’’نئی دنیا کو سلام‘‘ میں احتجاج کی لَے
ترقی پسند تحریک استحصال اور جبر کے خلاف احتجاج کی آواز تھی۔ اس تحریک سے وابستہ شاعروں نے اپنی تخلیقی قوتوں کو بروئے کا ر لا کر شعروادب کے افق پر نئے چاند اگائے۔ اس کے سامنے شعرو ادب کا سماجی منصب واضح تھا۔ اجتماعیت کو انفرادیت پر فوقیت دینا اس تحر یک کا بنیادی فلسفہ تھا۔ اسی اجتماعیت میں انسانی اور سماجی فلاح کا راز پنہاں تھا۔ سردار جعفری اسی تحریک کے ایک اہم ستون تھے۔ ان کی فکر اور ان کی شاعری ذہن انسانی کوکچو کے لگا تی ہے۔
سردار کی شاعری کی کئی جہتیں ہیں۔ رومانی، سیاسی اور سماجی۔ احتجاج کی لَے کو سردار نے اپنی شاعری میں بہت تیز نہیں ہونے دیا ہے۔ فریب، ایشیاجاگ اٹھا، جمہور،لہو پکارتا ہے، نئی دنیا کو سلام، مشرق و مغرب، رومان سے انقلاب تک وغیرہ نظموں سے سردار کی فکری اپج اور تخلیقی بصیرت کی تفہیم آسانی سے ہوسکتی ہے۔ ظا ہر ہے یہاں اس کی گنجائش نہیں کہ اس نوع کی تمام نظموںکا جائزہ پیش کیا جا سکے۔ یہاں اپنی باتیں سردار کی مشہور اور طویل ترین نظم ’نئی دنیا کو سلام‘ کے حوالے سے ہی رکھنے کی کوشش کروں گا۔
’نئی دنیاکو سلام‘ اپنے موضوع اور پیش کش کے لحاظ سے بالکل ایک منفرد نظم ہے۔ شاعرنے اس میں جس طرح سے اپنے افکار کو تمثیل اور علامتی اندازمیں پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ بالکل ایک اچھوتا اندازہے۔ میں یہا ںپہلے ہی یہ بات صاف کر دینا چاہتا ہوں کہ سردار کی یہ نظم احتجاج کو پیش کرتی ہے اوراس لحاظ سے اس میں کسی طرح کی کوتا ہی یا کسی طرح کا انکسار نہیں ہے البتہ شاعرنے ترقی پسند کے چوکٹھے اور فارمولے کو تھوڑی دیر کے لیے بھلا دیا ہے جس کے سبب یہ احتجاج نغمہ بن گیا ہے، اور ایسا اس لیے بھی ہوا ہے کہ سردار کا کلا سکی مطا لعہ اور ذہنی تربیت نیز ان کی قوت مدرکہ ان کی تخلیقی بصیرت کو فروزاں کرتی رہتی ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ کلاسکی رچائو ہی ان کی رہنما ئی کرتا ہے جس کے سبب ان کی شاعری موسیقی کا ایک بہتا ہوا آبشار معلوم ہونے لگتی ہے۔ حالاں کہ ان کی کچھ نظموں میںبھی گھن گرج اور جذباتیت غالب نظر آتی ہے، لیکن اسے تر قی پسند منشور کا تتمہ تصور کرنا چاہیے نہ کہ شاعری کی روح۔
اس نظم کے کردار کچھ اس طرح ہیں۔ جاوید، مریم، فرنگی، نامہ بر، زندگی، تاریخ، وقت، موت۔ ان کرداروںکے اعمال وافعال نظم سے واضح ہوجاتے ہیں۔ حالاں کہ ان کی وضا حت سردار نے اپنے دو صفحات کے پیش لفظ میں کردی ہے۔ انھوں نے ان کرداروں کو علا متوں کے بطوراستعمال کیا ہے۔ جاوید اور مریم (میاں بیوی ) جد و جہد کی علامتیں ہیں، فرنگی ظلم کی علامت ہے۔ نامہ بر ہمارا روایتی کردار ہے جس کے فرائض اس نظم میں بدلتے رہتے ہیں۔ سب سے اہم کردار بچہ ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوا ہے اور جو نئی دنیا کی علا مت ہے۔
سردارجعفری نے اس نظم میں حرف اول اور حرف آخر کے درمیان چھ تصویریں پیش کی ہیں۔ حرف اول نظم کے باب کو کھولنے کا کام کرتی ہے نیزیہ بھی معلوم ہے کہ نظم میں جس ظلمت کدے کا ذکر ہے اس سے قاری کی ذہنی ہم آہنگی کے لیے آمادگی کس قدر ضروری ہے۔ اگر حرف اول ہی میں موضوع کی سیاہی سے اُنس پیدا نہ ہوسکا تو قاری وہیں کتاب بند کردے گا۔ لیکن سردار کا ہنر اور ان کی فنی چابک دستی قاری کو باندھ لیتی ہے جس طرح ناول یا کہا نی کا پہلا جملہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہ ٹکڑا دیکھیے:
سیاہ رنگ پھریرے ہوا میں اڑتے ہیں
کھڑی ہوئی ہے سیہ رات سر اٹھائے ہوئے
سیاہ زلفوں سے لپٹے ہوئے ہیں مار سیاہ
سیاہ پھن ہیں سیہ پھول مسکرائے ہوئے
سیاہ وادی و صحرا سیاہ دریا ہیں
سیاہ دشت، سیہ کھیت لہلہائے ہوئے
سیاہ دودھ ہے ماں کے سیاہ سینے میں
سیاہ بچوں کو آغوش میں سلائے ہوئے
ضمیر عہد غلامی کی تیرگی ہے یہ رات
جو پھر رہی ہے اجالے سے منھ چھپائے ہوئے
اندھیرے سے دوشکلیں ابھرتی ہیں۔ جاوید دولھا بنا ہوا ہے اور مریم دلھن۔ ایک خاموشی، ایک سناٹا۔ جاوید اپنی مریم سے مخاطب ہوتا ہے اور اُسے اپنی محبت کی پچھلی باتیں سناتا ہے۔ یہاں جو روانی اور تسلسل ہے وہ بس محسوس کرنے اور سن کر خاموش رہنے کے لیے ہے۔
نہاں ابر میں چاند کب تک رہے گا
بھلا عشق سے حسن کب تک چھپے گا
یہ شفاف آنکھیں یہ آنکھوں کے ڈورے
چھلک جائیں جیسے گلابی کٹورے
جو ہاتھوں کو رنگ حنا مل گیا ہے
ہتھیلی پہ گویا کنول کھل گیا ہے
محبت ہے، نغمہ ہے، مے ہے، سبو ہے
مرے واسطے جو بھی کچھ ہے وہ تو ہے
مرادو ں کی ما نگی ہوئی رات ہے یہ
کہ بچھڑے ہوئوںکی ملاقات ہے یہ
مریم جاوید کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھتی ہے اور پھر پلکیں جھکالیتی ہے۔ اس کی آنکھوں سے دو چمکتے ہوتے آنسو ٹپک پڑتے ہیں۔ مریم صرف یہی کہہ پا تی ہے۔
مریم : مری ساری دولت محبت کے آنسو
پھر جاوید اور مریم میں مکالمے ہیں اور ان کی پرانی یادوں کے نغمے اور سنہرے لمحے ان کے سامنے رقص کرتے ہیں۔ بعد ازاں دوسری تصویر ابھرتی ہے۔ یہاں جعفری نے اپنا ہی ایک شعر پیش کیا ہے :
باغ کے آغوش میں گل چاہیے
زندگانی میں تسلسل چاہیے
اس شعرسے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ کوئی ننھی سی جان معرض وجود میں آرہی ہے۔ اسی کی کہانی جاوید اور مریم اپنے احساس کی زبانی سناتے ہیں۔ اپنے پیٹ میں پل رہے بچے سے پیدا ہونے والے احساس کو جس طرح مریم پیش کرتی ہے وہ اردو شاعری کی نازک سے نازک غزل اور اس کے رنگ تغزل کو مات کرتی ہے۔ اس حصے کے کچھ مصرعے:
کوئی پہلوئوں میں پھڑکتا ہے جیسے
مری سانس میں دل دھڑکتا ہے جیسے
کوئی دل میں انگڑائیاں لے رہا ہے
مرے خون میں کشتیاں کھے رہا ہے
نگاہوں پہ نشہ سا چھانے لگا ہے
ہر اک چیز پر پیار آنے لگا ہے
نسیم سحر گدگداتی ہے مجھ کو
کلی دیکھ کر مسکراتی ہے مجھ کو
اک ارمان آغوش میں پل رہا ہے
تصور مرا گھٹنیوں چل رہا ہے
لہو ناچتا ہے، رگیں ٹوٹتی ہیں
مرے جسم سے کونپلیں پھوٹتی ہیں
نسوانی جذبات کی یہ نازک بیانی اور شعری وفور کی یہ جاذبیت نظم میں کیف آگیں فضابندی کرتی ہے۔ سردار لفظوں اور ترکیبوں کی حدت اور ان کے در وبست نیز Temperament سے بخوبی واقف ہیں۔ مذکورہ بالا مصرعوں میں مرے خون میں کشتیاں کھے رہا ہے، کلی دیکھ کر مسکراتی ہے مجھ کو، تصور مرا گھٹنیوں چل رہا ہے، مرے جسم سے کونپلیں پھوٹتی ہیں وغیرہ، ایسے مصرعے ہیں جو موضوع اور معنی کی ترسیل کو آسان بنادیتے ہیں۔ ساتھ ہی اس میں راست بیانی کے بجائے ایک طرح کی پوشیدگی (Concealment) اور شعریت کے عناصر موجود ہیں۔ تیسری تصویر ابھرتے ہی شاعر مشرق کا یہ شعر ملتا ہے :
بندگی میں گھَٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی
یہ شعر آزادی اور غلامی کے موضوع کو پیش کرتا ہے۔ سردار نے آغاز میں منظر کی وضاحت کی ہے کہ مریم پھٹے ہوئے کپڑے کے ٹکڑوں سے اپنے ہونے والے بچے کے لیے ایک چھوٹا سا کرتا سی رہی ہے۔ کپڑے کے ٹکڑے مختلف رنگوں کے ہیں۔ پس منظر سے کورَس کی آواز آتی ہے جو زندگی کا ترانہ بھی ہے۔ اس میں زندگی کے سرور اور مسرت اور سرمستی کو شاعر نے نغمے کے طور پر پیش کیا ہے۔ کچھ بند اور مصرعے دیکھیے:
یہ آب و خاک و باد کا جہاں بہت حسین ہے
اگر کوئی بہشت ہے تو بس یہی زمین ہے
ہمالیہ کی چوٹیاں فلک سے ہم کنار ہیں
حقیر جن کے سامنے جہاں کے تاجدار ہیں
یہ ایشیا کی آبرو یہ ہند کا وقار ہیں— یہ آب و خاک و باد کا …
پوری فضا بندی کے بعد شاعر اصل مقصد کی طرف آتاہے:
مگر غلام قوم کی گھٹی ہوئی ہے زندگی
مثال شمعِ مفلسی بجھی ہوئی ہے زندگی
سیاہیوں کے درمیاں گھری ہوئی ہے زندگی
بعد ازاں شاعر نے شور، نعرے اور بندوقیں چلنے کی آوازوں کا ذکر کیا ہے اور پھر مریم منظر پر آتی ہے۔
مریم:
ہر طرف شور محشر بپا ہے
شہر میں جانے کیا ہو رہا ہے
اب جاوید آکر مریم سے محو گفتگو ہوتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ تو تو جیسے بالکل غافل ہے۔یہ جو ننھی سی جان تیرے گرم پہلو میں سو رہی ہے اور جس کی پرورش تیرے خون سے ہو رہی ہے، جب وہ اس دنیا میں آئے گا اور تو محبت سے اسے اپنی آغوش میں بھنچ لے گی اور جب وہ سوتے میں مسکرائے گا تو گویا تو یہ سمجھے گی کہ دنیا کے سارے خزانے اس کے ننھے ہونٹوں پر سمٹ آئے ہیں اور پھر جب وہ گھٹنوں کے بل لڑکھڑاتا ہوا چلے گا اور اپنی پیاری سی توتلی زبان میں کچھ بولے گا تو تجھ کو یہ معلوم ہوگا کہ تخلیق کا رقص و نغمہ تیری گود میں آگیا ہے۔
اس کے بعد اچانک جاوید کا انداز تخاطب شدید ہوجاتا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ ہر چہار طرف کال کی آندھیاں چل رہی ہیں، جہاں مائیں اپنے بچوں کو خوف سے چھپائے پھرتی ہیں۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ مائوں کے شاداب سینے سوکھ جائیں گے اور بچوں کے ہونٹوں کی مسکراہٹیں بھی ختم ہوجائیں گی۔ مریم سے جاوید مخاطب ہے:
میری مریم / میرے بچے کی ماں
تو بھی بنگال کی سیکڑوں عورتوں کی طرح اپنے روتے ہوئے
لال کو، دل کے ٹکڑے کو، سنسان راہوں / کی چلتی/ہوئی خاک پر ڈال کر بھاگ جائے گی
ان قحبہ خانوں میں، جن میں کہ روٹی کے سوکھے ہوئے
ایک ٹکڑے/ کی خاطر جواں عصمتیں گوشت کے لوتھڑوں کی طرح / بک رہی ہیں
تو کسی قحبہ خانے میں روٹی کے سوکھے ہوئے ایک ٹکڑے کی خاطر
اپنے دل، جسم اور روح کو بیچ دے گی/روٹیاں شاخ طوبیٰ میں پھلتی نہیں
روٹیاں بادلوں سے برستی نہیں/ وحی و الہام بن کر اترتی نہیں
آہ یہ روٹیاں آسمانوں میں پکتی نہیں / یہ ہیں انساں کے ہاتھوں کی تخلیق
کسان کتنی محنت اور مشقت سے کھیت کو سینچتا ہے جس میں گیہوں کے خوشے موتیوں کی طرح پھلتے ہیں اور چار سو مسرت اور شادمانی نظر آتی ہے لیکن اب ماحول بدل چکا ہے۔ کھیت اب بھی کٹتے ہیں لیکن بچوں کے مقدر میں فاقے ہی فاقے ہیں۔ ظالم انگریز کے راج میں آزادی سلب ہوچکی ہے۔
مریم صرف اتنا ہی کہتی ہے: آہ ظالم حکومت!
اس کے بعد جاوید مریم سے ہندوستان میں تیار ہونے والے ملبوسات کا ذکر کرتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کے باوجود بر ہنگی ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ اس سرزمین پر ہمیں چین کی سانس لینے کا حق بھی نہیں ہے۔آج انسان جو معمار اور خلاّق ہے، انگریز کے راج میں گھر سے بے گھر ہوگیا ہے۔
آخر وہ لمحہ بھی آتا ہے جب سردار جعفری پر جذباتیت غالب آتی ہے اور سرمایہ داری کو کوسنے لگتے ہیں اور یہ انکشاف کرتے ہیں کہ بھوک، بیکاری، افلاس، قحط و وبا، جہل، وہم، زہریلی گیس اور ایٹم بم گویا یہ سب اسی سرمایہ داری کے بچے ہیں۔
اب یہ بچے جواں ہوگئے ہیں/ زندگی کے لیے ایک بلا ہوگئے ہیں
اور سرمایہ داری کی بوڑھی چھنال ان کی طاقت سے انسانیت کا لہو پی رہی ہے
یہیں سے احتجاج کی لَے شروع ہوتی ہے۔ احتجاج ظلم اور جبر کا زائیدہ ہوتا ہے۔ سردار جبر و استحصال کے ذکر کے بعد اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا ذکر بڑے شد و مد کے ساتھ کرتے ہیں:
آج ایک ایک دریا میں طوفان ہے/ کوہساروں کے سینے میں ہیجان ہے
ذرہ ذرہ بغاوت پر آمادہ ہے
مریم درمیان میں صرف ’’مرحبا‘‘ کا لفظ ادا کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جاوید کی ہم خیال اور ہم زبان ہے۔ جاوید اپنے احساس کو توانائی بخشتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور خاک ہند کے بطن سے پھوٹنے والی آزادی کی لے کو سامنے لاتا ہے۔ گویا عہد نو آرہا ہے جب کھیتیاں لہلہائیں گی اور جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے منحوس قدموں سے اس خاک وطن کو نجات مل جائے گی:
آج ہندوستاں جاگ اٹھاہے / یہ حسیں بوستاں جاگ اٹھا ہے
بچے گہواروں سے رینگ کر آج باہر نکل آئے ہیں
اور انگریز سے اپنا کھویا ہوا بھولا پن مانگتے ہیں
عورتیں اپنی کھوئی ہوئی عصمتیں/ مائیں بے آب سینوں کی شادابیاں مانگتی ہیں
آئیے اب چوتھی تصویر ملاحظہ کیجیے جس کے سرنامے پر جعفری کا یہ شعر ہے :
آج سے کوچہ و بازار میں مرنا ہے روا
ظلم کی چھائوں میں چپ بیٹھ کے جینا ہے حرام
یہیں سے بغاوت کا بگل بج اٹھتا ہے۔ بڑی خوبصورتی سے سردار جعفری نے تاریخ کا ترانہ اور وقت کا ترانہ بند کی شکل میں پیش کیا ہے جو قطعات کےForm میں ہے۔ تاریخ کا ترانہ سات قطعات پر اور وقت کا ترانہ ۲۵ قطعات پر مشتمل ہے۔ آئیے صرف تین قطعات ملاحظہ کیجیے:
میں نے لاکھوں بہاریں دیکھی ہیں
آگ کے پھول آگ کے گلزار
انکھڑیوں کے دہکتے انگارے
آہ کے شعلے آنسووں کے شرار
قافلہ انقلاب کاہے رواں
بج رہی ہے خوشی کی شہنائی
زلزلوں سے دہل رہی ہے زمیں
لے رہے ہیں پہاڑ انگڑائی
یہی ہندوستاں کا ساحل ہے
جس پہ ٹوٹا غرور سلطانی
آگ سی لگ گئی ہے پانی میں
موجیں کرتی ہیں شعلہ افشانی
تاریخ اور وقت کے ترانوں کو سن کر فرنگی سوال کرتا ہے:
فرنگی: تم کو معلوم ہے یہ جگہ کون سی ہے؟
جاوید جواب دیتا ہے — ’’نہیں۔‘‘
فرنگی اپنی حکومت کی قصیدہ خوانی کرتا ہے۔
فرنگی: یہ وہ ایوان ہے جس میں انصاف، عدل اور صداقت
کی قندیل / سیکڑوں سال سے جل رہی ہے
یہ وہ ایوان ہے جس کے سائے میں ہندوستاں کی / رعایا/
امن اور چین سے پل رہی ہے۔ اس کے نزدیک آئو/ ہاتھ اٹھائو/
اور قسم کھائو سچ بولنے کی۔
مریم فرنگی سے یہ کہتی ہے کہ کیا تم سچائی کی تاب لاسکو گے؟ پھر جاوید اور مریم انگریز حکومت کی کریہہ صورت سے پردے ہٹاتا ہے تو فرنگی دونوں کو ڈانٹ کر مخاطب ہوتا ہے۔
فرنگی: چپ رہو / اپنا اعمال نامہ سنو/ تم نے جمہور کے ساتھ مل کر
انقلاب اور بغاوت کا فتنہ جگایا / تم یہ کہتے ہو جمہور کا راج ہو
ایک ایک گھر میں سوراج ہو
اس کے بعد جاوید بھی جذباتی ہوکر فطری طور پر فرنگی کو جواب دیتا ہے جو خلوص اور سچائی کا مرقع ہے۔ یہ جواب طویل ہے مگر کچھ منتخب مصرعے ملاحظہ کیجیے:
جاوید: جب تم اس ملک میں آئے تھے ہم نے مہماں سمجھ کر
اپنی آنکھوں پہ تم کو بٹھایا/ تم مگر مکر اور فن میں استاد نکلے
جاوید فرنگی حکومت کے آئین کو سانپ، کوڑے اور تلوار سے تشبیہ دیتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ اب فرنگی آئین، بغاوت کی بھٹی میں پگھل چکا ہے۔ فرنگی جاوید کی بیوی مریم سے بھی سوال کرتا ہے کہ تمہیں کیا کچھ کہنا ہے۔ مریم کھلے طور پر جذباتی انداز میں جواب دیتی ہے۔ اس جواب کے صرف دو ٹکڑے ملاحظہ کیجیے جو دھیمی نسوانی لے میں احتجاج کو ظاہر کرتے ہیں۔
مریم: جب سے تم آئے ہو گھر کی سب برکتیں اٹھ گئی ہیں
تم نے ہندوستاں کی لہکتی ہوئی کھیتیوں سے / ان کی زرخیز یاں چھین لی ہیں
تم نے بچپن کے پھولوں سے خوشبو چرالی
تم نے ہنستی ہوئی مانگ اور مسکراتی جبینوں سے افشاں چھڑالی
صندلی ہاتھوں سے ان کا رنگ حنا لے لیا ہے
جاوید اور مریم فرنگی کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم جسے امن، تہذیب اور اخلاق کا نام دیتے ہو دراصل وہ جبر و ظلم ہے اور جسے تم جرم کہتے ہو دراصل وہی تہذیب انسانی کی معراج ہے:
تم جسے جرم کہتے ہو وہ اصل تہذیب ہے، اصل اخلاق ہے
ظالموں کے خلاف انقلاب اور بغاوت / آدمیت کی معراج ہے
سردار جعفری اب احتجاج کی لَے کو تیز کرتے ہوئے جاوید کے اندر جذبات کے شرارے بھرنے کا کام کرتے ہیں۔ جاوید شرر انگیز طرز تخاطب سے فرنگی کو جواب دیتا ہے:
ہم کو اپنی غلامی گوارا نہیں/ ایک بھی ذرہ اس ملک میں اب تمہارا نہیں
…………………………
بھاگو بھاگو/ اپنا جسم، اپنی جان، اپنا امن، اپنا اخلاق و تہذیب و قانون
سب لے کے بھاگو/ زندگی تم سے تنگ آچکی ہے/ ساری دنیا اب اکتا چکی ہے
فرنگی کے لیے یہ جواب باعث ننگ ہے۔ وہ جاوید اور مریم سے کہتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم اقبال جرم کرتے ہو۔ لہٰذا جاوید کو پھانسی کی سزا اور مریم کو زندگی بھر روتے رہنے کی سزا سنائی جاتی ہے۔ پھر فرنگی اپنے ایوان اور اپنی عدل گستری کی دہائی دیتا ہے۔ مریم کی احتجاجی لَے شدید ہوجاتی ہے:
مریم: ایسے ایوان عدل و صداقت پہ لعنت / ایسی ظالم حکومت پہ لعنت
پانچویں تصویر ابھرتی ہے، جس پر مجازؔ کا ایک مصرع ’’آج کی رات اور باقی ہے‘‘ درج ہے۔ موت کا راگ سنائی دیتا ہے پھر مریم اور جاوید کا مکالمہ ہے جو محبت سے لبریز اور نشاط کرب سے معمور ہے۔ ایسے ٹکڑوں کو پڑھ کر رقت طاری ہوجاتی ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں جاوید مریم کو تسلی دیتا ہے اور ساتھ ہی ’’عہد نو‘‘ کی بشارت بھی سناتا ہے۔ اس حصے میں سردار نے اپنی فکر اور تخیل کو صیقل کیا ہے ساتھ ہی یہاں تاریخ کے صفحات الٹتے نظر آتے ہیں جن سے مریم کو تسلی دی جاسکے جو باوثوق اور مستحکم بھی ہوں۔ آئیے اس طویل حصے سے کچھ منتخب ٹکڑے ملاحظہ کیجیے:
کل کا انداز کچھ اور ہوگا
بزم میں ایک نیا دور ہوگا
گود میں تیری اک چاند ہوگا
جس سے خورشید بھی ماند ہوگا
اس طرح کے چند پابند مصرعوں کے بعد ۲۶ صفحات پر سردار نے ماضی کی تاریخ اور پھر مستقبل کے خواب کو آزاد نظم کے فورم میں پیش کیا ہے جس میں شعلے اور چنگاریاں بھی ہیں، گرمیٔ بزم اور نسیم سحر بھی ہے، لمحوں کی بازیافت کا فسانہ بھی ہے اور آبا و اجداد کے کارناموں کا ذکر بھی ہے اور زنجیر غلامی کے ٹوٹنے اور ذلّت و صعوبت کے محو ہوجانے کی بات بھی۔ اسی عہد نو کی ایک جھلک اور دیکھیے:
کارخانوں سے نغموں کے طوفان اٹھیں گے
اور غریبوں کے سوکھے ہوئے زرد چہروں پہ رنگ آئے گا / زندگی اور آسودگی کا
………………………
گرد آلود آئینے دھل جائیں گے
اور مائوں کی گودوں سے ہنستے ہوئے ننھے ننھے فرشتے اتر کر / زمیں پر چلیں گے
چھٹی تصویر کے سرنامے پر علامہ اقبال کا یہ شعر ہے :
گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے
اسی شاخ سے پھوٹتے بھی رہے
اس حصے میں مریم اپنے جاوید کو یاد کرتی ہے۔ اپنے جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ اسے جاوید کے بغیر شب و روز میں تنہائی اور افسردگی نظر آتی ہے۔ اسی درمیان ایک نامہ بر سامنے آتا ہے جو جاوید کا پیغام لاتا ہے۔ اس نامہ بر کے احساسات بھی تقریباً وہی ہیں جو جاوید کے ہیں۔
پہلے تو نامہ بر اور مریم میں مکالمہ ہے جو قدرے غیر فطری معلوم ہوتا ہے کہ نامہ بر سے مبلّغ آزادی کا کام لیا گیا ہے۔ اخیر میں مریم کے کہنے پر نامہ پر جاوید کا خط پڑھ کر سناتا ہے جو اس کے آنے والے بیٹے کے نام ہے۔ کچھ منتخب ٹکڑے دیکھیے:
محبت کے ننھے شرارے سلام
اندھیرے کے روشن ستارے سلام
تِری آنکھ محروم نظارہ ہے
ابھی بطن مادر ہی گہوارہ ہے
یہ ہے تیرے ماضی کی کل کائنات
حوادث کے طوفاں مصائب کی رات
بنانا چٹانوں کے سینے پہ راہ
مگر اپنے ماضی پہ رکھنا نگاہ
نہ ہو زندگی سے کبھی دل فگار
عمل سے بنالے اسے سازگار
شکاری ہے انساں زمانہ شکار
یہ حصہ بھی طویل ہے اور پوری نظم کا نچوڑ اسی حصے میں موجود ہے۔ اس طویل حصے کے بعد حرف آخر کے نام سے اختتامیہ ہے جس میں تہذیب و تاریخ کے مظاہر ہیں اور جس کا ایک مصرعہ کلیدی ہے ع ’’یہ آدمی کی گذرگاہ — شاہ راہ حیات‘‘۔ زندگی کا قافلہ ہزاروں سال سے رواں دواں ہے لہٰذا:
اٹھو اور اٹھ کے انھیں قافلوں میں مل جائو
جو منزلوں کو ہیں گرد سفر بنائے ہوئے
قدم بڑھائے ہوئے اے مجاہدان وطن
نظم اختتام کو پہنچتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک نرم رو باد صرصر تھی جو گذر گئی۔ سردار کے تیور میں بغاوت اور احتجاج کا رنگ صاف محسوس ہوتا ہے۔ پہلی تصویر سے لے کر چھٹی تصویر اور حرف آخر تک سردار نے اپنے موضوع کو برتنے کے لیے مختلف ہیئتی تجربے کیے ہیں۔ اگر فن شعر سے انھیں گہرا شغف نہ ہوتا اور اوزان و بحور سے بالکلیہ واقفیت نہ ہوتی، تو اس تجربے سے کامیابی سے گزرنا آسان نہ ہوتا۔ جمالیاتی نقطۂ نظر سے دیکھیں یا موضوع کے افادی پہلو پر غور کریں، سردار اپنے احتجاج
کی لَے کبھی تیز کبھی مدھم کرتے ہوئے کامیابی سے گزر گئے ہیں۔
ایسا اس لیے بھی ممکن ہوسکا ہے کیوںکہ انھوں نے واقعات کا راست انداز میں تذکرہ نہیں چھیڑا ہے بلکہ ان واقعات سے جو اثرات پیدا ہوئے یا پھر انسانی دلوں پر جو نقوش ابھرے ہیں ان کی عکاسی کی ہے۔ ماضی اور حال یا استقبال کے نقوش پیش کرنے میں بھی سردار کافی حزم و احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ وہ ابہام سے بھی اپنی شاعری کو گراں بار نہیں کرتے۔ اس لیے معانی و مفاہیم کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہنگامی اور وقتی موضوعات شاعری کا حصہ نہیں بن سکتے اور اگر بنتے ہیں تو ایسی شاعری جلد ہی دم توڑ دیتی ہے۔ لیکن سردار جعفری کی ایسی نظم یا جمہور یا اور بھی کئی دوسری نظموں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہنگامی موضوعات پر مبنی شاعری بھی اثر انگیز اور دیرپا ہوسکتی ہے اگر شعور فن ہو اور سوز و گداز، بصیرت افروزی اور انفعالیت جیسے اوصاف فن پارے میں موجود ہوں۔ یہاں ورجل کی طویل نظم Georgics کا حوالہ پیش کیا جاسکتا ہے جو خوبصورت شاعری کا نمونہ بھی ہے اور کاشتکاری کے موضوع پر معلومات بھی فراہم کرتی ہے۔ اس نظم کا حوالہ ایلیٹ نے اپنے مضمون The social function of poetry میں دیا ہے۔
سردار جعفری کی مذکورہ نظم ’’نئی دنیا کو سلام‘‘ پڑھ کر یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ موضوع خواہ کچھ بھی ہو، فنکار کا شعور پختہ ہے اور اسے ہنر آتا ہے تو اپنے قارئین کی تعداد میں اضافہ کرلیتا ہے۔ یہاں سماجی منصب کی بات نہیں کی جائے گی البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج کے شاعروں کے لیے سردار کی یہ نظم اپنے موضوع، تکنیک اور ہیئت کے لحاظ سے ایک چیلنج ہے؟ کیا آج یہ تجربے کامیابی کے ساتھ جاسکتے ہیں؟ کیا یہاں اظہار ذات اور فرد یا اجتماعیت اور انفرادیت کا تنازع ختم نہیں ہوجاتا؟ اس نظم میں اجتماعی موضوع کو انفرادی احساس کی بھٹی میں پکا کر پیش کردیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ سردار جعفری خود بھی اس پہلو سے بے خبر رہے ہوں، کیوں کہ اس نظم کی تخلیق کے وقت وہ محض ایک نرے ترقی پسند شاعر نہیں تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.