صاحب کیوں نہ ہو۔ افیون کے شوق میں جزو اعظم ہے۔

    حکیم صاحب اس میں تو شک نہیں افیونی جیسے حقے کے قدر شناس ہوتے ہیں اور کوئی نہیں ہوتا۔

    داروغہ صاحب قدر شناس نہ کہیے نبض شناس فرمائیے، حقہ کی دیکھ بھال بھی انہیں کے حصہ میں ہے۔

    مرزا صاحب (اور ایک صاحب جو ابھی آکے سامنے داروغہ صاحب کے قریب کرسی پر بیٹھ گئے ہیں) یوں کہیے کہ حقہ کے حق میں مسیحا ہیں۔

    میر صاحب اے زندہ باش۔

    حکیم صاحب (مسکرا کے) درست

    داروغہ صاحب میر صاحب کے لطیفے بھی قیامت کے ہوتے ہیں۔ یہ مسیحا کے واسطے زندہ باش کیا خوب۔

    فرمائیے یہ آپ کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں یا واقعتاً اپنے کو جناب حکیم صاحب کے مطب میں بیٹھا ہوا پا رہے ہیں؟ ہر تصویر بولتی ہوئی، ہر پیکر بے جان میں جان پڑی ہوئی۔

    یہ حکیم صاحب بھی ایک ہی جالینوس تھے۔ ذہانت اور جعل سازی کے معجونِ مرکب، عیاروں کے عیار اور جعلیوں کے استاد۔ شہر کے ایک نامی رئیس کا انتقال ہوا، اور آپ نے ان کی ادھیڑ سن بیوہ سے عقد کی ٹھانی۔ بیگم صاحبہ پر نہیں ان کی جائیداد پر لٹو ہوکر۔ نفس ناطقہ میاں نبی بخش اس خدمت پر مامور ہوئے کہ ڈیوڑھی پر جاکر پہلے بی امامن مہری کو گانٹھیں اور ان کے ذریعہ سے نامہ و پیام شروع ہو، اور صاحبِ جائیداد بیگم پر ڈورے ڈالے جائیں۔ میاں نبی بخش تقریر کرنے میں بقراط تھے لیکن جوڑتوڑ، سوجھ بوجھ میں امامن کے پاسنگ کے برابر بھی نہ تھے۔ مہری حکمت اور فطرت کی پڑیا تھی۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے، خادم اور آقا کو خوب خوب سبز باغ دکھائے۔ حکیم صاحب قبلہ مگن رہے کہ پینگ بیگم صاحبہ سے ے بڑھ رہے ہیں اور معاشقہ کا لمڈورا ان کے ساتھ چل رہا ہے اور نکاح ۲۵ہزار کے مہر پر بالآخر ہوا کس کے ساتھ، بیگم کی ایک پیش خدمت چٹھی نویس کے ساتھ۔

    آخر راز کھلتا ہے اور حکیم صاحب کی حکمت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ناول میں دوسرا قصہ بیگم صاحب کے صاحب زادے چھوٹے نواب اور ان کی عشق بازیوں کا چلتا ہے۔ چھوٹے نواب صاحب ہر طرف سے جعلیوں سے گھرے ہوئے ہیں اور شاہ جن کی صاحب زادی سبز قبا پر عاشق ہوئے ہیں۔ لاکھوں کی جائیداد دیکھتے دیکھتے تباہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ ’’صاحب‘‘ کے دیس میں یعنی یورپ اور امریکہ کی سرزمین پر خدا جانے کتنے واقعات اس طرح کے صبح و شام پیش آتے رہتے ہیں۔ وہاں کے افسانوں کو نہیں، روزانہ اخبارات کی رپورٹوں کو اٹھاکر دیکھئے تو جعل سازی اور حرفت کی داستانیں اس سے کہیں بڑھی چڑھی ہوئی نظر آئیں گی۔ لیکن مشرق اور لکھنؤ کے معیار سے یہی بہت تھا۔ مرزا صاحب نے قصہ کا نام ذات شریف رکھا ہے اور اس میں ذرا شبہ نہیں کہ جہاں تک لکھنؤ کی ذہانت اور زیر کی کے تاریک رخ کا تعلق ہے انہوں نے مصوری کا حق ادا کردیا ہے اور جعلیوں کے پورے پورے اعمال نامے مرتب کر دیے ہیں۔ مگر ساتھ ہی پھر یہ کہنا پڑتا ہے کہ اہل فرنگ کے ہتھکنڈوں پر نظر ہوتو یہاں کے بڑے سے بڑے ’’ذات شریف‘‘ بھی ’’شریف زادے‘‘ ہی نظر آئیں۔

    لیکن لکھنؤ کی مصوری، مرزا صاحب کے قلم سے بالکل ہی ناقص وناتمام رہے گی اگر افشاء راز کے پردے اٹھ کر نہ رہیں۔ یہ ناول مرزا صاحب کی ناول نویسی کے ابتدائی دور کا ہے۔ یعنی ۱۸۹۶ء کا لیکن افسانہ نگار کے کمالات مصوری کا اصلی مرقع۔ اسے آپ بیتی کہنا چاہئے۔ معلوم ہوتا ہے اس کے پردے میں مصنف اپنا ہی پورا افسانہ زندگی سنادیتا چاہتے تھے مگر چند ہی باب لکھنے پائے تھے کہ کسی مصلحت یا مجبوری سے قلم رک گیا اور پھر مرزا صاحب اور کاموں میں پھنس گئے۔ اس طرح جو راز افشا ہونے تھے وہ قیامت تک کے لیے سربستہ رہ گئے۔ مرزا صاحب نے اپنا م سید محمد ذکی فرض کیا ہے اور صورت قصہ یہ رکھی ہے کہ سید صاحب موصوف کہیں غائب ہو گئے ہیں لیکن اپنی مفقودالخبری سے قبل اپنے ایک دوست مرزا رسواؔ صاحب سے فرمائش کر گئے ہیں کہ ان کی سوانح عمری مرتب کردیں۔ اور اسلوب بیان وغیرہ کے باب میں کچھ ہدایتیں بھی زیب قلم فرما گئے ہیں۔

    لکھنؤ کی معاشرت کی اصلی جھلک اس کتاب کے اوراق میں نظر آتی ہے۔ جہاں جو تصویر کھینچی ہے بس وہ عین مین صورت ہی ہے۔ سنتے ہیں کہ نقل کا کمال یہ ہے کہ اصل کے مطابق ہو لیکن اس استاد کے کمال مصوری کو دیکھ کر جی یہ کہنے کو چاہتا ہے کہ وہ اصل ہی کیا جو اس نقل کے مطابق نہ ہو۔ آپ کو دعویٰ مبالغہ آمیز معلوم ہو رہا ہے۔ اچھا تو آئیے مرزاؔ صاحب کی رہنمائی میں نواب سلطان مرزا صاحب کے دولت خانہ کی سیر کر لیجئے۔ سیر ذرا طویل ہوگی لیکن امید ہے کہ منظر کی دلکشی طبیعت کو ملول نہ ہونے دےگی۔

    نواب حسین علی

    حسین علی حضور

    نواب بھئی آج پالی ہے؟

    حسین علی جی ہاں

    نواب بھئی ہمارے ے کپڑے منگاؤ۔

    حسین علی ڈیوڑھی پہ جاکے (زور سے چلاّ کے) حسینی نواب صاحب کی پوشاک دے جاؤ، پوشاک۔

    سرخ کمخواب کا دگلہ بہت ہی پرانا، جس کی بوٹیوں سے سنہرے تار بالکل جھڑ گئے تھے، صرف ریشمی کام باقی تھا وہ بھی گیا ہوا، سبز گرنٹ کی گوٹ کی لہریں اڑی ہوئیں، گلبدن کا پاجامہ، سرخ شالباف کا نیفہ، کار چوبی مندیل، مگر دادا جان کے وقت کی۔ ٹاٹبافی جوتہ، مقیشی پھندنے، کوئی سال بھر کا پہنا ہوا۔

    نواب (مندیل کو دیکھ کے) بھئی یہ درباری ٹوپی کیوں منگوائی، دوپلڑی منگوالو۔

    حسین علی دیکھئے یہیں ہوگی تکیے کے نیچے۔

    نواب ارے بھائی دیکھتے ہو، میرے ہاتھ میں بٹیر ہے، تمہیں نکال دو۔

    حسین علی (پلنگ کے سرہانے جاکے) امراؤ جان، لے اٹھیے نواب صاحب کی ٹوپی ڈھونڈ دیجئے۔

    امراؤ جان (انگڑائی لے کے اٹھیں مگر نہایت ہی برہم اور اٹھنے کے ساتھ ہی ایک گھونسا حسین علی کے رسید کردیا) نگوڑمارا سونے نہیں دیتا۔ بھاڑ میں جائے ٹوپی، میں کیا جانوں کہاں ہے۔

    حسین علی اے لو! ناحق بن ناحق کو مارتی ہیں۔ میں نے جانا آپ کے پاس ہوگی۔

    امراؤ جان مردے کی شامت آئی ہے، میں ٹوپی کو لے کر سوئی تھی، میں کیا جانوں کہاں ہے۔ (یہ کہہ کر پھرلیٹ گئیں) لے ذرا لحاف اڑھا دے۔

    ٹوپی واقعی تکیہ کے نیچے نہ تھی۔ پلنگ کی پٹی کے پاس گنوں کے چھلکوں پر پڑی تھی۔ یہ اس کمرے کا ذکر ہے جہاں نواب صاحب بہ نفس نفیس مع امراؤ جان صاحبہ کے آرام کرتے تھے۔

    نواب حسین علی۔

    حسین علی حاضر

    نواب دیکھو تو کھانا تیار ہے۔

    حسین علی، (ڈیوڑھی جاکے پھر زور سے پکار کے) حسینی، نواب صاحب پوچھتے ہیں خاصہ تیار ہے۔

    حسینی خاصہ تو ابھی نہیں تیار ہے۔ نواب صاحب کو اندر بھیج دو۔

    حسین علی (نواب صاحب کے پاس جاکے) حضور محل میں تشریف لے جائیے۔

    نواب کیوں کیا کوئی بلاتا ہے۔

    حسین علی جی ہاں بلایا ہے۔

    نواب پوچھو تو کون بلاتا ہے۔ کیوں بلایا ہے۔ ڈھیلا سا کھینچ مارا گھر میں جائیے۔

    حسین علی (ڈیوڑھی پر پھر جاکے) کیوں بلایا ہے۔ نواب صاحب پوچھتے ہیں کس نے بلایا ہے۔

    حسینی کہہ دو بیگم صاحب نے بلایا ہے۔

    حسین علی حضور بیگم صاحب نے یاد کیا ہے۔

    نواب یاد کیا ہے۔ میاں تم کو بھی بات کرنے کی تمیز آج تک نہ آئی۔ بیگم صاحب نے یاد کیا ہے۔ بیگم صاحب میری اماں جان ہیں کہ انہوں نے یاد کیا ہے۔ ارے بھئی جو کوئی بڑا بلاتا ہے تو اسے کہتے ہیں یاد کیا ہے اور جو برابر والا یا چھوٹا بلاتا ہے تو اسے کہتے ہیں بلایا ہے۔

    حسین علی درست! اب حضور کی صحبت میں رہوں تو سب سیکھ جاؤں گا۔

    اتنے میں نواب صاحب کے ایک رفیق قدیم حسن خاں صاحب تشریف لائے۔

    نواب خاں صاحب! ذرا میاں حسین علی کی تمیز داری دیکھئےگا، فرماتے ہیں کہ بیگم صاحب نے یاد کیا ہے۔

    خاں صاحب (حسین علی طرف نگاہ غیظ سے دیکھ کے) کیوں بھئی!

    حسین علی خاں صاحب مجھے کیا معلوم۔ وہ حسینی نے تو یہی کہا تھا کہ بلایا ہے، میری بیوقوفی میں نے کہہ دیا کہ یاد کیا ہے۔

    نواب یاد کیا ہے! اماں جان نے یاد کیا ہے (جملہ دوبارہ اس لیے ارشاد ہوا کہ فقرہ چست تھا مگر اس کی داد ابھی تک نہیں ملی تھی حسین علی بدتمیز اس کی نزاکت کو کیا سمجھتا، مسکراکے چپ ہو رہا تھا اور خان صاحب پرانے پھندیت یا بقول امراؤ جان پرانے کھوسٹ تھے) 

    خان صاحب (ایک قہقہہ لگاکے) واللہ نواب خوب کہی (او پھر ایک قہقہہ) 

    نواب صاحب بھئی خان صاحب۔ سچ تو یہ ہے کہ تمیز داری اب دنیا سے اٹھ گئی۔ وہ آپ کو یاد ہے ہمارے باوا جان کے وقت کا خدمت گار۔ اجی وہی بھلا سانام تھا۔

    خان صاحب کریم بخش کہیے۔

    نواب نہیں نہیں ! کریم بخش نہیں وہ تو اب نوکر ہوا تھا جی وہ بڈھا سا آدمی تھا۔ باہر کا رہنے والا (اس وقت علی حسین اس کمرے میں تھا جہاں امراؤ جان آرام کرتی تھیں کیونکہ اب وہ بیدار ہوچکی تھیں اور حسین علی نے جاکے حقہ لگایا تھا) 

    امراؤ نواب اس وقت ہیں کہاں؟

    حسین علی وہ کیا دالان میں ہیں جہاں مرغوں کے ٹاپے بیڑوں کی کابکیں ہیں۔

    امراؤ جبھی اور یہ موا کھوسٹ بھی پہنچ گیا۔ ہاں آج پالی کا دن ہے نا؟

    نواب اجی وہی کرم علی بیگ آپ کو یاد ہے نہ؟

    خان یہ خوب کہی۔ آپ کو اچھی طرح یاد ہے آپ کا سن ہی کیا تھا اس زمانے میں۔

    نواب اور آپ کا سن کیا تھا؟

    خان میں جوان تھا۔ داڑھی مونچھیں نکل چکی تھیں۔

    نواب تو یہ کہئے آپ مجھ سے بڑے ہیں۔

    خان اس میں کیا شک ہے۔ ایسا ہوں کہ آپ کے باوا جان کے پاس نوکر تھا۔

    نواب اور نوکر آپ کاہے میں تھے مشعلچیوں میں؟ نان پزوں میں؟

    خان آپ کو یاد نہیں رکاب داروں میں۔ آخر آپ کا عہدہ کیا تھا؟

    نواب (ہنس کے) ابے تو بتاتا کیوں نہیں ہے کا ہے میں نوکر تھا۔

    خان سبحان اللہ!یہ ابھی خدمت گار کو ادب قاعدہ سکھایا جاتا تھا اور خود نواب صاحب کی زبان کیا آراستہ ہے یہ ابے تبے کیسی؟ مرد آدمیوں سے یونہی گفتگو کرتے ہیں۔

    نواب تو آپ میرے مصاحب نہیں اتالیق ہیں۔

    خان اتالیق نہ سہی مرد آدمی تو ہیں۔ مرد آدمیوں سے یوں نہیں گفتگو کرتے ہیں۔

    نواب آپ مرد آدمی ہیں، یہ آج ہی معلوم ہوا۔ ابے تو پرانا چڑی مار ہے، ہم سے باتیں بنانے چلا ہے، تجھے مرد آدمی کون سمجھتا ہے؟

    بات یہ تھی کہ خان صاحب کے والد مرغ بازوں میں ملازم تھے اور خود ان کا اسم بیٹربازوں میں تھا۔

    خان تسلیم کرکے۔ یہ آپ کی قدردانی ہے۔

    امراؤ (ذرا چلا کے، جس میں نواب صاحب سن سکیں) واللہ خوب کہی!

    حسین علی چڑی مار تو نہیں چمرگد کی اچھی ہوتی ہے (یہ چپکے سے کہا تھا) 

    امراؤ (خاں صاحب سے چلاّ کے) یہ موا چمرا بگلا آگیا۔

    خان اور یہ بی چمربگلی کہاں سے بولیں۔

    نواب رات کو تو پرانا کھوسٹ تھا اور اب الو کی دم فاختہ ہو گیا۔

    خان رات کو تو پرانا کھوسٹ تھا اور اب الو کی دم فاختہ ہو گیا۔

    نواب لیجئے اب آپ بڑھنے لگے اور جو میں اس کا جواب دوں۔

    امراؤ جان خدا کے لیے نواب جواب نہ دینا، نہیں تو روٹیوں کو محتاج ہوجائے گا۔

    خان روٹیوں کو کیوں محتاج ہو جاؤگی، کٹنا پاکر نا۔

    امراؤ جی ہاں نواز گنج میں کٹنا پاکروں گی۔

    خاں صاحب کچھ نواب والے فقرہ سے جھیپے ہوئے تھے او رکچھ امراؤ جان کے آخری جملہ سے اور بھی تیہا آ گیا تھا۔ اب جو نواب نے اک ذرا شہ دی تو بالکل ہی ہتے پر سے اکھڑ گئے۔ اب امراؤ جان سے اور ان سے خوب دو دو چونچیں ہوئیں۔ نواب چپکے چپکے بیٹھے سیر دیکھا کیے۔

    حسن خان واللہ اب کبھی تو ان سے بولوں گا نہیں، ان کی حقیقت ہی کیا ہے، ہستی ہی کیا ہے، ابھی تین برس کا ذکر ہے میرے بھانجے کی شادی میں مجرے کو گئی تھیں۔ اب نواب کے پاس رہ کردماغ آسمان پر چڑھ گیا ہے۔

    امراؤ ابے جا۔ میں ایسے گھگھوؤں سے بات کب کرتی ہوں۔

    اتنی دیر کے لطف صحبت کے بعد کہیں یہ نہ کہہ اٹھیےگا کہ یہ ساری سحر آفرینی بول چال کی صفائی اور ساری طلسم بندی روز مرہ کی شستگی کی ہے۔ مرزا صاحب کے روز مرہ کا کیا کہنا لیکن اتنی صحیح اور سچی، اصلی اور گہری نقاشی کہیں محض زباں دانی کے بل بوتے پر اور خالی خولی لطف زبان کے سہارے ممکن ہے؟ جذبات نگاری نرے ایک ادیب کے بس کی بات ہے جب تک وہ ادیب ساتھ ہی حکیم بھی نہ ہو؟

    ذکی چودہ سال کی عمر کا ایک بڑا نیک چلن لڑکا ہے اور یہ تو یاد ہی ہوگا بیسویں صدی کے وسط کا نہیں، اس سے بہت قبل کا ہے۔ پڑھنے لکھنے کاشائق کیا بلکہ عاشق۔ رشتہ کی ایک خالہ ہیں اور ان کی گیارہ بارہ سال کی لڑکی ہے بگن۔ قبول صورت، نک سک سے درست۔ ذکی کی والدہ کے پاس کل یہ خالہ آنے والی ہیں۔ شام کو ذکی کی بوا نیک قدم نے کہیں ذکی سے کہہ دیا کہ کل تمہاری خالہ اماں آنے والی ہیں۔ ذکی نے کہاکون خالہ اماں؟

    نیک قدم۔ ایسے ننھے جیسے یہ جانتے نہیں، تمہاری خالہ اماں اور کون، جعفری بیگم صاحبہ، بگن صاحبہ کی اماں جان، تمہاری ساس۔

    ذکی نے ہمت کرکے اتنا اور پوچھ لیا، ’’بوا کیا بگن بھی آئیں گی؟‘‘

    ’’پوچھنے کو تو پوچھ لیا مگر ذکی ایسے شرما گئے تھے کہ اب ان سے باورچی خانہ میں نہ ٹھہرا گیا۔ انہوں نے پہلے دالان کی طرف رخ کیا۔ دیکھا کہ اماں جان اور باوا جان میں کچھ مصلحت سی ہو رہی ہے۔ سمجھے کہ یہی باتیں ہوں گی۔ جی تو چاہتا تھا کہ سنیں، مگر مارے حجاب کے نہ جا سکے۔ پہلے نیم کے نیچے بڑی دیر تک ٹہلا کیے، پھر گیندوں کے پاس جا کھڑے ہوئے، ایک ایک گیندے کو غور سے دیکھا کیے، پھر تھوڑی دیر کنویں کی جگت پر بیٹھے رہے۔‘‘

    دوسرے دن جمعہ ہے اور وہی دن ذکی کے لیے بگن کے آنے کا ہے۔ اب میاں ذکی کے دل و دماغ کی سرگزشت مرزا صاحب کی زبان سے سنیے، ’’ابھی ایسے لوگ بہت موجود ہیں جنہوں نے مکتبوں میں تعلیم پائی ہے، ان سے پوچھو کہ جمعہ کی رات کیا چیز ہے، نہ آج رات کو سبق یاد کرنا ہے، نہ کل صبح کو سویرے اٹھ کر مکتب میں جانا، نہ مولوی صاحب کی متبرک صورت دیکھنا، نہ پڑھنا، نہ لکھنا، نہ گھڑکیاں، نہ قمچیاں۔ کل ہم ہیں اور کنکوا، کل ہم ہیں اور چھلی چھلیا۔ محمد ذکی ان لڑکوں میں نہ تھا جن کو چھٹی کی زیادہ خوشی ہوتی ہے اس لیے کہ اس کو پڑھنے کا شوق خداداد تھا۔ مگر پھر بچہ تھا۔ اس کو جمعہ کو خوشی کیوں نہ ہوتی، تعطیل کی خوشی کس کو نہیں ہوتی اور یہاں ذکی کی جوحالت تھی وہ تو ناظرین قیاس کر سکتے ہیں۔ صبح سے راستہ دیکھنا کیسا، یہاں شام ہی سے انتظار ہے۔

    اب رات کے نو بجے ہیں میاں ذکی اپنی پلنگڑی پر رضائی سے منھ لپیٹے پڑے ہیں۔ سوتا کون ہے؟ گوکہ سن ابھی چودہ برس سے کچھ ہی زائد ہے مگر حسن وعشق کے اکثر افسانے دیکھے ہیں۔۔۔ خیالات کچھ نہ کچھ تو ضرور صاف ہوگئے ہوں گے، بگن کو دیکھ ہی چکے ہیں۔۔۔ دل میں کبھی خیال نہ آیا تھا کہ بگن کے ساتھ شادی ہو جائے بلکہ شادی کا شوق بھی آج ہی دل میں پیدا ہوا تھا۔۔۔ کیسی شادی؟ نیک قدم نے یونہی کہہ دیا ہوگا، غلط! بھلا ایسی بات کہہ سکتی ہیں۔ پرائی بیٹی پر گالی چڑھانا کیا آسان بات ہے اور جو اماں جان سن لیتیں۔ نہیں اس بات کی کچھ نہ کچھ اصل ضرور ہے۔۔۔ اے لو کچھ بج رہا ہے ایک، دو، تین، دس۔ دس بج گئے یہاں نیند ہی نہیں آتی۔ ابا جان نے آرام کیا، اماں ابھی تک جاگ رہی ہیں۔ پاجامہ کیوں چھپ چھپ سی رہی ہیں، کل خالہ ضرور آئیں گی، دیکھئے بگن کو ساتھ لاتی ہیں یا نہیں، خالہ تو کل آئیں گی، ممکن ہے بگن بھی ساتھ آئے مجھے ابھی سے نیند کیوں نہیں آتی۔۔۔ اے لو میں آنکھیں بند کرتا ہوں اب تو نیند آئے گی۔ یا اللہ نیند آجائے۔۔۔ خدا جانے ذکی کو رات بھر نیند آئی بھی یا اسی الجھن میں صبح، ہم تو جانتے ہیں نیند نہیں آئی، اس لیے کہ جب میر صاحب نماز کے لیے اٹھے تو یہ بھی کھڑک سے اٹھ بیٹھے۔‘‘

    آخر عمر میں یاروں نے خدا جانے کیا کچھ خرچ کرکر، مرزا صاحب کو امریکہ کی کسی خانہ ساز یونیورسٹی سے فلسفہ کی ڈگری دلادی تھی اور اس کی بنیاد پر مرزا صاحب کی فلسفیت کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیا تھا، حالانکہ مرزا صاحب کا حکیمانہ مرتبہ اس سے کہیں بالا تر تھا، ان کی فلسفیت کی بہترین اور معتبر ترین شاہد خود ان کی تصانیف ہیں۔ جذبات انسانی تخیل وتجزی جس عنوان سے اپنے افسانوں میں انہوں نے کی ہے، وہ ایک حکیم اور فلسفی ہی کا قلم کر سکتا ہے۔ خالی خولی اہل زبان اور اہل انشاء نہیں۔

    بچپن کے عشق کی مصوری کوئی آسان کام نہیں۔ اچھے اچھے جید اور کامیاب مکالمہ نگار بچوں کی نقالی کرنے میں ٹھوکر کھا گئے ہیں۔ بوڑھا آدمی آخر بچہ کہاں سے بن جائے۔ اردو کے بعض بڑے نامور افسانہ نویس پر ایک نظر کر جائیے، لغزشیں یہیں آ کر ہوئی ہوں گی۔ بچوں کے جذبات اور پھر جذبہ بھی کون سا، عشق ومحبت کا اور پھر محبت بھی بازاری قسم کی نہیں ایک بالکل کم سن شریف لڑکے کی جائز محبت، اپنی منگیتر ایک شریف لڑکی کے ساتھ، اس کی ترجمانی کو ئی منھ کا نوالہ نہیں۔ مگر دیکھئے مرزا صاحب اس وادی کو بھی اس خوبصورتی سے طے کر جاتے ہیں کہ گویا یہ سارے راستے ان کے خوب دیکھے بھالے پڑے ہیں۔ بگن جمعہ کو تو نہیں البتہ اتوار کو اپنی والدہ ماجدہ کی معیت میں ذکی کے گھر آتی ہے۔ بڑی بوڑھیاں آپس میں مل بیٹھ باتیں کرتی ہوتی ہیں اور ادھر انگنائی میں گیندے کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ ایک طرف چودہ برس کا لڑکا دوسری طرف بارہ برس کی لڑکی۔ اس کھیل میں دستور یہ ہے کہ جب گیندا کسی سے روکا نہیں جاتا اور زمین پر گر پڑتا ہے تو آنکھ سے اٹھانا پڑتا ہے۔ اایک دفعہ گیندا بگن کی طرف زمین پر گر پڑا۔

    ذکی اچھا تو پھر آنکھ سے اٹھائیے

    بگن ہم تو نہیں اٹھائیں گے۔ واہ کپڑے مٹی میں بھر جائیں گے، بڑے آنکھ سے اٹھوانے والے۔

    ذکی تم کھیل میں دھاندلی کرتی ہو۔ ہم نے ابھی نہیں اٹھایا تھا؟

    بگن تم اٹھاؤ ہم نہیں اٹھاتے، ہم تو یوں ہی کھیلیں گے، تمہارا جی چاہے کھیلو جی چاہے نہ کھیلو۔ اے لو میں جاتی ہوں۔

    ذکی اچھا یوں ہی کھیلو پھر ہم بھی اب نہ اٹھائیں گے۔

    میاں ذکی کو دستور کی پابندی پر اصرار کرنا مناسب نہ معلوم ہوا۔ پھر کھیل شروع ہو گیا۔ ذکی کے مزاج میں شرارت نہ تھی مگر اتفاق سے بگن کے گال پر یا کہیں اور پھول جا پڑتا اس وقت عجیب لطف ہوتا تھا۔ وہ بگن کا جھجکنا، وہ چھپ کر اوڑھنی سنبھالنا، پھر جھنجھلا کے ذکی کو پھول مار بیٹھنا، ذکی کا نشانہ بچا کے ہنسنا، بگن کا کھسیانی ہوکے روٹھ جانا۔

    بگن بھئی (ی کو بڑھاکے) جاؤ ہم نہیں کھیلتے۔

    ذکی کا منانا اچھا خیر جانے دو، کوئی ہم نے جان کے پھول مارا؟ پڑ گیا، اچھا برا ہوا، پھر کھیلو، اب ایسا نہ ہوگا۔

    بگن واہ! کس زور سے میرے گال پر پھول پڑا، میں نہیں کھیلتی۔

    اور اصل بات یہ تھی کہ بگن تھک بھی گئی تھی۔

    ذکی کھیلو بھی، تم ذراسی بات میں بگڑ جاتی ہو۔

    بگن ایسی ذراسی بات، اور جو میری آنکھ میں لگ جاتا تو دیدہ پھوٹ جاتا تو؟

    ذکی خدا نہ کرے کہیں گیندا کھیلنے میں آنکھ پھوٹ جایا کرتی ہیں۔

    بگن اچھا بھلا ہم تو تمہاری آنکھ میں ایک لگائیں۔

    ذکی لگاؤ۔

    بگن اچھا تو ہم نہیں کھیلتے۔

    ذکی کھیلو بھی (سماجت کے لہجہ میں) 

    بگن نہیں کھیلتے۔ نہیں کھیلتے۔ نہیں کھیلتے۔

    ذکی (اور ایک بڑا گیندا توڑ کے) آؤ تم بھی کیا آدمی ہو، اس سے کھیلیں، دیکھو کیا بڑا گیندا ہے۔

    بگن دیکھیں (گیندا ذکی کے ہاتھ سے لے کے نوچ کھسوٹ جوتی کے نیچے مل ڈالا گیندا کیا مل ڈالا، گویا میاں ذکی کا دل تلوؤں کے نیچے مل ڈالا۔

    ذکی (آزردہ ہوکے) تمہارے مزاج میں بھی کس قدر ضد ہے۔

    بگن (گردن کو ذرا کج دے کے اور بھوؤں کو اوپر چڑھاکے) ہمارے مزاج میں ضد ہے؟ پھر تمہاری بلا سے، تمہیں کیا؟ (یہ کہہ کر پھر دل دل میں کچھ سوچ کے) اچھا تو ضد ہی سہی، اب تم ہم سے نہ بولنا۔ یہ کہہ کے یہ جاوہ جا، دوڑ کے ماں کے پہلو میں جابیٹھی۔ چلو سارا کھیل ہی بگڑ گیا۔ اب میاں ذکی کا وہ حال ہے جیسے کوئی لڑکا بڑی مشکل سے ایک چڑیا پکڑے اور وہ دفعتاً ہاتھ سے چھوٹ کر فراٹا مار کے ایک درخت کی شاخ پر جا بیٹھے۔

    یہی نازک مقامات مرزا صاحب کے دعوئ عظمت و امتیاز کے روشن دلائل ہیں۔ ان کی نزاکتوں کا سنبھالنا نہ نرے کھرّے فلسفی کے بس کی چیز ہے، نہ محض ادیب و انشا پرداز کے۔

    افشائے راز افسوس ہے کہ بالکل ناتمام رہی اور راز کا افشاء بالکل کیا معنی تقریباً بھی نہ ہوپایا۔ اس پر بھی مرزا صاحب کی بہترین تصانیف میں ہے، اور جس نے اس کو اور امراؤ جان اور اختری بیگم کو نہیں پڑھا اس نے مرزا صاحب کو جانا ہی نہیں۔ خیر افسانہ تو جیسا ہے ہئی ہے، افسانہ سے بھی کچھ بڑھ کر دلکش اور بیش بہا تمہید افسانہ ہے۔ یہاں مرزا صاحب نے فرضی افسانہ نگار یعنی مرزا رسوا کو کچھ ہدایتیں افسانہ کی زبان اور طرز بیان سے متعلق کی ہیں۔ یہ ہدایات کیا ہے، ہر اردو نویس کے لیے ایک بہترین پند نامہ۔ آج ۱۹۳۲ء ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ آج سے ایک قرن قبل ۱۸۹۶ء میں مرزا صاحب کی نظر ان نکتوں تک کیونکر پہنچ گئی تھی۔ نقدو تنقید کے یہ گر ہاتھ آجانے کے بعد آج کل کے بہت سے ’’رئیس التحریر‘‘ بڑے بڑے قلم باز آپ کی نظر سے گر کر رہیں، تو اس کی ذمہ داری اس مقالہ نویس پر نہیں۔ بہرحال اب وہ ہدایتیں خود مرزا صاحب کی زبان مبارک سے سن چلیے۔ فرماتے ہیں،

    ’’لکھیے تو اس طرح لکھیے کہ جس طرح ہم آپ باتیں کرتے ہیں، نہ کہ اس عبارت میں جو کسی انگریزی کتاب کا لفظی ترجمہ معلوم ہو اور وہ بھی ایسا کہ مطلب دل میں اور لفظیں کتاب میں۔۔۔ میں انگریزی لفظوں سے چڑھتانہیں ہوں، شوق سے استعمال کیجئے۔ مگر وہی لفظیں جو اردو زبان میں ایسی کھپ گئی ہیں کہ اب ان کو سب سمجھنے لگے ہیں۔ خیر ’ناول‘ بھی چنداں ثقیل نہیں ہے۔۔۔ قیامت خیز تو یہ لفظیں ہیں ڈیڈی کیشن، انٹروڈکشن، ایسوسی ایشن، سوسائٹی، سوشل ریفارم، پولیٹیکل پارٹی، اسٹڈی، ڈیوٹی، بیوٹی۔۔۔ یہ لفظیں ابھی اور لوگوں کو بولنے دیجئے اور آپ اتنے عرصے تک توقف کیجئے کہ مثل بوتل، کاگ، بوتام، گلاس، لمپ، پادری، گرجا، اسٹیشن، ریل وغیرہ کے عام فہم ہوجائیں۔ اور یہ ترکیبیں جو آج کل کے انشاپردازوں نے ایجاد کی ہیں، یک قلم نظری کر دیجئے مثلاً،

    ایک غمگین کرسی، ایک ہمدرد میز، ایک مسکین چھری، ایک شرمناک تولیا، ایک دلسوز کانٹا، دوماہر چمچے، تین بے وفا پلیٹیں۔ ایک مؤقر قلم، ایک سنجیدہ دوات، ایک متبسم چاقو، ایک متحرک انگارہ، ایک نمکین چلم، ایک فاضل حقہ، ایک غریب قطرہ، ایک غضب ناک دریا، ایک طرحدار مرغی، ایک شیریں ادا بطخ، ایک پرتمثال فاختہ، ایک مہذب الو، ایک آزاد مینڈک، ایک روشن ضمیر چوہا، ایک متین گدھ، ایک حلیم بھیڑ، ایک سریلا گیدڑ، ایک دلستان کتا، ایک دلربا بلی، ایک خوش لہجہ جھینگر، ایک دوراندیش مکھی، ایک ذخار گڑھیا۔ ایک ہیبت ناک سڑک، ایک خوش آہنگ مگر ستم شعار مچھر، ایک تکلیف دہ مگر خوشنمائی سے رینگنے والا کھٹمل، ایک نحیف الجثہ مگر جگر خراش پسو، ایک انوکھا مگر حیرت بخش پھرتی کے ساتھ کود جانے والا بندر۔‘‘

    یہ نمونے مرزا صاحب نے اپنی نوجوانی میں دیکھے تھے۔ غریب کو کیا خبر تھی کہ ان کی زندگی ہی میں اور ان کے بعد تو اور بھی ذیل کی ترکیبیں بڑے بڑے اونچے دعوے والوں کے لیے مایۂ نازش وافتخار ہوں گی، ’’ایک منہمک شام، ایک مؤدب فاصلہ، ایک روشن تھرتھری، ایک مسترحم نشیب، ایک زہرہ گداز تبسم، ایک نیچی غراہٹ، ایک ذخار خاموشی، ایک متلاطم سکون، ایک رقیق خرام، ایک ملائم قہقہہ، موٹے موٹے قہقہہ لگاتے ہوئے مچھر، ایک نور پاش خراماں پیکر آتشیں، ایک گلابی رنگ میں ڈوبی ہوئی برق متحرک، مجھ میں اپنے اشارہ مبہم سے ایک انجذاب مضطر پیدا کر رہی ہے‘‘

    ’’اور میں اس وقت مجہول کی طرف کھینچا جارہا ہوں، یہ نزہت بار ہستی، گھنگھرؤں کی جھنکار اک بارگی میرے جسم میں رینگ کر ہزاروں نبضوں کی طرح پھڑپھڑانے لگی۔‘‘

    ’’ہال کے اندر قہقہے دھڑک رہے تھے، ملی جلی باتوں کی تیز تیز چیخیں تھیں اور یہ تمام شور مجموعی طور پر ایک ہیبت ناک کراہ کی طرح لرز رہا تھا، ایک خاموش گرج اور چمک کے ساتھ سیاہ پہاڑ چودھری کی ہستی پر پھٹا یہ مصفا ترکیب عناصر میرے وجود کو، میری روح لرزاں کو مسحور کر رہا ہے، اپنی آنکھوں کے خندۂ سیال سے، اپنے بالوں کی بوئے شکستگی سے، اپنے خرام وقار سے۔‘‘

     ’’وہ آئینہ سیما لڑکی اپنی عفت و شرم میں محافظ رکھتی تھی، تھوڑا سا وقوف یقیناً عقل وفراست کا ایک جرثومہ ہے جو ایک ستارہ سے دوسرے ستارہ تک اپنا کام کر رہا ہے۔‘‘

     ’’اے اوپر والے آسمان، اے روشنی کے عمیق غار تجھے دیکھ کر میں آلہانہ جذبات سے کانپنے لگتا ہوں، تیری بلندی کی طرف میرا اپنے تئیں اچھال دینا یہ ہے میرا عمق، تیرے ہی آلہانہ امکانات کے لیے میرا صحن رقص ہے اور تیری فضا آلہانہ قمار بازی کی کھلی ہوئی بساط۔‘‘

    لفظوں اور ترکیبوں کے کشت زعفران ہو چکی۔ اب ذرا عبارتوں کا لہلہاتا ہوا تختۂ چمن ملاحظہ ہو، عبارتیں پڑھتے جائیے اور جن جن سروں پر یہ ٹوپی ٹھیک آ رہی ہو، دل ہی دل میں یاد کرکے انہیں خدا کے حوالے کرتے جائیے پہلا نمونہ، ’’وہ انوکھی کالی بھینس جس کا ٹوٹا ہوا سینگ اگلی بے رحمانہ حکومت کے تاریخی حالات کا ایک بے نظیر فوٹو ہے، جس کی ہیئت کذائی ہندوستان کے قدیم تاریک جاہلانہ اور حد سے زیادہ بدکاواک مگر نیچرل اور منفعت سے بھرے ہوئے سامان تعیش کا ایک سچا چربا ہے۔۔۔ مگر جو افسوس کہ اس آزاد اور سویلائزد منصف گورنمنٹ کے عہد حکومت میں بھی کیچڑوں میں پھنس کر بلا مدد اس لاٹھی کے جو کبھی کبھی اس کے پٹھے پر پڑکر اسے تڑپا دینے والی ہے، ہر گز نہیں نکل سکتی۔‘‘

    دوسرا نمونہ: ’’وہ سفید بگلا جس کے لیے باریک، نوک دار، حوصلہ مند مگر بے رحم چونچ ایک شور انگیز بھنبھنانے والے شکار کی بدقسمتی سے ایک نیچرل مگر مضحک انداز کے ساتھ ایک سیکنڈ کے لیے کھل کر پھر بند ہوجانے کے قابل ہو جاتی ہے۔۔۔ اور جس کی طویل ٹانگیں کسی اعلیٰ درجہ کے نیچرل پوئیٹ یا ناولسٹ کے جادو نگار قلم سے نکلنے والے طولانی مگر معنی خیز جملوں یا مصرعوں کی طرح بہت ہی دلچسپ اور موزوں ہیں مگر یہ انٹرسٹنگ اڑنے والا جانور ایک کثیف ایشیائی مکان کے صحن میں کس بیہودگی کے ساتھ مکھی کی ٹوہ میں دن بھر پھرتا اور کبھی نہیں تھکتا ہے۔‘‘

    تیسرا نمونہ: ’’وہ اولڈ فیشنڈ انلائٹینڈ چوہا جو اپنے سنٹر میں بودوباش کے لیے کمپلیکٹیڈ میسیج بناتا ہے۔‘‘

    ’’ادب لطیف‘‘ اور پھر اس کے بعد ’’ترقی پسند ادب‘‘ کے دہرے دہرے عذاب اس زمانہ تک اردو پر کہاں مسلط ہونے پائے تھے ورنہ ممکن نہ تھا کہ اس قسم کے نمونے مرزا صاحب کی نظر سے چھوٹنے پاتے، ’’جب تکوین عالم کی بالکل ابتدا تھی، مذاق آفرینش امواج آب سے لاعب نظر آتا تھا، شبستان ناز کے پر لطف دقیقہائے برق کسی کی آرمیدہ مژگان کی آغوش میں تھک کر سو گئے ہیں۔‘‘

    ’’ایک پراسرار قبرستانی سسکی ہوا میں لرزتی ہے، چاندنی ایک موسیقی ہے سہانی، نرم، اور معطر‘‘

     ’’زور زور سے چنگھاڑیں مار کر روؤں۔‘‘

    ’’سید محمد ذکی افشائے راز کے رستم داستان، اسی لکھنؤ کے رہنے والے تھے۔۔۔ گفتگو میں کسی قسم کا تکلف اور تصنع نہ تھا، نہ یس نہ نو، نہ اومائی گاڈ، نہ ہاؤ ڈو یو ڈو، نہ گڈمارننگ، نہ ول ڈن، نہ ول کم، نہ تھینکس، بس یہی ہاں، نہ، درست، بجا، قبلہ، حضرت، آئیے، تشریف لائیے، آداب، تسلیمات، مزاج شریف، دعا عرض کرتا ہوں، یہی ان کا روز مرہ تھا۔‘‘

    ان کی اردو، و ہی اردو تھی جو لکھنؤ کے شرفا کی زبان ہے۔ خیر وہ اردو تو ان کی ہو ہی نہیں سکتی تھی جس پر انگریزی کا دھوکہ ہو لیکن ساتھ ہی انہیں اس اردو کے لکھنے کا عارضہ نہ تھا جس کے سمجھنے کے لیے انسان کو صراح و قاموس کے ازبر کرنے کی ضرورت لاحق ہو۔ مثلاً اس قسم کی اردو ان کی ہرگز نہ تھی، ’’ان کی شان ارفع تھی۔ اس سے ارتکاب سرف و نرف اپنے ملابس اور مآکل بلکہ سائر متناولات میں جائز رکھتے۔‘‘ یا یہ کہ ’’فی الجملہ تشبث و تعصف و تلہف و شطارت و بطارت و تجشم، و تجاسر، و تمازح غرض کہ تنافر سے ان کو کلیتاً نفرت تھی بلکہ کسی قسم کا استغراب و استعطاف و استعظام و استنکاف و استخفاف ان کی شمیت و جبلت و قربحت، و عزیزت میں نہ تھا۔‘‘

    شعر بھی کہہ لیا کرتے تھے مگر نہ ایسے اشعار، جیسے ایک مولوی صاحب مرحوم اکثر نظم فرمایا کرتے تھے،

    اڑنے میں طائرانِ ہوا باز کرکے پر
    کرتے ہیں بند اپنے زمیں پر اتر کے پر

    یا ایسے اشعار جو لکھنؤ میں بعض صاحبوں کے مذاق کے موافق ہیں۔

    حاسد نہ میرے ذرودۂ تادیب تک گئے
    رستہ میں بال ققنسِ ادراک تھک گئے

    یا اساتذۂ حال میں سے بعض کے اشعار،

    سالکِ مسلک ایجاد ہوں، مکڑی کی طرح
    راہیں سو دل سے نکالوں جو ذرا دل ٹھہرے

    یا ایک اور بزرگ فرماتے ہیں،

    سوزاں ترا جو دفن نہودشت گرم میں
    تکمیدِ مومِ سمّ غزالانِ چین نہو

    یاایک اور فاضل کا مشہور شعر ہے،

    رات کس کی بزم میں برہم مزاجِ چنگ تھا
    شور نغمہ کا نمک ریز مئے آہنگ تھا

    یا پھر دور ترقی پسندی کے یادگار اس قسم کے مصرعے،

    (۱) تند ہوائیں بال بکھیرے چیخ رہی ہیں
    (۲) کھردرے گالوں پہ غازے کی تہیں ہانپتی ہیں
    (۳) رات کے بوجھ سے وہ ہانپتی سی خاموشی

    سنتے ہیں کسی زمانے میں وصایائے افلاطون کا مطالعہ فلسفہ کے ہرطالب علم کے لیے لازمی تھا، بس چلتا تو آج ان وصایائے مرزا اور ان کے جدید ایڈیشن کو ادب کے ہر طالب علم کے درس لازم میں رکھ دیا جاتا کہ اردو غریب کو نئے نئے مجتہدین زبان کی مشق ستم سے کچھ تو نجات ملتی۔

    مرزا کی شاعری کے کچھ نمونے اوپر گزر چکے ہیں، کچھ اب ملاحظہ ہوں لیکن اس کے قبل کچھ دھندلاسا نقشہ ذہن کے سامنے اس کا بھی لے آئیے کہ جس وقت مرزا صاحب نے غزل گوئی شروع کی ہے، اس وقت لکھنؤ کی شاعری اور غزل گوئی کا رنگ تھا کیا۔ جس ماحول میں مرزا صاحب نے آنکھیں کھولیں وہاں دھوم تو کچھ اس طرز سخن کی تھی۔

    چھینٹے کل آپ جو غیروں سے لڑے پانی کے
    پڑگئے سیکڑوں بس ہم پہ گھڑے پانی کے

    میری تربت پر لگایا نیم کا اس نے درخت
    بعد مرنے کے مری تو قبر آدھی رہ گئی

    اس بت رشک سلیماں کی کمر
    سایۂ مژگان چشم حور ہے

    کمرتیری ہے وہ جس نے کمرتوڑی ہے چیتوں کی
    تری آنکھوں کے آگے اے پری آہو چکارا ہے

    رونے کی تجھے لہر جو اے چشم تر آئی
    کوسوں نظر آئے گا نہ ٹاپو نہ ترائی

    نام کس کس کے گنے جائیں، اچھے اچھے داستانِ باکمال، اور بڑے بڑے شعرائے نامدار اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے، مشاعروں میں داد اسی کلام کی ملتی اور محفلوں میں واہ واہ کے نعرے اسی سخن وری پر بلند ہوتے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ وقت کے ادبیات کا رخ پھر دینا کوئی آسان بات نہیں۔ یہ مرزا ہی کا دل وجگر تھا کہ اس فضا میں رہ کر اور اس ماحول میں پل کر شعر کہے تو اس آن بان کے،

    آج اس بزم میں وہ جلونما ہوتا ہے
    دیکھیے دیکھیے اک آن میں کیا ہوتا ہے

    نالہ رکتا ہے تو سرگرم جفا ہوتا ہے
    درد تھمتا ہے تو بے درد خفا ہوتا ہے

    بت پرستی میں نہ ہوگا کوئی مجھ سا بدنام
    جھیپتا ہوں جو کہیں ذکر خدا ہوتا ہے

    عشق میں حسرتِ دل کا تو نکلنا کیسا
    دم نکلنے میں بھی کمبخت مزا ہوتا ہے

    قالبِ گور پہنچ جاتے ہیں مرنے والے
    وہ بھی اس وقت کہ جب شوق رسا ہوتا ہے

    آہ میں کچھ بھی اثر ہوتو شرر بار کہوں
    ورنہ شعلہ بھی حقیقت میں ہوا ہوتا ہے

    کس قدر معتقد حسن مکافات ہوں میں
    دل میں خوش ہوتا ہوں جب رنج سوا ہوتا ہے

    شوقِ اظہار اگر ہے تو میرے دل کو نہ توڑ
    اسی آئینہ میں تو جلوہ نما ہوتا ہے

    چھوٹی بحروں میں اور بھی قیامت کرتے ہیں،

    مرتے مرتے نہ قضا یاد آئی
    اسی کافر کی ادا یاد آئی

    تم کو الفت نہ وفا یاد آئی
    یاد آئی تو جفا یاد آئی

    ہجر کی رات گزر ہی جاتی
    کیوں تری زلفِ رسا یاد آئی

    تم جدائی میں بہت یاد آئے
    موت تم سے بھی سوا یاد آئی

    لذت معصیت عشق نہ پوچھ
    خلد میں بھی یہ بلا یاد آئی

    چارہ گر زہر منگادے تھوڑا
    لے مجھے اپنی دوا یاد آئی

    ایسی زمینوں میں خوب خوب گل بوٹے کھلائے ہیں،

    روشِ وحش وطیر یاد آئی
    دشتِ وحشت کی سیر یاد آئی

    کعبہ سے پھر کے ہم ہوئے گمراہ
    پھر وہی راہِ دیر یاد آئی

    زاہد وآج ہم کو پھر وہ شے
    جس سے ہے تم کو بیر یاد آئی

    دیکھ کر مشہد ادا ان کو
    لالہ وگل کی سیر یاد آئی

    غالب کی مشہور زمین ’’بادہ و ساغر کہے بغیر، دشنۂ وخنجر کہے بغیر‘‘ میں قافیہ بدل کیا کیا گلکاریاں کی ہیں،

    غیروں کو ہے ستم کے تقاضے کا حوصلہ
    چھوڑیں گے یہ نہ عشق کو رسوا کیے بغیر

    وعدہ ہو یا کہ قول وہ ایسے ہیں نادہند
     ملتا نہیں کچھ ان سے تقاضا کیے بغیر

    زاہد سے گفتگو ہو کہ واعظ سے بحث ہو
    بنتی نہیں ہے ذکر کسی کا کیے بغیر

    ہر چند اس میں آپ ہی بدنام کیوں نہ ہوں
    باز آئیں گے نہ وہ مرا چرچا کیے بغیر

    رسواؔ سے کیوں ملے ہومحبت جتا کے تم
    چھوڑوں گا اب نہ میں تمہیں رسوا کیے بغیر

    اب ایک غیرمطبوعہ غزل کے تین شعر اور سن کے اس ورق کو الٹ دیجئے،

    کیا کہوں تجھ سے محبت وہ بلا ہے ہمدم
    ہم کو عبرت نہ ہوئی غیر کے مرجانے سے

    دوسرا شعر اس سے بڑھ کر ہے،

    دیکھ اس طرح بھی مل لیتے ہیں ملنے والے
    شمع کا بس نہ چلا بزم میں پروانے سے

    اور تیسرا ان دونوں سے بھی بڑھا ہوا ہے،

    جیتے جی اس کے نہ کہتے مگر اب کہتے ہیں
    لذت غم نہ رہی غیر کے مرجانے سے

    یہ کلام جو ابھی تک ملاحظہ میں آیا، اس کا بیشتر حصہ امراؤ جان سے منقول ہے لیکن آخر کے یہ دو شعر کہیں چھپے ہوئے نظر نہیں گزرے اور اس قصباتی مقالہ نویس کے فخر کے لیے یہ کافی ہے کہ دونوں شعر مرزا صاحب نے اسے لکھنؤ میں اس کے غریب خانہ پر ۱۹۱۹ء میں خود اپنی زبان سے سنائے تھے اور جن تیوروں کے ساتھ، دیکھ اس طرح بھی مل لیتے ہیں آخر والا شعر پڑھا تھا وہ آج تک یاد ہیں۔ شعر پڑھتے وقت بوڑھے سے جوان ہوگئے تھے۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ جس کو شعر میں مخاطب کیا ہے وہ سامنے سرمحفل موجود ہے۔

    مرزا صاحب کے افسانوں میں سب سے زیادہ مشہور مقبول امراؤ جان ادا ہے، یہ بیسویں صدی کی بالکل ابتدا کی تصنیف ہے۔ ہنگامہ ۱۸۵۷ءسے کچھ قبل یعنی واجد علی شاہی دور کی ایک شستہ، نستعلیق، باتمیز، خوش گو، خوش فہم، شریف طوائف کی آپ بیتی ہے۔ شریف کے لفظ پر چونک نہ پڑئیے، اللہ کی ہر مخلوق کی طرح بازاری کسبنیں بھی کسی درجہ میں شرافت کے معیار پر پوری اتر سکتی ہیں۔ مرزا صاحب کی فرمائش بلکہ اصرار پر یہ صاحبہ اپنی آپ بیتی جابجا سے سناتی ہیں۔ مرزا صاحب لکھتے جاتے ہیں اور کہیں کہیں حاشیہ بھی چڑھاتے جاتے ہیں، بچپن سے نوجوانی، نوجوانی سے جوانی، جوانی سے بڑھاپا ہر دور تفصیل کے ساتھ آئینہ ہو جاتا ہے اور لطف زبان کے ساتھ۔ تجربہ، عبرت وبصیرت کے سامان بھی بہم ہوتے جاتے ہیں۔

    طوائف کے نام سے نفرت و حقارت ہی کے جذبات نہ پیدا ہوں، اور یہ خیال نہ گزرے کہ جو بھی اس پیشہ میں ہیں وہ بہرحال و بہر صورت ذلیل و ملعون ہی ہیں۔ خدا جانے کتنی شریف زادیاں، اشراف گھرانوں کی بہو، بیٹیاں، آفت کی ماریاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں زمانہ کی گردش کسی نہ کسی بہانے سے اس پیشہ میں لا پھنساتی ہے اور وہ بیچاریاں حالات کے منجدھار میں بہتی ہوئی ہاتھ پاؤں مارتی ہوئی اس ناپاک اور گندگی زندگی میں جاپڑتی ہیں، جسم شیطان سے بے غیرتی کے سبق لیتا رہتا ہے لیکن ضمیر کی ملامت کی آواز بھی اندر اندر جاری رہتی ہے۔ امراؤ جان کی قسمت میں ناموری، بدنامی کے راستہ سے لکھی ہوئی تھی، پوری ہوکر رہی، مگر وہ کوئی سات پشتوں کی بیسوا نہ تھی۔ فیض آباد میں ایک گھر گرہست خاندان میں پیدا ہوئی۔ نام نہ امراؤ تھانہ امراؤ جان، ماں باپ نے امیرن کہہ کر پکارا تھا۔ بچپن کی قلمی تصویر ملاحظہ ہو۔ آنکھیں اگر نم نہ ہوئیں جب بھی دل میں گداز پیدا ہو ہی جائےگا۔

    ’’شہر کے کنارے کسی محلہ میں میرا گھر تھا۔ میرا مکان پختہ تھا۔ آس پاس کچھ کچے مکان، کچھ جھونپڑے، کچھ کھپریلیں، رہنے والے بھی ایسے ہی ویسے لوگ ہوں گے، کچھ بہشتی، کچھ نائی، دھوبی، کہار۔ میرے مکان کے سوا ایک اونچا گھر اس محلہ میں اوربھی تھا۔ میرے ابا بہو بیگم صاحبہ کے مقبرے پر نوکر تھے، معلوم نہیں کا ہے میں اسم تھا، کیا تنخواہ تھی، اتنا یاد ہے کہ لوگ ان کو جمعدار کہتے تھے۔

    دن بھر میں اپنے بھائی کو کھلایا کرتی تھی اور وہ بھی مجھ سے اس قدر ہلا ہوا تھا کہ دم بھر کے لیے نہ چھوڑتا تھا۔ ابا جب شام کو نوکری پر سے آتے تھے، اس وقت کی خوشی ہم بھائی بہنوں کی کچھ نہ پوچھئے، میں کمر سے لپٹ گئی۔ بھائی اباابا کرکے دوڑا دامن میں چمٹ گیا، ابا کی باچھیں مارے خوشی کے کھلی جاتی ہیں۔ مجھ کو چمکارا، پیٹھ پر ہاتھ پھیرا، بھیا کو گود میں اٹھا لیا، پیار کرنے لگے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ کبھی خالی ہاتھ گھر نہ آتے تھے، کبھی دو کتارے ہاتھ میں ہیں، کبھی بتاسوں، یا تل کے لڈوؤں کا دونا ہاتھ میں ہے۔ اب اس کے حصے لگائے جارہے ہیں۔ اس وقت بھائی بہنوں میں کس مزے کی لڑائیاں ہوتی تھیں۔ وہ کتارا چھینے لیے جاتا، میں مٹھائی کا دونا ہتھیائے لیتی ہوں۔ اماں سامنے کھپریل میں بیٹھی کھانا پکارہی ہیں۔ ابا ادھر آکے بیٹھے نہیں، ادھر میرے تقاضے شروع ہو گئے ابا اللہ گڑیاں نہیں لائے۔ دیکھو میری پاؤں کی جوتی کیسی ٹوٹ گئی ہے تم کو تو خیال ہی نہیں رہتا۔ لو ابھی تک میرا طوق سنار کے ہاں سے بن کے نہیں آیا، چھوٹی خالہ کی لڑکی کی دودھ بڑھائی ہے، بھئی میں کیا پہن کے جاؤں گی، چاہے کچھ ہو عید کے دن تو میں نیا جوڑا پہنوں گی، ہاں میں تو نیا پہنوں گی۔

    جب اماں کھانا پکا چکیں مجھے آواز دی، میں گئی، روٹی کی ٹوکری اور سالن کی پتیلی اٹھا لائی، دسترخوان بچھا اماں نے کھانا کھلایا سب نے سرجوڑ کے کھانا کھایا، خدا کا شکر کیا۔ ابا نے عشا کی نماز پرھی، سو رہے۔ صبح کو تڑکے ابا اٹھے، نماز پڑھی، اسی وقت میں کھڑک سے اٹھ بیٹھی۔ پھر فرمائشیں شروع ہوئیں۔ میرے ابا آج نہ بھولنا گڑیاں ضرور لیتے آنا۔ اباٍ! شام کو بہت سارے امرود اور نارنگیاں لانا۔‘‘

    بچپن کابھی کیا معصومیت کا زمانہ ہوتا ہے! لڑکی غریب گھرانے کی تھی مگر اپنے حال میں مست اور مگن، باپ کی آنکھ کا تارا، ماں کے کلیجہ کی ٹھنڈک، گناہ کی راہوں سے ناواقف اور بدی کی چالوں سے بے خبر، اس غریبی پر سیکڑوں عمارتیں قربان، جھونپڑے کو محل سمجھنے والی، اور محل کیا معنی معصوم کے حق میں تو وہی چھوٹا سا گھر نمونۂ جنت تھا۔

    ’’ہائے کیا دن تھے، کسی بات کی فکر ہی نہ تھی، اچھے سے اچھا کھاتی تھی اور بہتر سے بہتر پہنتی تھی کیونکہ ہمجولی لڑکے لڑکیوں میں کوئی مجھے اپنے سے بہتر نظر نہ آتا تھا۔ دل کھلا ہوا نہ تھا۔ نگاہیں پھٹی ہوئی نہ تھیں۔ جہاں میں رہتی تھی وہاں کوئی مکان میرے مکان سے زیادہ اونچا نہ تھا اور سب ایک کٹھریا یا کھپڑیل میں رہتے تھے۔ میرے مکان میں آمنے سامنے دو دالان تھے، صدر کے دالان کے آگے ایک باورچی خانہ تھا، دوسری طرف کوٹھے کا زینہ، کوٹھے پر ایک کھپریل، دو کوٹھریاں، کھانے پکانے کے برتن ضرورت سے زیادہ تھے دوچار دریاں، چاندنیاں بھی تھیں۔ ایسی چیزیں محلے کے لوگ ہمارے گھر سے مانگنے آتے تھے، ہمارے گھر میں بھشتی پانی بھرتا تھا۔ محلہ کی عورتیں خود ہی کنویں سے پانی بھرلاتی تھیں۔ ہمارے ابا جب گھر سے وردی پہن کے نکلتے تھے، لوگ انہیں جھک جھک کر سلام کرتے تھے۔ میری اماں ڈولی پر سوار ہوکر مہمان جاتی تھیں، ہمسائیاں پاؤں پیدل ماری ماری پھرتی تھیں۔

    بات سگے پھوپھی زاد بھائی کے ساتھ بچپن ہی میں ٹھہر چکی تھی۔ اور اسی سن میں منگنی ہو جانا اس وقت کے رواج میں داخل تھا۔ میں نے اپنے دولہا (یعنی جس کے ساتھ میری نسبت ٹھہری تھی) کو بھی دیکھا تھا بلکہ ساتھ کھیلی تھی۔ اباپورا جہیز کا سامان کر چکے تھے کچھ روپئے کی اور فکر تھی، رجب کے مہینہ میں شادی کا تقرر ہو گیا تھا۔ رات کو ابا اماں میں جب میری شادی کی باتیں ہوتی تھیں، میں چپکے چپکے سنا کرتی اور دل ہی دل میں خوش ہوتی تھی، واہ میرے دولہا کی صورت کریمن (ایک دھنیے کی لڑکی کا نام تھا جو میرے ہم سن تھی) کے دولہا سے اچھی ہے۔ وہ کالا ہے۔ میرا دولہا گورا گورا ہے، کریمن کے دولہا کے منہ پر کیا بڑی سی داڑھی ہے میرے دولہا کے ابھی مونچھیں اچھی طرح نہیں نکلیں، کریمن کا دولہا ایک میلی سی دھوتی باندھے رہتا ہے ماشی رنگی ہوئی مرزئی پہنے رہتا ہے، میرا دولہا عید کے روز کس ٹھاٹھ سے آیا تھا، سبز سبز چھینٹ کا دگلہ، گلبدن کاپاجامہ، مصالحہ کی ٹوپی، مخملی جو تا۔ کریمن کا دولہا سر میں ایک پھینٹا باندھے ہوئے ننگے پاؤں پھرتا ہے۔‘‘

    محلہ کا ایک گنڈا جان اور آبرو دونوں کا خواہاں ہو گیا۔ ایک روز شام دھوکے سے اپنے گھر بلایا۔ منہ میں کپڑا ٹھونس دیا۔ بیل گاڑی پر ڈال، رات کی اندھیری میں روانہ ہوگیا۔ قسمت نے لکھنؤ پہنچایا اور چوک کی ایک مشہور ڈیرہ دار کے ہاں، جواب سن اترنے پر نائکہ بن چکی تھی بکوایا۔ اب امیرن قبل اس کے کہ سن تمیز آئے، اور اپنے نیک و بد کی عقل پیدا ہو، امراؤ جان تھیں اور جس چراغ کو کسی اندھیرے گھرکا اجالا ہونا تھا اس کے نصیب میں شمع کی طرح گردشِ محفل آئی۔ وکان امراللہ مفعولا۔ رنگ نکھر ا، دکان چلی، جنس عصمت بکی نہیں لٹی۔ فتنہ رفتہ رفتہ قیامت بنا۔ نواب زادوں، امیر زادوں کے شہر میں قدر دانوں کی کیا کمی، سرکاروں، درباروں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ پر دل کا کانٹا آخردم تک نہ نکلا، طبلہ کی تھاپ روح کے زخم کا مرہم نہ بن سکی۔ پازیب کی جھنکار اور موتیوں کے ہار، لٹی ہوئی عزت کے آنسو نہ پونچھ سکے۔ اور میلی اڑھنی میں مگن رہنے والی لڑکی دل کا چین بھاری بھاری پیشوازیں پہن کر نہ خرید سکی۔ ماں باپ غریب تھے پر عزت دار تھے۔ اشرفیوں کے توڑے ان کے ہاں بیشک نہ تھے پر غیرت کے خزانہ کے مالک تھے۔ نوٹوں کی گڈیاں ان آنکھوں نے کبھی کیوں دیکھی ہوں گی لیکن یہ آنکھیں وہ تھیں جو شریفوں کے کسی مجمع میں نیچی نہیں ہونے پائی تھیں۔

    یہ غریب امیرن امراؤ جان ادا بن کر، بے شمار دولت کماکر اور اسی قدر لٹاکر عین اپنے شباب شہرت میں اپنے وطن فیض آباد پہنچی ہیں۔ یورپ ہوتا تو خاک وطن خود ایسی قابل ایکٹریس، ایسی مشہور زمانہ ’’آرٹسٹ‘‘ کی بلایں لینے دوڑتی، پریس کے نمائندے ’’انٹرویو‘‘ کے لیے جھپٹتے، خوش آمدید کے تاروں کا انبار لگ جاتا، کس دھوم دھام سے استقبال ہوتا، کیسی کیسی تصویریں چھپتیں۔ یہاں جو کچھ گزری اسے خود امراؤ جان ہی زبان سے سنیے، اور اگر پہلو میں دل ہے تو دل کو ہاتھوں سے سنبھال لیجئے،

    ایک دن کمرے پر بیٹھی ہوئی ہوں، ایک صاحب شریفانہ صورت ادھیڑ سے تشریف لائے۔ میں نے پان بنا کے دیا، حقہ بھروا دیا، حالات دریافت کرنے سے معلوم ہوا بہو بیگم صاحبہ کے عزیزوں سے ہیں، وثیقہ پاتے ہیں۔ میں نے باتوں باتوں مقبرہ کی روشنی کی تمہید اٹھا کے پرانے ملازموں کا ذکر چھیڑا۔

    میں اگلے نوکروں میں اب کون کون رہ گیا ہے؟
     
    نواب صاحب اکثر مر گئے؟ نئے نئے نوکر ہیں اب وہ کارخانہ ہی نہیں رہا بالکل نیا انتظام ہے۔

    میں اگلے نوکروں میں ایک بڈھے جمعدار تھے

    نواب ہاں تھے، تم انہیں کیا جانو۔

    میں غدر سے پہلے میں ایک مرتبہ محرم میں فیض آباد آئی تھی۔ مقبرہ پر روشنی دیکھنے گئی تھی۔ انہوں نے میری بڑی خاطر کی تھی۔

    نواب وہی جمعدار ناجن کی ایک لڑکی نکل گئی تھی۔

    میں مجھے کیا معلوم (دل میں) ہائے یہ افسانہ اب تک مشہور ہے۔

    نواب یوں تو کئی جمعدار تھے اور اب بھی ہیں مگر روشنی کا انتظام غدر سے پہلے وہی کرتے تھے۔

    میں ایک لڑکا بھی ان کا تھا۔

    نواب تم نے لڑکے کو کہاں دیکھا۔

    میں اس دن ان کے ساتھ تھا۔ ایسی شکلیں ملتے کم دیکھی ہیں، بن کہے میں پہچان گئی تھی۔

    نواب جمعدار غدر سے پہلے ہی مر گئے وہی لڑکا ان کی جگہ نوکر ہے۔

    اس کے بعد بات کے ٹالنے کے لیے میں نے اور کچھ حالات ا دھر ادھر کے پوچھے۔ نواب صاحب نے سوز پڑھنے کی فرمائش کی۔ میں نے دو سوز سنائے۔ بہت محفوظ ہوئے رات کچھ زیادہ آ گئی تھی۔ گھر تشریف لے گئے۔ باپ کے مرجانے کا حال سن کے مجھے بہت رنج ہوا۔ اس دن رات بھر رویا کی۔ دوسرے دن بے اختیار جی چاہا بھائی کو جاکے دیکھ آؤں۔ دودن کے بعد ایک مجرا آ گیا۔ اس کی تیاری کرنے لگی۔ جہاں کا مجرا آیا تھا وہاں گئی۔ محلے کا نام یاد نہیں، مکان کے پاس بہت بڑا پرانا املی کا درخت تھا، اسی کے نیچے نمگیرہ تانا گیا تھا، گردقناتیں تھیں، بہت بڑا مجمع تھا مگر لوگ کچھ ایسے ہی ویسے تھے۔ قناتوں کے پیچھے اور سامنے کھپریلوں میں عورتیں تھیں۔ پہلا مجرا کوئی نو بجے شروع ہوا، بارہ بجے تک رہا۔ اس مقام کو دیکھ کر وحشت سی ہوتی تھی۔ دل امڈا چلا آتا تھا کہ یہی میرا مکان ہے۔ یہ املی کا درخت وہی ہے جس کے نیچے میں کھیلا کرتی تھی۔ جو لوگ محفل میں شریک تھے ان میں سے بعض آدمی ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے میں نے ان کو کہیں دیکھا ہے۔

    شبہ مٹانے کے لیے میں قناتوں کے باہر نکلی۔ گھروں کی قطع کچھ اور ہی ہو گئی تھی۔ اس سے خیال ہوا شاید یہ وہ جگہ نہ ہو، ایک مکان کے دوازہ کو غور سے دیکھا کی۔ دل کو یقین ہو گیا تھا کہ یہی میرا مکان ہے، جی چاہتا تھا کہ مکان میں گھسی چلی جاؤں، ماں کے قدموں پر گروں، وہ گلے لگائیں گی مگر جرأت نہ ہوتی تھی۔ اس لیے کہ میں جانتی تھی کہ دیہات میں رنڈیوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ دوسرے، باپ بھائی کی عزت کا خیال تھا۔ نواب کی باتوں سے معلوم ہوچکا تھا کہ جمعدار کی لڑکی کا نکل جانا لوگوں کو معلوم ہے۔ پھر جی کہتا ہائے کیا غضب ہے صرف ایک دیوار کی آڑ ہے۔ ادھر میری اماں بیٹھی ہوں گی اور میں یہاں ان کے لیے تڑپ رہی ہوں۔ اک نظر صورت دیکھنا بھی ممکن نہیں، کیا مجبوری ہے۔ اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ ایک عورت نے آکے پوچھا، ’’تمہیں لکھنؤ سے آئی ہو۔‘‘

    میں ہاں! (اب تو میرا کلیجہ ہاتھوں اچھلے لگا) 

    عورت اچھا تو ادھر چلی آؤ۔ تمہیں کوئی بلاتا ہے۔

    میں اچھا کہہ کے اس کے ساتھ چلی، ایک ایک پاؤں سو سو من کا ہوگیا تھا۔ قدم رکھتی کہیں تھی پڑتا کہیں تھا۔ وہ عورت اس مکان کے دروازے پر مجھ کو لے گئی جسے میں اپنا مکان سمجھے ہوئے تھی۔ اس مکان کی ڈیوڑھی میں ایک چارپائی پر مجھ کو بٹھا دیا۔ اندر کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا تھا، اس کے پیچھے دو تین عورتیں آکے کھڑی ہوئیں۔

    ایک لکھنؤ سے تمہیں آئی ہو کیا؟

    میں جی ہاں!

    دوسری تمہارا نام کیا ہے۔

    میں (جی میں آیا کہہ دوں، امیرنؔ مگر پھر دل تھام کے) امراؤ جان

    پہلی تمہارا وطن خاص لکھنؤ ہے؟

    میں (اب مجھ سے ضبط نہ ہو سکا آنسو نکل پڑے) اصلی وطن تو یہی ہے جہاں کھڑی ہوں۔

    پہلی تو کیا بنگلے کی رہنے والی ہو؟

    میں (آنکھوں سے آنسو برابر جاری تھے بمشکل جواب دیا) جی ہاں۔

    دوسری کیا تم ذات کی پتریا ہو؟

    میں ذات کی پتریا نہیں ہوں تقدیر کا لکھا پورا کرتی ہوں۔

    پہلی (خود روکے) اچھا تو روتی کیوں ہو آخر کہو تو تم کون ہو؟

    میں (آنسو پونچھ کے) کیا بتاؤں کون ہوں۔ کچھ کہتے بن نہیں پڑتا۔

    اتنی باتیں میں نے بہت دل سنبھال کے کی تھیں اب بالکل تاب ضبط نہ تھی سینے میں دم رکنے لگا تھا۔ اتنے میں دو عورتیں پردے کے باہر نکلیں۔ ایک کے ہاتھ میں چراغ تھا، اس نے میرے منھ کو ہاتھ سے تھام کے کان کی لو کے پاس غور سے دیکھا اور کہہ کے دوسری کو دکھایا اور کہا کیوں ہم نہ کہتے تھے وہی ہے۔‘‘

    دوسری ’’ہائے میری امیرن‘‘ کہہ کر لپٹ گئی۔ دونوں ماں بیٹیاں چیخیں مار مار کے رونے لگیں، ہچکیاں بندھ گئیں۔ آخر اور عورتوں نے آکے چھڑایا۔ اس کے بعد میں نے اپنا سارا قصہ دہرایا۔ میری اماں بیٹھی سنا کی اور رویا کی۔ باقی رات ہم دونوں وہیں بیٹھے رہے، صبح ہوتے میں رخصت ہوئی۔ ماں نے چلتے و قت جس حسرت بھری نگاہ سے مجھے دیکھا تھا، وہ نگاہ مرتے دم تک مجھے نہ بھولےگی، مگر مجبوری۔ روز روشن نہ ہونے پایا تھا کہ سوار ہوکر اپنے کمر پر چلی آئی۔

    دوسرا مجرا صبح کو ہوتا مگر میں نے گھر پر آکر کل روپیہ مجرے کا واپس دے دیا اور بیماری کا بہانہ کہلا بھیجا۔ دولہا کے باپ نے آدھا روپیہ پھیر دیا۔ اس دن، دن بھر جو میراحال رہا، خدا ہی پر خوب روشن ہے کمرے کے دروازے بند کردن بھر پڑی رویا کی۔‘‘

    اللہ اللہ یہ مشرق کی بیسوا ہے، کوٹھوں پر بیٹھنے والی عصمت فروش، یہ غیرت اس کی ہے جس نے ایک عمر بے غیرتی کی روٹی کھائی۔ رویاں رویاں گناہ کی تباہ کاریوں سے خاک سیاہ، لیکن دل کی گہرائی میں خشیت الٰہی اب بھی زندہ و بیدار! غفلت ہے، بغاوت نہیں، لغزش ہے، سرکشی نہیں۔ ماں بیٹی کی ملاقات کا پردرد منظر آپ دیکھ چکے، اب بھائی بہن کی یکجائی بھی، اسی طرح کلیجہ تھامے ہوئے ملاحظہ ہو،

    ’’دوسرے دن شام کو کوئی دوگھڑی رات گئے ایک جوان سا آدمی سانولی رنگت، کوئی بیس بائیس کاسن، پگڑی باندھے سپاہیوں کی ایسی وردی پہنے میرے کمرے پر آیا، میں نے حقہ بھروادیا۔ پان دان میں پان نہ تھے، ماما کو بلاکے چپکے سے کہا پان لے آؤ۔ اتفاق سے اور کوئی بھی اس وقت نہ تھا۔۔ کمرے میں، میں ہوں اور وہ ہے۔

    جوان کل تمہیں مجرے کو گئی تھیں، یہ اس تیور سے کہا کہ میں جھجک گئی۔

    میں ’’ہاں‘‘ اتنا کہہ کے اس کے چہرہ کی طرف جو دیکھا، یہ معلوم ہوتا تھا جیسے آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے۔

    جوان (سر نیچا کرکے) خوب گھرانے کا نام روشن کیا۔

     میں (اب سمجھی کہ یہ کون شخص ہے) اس کو تو خداہی جانتا ہے۔

    جوان ہم تو سمجھے تھے تم مر گئیں، مگر تم اب تک زندہ ہو۔

    میں بے غیرت زندگی تھی نہ مری۔ خدا کہیں جلد موت دے۔

    جوان بیشک اس زندگی سے موت لاکھ درجہ بہتر تھی۔ تمہیں تو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا تھا۔ کچھ کھا کے سو رہی ہوتیں۔

    میں خود اتنی سمجھ نہ تھی۔ نہ آج تک کسی نے یہ نیک صلاح دی۔ اب سہی۔

    جوان اگر ایسی غیرت دار ہوتیں تو اس شہر میں کبھی نہ آتیں۔ اور آئی بھی تھیں تو تمہیں اس محلہ میں مجرے کو آنا تھا جہاں کی رہنے والی تھیں؟

    میں ہاں اتنی خطاضرور ہوئی مگر مجھے کیا معلوم تھا۔

    جوان اچھا اب تو معلوم ہو گیا۔

    میں اب کیا ہوتا ہے۔

    جوان (بہت ہی غصہ ہوکے) اب کیا ہوتا ہے، اب (چھری کمر سے نکال کے مجھ پر جھپٹا، دونوں ہاتھ پکڑکے گلے پر چھری رکھ دی) یہ ہوتا ہے۔

    اتنے میں ماما بازار سے پان لے کے آئی۔ اس نے جو یہ حال دیکھا، لگی چیخنے، ’’ارے دوروڑ بیوی کو کوئی مارے ڈالتا ہے۔‘‘

    جوان (چھری گلے سے ہٹاکے ہاتھ چھوڑ دیئے) عورت کو کیا ماروں اور عورت بھی کوئی بڑی۔۔۔

    اتنا کہہ کے داڑھیں مارمار کے رونے لگا۔

    میں پہلے ہی سے رورہی تھی۔ جب اس نے گلے پر چھری رکھی، جان کے خوف سے ایک دھچکا سا کلیجے پر پہنچا تھا، اس سے دم بخود سی ہوگئی تھی۔ جب وہ چھوڑ کر رونے لگا، میں بھی رونے لگی، ماما نے دو ایک چیخیں ماری تھیں، جب اس نے یہ دیکھا۔ کچھ چپ سی ہورہی۔ ادھر میں نے اشارہ سے منع کیا، ایک کنارے کھڑی ہو گئی۔ جب دونوں خوب رو چکے

    جوان (ہاتھ جوڑ کے) اچھا تو اس شہر سے کہیں چلی جاؤ۔

    میں کل چلی جاؤں گی۔ مگر ایک مرتبہ ماں کو اور دیکھ لیتی۔

    جوان بس اب دل سے دور رکھو۔ معاف کرو۔ کل اماں نے تمہیں گھر پر بلایا۔ میں نہ ہوا، نہیں تو اسی وقت وارانیا ہوجاتا۔ محلہ بھر میں چرچے ہو رہے ہیں۔

    میں تم نے دیکھ لیا جان سے تو میں ڈرتی نہیں۔ مگر تمہاری جان کا خیال ہے، تم اپنے بچوں کے سرپر سلامت رہو۔ خیر اگر جیتے رہے تو کبھی نہ کبھی خیروعافیت سن ہی لیا کریں گے۔

    جوان برائے خدا کسی سے ہمارا ذکر نہ کرنا۔‘‘

    یہ زندہ احساس غیرت و شرافت بگڑے ہوئے لکھنؤ اور فیض آباد کا ہے، اجڑے ہوئے اسلامی ہند کا ہے، اس خزاں سے بہار کا اندازہ کرنا کیا کسی کے لیے کچھ بھی مشکل ہے؟ پیشہ ور طوائف کی آپ بیتی ختم ہو چکی، اور کتاب حیات ختم ہونے پر ہے، اس وقت اس کے منہ سے جو بول نکلے ہیں، وہ اس قابل ہیں کہ ہم سنیں، آپ نہیں، خاک کے پتلے سنیں، نور کے بنے ہوئے فرشتے سنیں، جنہوں نے کچھ نہیں سنا ہے وہ سنیں، جو بہت کچھ سن چکے ہیں وہ بھی سنیں،

    ’’کفایت شعاری کی وجہ سے اب بھی اس قدر اندوختہ ہے کہ اپنی زندگی بسر کرلے جاؤں گی، وہاں کا مالک اللہ ہے، میں بہت دن ہوئے، سچے دل سے توبہ کر چکی ہوں اور حتی الوسع روزہ نماز کی بھی پابند ہوں۔ رہتی رنڈی کی طرح ہوں، مگر پردہ والیوں کے لیے دل سے دعا گوہوں، خدا ان کا راج سہاگ قائم رکھے اور رہتی دنیا تک ان کا پردہ رہے۔ اس موقع پر میں اپنی ہم پیشہ عورتوں کی طرف مخاطب ہوکے ایک نصیحت کرتی ہوں، چاہیے کہ وہ اپنے دل پر نقش کرلیں۔ اے بیوقوف رنڈی کبھی اس بھلاوے میں نہ آنا کہ کوئی تجھ کو سچے دل سے چاہے گا، تیرا آشنا جو تجھ پر جان دیتا ہے چار دن کے بعد چلتا پھرتا نظر آئےگا۔ وہ تجھ سے ہر گز نباہ نہیں کر سکتا اور نہ تو اس لائق ہے۔ سچی چاہت کا مزہ اسی نیک بخت کا حق ہے جو ایک کا منھ دیکھ کے دوسرے کا منھ کبھی نہیں دیکھتی۔ تجھ جیسی بازاری شفتل کو یہ نعمت خدا نہیں دے سکتا۔

    خیر میری تو جیسی گزرنا تھی گزر گئی، اب میں اپنی زندگی کے دن پورے کررہی ہوں، جے دن دنیا کی ہوا کھانا ہے کھاتی ہوں۔ میں نے اپنے دل کو بہر طور سمجھ لیا ہے اور میری کل آرزوئیں پوری ہو چکیں۔ اب کسی بات کی تمنا نہیں رہی اگر چہ یہ آرزو کم بخت وہ بلا ہے کہ مرتے دم تک دل سے نہیں نکلتی۔ مجھے امید ہے کہ میری سوانح عمری سے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوگا۔ اب میں اپنی تقریراس شعر پر ختم کرتی ہوں اور سب سے امیدوار دعا ہوں۔

    ’’مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات
    تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہو گئی‘‘

    آغازجیسا کچھ بھی ہوا ہو۔ انجام توبہ، انابت، خشیت، رجوع الی اللہ پر ہورہا ہے۔ اس انجام پر ہم کو، آپ کو کس کو رشک نہ آئے گا؟

    حاشیہ
    (۱) یعنی ۹۳۲ء

     

    مأخذ:

    انشائے ماجد (Pg. 163)

    • مصنف: عبد الماجد دریابادی
      • ناشر: ادارۂ انشائے ماجدی،کلکتہ
      • سن اشاعت: 1991

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے