Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پریم چند

مجتبی حسین

پریم چند

مجتبی حسین

MORE BYمجتبی حسین

    ’’بڑوں کے پاس دولت ہوتی ہے۔ چھوٹوں کے پاس دل ہوتا۔ دولت سے عالیشان محل بنتے ہیں۔ عیاشیاں ہوتی ہیں۔ مقدمہ بازیاں کی جاتی ہیں۔ رعب جتایاجاتا ہے اور انسانوں کو کچلا جاتا ہے۔ دل سے ہمدردی ہوتی ہے۔ زخم پر مرحم رکھا جاتا ہے اور آنسو نکلتے ہیں۔ ‘‘ (زادِ راہ صفحہ ۲۱۹)

    یہ ہے پریم چند کی افسانہ نگاری کی روح جو ان کے کم و بیش تمام افسانوں اور ناولوں میں جاری اور ساری ہے۔ یہ ہے پریم چند کا مطمح نظر مع اپنے تمام معائب اور محاسن کے، یہ پریم چند کی شخصیت ہے۔ ان کاقول و فعل، ان کا احساس ان کا ادراک، ان کا سب کچھ ’’اور آنسو نکلتے ہیں ‘‘۔ یہ پریم چند کی آنکھیں ہیں جن میں سب کچھ موجود ہے۔ عالیشان محل، سربفلک عمارتیں، زرق برق لباس، سرسراتی ہوئی ساڑیاں، کتری ہوئی زلفیں، زر کار پگڑیاں، قیمتی صافے، توند اورتوند کے جملہ اجزائے ترکیبی۔ رعب و دبدبہ، کھوکھلی آوازیں۔ ’’صاحب! میم صاحب! جی حضور! جی سرکار! ‘‘ اور ٹھیک انہیں کے سامنے گرجتی ہوئی ملیں۔ ہونکتے ہوئے کارخانے۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں جانوروں کی طرح ہانپتے ہوئے، گھبرائے ہوئے مزدور، گندی نالیاں، مدقوق مریض، دبلی پتلی لڑاکا عورتیں، پھوس کے جھونپڑے، چھپروں میں چلم پتیے ہوئے کھانستے کسان، ہرے بھرے کھیت، لہلاتے ہوئے دھند اور کہر میں ڈھکے ہوئے گاؤں، گاؤں والوں کی شادی غمی، ان کے تہوار، عقید بقرعید، ہولی دیوالی، شراب خواری، جوا، تنگدستی، جہالت اور دھنپت رائے کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔ کبھی وہ مصلح بن کر ٹوکتا ہے جیسے ’’بیوہ‘‘ میں مگر اس سے اسے اطمینان نہیں ہوتا۔ وہ فوراً ہی سیاسی پلیٹ فارم پر آجاتا ہے جیسے میدانِ عمل میں۔ یہاں آکر بھی اسے تسلی نہیں ہوتی۔ وہ مذہب کی پناہ ڈھونڈتا ہے جیسے چوگانِ ہستی میں، یہاں بھی زمین ناہموار ہی رہتی ہے اور وہ پھر خالص افسانہ نگار بن کر نمودار ہوتاہے جیسے ’کفن‘ میں مگر وہ جس رنگ میں جس حال میں بھی ہوتا ہے، ایک چیز کااحساس ضرور دلادیتاہے۔ وہ ہے خلوص، نیک نیتی۔

    پریمؔ چند کے افسانے اور ناولوں میں بیک وقت کئی رنگ پائے جاتے ہیں اور کئی رجحانات اور متضاد اورمختلف واقعات اورنظریوں کو اکٹھا کرکے ایک بنادینے والا جذبہ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ان کے افسانوں میں کم ہیں اورناولوں میں زیادہ، تناقص اور فن کے اعتبار سے کمزوری نمایاں ہو جاتی ہے۔ پریمؔ چند کے افسانوں کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں موجودہ معیار سے ذراہٹنا پڑے گا۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ پریم چندؔ کے ساتھ کوئی رعایت مدنظر ہے اور ان کی کمزوریوں کو چھپانا ہے۔ ان کی فنی کمزوریاں ان کی شخصی بڑائی کی دلیل ہیں۔ یہ بات کچھ عجیب سی لگے گی مگر واقعہ یہ ہے کہ ہر قدم پر فن کو ملحوظ رکھنے والا ادیب بعض اوقات زندگی کی معصومیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ یہ بات میری مشرقیت نہیں کہلارہی ہے بلکہ وہی تجسس اور تجزیہ جو ہمیں مغربی نفسیات نے دیا ہے۔ بہرحال اس بحث کے چھیڑنے کی یہاں نہ گنجائش ہے نہ موقع۔

    پریم چند نے ۱۹۰۷ء سے کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ جیسا کہ ان کی ’’آپ بیتی‘‘ سے معلوم ہوتا ہے۔ جنگ عظیم ابھی نہیں شروع ہوتی تھی۔ مگر غدر کے قریبی اثرات ہندوستان کے ہرگوشہ میں موجود تھے۔ بحیثیت مجموعی ہندوستان، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ’’داخلی‘‘ زوال سے دوچارہوچکا تھا۔ لوگ شاعری بھولتے جارہے تھے اور نثر کی اہمیت روزبروز واضح ہوتی جارہی تھی۔ مغربی تمدن اور مشرقی رکھ رکھاؤ میں نہ صرف ٹکر ہوچکی تھی بلکہ موخرالذکر نے دبی زبان سے اپنی شکست کا اعتراف بھی کرلیا تھا۔ اس کا اظہار ادبی دنیا میں آزادؔ اورحالیؔ کی ان کوششوں سے ہوا جو انہوں نے نئی شاعری کا سنگ بنیاد رکھنے میں صرف کیں اور عملی دنیا میں سرسید کے ’’محمڈن کالج، علی گڑھ‘‘ سے۔ انحطاط کے ساتھ ہی اردو نے جلد از جلد احساسات اور خیالات کو نئی تحریکوں سے ہم آہنگ کرنا شروع کردیا۔ اردو کی ترقی پسندانہ ذہنیت کی یہ ایسی مثال ہے جو مشکل سے کسی اور ادب کی تاریخ میں ملے گی۔ پریم چند ان زندگی شناس ادیبوں میں سے تھے جنہوں نے پہلے ہی افسانوں کے مجموعہ کانام ’سوزِوطن‘ رکھا اور جس کے افسانے اس ذہنی بیداری اور بیزاری دونوں کو ظاہر کر رہے ہیں۔ جو ہر اچھے ادیب کو حیات سے قریب ترلاتی ہے۔ اسی سن میں ان کا پہلا ناول ’’ہم خرما وہم ثواب‘‘ بھی شائع ہوا اور اسی وقت سے وہ حکومت وقت کی نظروں میں معتوب بھی ہوگئے۔ جنگ عظیم کے بعد ان کی ذہنیت میں جو تبدیلی ہوئی وہ اہم تھی۔ اب وہ نہ صرف قلم لے کر چند تصویریں اتار دیتے تھے بلکہ عمل سے ان میں حقیقت کا رنگ بھی بھرتے جاتے تھے۔ سیاسی بیداری ہوچلی تھی۔ ترکِ موالات کی تحریک زووں پر تھی۔ اور انہوں نے ایک سچے ادیب کی طرح اس میں حصہ لیا۔ چنانچہ آگے چل کر اسی سیاسی ہلچل کی ایک اچھی جھلک ہمیں ’’میدانِ عمل‘‘ میں ملتی ہے۔

    پریمؔ چند کا زمانہ اخلاقی پستی کازمانہ تھا۔ جب کہ اخلاق اپنی قدیمی قدروں Values کے ساتھ لوگوں کی نظروں میں سمایا ہواتھا۔ اس وقت لوگوں نے اخلاقی پستی کا سبب مذہب سے غفلت سمجھ رکھا تھا۔ ان کو یہ احساس نہیں تھا کہ اس کا سب سے بڑا سبب ’بے زری‘ ہے اور تھا بھی تو اتنی شدت سے نہیں جتنا آج کل۔ اس ذہنیت کی پشت پر مشرقی روایات اور روحانیت کاوہ سرچشمہ تھا جو آج بھی کسی نہ کسی صورت میں پھوٹ نکلتا ہے۔ یہی اخلاقی پستی، اصلاحی ادب کا باعث ہوئی۔

    نذیرؔ احمد سے لے کر سرشارؔ تک اورشررؔ سے لے کر مولانا راشدالخیریؔ تک سب اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ پریم چندؔ پر بھی یہ رنگ ایسا چڑھا کہ آخر وقت تک نہیں گیا۔ وہ بزرگوں کا زمانہ تھا۔ یہ سچ ہے کہ ہر افسانے اورہرناول میں اصلاحی مقصد کا کسی نہ کسی طرح نمایاں کردینا فن کے منافی ہوتا ہے اور اکثر پڑھنے والااصلاح کے بجائے اس سے بدظن ہوجاتا ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑے ادیب کومصلح بنے بغیر چارہ بھی نہیں اور آخر میں وہ اپنی تصانیف میں ایک سنیاسی، ایک مہاتما نظر آنے لگتاہے۔

    پریمؔ چند نے عشقیہ افسانے بھی لکھے ہیں۔ ان کی تعداد جتنی کم ہے اتنی ہی ادبی لحاظ سے قدر وقیمت میں بھی کم ہیں۔ خوش قسمتی سے پریم چندؔ اس زمانے میں پیدا ہوئے جب آدمی باوجود انحطاط کے اپنی طرف سے اتنا ’مشکوک‘ اور ’چوکنا‘ نہیں تھا جتناآج۔ اور نہ نفسیات کااتنا شعور ہی پیدا ہوا تھا کہ وہ اپنے عمل ردعمل اور احساس کی مختلف قسم کی الجھنوں Complexes ہی میں پھنسا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ پریمؔ چند کے افسانوں میں عمل ملتا ہے مگر ردعمل کی گہرائیاں نہیں ملتیں۔ محبت ملتی ہے مگر جنسی خواہش کااحساس نہیں ملتا۔ جنسی خواہش ملتی ہے مگر جنسی الجھن نہیں ملتی۔ ان کے افسانوں میں اگر کوئی الجھن Complex ہے تو وہ احساس کمتری اور احساس برتری کی شکل میں نمودار ہوتی ہے، جیسے ’’دوبہنیںؔ‘‘ ہیں جس میں انہوں نے بیک وقت احساسِ کمتری اوراحساس برتری کو نہایت خوبی سے واضح کیا ہے۔ فرد و جماعت نیز طبقاتی کشمکش کی تصویر بھی ان کی کہانیوں میں برابر ملتی ہے۔ ان کے افسانوں کے زیادہ ترافرادسرمایہ داری کی ناانصافیوں اور دولت کی غیرمساوی تقسیم کے شکار ہیں۔ پریمؔ چند اس وقت اپنے پورے عروج پر ہوتے ہیں جب وہ نچلے یا غریب طبقے کے افراد کی داخلی اور خارجی زندگی پیش کرتے ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

    ’’منگرو ٹھاکر جب سے کانسٹبل ہوگئے ہیں، ان کانام منگل سنگھ ہوگیا ہے۔ اب انہیں کوئی منگرو کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ کلواؔ اہیر نے جب سے تھانے دار صاحب سے دوستی کی اور گاؤں کا مکھیا ہوگیا ہے، اس کا نام کالکاؔ دین ہوگیا ہے۔ اب کوئی کلواؔ کہے تو وہ آنکھیں لال پیلی کرتاہے۔ ‘‘ (قربانی۔۔۔ دیہات کے افسانے)

    ایسے موقعوں پر پریمؔ چند کاقلم حقیقت نگاری اور جزیات کی تلاش میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بالکل بے لوث ہوکر وہ جوں کاتوں مرقع پیش کردیتے ہیں اور اگرضرورت ہوتی ہے۔ ادبی ضرورت تو ہلکی سی چٹکی بھی لے لیتے ہیں۔ پریم چندؔ کے دیہاتی افسانوں میں ہمیں ایک ڈرامائی احساس ملتا ہے۔ محنت و مشقت۔ غربت اورامارت، تمدن اورجہالت کا۔ ’’زادِراہ‘‘ کے ایک افسانے ’’نیور‘‘ کاایک ٹکڑا ملاحظہ ہو:

    ’’آسمان میں چاندی کے پہاڑ اڑ رہے تھے، ٹکرا رہے تھے، گلے مل رہے تھے، آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ کبھی سایہ ہوجاتا کبھی تیز دھوپ چمک اٹھتی۔ ‘‘

    یہ افسانے کے ابتدائیہ جملے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں جس شاندار عنوان سے یہ افسانہ شروع ہوتاہے مشکل سے خود پریم چند کے افسانوں میں اس کی نظیر ملے گی۔ کتنی حرکت، کتنی تیزی، کتنی عظمت اس منظر میں ہے۔ آگے چل کر اسی افسانے میں لکھتے ہیں :

    ’’گاؤں کے باہر کئی مزدور ایک کھیت کی مینڈھ باندھ رہے تھے۔ ننگے بدن، پسینے میں ترکچھنی کسے ہوئے۔ سیاہ فام سب کے سب پھاوڑے سے مٹی کھود کھود کر مینڈھ پر رکھتے جاتے تھے ‘‘۔ یہ ہے محنت و مشقت کا ڈرامہ۔ اس کے پیچھے ہندوستان کی عظیم الشان قوت حرکت میں ہے۔ آگے سنیے :

    ’’نیور اپنے کام میں مصروف تھا۔ نوجوانوں کی گلخپ میں اسے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ دینا نے اسے باتوں میں لگانے کی دوبارہ کوشش کی۔ ’تویہاں سے جاکر روٹی پکاؤ گے؟ دادا تمہاری بڑھیا کوئی کام کیوں نہیں کرتی۔ ہم سے تو دادا ایسی مہریا سے ایک دن نہ پٹے، ۔ یہ کوشش کارگر ہوئی۔ نیورُ کے پچکے ہوئے کھچڑی موچھوں سے ڈھکے چہرے پر تبسم کی نورانی لکیر کھینچ گئی جس نے اس کے کریہہ منظر میں بھی ایک حسن پیدا کردیا۔ بولا۔ جوانی تو اسی کے ساتھ کٹی بیٹا۔ اب اس سے کوئی کام نہیں ہوتا تو کیا کروں ‘‘۔۔۔ محسوس کیا آپ نے، زندگی کی ہلکی ہلکی نرم نرم لہریں اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی بہہ رہی ہیں۔ ایک نورانی تبسم، جس میں شاید حزن بھی چھپا ہے ان سطروں کو منور کیے ہوئے ہے۔ پھر کتنی مٹھاس، کتنا رس، کتنا سکون، کتنی شانتی، لفظ لفظ میں بھری ہوئی ہے۔

    پریم چندؔ کے تمام ناول اور تمام افسانے خیر و شر کی ایک مہتم بالشان داستان ہیں۔ ان میں کبھی تو روحانیت مادیت سے ٹکراتی نظر آتی ہے۔ کبھی دولت غربت سے۔ کبھی مصلحت صداقت سے، کبھی بزدلی ہمت سے، کبھی فرض ذات سے۔ بہرحال کسی نہ کسی پیرایہ میں انہوں نے خیر و شر کو مختلف مواقع اور ماحول کے لحاظ سے پیش کیا ہے۔ مگر صداقت کی آخری فتح پر ان کا ایمان رہا ہے۔

    پریم چندؔ کے افسانوں میں ایک اور اہم چیز ملتی ہے جو نہ ان سے پیشتر اردو کے کسی ہندو ادیب میں پائی جاتی ہے اور نہ ان کے بعد۔ وہ ہے ہندو احساسات اور جذبات کی اردو زبان سے ’یگانگت‘۔

    میں اپنے مفہوم کو ذرااور واضح کردینا چاہتا ہوں۔ باوجود یکہ اردو ہندو مسلم اتحاد کا نتیجہ ہے۔ باوجود ے کہ اردو ہندو ضمیات، ہندو روایات ہندو جذبات کاکافی حصہ ہے۔ باوجود ے کہ اردو میں چوٹی کے کئی ادیب گزرے ہیں اور آج بھی موجود ہیں مگر پھر بھی ہندو ’خمیر‘ کو اس یگانگت سے At Homeطرح پر نہ پیش کرسکے، جیسا کہ پریم چند نے کیا ہے۔ چکبستؔ نے رامائن کا ایک سین لکھا۔ سرور نے کچھ ہندو تاریخی واقعات نظم کیے۔ مگر ’’اپنا‘‘ نہ سکے۔ اس میدان میں صرف پریم چندؔ کا قدم ہے۔ پریمؔ چند سے قبل ہندو ادباء نے جب کبھی مذہبی روایات یا اپنے تمدن کو پیش کیا ہے تو اسے پڑھ کر اکثر اوربیشتر یہ احساس ہوتاہے کہ یہ ہمیں تو صحیح اور سچے اور نہایت خوبی سے لکھے بھی گئے ہیں۔ مگر ان کا لکھنے والا بجائے ہندو کے مسلمان بھی ہوسکتا ہے۔ برخلاف اس کے پریم چند نے جب کبھی ان باتوں کا تذکرہ کیا ہے وہ خالص ہندو معلوم ہوتے ہیں۔ اور اس طرح ان کے زمانے سے اردو نہ صرف تاریخی بلکہ حقیقی معنوں میں ہندو تمدن اور ہندو جذبات کی ترجمان بن جاتی ہے۔ اب بھی اردو میں افسانہ نگاری کی صف میں ہندو ادیب آگے ہیں۔ مگر ان کا موضوع بدل گیا ہے۔ دنیا کا موضوع بدل گیا ہے۔ اب زیادہ تر ادیب خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان کسی خاص تہذیب اور تمدن کی نمائندگی کے بجائے عام تہذیب اور تمدن کو پیش کرتے ہیں۔ میرے کہنے کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ پریم چندؔ فرقہ پرستی کے مذموم جذبے سے ملوث ہیں بلکہ صرف یہ دکھانا ہے کہ کس طرح انہوں نے ایک بڑی کمی کو پورا کردیا۔ فرقہ پرستی توپریم چندؔ کو چھوکر بھی نہیں گزری۔ ان کے قلم سے کربلاؔ ایسا ڈراما بھی نکل چکا ہے۔ ایک خط میں منشی دیانرائنؔ نگم کو لکھتے ہیں : ’’میں نے حضرت حسین کا حال پڑھا۔ ان سے عقیدت ہوئی۔ ان کے ذوقِ شہادت نے مفتوں کرلیا۔ اس کانتیجہ ڈرامہ تھا۔ ‘‘

    یہ عجیب بات ہے کہ پریمؔ چند کے افسانے مثالیت Idealism سے بری ہوتے ہوئے بھی۔ آخر میں مثالیت Idealism کااحساس دلادیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ حقیقت نگار ہونے کے باوجود بھی ’’ہیروپرستی‘‘ کا جذبہ پریم چندؔ میں کبھی نہ فنا ہوسکا۔ یہ جذبہ مختلف روپ میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ کبھی ’ایثار‘ کا دامن پکڑتا ہے کبھی ’فرض شناسی‘ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ زندگی کی بعض قدریں پریمؔ چند کی نظروں میں Values اتنی مقدس اور اٹل تھیں کہ وہ یہ گوارا نہیں کرسکتے تھے، انہیں حادثات یا واقعات توڑدیں یا بدل دیں۔ مثلاً ’’مامتا‘‘، ’’حب الوطنی‘‘، ’’صداقت‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

    پریم چندؔ کے افسانوں کا اثر اردو میں دیرپا ثابت ہوا۔ اعظمؔ کریوی اوپندر ناتھ اشکؔ اور ایک حد تک سہیلؔ عظیم آبادی بلکہ میرا اندازہ اگر غلط نہیں ہے تو علی عباسؔ حسینی ان کا سب کاتعلق پریم چندؔ اسکول سے ہے۔

    پریمؔ چند کے افسانوں کے مقابلے میں ان کے ناول زیادہ کامیاب نہ ہوسکے۔ پہلی بات اور صاف بات تو یہ ہے کہ ان کے ناولوں میں وہ قوت ہی نہیں جو ان کے افسانوں میں پائی جاتی ہے۔

    پریمؔ چند کو جو قوت ملی یا جس قوت تک وہ پہنچے وہ محض افسانوں کے واسطے مناسب تھی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہی قوت ضخیم ناولوں کے صفحات پر منتشر ہوجاتی ہے اور ان کے ناول بجائے وحدت تاثر کے مختصر افسانوں کا مجموعہ بن جاتے ہیں۔ دوسرا نقص ان کے ناولوں میں کمزور کردار نگاری اور محدود مطمع نظر ہے۔ ’’وطنیت‘‘ جہاں ان کے افسانوں میں فیضان Inspiration بن کر آتی ہے، وہیں ایک بڑی تصنیف کی راہ میں حائل بھی ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول گھاٹے میں رہے۔ پریمؔ چند کا ’’گاؤں ‘‘ حقیقی اور زندہ گاؤں ہے۔ یہاں پہنچ کر وہ دنیا کے ہر بڑے ادیب کے مقابلے میں کھڑے ہوسکتے ہیں۔ مگر جہاں وہ شہر میں داخل ہوئے ان کے قدموں میں کچھ لغزش اور بیدلی سی نماں ہونے لگتی ہے۔ ناولوں میں انہوں نے شہری فضا زیادہ پیش کی ہے۔ ان کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

    پریمؔ چند کے اسلوب کی جان سچائی، خلوص اور سادگی ہے۔ وہ عبارت آرائی بہت کم کرتے ہیں۔ لفاظی سے ہمیشہ بچ کر چلتے ہیں۔ مگر چھوٹے چھوٹے آسان فقروں میں اتنی وسیع اور اتنی بھرپورزندگی بھر دیتے ہیں کہ ادب کی قوتوں کا معترف ہونا پڑتا ہے۔ ان کی کتابیں پڑھتے وقت جو پہلا احساس ہوتا ہے وہ نیک نیتی کا اور دوسراآخری احساس انسان کی عظمت کا! ’’ادیب کی عزت‘‘ ان کا ایک افسانہ ہے جس کا ایک جملہ قابل غور ہے : ’’میں نے آج سمجھ لیا ہے کہ ادبی خدمت پوری عبادت ہے ‘‘۔ اور واقعی پریمؔ چند لکھتے نہیں تھے عبادت کرتے تھے۔ ان کی تحریر میں تقدس ہے، قوت ہے، شفاف ہے، امید ہے، زندگی ہے، وہ ٹالسٹائے سے متاثر ہوئے تھے مگر کون کہہ سکتا ہے کہ اگر ٹالسٹائے آج ہوتا تو وہ ان کی تحریر سے متاثر نہ ہوتا۔ آج پریمؔ چند کی بہت سی چیزیں پرانی ہوگئی ہیں مگر جو نغمہ۔ امن و صلح، اتحاد اور اشتراک، رواداری اور مساوات کاانہوں نے اپنے افسانوں میں چھیڑا تھا اس کی آج دنیا کو کم ضرورت نہیں ہے۔ ہندوستان کی زندگی گاؤں ہے اور پریمؔ چند نے گاؤں کو ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید کردیا اور خود زندہ جاوید ہوگئے۔

    مأخذ:

    ساقی،دہلی (Pg. 50)

      • ناشر: شاہد احمد دہلوی
      • سن اشاعت: 1945

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے