Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نقاد کا نیا ادبی رول

باقر مہدی

نقاد کا نیا ادبی رول

باقر مہدی

MORE BYباقر مہدی

    اٹھارہویں صدی کے مشہور انگریزی شاعر الگزنڈر پوپ کی طویل نظم ’’تنقید پر ایک مضمون‘‘ پڑھنے کے بعدیہ خیال آتا ہے کہ نقاد کا ایک عام ادیب کے مقابلے میں کتنا اہم رول ہوتا ہے۔ اس کے ان اشعار کا آزاد ترجمہ ملاحظہ ہو،

    ’’یہ جاننے کی کوشش کرو کہ ناقدین کس چیز کا سبق دے رہے ہیں۔ اس لیے کہ یہ جاننا بھی ایک مصنف کے نصف کام سے کم نہیں ہے اور جو کچھ تم کہو اس میں سچائی اور صاف باطنی کی چمک اور گرمی ہو۔ تم سب کچھ اپنے شعور کے مطابق کہو۔ لیکن دوستی کا بھی خیال رکھو اور اس وقت خاموش رہو جب تمہیں اپنے ادراک پر شک ہو اور جب یقین ہو تو بڑی بے باکی سے بولو۔ ہم کچھ ایسے پرانے قسم کے افراد کو جانتے ہیں جو ایک بار غلطی کرتے ہیں تو ہمیشہ کرتے رہتے ہیں۔ تم اپنی غلطیوں کا اعتراف کرو اور ہر دن کو پچھلے دن پر تنقید سمجھو۔‘‘

    میں یہ بات بغیر پوپ کی نظم کا حوالہ دیے بھی کہہ سکتا ہوں۔ لیکن یہاں اس نظم کا ذکر کرنا اس لیے ضروری سمجھا کہ پوپ نے نقاد اور ادیب کے رشتوں کے بارے میں جو باتیں ۱۷۸۱ء میں کہی تھیں، وہ ہمارے یہاں آج تک عام نہیں ہو سکی ہیں۔ اس پوری نظم میں وہ تمام شاعرانہ خوبیاں نہیں ہیں جو ایک اچھی اور بلند شاعری کے لیے ضروری ہیں کیونکہ یہ نظم ایک قسم کا ’’منظوم مضمون‘‘ ہے۔ اس نظم میں ان برخود غلط شعراء پرطنز بھی ہے جو تنقید برداشت نہیں کر سکتے۔ ان ’’نقادوں‘‘ کا مذاق بھی اڑایا گیا ہے جو صرف خامیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور ان کا بھی جو ’’مدح خوانی‘‘ کو پیشہ بنا چکے ہیں۔

    مجھے یہ نظم پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی تھی کہ چند شاعر تو ایسے ہیں جو نقاد کے مرتبے اور تنقید کے مفہوم سے واقف ہیں۔ یہ مسرت اس لیے تھی کہ اردو کے بڑے بڑے شاعر نقادوں کو اس ’’حقارت کی نظر‘‘ سے دیکھتے ہیں کہ گویا ان کوعام ادیبوں کی صف سے خارج ہی کر دینا چاہئے۔ جوش ملیح آبادی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ دوسرے تنقید کے لب ولہجہ پر اتنی زور شور سے بحث شروع ہو جاتی ہے کہ اصل مسئلہ پس پشت چلا جاتا ہے۔ فراق اور جعفری کی بحث کا یہی انجام ہوا اور کچھ شاعر ایسے ہیں جو نقاد کے وجود تک سے منکر ہیں جیسے جذبی۔۔۔

    میں یہ نہیں کہتا کہ یہ الزامات تمام کے تمام بے بنیاد ہیں لیکن زیادہ تر اس وجہ سے لگائے جاتے ہیں کہ ہمارے ادیب اور شاعر نقاد اور تنقید کے مفہوم سے اچھی طرح سے واقف نہیں ہے یا ان کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے ہیں۔ اردو ادب جن مراحل سے دوچار ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف تخلیقی ادب کی رفتار اور معیار کم ہے۔ دوسری طرف نقاد اپنے اہم فرائض سے غافل ہیں۔ اس کشمکش کے عالم میں ادب کا طالب علم حسرت وحیرت کا مارا ہوا کھڑا ہے اور بار بار یہ سوالات کرتا ہے۔

    (۱) اردو ادب کا یہ دور تنقیدی کیوں ہے؟

    (۲) نقاد اور ادیب کے رشتے کیا ہیں؟

    (۳) نقاد کا نیا ادبی رول کیا ہے؟

    ہم آج کے دور کو اس لیے تنقیدی دور کہتے ہیں کہ تخلیقی ادب کی رفتار کم ہے اور معیاری چیزیں نہیں لکھی جارہی ہیں۔ کسی دور کا تعین کرتے ہوئے جن باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے، ان میں عام لوگوں کے شعور کو بڑا دخل ہے۔ دوسرے الفاظ میں عوا م الناس کی رائے اور شعور کا سوال آتا ہے۔ تقسیم ہند کے بعدجس طرح سماجی شعور ایک عام آدمی میں تیزی سے بڑھ رہا ہے، اسی طرح تنقیدی شعور نے نشوونما پائی ہے۔ جب انسان کو اپنی دشواریوں اور تکالیف کا احساس ہوتا ہے تو وہ ان کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ا س طرح وہ اپنے لیے اچھائی اور برائی کے پیمانے بناتا ہے۔ بدصورتی اور خوبصورتی کے معیار متعین کرتا ہے اور اقدار کے انتخاب میں فکرونظر سے کام لیتا ہے اور طبقاتی جدوجہد فکرونظر کی لو کو تیز کرنے میں معاون رہتی ہے۔

    آج جبکہ طبقات کے مفاد میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ متوسط طبقہ معاشی بدحالی کی وجہ سے دو حصو ں میں تقسیم ہو چکاہے اور واضح طور سے اپنی جانب داری کا اعلان کر رہا ہے۔ ایک اوپر ی طبقہ کے ساتھ مل گیا ہے اور دوسرا نچلے طبقے سے ہم آواز ہو چکا ہے۔ یہ معاشی قوتوں کی ہی برکت ہے کہ ہم طبقات کی نئی تشکیل کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ ایک خامو ش انقلاب ہمارے سماجی رشتوں کو تبدیل کرتا جا رہا ہے اور انفرادیت کے فروغ کے لیے سماجی حالات سازگار نہیں ہیں۔ ایک ناقابل بیان افسردگی اور پسپائی، ایک بےبسی اور تنہائی کا کربناک احساس ان ادیبوں اور شاعروں کی زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔ میں نے کئی بار یہ سوال خود سے کیا ہے کہ یہ کیسی افسردگی ہے جو آہستہ آہستہ قبضہ جماتی رہی ہے اور اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے جب بھی میں کسی دانشور یا ادیب کی طرف متوجہ ہوا تو غالب کا یہ شعر حقیقت بن کر سامنے آ گیا ہے،

    ہوئی جن سے توقع خستگی میں داد پانے کی

    وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ ستم نکلے

    ایسے تنقیدی اسلوب کی اردو میں کوئی گنجائش نہیں، اس لیے یہ زندگی کا عبوری دور جس کربناکی سے گذر رہا ہے اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ لوگوں کی خواہشات کم ہونے کے باوجود آسودہ ہو جاتی ہیں۔ اس لیے اگر میں یہ کہوں کہ یہ شدید تشنگی کا دور ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ کیونکہ تنقیدی دور میں چھان بین، تجزیہ اور تفسیر ہی کا ایک راستہ رہ جاتا ہے جو تھوڑی بہت آسودگی فراہم کرتا ہے۔

    تنقیدی دور کا ایک اور بات سے اظہار ہوتا ہے اور وہ ہے ادبی جمہوریت۔ ایک نیا ادیب بھی بڑی بے باکی سے بڑے ادیبوں کی تخلیقات پر رائے زنی کرتا ہے، صرف رائے زنی کرنے سے تنقید کا اظہار نہیں ہوتا ہے۔ یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن یہ کیفیت بھی نہیں رہی جو کل ایک مشہور ادیب کی چیزیں پڑھ کر ہوتی تھی۔ دوسرے الفاظ میں جذباتی ردعمل کو مقبولیت کی سطح مل گئی ہے اور اس طرح شعور اپنی کارفرمائی میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ رنگین بیانی کا سارا جادو ٹوٹنے لگتا ہے۔ غیرضروری خطابت بے اثر ہو جاتی ہے اور الفاظ کے معنی اور مطالب واضح ہو جاتے ہیں۔ زبان اور بیان کی خامیوں اور خوبیوں کی پرکھ عام ہو جاتی ہے۔

    اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ لوگ مضامین اور مباحث میں دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اس طرح انفرادی رائے اور خیال کی تشکیل ہوتی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر جو نکتہ قابل غور ہے وہ اقدار کی بحث ہے۔ آئیڈولوجی کی تشریح وتفسیر ہے۔ فلسفیانہ مسائل کو عمومیت حاصل ہونے لگتی ہے۔ تنقیدی دور کو ایک معنی میں نئی بیداری کا دور بھی کہہ سکتے ہیں۔

    اردو تنقید کی مختصر تاریخ میں ایک بات جو اس سلسلے میں ہمارے کام آ سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ مذاق سخن اور ذوق ادب کے فروغ عام کا کام بھی ’’نقاد‘‘ نے کیا تھا۔ اس لیے یہاں ایک سرسری نظر اپنے پچھلے کارناموں پر ڈالنی ضروری ہے کہ ہمارے نقاد نے اب تک کون کون سے اہم رول ادا کیے تھے اور اس کے بعد آج ہم اس کا پتہ لگائیں کہ ادبی رول کس نوعیت کا ہے؟

    ڈاکٹر شپلے Dr. Shipely نے تنقید کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ایک چونکا دینے والی بات کہی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ تنقید کی ابتدا ادب میں جمالیات کے اصولوں کی تلاش اور معیار کے تعین سے ہوئی تھی اور آج کا نقاد تاریخ، معاشیات، عمرانیات اور دیگر سماجی علوم کے ’’بحر بیکراں‘‘ سے نکل کر ساحل پر واپس آ گیا ہے اور اب پھر ادب میں بلند جمالیاتی معیار کا تقاضا کر رہا ہے۔ یہ بات اس نے یورپی ادب کے بارے میں کہی ہے۔ اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر اس بات کی صداقت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ آج مارکسی نقاد بھی محض موضوع پر ادب کی تخلیق کے حامی نہیں ہیں۔ یہیں سے نقاد کا ادبی رول شروع ہوتا ہے۔

    اردو تنقید کی یہ بدنصیبی رہی ہے کہ اس کا آغاز کسی بڑی اثاث سے نہیں ہوا اور نہ ہی ہمارے ادب میں کوئی تنقیدی روایت کا سلسلہ ملتا ہے جس سے کڑیاں ملاکر نقادوں نے نقد ادب کے اصول متعین کیے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی چند برسوں تک ہمارے ترقی پسند اور جدیدادب کے نقاد اصول نقدادب کی تشکیل اور تعبیر میں الجھے ہوئے تھے اور ہیں۔ میں اس کے باوجود پرانے تذکروں کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا ہوں۔ اس میں شعرگوئی کے لیے اہم باتیں ہیں لیکن شعر فہمی یا شاعری کے تصور کے بارے میں کوئی اہم اصولی بات نہیں ملتی۔ مجھے اقرار ہے کہ ’’تنقیدی جھلکیاں‘‘ ان میں ہیں مگر ان جھلکیوں سے کسی جلوے یا تصویر کی تعمیر نہیں ہو سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں حالی کو سب سے پہلے جن دشواریوں کا سامنا ہوا تھا، اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقدمہ شعروشاعری میں پہلی بار شاعری کے بارے میں عقلی معیار پر چندباتیں کہی گئی تھیں۔

    حالی کی ان باتوں کی صرف اب تاریخی اہمیت رہ گئی ہے۔ اس لیے کہ ہمارے ادیبوں پر دنیا کے ادب کے دروازے کھل چکے ہیں اور جب ہم فرانسیسی یا انگریزی ادب کے نقادوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ لوگ اصول نقد کی بحثوں میں مبتلا رہنے کے باوجود عملی تنقید میں بہت آگے جا چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک یہ سمجھتے ہیں کہ اردو تنقید حالی اور شبلی سے آگے نہیں جا سکی ہے اور اس خیال کو ماننے والوں کی اکثریت ہے۔ لیکن میں ان لوگوں سے صرف یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر ہماری تنقید حالی اور شبلی سے آگے نہیں بڑھی تو یہ ماننے میں کیا تامل ہے کہ تنقید صحیح معنوں میں پوری طرح سے شروع بھی نہیں ہوئی ہے اور ڈاکٹر کلیم الدین سے خفا ہونے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔ ہم دونوں باتوں کو نہیں مان سکتے۔ یا تو تسلیم کرنا ہوگا کہ تنقید حالی کے دور سے آگے جا چکی ہے یا کلیم الدین کی بات ماننی ہوگی۔

    بہرحال یہ بات تو سنجیدہ حلقوں میں مانی جاتی ہے کہ اردو ادب میں تنقید کا فروغ دیر میں ہوا۔ لیکن جب سے تنقید کا دور دورہ ہوا اس وت سے اب تک کافی ترقی بھی ہو چکی ہے اور اب شعروادب کے بارے میں مختلف تصورات ملتے ہیں۔ نظریاتی اعتبار سے مختلف اسکول بھی قائم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک گروپ زبان وبیان کی خوبیوں کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ دوسرا شاعری میں جذبات کی رنگارنگی ہی کو اہم گردانتا ہے اور تیسرا موضوع اور ہیئت، دونوں کے حسین امتزاج پرزور دیتا ہے۔ ابھی ہمارے ادب میں باقاعدہ رومانی اور کلاسیکی یا تاریخی اور نفسیاتی نقادوں کے گروپ تو نہیں ہیں لیکن جس طرح آج کے اردو ادب میں مختلف خیالات اور نظریات کے ادیب ہیں ویسے ہی نقاد بھی ہیں۔

    ریاض احمد نفسیاتی تنقید کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ حسن عسکری فرانسیسی زوال پرست اور مذہبی نقادوں کے اصولوں کو عام کرنے کے درپے ہیں اور ممتاز حسین مارکسی تنقید کی تشریح اور تعبیر کرنے میں مشغول ہیں۔ اس لیے آج کے تمام نقاد کسی نہ کسی صورت میں ادب اور تنقید ادب کی اہمیت کو مانتے ہوئے اپنے اپنے نظریات کو عام کرنے کی مہم میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے وقت میں ایک عام باشعور قاری کے لیے سب سے پہلے جو دشواری سامنے آئی ہے وہ ہے ادبی ذوق کا سوال اور اس سوال کے آتے ہی تنقید کا بنیادی سوال بھی سامنے آ جاتا ہے۔ اس لیے کہ ادبی ذوق کی تشکیل میں تنقید کا بہت ہی اہم حصہ ہے۔

    کل تک ادب چند بہت ہی برگزیدہ ہستیوں کی جاگیر تھا اور وہی لوگ اس پر بحث کے اہل سمجھے جاتے تھے۔ آج ادبی ذوق عام ہو چلا ہے اور اب تمام علوم میں ماہر ہوئے بغیر بھی ادبی رائے رکھی جا سکتی ہے اور قاری کی باتوں کو دھیان سے سنا بھی جانے لگاہے۔ ان حالات میں ادبی ذوق کو زیادہ بہتر اور برتر بنانے کا کام نقادوں کے علاوہ کوئی اور پوری خوبی سے نہیں کر سکتا ہے۔ اس لیے نقادوں کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اچھے ادبی ذوق کو عام کرنے کی مہم میں پیش پیش رہیں۔

    آج تہذیبی روایات پر بہت زور دیا جا رہا ہے اور اس بات کو سمجھنے اور سمجھانے کا کام بھی ہمارے ادیب اور نقاد کر سکتے ہیں۔ میرے خیال سے آج کے ملکی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے نقاد کے نئے رول کے بارے میں کچھ کہا جا سکتا ہے۔ ایک چیز پر اب تک بہت زور دیا گیا ہے اور وہ بھی اچھی طرح سے ہمارے ادیبوں کی تخلیقات میں نہیں ملتی ہے۔ وہ ہے ادب اور زندگی کا گہرا تعلق۔ ہمارے ادیب اس کو جب اپنے معنوں میں پوری طرح برتتے ہیں تو ذات کے خانے میں چلے جاتے ہیں اور جب اس کو’’وسعت‘‘ دیتے ہیں تو خیال آرائی پر اتراتے ہیں اور وہ توازن جو اعلیٰ ادب کی ایک پہچان ہے، خال خال ہی نظر آتا ہے۔ بازار کا بھاؤ دیکھ کر لوگ افسانے اور نظمیں لکھتے ہیں۔

    اس لیے یہ کہنا ہی پڑتا ہے کہ فنکار اور معاشرے کے بدلتے ہوئے رشتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی زندگی کے عام تجربات سے گزر کر ان میں تازگی پیدا کرکے پیش کرنے کا بھی مسئلہ ہے۔ ایک معنی میں نقاد کے آزمائش کا صحیح زمانہ یہی ہوتا ہے۔ و ہ اپنے بصیرت افروز مضامین اور کتابوں سے ادبی دھاروں کو ان وادیوں سے گزرنے میں مدد دے سکتا ہے جن کی شادابی سے قومی تہذیب میں نئے نئے چمن کھلنے کی توقعات ہیں اور اس طرح وہ ایک ساتھ ’’چمن آرائی اور چمن بندی‘‘ کا کام کر سکتا ہے۔ ممکن ہے ان چند جملوں میں شاعرانہ مبالغہ کا گمان ہو لیکن میں نے کھردرے طریقے سے بات نہ کہنے کے لیے یہ اشارے تلاش کیے ہیں۔

    اصل میں آج کا نقاد جہاں وضاحت پرزور دیتا ہے وہاں وہ تحریر کی ادبیت پر بھی مصرہے، اس لیے کہ تخلیقی فنکار کو اس کا احساس نہ ہونے پائے کہ نقاد کا معاشی، سیاسی اور سماجی خیالات اور جذبات کی آئینہ داری کرنے کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں ہے۔ اب سماجی اور سیاسی مسائل کو پس منظر کی شکل میں پیش کرتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑےگا کہ پس منظر اصل منظر پر چھا تو نہیں گیا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ادبیت پر زور دیا جائے اور صرف زندگی اور ادب کے گہرے تعلق کی تشریح وتفسیر ہی نہ کی جائے بلکہ اس کو تعلق خاطر بناکر پیش کیا جائے، تب ہی نقاد اپنے ادبی فرض کو پورا کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

    دو برس ہوئے، ممتاز حسین نے ایک مضمون ’’تنقید کے چند بنیادی مسائل‘‘ لکھا تھا، جو ان کی الجھی ہوئی طرز تحریر کی وجہ سے مشہور نہ ہو سکا۔ اس مضمون میں انہوں نے چند اہم بنیادی باتوں کو چھیڑا تھا۔ اس میں پہلی بات حالی کے بارے میں یہ ہے کہ انہوں (حالی) نے عقل پسندی کی تحریک کو مانتے ہوئے بھی جذبہ پرستی کی راہ کو کھلا رکھا۔ ممتاز حسین کا خیال ہے،

    ’’اگر آپ غور کریں تو ماننا پڑےگا کہ رومانوی دور میں حالی کی عقل پسندی کی تحریک تجرباتی علوم کو قبول کرنے اور اسے جد اور مجاد کے فلسفے کے منافی تصور نہ کرنے کی تحریک رومانوی دور میں جذبہ پرستی کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکی۔ میں اس سلسلے میں حالی کو سبکدوش کرنا نہیں چاہتا۔ نیچرل وہ ہے جو اصول فطرت کا تابع ہو۔ ہابس (Hobbes) کے یہاں نیچرل کے یہی معنی ہیں۔ لیکن روسو نے نیچرل کو اصول فطرت کا نہیں بلکہ محسوسات کا تابع بتایا ہے۔ حالی نے بھی یہی غلطی کی۔ انہوں نے جذبات اور محسوسات کی اہمیت پر زور دیا، نہ کہ محسوسات کو کسی اصول کے ماتحت معقول بنانے پر اورجب معقولات کی طرف آئے تو انہوں نے اسے اخلاقیات کا پابند کیا، نہ کہ علوم طبعی کا۔ اس طرح حالی نے اپنی نیچرلزم میں مابعدالطبیعات، سریت اور جذبہ پرستی کی راہ کو غیرارادی طور پر کھولے رکھا۔‘‘ (فن کار نمبر ۳۔ ۴ صفحہ ۴۳)

    ممتاز کا یہ کہنا بڑی حد تک درست ہے کہ حالی نے تنقید کی بنیادوں کو عقلی سطح پر استوار کرنے کی کوشش کی اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے لیکن بات یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی واضح تصور حیات نہ تھا اور خود سرسید تحریک کے ’’نقیب‘‘ کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس لیے مقدمہ شعروشاعری اپنی تمام اہمیت کے باوجود اردو تنقید کی مضبوط بنیاد ڈالنے میں کامیاب نہ ہو سکا اور یہی ایک بات یہ ثابت کر دینے کے لیے کافی ہے کہ حالی کے بعد تنقید آگے بڑھی ہے۔۔۔

    میں ممتازحسین کے اس مضمون کا اس لیے تفصیل سے ذکر کر رہا ہوں کہ انہوں نے تنقید کے دوایک اہم مسائل کو اٹھایا تھا جس کا ذکر نقاد کے نئے ادبی رول کو واضح کرنے کے سلسلے میں ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ تنقید نے اقدار کی تنقید پر زور دیا ہے اور اس کے باوجود ادب کی اولیت کو بھی تسلیم کیا ہے۔ اس سے کسی بھی متوازن نقاد کو اختلاف نہیں ہوگا۔ البتہ عملی تنقید کرتے ہوئے دو ایک ترقی پسند نقادوں نے شدید انتہا پسندی سے کام لے کر ادبیت پر ’’پس منظر‘‘ کو غالب آ جانے دیا ہے۔ اس سلسلے میں ممتاز حسین نے اعلیٰ سنجیدگی کے بارے میں ایک بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ اس لیے یہ جملے نقل کرتا ہوں،

    ’’ہمارے نقاد جو اپنی تنقید کو غیرسیاسی بنائے رکھنے کی کوشش میں متصادم اور متضاد قدروں کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے اعلیٰ کا نام دیتے ہیں۔ اعلی سنجیدگی ایک دوسرے کی نفی کرنے والی قدروں کے درمیان توازن قائم کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس بات میں ہے کہ ہم ان کے تضاد کو آگے بڑھاکر حل کریں اور اسے اس طرح آگے بڑھائیں کہ مخاصمت اور تشدد کم سے کم ہوتی جائے۔‘‘ (صفحہ ۵۳)

    اس لیے آج کے نقاد کو اعلیٰ سنجیدگی کی غلط آڑ لے کرصرف ’’فنی اور تشریحی تنقید‘‘ کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے جیسا کہ عبادت بریلوی اور دوسرے اس قسم کے نقاد کر رہے ہیں، بلکہ ادب پر تنقید کرتے ہوئے زندگی کے اقدار پر صاف اور بھر پور طریقے سے تنقید کرنی چاہئے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ نقاد نئے ادبی رول کو سمجھا جا سکے۔ ممتاز حسین کے یہ جملے بھی قابل غور ہیں، ’’ناقدوہ ہے جو اپنے کونہ تو زبان میں کھوتا ہے اور نہ ادیب شاعر کے کلام میں۔ اس کی حیثیت اگر ایک طرف قاری اور ادیب کے درمیان ترجمان کی ہے تو دوسری طرف وہ ان دونوں سے آزاد بھی ہے۔ وہ ادب اور زندگی دونوں ہی کی رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ (صفحہ ۶۳)

    اس کے یہ معنی نہ سمجھنے چاہئیں کہ میں تخلیقی فنکار کی اولیت کو تسلیم نہیں کرتا ہوں مگر آج کل یہ رسم اتنی عام ہوتی جا رہی ہے کہ نقاد کی رائے اور نظر کو لائق اعتناہی نہ سمجھنا چاہئے۔ اس لیے چند تلخ حقیقتیں کہنا ضروری ہو گیا ہے۔

    اس کے بعد میں ’’ہندوستان اور پاکستان میں نقاد کا ادبی رول کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے‘‘ کے مسئلہ کو اٹھاتا ہوں۔ یہ بات تو ایک حقیقت بن چکی ہے کہ پاکستان کا اردو ادب ہندوستان کے اردو ادب سے بڑی حد تک مختلف ہوگا اور حالات کے پیش نظر ہونا بھی چاہئے۔ میں پہلے ہندوستان کے نئے نقاد کے ادبی رول کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

    آج اردو زبان ہندوستان میں اس ’’پل صراط‘‘ سے گزر رہی ہے کہ ذرا سی لغزش ہوئی اور تباہی یقینی ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں ہم اردو زبان کے مستقبل سے مایوس نہ ہوتے ہوئے بھی ایک شدید آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں جبکہ بیگانے ختم کر دینے پر تلے ہوئے اور یگانے ’’یاس و حسرت‘‘ کے مارے خاموشی سے سب کچھ برداشت کرتے جا رہے ہیں۔ پنڈت نہرو کے بار بار کہہ دینے سے کہ اردو کو اہمیت د ی جائے، اہمیت حاصل نہیں ہو سکتی ہے، جب تک کہ اس زبان کے ادیب و شاعر یہ محسوس نہ کرنے لگیں کہ یہ ان کی اپنی زندگی کا اہم ترین مسئلہ ہے اور اب یہ مسئلہ لسانی گتھیوں کو سلجھانے کا نہیں رہا ہے بلکہ تمام اردو کے ادیبوں کو ایک مرکز پر جمع ہوکر زبان کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنے کا ہے اور اس بات کا احساس دلانا بھی آج کے نقاد کے نئے ادبی رول میں شامل ہے۔

    وہ اپنے مضامین کے ذریعہ اس مسئلہ کو اس کے صحیح پس منظر میں پیش کرکے اہمیت دے سکتا ہے۔ تاکہ ہمارے پرانے اور نئے ادیب وشاعر ایک آواز ہوکر اپنی مشترکہ تہذیب کے ورثہ کو بچانے کے لیے جدوجہد کریں۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ تو ادبی رول نہیں ہوا بلکہ سماجی یا سیاسی رول ہوا تو ان سے اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ نقاد کا کام تنقیدی ترازو میں ناپنا تولنا ہی نہیں ہے بلکہ اپنی آواز کے ذریعہ ادیبوں میں وہ حرکت وعمل کی قوت بھی پیدا کرنی ہے جو تخلیق ادب کی باعث ہو سکے۔ ہندوستان میں تخلیق ادب کا مسئلہ اہم ہوتے ہوئے بھی تحفظ زبان کے سوال کے برابر ہے۔

    پچھلی چند صدیوں میں نقاد کو اتنے اہم مسئلہ کی طرف کبھی اس طرح نہیں سوچنا پڑا، اس لیے کہ جس ملک میں بھی زبان کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہاں کے عوام نے علم بغاوت بلند کیا ہے لیکن ہندوستان میں اس مسئلہ کو کچھ ایسے سیاسی رنگ میں پیش کیا گیا ہے کہ بہت سے ہندی کے ترقی پسند ادیب بھی اردو کے مسئلے پر اردو کے ادیبوں کے ہم نوا نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین کو اپنی پچھلی کانفرنس میں اردو کے مسئلہ پر کوئی تجویز تک منظور کر لینے کی ہمت نہیں ہوئی کیونکہ اس میں ہندی کے ترقی پسند ادیبوں کے عدم تعاون کی امید تھی۔ بہرحال آج کے نقاد کا یہ بھی فرض ہے کہ ادیب وشاعر کو اس بات سے مطلع کرے کہ طوفان جلد ہی سرسے گزرنے والا ہے اور ہمیں اس کے لیے تیار ہونا چاہئے، ورنہ آئندہ کا مؤرخ ہندوستان کے ادیبوں اور شاعروں کی کم ہمتی کا ذکر کرکے رہےگا۔

    ہماری تنقید کا سرمایہ اتنا کم ہے کہ ہم آج تک ایک اچھی تاریخ اردو ادب بھی نہیں لکھ سکے ہیں اور سکسینہ کی معمولی کتاب کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ ہمارے اتنے بڑے شاعر میر پر ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کی کتاب ’’اہمیت‘‘ حاصل کر چکی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آج بھی بڑے اور اہم شاعروں اور ادیبوں پر اچھی تنقیدی کتابوں کی کتنی اہمیت ہے۔ یہ اسی صورت میں دور ہو سکتی ہے جب ہمارا نیا نقاد اپنے ادبی رول کو پوری طرح سمجھ سکے تاکہ وہ پوری تن دہی اور جاں فشانی سے علمی خدمت کر سکے۔ یہ کام اسی وقت اچھی طرح سے ہو سکتا ہے جب کہ ہمارے ادیبوں اور نقادوں کے رشتے مستحکم اور استوار ہوں اور وہ مصنوعی خلیج جو پیدا کر دی گئی ہے، ختم ہو۔ اس سلسلے میں احتشام حسین اور آل احمد سرور کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔

    احتشام حسین نے ترقی پسند تنقید کو جامع بنانے میں جدوجہد کی ہے اور وہ تحریک کے مبلغ، مفسر اور نقا دکی حیثیت سے وہی درجہ رکھتے ہیں جو حالی کو سرسید تحریک کے سلسلے میں حاصل تھا۔ انہوں نے سائنٹیفک تنقید کی تشریح اور تعبیر بھی کی ہے مگر عملی تنقید کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بھی اس سلسلے میں کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ہے۔ آل احمد سرور نے ادب اور روایات کے رشتوں کو استوار کیا ہے اور چندبہت ہی اچھے مضامین لکھے ہیں لیکن اس کے بعد کے نقادوں کا نیا ادبی رول یہ ہے کہ وہ عملی تنقید کے صرف چند نمونے ہی نہ پیش کریں بلکہ اس کو ایک مہم کی طرح چلاکر اپنے فرائض کو پورا کریں۔ جب ہی یہ ممکن ہے کہ ہم بڑے شاعروں پر معمولی درجہ کی کتابوں کو سینے سے لگانا چھوڑیں گے۔

    کیا یہ کچھ کم اہم بات ہے کہ میر، انیس، غالب، اقبال، جوش اور یگانہ پر کوئی بلند پایہ تنقیدی کتاب نہیں ہے بلکہ چند مقالے ہیں اور بس۔ اس سلسلے میں ایک طرح سے تخلیقی ادب کی رفتار کو تیز اور معیار کو بلند کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ ادھر بیس پچیس سال میں جو ادب تخلیق ہوا ہے اس کا بڑی بے باکی اور دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے۔ اس لیے نئے نقادوں پریہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ تنقید ادب کے اصولوں سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد ’’عملی تنقید‘‘ کے کیسے ’’نمونے‘‘ پیش کر رہے ہیں۔ شخصیت پرستی اور گروہ بندی کے طلسم کو ختم کرنے کے لیے نقاد کے نئے ادبی رول میں اس کام کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بغیر اس کام کے انجام پائے ہمیں یہ معلوم کرنا مشکل ہی ہو جائےگا کہ ہمارے ادب کی ترقی کی کیا رفتار ہے اور اس میں بیس پچیس سال کے عرصے میں جوادب تخلیق ہوا ہے وہ کس درجے کا ہے؟

    میں نقاد کے نئے رول کے بارے میں یہ چند باتیں ضروری سمجھتا ہوں۔ ہندوستان میں اردو ادب کے نقاد کو زیادہ بیدار، زیادہ بااثر اور زیادہ عملی ہونے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ میرے خیال سے اردو ادب کا یہ دور تنقیدی ہے اور اس دور میں سب سے زیادہ ذمہ داری نقاد ہی پر عائد ہوتی ہے۔ اس سے کسی طرح مفر نہیں ہے۔

    پاکستان میں اردوادب کے بارے میں چند باتیں لکھنے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں یہ مضامین تنقیدادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے لکھ رہا ہوں۔ ایک دوسرے ملک کے نقاد کے ادبی رول کے بارے میں کوئی بات ’’حرف آخر‘‘ کے طور پر کہی ہی نہیں جا سکتی، البتہ ہندوستان کے نئے ادیب کی حیثیت سے یہ ضرور سوچ سکتا ہوں کہ وہاں کے نقادکے ادبی رول میں کون کون سی اہم باتیں ہونی چاہئیں اور آج کا نقاد اس کو پورا کر رہا ہے یا نہیں۔ وہاں کاسب سے اہم ادبی مسئلہ سیکولر خیالات کو مجتمع کرکے مابعدالطبیعاتی رجحانات کے مقابل ’صف آرا‘ ہونے کا ہے۔ بات یہ ہے کہ جس ملک میں جمہوریت کی جڑیں گہری اور دیرپا نہ ہوں وہاں کی فضا میں ادب وتہذیب کی ترقی کے امکانات بھی زیادہ نہیں ہوتے۔ محمد حسن عسکری نے اپنے ایک مضمون ’’اردو افسانے کا مستقبل‘‘ میں بڑے پتے کی بات کہی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ جس ملک کے افراد کو پورے شہری حقوق حاصل نہ ہوں اورجہاں انفرادی آزادی اور تہذیبی ترقی کا چرچا بھی نہ ہو، وہاں ادب اور ادیب دونو ں کے مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ یہ مضمون ’’نقوش‘‘ کے افسانہ نمبر میں شامل ہے۔

    اس لیے وہاں کے نقاد کا نیا ادبی رول اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ اسے ایک طرف غیرعقلی فلسفے اور فرقہ پرست رجحانات کے خلاف ’’برسرپیکار‘‘ ہونا ہے۔ دوسری طرف جمہوری ادب کے فروغ کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ اس کے علاوہ تحقیقی اور خالص علمی کام کے لیے جو سہولتیں حکومت کی طرف سے دی جا رہی ہیں، وہ بقول مدیر’’ادب لطیف‘‘ برائے نام ہیں اور جب یہ صورت حال ہو تو کسی بڑے پیمانے پر کوئی بڑا علمی اور تنقیدی کام نقاد کے ادبی رول ہی کی صورت میں انجام پا سکتا ہے۔ ادھر وہاں جو تنقیدی کتابیں شائع ہوئی ہیں وہ تھوڑی بہت اہمیت کے باوجود تنقید کے بلند معیار پر پوری نہیں اترتی ہیں۔

    عملی تنقید کے معاملے میں پاکستان کے اردو ادب کی حالت ہندوستان کے ادب سے بہتر نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے نقادوں کو اردو ادب کے سلسلے میں ایک بات یکساں طور پر سوچنی پڑےگی کہ تخلیقی ادب کی رفتار کو تیز اور معیار کو بلند کرنے کے لیے کون کون سی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ شکایت ترقی پسند اور غیرترقی پسند دونوں قسم کے نقادوں کو ہے کہ اچھی چیزیں نہیں تخلیق ہو رہی ہیں۔ اس لیے مجموعی طور سے اردو ادب کی ترقی کے لیے سر جوڑ کر غوروفکر کرنا پڑےگا۔ حسن عسکری کے خیال سے اردو ادب پر موت کا قبضہ ہو چکا ہے۔ انتظار حسین کی رائے میں پرانی نسل کے ادیبوں کا سرمایہ ختم ہو چکا ہے۔ ممتاز حسین کا خیال ہے کہ متوسط طبقے کے رومانوی ادب کا خاتمہ ہوا ہے، پورے ادب کا نہیں اور انفرادیت پربحث کرتے ہوئے جن متوازی اور سائنٹیفک خیالات کی ضرورت تھی وہ کبھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔

    ایسی صورت میں نقاد کا ادبی رول ان مباحث سے صحیح نتائج اخذ کرنا بھی ہے۔ یہ بحثیں بذات خود بری نہیں ہیں لیکن ان میں نمایاں چیز وہ جذبہ ہے جو ادبی ہونے کے باوجود’’ادب دشمن‘‘ قوتوں کو مدد پہنچا سکتا ہے۔ اس لیے نقاد کے ادبی رول میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ ان مباحث کو صحیح راہوں پرلے جانے کی پوری کوشش کرے تاکہ اس سے نئی ادبی فضا بننے میں مدد مل سکے۔ میں یہ باتیں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ پاکستان میں جو اردو ادب پیدا ہو رہا ہے، وہ اپنے ملک کی فضاسے بے نیاز ہوکر نہیں رہ سکتا اور نیا ملک ہونے کی وجہ سے جمہوری ادب کے لیے زیادہ جدوجہد کرنی پڑےگی۔ احتشام حسین نے اپنی نئی کتاب ’’ذوق ادب اور شعور‘‘ میں نقاد کے بارے میں بڑی فکرخیز باتیں کہی ہیں۔

    ’’اردو کے کئی اہم نقاد اچھے تنقیدی اسلوب، وسیع مطالعہ، تیز ذہن اور گہری نگاہ کے مالک ہونے کے باوجود تنقید کے بنیادی مسائل کو حل نہیں کر رہے ہیں۔ اس وقت تنقید کا مسئلہ محض ادب کی پرکھ کا مسئلہ نہیں، اپنی زبان اور اپنے ادب سے دلچسپی لینے کا مسئلہ بھی نہیں ہے بلکہ عالمی ادب کے معیاروں کو پیش نظر رکھ کر ہر اس علم وفن سے کام لینے کامسئلہ ہے جن سے انسانی ذہن عمل اور محرکات کو سمجھ سکتا ہے۔ ادب کی تنقید زندگی اور زندگی کی قدروں کی تنقید ہے۔ کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے کی تنقید ہے۔ ادب کے اندر عقیدے اور بہتر نظام زندگی کی تلاش ہے۔ تنقید لائق تاریخ ہے نہ فلسفہ، نہ سیاست ہے نہ سائنس لیکن یہ علوم جس حد تک انسانی ذہن میں داخل ہوتے، اسے متاثر کرتے اور شعور کا جز بنتے ہیں، اس کی جستجو ہے۔‘‘ (صفحہ ۲۵۴)

    اس اقتباس کو دینے کا مقصد ہے کہ ہم آج اپنے تنقید ادب کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے دنیا کے دوسرے ممالک کے ادبی معیار کے بارے میں بحث کر سکتے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ ہم عالمی معیار پر اپنے ادب کو پرکھیں، یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے کو اس بحث کے لیے تیار کریں اور اس کے لیے زمین ہموار کرنا ادیب اور نقاد دونوں کا فرض ہے اور نقاد کا نیا ادبی رول صرف نقاد ہی کو نہیں سمجھنا ہے بلکہ ادیب اور شاعر کو بھی نقاد کی اہمیت تسلیم کرنی ہوگی اور یہ سوچنا ہوگا کہ اب کیا کیا جائے؟ نالہ وشیون کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اس کی خاطر جان وتن کی بازی لگانے کے بجائے زیادہ غوروفکر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

    الگزنڈر پوپ کی نظم بھی مایوسی پر ختم نہیں ہوتی ہے اور اس میں بھی نئی طرح سے جدوجہد کرنے کے جذبے کا اظہار کیا گیا ہے۔ میری رائے میں ادب کی اہمیت سمجھنے، ادیب کی انفرادی آزادی اور سماجی ذمہ داری میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ادب عالیہ کی اہمیت، قدیم تہذیبی روایات اور جدید رویے میں رشتے قائم کرنے اور ادبی ذوق و شعور کی ترتیب اور تشکیل کرنے کی مہم بھی شروع کرنی ہوگی۔

    مأخذ:

    آگہی وبیباکی (Pg. 51)

    • مصنف: باقر مہدی
      • ناشر: خلیل احمد
      • سن اشاعت: 1965

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے