Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پٹنہ کا تخلیقی افق

حقانی القاسمی

پٹنہ کا تخلیقی افق

حقانی القاسمی

MORE BYحقانی القاسمی

    پٹنہ مستقبل کا شہر ہے۔۔۔!

    مہاتما بدھ جیسے عرفانی وجود نے یہ پیش گوئی کی تھی تو یقینا صحیح ہوگی۔ اس شہر کا طبعی وجود اگر معدوم ہو جائے تو ما بعد الطبیعاتی وجود بر قرار رہے گا۔ یہ شہر بنیادی طور پر اپنے اندر ایسے عناصر رکھتا ہے جن کا تعلق میٹا فزکس سے ہے۔ مختلف عہد میں لکھی گئی پرانی تاریخوں میں درج عبارتوں سے ہی اس شہر کیinner psycheکو سمجھا جاسکتا ہے۔

    کسی بھی شہر کی داخلی سائیکی، وہاں کی تہذیب وثقافت سے ہی تشکیل پاتی ہے اور تہذیب وثقافت میں تنوع یا تجد دنہ ہو تو پھر شہر کا داخلی وجود بھی ساکت اور منجمد ہو جاتا ہے۔ شہر کے تحرک کی لہریں تاریخ وثقافت سے ہی موجزن ہوتی ہیں۔

    پٹنہ ایک قدیم شہر ہے، ہندو بھارت کا روم۔ علوم وفنون کا مرکز جہاں کی دانش وآگہی کی روشنی سے ایک دنیا منور ہوئی اور جہاں کے فلسفہ و فکر سے دنیا فیضاب ہوئی۔ یہ شہر مصدر دانشوراں اور مجمع فضل وکمال ہے۔ اسی شہر نے تہذیبی، معاشرتی تاریخ کو ایک نئی جہت سے آشنا کیا۔ قدیم رنگ میں ڈوبا ہوا یہ شہر آج بھی اپنے عجائبات، غرائبات اور نوادرات کی وجہ سے شہرہ آفاق حیثیت کا حامل ہے۔

    اساطیر اور اسطوری عہد میں زندہ رہنے والا یہ شہر تاریخ کے کتنے عہد اور کتنی عبارتوں کو اپنے جلو میں سموئے ہوئے ہے۔ یہ شہر اپنے اندر زندہ اور تابندہ رہنے کی قوت رکھتا ہے کہ کسی بھی شہر کی زندگی اس کی عمارتوں سے زیادہ ان عبارتوں پر منحصر ہوتی ہے جو اس کے بارے میں لکھی جاتی ہیں۔ پٹنہ خوش نصیب شہر ہے کہ اس کی عظمتوں کی عبارتیں عہد قدیم سے عہد حاضر تک روشن ہیں۔ اس کے روشن نقوش ان سفر ناموں میں بھی مرتسم ہیں جو چینی سیاح فاہیاں اور یونانی سفیر ومورخ megasthenes نے لکھے اور ان تاریخوں میں بھی جو مختلف ملکوں اور شہروں کے حوالے سے لکھے گئے ہیں۔

    پٹنہ کو ماورائی آنکھ کے بجائے ظاہری آنکھ سے دیکھا جائے تو شہر بے کیف اور بے رنگ ونور نظر آئے گا۔ کھنڈرات، شکتہ، لر زیدہ، آبدیدہ عمارتوں کا محض ایک نقشہ۔ اس کا طبعی وجود چاہے کتنا ہی غیر متاثر کن کیوں نہ ہو مگر مابعد الطبیعاتی وجود میں حسن، حرارت اور تحرک وتوانائی ہے۔ طبعی وجود کی علامت عمارتیں خستہ اور بے تر تیب ہو سکتی ہیں مگر تخلیقی وجود میں نہ خستگی ہے نہ ویرانگی بلکہ تابندگی اور تابانی ہے۔

    ٹکنا لوجی کی قوت سے عمارتوں کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے، پر شکوہ عالیشان عمارتوں کی تعمیر بھی ممکن ہے۔ مگر ٹکنا لوجی تخلیق کا نعم البدل تیار نہیں کر سکتی۔ ٹکنا لوجی سے انسانی جذبات واحساسات کی نہ تشکیل ممکن ہے اور نہ اظہارات کی تجدید اس لئے عمارتوں میں گو خستگی اور کہنکی ہے مگر تخلیقی وجود میں تو تازگی اور تجد دہے۔

    پٹنہ کا تخلیقی شعور بہت بلند ہے کہ اسی شہر سے ماہر لسانیات پنپتی اور ارتھ شاسترر لکھنے والے کو ٹلیا اور ماہرریا ضیات آریہ بھٹ جیسی ذہانتوں کا تعلق ہے تہذیب وتعلیم کا ایک ایسا اہم مرکز، جہاں سے راجہ رام موہن رائے نے بھی عربی کی تعلیم حاصل کی۔

    تہذیب صدیوں کا سفر طے کر کے آج جس مقام تک پہنچی ہے، پاٹلی پتر بہت پہلے ہی وہاں تک پہنچ چکا تھا۔ اس کی قدیم تہذیب بھی آج کی جدید تہذیب سے بہت آگے تھی۔ وہاں لکڑیوں سے بنی عمارتیں پتھروں میں بدل گئیں مگر تخلیقی حسن نے ان پتھروں کے دل بھی پگھلا دیے۔

    اجات شترونے اسے اپنی راجدھانی بنایا۔ یونانی سکندر کے ہم عصر چند ر گپت موریہ کی حکومت بھی رہی جو خلیج بنگال سے افغانستان تک محیط تھی اور دنیا کے ایک عظیم ترین فرمانر وا اشوک اعظم کی عظیم ترین سلطنت کا دارالحکومت بھی یہ پاٹلی پتر تھا۔

    اس شہر نے بھی نام بدلے۔ کبھی پاٹلی پتر، کبھی پٹنہ تو کبھی عظیم آباد۔ ابتداء میں یہ پاٹلی پتر تھا جو راجہ پتر ک نے اپنی رانی پاٹلی کے پہلے بچے ساریکا کی خوشی میں رکھا تھا۔ اور نگ زیب کے پوتے عظیم الشان کی وجہ سے یہ شہر عظیم آباد کہلایا اور جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط ہوا تو یہ پٹنہ میں تبدیل ہو گیا۔ اس شہر کے نام تو بدل دئے گئے مگر اس کی روح کو بدلنا آسان کام نہیں تھا۔ شہر کی آتما وہی رہی جو پاٹلی پتر کے زمانے میں تھی۔ شیر شاہ سوری نے بھی اس شہر کو رونق عطا کی اور شہنشا ہ اکبر نے بھی 1574میں پٹنہ کا دورہ کیا۔ اس وقت یہ شہر کا غذ پتھر اور شیشہ صنعتوں کا مرکز تھا اور پٹنہ کا چاول پوری دنیا میں مشہور ہو چکا تھا۔ 17ویں صدی میں پٹنہ ایک شہر ہی نہیں بلکہ بین الاقومی تجارت کا مر کز بن گیا تھا۔ یہ فر نچ، ڈچ اور پرتگیز کے لئے اہم تجارتی مر کز تھا۔ peter mundyنے 1632میں یہ لکھا کہ یہ مشرقی علاقہ کا سب سے بڑا تجارتی مر کز ہے۔ the greatest mart of the eastern region۔ دین محمد یہیں کے تاجر تھے 1784میں برطانیہ پہنچے اور برطانیہ میں پہلا ہندوستانی ریستوران کھولا۔ ہندوستانی کافی ہاؤس کے مالک یہی تھے۔

    بکسر کی لڑائی کے بعد1765میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط ہوا تو اس شہر کی عمارتوں کے انداز واسلوب بدل گئے۔ لیکن ایک خاص بات یہ رہی کہ برٹش حکومت میں محرم کی پندرہ دن کی چھٹیاں ہوتی تھیں جب کہ ہولی دیوالی کے لئے کوئی بھی چھٹی نہیں تھی مگر تہذیبی وثقافتی امتزاجیت اور اجتماعیت نے قومی یک جہتی اور اتحاد یگانگت کی بنیادوں کو مضبوط بنائے رکھا۔ پٹنہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بعد گو تھک طرز کی عمارتیں نظر آنے لگیں جن کی وجہ سے شہر کی کشش میں اضافہ ہوا۔ کولو نیل پٹنہ کی عمارتیں آج بھی زندہ ہیں جو lf munnings جیسے آر کی ٹیکٹ کے طرز تعمیر کی کہانی سناتی ہیں۔ پٹنہ کے کمشنر میٹکاف نے گولف کھیلنے کے لئے وسیع ترین لان تعمیر کر وایا تھا جو اب گاندھی میدان میں تبدیل ہو گیا ہے۔

    گنگا، سون، پن پن جیسی ندیوں سے گھرا ہوا دنیا کا سب سے بڑا riverine شہر پٹنہ اب دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک قدیم رنگ میں ڈوبا ہوا اور ایک جدید رنگ میں شرا بور اور ان دونوں کے مابین آثار قدیمہ اور کھنڈرات کی طویل تاریخ ہے جو پٹنہ کی عظمتوں کا ثبوت بھی ہیں اور تاریخ کا حصہ بھی۔

    پٹنہ کے طبعی وجود کو دیکھا جائے تو یہاں اشوکا کے زمانے کا اگم کنواں ہے اور اسی زمانے کا کمہر ر، جہاں قدیم پاٹلی پتر کے آثار موجود ہیں اور پھر شاہ جہاں کے بڑے بھائی اور جہانگیر کے بیٹے پر ویز کی بنا ئی ہوئی پتھر کی مسجد بھی ہے جو گنگا کے کنارے واقع ہے اور یہیں سکھوں کے دسویں گروگو بندسنگھ کی یادمیں بنایا ہوا تخت ہر مندر بھی ہے جو پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے تعمیر کر وایا تھا۔ یہیں گروجی کا جنم ہوا تھا اور یہ سکھوں کے چار مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔ انگریزوں کا بنایا ہوا گودام، گول گھر، بھی ہے، جو بیضوی شکل کا ہے 1770کے قحط سالی کے بعد 1786میں کپٹن john garstinنے تعمیر کرایا تھا۔ پٹنہ میوزیم بھی ہے جس کا سن تعمیر 1917ہے۔ اس میں تقریبا 57 00تاریخی اہمیت کی حامل اشیاء ہیں اور 22 000پرانے سکے ہیں۔ دیدار گنج میں واقع یکشنی کا مجسمہ زائرین کی توجہ کا مر کز ہے۔ ہائی کورٹ ہے اور ایشیا کا ایک بڑا planetariumہے۔ جس میں astronomyسے متعلق موضوعات پر فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ یہیں جالان میوزیم بھی ہے جس میں چین کی پیٹنگ (painting) کے علاوہ مغلیہ دور کی کچھ اہم نوادات بھی ہیں۔

    اس طرح مختلف عہد کی بنائی ہوئی بہت سی عمارتیں ہیں جس پر مختلف حکمرانوں کے اقتدار کی عبارتیں بھی درج ہیں۔ یہ سب چیزیں سیاحوں کی دلکشی کا مر کز ہو سکتی ہیں، مگر پٹنہ شہر در اصل ان عمارتوں سے الگ ان عبارتوں میں آباد ہے جو وہاں کے تخلیق کاروں، فنکاروں اور عظیم ترین ذہانتوں نے لکھی ہیں اور ان عبارتوں کا بین الاقوامی مر کز خدا بخش لائبریری بھی ہے جس میں قدیم زمانے کے مخطوطات اور نوادرات کے علاوہ عربی، فارسی کا ایک بڑا ذخیرہ محفوظ ہے۔ عمارتیں گردش زمانے کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی جائیں گی۔ مگر یہ عبارتیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ اس شہر کا داخلی حسن اس کی تخلیق میں ہی پنہاں ہے۔ ادب اور آرٹ میں ہی روشن ہے کہ افکار و اظہار کا جو حسن ہوتا ہے، وہی دائمی قدر کا حامل ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پٹنہ نے تخلیقی سطح پر اپنی آفاقی موجود گی کا احساس کرایا ہے اور ادب اور آرٹ کو نئے اسالیب عطا کیے ہیں۔ سو چا جائے تو یہی پٹنہ پر اگ بھی ہے اور پیرس بھی۔

    پٹنہ شہر کی ثقافتی تہذیبی تاریخ جن ناموں سے تشکیل پاتی ہے، وہ نام نہایت معتبر اور مستند ہیں اور ان ناموں سے وا بستہ کوائف بھی اتنے تابناک ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ پٹنہ جیسا شہر عہد قدیم سے عہد حاضر تک کس قدر بیدار اور حساس واقع ہوا ہے۔

    ابو المعانی عبدالقادر بیدل (1642-1721) کا تعلق بھی اسی پٹنہ سے ہے جن سے مرزااسداللہ خاں غالب جیسے شاعر حددرجہ متا ثر تھے اور جن کے نظام فکر پر بیدل کانہایت گہر ا اثر ہے۔ طاسم حیرت’ طور معرفت’ چہار عنصر تصنیفات کے علا وہ بیدل اپنی غــزلوں اور رباعیوں کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ بیدل کی دنیا بہت وسیع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا مزاردہلی میں متھر اروڈپرواقع ہے مگر نئی تحقیق کے مطابق ان کا مزار خواجہ رواش افغانستان میں ہے۔

    اسی شہر میں جہاں میر تقی میر کے رنگ میں شعر کہنے والے راسخ تھے وہیں فصیح الملک حضرت داغ دہلوی کے رنگ میں مبارک عظیم آبادی جیسے شعر گو بھی تھے۔

    ر اسخ میر کے رنگ میں شعر کہتے کہتے ثانی میر بھی کہلا ئے۔ غزلوں کے علاوہ حسن و عشق، نازو نیاز، جذب عشق، اعجاز عشق جیسی مثنویاں بھی لکھیں۔ میر کے فیض سخن کا پورا اثر راسخ کی شاعری میں موجود ہے۔ وہی سوز، وہی درد جومیر سے مخصوص ہے۔ غلام علی راسخ عظیم آبادی(1749-1823) نے میر کی کیفیت اور تحیر کی تابانی کے ساتھ شعر کہے مگر میر کا مقام ہی الگ تھا اور بات کا اسلوب بھی۔ راسخ کے یہ شعر ان کی فنی اور فکری رخشندگی کے ثبوت ہیں۔

    غفلت میں کٹی عمر نہ ہوشیار ہوئے ہم

    سوتے ہی رہے آہ نہ بیدار ہوئے ہم

    ٹپک پڑ تے ہیں آ نسو راسخ

    دل ہے کتنا گداز تیر ا

    شاد عظیم آبادی (1846-1927) نہ صرف غزل کے ممتاز شاعر تھے بلکہ ان کا شمار میر اور غالب کے ساتھ ہوتا ہے۔ اردو غزل کی تثلیث شاد عظیم آبادی سے ہی تکمیل کو پہنچی۔ حافظ شیرازی کے سو زو ساز سے متاثر شاد نے غزل کو نیا لہجہ اور آہنگ عطا کیا ہے۔ غزل کو ایک ایسی فضا دی ہے جس میں تحیر اور کیفیت کی ایک طلسماتی دنیا آباد ہے۔ غزل کی ایک ایسی لے کہ ابلتے ہوئے چشمہ کا گماں ہوتا ہے۔ اتنی روانی اور بر جستگی کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ باب سخن واہے اور خیالات کے قافلے قطار اندر قطار چلے آرہے ہیں۔ پرو فیسر لطف الرحمن نے لکھا ہے، ’’جرات کی رنگینی کو شاد نے درد کی وجدانی کیفیت، میر کے سوز و گداز، سودا کی آہنگی، آتش کے قلندرانہ خروش، مومن کی باطنی نغمگی اور غالب کے فلسفیانہ ذہن سے معتدل اور متوازن سطح پر ہم آہنگ ویک رنگ کرکے ایک ایسے اسلوب کی بنیاد رکھی جس میں سادگی صفائی، متانت، پاکیز گی معنوی اور انقلابی شعور کے پہلو بہ پہلو درد دو سوز آزر ومندی ملتی ہے۔‘‘ یہ اسلوب بجائے خود ایک دبستاں کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس نے ہم عصرشعر اء کو متا ثر کیا اور بعد کے شعراء کو بھی۔ اقبال نے شاد کو کلا سیکی عہد کا آخری سب سے بڑا غزل گو شاعر کہا تھا،

    شاد کے یہ شعر زبان زد خاص و عام ہیں،

    یہ بزم مے ہے یاں کو تاہ دستی میں ہے محرومی

    جو بڑھ کے خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

    سنی حکایت ہستی تو درمیان سے سنی

    نہ ابتد ا کی خبر ہے نہ ا نتہا معلوم

    ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

    تعبیر ہے جس کی حسرت وغم اے نفسو وہ خواب ہیں ہم

    شاد ایک بلند تخیل کے حامل فنکار تھے جنھوں نے تمام شعری ا صناف میں طبع آز مائی کی اور غزل کے ا فق کو تابانی اور توانائی عطاکی۔ لسانی ندرت اور فکری جدت کے علاوہ غزل کو نئے علائم، رموزو اشارات عطا کیے۔

    شاد عظیم آبادی نے صور ت الخیال جیسا ناول لکھا جسے بعض ناقدین اردو کا پہلا ناول قرار دیتے ہیں مگر یہاں بھی تعصب کی تلوار نے ایک جینوئن تخلیق کی اولیت کو تہہ تیغ کیا۔

    اسی سر زمین سے شوق نیموی (1860-1904) کا بھی تعلق ہے۔ ظہیر احسن شوق نیموی محدث تھے مگر طبیعت موزوں تھی۔ حسرت عظیم آبادی اور تسنیم لکھنوی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔ نغمہ زار، سوزو گداز، صبح وصل اور شام فراق ان کی مثنویاں ہیں۔ ان کی شاعری میں تصوف کی سریت اور مزیت ہے،

    نیم جاں رکھتی ہے کیوں اپنی ادا سے پوچھو

    ہم تو تیر ہیں مرنے کو قضا سے پوچھو

    شکایت کیجئے کس کی بتائیں نام کس کا

    کریں فریاد کس سے جب اسی پر فیصلہ ٹھہرے

    مبارک عظیم آبادی (1869-1959) نے بھی اپنی شاعری کو اسی ’’شوخی‘‘ سے سر شار رکھا ہے جو داغ کا وصف خاص ہے۔ بقول پروفیسرلطف الر حمن ’’مبارک عظیم آبادی نے شاد کے تصوف اور داغ کی شوخی و رندی کو ملا کر ایک نئے اسلوب سخن کی تشکیل کی۔ مبارک کے یہاں شاد کی وجدانی کیفیت اور معنوی شدت نمایاں ہے۔‘‘ ان کے اشعار داغ اور شاد کی شعری کیفیتوں سے مملوہیں،

    فصل خزاں میں بھی جو پئے جارہاہوں میں

    موسم کو خوش گو ا ر کیے جارہا ہوں میں

    خدا جانے کہاں سے کھینچ کے میخانے میں آتی ہے

    خبر اتنی تو ہے شیشے سے پیمانے میں آتی ہے

    اسی سر زمین سے مرزا واجد حسین یا س یگانہ چنگیزی (1884-1956) جیسے غالب شکن نے جنم لیا۔ غزل کے ایک ممتاز شاعر جسے معرکوں نے معتوب کیا مگر یگانہ کی اہمیت آج بھی بر قرار ہے۔ لاکھ مخالفتوں اور مسلسل معرکہ آرائیوں کے باوجود تخلیقی منظر نامہ سے معدوم نہیں ہوئے جو ان کے تخلیقی تاب وتوانائی کا ثبوت ہے۔ وہ اپنے منفرد فکر فلسفہ اور تخلیقی فرہنگ کی وجہ سے زندہ وتابندہ ہیں۔ نشتر یاس اور آیات وجدانی، ان کے شعری مجموعے ہیں۔ پاکستان کے ممتاز ادیب اور محقق مشفق خواجہ نے یگانہ کی کلیات بھی مرتب کر دی ہے۔ یگانہ کے اشعار میں انقلابی آہنگ ہے۔

    میں قفس میں بھی کسی روز نہ خاموش رہا

    کشمکش میں بھی طبیعت کا وہی ہوش رہا

    مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا

    مجھے سرمار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا

    ان اشعار سے یاس یگاننہ چنگیزی کا پر سونا (persona) بھی سامنے آتا ہے۔ یگانہ اپنی تخلیقی کا ئنات میں منفرد اور یکتا تھے، انہیں جس شعری رہ گزر کی تلاش تھی، وہ انھیں مل بھی گئی۔ غالب جیسے عظمت کے نشان راہ کو مسترد کر دیا اور ان کے تخلیقی سنگ میل سے اپنی تخلیقی راہ کا تعین نہیں کیا۔ نہ کسی خضر کی پیروی کی، بس اپنی راہ رہے، اپنے آپ میں مگن اپنی دھن میں مست۔

    زار عظیم آبادی(1896-1963) نے کلا سیکی رنگ میں اپنے تخلیقی وجدان وعرفان سے شعری کائنات کو روشنی عطا کی۔

    کس کی تلاش میں ہوں مجھے خود خبر نہیں

    رہ روہوں اور واقف راز سفر نہیں

    نادیدہ کتنے جلوے ابھی ہیں خبر نہیں

    تسکین ذوق حاصل فکر و نظر نہیں

    زار عظیم آبادی کا مجموعہ ’نشاط غم‘ کے عنوان سے پروفیسر اعجاز ارشد نے مرتب کیا ہے۔

    عظیم آبادی وہ سر زمین ہے جس نے آزادی کے متوالوں کو انقلابی آہنگ ہی نہیں بلکہ ایک ایسا شعر بھی دیا جو تحریک آزادی کا سر نامہ بنا۔ ہر مجاہد آزادی کی زبان پر یہی ایک شعر تھا جو ان کے جذبہ وجوش کو جوان کر رہا تھا۔ تحریک آزادی پر لکھی ہوئی ہر تحریر اور ہر فلم میں یہ ایک شعر اپنے تمام انقلابی جذبے کے ساتھ نظر آتا ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں بغاوت کی چنگاری بھڑ کا دیتا ہے۔ وہ زبان زدخاص وعام شعر،

    سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

    دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

    سید شاہ محمد بسمل عرف شاہ چھبو(1900-1977) شاگر دشاد عظیم آبادی کا ہے۔ یہ شعر رام پر شاد بسمل کی طرف منسوب ہوا اور بہت سے مجہول شعرابھی اس شعر کے خالق بنے مگر اب مطلع صاف ہو چکا ہے، اس غزل میں جو انقلابی اشعار ہیں، وہ آج بھی ذہنوں کو مہمیز کرتے ہیں۔

    رہ رو ر اہ محبت رہ نہ جانا راہ میں

    لذت صحرا نوردی دوری منزل میں ہے

    وقت آنے دے دکھادیں گے تجھے اے آسمان

    ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

    پاکستان میں مدفون مسلم عظیم آبادی بھی پٹنہ کے معروف شاعر اور صادق پور کے اس خانوادے کے چشم و چراغ تھے جس نے وہابی تحریک میں سر گرمی سے حصہ لیا۔ ’شاد کی کہانی شاد کی زبانی‘ کے مصنف مسلم عظیم آبادی نظم کے اچھے شاعر تھے اور مقتدر مجلات میں ان کا کلام شائع ہوتا تھا۔

    ثاقب عظیم آبادی بھی ’’عظیم آباد کی گزشتہ ادبی محفلیں‘‘ کے حوالے سے معروف ہیں۔ باقر عظیم آبادی کے شاگرد اور پرویز شاہدی اور رمز عظیم آبادی جیسے ممتاز شاعروں کے استاد جو اس طرح کے شعر کہتے تھے،

    برباد ہوکے دوش صبا پر رہے گی خاک

    مٹتا نہیں ہے نام کسی خاکسار کا

    دانہ ملا جو خاد میں نشو و نما ہوئی

    پستی پسند تھی تو بلندی ہوئی نصیب

    ان کی مکمل شاعری اسی فکرو فلسفہ کی آئینہ دار ہے۔

    پٹنہ کے پرداختہ علامہ جمیل مظہری (1904-1980) کے تخلیقی تجربے میں انفرادی رنگ نمایاں ہے۔ ان کے یہاں الفاظ کی معنیاتی تقلیب یا کثیر معنیاتی سطحوں کا عمل روشن ہے۔ عمومی الفاظ بھی ایک نئے جہان معنی کی نوید سناتے ہیں۔ الفاظ کی معنیاتی تعبیرات کے تنوع نے ان کے ڈکشن کو تجدد سے متصف کیا ہے۔ جمیل مظہری اپنے نظریہ تشکیک کے حوالے سے بھی مشہور ہیں مگر ان کے یہاں جو تشکیک کا عنصر ہے اس سے ان کے تدبر و تفکر کی قوت ظاہر ہوتی ہے۔ حقیقت تک رسائی تشکیک کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ صاحب نظر ہی اس معرکہ کو سر پاتے ہیں۔ جمیل مظہری نے تشکیک سے ہی تخلیق کے رمز کو جانا ہے،

    یہ اک سوال ہے میرا بلندیوں سے جمیل

    کہ یہ زمیں نہ ہوتی تو آسماں ہوتا

    ساری یہ جلوہ گری ترے حجابات سے ہے

    بے حجابی میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں

    مثنوی آب و سراب سے ان کے منطقی اور ریاضیاتی شعور کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے اور اس نظام فکر سے بھی آگہی ہوتی ہے جہاں حقیقتیں ہر وقت اپنی ہیئت بدلتی رہتی ہیں اوراس حقیقی ہیئت کی شناخت ہی انسانی ذہن کے جستجو کی آخری منزل ہوتی ہے۔

    عطا کاکوی (1905-1998) بھی سلسلہ شاد سے متعلق ہیں۔ شاعر، ناقداور محقق۔ تذکرہ ہندی اور سفینہ خوشگو کے مدون۔

    پٹنہ کے شعری افق کا ایک سورج پرویز شاہدی(1910-1964) بھی ہے جو کہ کلکتہ کی فضاؤں میں چمکا اور اپنی تخلیق کی روشنی سے وہاں کی فضا کو ہی منور نہیں کیا بلکہ اردو کائنات کی مجموعی فضا کو روشن کیا۔ اپنی تخلیقی فکر اور فرہنگ کے اعتبار سے نہایت معتبر شاعر جنہوں نے ترقی پسند تحریک سے وابستگی اختیار کی اور اسی نظرئیے پر مبنی نظمیں اور غزلیں لکھتے رہے۔ ترقی پسند شعریات کو توانائی اور تازگی عطا کرنے والوں میں پرویز شاہدی بھی شامل ہیں۔ ان کی نظم ’تثلیث حیات‘ شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کی شاعری رومانیت اور انقلاب کا حسن امتزاج ہے،

    میں نے دیکھا ہے ترے حسن خود آگاہ کا رعب

    اجنبی نظروں کو چہرے پر بکھرنے نہ دیا

    کتنی خوش ذوق ہے تیری نگہ بادہ فروش

    خالی رہنے نہ دیا جام کو بھرنے نہ دیا

    حسن نعیم غزل کی اہم ترین آواز تھے، جنہوں نے غزل کے افق کو نئی تابانی اور جلوہ سامانی عطا کی ہے۔ اپنے منفرد لہجے سے قارئین کو حیرت سے ہمکنار اور غزل کو گلنار کیا ہے۔ انفرادی آہنگ سے اپنا تشخص قائم کرنے والے حسن نعیم کے یہاں تخلیقی تجربے کی بے کرانی ہے۔ انہوں نے غزل کی کلاسیکی لفظیات کا پاس بھی رکھا ہے اور نئی لفظیات سے روئے غزل کو نکھارا بھی۔ ان کے تجربوں کی دنیا دانش و آگہی، سے عبارت تھی،

    سرائے دل میں جگہ دے تو کاٹ لوں اک شب

    نہیں یہ شرط کہ مجھ کو شریک خواب بنا

    بام خورشیدسے اترے کہ نہ اترے کوئی صبح

    خیمہ شب میں بہت دیر سے کہرام تو ہے

    عظیم آباد کے اس شاعر نے صعوبتیں جھیلیں مگر تخلیقی انا کو کبھی مجروح نہیں ہونے دیا۔ ہمیشہ کلاہ کج رہی اسی بانکپن کے ساتھ جو ان کی تخلیق کا طرہ امتیاز ہے،

    کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب تھے

    ہر زمانے میں شہادت کے یہی اسباب تھے

    خوابوں کی تقدیس کا یہ شاعر ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھا اور حق و حریت کا علمبردار بھی،

    اپنی صفوں میں علم ہے جرات ہے وقت ہے

    ایسا نہیں کہ سچ کا مقدر شکست ہے

    پٹنہ کے شاعر کلیم عاجز کا تخلیقی آہنگ بھی الگ ہے۔ ان کی آواز جہان دیگر سے آتی محسوس ہوتی ہے۔ وہ شاعری سے زیادہ ایک کیفیت محسوس ہوتی ہے جو رگوں میں لہو بن کر دوڑنے لگتی ہے اور دھیرے دھیرے پورے وجود کو بقعہ نور بنادیتی ہے۔ ان کی تخلیق میں عجب طلسماتی تاثیر ہے کہ شاعری پڑھتے ہی جسم و جاں، ذہن و دل کی تقلیب ہونے لگتی ہے۔ کلیم الدین احمد نے ان کی شاعری کے اس وصف خاص کی طرف یوں اشارہ کیا ہے، ’’ان کے شعروں میں پھول بھی ہیں اور پتھر بھی۔ پھول پتھر بن جاتے ہیں اور پتھر پھول بن جاتے ہیں۔‘‘

    کلیم عاجز کا ایک شعر جو سیاسی رمزیت سے بھر پور ہے، زبان زد خاص و عام ہے،

    خنجر پہ کوئی داغ نہ دامن پہ کوئی چھینٹ

    تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

    ’’وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘‘ ان کا حزن نامہ ہے مگر اس غم کو انھوں نے غم دوراں میں بدل دیا ہے۔ ان کی تخلیق آئینہ ہے، عہد کے انتشار واضطراب کا، ان خون آشام ساعتوں کا جن میں زندگی کے کتنے چراغ بجھ گئے، کتنی آنکھیں بے نور ہوئیں۔ کتنے دل حیف صد حیف ہوگئے مگر بہت سی آنکھوں میں مسرتوں کے دئیے بھی جلتے رہے،

    تم تو مصروف چراغاں تھے تمہیں کیا معلوم

    اس دوالی میں دئیے بجھ گئے کتنے گھر کے

    اب تو ہر سمت اندھیرا ہی نظر آتا ہے

    اب پھیلی ہے ترے زلف سیہ فام کی بات

    اپنا تو کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ

    راستے میں خواہ دوست یا دشمن کا گھرملے

    اب انسانوں کی بستی کا یہ عالم ہے کہ مت پوچھو

    اب لگے ہے آگ اک گھر میں تو ہمسایہ ہوا دے ہے

    سلطان اختر بھی اپنے منفرد لہجے اور حیرت ز اآہنگ کے شاعر ہیں۔ جدت بیان اور لطف زبان کے اعتبار سے ان کی شاعری بھیڑ میں بھی الگ سے پہچانی جا سکتی ہے۔ یہ ایک ایسی تخلیقی آواز ہے جو خود اپنے علا حد ہ وجود کا احساس دلا دیتی ہے۔ ان کی تخلیقی حسیت ان اشعار سے بھی متر شح ہے،

    لپٹی ہوئی ہے پاؤں سے زنجیر مصلحت

    بے د ست وپاہیں لوگ سزا کے بغیر بھی

    میری بے چینی سے قائم تھا میرے گھر کا سکون

    مطمئن ہوں میں تو سارا گھر پریشانی میں ہے

    یہ بالکل مختلف کیفیت کی شاعری ہے جس میں تحیر بھی ہے، تابندگی بھی۔ انتساب، ان کا شعری مجموعہ ہے جس میں ان کی ندرت فکر وفن کی مشعل فروزاں ہے۔

    ارمان نجمی بھی اچھے شاعر اور پارکھ ہیں۔ ’’مردہ خوشیوں کی تلاش میں‘‘ جہاں ان کی تخلیقی قوت کا ثبوت ہے تو ’’بیاض شب و روز‘‘ ان کی تنقید ی بصیرت کا۔ نجمی نظم کے معتبر شاعر ہیں۔

    یہاں رضا نقوی واہی جیسے مزاح نگار شاعر کا ذکر بھی ضروری ہے۔ جنھوں نے شاید ہی کسی موضوع کو چھوڑا ہو۔ ان کے طنز میں گہری کاٹ ہوتی تھی۔ عصری مسائل اور موضوعات پر انھوں نے جو طنزیہ اور مزحیہ اشعار لکھے ہیں وہ یقینا ان کی تخلیقی قوت کے ساتھ ساتھ بے پناہ تجزیاتی صلاحیت کا ثبوت ہیں۔ ان کی ضرب کاری اورنشتر زنی ایسی ہوتی ہے کہ اللہ خیر کرے۔ تنقید ہو یا تحقیق یا تبصرہ ہر ایک پرو ہی لکھا جو انھوں نے محسوس کیا اور قافیہ بدل کر کہا جائے تو رضا نقوی واہی نے محققین ناقدین اور مبصر ین کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے ہیں۔ محققین کے بارے میں ان کا خیال کچھ یوں ہے۔

    ہیں بز عم خود محقق آپ ہندوستان کے

    آپ نے نقطے گنے ہیں میر کے دیوان کے

    زیر تحقیق آپ کے رہتے ہیں یہ سب مسئلے

    کس قدر چوہے پلے تھے گھر میں مومن خان کے

    پانچ بج کر پانچ یا پانچ بج کر سات پر

    داغ نے توڑا تھا دم زانو پر منی جان کے

    اسی طرح انھوں نے تنقید کی سیہ کاریوں اور ناقدوں کی عیاریوں سے یوں پردہ اٹھایا،

    نامہ خونخوار نے ایک حشر برپا کر دیا

    جو بھی زد میں آگیا اس کا صفا یا کر دیا

    جس سے بگڑ ے اس کی مٹی آپ نے کر دی پلید

    ہو گئے خوش جس سے دے دی اس کو شہرت کی کلید

    آپ نے زاغ سخن کو بلبل گلشن کہا

    آپ نے تک بند شاعر کو امام فن کہا

    اسی طرح انھوں نے تبصرہ نگار وں کی سہل انگاری کو اپنے طنز کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا،

    وہ جو ہوٹل میں چکھ رہے ہیں کباب

    سامنے رکھ کے اک د بیز کتاب

    آئیے میں بتاؤں کیا ہیں آپ

    ماہر فن تبصرہ ہیں آپ

    ایک گھنٹے میں دس کتابوں پر

    آپ لکھتے ہیں تبصرے فرفر

    ادب وفلسفہ وعلم کلام

    سار ے موضوع آپ کے ہیں غلام

    کرتے ہیں کب مطالعہ حضرت

    کیسے ملتی ہے اس قدر وفرصت

    ہنس کے بولے مطالعہ کیسا

    پڑھ کے لکھا تو تبصرہ کیسا

    پٹنہ کی تحقیق و تنقید کا باب بھی روشن ہے۔ قاضی عبدالودود جیسے محقق کا بھی سلسلہ عمل پٹنہ سے جڑا ہوا ہے۔ پٹنہ’ کیمبرج اور فرانس سے فیض یافتہ بارایٹ لا قاضی عبدالودود نے اردو تحقیق کے قوانین ور ضو ابط، اصول مرتب کیے۔ وکالت میں جرح وتعدیل کا جو عمل ہے اس کا اطلاق اردو تحقیق پر کیا۔ ان کے تحقیقی مضامین کی تعداد بے شمار ہے۔ بہت سے قدیم متون کی تر تیب وتدوین کے علاوہ غالب مصحفی پر بہت کچھ لکھا۔ ا۔ انھوں نے اردو تحقیق کو نہایت اعلی معیار عطا کیا۔ ان کا ذہن قانونی پیچیدگیوں، مضمرات اور کسی بھی مسئلے کے مثبت اور منفی پہلوؤں سے آگاہ تھا اسی لئے مقدمات کے نتائج کے استخراج میں وہ عجلت اور جلد بازی کے عادی نہیں تھے۔ مکمل تفکراور تدبر کے بعد ہی کسی منطقی نتیجہ پر پہنچتے تھے۔

    پرو فیسر مختار الدین احمد آرزو جیسے ممتاز محقق دانشوراور ماہر غالبیات کا تعلق بھی پٹنہ ہی سے ہے۔ مولانا ظفرالدین قادری کے صاحبزادے، علی گڑھ اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے فیض یافتہ پروفیسر آرزو مسلم یونیور سٹی علی گڑھ کے شعبہ عربی سے وابستہ رہے مگر اردو زبان وادب کے ایک محقق کی حیثیت سے ان کی امتیازی شناخت ہے۔ پرانے مخطوطات کی تدوین وترتیب کے علاوہ تذکروں کے مرتب کی حیثیت سے ان کی امتیازی شناخت ہے۔ کربل کتھا جیسی کتاب کو ایڈٹ کرکے شائع کیا۔ تذکرہ گلشن ہند اور دیوان حضور عظیم آبادی کے علاوہ احوال غالب ان کی مشہور کتاب ہے۔ ان کے تحقیقی مضامین، عالم عرب میں نہایت قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ماہر غالبات کی حیثیت سے ان کی شناخت مسلم اور غیر متنازعہ ہے۔

    پٹنہ ہی سے پروفیسر کلم الدین احمد کا رشتہ ہے جن کے ایک فقرے کو جتنی شہرت نصیب ہوئی، اتنی شہرت تو بہت سے لکھنے والوں کو بے شمار کتابیں لکھنے کے بعد بھی نہیں ملتی۔ اس ایک فقرے کے بار کو اردو والے اب تک اٹھا نہیں پا رہے ہیں۔ اسی فقرے کے تلے دبے ہوئے ابھی تک کراہ رہے ہیں۔ انگریزی کے استاد اور پٹنہ یونیور سٹی کے شعبہ انگریزی سے وابستہ، لندن کے تعلیم یافتہ کلیم الدین احمد نے اردو تنقید کی راہ دروش ہی بدل دی۔ تنقید کے روایتی آہنگ اور فر ہنگ کو تبدیل کرنے کے لئے جس وسعت اور جرأت کی ضرورت ہوتی ہے اس سے کلیم الدین بہرہ ور تھے۔ ان کا ذہن تحدیدا ت یار وایات میں اسیر نہیں تھا۔ ادب کی حرکیات پہ ان کی گہری نظر تھی اور نئے رجحانات سے بھی آگہی تھی۔ انہوں نے تنقید کو جراحی میں بدل دیا۔ مغرب کے ثقافتی مطالعات نے ان کے ذہن کو جو کشادگی عطا کی، اس کی موجودگی میں اردو اصناف کی کچھ روایتیں انہیں سطحی نظر آئیں۔ کلیم الدین احمد نے بہت سے تخلیق کاروں اور تنقید نگاروں کے قد و قامت کی کچھ اس طرح سے پیمائش کی کہ لوگوں کی جبینیں شکن آلود ہو گئیں۔ حالی کو سطحی ذہن کا حامل کہا، انیس کے مرثیہ کو مسترد کیا۔ اقبال کو رد کیا، اردو تنقید کو معشوق کی موہوم کمر قرار دیا۔ اردو غزل کو نیم وحشی صنف سخن کہا۔ کلیم الدین احمد نے تمام بڑے بتوں کو توڑا اس لئے ایک خاص گروہ ان سے مزاحم ہوا۔ ان کی مخالفت کی مگر کلیم الدین کی صلابت کے سامنے موم کے سپاہی پگھلتے چلے گئے۔ کلیم الدین احمد کو جس قدر بے نام ونشان کرنے کی کوشش کی گئی، تنقیدی افق پر ان کا نام اتنا ہی روشن ہوتا گیا۔ اردو شاعری پر ایک نظر، اردو تنقید پر ایک نظر، اردو زبان اور فن داستان گوئی۔۔ کلیم الدین کے وہ روشن مینار ہیں جن سے تنقیدی نظریہ سازوں کی آنکھوں میں چبھن ہونے لگتی ہے۔ کلیم الدین احمد نے اردو کے گداگروں کی کبھی پرواہ نہیں کی اور چھوٹے چھوٹے ہتھیاروں سے لیس اردو ادیبوں اور نقادوں کو کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا کہ ان کی دلیلوں کے سامنے یہ ہتھیار نہایت فر سودہ، زنگ آلود اور کند تھے۔

    عبدالمغنی جیسا بالغ نظر نقاد بھی اسی سر زمین پر اقامت پذیر رہا۔ پٹنہ کے مدرسہ شمس الہدی کے فارغ التحصیل، انگریزی کے پرو فیسر عبدالمغنی اقبالیات کے ماہر اورٹی ایس ایلیٹ پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ اقبالیات میں ان کا کام گراں قدر اہمیت کا حامل ہے۔ اقبال اور عالمی ادب، اقبال کا نظریہ خودی، اقبال کا ذہنی وفنی ارتقا اس کے علاوہ قرۃ العین حیدرکا فن اور برنا ڈشاجیشی کتابیں لکھیں۔ رسالہ مریخ پٹنہ کے مدیر اور انجمن ترقی اردو بہار کے صدر، متھلا یونیورسٹی در بھنگہ کے سابق وائس چانسلر اپنے سیاسی سماجی ادبی اور تنقیدی مضامین کی وجہ سے ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی رائے سے اختلاف ممکن ہے مگر ان کے تہذیبی شعور، ادبی بصیرت سے انکار ممکن نہیں۔ مغربی ادبیات کا گہرا مطالعہ کیا مگر مشرقی دانش وعرفان کی عظمت کے امین رہے۔

    تاریخ مگدھ اور تذکرہ نسوان ہند جیسی حوالے جاتی کتابوں کے مصنف فصیح الدین بلخی بھی پٹنہ سٹی کے تھے جنھوں نے پوری زندگی نئے نئے موضوعات کی جستجو اور تحقیقی عمل میں گزاردی۔ تاریخی مطالعات سے گہری دلچسپی نے ان سے ایسے مضامین تحریرکروائے جن سے ادب اور تاریخ کی ایک نئی تعبیر سامنے آ ئی اور ایک ایسا بیش قیمت سرمایہ وجود میں آیا جس سے ادبا اور مورخین دونوں ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انھوں نے نہایت علمی اور تحقیقی مضامین لکھے۔ ہندو شعرائے بہار بھی ان کی ایک اہم کتاب ہے۔ بلخی کا نام ادب میں نئے موضوعات کی جستجو کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔

    قیوم خضرشاعراور صحافی جنہوں نے اپنے قلم کی جولانی سے جہان فکر کو نئی بشارتیں دیں۔ تنویرات اور ار تعاش قلم جیسے مضامین کے مجموعے ان کی وسعت علمی اور عمق نظر کے گواہ ہیں۔ صادق پور قربان گاہ آزادی وطن ’اردو اوراقومی ایکتا جیسے مضامین مستقبل میں بھی تابندہ رہیں گے کہ ان میں عرفان وآگہی کی لہریں ہیں۔ جو کبھی حباب نہیں ہو سکتیں۔

    پٹنہ کے معروف ادیبوں ناقدوں میں اعجاز علی ارشد بھی ہیں، جن کی دلچسپیوں کا میدان محدود نہیں ہے۔ انتہائی فعال او رمتحرک ہیں۔ بہار میں اردو تنقید، کرشن چندر کی ناول نگاری، نذیر احمد کی ناول نگاری جیسی کتابوں کے مصنف کی بنیاد ی شہرت ناقد کی حیثیت سے ہے مگر ’دعوت و عداوت‘ کے ذریعہ بطور انشائیہ نگار بھی انھوں نے اپنی شناخت مستحکم کر لی ہے۔ ان کی تنقیدی نگارشات ادبی حلقوں میں اعتبار کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔

    پٹنہ کا افسانوی منظر نامہ بھی نہایت تابناک ہے۔ یہاں بلند قامت افسانہ نگاروں کی ایک کہکشاں آباد ہے جن کے افسانوں سے تخلیقی افق کو جلا ملی اور افسانے کے آسمان کو وقعت بھی میسر آئی۔ اسی سر زمین سے سہیل عظیم آبادی بھی ہیں جن کے ناولٹ بے جڑ کے پودے کو بے پناہ شہرت ملی اور ان کے افسانے آج بھی زندہ ہیں۔ یہاں کے ا فسانہ نگاروں میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ پر وفیسرجابر حسین ’مشتاق احمد نوری، خورشید حیات، ابوالکلام عزیز ی کے نام شامل ہیں۔ ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ یافتہ عبدالصمد اپنے ناول دو گز زمین کی وجہ سے فکشن کے منظر نامہ پر ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ خوابوں کا سویرا، مہا ساگر، دھمک جیسے ناولوں سے اردو فکشن میں ایک نئے سیاسی اور سماجی منطقہ کو متعارف کرایا۔ سیاسیات کے عرفان وآگہی نے فکشن کے لئے ان کو نئی زمینیں عطا کیں اور نئے تصورات دئیے۔ ان کی اساس پر انھوں نے جو افسانے لکھے، وہ موضوعی اور اسلوبی اعتبار سے معاصر فکشن نگاروں سے مختلف ہوتے چلے گئے۔ ہندوستانی سیاست سے جڑے ہوئے فرقہ واریت، فساد بد عنوانی جیسے مسائل کو انھوں نے اپنی تخلیق کا محور بنایا اور افسانوی تکنیک اور اسلوب سے اس میں نئے رنگ بھرے۔ سماجی اور سیاسی طرز کے افسانوں میں بھی وہ درد وکرب نمایاں ہے۔‘ جو ایک تخلیق کار کے سینہ میں موجزن رہتا ہے۔ ان کے افسانوں میں ایسے کردار ملتے ہیں جن سے پورے سماج اور عہد کا نظام اپنی مکمل صورت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور تمام جہتیں منکشف ہو جاتی ہیں۔

    23گھنٹے کا شہر، سے شناخت قائم کرنے والے افسانہ نگار احمد یوسف نے ترقی پسند فکر کو اپنی تخلیقی فکر کا سر نامہ بنایا او راستحصالی سماج کے خلاف لکھا۔ اپنے افسانوں میں اس کرب کو پیش کیا جو مزدوروں اور غریبوں کا مقدر ہے۔ ان کے افسانوں میں احتجاج بھی ہے اور وہ آگ بھی جو خرمن باطل کو جلا کر خاکستر کر سکتی ہے۔ ان کے مسائل اور موضوعات وہی ہیں جوآج کے صارفی اور استحصالی سماج کا حصہ ہیں۔ روشنائی کی کشتیاں، آگ کے ہمسائے، ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ ان کے افسانے ان کے منفرد طرز فکر اور اظہار کے گواہ ہیں۔

    شموئل احمد کے افسانوں میں جنسیاتی لمس کی وجہ سے لذت بھی ہے اور وہ کیفیت نشاط بھی جس کی جستجو ہر قاری کو ہوتی ہے۔ جنسی احساسات کے اظہار میں ان کے یہاں بولڈ نیس اور بے باکی ہے۔ بدن کا طوائف کرتی یا جنس اور جسم کے ارد گرد گھومتی ان کی کہانیاں کسی نہ کسی نئی معاشرتی سماجی اور سیاسی حسیت کو واشگاف کرتی ہیں۔ وہ ہر اس جذبے کو اظہار کے پیکر میں ڈھالتے ہیں جس کا انسانی وجود سے رشتہ ہوتا ہے۔ بگولے ان کی ایک ایسی کہانی ہے جس میں لتیکارانی نام کی ایک عورت ہے جس کی دلچسپی نوجوان لڑکوں میں ہے۔ یہ کہانی تخلیقی سطح پر ایک مختلف تجربے کو پیش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ برف میں آگ، سنگھار دان بالکل الگ نوعیت کی کہانیاں ہیں جن میں جنسیاتی تلذذ کے عناصر ہیں مگر شموئل کی نگاہ صرف جنسیات تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اقتصاد یات، عمر ا نیات، سماجیات، سیاسیات اور فلکیات پر بھی محیط ہے۔ بالخصوص علم نجوم سے ہم آمیز کرکے انھوں نے اردو فکشن کو ایک نیا موضوعی دائرہ عطا کیا ہے اور ایک نئے سیاق وسباق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں صرف جنسی لذت ہی نہیں بلکہ گہرا طنز اور نشتریت بھی ہے،۔ ناول ندی اور مہا ماری، میں جنسی عوامل ومحرکات موجزن ہیں۔ وہ بیشتر مسائل اور موضوعات کو جنسی زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ مگر ان کا ار تکاز ا صرف جنسی استحصال تک نہیں رہتا بلکہ استحصال کی دوسری شکلوں کی شناخت کرتا ہے۔ اردو فکشن کے محبوس دائرے کو مبسوط بنانے کی یہ کوشش جہاں کامیاب ہے وہیں الگ ہو کر سوچنے اور لکھنے کی روش شموئل احمد کی تخلیق کی زندگی کی ضمانت کے لئے کافی ہے۔

    شوکت حیات 1970کے بعد کی نسل کے ممتاز افسانہ نگار ہیں جن کے یہاں ایک احتجاجی لے اور مزحمتی روش ہے۔ ایک انحرافی فکر اور اسلوب کے حامل شوکت حیات کا افسانہ ’بانگ‘ ان کی انفرادی فنی شناخت کا ثبوت ہے۔ کو بڑ، گنبدے کے کبوتر، بلی کا بچہ جیسے انسانے لکھنے والے شوکت حیات نے انام افسانے لکھ کر فکشن کے انبوہ میں اپنی انفرادیت کا نقش مرتسم کر دیا ہے۔

    شفیع مشہدی بھی ایک اہم افسانوی دستخط ہیں۔ شاعری، افسانہ نگاری اور ڈرامہ نگاری تینوں سے تعلق ہے مگر افسانہ نگار کی حیثیت سے معاصر فکشن میں امتیاز و اعتبار رکھتے ہیں۔ شاخ لہو اور سبز پرندوں کا سفر ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ ان کے یہاں تجربہ اور مشاہدہ بھی ہے اور وہ تخلیقی بصیرت بھی جس کی وجہ سے ان کے افسانوں میں زندگی کی لہریں موجزن نظر آتی ہیں۔

    افسانوی منظرنامہ پر ایک اہم نام محسن عظیم آبادی کا بھی ہے جن کی انوکھی مسکراہٹ کا جواب نہیں۔ انہوں نے بہت سے نفسیاتی افسانے لکھے ہیں اور انسانی سائیکی کے اسرار و رموز سے آگاہ کیا ہے۔ نفسیاتی زاوئے اور سعادت حسن منٹو کی تخلیقات کا نفسیاتی تجزیہ اس طور پر پیش کیا ہے کہ اس سے تنقید کی ایک نئی جہت سامنے آئی ہے۔ ایک تخلیق کار کے لاشعوری اور تحت شعوری نفسیات کے حوالے سے ایک نئے منطقے کی جستجو ہے۔ ادبی تخلیق کی نفسیاتی تعبیر و تحلیل کے علاوہ شاعری سے بھی رشتہ مضبوط ہے جس کی تفسیر زخم دل ہے۔

    شب خون میں شریف زادے سے شناخت مستحکم کرنے والے حبیب حق بنیادی طور پر سائنسی ذہن و فکر کے حامل ہیں۔ بائیوکیمسٹری کے استاد مگر مشرقی ادبیات ہی نہیں یونانی ادبیات سے بھی آگاہ ہیں اور اسی آگہی نے ان کے وژن کو وسعت اور اظہار کو تنوع عطا کیا ہے۔

    ذکیہ مشہدی خواتین افسانہ نگاروں میں نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔ صدائے بازگشت اور تاریک راہوں کے سفر ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ سلیس اور صاف ستھری زبان میں نفسیاتی گتھیوں کو سلجھانے والی کہانیاں لکھتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں آگہی و عرفان کی روشنی ہے اور حیات و کائنات کو مختلف مگر مربوط زاوئے سے دیکھنے کی کوشش بھی۔

    کن فیکون، مسدودراہوں کے مسافر سے فکشن میں اپنا لاعتبار قائم کرنے والے رضوان احمد بنیادی طور پر صحافی تھے مگر ان کی تخلیق میں وہ تمام رموزوا شارات اور تر کیبی عناصر ہیں جوان کی تخلیق کو افسانوی حدود سے باہر نہیں ہونے دیتے۔ ان کی کہانیاں پر اثر اورمقصدیت سے لبریز ہوتی ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں زیادہ پیچیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ عوامی ذہن وذوق کا خیال رکھتے ہوئے اپنی تخلیق کی سطح کو بھی بر قرار رکھتے ہیں۔ اس طرح ان کے افسانے ترسیل کے المیہ سے دو چار نہیں ہوتے۔

    جدیدشعری منظر نامے پر بہت سے نام اہم ہیں جن میں یہ چند نام ایسے ہیں جو اب تنقید ی حوالوں کا حصہ بن گئے ہیں۔

    شمیم قاسمی ’گمشدہ موسم‘ کی تلاش میں نکلے تو تخلیقی تحیرات کے در کھولتے گئے۔ انھوں نے شعری فرہنگ کی تشکیل جدید کی ہے۔ لسانی اور فکری شکست و ریخت سے گزرنے کا یہ عمل اور جذبہ ہی انھیں منفرد بناتا ہے۔ شمیم نہ صدیوں کی ویرانی میں رہنے کے قائل ہیں اور نہ ہی کہنہ اور کائی زدہ چھتوں کے نیچے گزار ا کرنا ممکن ہے۔ لفظیاتی ملاعبت نے ان کی تخلیق کو نیا طور و طرز عطا کیا ہے۔

    شکیب ایاز بھی اچھے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں کلاسیکت کا رنگ نمایاں اور شاد کا عکس عیاں ہے۔

    شمیم فاروقی بھی عمدہ اور تازہ کار شاعر ہیں۔ ’’ذائقہ میرے لہو کا‘‘ سے ان کی تخلیقی حدت روشن ہے،

    برف کی اجلی چٹانوں سے پگھلتا ہوا درد

    ایک خاموش سمندر کو جگادیتا ہے

    آنکھ سے بارش تھمی تو کھل گئی راہ سفر

    جانے کب سے قافلہ یادوں کا تھا ٹھہرا ہوا

    مظفر حسین بھی اپنی شاعری کے علاوہ فنون لطیفہ اور جمالیات اور نکات ادب کے حوالے سے قابل ذکر ہیں۔ جمالیات کے متعلقات، رویے اور جحانات سے آگہی نے ان کے تخلیقی اور جمالیاتی احساسات کو نئی روشنی عطا کی ہے۔

    ’نغمہ سنگ‘ اور ’شاخ زیتون‘ کے تخلیقی شناخت نامہ کے ساتھ رمز عظیم آبادی تخلیقی منظرنامہ کا ایک اہم نام ہے۔ ان کی تخلیق میں مزدوروں کا کرب بھی ہے اور انسانی درد مندی کا گہرا احساس بھی۔

    اسلم آزاد بھی پٹنہ کے علمی اور ادبی دائرے میں شامل ہیں۔ شاعر کی حیثیت سے بھی ناقد کی حیثیت سے بھی۔ اردو ناول آزادی کے بعد کی مشہور کتاب ہے۔ ان کے علاوہ ارشد کا کوی جیسے ناقد شاعر اور ممتازاحمد جیسے ناقد بھی ہیں۔ جنھوں نے مثنویات راسخ، اردو شعراء کا تنقیدی شعور، کلیم الدین کی شاعر ی پر ایک نظر جیسی کتابیں لکھیں۔ بدیع الزماں سحر بھی شاعر ہیں۔ عکس سحر ان کے شعری مجموعے ہیں۔ شان الرحمن کی غزلوں اور نظموں کا رنگ بھی جدا گانہ ہے۔

    جدید تازہ تر نسل کے شاعروں میں خورشید اکبر، عالم خورشید، عطا عابدی، خالد عبادی نمایاں نام ہیں۔ یہ چاروں ا پنی تازہ کاری اور تیور سے چونکاتے رہتے ہیں۔ اپنے تیشے سے نہر کھودنے کے عمل نے انھیں وقعت بھی عطا کی ہے۔ یہ لوگ ان رستوں سے رہ فرار اختیار کرتے ہیں جو عام ہو جائے۔ پانیوں میں رہ کر بھی اپنا رنگ جدا رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں جو تخلیقی شعلگی ہے۔ وہ اپنی باطنی حدت وحرارت کی وجہ سے ہے۔ اپنی راہ، اپنی منزل کی جستجو نے انھیں اپنے معاصر تخلیق کاروں میں جو امتیازات عطا کیے ہیں، ان پر گفتگو طوالت کی طلب گار ہوگی۔

    کناڈا میں مقیم پروین شیر بھی اسی زمین کی گل رعنا ہیں۔ جنھوں نے شاعری او رمصوری کے ذریعہ اپنے تخلیقی جذبات اور احسا سات کا اظہار کیا ہے۔ ان کی شاعری اور مصوری کے اندر جو احساس و اظہار کی جمالیات ہے۔ وہ ان کے مجموعے کرچیاں میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔

    پٹنہ کا تخلیقی منظر نامہ پروفیسروہاب اشرفی جیسے ممتاز ناقد کے ذکر کے بغیر نا مکمل رہے گا کہ انھوں نے معاصر ادب کی تاریخ میں جو کارنامے انجام دیے ہیں، وہ روزروشن کی طرح عیاں ہیں۔ تاریخ ادبیات عالم کے علاوہ تین ضخیم جلدوں میں تاریخ ادب کی تر تیب تمام تر تحفظات کے باوجود ایک ایسا قاموسی اور حوالہ جاتی کام ہے کہ اس کے بغیر ہم عصر ادب کے منظر نامے سے آگہی نہیں ملتی۔ اسی کتاب پر انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ عطا کیا گیا۔ یہ کتاب نہ ہوتی تو اس مضمون میں بہت سے تخلیق کاروں کی جستجو بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے