Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مختصر افسانہ کا فن!

پریم چند

مختصر افسانہ کا فن!

پریم چند

MORE BYپریم چند

    ایک ناقد کا کہنا ہے کہ تواریخ میں سب کچھ واقعہ ہوتے ہوئے بھی حقیقت نہیں ہوتا اور افسانوی ادب میں سب کچھ تمثیلی ہوتے ہوئے حقیقت ہوتا ہے۔

    اس مقولے کا مدعا اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ تواریخ میں شروع سے آخر تک جبر و تشدد اور مکر و فریب کا ہی مظاہرہ ہوتا ہے جو کریہہ ہے۔ بدنما ہے اس لئے سچائی اور حقیقت سے عاری ہے۔ طمع، حرص، غرور اور جلن و حسد کے ذلیل ترین جذبات و واقعات آپ کو وہاں ملیں گے۔ اور آپ سوچنے لگیں گے کہ انسان کتنا وحشی ہوگیا ہے۔ تھوڑے سے ذاتی مفاد اور لالچ کی خاطر بھائی بھائ کو قتل کر ڈالتا ہے۔ بیٹا باپ کو اور بادشاہ لاتعداد رعایا کا خون بہا دیتا ہے۔ اسے پڑھ کر دکھ ہوتا ہے خوشی نہیں۔ جو چیز مسرت بخش نہیں ہو سکتی وہ حسین نہیں ہو سکتی۔ اور جو حسین نہیں ہو سکتی وہ سچائی نہیں۔ جہاں مسرت ہے وہیں صداقت ہے۔ ادب تخیلی چیز ہے لیکن اس کی ممتاز صفت مسرت زا ہونا ہے اس لئے وہ صداقت ہے۔ انسان نے جو کچھ بھی حسن و صداقت اس دنیا میں دریافت کیا ہے یا کر رہا ہے اس کو ادب کہتے ہیں اور کہانی بھی ادب کا ایک جزو ہے۔

    نوع انسان کے لئے انسان ہی سب سے مشکل پہیلی ہے۔ وہ خود اپنی سمجھ میں نہیں آتا۔ کسی نہ کسی صورت میں وہ اپنی ہی تحقیق کیا کرتا ہے۔ اپنے ہی عقدے کھولا کرتا ہے۔ انسانی تہذیب کی ترقی ہی اس لئے ہوئی کہ انسان اپنے کو سمجھے روحانیت اور فلسفہ کی طرح ادب بھی اسی حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اس کوشش میں حظ و کیف کا عنصر شامل کر کے مسرت بخش بنا دیتا ہے، اس لئے روحانیات اور فلسفہ عالموں کے لئے ہے اور ادب بنی نوع انسان کے لئے۔

    جیسا ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہانی یا قصہ (افسانہ) ادب کی ایک خاص صنف ہے۔ آج سے نہیں قدیم زمانے سے ہی۔ ہاں آج کل کے افسانوں اور پرانے زمانے کے افسانوں میں وقت کی رفتار اور مذاق کے تغیر وتبدل سے بہت کچھ فرق پیدا ہو گیا ہے۔ پرانے افسانوں میں دلچسپ یا روحانی مضامین ہی مخصوص ہوا کرتے تھے۔ اپنیشد اور مہابھارت میں اسرار روحانی سمجھانے کے لئے فسانوں کا سہارا لیا گیا ہے۔ بودھ جاتک بھی افسانے کے علاوہ کیا ہے؟ بائبل میں بھی مثالوں اور قصوں کے ذریعہ حقیقت مذہب سمجھائی گئی ہے۔ اس طرح حقیقت مجاز میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اور تب عوام سمجھتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔

    موجودہ افسانہ تحلیل نفسی اور زندگی کے حقائق کی فطری مصوری کو ہی اپنا مقصد سمجھتا ہے۔ اس میں تخلیقی باتیں کم اور تجربات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ تجربات ہی تخلیقی تخیل سے دلچسپ ہو کر کہانی بن جاتے ہیں۔

    لیکن یہ سمجھنا بھول ہوگی کہ کہانی زندگی کی حقیقی تصویر ہے۔ حقیقی زندگی کی تصویر تو انسان خود ہو سکتا ہے۔ مگر قصے کے اشخاص کے خوشی و غم سے ہم جتنا متاثر ہوتے ہیں اتنا حقیقی زندگی سے نہیں ہوتے۔ جب تک کہ وہ خود اپنی ذات سے متعلق نہ ہو۔ کہانیوں میں کرداروں سے ہمیں ایک ہی دو منٹ کے تعارف میں اپنائیت کا احساس پیدا ہوتا ہےاور ہم ان کے ساتھ ہنسنے اور رونے لگتے ہیں۔ ان کا رنج وغ م اپنا رنج وغم ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کہانی پڑھ کر ان لوگوں کو بھی روتے یا ہنستے دیکھا جاتا ہے جو عام طور پر متاثر نہیں ہوتے۔ جن کی آنکھیں شمشان اور قبرستان میں بھی نمناک نہیں ہوتیں۔ وہ لوگ بھی ناول کے اندوہناک واقعات پڑھ کر رونے لگتے ہیں۔

    شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ کثیف الطبع انسان پاکیزہ دلوں کے اتنا قریب نہیں پہنچ سکتے جتنا کہ قصہ کے اعلیٰ کردار کے۔ کہانی کے کرداروں اور دل کے درمیان بے حسی کا پردہ حائل نہیں ہوتا جو ایک انسان کے دل کو دوسرے انسان کے دل سے دور رکھتا ہے۔ اور اگر ہم حقیقت کی ہوبہو مصوری کر بھی لیں تو اس میں آرٹ کہاں؟ فن صرف حقیقت کی نقل کا نام نہیں ہے۔

    آرٹ بادی النظر میں حقیقت معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت ہوتا نہیں۔ اس کی خوبی یہی ہے کہ حقیقت نہ ہوتے ہوئے بھی حقیقت معلوم ہو۔ اس کا پیمانہ جزا و سزا بھی عام زندگی کے پیمانے سے جدا ہوتا ہے۔ زندگی میں ہمارا خاتمہ اکثر اس وقت ہوتا ہے جب یہ زندگی مطلوب نہیں ہوتی۔ زندگی کسی پر رحم نہیں کرتی۔ اس کے سکھ دکھ، نفع نقصان، زندگی و موت میں کوئی ربط، کوئی نسبت محسوس نہیں ہوتی۔ کم از کم انسانوں کے لئے وہ بڑی پراسرار ہے۔ لیکن افسانوی ادب انسانی تخلیق کی دنیا ہے، جو محدود و متعین ہونے کے باعث ہمارے سامنے پوری طرح آجاتی ہے اور جہاں کوئی کردار ہماری انسانی انصاف پسند عقل یا تجربات کی حد سے تجاوز کرتا ہوا نظر آتا ہے، ہم اسے سزا دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ قصہ میں اگر کسی کو خوشی نصیب ہوتی ہے تو اس کی وجہ بتانی ہوگی۔ رنج ہوتا ہے تو اس کے اسباب کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ کوئی کردار ختم نہیں ہو سکتا جب تک کہ انسان کی منصفانہ عقل اس کی موت کی متوقع نہ ہو۔ فنکار کو عوام کی عدالت میں اپنے ہر عمل کے لئے جواب دینا ہوگا۔ آرٹ کا راز ایسی حقیقت نمائی میں ہے جس پر اصلیت کا گمان ہو۔

    ہمیں یہ ماننے میں پس وپیش نہ کرنا چاہئے کہ ناول کی طرح افسانہ نگاری بھی ہم نے مغرب سے حاصل کیا ہے۔ کم از کم اس کی آج کی شکل تو مغرب کی دین ہے۔ مختلف اسباب کے تحت زندگی کی دوسری راہوں کی طرح ادب میں بھی ہماری رفتار رک گئی اور ہم نے قدماء سے ذرہ برابر بھی آگے بڑھنا معیوب سمجھا۔ جو روایات قدماء سے وراثتاً ملیں ان سے تجاوز کرنا ممنوع سمجھا گیا۔ اس لئے شاعری، ڈرامہ اور افسانہ، کسی میں بھی ہم ترقی کا قدم نہیں بڑھا سکے۔

    بعض چیزیں خوبصورت ہونے پر بھی غیر دلچسپ ہو جاتی ہیں، جب تک کہ ان میں تنوع نہ ہو۔ ایک ہی قسم کے ڈرامے اور شاعری پڑھتے پڑھتے انسان اکتا جاتا ہے اور وہ کوئی نئی چیز چاہتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ اتنی خوبصورت و اعلیٰ نہ ہو۔ ہمارے یہاں گویا یہ خواہش پیدا ہی نہیں ہوئی، یا ہم نے اسے اتنا کچلا کہ وہ دب سی گئی۔ مغرب ترقی کرتا رہا۔ اسے تنوع کی بھوک تھی۔ رسم و رواج کی زنجیروں سے نفرت، زندگی کے ہر شعبہ میں جمود اور غیر اطمینانی کی زنجیروں سے آزاد ہونے کی لگن تھی۔ لہٰذا ادب میں بھی اس نے انقلاب پیدا کردیا۔

    شیکسپیئر کے ڈرامے بے نظیر ہیں، گو آج ان ڈراموں کا عوام کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ آج کے ڈرامے کا مقصد کچھ اور ہے۔ معیار کچھ اور ہے۔ موضوع کچھ اور ہے۔ اسلوب کچھ اور ہے۔ افسانوی ادب میں بھی ترقی ہوئی اوراس کے موضوع میں ممکن ہے اتنا عظیم تغیر نہ ہوا ہو لیکن اسلوب تو بالکل ہی بدل گیا۔ الف لیلیٰ اس وقت کا آئیڈیل تھا۔ اس میں جلوۂ صد رنگ تھا، عجوبہ پن تھا، دلچسپی کے سامان تھے اور رومان تھا لیکن اس میں زندگی کے مسائل نہ تھے۔ نفسیات کے راز نہ تھے۔ تجربات کی افراط نہ تھی۔ زندگی اپنی حقیقی شکل میں اتنی نمایاں نہ تھی۔ اس کی شکل بدلی اور ناول وجود میں آیا جو داستان اور ڈرامے کی درمیانی چیز ہے۔ قدیم تمثیلیں یا حکایتیں بھی ہیئت بدل کر کہانی بن گئیں۔

    لیکن سو سال قبل یورپ بھی اس فن سے ناواقف تھا۔ بڑے بڑے اعلیٰ درجہ کے فلسفیانہ تواریخی اور معاشرتی ناول لکھے جاتے تھے لیکن مختصر افسانے کی طرف کسی کی توجہ نہ ہوئی البتہ پریوں اور جنوں کی کہانیاں لکھی جاتی تھیں۔ مگر اس ایک صدی میں یا اس سے بھی کم میں سمجھئے مختصر افسانے ادب کی اور دوسری اصناف پر حاوی ہوگئے۔ اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جس طرح کسی زمانے میں شاعری ادبی اظہار کا محبوب ذریعہ تھی اسی طرح آج مختصر افسانہ ہے۔ اور اسے اس امتیاز کا فخر حاصل ہوا۔ یورپ کے عظیم فنکاروں کی تحریک اور اثر سے جن میں بالزک، موپاساں، چیخوف، ٹالسٹائی اور گورکی وغیرہ خاص ہیں، ہندی، اردو میں پچیس تیس سال قبل کہانی کا وجود نہ تھا۔ لیکن آج تو کوئی ایسا رسالہ نہیں جس میں دو چار کہانیاں نہ ہوں۔ یہاں تک کہ کئی رسالوں میں صرف کہانیاں ہی شائع ہوتی ہیں۔

    مختصر افسانوں کی کثرت کی مخصوص وجہ آج کل زندگی کی ہنگامی جد و جہد اور قلت وقت ہے۔ اب زمانہ نہیں رہا کہ ہم بوستان خیال لے کر بیٹھ جائیں۔ اور سارا دن اس کے کنجوں کی سیر کرتے رہیں۔ اب تو ہم زندگی کی ہماہمی میں اتنا مصروف ہوگئے ہیں کہ تفریح کے مواقع بھی نہیں ملتے۔ اگر تھوڑی تفریح صحت کے لئے ضروری نہ ہوتی اور ہم اطمینان قلب سے روزانہ اٹھارہ گھنٹے کام کر لیتے تو شاید تفریح کا نام بھی نہ لیا جاتا لیکن قدرت نے ہمیں مجبور کر دیا ہے کہ ہم کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ تفریح چاہتے ہیں۔ اسی لئے سنیما گھروں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ جس ناول کے پڑھنے میں مہینے درکار ہوتے اب ہم دو گھنٹوں میں اس سے لطف اندوز ہو جاتے ہیں اور کہانی کے لئے پندرہ بیس منٹ ہی کافی ہیں۔ اس لئے ہم افسانہ ایسا چاہتے ہیں جو مختصر ترین الفاظ میں کہا جائے۔ اس کا ایک جملہ ایک لفظ بھی غیر ضروری نہ ہو۔ اس کا پہلا جملہ ہی دل آویز اور دلکش ہو، اختتام تک ہمیں منہمک کئے رہے اور اس میں کچھ حلاوت ہو، کچھ تازگی ہو، کچھ وسعت ہو، اور اس کے ساتھ ہی کچھ حقیقت بھی ہو۔

    حقیقت سے معرا افسانہ ممکن ہے تفریح کا باعث ہو لیکن اس سے ذہنی سیری نہیں ہوتی۔ یہ بھی درست ہے کہ ہم افسانوں میں وعظ و پند نہیں چاہتے لیکن فکر کو جلا دینے کے لئے طبیعت کے صالح میلانات اور دماغ کے حسین خیالات کو زندہ کرنے کے لئے کوئی محرک ہم ضرور چاہتے ہیں۔ وہی افسانہ کامیاب ہوتا ہے جس میں ان دونوں میں سے تفریح اور ذہن و شعور کو جلا دینے والی ایک چیز ضرور حاصل ہو۔

    اعلیٰ ترین مختصر افسانہ وہ ہوتا ہے جس کی بنیاد کسی نفسیاتی کیفیت پر رکھی جائے۔ نیک باپ کا نالائق اولاد کی زبوں حالی میں رنجیدہ ہونا ایک نفسیاتی حقیقت ہے۔ اس جذبے میں باپ کی ذہنی ہیجانی کیفیات اور اس کے مطابق اس کے ردعمل کی مصوری کرنا بھی افسانہ کو موثر اور پرکشش بنا سکتا ہے۔ برا شخص بالکل ہی برا نہیں ہوتا اس میں کہیں فرشتہ ضرور چھپا ہوتا ہے۔ یہ نفسیاتی حقیقت ہے۔ اس پوشیدہ یا خوابیدہ فرشتہ کو ابھارنا اور اس کا سامنے لانا ایک کامیاب مختصر افسانہ نگار کا شیوہ ہے۔ پے درپے مشکلات پیش آنے پر انسان کتنا دلیر ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ بڑے بڑے خطرات اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے خم ٹھونک کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس کا خوف جاتا رہتا ہے، اس کے دل کے کسی گوشے میں پوشیدہ جوہر نمایاں ہو جاتے ہیں۔ اور ہمیں متعجب کردیتے ہیں۔ یہ ایک انسانی حقیقت ہے۔

    ایک ہی واقعہ یا سانحہ مختلف الفطرت انسان کو مختلف صورتوں سے متاثر کرتا ہے۔ ہم افسانہ میں اگر اسے کامیابی کے ساتھ دکھا سکیں تو افسانہ یقینا دلچسپ ہوگا۔ کسی مسئلہ کی شمولیت افسانے کو دلکش اور دلچسپ بنانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ زندگی میں ایسے مسائل روز ہی پیدا ہوا کرتے ہیں، اور ان سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں افسانہ نگار کو کامیاب بنا سکتی ہیں۔ صداقت پسند باپ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بیٹے نے قتل کیا ہے، وہ اسے انصاف کی قربان گاہ پر نثار کردے یا اپنے اصول زندگی کا گلا گھونٹ دے۔ کتنی خوفناک کشمکش ہے۔ ندامت ہی ایسی کشمکش کا واحد سرچشمہ ہے۔ ایک بھائی نے اپنے دوسرے بھائی کی دولت دھوکہ اور فریب سے حاصل کرلی ہے۔ اسے بھیک مانگتے دیکھ کر فریبی بھائی کو کیا ندامت نہیں ہوگی؟ اگرایسا نہ ہو تو وہ انسان نہیں۔

    ناولوں کی طرح مختصر افسانے بھی بعض مخصوص الواقعات اور بعض مخصوص الکردار ہوتے ہیں۔ مخصوص الکردار انسانوں کا درجہ اعلیٰ سمجھا جاتا ہے۔ مگر افسانہ میں بہت وسیع تجزیہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہاں ہمارا مقصد مکمل انسان کی مصوری نہیں بلکہ اس کی شخصیت کا ایک رخ دکھانا ہوتا ہے۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہمارے افسانے سے جو نتیجہ حاصل ہو وہ مقبول عام ہو اور اس میں کچھ باریک نکتے بھی ہوں۔ یہ ایک عام اصول ہے کہ ہمیں اسی بات میں حظ حاصل ہوتا ہے جس سے کچھ نسبت ہو۔ جوا کھیلنے والوں کو جو مسرت ہوتی ہے وہ فلسفی کو کبھی نہیں ہو سکتی، جب ہمارے کردار اتنے جیتے جاگتے اور پرکشش ہوتے ہیں کہ قاری اپنے کوان کی جگہ متصور کرتا ہے توافسانہ میں مسرت حاصل ہوتی ہے۔ اگر مصنف نے اپنے کرداروں کے لئے قارئین کے دل میں ہمدردی کا یہ جذبہ نہیں پیدا کیا تو وہ اپنے مقصد میں نا کامیاب ہے۔

    قارئین سے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس تھوڑے سے عرصہ میں ہندی (اردو) فن افسانہ نگاری نے کتنی پختگی حاصل کرلی۔ پہلے ہمارے سامنے صرف بنگالی کہانیوں کا نمونہ تھا۔ اب ہم دنیا کے تمام مشہور افسانہ نگاروں کی تخلیقات پڑھتے ہیں، ان پر بحث اور غور و فکر کرتے ہیں۔ ان کی خوبیاں اور خامیاں ڈھونڈتے ہیں، اور ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اب کہانی لکھنے والوں میں موضوع، نقطہ نظر اور اسلوب کی علیحدہ علیحدہ ترقی ہونے لگی ہے۔ افسانہ زندگی سے بہت قریب آگیا ہے۔ اس کی زمین اب اتنی بسیط نہیں رہی۔ اس میں متنوع کیفیات، نوبہ نو کردار اور مختلف واقعات کی گنجائش نہیں رہی۔ وہ اب صرف ایک موضوع کی روح کی ایک جھلک کی دل کو متاثر کرنے والی، ایک زندہ مصوری ہے۔ موضوع کی تحدید نے اس میں اثر، بے ساختگی اور شدت پیدا کردی ہے۔ اب اس میں تشریح و تفصیل کا عنصر کم اور احساس مسرت و غم کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا اسلوب بھی اب تیکھا ہوگیا ہے۔ مصنف کو جو کچھ کہنا ہے وہ مختصر سے مختصر الفاظ میں کہہ ڈالنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے کرداروں کی تحلیل نفسی کرنے نہیں بیٹھتا۔ صرف اس کی طرف اشارہ کر دیتا ہے۔ بعض اوقات تو مکالموں میں صرف ایک دو الفاظ ہی سے کام نکالتا ہے۔

    اکثر ایسے موقع آئے ہیں جب کردار کے منہ سے صرف ایک ہی لفظ سن کرہم اس کے خیالات کا پورا اندازہ کرلیتے ہیں، اورپورے جملہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اب ہم افسانہ کی قدر واقعات سے نہیں کرتے۔ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ کردار اوران کی ذہنی رفتار سے ہی واقعات پیدا ہوں۔ واقعات کی علیحدہ کوئی اہمیت نہیں رہی۔ ان کی اہمیت صرف کرداروں کے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ اسی طرح جیسے پتھر کا ایک ٹکڑا پجاری کی عقیدت اور احترام کے باعث دیوتا بن جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ افسانہ کی بنیاد واقعات نہیں تجربات ہیں۔ آج افسانہ نگار صرف دل کش منظر دیکھ کر افسانہ لکھنے نہیں بیٹھتا۔ اس کا مقصد صرف عام حسن کی عکاسی نہیں ہے۔ وہ تو کوئی ایسا محرک (جذبہ، جوش و ولولہ) چاہتا ہے جس میں حسن کی جھلک ہو اور اس کے ذریعہ وہ قاری کے لطیف جذبات اور حسین خیالات کو فروغ دے سکے۔

    مأخذ:

    مضامین پریم چند (Pg. 256)

    • مصنف: پریم چند
      • ناشر: انجمن ترقی اردو، پاکستان
      • سن اشاعت: 1981

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے