Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

روایات اور اردو شاعری

کلیم الدین احمد

روایات اور اردو شاعری

کلیم الدین احمد

MORE BYکلیم الدین احمد

    اردو شاعری کو دو مختلف روایات ورثہ میں ملیں۔ ایک طرف تو فارسی روایات تھیں جن میں عربی رنگ آمیزی تھی اور دوسری جانب بھاشا اور سنسکرت روایات جن کی جڑیں ہندوستان کی فطری، معاشرتی، مذہبی خصوصیات میں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ دونوں چشمے مل کر ایک چوڑا اور عمیق دریا بن سکتے تھے لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ اردو شاعری دریا نہیں ایک چشمہ ہے۔ ایسا چشمہ جس کی گہرائی کم اور جس کا عرض کمتر ہے، جس کا پانی گدلا اور جس کی روانی جمود سے مشابہ۔ آزاد کہتے ہیں، ’’جب دو صاحب زبان قومیں آپس میں ملتی ہیں تو ایک کے رنگ روپ کا دوسرے پر ضرور سایہ پڑتا ہے۔‘‘

    اردو مسلمانوں اور ہندوؤں کے اختلاط کا نتیجہ ہے، اس لئے اردو اور اردو شاعری کی رگوں میں فارسی اور بھاشا کے رنگ روپ کا سایہ ہی نہیں بلکہ ان کا خون موجزن ہونا چاہئے۔ اردو شعراء کی راہ شروع میں دشوار نہ تھی، انھیں مشکل، قسمت آزمائی، بے راہ روی، گمراہی، ناکامیابی، ناامیدی یعنی ایک تنگ وتاریک اور پیچیدہ رستہ طے کرنا نہ تھا۔ ان کی منزل مقصود نزدیک تھی اور راہ آسان، صاف اور روشن لیکن ان کی طبیعت میں کچھ ایسی بے راہ روی تھی کہ منزل مقصود ہمیشہ دور ہی ہوتی گئی۔ مسلمان جب ہندوستان میں آئے تو اپنی زبان، اپنا کلچر، اپنا ادب ساتھ لائے۔ اس لئے جب اردو شاعری کی ابتدا ہوئی تو اس کے سامنے فارسی شاعری کی زرخیز زمین تھی۔ اردو شاعری نے فارسی خرمن سے خوشہ چینی کی، اس لئے اردو شاعری میں خیالات ومضامین کے ساتھ، ’’وہ حالات اور ملکی رسمیں اور تاریخی اشارے آ گئے جو فارس اور ترکستان سے خاص تعلق رکھتے تھے۔‘‘ (آزاد)

    عبد السلام صاحب فرماتے ہیں کہ، ’’اس میں چنداں مضائقہ نہیں، کسی متمدن قوم اور متمدن زبان کا دوسری قوموں اور دوسری زبانوں کے اثر سے محفوظ رہنا تو اصول تمدن کے خلاف ہے، اس لئے اگر اردو شاعری نے فارسی زبان کے سرمایہ سے مدد لی تو کوئی عیب کی بات نہیں۔‘‘ لیکن وہ اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ اردو زبان کی اس وقت کوئی مستقل صورت نہ تھی اور اردو شاعری کی مخصوص روایات نہ تھیں، اس سے اردو زبان اور اردو شاعری کسی دوسری متمدن زبان اور اس کے ادب سے اس طرح بہر وہ ور نہ ہو سکتی تھی جس طرح کوئی متمدن زبان دوسری زبانوں کے رنگ روپ سے متاثر ہوتی ہے۔ ہندوستان میں جب مسلمانوں اور ہندؤوں میں مختلف صورتوں میں میل ملاپ ہوا تو اس میل ملاپ کا اثر ان کی زبان پر بھی پڑا۔ فارسی میں ہندی الفاظ، فقرے، نقوش داخل ہوئے۔ اسی طرح بھاشا میں فارسی رنگ آمیزی ہوئی لیکن فارسی اور ہندی زبانیں اپنی اپنی جگہ پر قائم رہیں۔

    اردو کی صورت حال مختلف ہے، یہ ہندؤوں اور مسلمانوں کے میل ملاپ کا نتیجہ ہے۔ شروع میں اردو اور اردو شاعری دونوں تہی مایہ تھیں۔ اردو شاعری کی اپنی کوئی صورت نہ تھی۔ اس کا خزانہ زر سے خالی تھا۔ ایسی حالت میں اردو شاعر کے لئے تین رستے کھلے ہوئے تھے۔ وہ فارسی ادب وشاعری سے مستفید ہو سکتا تھا۔ وہ بھاشا اور سنسکرت کی خوشہ چینی کر سکتا تھا۔ وہ فارسی اور بھاشا کے امتزاج سے نئی زریں روایات کا آغاز کر سکتا تھا۔ اردو زبان اور شاعری کی عقبی زمین کو پیش نظر رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ تیسرا رستہ صحیح رستہ تھا اور اگر اردو شعراء اس رستہ میں قدم بڑھاتے تو ضرور کامیاب ہوتے۔ دوسرا رستہ بھی سراسر غلط نہ تھا لیکن اردو شعراء نے پہلے رستہ کو پسند کیا اور اسی میں قدم آگے بڑھاتے چلے گئے۔

    معلوم ہوتا ہے کہ اردو شاعری پر اس کے ابتدائی زمانے میں فارسی ایک طرف اور بھاشا اور سنسکرت دوسری جانب، دونوں کا اثر رہا۔ عبد السلام صاحب کہتے ہیں، ’’دکن میں اردو شاعری کا آغاز مذہبی حیثیت سے ہوا۔۔۔ ایک مدت تک اس پر بھاشا اور سنسکرت کا اثر غالب رہا، اس لئے وہ الفاظ، ترکیب، بندش، بلکہ اوزان وبحور میں بھی کبت اور دوہوں سے بہت ممتاز تھی۔ ولیؔ، آزادؔ اور سراج کے زمانہ تک اگرچہ وہ بہت کچھ اس اثر سے آزاد ہو چکی تھی، تاہم یہ قدیم انداز اس زمانے تک بھی قائم رہا، چنانچہ ابواحسن تانا شاہ کے ایک شعر سے اس کی تصدیق ہو سکتی ہے،

    کن دھرکھون، کاں جاؤں میں مجھ دل پہ بھل بچھڑات ہے

    اک بات کے ہوں گے سجن یہاں جیو بارہ بات ہے

    سنسکرت اور بھاشا کے ساتھ اردو شاعری ابتداہی سے فارسی زبان سے بھی متاثر ہوتی رہی، چنانچہ محمد علی قطب شاہ کے ان اشعار میں فارسی زبان کی بعض لطیف ترکیبیں موجود ہیں،

    اے وضعہا کہ کل جو کیا تازہ اے صنم

    او غمزہ تازہ تازہ ترا عارفانہ کر

    ہاتف مذاکرے کرواے زمزم صبوح

    میرے ے دلم میانہ رمزنہانہ کر

    افسوس ہے کہ اس زمانہ میں اردو کوئی ایسا جلیل القدر شاعر پیدا نہ کر سکی جو فارسی روایات اور بھاشا اور سنسکرت روایات کو امتراج دے کر ایک نئی اردو روایات کی بنیاد قائم کرتا۔ ولیؔ اس زمانہ میں سب سے بڑا شاعر گزرا ہے لیکن ولیؔ کی بھی ایسی زبردست شخصیت نہ تھی کہ وہ اس مہم کو سرسکتا۔ کہتے ہیں کہ سعد اللہ گلشنؔ کے مشورہ سے ولیؔ نے اپنے قدیم رنگ کو، جس میں ہندی کی آمیزش تھی بالکل بدل دیا اور وہ اس رنگ کے شعر کہنے لگا،

    جاری ہوئے آنسو مرے یوں سبزۂ خط دیکھ

    اے خضر قدم سیر کر اس آب رواں کا

    جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا، فارسی روایات اردو میں مستحکم ہوتی گئیں۔ آزادؔ کہتے ہیں، ’’ہرملک کی انشاء پردازی اپنے جغرافیے اور سرزمین کی صورت حال کی تصویر بلکہ رسم ورواج اور لوگوں کی طبیعتوں کا آئینہ ہے، سبب اس کا یہ ہے کہ جو کچھ شاعر یا انشا پرداز کے پیش نظر ہوتا ہے وہی اس کی تشبیہوں اور استعاروں کا سامان ہوتا ہے۔‘‘

    اردو شعراء اس حقیقت سے واقف نہ تھے، وہ ہندوستان میں رہتے تھے لیکن ان کی آنکھیں ہندوستانی چیزوں میں کوئی حسن نہیں پاتی تھیں۔ ان کی تشبیہیں، ان کے استعارے، ان کے اشارات ایرانی نژادہوتے ہیں، اس لئے ان کی شاعری ابتدا ہی سے اصلیت وصداقت سے مغائرت رکھنے لگی۔ اگر وہ بھاشا کی تقلید کرتے تو ان کی شاعری پر کم از کم غیرفطری ہونے کا الزام نہ رکھا جاتا۔ یہ صحیح ہے کہ اس صورت میں فارسی شاعری کے قیمتی خزانوں پر انھیں دسترس نہ ہوتا لیکن وہ اس کمی کو رفتہ رفتہ اپنی کاوش سے دور کر سکتے تھے اور اردو شاعری کوایسے ایسے جواہرات سے مالا مال کرسکتے تھے کہ پھر اسے فارسی کا دست نگر نہ ہونا پڑتا اور یہ غیرفطری اور مصنوعی نہ ہو جاتی۔

    ’’بھاشا کا شاعر فصیح استعارہ کی طرف بھول کر بھی قدم نہیں رکھتا، جو جو لطف آنکھوں سے دیکھتا ہے اور جن خوش آوازیوں کو سنتا ہے یا جن خوشبوؤں کو سونگھتا ہے انھیں کو اپنی میٹھی زبان سے بےتکلف، بے مبالغہ صاف صاف کہہ دیتا ہے لیکن یہ نہ سمجھتا کہ ہندوستان میں مبالغہ کا زور تھا ہی نہیں۔ سنسکرت کا انشا پرداز بگڑ جائے تو زمین کے ماتھے پر پہاڑ تیوری کے بل ہو جائیں اور دہانِ غار پتھروں سے دانت پیسنے لگیں۔‘‘ (آزاد)

    لیکن بھاشا اور سنسکرت کی شاعری فطری ہے۔ تشبیہیں اور استعارات مشاہدہ پر مبنی ہیں۔ گردوپیش کے حالات وواقعات سے مصرف لیا جاتا ہے یعنی جو آنکھیں دیکھتی ہیں، کان سنتے ہیں، دل محسوس کرتا ہے، دماغ سوچتا ہے، انھیں پر شاعری کی بنا ہے۔ بھاشا کا شاعر ایرانی موسمِ بہار کی تصویر کشی نہیں کرتا، وہ بلبل ہزار داستان کے ساتھ زمزمہ سرائی نہیں کرتا۔ جہانگیر نے اپنے توزک میں سچ کہا ہے کہ ہندوستان کی برسات ہماری فصل بہار ہے اور کوئل یہاں کی بلبل ہے۔ اس موسم کا کچھ لطف یہاں ہے تو بسنت رت کا سماں ہے جس میں ہولی کے رنگ اڑتے ہیں، پچکاریاں چھٹتی ہیں۔ گلال کے قمقمے جلتے ہیں، وہ باتیں نہیں جو فارسی والے بہار کے سمے پر کرتے ہیں۔ (آزاد)

    اپنا مقصد بھاشا اور سنسکرت کی تعریف اور فارسی کی تنقیص نہیں۔ فارسی شاعری بھی فطری ہے لیکن فارسی کی تقلید نے اردو شاعری کو غیرفطری بنا دیا ہے۔ ایک زبان کا دوسری زبان پر اثر ہوتا ہے لیکن اس کی وہ ہمہ گیری نہیں ہوتی جو اردو میں نظر آتی ہے، مثلاً فارسی شاعری خود عربی سے متاثر ہوئی اور اس نے بہت کچھ سرمایہ عربی سے لیا۔

    ’’عربی جملے اور امثال ومحاورات تو اس کثرت سے آئے ہیں کہ ان کو جمع کیا جائے تو ایک دفتر بن جائے۔ تلمیحات جن سے سیکڑوں شاعرانہ مضامین پیدا ہوتے ہیں، اکثر عرب کے ہیں، مثلاً ایران میں اگرچہ ہزاروں پری پیکر معشوق گزرے ہیں لیکن شاعری نے لیلےٰ کو انتخاب کیا۔ عاشقی کا سلسلہ بیعت مجنوں تک منتہی ہوتا ہے۔ حسن کے لئے حضرت یوسف کام آئے ہیں اور ان کے تعلق سے سیکڑوں الفاظ اور تلمیحات پیدا ہو گئے ہیں جس پر ہزاروں اشعار کی بنیاد ہے، مثلاً یعقوب، چاک، پیراہن، چاہ کنعاں، خواب زلیخا، زندانِ یوسف، برادران یوسف۔ انبیا کی ذات سے سیکڑوں قصے متعلق ہیں اوران سے شاعری کا بڑا سرمایہ تیار ہوا ہے، مثلاً آدم، بہشت، گندم، طوفان نوح، قربانی اسمٰعیل، تعمیر کعبہ، بت شکنی، خلیل، صبر ایوب، تخت سلیماں، بلقیس، ہدہد، موسیٰ، ید بیضا، عضائے موسیٰ، وادی ایمن، شمع طور، اعجاز عیسیٰ وغیرہ وغیرہ اور یہ تمام قصے یہودیوں کی تاریخ سے متعلق ہیں جو فارسی شاعری میں عربی زبان کے ذریعہ سے آئے ہیں۔‘‘ (شعر الہند)

    یہ سب صحیح لیکن مثل روز روشن عیاں ہے کہ فارسی شاعری کا سرمایہ ’’زیادہ ترایران کی قدرتی پیداوار کا نتیجہ‘‘ ہے۔ فارسی شاعری کی رنگینیاں، اس کی نزاکت ولطافت، اس کی تازگی و شیرینی، اس کے جملہ محاسن اسی کی ذات سے وابستہ ہیں۔ اس نے عربی اوصاف قبول کئے، لیکن کبھی اپنے ملکی سرمایہ سے کنارہ کشی اختیار نہ کی، اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ فارسی شاعری عربی شاعری کا وجود ظلی ہے۔ اردو شاعری کی حقیقت کچھ اور ہے۔ اردو شاعری اپنی قدرتی پیداوار کو چھوڑکر ایران کی طرف قدم بڑھاتی ہے اور تمام اساسی مضامین کا مورد ایران سے لیتی ہے، مثلاً جیحوں وسیحوں، جوئے شیر، کوہ الوند، کوہ بے ستوں، رستم، اسفند یار، سام، مانی، بہزاد، مجنوں، فرہاد، شمشاد، نرگس، سنبل، بنفشہ، سروقمری، بلبل اور پروانہ وغیرہ پر اردو شاعری کے ہزاروں مضامین کی بنیاد ہے اور یہ تمام چیزیں ایران کے ساتھ مخصوص ہیں۔ فارسی الفاظ، فارسی محاورات کے ترجمے اور فارسی ترکیبیں تو اس کثرت سے ہیں کہ ان کا استقصا نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ غرض بحر، ردیف، قافیہ، استعارہ وتشبیہ ہر حیثیت سے اردو شاعری فارسی کا وجود ظلّی ہے۔ (شعر الہند)

    فارسی شاعری نے عربی اثرات قبول کئے لیکن کبھی ایران کی قدرتی پیداوار سے کنارہ کشی نہیں کی۔ اردو شاعری ہندوستانی پیداوار کو چھوڑکر سراسر فارسی شاعری کی خوشہ چیں ہو گئی۔ فارسی شاعری نے ہمیشہ اپنی مخصوص منفرد ہستی قائم رکھی۔ اردو شاعری کی علیحدہ ہستی نہیں۔ یہ محض فارسی شاعری کا سایہ ہے۔ اسے فارسی شاعری اس قدر پسند خاطر ہوئی کہ وہ ہمیشہ کے لئے فارسی شاعری کی کاسہ لیس ہو گئی۔ آزادؔ کا استعجاب صحیح ہے۔

    ’’تعجب ہے کہ اس نے اس قدر خوش ادائی اور خوش نمائی پیدا کی کہ ہندی بھاشا کے خیالات جو خاص اس ملک کے حالات کے بموجب تھے، انھیں بھی مٹا دیا۔ چنانچہ خاص وعام پپیہے اور کوئل کی آواز اور چنپا اور چنبیلی کی خوشبو کو بھول گئے۔ ہزاروں بلبل اور نسریں وسنبل جو کبھی دیکھی بھی نہ تھی، ان کی تعریف کرنے لگے۔ رستم واسفند یار کی بہادری، کوہ الوند اور بے ستوں کی بلندی، جیحوں سیحو ں کی روانی نے یہ طوفان اٹھایا کہ ارجن کی بہادری ہمالہ کی ہری ہری پہاڑی برف بھری چوٹیاں اور گنگا جمنا کی روانی کو بالکل روک دیا۔‘‘

    اس صورت حال کی وجہ بھی ظاہر ہے۔ مسلمان حکمراں تھے۔ ان کی زبان فارسی تھی۔ ان کے متعلقات ایران وترکستان کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ اردو زبان کی پیدائش اور ترقی کے بعد بھی ایک مدت تک تعلیم یافتہ طبقے کی زبان فارسی رہی یعنی اسے وہ خط وکتابت، تالیف وتصنیف کے لئے استعمال کرتے رہے۔ شاعرانہ اردو کے نوجوان نے فارسی کے دودھ سے پرورش پائی۔ فارسی خیالات ومضامین اس کی فطرت ثانی ہو گئی۔ رستم واسفند یار کی بہادری، کوہ الوند اور بے ستوں کی بلندی، جیحون سیحوں کی روانی، یہ چیزیں اسے اجنبی نہیں معلوم ہوتی تھیں۔ رستم واسفند یار کی داستانیں اس کے دل ودماغ میں ہیجان پیدا کر سکتی تھیں لیکن ارجن کی بہادری اس کے دل میں کسی قسم کی امنگ پیدا نہیں کرتی تھی۔ وہ ہندوستان میں رہتا تھا لیکن اس نے ہندوستان کی روایات اخذ نہیں کی تھیں۔ شاید وہ ان سے پوری طرح واقف بھی نہ تھا اور نہ اسے ضروری سمجھتا تھا، اس لئے اگر اردو شاعری میں رامائن اور مہابھارت کی داستانوں اور کرداروں، ان کے مضامین اور بیانات سے آگاہی ظاہر نہیں ہوتی تو کچھ تعجب نہیں۔

    ہاں یہ البتہ تعجب کی بات ہے کہ ’’کوہ الوند اور بےستوں کی بلندی اور جیحوں سیحوں کی روانی‘‘ ہمالہ کی ہری ہری پہاڑیوں، برف بھری چوٹیوں اور گنگا جمنا کی روانی پر غالب رہیں۔ ’’شاعرانہ اردو کا نوجوان‘‘ ہندوستان میں رہتا تھا۔ اگر وہ ہندوستان کی ادبی روایات سے واقف نہ تھا تو چنداں مضائقہ نہ تھا لیکن خدا نے اسے آنکھیں دی تھیں۔ ان سے مصرف لینا اس کا فرض تھا۔ ہندوستان میں ’’سیکڑوں چشمے، ندیاں اور سیکڑوں پہاڑ ہیں۔۔۔ یہاں سیکڑوں قسم کے میوے، پھول، پھل اور درخت پیدا ہوتے ہیں۔‘‘ لیکن وہ ہندوستان کے حسین فطری مناظر سے باخبر نہیں ہوتا۔ پپیہے اور کوئل کی آواز اور چنپا اور چنبیلی کی خوشبو کا کہیں ذکر نہیں لیکن ہزاروں بلبل اور نسرین وسنبل جو کبھی دیکھی بھی نہ تھیں، کے متعلق رطب اللسان ہے۔

    غور کرنے سے اس عجیب واقعہ کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے۔ اردو شعراء غزل کے دلدادہ تھے۔ غزل ہمارے جذبات واحساسات، ہماری اندرونی کیفیتوں، ہمارے داخلی تجربات کی ترجمان ہے، اس لئے شروع سے اردو شعرءا کی نگاہیں اپنے دل کی طرف نگراں ہو گئیں۔ وہ خارجی دنیا سے کوئی سرورکار نہیں رکھتے۔ وہ پپیہے اور کوئل کی آواز نہیں سنتے اور اگر سنتے بھی ہیں اس سے متاثر نہ ہوتے۔ وہ چنپا اور چنبیلی کی خوشبو سے بہرہ ور نہیں ہوتے یعنی وہ اپنے حواس خمسہ سے صحیح مصرف نہیں لیتے لیکن وہ تعلیم یافتہ ہوتے۔ فارسی ادب سے وہ واقف ہوتے اور اس کے محاسن سے متاثر۔ یہ صحیح ہے کہ انھوں نے ہزار وبلبل اور نسرین وسنبل کبھی دیکھی بھی نہ تھیں لیکن یہ چیزیں حسن کی علامتیں تھیں، اس لئے ان سے ذاتی واقفیت ضروری نہ تھی۔ اردو زبان اور شاعری کی جب ترقی ہوئی تو سلطنت مغلیہ کا زوال تھا۔ جب کسی قوم کے زوال کا زمانہ قریب آتا ہے تو اس کی صورت پہلے ہی سے مسخ ہونے لگتی ہے، اس کی رگیں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں، عمل رخصت ہو جاتا ہے اور دلوں میں عیش پسند آ جاتی ہے۔ فضا میں مہلک جراثیم پھیل جاتے ہیں جو اس قوم کے اوصاف کے حق میں سم قاتل ثابت ہوتے ہیں۔

    اردو شاعری نے ایسے زمانے میں ترقی کی، جب کاہل، عیش پسند، پریشان وسرگرداں، جھوٹی شان وشوکت، نام ونمود کے خواہاں افراد نے شاعری کو تفریح کا ذریعہ سمجھا، اسے ایک دلچسپ کھلونا سمجھا جس کی دلچسپیوں میں وہ ناگوار ہونے والے واقعات کو ایک لمحے کے لئے بھول جاتے تھے۔ ان کی قواء سست پڑ گئے تھے، ان کی رگوں میں خون کی روانی کم ہو گئی تھی۔ جس فضا میں وہ سانس لیتے تھے، اس میں تباہی وبربادی کے جراثیم تھے۔ ان کے تحت الشعور میں آنے والی تباہی کا خوف جم گیا تھا۔ وہ غیرشعوری طور پر آنکھیں کھولنے سے ڈرتے تھے، اس لئے وہ اپنی اندرونی کیفیتوں کے مشاہدے میں مستغرق رہتے تھے۔ اپنے جذبات اور احساسات کے اظہار کے لئے انھیں فارسی میں بنے بنائے خیالات، الفاظ، نقوش، استعارے مل گئے اور انھیں شعراء نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ وہ ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں، ہندوستان کے بوقلموں پھولوں، گنگا، جمنا کی روانی کا مشاہدہ کر سکتے تھے لیکن غیرشعوری طورپر وہ ان چیزوں کا مشاہدہ کرنے سے ڈرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو ہندوستان کے حسین مناظر کے ساتھ ساتھ بھیانک خواب کی طرح تباہی وبربادی کی وہ صورت بھی نظر نہ آ جائے جسے وہ دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔

    عبد السلام صاحب اردو شاعری کو تہی مائیگی اور فارسی کی کورانہ تقلید کے الزام سے اس طرح بچانا چاہتے ہیں، ’’۔۔۔ ہر زبان کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ خود اپنے ملکی سرمایہ، ملکی خصوصیات اور ملکی رسم ورواج سے بیگانہ اور ناآشنا نہ ہو اور اردو شاعری کی کوئی صنف ان سے ناآشنا نہیں ہے۔ مثلاً اردو غزل گوئی کے اگرچہ مختلف دور ہیں اور ہردور کی خصوصیتیں الگ الگ ہیں، باہم کوئی دور ملکی خصوصیات سے بیگانہ وناآشنا نہیں ہے۔ ابتدائی زمانے میں تو غزل کی بنیاد ہی دوہروں اور کبتوں کے وزن پر رکھی گئی تھی۔ بعد کو اگرچہ فارسی اثر غالب آ گیا تاہم بھاکا اور سنسکرت کے آثار ایک مدت تک باقی رہے۔۔۔ سنسکرت اور بھاشا کے الفاظ تو ایک مدت تک بکثرت مستعمل رہے اور ہندوستان کی ملکی اور مذہبی خصوصیات کا اثر ہر دور میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔۔۔ مضامین اور خیالات میں بھی بھاشا کا اثر پایا جاتا ہے۔‘‘

    یہاں جو مثالیں پیش کی گئی ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو شاعری میں ملکی سرمایہ اس قدر کم ہے کہ اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ایسے اشعار جن میں ہندی روایات کی موجودگی ہے، بہت کم نظر آتے ہیں اور ان کا وجود محض فارسی شاعری کے محکم اثر کا ثبوت ہے۔ ایک طرف تو وہ بے شمار اشعار ہیں جو فارسی کے زیر اثر لکھے گئے ہیں اور دوسری جانب یہ معدودے چند اشعار ہیں جن میں ہندی الفاظ وجزئیات ہیں۔ ان چند شعروں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کہ اردو دوسری زبانوں کی طرح اپنے ’’ملکی سرمایہ‘‘ ، ملکی خصوصیات اور ملکی رسم ورواج سے بیگانہ اور نا آشنا نہیں، نہایت مضحک ہے۔ یہ بات روشن ہے کہ اردو شعراء اردو شاعری کی ابتدا کے بعد غلط راستہ پر چل کھڑے ہوئے۔ ایسا رستہ، جسے ’’اندھی گلی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے اردو شاعری منزل مقصود سے دور رہ گئی۔ یہ منزل تک پہنچ بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ رستہ مسدود تھا۔

    دوسری عجیب بات ان مثالوں میں یہ نظر آتی ہے کہ عموماً ان سبھوں میں روح شاعری مفقود ہے۔ اردو شعراء جب تک فارسی کے زیر اثر لکھتے ہیں تو کامیاب اشعار کہہ لیتے ہیں لیکن جہاں ہندی جزئیات کا استعمال ہوا پھر ناکامیابی ان کا حصہ ہوجاتی ہے یعنی جب اردو شعراء گل وبلبل، جیحوں سیحوں، رستم واسفند یار کا جن سے وہ ذاتی طور پر واقف نہ تھے، ذکر کرتے ہیں تو کامیاب ہوتے ہیں لیکن جہاں اپنی آنکھوں سے مصرف لیا، اپنے گرد وپیش کے حالات، رسم ورواج، ملکی ومذہبی خصوصیات سے مصرف لیا تو پھر کامیابی عنقا ہے۔ فارسی روایات زیادہ سازگار ہوتی ہیں، ہندی روایات سم قاتل سے کم نہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں، میرؔ کا ایک شعر ہے،

    ہو کے اس کے شربتی لب سے جدا

    کچھ بتاسا سا گھلا جاتا ہے جی

    یہاں محض رعایت لفظی ہے ’’شربتی، بتاسا۔‘‘ جذبات کا نام ونشان بھی نہیں، دوسرے اشعار بھی اس قسم کے ہیں،

    ہر اشک کو مری مژگاں سے یہ علاقہ ہے

    کہ جوں ستار کی کھونٹی سے تار باندھ دیا

    مصحفیؔ

    ہے چاک چاک روز ازل سے یہ دل مرا

    جوں خربزہ عیاں ہے جدا ایک ایک قاش

    میرؔ حسن

    افشری کا بوسہ بازی میں مجھے ملتا ہے لطف

    قند کی ڈلیاں وہ لب ہیں خالِ لب ہیں فالسے

    آتشؔ

    ہوا دھوپ میں بھی نہ کم حسن یار

    کنھیا بنا وہ جو سونلا گیا

    صبا

    ان شعروں میں شعریت مطلق نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب شعراء ہندی جزئیات کا استعمال کرتے ہیں تو گویا وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ کسی اجنبی زبان میں شعر کہہ رہے ہیں اس لئے روانی، تازگی، اصلیت سب چیزیں عنقا ہو جاتی ہیں اور ان کی جگہ ایک قسم کی رکاوٹ، آورد، بھداپن، گرانی، اجنبیت یہ سب چیزیں نمایاں ہو جاتی ہیں۔ مصحفیؔ اور میر حسنؔ کے شعروں میں ہندی تشبیہیں ہیں اور محض تشبیہ کی حیثیت سے کچھ بری نہیں لیکن اسے کیا کیجئے کہ شعروں میں اثر مطلق نہیں۔ ان تشبیہوں سے مصحفیؔ ومیر حسنؔ محظوظ نہیں ہوئے تھے، اس لئے قاری کو بھی ان سے کوئی مسرت حاصل نہیں ہوتی۔ اسی طرح اکثر شعروں میں ہندوستانی تلمیحات ملتی ہیں لیکن یہاں بھی وہی حال ہے یعنی شعر عموماً کامیاب نہیں ہوئے۔

    خط نکلے پہ بوسہ رخ پر نور کا پایا

    خیرات برہمن کو ملی چاند گہن کی

    رند

    لطف اگر یہ ہے کہ بتاں صندل پیشانی کا

    حسن کیا صبح کے پھر چہرۂ نورانی کا

    میرؔ

    خاک شہید ناز سے بھی ہولی کھیلئے

    رنگ اس میں ہے گلال کا بو ہے عنبر کی

    آتشؔ

    چاند گہن کی خیرات، صندل پیشانی، ہولی، یہ سب چیزیں ہندی مذہب ورسم ورواج سے تعلق رکھتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اردو شعراء نے انھیں حلقۂ شعر میں داخل کیا ہے لیکن ان کی موجودگی سے حسن شعر میں افزائش نہیں، کمی ہوئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اردو شعراء ان چیزوں سے واقف تو تھے لیکن یہ واقفیت سطحی تھی۔ یہ چیزیں ان کے احساسات کا جزو نہیں بن گئی تھیں۔ اردو شعراء ہندوستان میں رہتے تھے لیکن اپنا دامن سمیٹے ہوئے وہ ہندوستانی چیزوں سے دور کی واقفیت رکھتے تھے لیکن ان سے متاثر ہونا گناہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنے گرد ایک طلسمی دائرہ کھینچ رکھا تھا۔ یہ طلسمی دائرہ انھیں ہندی جزئیات کے اثر سے محفوظ رکھتا تھا، کبھی کبھی وہ ان چیزوں کا جو دائرہ سے باہر تھیں ذکر کر لیا کرتے تھے اور بس۔ بہرکیف یہ چیزیں جن کا ذکر ہوا زیادہ اہم نہیں۔ اردو میں خدا جانے کتنے اشعار بہار کے متعلق ملیں گے لیکن یہ بہار ایران کا موسم بہار ہے۔ ہندوستان کا موسم بہار برسات ہے اور عبد السلام صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے شعرءا نے اس بہار کی تمام خصوصیات کو نمایاں کیا ہے، چنانچہ خواجہ آتشؔ فرماتے ہیں،

    جھومتی آتی ہے مستانہ گھٹا برسات کی

    ساتھ کیفیت کے چلتی ہے ہوا برسات کی

    پنجۂ مرجاں بنیں گے تیرے ہاتھ اے بحر حسن

    بے کئے شوخی نہیں رہتی حنا برسات کی

    روتے روتے عاشق شیدا ہزاروں مر گئے

    مانگی اس دہقاں پسر نے جو دعا برسات کی

    غم بہت کھلوانہ مجھ گریاں کو تو اے ہجر یار

    خوف بدہضمی کا رکھتی ہے غذا برسات کی

    مے نہ دینا مجھ کو بیدردی ہے اب تو ساقیا

    ابتدا جاڑے کی ہے اور انتہا برسات کی

    اس غزل میں ہندوستان کی برسات کی تمام خصوصیات یعنی رنگِ حنا کی شوخی، دہقاں پسر کا برسات کے لئے دعا مانگنا، بدہضمی کا خوف ہونا، جاڑے کی ابتدا اور برسات کی انتہا نہایت واضح طور پر نمایاں ہیں۔ یہ سب صحیح لیکن شاید مطلع اور آخری شعر کے علاوہ بقیہ شعر ایسے گراں ہیں کہ ان سے ’’دماغی بدہضمی‘‘ کا خوف ہے۔ آخری شعر خمریات کے زمرہ میں داخل ہے، مطلع میں البتہ کچھ اثر ہے لیکن غیرمعمولی نہیں۔ ان شعروں کا غالبؔ کے قطعہ سے مقابلہ کیجئے،

    پھر اس انداز سے بہار آئی

    کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی

    دیکھو اے ساکنانِ خطۂ خاک

    اس کو کہتے ہیں عالم آرائی

    کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر

    رو کشِ سطح چرخ مینائی

    سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی

    بن گیا روئے آب پر کائی

    سبزہ و گل کے دیکھنے کے لئے

    چشم نرگس کو دی ہے بینائی

    ہے ہوا میں شراب کی تاثیر

    بادہ نوشی ہے باد پیمائی

    فرق نمایاں ہے۔ غالبؔ ایرانؔ کے موسمِ بہار کا ذکر کرتے ہیں، آتشؔ ہندوستان کی برسات کا۔ غالبؔ کی تصویر کی بنا تخیل پر ہے، آتشؔ نے تخیل سے کام لیا ہے۔ غالبؔ کی جزئیات عام ہیں، آتشؔ چند مخصوص دیکھی ہوئی چیزوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن غالبؔ کا قطعہ شاعری کے اعتبار سے آتشؔ کے اشعار سے بلند پایہ ہے۔ غالبؔ کے دل میں ایک تصویرِ خیالی نے ہیجان برپا کیا تھا لیکن برسات کی دیکھی ہوئی تصویروں نے آتشؔ کے دل میں ایک لہر بھی پیدا نہ کی تھی، نتیجہ معلوم! آتشؔ کا مطلع جو نسبتاً اور شعروں سے اچھا ہے، غالبؔ کے اشعار کے سامنے بے رنگ اور بے لطف معلوم ہوتا ہے۔

    آتشؔ کہتے ہیں،

    ساتھ کیفیت کے چلتی ہے ہوا برسات کی

    غالبؔ کہتے ہیں،

    ہے ہوامیں شراب کی تاثیر

    زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں، آتشؔ کا مصرع کمزور، غالبؔ کا مصرع زوردار وبا اثر ہے۔ یہی فرق تمام ظاہر ہے۔

    اردو شاعری کا زیادہ سے حصہ غزلوں پر مشتمل ہے۔ صنف غزل اپنی آسانی اور زود اثری کی وجہ سے ہر دلعزیز ہو گئی تھی اور اس صنف میں فارسی کا اثر زیادہ سے زیادہ نمایاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب شعراء مقرر شدہ رستہ سے کسی دوسری طرف جا بہکتے ہیں تو پھر کھوئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ دوسری صنفیں مشکل تھیں اور ان میں فارسی شاعری کا تتبع مشکل تر تھا اسں لئے ان کی طرف توجہ کم ہوئی۔ قصائد جس قدر کم ہیں، اسی قدر رتبہ میں بھی کم ہیں، اس لئے ان کا ذکر ضروری نہیں لیکن عبد السلام صاحب نے محسنؔ کاکوروی کے ایک نعتیہ قصیدہ کی تشبیب پیش کی ہے جو ان کے الفاظ میں، ’’بالکل ہندوانہ انداز کی لکھی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ نہایت پر اثر ہے۔‘‘ ایک تو ایسی مثالیں شاذ ہیں، دوسرے اس تشبیب میں صفائی اور لطف زبان کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ ’’نہایت پراثر‘‘ ہرگز نہیں۔ آورد، قصد، تصنع ہر جگہ موجود ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں،

    سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل

    برق کے کاندھے پہ لائی ہے صبا گنگا جل

    گھر میں اشنان کریں سرو قدانِ گوکل

    جا کے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طولِ امل

    راکھیاں لے کے سلونوں کی برہمن نکلیں

    تار بارش کا تو ٹوٹے کوئی ساعت کوئی پل

    سبزۂ خط سے ہوا ہونے لگی سرخی لب

    چمنِ حسن سے لال اڑ گئے بن کر ہریل

    صاف آمادۂ پرواز ہے شاماں کی طرح

    پر لگائے ہوئے مژگانِ صنم سے کاجل

    آخری دو شعروں میں تو رعایت لفظی کی غالباً بدترین صورت ہے۔ باقی شعروں میں بھی آورد کی کارفرمائی ہے۔ یہاں ہندوانہ انداز ضرور موجود ہے لیکن جسے ذرا بھی مذاقِ سلیم ہے، وہ ان اشعار کو ’’نہایت پر اثر‘‘ نہیں کہہ سکتا۔ اس تشبیب کا سوداؔ کی مشہور تشبیب سے مقابلہ کیجئے جس کا پہلا شعر ہے،

    اٹھ گیا بہمن ودے کا چمنستاں سے عمل

    تیغ اردی نے کیا ملکِ خزاں مستاصل

    سوداؔ بہار کا نقشہ پیش کرتے ہیں، محسنؔ کاکوروی برسات کا۔ سوداؔ کی تشبیب سے کم سے کم بہار کی رنگینی وفراوانی کا اندازہ ملتا ہے۔ محسنؔ کاکوروی کے اشعار سے پراگندگی پیدا ہوتی ہے اور کوئی صاف مکمل نقشہ مرتب نہیں ہوتا۔ سوداؔ میں ایک زور ہے جس نے آورد کو آمد میں تبدیل کر دیا۔ محسنؔ کاکوروی میں یہ زور موجود نہیں۔ غزل وقصیدہ سے مثنوی ومرثیہ میں زیادہ گنجائش تھی۔ مثنوی ومرثیہ میں بھی ہندی جزئیات ملتی ہیں لیکن ان میں دوسری قسم کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

    عبدالسلام صاحب کہتے ہیں، ’’اردو مثنویوں میں سب سے زیادہ مشہور مثنوی بدر منیر ہے اور اس میں ناچ رنگ کے جلسے، گانے بجانے کے ٹھاٹھ، باغوں اور ہرقسم کی محفلوں کے سمے، سواریوں کے جلوس، مکانوں کی آرائش، شاہانہ لباس اور جواہرات اور زیورات وغیرہ کا بیان بالکل ہندوستانی طریقہ کے موافق کیا گیا ہے۔۔۔ میر حسنؔ نے ہندوستانی ہی امراء کی طرز معاشرت کو سامنے رکھ کر یہ مثنوی لکھی ہے۔‘‘

    یہ ایک حد تک صحیح ہے لیکن اس مثنوی میں میر حسنؔ نے گویا ایک خیالی دنیا کی تخلیق کی ہے اور یہ دنیا انسانی دنیا سے سراسر مختلف ہے۔ کردار، واقعات، تصویریں، فضاساری چیزیں مختلف ہیں۔ جب ہم یہ مثنوی پڑھتے ہیں تو گویا ہم انسانی سرحد سے گزر کر کسی نئے ملک میں قدم رکھتے ہیں جس کے قوانین نئے، اجنبی اور غیرمعمولی معلوم ہوتے ہیں۔ ایسی فضا میں جب ہم ہندوستانی جانی ہوئی چیزوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں استعجاب ہوتا ہے۔ اس خیالی دنیا میں ’’ہندوستانی‘‘ ناچ رنگ کے جلسے، گانے بجانے کے ٹھاٹھ، ہر قسم کی محفلوں کے سمے، سواریوں کے جلوس، شاہانہ لباس وغیرہ بے موقع معلوم ہوتے ہیں۔ میر حسن جلوس، شادی کی دھوم دھام، دولہن کی آرائش کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور یہ ذکر دلچسپ بھی ہے اور ہندوستانی امراء کی طرزِ معاشرت کو سامنے رکھ کر یہ تصویر کھینچی گئی ہیں۔

    انھیں پیش نظر رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ میر حسنؔ کی آنکھیں وا تھیں۔ وہ گردوپیش کے حالات وواقعات سے باخبر تھے اور ان سے اپنی نظم میں مصرف بھی لے سکتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مرقعے زیورات کی طرح محض آرائش کے لئے مرتب کئے گئے ہیں اور یہ آرائش بے موقع بھی ہے اور مصنوعی بھی۔ اس کے علاوہ، وہ ان چیزوں کی تصویر کشی میں اپنی معاشرت سے مدد لینے پر مجبور تھے۔ اردو شعراء شروع سے غزل کی طرف مائل تھے۔ ابتدا میں اردو زبان کچی، خام اور ناقص تھی اس لئے اس میں اظہار خیال آسان نہ تھا، ساتھ ساتھ جب اردو نے کچھ ہوش سنبھالا تو مسلمانوں کا زوال تھا اور ان کی فطرت میں کاہلی، آرام طلبی، سہولت کی خواہش پیدا ہو گئی تھی، اس لئے انھوں نے آسان اور مختصر صنف شاعری غزل کو پسند کیا۔

    قصیدہ اور مثنوی مشکل صنفیں تھیں۔ ان میں وہ فارسی شعراء کے نقش قدم پر چلنے میں کامیاب نہ ہو سکے، ابتداء میں کچھ فارسی کی تقلید کی گئی لیکن دشواری سے طبیعت جلد عاجز آ گئی اور اردو میں مثنوی مولانا رومؔ یا شاہنامہ جیسی کوئی مثنوی نہیں لکھی گئی۔ بہرکیف مثنوی میں فارسی کی تقلید ممکن نہ ہوئی۔ اسی وجہ سے ایک حد تک اردو شعراء اپنے مشاہدہ سے مصرف لینے پر مجبور ہو گئے لیکن نتیجہ پھر بھی تشفی بخش نہ ہوا۔ خصوصاً جب باغ کی تصویرکشی ہوتی ہے تو یہ کمی بہت نمایاں ہو جاتی ہے۔ میر حسنؔ محض پھولوں کے نام گنا دیتے ہیں۔ نرگس، گل یاسمن، چنبیلی، موتیا، رائے بیل، موگرا، لالہ، جعفری، گیندا، گل داؤدی، چنپا، نسرین، نسترن لیکن کبھی بھی ذاتی مشاہدہ کا ثبوت نہیں دیتے۔ باغ اور باغ کے پھول دونوں مصنوعی ہیں اور ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔

    مرثیوں کا بھی یہی حال ہے، ان میں بھی ہندی جزئیات ہیں لیکن یہ بے موقع ہیں، ’’مراثی میں جو واقعات مذکور ہیں، ان کا تعلق اگرچہ تمام عرب سے ہے لیکن ان میں بھی ہندوستانی شان علانیہ نمایاں ہے، مثلاً ہمارے مرثیہ گویوں نے اہل حرم کے عادات اور مراسم شرفائے ہندوستان کی مستورات کے مطابق فرض کئے ہیں اور شادی وغمی کے متعلق جس قسم کے مراسم وعادات یہاں جاری ہیں، وہی تمام مرثیوں میں مذکور ہیں۔‘‘ (شعر الہند)

    عبد السلام صاحب یہ لکھتے ہیں لیکن انھیں اس کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ مراثی میں ’’ہندوستانی شان‘‘ کا اعلانیہ نمایاں ہونا ہی ان کا سب سے بڑا نقص ہے۔ کردار، واقعات، عادات، احساسات (مراسم) سبھی ہندوستانی ہیں۔ یہ صناعی کا فتور ہے اور اس وجہ سے مراثی کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ یہی اردو شعراء کا نقص ہے کہ جب وہ ہندوستانی جزئیات، عقبی زمین کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہ فن شاعری کے دوسرے اہم اصول کو فراموش کر دیتے ہیں اور ان چیزوں کی موجودگی ان کی شاعری کے حسن میں اضافہ کرنے کے بدلے ایک بدنما دھبہ معلوم ہوتی ہے۔

    بیت الشرف خاص سے نکلے شہ ابر ابر

    روتے ہوئے ڈیوڑھی پہ گئے عترتِ اطہار

    فراشوں کو عباس پکارے یہ بہ تکرار

    پردہ کی قناتوں سے خبردار خبردار

    باہر حرم آتے ہیں رسولِ دوسرا کے

    شقہ کوئی جھک جائے نہ جھونکوں سے ہوا کے

    لڑکابھی بھی جو کوٹھے پہ چڑھا ہو وہ اتر جائے

    آتا ہوا دھر جو، وہ اسی جا پہ ٹھہر جائے

    ناقہ پہ بھی کوئی نہ برابر سے گذر جائے

    دیتے رہو آواز جہاں تک نظر جائے

    مریم سے سوا حق نے شرف ان کو دیے ہیں

    افلاک پہ آنکھوں کو ملک بند کئے ہیں

    ’’پردے کا رواج اگرچہ عرب میں بھی تھا، تاہم اس بارے میں مسلمانان ہندوستان میں جو سخت پابندیاں ہیں وہ اور کسی اسلامی ممالک میں نہیں پائی جاتیں، اس لئے پردے کا یہ اہتمام بالکل ہندوستانی رسم ورواج کے مطابق ہے۔‘‘ (شعر الہند)

    یہ ایک ادنیٰ مثال ہے، اس قسم کی مثالوں سے مرثیے بھرے پڑے ہیں۔ مرثیہ گویوں نے ہندوستانی جزئیات کا غلط استعمال کیا ہے۔ مثنوی کی طرح مرثیہ میں بھی فطری مناظر کے مرقعے ملتے ہیں، خصوصاً انیسؔ نے اس قسم کے مرقعے نہایت اہتمام کے ساتھ مرتب کئے ہیں لیکن یہ مرقعے بھی خیالی ہیں اور مصنوعی۔ ان میں ایک عیب یہ بھی ہے کہ یہ مرقعے متضاد قسم کے ہیں،

    وہ صبح اور وہ چھاؤں ستاروں کی اور وہ نور

    دیکھے تو غش کرے ارنی گوئے اوج طور

    پیدا گلوں سے قدرت اللہ کا ظہور

    وہ جابجا درختوں پہ تسبیح خواں طیور

    گلشن خجل تھے وادی مینو اساس سے

    جنگل تھا سب بسا ہوا پھولوں کی باس سے

    وہ دشت وہ نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار

    پھولوں پہ جا بجا وہ گہر ہائے آب دار

    اٹھنا وہ جھوم جھوم کے شاخوں کا بار بار

    بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار

    خواہاں تھے زیب گلشن زہراب آب کے

    شبنم نے بھردیے تھے کٹورے گلاب کے

    ایک جگہ یہ حسن کا عالم ہے اور دوسری جگہ یہ مہیب سماں،

    کوسوں کسی شجر میں نہ گل تھے نہ برگ وبار

    ایک ایک نخل جل رہا تھا صورت چنار

    ہنستا تھا کوئی گل نہ لہکتا تھا سبزہ زار

    کانٹا ہوئی تھی پھول کی ہر شاخ باردار

    گرمی یہ تھی کہ زیست سے دل سب کے سرد تھے

    پتے بھی مثل چہرۂ مدقوق زرد تھے

    اردو میں صرف ایک شاعر ہے جس کی شاعری اپنے ماحول سے علیحدہ ہوکر فارسی فضا میں سانس نہیں لیتی۔ یہ نظیرؔ کی شاعری ہے۔ نظیرؔ کی زندگی، ان کے ماحول اور ان کی شاعری کے درمیان کوئی خلیج حائل نہیں۔ نظیر ہندوستان میں رہ کر ہندوستان سے دور نہیں رہتے تھے۔ وہ فارسی مضامین، فارسی حالات وواقعات، فارسی نقوش واستعارے کورانہ طور پر استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ ہندوستان میں رہتے تھے۔ ہندی طرزِ معاشرت، ہندی خیالات ونقوش ان کی رگوں میں سرایت کر گئے تھے، جو زندگی وہ بسر کرتے تھے، جو چیزیں ان کی آنکھیں دیکھتی تھیں، جس طرز معاشرت سے وہ واقف تھے، جن مناظر کا وہ تماشا دیکھا کرتے تھے، جو زبان وہ بول چال میں استعمال کرتے تھے، انہیں سب چیزوں سے ان کی شاعری کی تعمیر ہوئی ہے، اسی لئے جو واقعیت، جو صداقت وحقیقت ان کی نظموں میں نظر آتی ہے، وہ اور کہیں نہیں ملتی۔ فطرت کے بوقلموں مرقعے، انسانی دنیا کے مختلف مناظر، یہ سب ہندی رنگ میں رنگے ہوئے ان کی نظموں میں ملتے ہیں۔

    افسوس ہے کہ ان کے معاصرین نے نظیرؔ کی قدر نہ کی اور ان کی اہمیت کو بالکل نہ سمجھا ورنہ اردو شاعری کی داستان زیادہ رنگین اور کامیاب ہوتی۔ جو شخص کوئی نئی راہ نکالتا ہے، اسے مشکلیں درپیش ہوتی ہیں۔ اس کی سخت مخالفت ہوتی ہے یا اسے قابل توجہ خیال نہیں کیا جاتا ہے۔ نظیرؔ کو بھی قابل توجہ نہیں سمجھا گیا، اس نے ان کی شاعری کا گویا مطلق اثر نہ ہوا۔ نظیر نے اردو میں پہلی مرتبہ نئی مقامی روایات کی بنیاد ڈالی۔ ایسی روایات جو فارسی سے مختلف تھیں، جو فطری تھیں اور جن میں ترقی کی گنجائش تھی۔ یہ ضرور ہے کہ جن روایات کی بنا نظیرؔ نے ڈالی وہ فارسی روایات سے کم قیمت ہیں لیکن اگر دوسرے شعرا اس رستے میں جرأت کے ساتھ قدم آگے بڑھاتے جس میں نظیرؔ نے پہلی مرتبہ رہروی کی تھی تو اس وقت اردو روایت شاید فارسی روایات کا نعم البدل ہوتیں۔

    بہرحال نظیرؔ نے اردو شاعری کی رَو کے خلاف جد وجہد کی اور اسے روکنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ نظیرؔ کی ایسی زبردست شخصیت نہ تھی کہ وہ اردو شاعری کے دھارے کو پلٹ دیتے اور شاید یہ ایک فرد کے بس کی بات بھی نہ تھی۔ اگر وہ فارسی اور ہندی یا مقامی روایات کے حسین ومکمل امتزاج کی کوشش کرتے تو شاید زیادہ کامیاب ہوتے۔ ان کی شاعری میں ہندی جزو غالب ہے اور یہی جزو ان کی زبان میں غالب ہے یا کہہ سکتے ہیں کہ اس جزو کے غلبہ اور نظیرؔ کی بے اعتدالی کی وجہ سے نظیرؔ کے معاصرین کچھ ایسے منغض ہوئے کہ وہ ان کے محاسن کو یک قلم نہ سے دیکھ سکے۔

    دورِ حاضر کے شعراء کا ذکر میں نے قصداً نہیں کیا ہے۔ اس دور کے متعلق یہ کہنا کافی ہوگا کہ حالیؔ کی کوشوں کے باوجود بھی یہ زندہ روایات سے خالی ہے اور اب مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔ اردو شاعری کی ابتدا میں غالباً زبان کی خامی سب سے بڑی مشکل تھی، ورنہ اور کوئی مشکل حائل نہ تھی۔ زندگی نسبتاً سیدھی سادھی تھی۔ ادبی روایات فارسی اور بھاشا اور سنسکرت روایات موجود تھیں جن سے شعرا مصرف لے سکتے تھے اور جن کی روشنی میں نئی، تازہ، زندہ روایات کی بنا ڈال سکتے تھے۔ مشاہدات کے لئے ہندوستان کے حسین فطری مناظر، فارسی وہندی طرزِ معاشرت، بدلنے والے سیاسی مرقعے، یہ سب چیزیں دعوتِ نظارہ دیتی تھیں۔ اب صورت حال بالکل بدل گئی ہے۔ ہندوستان اب بھی موجود ہے اور ہندوستان کے درخت، پھول، پھل، چشمے، دریا، صحرا، پہاڑ اب بھی موجود ہیں لیکن اب زندگی نہایت پیچیدہ ہو گئی ہے۔

    سائنس کے کرشموں نے دنیا کو مختصر اور سمٹی ہوئی بنادیا ہے۔ مختلف ممالک ایک دوسرے سے دور نہیں نزدیک ہو گئے ہیں۔ مختلف تمدن آپس میں مل رہے ہیں یا کم از کم ایک دوسرے پر اثر ڈال رہے ہیں۔ سیاسی اسباب کی وجہ سے انگریزی زبان اور انگریزی ادب سے واقفیت ہو گئی ہے اور انگریزی کے ذریعہ سے دوسرے مغربی ادبوں سے بھی شناسائی ہے۔ دماغی اور جذباتی دنیا وسیع، پیچیدہ، مشکل ہو گئی ہے۔ اردو کی نئی روایات میں ان سب چیزوں کی جلوہ گری ہوگی۔ آزادؔ نے کہا تھا، ’’نئے انداز کی خلعت وزیور جو آج کے مناسب حال ہیں، وہ انگریزی صندوقوں میں بند ہیں کہ ہمارے پہلو میں دھرے ہیں اور ہمیں خبر نہیں۔ ہاں صندوقوں کی کنجی ہمارے ہم وطن انگریزی دانوں کے پاس ہے، اس لئے اگر اردو شاعری میں انگریزی کا پرتو حاصل ہوگا تو انھیں لوگوں کی بدولت ہوگا جو دونوں زبانوں سے واقف ہوں گے اور سمجھیں گے کہ انگریزی کے کون سے لطائف اور خیالات ایسے ہیں جو اردو کے لئے زیور زیبائش ہو سکتے ہیں۔‘‘

    مسعود حسن صاحب فرماتے ہیں، ’’فارسی کی تقلید ترک کرکے انگریزی کی پیروی کرنے کی تجویز سے مجھے بھی اختلاف نہیں ہے۔ فارسی شاعری سے ہم کو جو کچھ لینا تھا لے چکے، اب اسی پر قانع رہنا اور اپنی شاعری کو محدود رکھنا مناسب نہیں۔ اگر انگریزی شاعری کی تقلید سمجھ کر کی جائے تو شاعری کے لئے نئے نئے راستے نکلیں گے، نئے نئے موضوع ہاتھ آئیں گے، اظہار جذبات کے نئے نئے اسلوب اور دل پر اثر ڈالنے کے نئے نئے طریقے مل جائیں گے۔‘‘

    لیکن نہ آزادؔ کو اور نہ مسعود حسن صاحب کو کام کی دشواری اور پیچیدگی کا احساس ہے۔ محض انگریزی ادب کی تقلید سے نئے نئے موضوع، نئے نئے اسلوب مل جائیں گے اور اس طرح اردو شاعری میں کچھ سطحی فرق نظر آنے لگے گا لیکن منزل مقصود پھر بھی دور ہی رہےگی۔ نئی روایات میں فارسی، عربی، بھاشا، سنسکرت، انگریزی اور دوسرے مغربی ادب سے علیحدگی نہ ہوگی، اس میں دور حاضر کی سائنٹفک، علمی، ادبی معلومات کا پر تو نظر آئےگا۔ اس میں دور حاضر کے مختلف تمدنوں کی جلوہ گری ہوگی، اس میں زندگی کی پیچیدگی کا احساس ہوگا، یہ کام شعراء ہی کر سکتے ہیں، نقاد محض رستہ بتا سکتا ہے اور بس!

    مأخذ:

    سخن ہائے گفتنی (Pg. 54)

    • مصنف: کلیم الدین احمد
      • ناشر: کتاب منزل سبزی باغ، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1967

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے