Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ردولی کا تخلیقی آہنگ

حقانی القاسمی

ردولی کا تخلیقی آہنگ

حقانی القاسمی

MORE BYحقانی القاسمی

    ہندوستان کی دو عظیم دانش گاہوں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے ترانوں کے خالق کا تعلق جس شہر سے ہو، اس شہر کی نغمگی اور آہنگ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ مسلم یونیورسٹی کا ترانہ مجاز نے لکھا اور جامعہ ملیہ کا ترانہ محمد خلیق صدیقی نے اور ان دونوں کا تعلق اودھ کے شہر ردولی سے تھا۔

    ردولی ایک تہذیبی مرکز تھا۔ بزرگوں اور اولیا کرام کی آماجگاہ۔ اس کا اصلی نام ’رود ولی‘ تھا جو بعد میں ردولی میں تبدیل ہو گیا، آج بھی اس کی روحانی مرکزیت برقرار ہے۔ اسی قصبے سے شیخ احمد عبدالحق مخدوم صاحب کا تعلق ہے۔ شیخ عبدالقدوس گنگوہی کی پیدائش بھی اسی شہر میں ہوئی۔ شیخ صلاح الدین سہروردی، شیخ صفی الدین، شیخ محمد اسمٰعیل، شیخ سماع الدین، شیخ محمد سالم جیسی روحانی شخصیات اس سرزمین میں موجود رہی ہیں جن کی وجہ سے شہر میںسوز ہے اور ساز بھی۔ کہتے ہیں کہ اسی سرزمین سے سید سالار مسعود غازی کی داستان محبت بھی جڑی ہوئی ہے۔ حمیدہ سالم نے لکھا ہے:

    ’سید سالار مسعود غازی ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے خوبرو، بہادر، جوان اور ساتھ ہی پاکباز، عبادت گزار۔ ان کا مزار ردولی کے قریب کے ایک گائوں سترکھ میں ہے اور ہر سال ان کا عرس منایا جاتا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں معتقد جمع ہوتے ہیں۔ جس گائوں میں سید مسعود غازی خیمہ زن ہوئے تھے وہاں ایک بوڑھے، نیک و شریف بڑھئی رہتے تھے۔ ان کی ایک اکلوتی بیٹی تھی،خوبصورت، خوب سیرت، الہڑ اور جوان۔ صبح شام گھر کے چولہے کا ایندھن جمع کرنے باغ کی طرف جاتی تھی اور سید صاحب کے خیموں کی طرف سے گزرتی تھی۔ اس لڑکی کا نام زہرہ تھا۔ مسعود اور زہرہ کی آنکھیں چار ہوئیں اور کیوپڈ اپنا تیر چلا گیا اور دونوں ہی دل کی بازی ہار بیٹھے۔ زہرہ اپنی معصومیت، اپنی دلکشی اور شوخی کی وجہ سے پورے گائوں کی ہی لاڈلی تھی۔ سید صاحب کی شرافت، نجابت اور دلیری و بہادری سے پورا گائوں متاثر تھا۔ غرض یہ کہ ایک شام آبادی کے بزرگ سر جوڑ کر بیٹھے اور ان دو محبت سے گھائل دلوں کو یکجا کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا۔ شادی کی تاریخ کا تعین ہو گیا۔ سید مسعود غازی اور زہرہ کے دلوںکی دھڑکنیں تیز تر ہو گئیں۔ گائوں میں اپنی حیثیت بھر بیٹی کی رخصتی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ زہرہ کی ہمجولیاں ڈھولک پر برہا کے گیت گانے میں اور چھیڑ چھاڑ میں لگ گئیں۔

    مگر قسمت کچھ اور ہی تماشا دکھانے پر اتارو تھی۔ قبل اس کے کہ نکاح کے دو بول ادا ہوں اور وصل کا خواب اصلیت کا روپ دھار لے، سلطنت اودھ میں جنگ کا نقارہ بج گیا۔ دل کے تقاضوں پر فرض کی آواز حاوی رہی اور غازی صاحب نواب صاحب کا حکم پاتے ہی بلا کسی تاخیر کے میدان جنگ کی طرف روانہ ہو گئے اور سترکھ کے میدان میں جام شہادت سے سرخرو ہوئے۔ زہرہ کے دل کی کلی کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی اور وہ تمام عمر اپنے محبوب کی یاد کو دل سے لگائے زندگی کے دن کاٹتی رہی۔ باوجود لاکھ سمجھانے بجھانے اور زور دبائو کے کسی سے اپنا پلو باندھنے پر آمادہ نہ ہوئیں۔ یہاں تک کہ ان کے بالوں کی چمکیلی سیاہی برفیلی میں تبدیل ہو گئی۔

    یہ درد بھری اور خوبصورت کہانی جس بستی سے وابستہ ہے، وہ آج بھی کٹی باغ کے نام سے جانی جاتی ہے اور وہاں ہر سال زہرہ بی بی اور مسعود غازی کی شادی کی طے شدہ تاریخ پر ایک میلہ لگتا ہے۔ سترکھ کے کچھ باشندے باراتی بن کر آتے ہیں اور ان کی خاطر مدارات کی ذمہ داری کٹی باغ اور ارد گرد کی آبادی پر ہوتی ہے۔ میلے کے آخری دن زہرہ بی بی کا ڈولہ نکلتا ہے۔‘

    ان بزرگوں کے قدوم میمنت لزوم کا اثر ہے کہ ردولی کی فضا میں آج بھی روحانیت کے نغمے گونجتے ہیں اور وہاں کی تہذیبی زندگی روحانیت سے سرشار ہے۔ بڑے بڑے صلحا کرام کی وجہ سے اس سرزمین کو خاص تقدس اور تابناکی بھی حاصل ہے۔ یہاں سے بہت سی ایسی داستانیںمنسوب ہیں جو انسانی عقلوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہیں۔ یہیں ایک علاقہ دودھا دھاری بھی ہے جس کے تعلق سے محیر العقول حکایت وابستہ ہے۔ شارب ردولوی نے لکھا ہے :

    ’وزیر گنج سے ایک نوجوان عورت روزانہ دودھ بیچنے قصبے میں آتی تھی اور دودھ بیچ کر واپس چلی جاتی تھی۔ ایک دن موجودہ دودھاری کی جگہ پر ایک بزرگ نظر آئے۔ انہوں نے اس عورت کو بلا کر دودھ مانگا اس نے دودھ دے دیا تو بزرگ نے دعا دی کہ جا تیرا دودھ کبھی نہ ختم ہو۔ وہ عورت حسب معمول دودھ بیچنے قصبے میں آئی، سارا دن دودھ فروخت کرتی رہی لیکن دودھ نہ ختم ہوا۔ شام ہونے لگی تو واپس گھر کی طرف چل پڑی۔ اسی جگہ پر پہنچ کر اسے فکر ہوئی کہ وہ گھر والوں کو کیا جواب دے گی کہ اتنی رقم اس کے پاس کہاں سے آئی جبکہ دودھ اسی طرح موجود ہے۔ مارے ڈر کے اس نے وددھ کی ہانڈی زمین پر الٹ دی۔ اس میں سے دودھ کی ایسی دھار بہہ نکلی کہ چاروں طرف دودھ ہی دودھ نظر آنے لگا۔ اسی دن سے یہ جگہ دودھا دھاری کے نام سے مشہور ہو گئی۔‘

    جس زمین سے ایسی حکایتیں اور داستانیں وابستہ ہوں وہاں کی تخلیقی فضائوں میں داستانویت اور داستان طرازی نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ردولی کی سرزمین نے تخلیقی سطح پر داستان طرازی کو نئی صورتیں عطا کی ہیں اور فضائوں میں بھٹکتی داستانوں کو جب قلمبند کیا تو اس سے نئی نئی داستانوں کی تشکیل ہوئی۔ چودھری محمد علی ردولوی کی تحریروں میں شاید ایسی ہی داستانوی فضا کا اثر ہے۔ اس طرح ردولی کی سرزمین اپنی کیفیت کے اعتبار سے بہت طلسماتی اثر رکھتی ہے یہیں شیخ صلاح الدین سہروردی کا مزار ہے جہاں پاگل اور دیوانے ٹھیک ہو جاتے ہیں اور مخدوم صاحب کی شہرت تو خیر ہے ہی کہ شیخ احمد عبدالحق سے اس شہر کی روحانی مرکزیت کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ ایک صاحب کرامات بزرگ تھے جن کی پیدائش بھی ردولی میں ہوئی اور مزار بھی وہیں ہے۔ جن کے بارے میں کئی طرح کی حکایتیں مشہور ہیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’اخبار الاخیار‘ میں لکھا ہے:

    ’جب آپ کی عمر7 برس کی تھی اس وقت آپ کی والدہ محترمہ تہجد کی نماز کے لیے اٹھا کرتی تھیں۔ آپ بھی ان کے ساتھ اٹھتے اور تہجد پڑھتے مگر والدہ کو خبر نہ ہونے دیتے، آخر یہ بات کب تک صیغہ راز میں رہتی۔ آخر والدہ کو اس کی خبر ہو گئی تو انہوں نے محبت مادری کے پیش نظر آپ کو اتنا سویرے اٹھنے سے روکا۔ آپ پر چونکہ خدا کی محبت کا غلبہ تھا اس لیے اپنی امی سے کہنے لگے کہ امی تم راہزن ہو کیونکہ مجھے خدا کی عبادت سے روکتی ہو۔ اس کے بعد راہِ حق کی تلاش میں گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر 12 برس کی تھی۔ منقول ہے کہ آپ کے بھائی شیخ تقی الدین نے ایک دفعہ آپ کی کہیں نسبت ٹھہرائی جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ لڑکی والوں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ میں نامرد ہوں۔ براہ کرم اپنی لڑکی کی شادی میرے ساتھ نہ کیجئے۔‘

    اسی سرزمین سے شیخ صلاح درویش کا بھی تعلق تھا۔ شیخ احمد عبدالحق فرماتے ہیں: ’میں ایک مرتبہ سفر سے جب واپس آیا تو اگرچہ یہ میرا اپنا وطن تھا لیکن میں نے اس کے باوجود میں نے شیخ کے ہاں ٹھہرنے کی اجازت مانگی اس لیے کہ اس علاقے کے صاحب ولایت آپ ہی تھے۔ چنانچہ میں آپ کے روضہ پر گیا اور فاتحہ پڑھی اور نبی کریمؐ کی ذات بابرکات پر تحفہ درود بھیجا اور بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ مجھے تو صرف اب جائے نماز اور ایک پانی کا گھڑا کافی ہے تاکہ یہاں قیام کر سکوں۔ اس کے بعد شیخ کی قبر سے آواز آئی کہ عبدالحق حوض پر آئو اور جائے نماز و گھڑا لے جائو۔ چنانچہ میں حوض پر گیا اور حوض میں ہاتھ ڈالا تو سب سے پہلے میرے ہاتھ میں گھڑا آیا، وہ نکال لیا اس کے بعد ہاتھ ڈالا تو ایک پلنگ کا پرانا ڈھانچہ ملا، اس کو بھی نکال لیا کہ شاید میرا مصلہ اس کو قرار دیا گیا ہو۔‘ (اخبار الاخیار)

    یہیں سے شیخ بختیار اور شیخ عارف کا بھی تعلق تھا جو شیخ احمد عبدالحق کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کی یہ سرزمین اپنے داخلی آہنگ کے اعتبار سے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ یہاںتخلیقیت کی وہ فضا ہے جس میں رومانیت بھی ہے اور روحانیت بھی۔ عجب نشہ آور اور خواب ناک فضا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس شہر کے ہر ہر ذرّے میں موسیقیت اور نغمگی بسی ہوئی ہے۔ یہاں ایک طرح کی روحانی رومانیت کا غلبہ تھا۔ شاعری کی فضا میں جن کے نغمے گونجتے رہے، ان میں مولوی سعید علی، محمد یوسف اثر، نواب حسن فوق، مرتضیٰ حسین فطیر، مولوی جعفر مہدی رزم بہت مشہور ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسی شہر کے ایک تخلیق کار نے وہ ترانہ لکھا، جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دیتی ہے۔ خاص طور پر 17؍اکتوبر یوم سرسید کے موقع پر تو یہ نغمہ پوری کائنات کی فضائوں میں گونجتا ہے اور ہر نگاہ و دل کو سرشاری کی اک نئی کیفیت سے ہمکنار کرتا ہے۔ علی گڑھ کا وہ ترانہ ردولی کے ہی اسرار الحق مجاز نے لکھا تھا

    سرشار نگاہ نرگس ہوں پابستہ گیسوئے سنبل ہوں

    یہ میرا چمن ہے میرا چمن، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں

    ہر آن یہاں صہبائے کہن اک ساغر نو میں ڈھلتی ہے

    کلیوں سے حسن ٹپکتا ہے پھولوں سے جوانی ابلتی ہے

    جو طاق حرم میں روشن ہے وہ شمع یہاں بھی جلتی ہے

    اس دشت کے گوشے گوشے سے اک جوئے حیات ابلتی ہے

    ہر شام ہے شام مصر یہاں ہر شب ہے شب شیراز یہاں

    ہے سارے جہاں کا سوز یہاں اور سارے جہاں کا ساز یہاں

    یہ دشت جنوں دیوانوں کا یہ بزم وفا پروانوںکا

    یہ شہر طرب رومانوں کا یہ خلد بریں ارمانوں کا

    فطرت نے سکھائی ہے ہم کو افتاد یہاں پرواز یہاں

    گائے ہیں وفا کے گیت یہاں چھیڑا ہے جنوں کا ساز یہاں

    ذرات کا بوسہ لینے کو سو بار جھکا آکاش یہاں

    خود آنکھ سے ہم نے دیکھی ہے باطل کی شکست فاش یہاں

    جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا

    ہر جوئے رواں پر برسے گا ہر کوہ گراں پر برسے گا

    ہر سر و سمن پر برسے گا ہر دشت و دمن پر برسے گا

    خود اپنے چمن پر برسے گا غیروں کے چمن پر برسے گا

    ہر شہر طرب پر گرجے گا ہر قصرطرب پر کڑکے گا

    یہ ابر ہمیشہ برسا ہے یہ ابر ہمیشہ برسے گا

    1936 میں لکھے گئے اس ترانے کو جو شہرت اور مقبولیت ملی آج بھی اسی وجہ سے مجاز کاعلی گڑھ سے ایک ایسا رشتہ قائم ہے جو شاید ہی کبھی ختم ہو۔ بہت کم لوگوں کو ایسی خوش نصیبی اور سعادت ملتی ہے جیسی مجاز کو نصیب ہوئی۔ مجاز اسی ردولی شہر کے چودھری سراج الحق کے فرزند تھے۔ ان کا جنم 19؍اکتوبر 1911 میں ہوا۔ ایک ذی علم گھرانہ خواجہ افتخار ہارونی جیسے صوفی سے خاندانی سلسلہ جڑا ہوا تھا جو خواجہ معین الدین چشتی کے پیر و مرشد خواجہ عثمان ہارونی کی اولاد میںسے تھے۔ والد بی اے، ایل ایل بی اور سرکاری ملازم اور ماں ان پڑھ تھیں، لیکن انتہائی معاملہ فہم، دور اندیش۔ اسرار الحق مجاز کے خاندان میں بڑی بڑی شخصیتیں پیدا ہوئیں ان کے بھائی انصار ہروانی بہت مشہور سیاسی شخصیت تھے اور بہن صفیہ اختر جو بقول حمیدہ سالم اسرار بھائی سے پونے چار سال چھوٹی تھیں لیکن رجحان اور دلچسپیوں کے لحاظ سے ان کے بہت قریب تھیں۔

    مجاز نے جس طرح کی شاعری کی اس کا اثر ہمارے شعری منظرنامے پر بھی پڑا اور ان کے انقلابی آہنگ کو سبھی نے سراہا بھی۔ فیض احمد فیض جیسے شاعر نے لکھا کہ : ’مجاز بنیادی طور پر اور طبعاً غنائی شاعر ہیں۔ اس کے کلام میں خطیب کے نطق کی کڑک نہیں، باغی کے دل کی آگ نہیں، نغمہ سنج کے گلے کا وفور ہے۔‘ اور فیض نے ہی یہ تسلیم کیا کہ ’مجاز انقلاب کا ڈھنڈھورچی نہیں انقلاب کا مطرب ہے۔اس کے نغمے میں برسات کے دن کی سی سکون بخش خنکی ہے اور بہار کی رات کی سی گرم جوش تاثر آفرینی۔‘

    مجاز کا شعری مجموعہ ’آہنگ‘ بہت مقبول ہوا اور بقول عصمت آپا : ’جدھر دیکھئے چار لڑکیاں چمن کے کونے میں سر جوڑے ’کبھی اندھیری رات کے مسافر‘ کے ساتھ دشت پیمائی کر رہی ہیں تو کبھی ’بربط شکستہ‘ کے تار سلجھائے جا رہے ہیں۔ دو ’نظر دل‘ لیے بیٹھی ہیں تو چار ’خانہ بدوش‘ کے ساتھ چند ’رات اور ریل‘ کے ساتھ فراٹے بھر رہی ہیں تو کوئی بھولی بھٹکی غمگین کسی کی یاد میں غرق منھ اوندھائے پڑی ہے۔ کسی طرف ’انقلاب‘ لایا جا رہا ہے تو کہیں ’غدار‘ پر پھٹکاریں پڑ رہی ہیں۔ غرض دل و دماغ پر کچھ اس تان سے آہنگ چھائی کہ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی وبا جیسے بورڈنگ پر ٹوٹ پڑی ہے۔ یہاں تک کہ کان پک گئے سنتے سنتے، جی متلا اٹھے۔‘

    مجاز ایک اچھا شاعر تھا جس کی غزل اور نظم دونوں میں کیفیت تھی، رومانیت تھی ان کے چند اشعار سے ان کے تخلیقی رنگ و آہنگ کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ ان کے مشہور شعر ہیں:

    ترے ماتھے پہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

    تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

    ترے ماتھے کا ٹیکہ مرد کی قسمت کا تارا ہے

    اگر تو ساز بیداری اٹھا لیتی تو اچھا تھا

    اثر باقی نہیں مفلوج پیروں کی دعائوں میں

    جوانان بلاکش کی دعا لیتی تو اچھا تھا

    مجاز کی ایک مشہور نظم ’آوارہ‘ ہے: اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

    مجاز ستم رسیدہ تھے مگر بذلہ سنج بھی تھے۔ ان کے بہت سے لطائف بھی مشہور ہیں مگر ان کا یہ طنز بہت معنی خیز ہے: ’ایک بار انہوں نے ہندو مسلم اتحاد پر تقریر کی۔ انہوں نے کہا دوستو! مذہب کے نام پر لڑنا حماقت ہے اور حماقت کے نام پر لڑنا مذہب ہے اور اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئے۔‘

    مجاز نے آل انڈیا ریڈیو میں بھی ملازمت کی، مگر وہاں بھی سیاست کا شکار ہو گئے۔ ہارڈنگ لائبریری دہلی میں اسسٹنٹ لائبریرین کی حیثیت سے بھی کام کیا مگر دل میں اضطراب تھا، بھلا کسی آزاد پرندے کو قفس میں قید کیا جا سکتا ہے۔ محبت میں مجاز کی ناکامی نے انہیں اندر سے توڑ دیا وہ حد درجہ شراب پینے لگے۔ گھر والوں نے ان کی شادی کی بہتیری کوشش کی مگر مجاز تیار نہیں ہوئے شاید انہیں آخری دنوں میں کاغذی پھولوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ وہ گھٹ گھٹ کر مرتے رہے، دوائیں اپنا اثر کھو چکی تھیں اور پھر ایک دن مجاز شراب پیتے پیتے عالم عدم میں جا بسے۔ لکھنؤ میں ان کا مزار ہے۔ مجاز کے ساتھ ہی شام غریبان لکھنؤ کا خاتمہ ہو گیا۔ مجاز نے عمر مختصر پائی مگر اردو دنیا کو بہت سے عمدہ شعر دے گئے۔

    زلف کی چھائوں میں عارض کی تب و تاب لیے

    لب پہ افسوں لیے آنکھوں میں ماہتاب لیے

    چھلکے تری آنکھوں سے شراب اور زیادہ

    ایسے اشعار زندہ رہنے والے ہیں بہرحال مجاز نے اپنی شاعری کے ذریعہ اردو دنیا کو ایک نیا آہنگ دیا۔ اب وہ آہنگ شاید ہی کبھی وجود میں آ سکے جو مجاز سے وابستہ ہے۔

    شاعری میں جہاں مجاز ایک بڑے نام کے طور پر ہمارے اجتماعی حافظے میں مرتسم ہیں، جنہیں اردو ادب کی تاریخ کبھی فراموش نہیںکر سکتی وہیں تنقید کے باب میں ردولی کے تعلق سے دو نام بہت نمایاں ہیں۔ باقر مہدی اور پروفیسر شارب ردولوی۔ باقر مہدی کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے مختلف علوم اور ادبیات کا نہایت گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مطالعہ کیا تھا اور وہ کسی بھی تنقیدی راہ و روش کے اسیر نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی رہ گزر خود ہی تلاش کی اور پوری زندگی اسی پر چلتے رہے۔ وہ بنیادی طور پر انارکسٹ تھے اور ان کی تنقید بھی انارکزم کی ایک روشن مثال ہے۔ ان کی طبیعت میں جو سرکشی، بغاوت، تندی اور تلخی تھی، وہ ان کی تنقید کا بھی حصہ بن گئی تھی۔ یوسف ناظم نے ایک جگہ لکھا ہے جس سے ان کی شخصی اور نظری افتاد طبع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ: ’اگر سب لوگ پانی کی تلاش میں دریا کی طرف جا رہے ہوں اور صرف ایک شخص ریگستان کی سمت جا رہا ہو تو وہ تنہا شخص سوائے باقر مہدی کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘ انہوں نے باقر مہدی کی شخصیت کے کچھ اور خصائص کی طرف اشارے کیے ہیں۔ ’اردو کے سارے ادیبوں اور شاعروں کے دلوں میں خوف کی جو ہلکی سی لہر دوڑتی ہے اسی لہر کا نام باقر مہدی ہے،‘ باقر روایت شکن آدمی ہیں۔ اتنے روایت شکن کہ ان کی پیشانی ہمیشہ شکن آلود رہتی ہے۔ باقر علم کی اس بلندی پر ہیں جہاں خود علم کے پہنچنے میں ابھی دیر ہے۔‘ اور یہ حقیقت ہے کہ باقر مہدی کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ صرف ادبیات نہیں، نفسیات، معاشیات، جغرافیہ، تاریخ کا گہرا ادراک تھا۔ وہ خود معاشیات کے طالب علم تھے اس لیے اقتصادیات پر ان کی نظر بہت گہری تھی۔

    باقر مہدی کا ذہنی کینوس بہت وسیع تھا اور اسی وجہ سے انہیں اردو زبان و ادب اور اس کی تنقید کا دائرہ نہایت سمٹا اور سکڑا ہوا نظر آتا تھا۔ ان کا واضح طور پر یہ خیال تھا کہ ’اردو تنقید کی سب سے بڑی کمزوری فکری عناصر کا فقدان ہے۔ تنقید ایک ساتھ ادب، فلسفہ، اخلاقیات، سیاسیات، معاشیات، عمرانیات اور لسانیات کے رشتوں کو ہر دور میں نئی ترتیب دیتی ہے اور پھر معیارات کی تشکیل میں پیش پیش رہتی ہے۔ ناقد کا ڈائیلما یہ ہے کہ ادبی ذوق کو بلند کرنے کی کوشش میں کون سے حربے استعمال کرے اور کون سے دلائل رد کرے۔ یعنی ایک ایسے ملک میں جہاں سنجیدہ ادب سے دلچسپی برائے نام ہو، وہاں کن رجحانات پر تنقید کرے اور کن لکھنے والوں کی مدافعت کرے۔‘

    باقر مہدی کو اردو تنقید میں لفظیات اور فکریات کی سطح پر جمود کا گہرا احساس تھا۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ: ’دنیا بھر کی ادبیات پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ہر قوم کے ذہنی رجحانات دوسری قوم کے ذہنی رجحانات سے الگ ہوتے ہیں بلکہ ایک ہی قوم مختلف ادبی مظاہرات سے وابستہ نظر آتی ہے۔ وقت کے مد و جزر سے خود بہ خود قوم کے احساسات جمالی تصورات اور معیار اخلاق میں فرق پڑتارہتا ہے، جو ادب نئے نئے تجربات سے محروم ہو جائے وہ بالآخر اس قدر فرسودہ اور جامد ہو جاتا ہے کہ اس کا مقصد خود بہ خود باطل ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ایشیائی ممالک میں ادبی تغیرات بھی معاشرتی تبدیلیوں کی طرح بہت کمیاب ہیں۔ اس کی غالباً دو سب سے بڑی وجوہ ہیں ایک تو ہماری آب و ہوا اور ہمارے جغرافیائی حالات ایسے ہیں جو ہمارے اندر نہ صرف جسمانی کسالت بلکہ ذہنی کسالت بھی پیدا کر دیتے ہیں۔

    دوسرا سبب یقینا ہمارا مذہب ہے۔ ہمارے مذہب نے ہماری انفرادیت کو ضرور صدمہ پہنچایا ہے۔ وہ خود فکری جو ہر ادب کی ترقی کے لیے ضروری ہے آہستہ آہستہ مفقود ہوتی گئی ہے اور سوائے اس کے کہ ہم آبا و اجداد کے افکار و خیالات کی گونج بن کر رہ جائیں ہماری کوئی انفرادی حیثیت نہیں ہے۔‘

    اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارا پورا ادبی منظرنامہ ہماری ذہنی اور فکری کسالت کا آئینہ دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ادب میں وہ تموج اور تلاطم نہیں، جو ہونے چاہئیں۔ باقر مہدی نے وہ تلاطم پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن المیہ یہ ہوا کہ ان کی تنقیدی برہمی اردو والوں کی قوت برداشت سے باہر تھی۔ اردو میں ایسی لہروں کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں تھی کہ سب کے سب پرانی لکیروں سے چمٹے ہوئے تھے۔ اس لکیر سے باہر آنا ممکن نہیں۔ شمیم حنفی نے باقر مہدی کی شخصیت کے تعلق سے جس خیال کا اظہار کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو معاشرہ کس قدر کمزور تھا:

    ’باقر مہدی ہماری زبان بریدہ اور نارسیدہ اردو دنیا کے سب سے بڑے آئوٹ سائیڈر تھے۔سکون، ٹھہرائو، توازن، راہ و رسم سے مناسبت باقر مہدی کی شاعری اور تنقید دونوں کا شناس نامہ نہیں بن سکتے۔ ایک مستقل اضطراب اعصاب اور حواس پر پیہم دستکیں دیتی ہوئی، دل و دماغ کو پریشان کرتی ہوئی اور اپنے اندرونی پیچ و تاب سے نمودار ہوتی ہوئی آگہی باقر مہدی کی نثر و نظم دونوں کا امتیازی وصف کہی جا سکتی ہے۔ انہوں نے اخلاقی طور پر اپاہج ایک مصلحت کوش دنیا میں ایک زندہ شعور، ایک بے چین اور برہم شخصیت کو بہرحال بچائے رکھا۔‘

    باقر مہدی کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’آگہی و بے باکی (1965)، تنقیدی کشمکش (1969)، شعری آگہی (2000)، تین رخی نظریاتی ادبی تنقیدی کشمکش (2003) اس کا ثبوت ہیں کہ انہوں نے ادب کی تعبیر و تفہیم میں اپنا ایک الگ زاویہ نظر اختیار کیا تھا اور انہوں نے اس راستے پر چلنے کی کوشش ہی نہیں کی جس پر پہلے ہی ہزاروں پائوں پڑ چکے ہوں۔ باقر مہدی نے ایک ایسے وقت میں جب یگانہ اردو میں معتوب اور مقہور کردار بن چکے تھے ان کی شخصیت کے حوالے سے مضمون لکھا اور برملا یہ اعلان کیا کہ میر و غالب کے بعد اردو غزل کا تیسرا اہم نام یگانہ چنگیزی ہے۔ باقر نے مضمون میں لکھا کہ ’یگانہ نے اردو شاعری کو جو ولولہ بخشا ہے وہ سرکشوں کی پوری داستان کا عنوان بن سکتا ہے۔ اگر اقبال کی شاعری بقول سرور صاحب ارضیت کا عہدنامہ جدید ہے تو یگانہ کی شاعری اردو میں ایک باغی کا پہلا کامیاب شعری رجز ہے۔ جس کی بنیاد مانگے کے اجالے پر نہیں رکھی گئی تھی جس کا سرچشمہ خود یگانہ کی شخصیت ہے۔‘

    باقر مہدی نے تنقید میں جہاں فکری سطح پر نئے اور باغیانہ تجربے کیے ، وہیں شاعری میں بھی ان کے تجربے اپنے معاصرین سے الگ تھے۔ ان کی ’کالے کاغذ کی نظمیں‘ سیریز بہت مشہور ہوئی۔ انہوں نے زندگی کے مظاہرات اور تضادات کی تصویروں کو اپنی شاعری کا مرکزی عنوان بنایا اور اپنے طور پر ان تضادات کی تعبیریں تلاش کیں۔ علی گڑھ سے فیض یافتہ باقر مہدی کی پیدائش ردولی میں 11؍فروری 1927 میں ہوئی تھی۔ ان کے والد مولوی جعفر مہدی رزم ردولوی مرثیے کے عمدہ شاعر تھے اور ان کی سوتیلی والدہ کا بھی شعر و سخن سے سلسلہ تھا۔ معاشیات اور عمرانیات کے طالب علم ہونے کے باوجود باقر نے ادبیات کو جو نئے زاویے عطا کیے ہیں وہ شاید ان کے معاصر نقادوں کے لیے ممکن نہ ہوتا کہ باقر مہدی جیسا ذہن کچھ ہی خوش نصیبوں کو ودیعت ہوتا ہے۔

    پروفیسر شارب ردولوی (اصلی نام مسیب عباس) ردولی میں یکم ستمبر 1935 میں پیدا ہوئے۔ ایک ذی علم خانوادے میں آنکھیں کھولیں۔ والد حکیم عباس اور دادا غلام حسین عربی، فارسی کے عالم تھے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے فیض یافتہ اور پروفیسر احتشام حسین کے تلمیذ۔ سید شارب ردولوی جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی میں اردو کے پروفیسر رہے۔ ان کی اہم تصنیفات میں مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر، گل صد رنگ، جگر فن اور شخصیت، افکار سودا، مطالعہ ولی، تنقیدی مطالعے، انتخاب غزلیات سودا، اردو مرثیہ، معاصر تنقید: مسائل و میلانات، تنقیدی مباحث اہم ہیں۔

    شارب ردولوی بھی اردو تنقید کا ایک معتبر نام ہے، جنہوں نے ’جدید تنقید اصول اور نظریات‘ کے ذریعہ جہاں اپنی شناخت مستحکم کی ہے۔ وہیں مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر کی جستجو کر کے تنقید کو ایک نیا زاویہ عطا کیا ہے۔ معاصر تنقیدی منظر نامے میں وہ اپنے مقالات، تصنیفات، تحقیقات اور تدقیقات سائنٹیفک اور معروضی طرز فکر کے حوالے سے بہت معتبر سمجھے جاتے ہیں اور ان کی تنقیدی تحریروں میں کوئی نہ کوئی ایسی جہت ضرور ہوتی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ تنقید کی پرانی ڈگر کے اسیر نہیں ہیں بلکہ مطالعاتی ادراک کے ذریعہ نئے پہلوئوں کی جستجو کر کے تنقیدی ثروت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی تنقیدی کتابیں اور مضامین ان کے گہرے تنقیدی شعور اور بصیرت کے آئینہ دار ہیں۔

    ردولی ہی سے تعلق ہے ایک ایسی شخصیت کا جو ادب کے منظرنامے میں کئی حوالوں سے شناخت رکھتی ہے۔ مجاز کی چھوٹی بہن، جاں نثار اختر جیسے رومانی شاعر کی شریک حیات اور مشہور فلمی نغمہ نگار جاوید اختر کی والدہ، جن کا نام تھا صفیہ اختر، جن کی پیدائش 25؍جنوری 1918 میں ہوئی۔ جنہوں نے ہائی اسکول سے ایم اے تک کے امتحانات امتیازات کے ساتھ پاس کیے۔ اقتصادیات موضوع تھا مگر اردو شعر و ادب کا نہایت گہرا ذوق تھا۔ آج بھی ان کے ’حرف آشنا اور زیر لب‘ خطوط کے مجموعے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان خطوط کی تاریخی، تہذیبی، تنقیدی اور ادبی اہمیت بھی ہے۔ فراق گورکھپوری نے لکھا تھا : ’یہ خطوط ایک انسانی نوشتہ ہیں، جن کی مثال بسا اوقات اچھے اور کامیاب ادب میں ہمیں نہیں ملتی۔ ان خطوط کی اذیت اگر تابناک ہے تو ان کی انسانیت تابناک تر ہے۔ ہر خط میں ایک من موہنی شخصیت کا دل دھڑکتا ہوا سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔ ’آپ بیتی اور جگ بیتی‘ کا سنگم ہر خط میں نظر آتا ہے۔ـ‘ صفیہ اختر کے ذہنی اضطراب اور ان کی تہذیبی شخصیت کے نقوش، ان کی علمیت اور ادبیت کی گہرائی جاننا ہو تو ان خطوط کا مطالعہ بہت ضروری ہے کہ ان خطوط میں صرف ایک بیوی کے ہجر کا کرب نمایاں نہیں ہے بلکہ ایک شریک حیات کی وہ قوت بھی شامل ہے جو کسی بھی مرد کے لیے نامساعد حالات میں سہارا بن جاتی ہے اور آلام روزگار سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ یہ خطوط ہمارے عہد کی عورت کے ذہن کی تمامتر شکلوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ ایک ایک لفظ میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تہذیب مکالمہ کر رہی ہو۔ کرشن چندر نے لکھا تھا کہ: ’صفیہ کے خطوط میں مجھے نئی ہندوستانی عورت کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہ عورت جو بیوی بھی ہے، رفیق بھی ہے۔ وہ عورت جو مرد کے بازو کی زینت ہی نہیں بلکہ خود اس کا ایک بازو ہے۔ اس کی قوت ہے اور توانائی ہے۔‘

    ادبی مکاتیب نگاری کی دنیا میں یہ دونوں مجموعے بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کے ذریعہ ہمارے ادب کی مکتوباتی روایت میں اضافہ ہوا ہے۔ ’حرف آشنا اور زیر لب‘ کے خطوط یقینی طور پر ہمارے ذہن و دل کی دنیا کوجہاں کئی طرح کے اضطرابات سے دوچار کرتے ہیں وہیں بہت سی ایسی حقیقتوں کو اجالتے ہیں جن کا انکشاف خطوط کے بغیر ممکن نہیں۔ صفیہ اختر نے تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ ’انداز نظر‘ ان کی تنقیدی تحریروں کا مجموعہ ہے، جس میں شمن کا نفسیاتی ارتقا، جوش کی انقلابی شاعری، گھر کا بھیدی جیسے مضامین شامل ہیں۔ باقر مہدی جیسے سخت گیر ناقد نے اس مجموعے کے تعلق سے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ’انداز نظر‘ کی سب سے بڑی خوبی ادبی صداقت کا نقادانہ اظہار ہے۔ یہ مجموعہ ان کی شخصیت کے ایک تابناک رخ کی نمائندگی کرتا ہے۔ مجھے یہ مضامین پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صرف صاف ستھرے ادبی اسلوب کی ہی مالک نہیں ہیں بلکہ ان کی نظر ادبی مسائل پر بھی گہری ، فکر انگیز اور حیات بخش ہے۔‘

    مجاز ہی کی بہن حمیدہ سالم بھی ایک اہم افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانے ملک کے مقتدر رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں اور ان کی آپ بیتی خواتین کی خود نوشتوں میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ انہوں نے مجاز کے تعلق سے جو مضامین لکھے ہیں ان سے مجاز کی شخصیت کے داخلی پہلوئوں پر روشنی پڑتی ہے اور پورے اودھ کا تہذیبی منظرنامہ بھی روشن ہوتا ہے۔ اودھ میں خواتین کی تعلیمی صورت حال، تعلقدارانہ اور جاگیردارانہ نظام سے بھی آگہی ہوتی ہے۔ ان کی تحریروں میں ایک مخصوص تہذیب اور اس کی لفظیات کا رچائو ہے اور وہ خوشبو بھی جو اودھ کی مٹی میں بسی ہوئی ہے۔ حمیدہ سالم کے لکھنے کا انداز جہاں دلنشین ہے وہیں فکر انگیز بھی۔ کئی طرح کی ذہنی لہریں ایک ساتھ چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ایسی لہریں جنہیں کسی منزل یا ساحل کی تلاش ہے۔

    تحقیق کے باب میں بھی ردولی کی سرزمین سے وابستہ کئی شخصیتیں ہیں۔ محمد عتیق صدیقی تحقیق کی دنیا میں ایک اہم نام ہے جنہوں نے ڈاکٹر جان گلکرسٹ اور مولانا آزاد کے تعلق سے بڑی اہم کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر آفتاب صدیقی ہیں، جنہوں نے داغ، میر اور آتش پر اچھا کام کیا ہے۔ ڈاکٹر خورشید نعمانی کی بھی شخصیت اردو دنیا میں معروف ہے۔ ان کے مقالے مقتدر رسائل میں چھپتے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میاں چرکن کا تعلق بھی اسی ردولی قصبے سے تھا اور وہ محلہ خواجہ محل کے رہنے والے تھے۔

    علمی اور تحقیقی میدان میں بھی ردولی کی سرزمین نے اہم شخصیتیں پیدا کی ہیں۔ شاہ معین الدین احمد ندوی جیسی شخصیت بھی اسی سرزمین سے تعلق رکھتی ہے، جو بہت سی اہم کتابوں کے مصنف تھے اور دارالمصنفین اعظم گڑھ سے وابستہ رہے۔ مولوی محمد سلیم انصاری بھی ایک بڑا نام ہے، جن کے افسانے مصر کے اخبارات میں شائع ہوئے اور وہ بھی عربی زبان میں۔ الہلال، البلاغ جیسے رسائل میں جن کے مضامین چھپتے رہے۔یہاں کے مشہور شعرا میں بقول پروفیسر شارب ردولوی: ’صادق اشہر جامعی، وسیم انصاری، محمد عمر اختر، سعید اشرف نجم، شبیر حسین کاظمی، زیبا ردولوی، ممتاز علی احمد، تقی شبیر تقی، شاہ مبین احمد منظر،شاہ اقبال ردولوی، ماتردت کیف اور بدری پرشاد سیوک اہمیت رکھتے ہیں۔‘

    ردولی ہی کی سرزمین نے اردو صحافت کو ایک گوہر شب تاب عطا کیا۔ اس کا نام پروانہ ردولوی ہے، جن کا میدان عمل دلی جیسا سیاسی و ثقافتی مرکز تھا اور جن کی وابستگی دلی کے بیشتر مشہور روزناموں سے رہی۔ پروانہ ردولوی نے اپنی صحافتی تحریروں سے جو دھوم مچائی وہ جگ ظاہر ہے۔ ان کی کئی کتابیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ پروانہ ردولوی کی تحریر میں جو تیزی اور طراری تھی، وہ بہت کم صحافیوں میں نظر آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اردو صحافت کو ایک نئے تیور سے بھی آشنا کیا ہے۔ زبان و بیان پر عبور‘ تاریخ و تہذیب کا گہرا مطالعہ اور مشرقی اور مغربی فنون کی روایتوں سے آگہی نے ان کے ذہن کو وسعت عطا کی تھی۔ کسی بھی موضوع پر لکھنے کے لیے انہیں زیادہ محنت و مشقت کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ حافظہ نہایت قوی تھا۔ پروانہ ردولوی کا سیاسی شعور بھی بہت بالیدہ تھا، جس کے اثرات ان کی تحریروں میں بھی نمایاں تھے۔ ایک اچھے مترجم، مصنف، صحافی کی حیثیت سے وہ اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کے صاحبزادے تحسین منور بھی ایک اچھے شاعر اور افسانہ نگار کی حیثیت سے شناخت رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’معصوم‘ ادبی حلقوں میں اعتبار حاصل کر چکا ہے۔ نہایت متحرک اور توانا ذہن رکھنے والے تحسین منور الیکٹرانک اور پرنٹ دونوں میڈیا میں مختلف نوعیت کے تجربے کر چکے ہیں اور ان تجربوں نے ان کے ذہن کو وسعت، گہرائی اور گیرائی بھی عطا کی ہے۔

    ردولی کی سرزمین میں جو داخلی آہنگ ہے، اس کا ایک اہم ترین حصہ محمد خلیق صدیقی بھی تھے، جنہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کا یہ ترانہ لکھا:

    دیار شوق مرا دیار شوق میرا

    شہر آرزو میرا شہر آرزو میرا

    ہوئے تھے آکے یہیں خیمہ زن یہ دیوانے

    اٹھے تھے سن کے جو آواز رہبران وطن

    یہیں سے شوق کی بے ربطیوں کو ربط ملا

    اسی نے ہوش کو بخشا جنوں کا پیراہن

    یہیں سے لالہ صحرا کو یہ سراغ ملا

    کہ دل کے داغ کو کس طرح رکھتے ہیں روشن

    دیار شوق میرا، شہر آرزو میرا

    یہ اہل شوق کی بستی یہ سر پھروں کا دیار

    یہاں کی صبح نرالی، یہاں کی شام نئی

    یہاں کی رسم و رہ مے کشی جدا سب سے

    یہاں کے جام نئے طرح رقص جام نئی

    یہاں پہ تشنہ لبی مے کشی کا حاصل ہے

    یہ بزم دل ہے یہاں کی صدائے عام نئی

    دیار شوق میرا، شہر آرزو میرا

    ان ہی کی صاحبزادی پروفیسر زویا حسن جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور پروفیسر مشیر الحسن سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ جیسے ممتاز مورخ کی شریک حیات ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے