Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ساگرسرحدی: ایک منفرد شخصیت

سلام بن رزاق

ساگرسرحدی: ایک منفرد شخصیت

سلام بن رزاق

MORE BYسلام بن رزاق

    یوں تو ساگر سرحدی کا نام عوام میں ایک فلمی مکالمہ نگار، ڈائرکٹر اور پروڈیورسر کی حیثیت سے مشہور ہے مگر ادب کی دنیا میں ایک عمدہ ڈرامہ نگار اور افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

    ستّرکی دہائی میں ان کے دو چار افسانے بھی مختلف رسائل میں شایع ہو چکے تھے۔ بطور ایک پلے رائٹ اور فلمی مکالمہ نگار ان کی شہرت بام عروج پر تھی۔ اس زمانے میں مرحوم محمودچھاپرا کے مکان پر اکثر ادبی محفلیں منعقد ہوتی رہتی تھیں۔ جہاں افسانے، نظمیں اور مضامین وغیرہ سنائے جاتے اور شرکائے محفل ان پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ ان محفلوں میں باقر مہدی، یوسف ناظم، فضیل جعفری وغیرہ پیش پیش رہتے تھے۔ انور خان، یعقوب راہی اور میں ان محفلوں میں نوواردان بساط کی حیثیت سے شریک ہوتے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری ذہنی تربیت میں ان محفلوں کا بڑا ہاتھ ہے۔

    انہیں دنوں کسی محفل میں ساگر سرحدی نے اپنا ایک افسانہ سنایا جس کا عنوان غالباً ’’گویندا آلارے‘‘ تھا۔ اس زمانے میں علامتی اور استعاراتی افسانوں کا رواج تھا اور ساگر سرحدی کا افسانہ خالص بیانیہ رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہ تو یاد نہیں کہ افسانہ پر کیا گفتگو ہوئی مگر مجھے اس افسانے سے بڑا حوصلہ ملا تھا کیوں کہ میں بھی اپنی بیشتر کہانیاں، بیانیہ، اسلوب میں ہی لکھا کرتا تھا اور اکثر باقر مہدی کی تنقید کا نشانہ بنتا تھا۔

    ساگر سرحدی سے میری یہ پہلی ملاقات تھی۔ ملاقات کیا تھی بس میں نے ساگر سرحدی کو پہلی بار اس محفل میں دیکھا تھا۔ ان کی صاف ستھری پرسکون شخصیت اور سفید براق لباس نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔

    اس کے بعد ساگر صاحب سے دو تین بار ادبی نشستوں میں ہی سرسری ملاقات ہوئی۔ فلم بازار کی کامیابی پر ان کے فلیٹ میں ایک دعوت میں بھی شریک ہونے کا موقع ملا تھا۔ بازار کے بعد انہوں نے ’’ لوری، نام کی ایک اور فلم بنائی مگر وہ فلم بری طرح فلاپ ہوئی اور مالی طور پر انہیں زبردست خسارا اٹھانا پڑا۔ غالباً یہ اکیانوے کے آس پاس کی بات ہے اس زمانے میں میرے پاس ٹیلیفون نہیں تھا۔ ایک دن مجھے ساگر صاحب کا خط ملا جس میں انہوں نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ان کا جوہو والا فلیٹ بک چکا تھا اور وہ ملاڈ کے ایک فلیٹ میں منتقل ہوگئے تھے۔ میں ان سے ملنے گیا۔ انہوں نے مجھے بطور اسسٹنٹ رائٹر ساتھ میں کام کرنے کی دعوت دی۔ مجھے اس پیش کش پر حیرت ہوئی کیوں کہ مجھے فلمی رائٹنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اس سے پہلے مشہور ڈائریکٹر لیکھ ٹنڈن اور اسکرپٹ رائٹر ابرار علوی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ضرور ملا تھا مگر بوجوہ چند ماہ بعد ہی وہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ اس کے علاوہ میں ان دنوں ایک اسکول میں بطور ڈپٹی ہیڈ ماسٹر ملازم تھا۔ اسکول کی تدریسی ذمہ داریاں اور دفتر کی مصروفیات ایسی تھیں کہ فلمی کام کے لیے وقت نکالنا مشکل تھا۔ پھر بھی میں نے ہامی بھر لی۔ اصل میں ان دنوں میری بیٹی کی شادی طے ہوگئی تھی اور مجھے روپیوں کی سخت ضرورت تھی۔ ایک ہزار روپیہ ماہانہ مشاہیرہ طے ہوا۔ ظاہر ہے یہ بہت معمولی رقم تھی مگر میں ’جس سے ملے جہاں سے ملے جس قدر ملے‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے شادی کا بجٹ جُٹا رہا تھا۔ مزید برآں کہ فلمی رائٹنگ کا مجھے بھی چسکا تھا لہذا یہ بھی خیال تھا کہ اسی بہانے فلم اسکرپٹ رایٹنگ کو سمجھنے کا موقع بھی مل جائے گا۔

    ان دنوں ساگر صاحب دیوانہ لکھ رہے تھے۔ انہوں نے بڑی محنت سے دیوانہ کی اسکرپٹ لکھی۔ مجھ سے بھی چند سین لکھوائے۔ میرے ساتھ ان کا روّیہ بہت مشفقانہ تھا۔ وہ جب اپنے پروڈیوسر یا ڈائریکٹر سے میرا تعارف کراتے تو اسسٹنٹ کہہ کر نہیں بلکہ افسانہ نگار اور ساتھی کہہ کر کرواتے تھے۔ اگرچہ محنتانہ بہت کم تھا اس کے باوجود میں ان کے ساتھ ڈیڑھ دو برس تک کام کرتا رہا۔ اس دوران میری بیٹی کی شادی ہوگئی اور میں ایک بڑی ذمہ داری سے عہدہ بر آہو گیا۔

    ساگر صاحب کے ساتھ وقت اچھا گزر رہا تھا مگر میری ادبی سرگرمیاں متاثر ہورہی تھیں۔ مجھے فلمی شہرت سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی کیوں کہ ادب میں ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے میری شناخت بن چکی تھی اور ہندو پاک کے رسائل میں میرے افسانے تواتر کے ساتھ چھپ رہے تھے۔ اگر چہ فلمی دنیا کی چمک دمک دامن دل کو کھینچ رہی تھی مگر میں جانتا تھا وہاں اپنا کیرئیر بنانے کے لیے مجھے نئے سرے سے شروعات کرنی پڑے گی اور میری خانگی ذمہ داریاں اس کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔

    میں نے ساگر صاحب سے اپنی ملازمت یا معاونت کو خیر باد کہنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ساگر صاحب نے پہلے تو مجھے خوب ڈانٹا اور پھر دو گھنٹے تک سمجھاتے رہے۔ ان کے مطابق اس لائن میں میرا مستقبل بہت روشن تھا اور مجھے یہ لائن نہیں چھوڑنی چاہیے۔ مگر میں اپنے ارادے پر قائم رہا۔

    میں نے ساگر صاحب کی معاونت تو چھوڑ دی مگر ساگر صاحب سے میرے مراسم آج بھی باقی ہیں۔ یہ مراسم فلمی کم، علمی یا ادبی زیادہ ہیں۔ آج بھی میں ان سے برابر ملتا رہتا ہوں وہ بھی گاہے بگاہے مجھے یاد کرتے رہتے ہیں۔

    ساگر صاحب کئی خوبیوں کے مالک ہیں ان میں سے ایک ان کی مہمان نوازی ہے، اچھے دنوں میں ان کے فلیٹ میں آئے دن پارٹیاں ہوا کرتی تھیں۔ وہ دوستوں کے دوست ہیں۔ ملنے والوں سے بہت جلد بے تکلف ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی شخصیت کی ایک اور خوبی بھی ہے کہ وہ بے تکلفی میں اکثر دوستوں کو گالیوں سے نوازتے ہیں۔ بلکہ جس سے جتنی قربت ہوتی ہے اسے اتنی زیادہ گالیاں دیتے ہیں۔ ایک بار بڑا دلچسپ واقعہ ہوا۔ میرے ایک ٹیچر ساتھی کو ساگر صاحب سے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا۔ ایک تقریب میں ساگر صاحب سے ملاقات ہوئی میں نے ٹیچر دوست کا ساگر صاحب سے تعارف کرایا۔ ساگر صاحب نے ان سے تو بڑے اخلاق سے مصافحہ کیا مگر کسی بات پر مجھے دو تین گالیوں سے نواز دیا۔۔۔ بعد میں ایک دن دوست سے میری ملاقات ہوئی تو کہنے لگے۔ ’’سلام صاحب! ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔ اس دن ساگر صاحب آپ کو گالیاں دیتے رہے۔ آپ نے پلٹ کر کچھ نہیں کہا بلکہ ہنستے رہے۔‘‘

    میں نے کہا ’’بھائی ساگر سے وہ تمھاری پہلی ملاقات تھی۔ دوسری ملاقات میں وہ تمھیں بھی اسی طرح گالیوں سے نوازیں گے۔‘‘

    وہ دن اور آج کا دن انہوں نے ساگر صاحب سے دوبارہ ملنے کا نام نہیں لیا۔ ساگر صاحب کو پڑھنے سے زیادہ کتابیں خریدنے کا شوق ہے، ان کے پاس انگریزی، ہندی اور اردو کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ ہے۔ جب بھی کوئی نئی کتاب آتی ہے اور انہیں خبر ہوتی ہے وہ خرید لیتے ہیں۔

    ساگر صاحب ایک فنکار کی حیثیت سے ہمہ صفت ہیں۔ وہ فلمی مکالمہ نگار ہیں۔ پروڈیوسر اور ڈائریکٹر ہیں ڈرامہ نویس ہیں اور افسانہ نگار بھی ہیں۔ ڈراموں پر ان کی تین کتابیں آچکی ہیں۔ تنہائی، خیال کی دستک اور بھگت سنگھ۔ کئی یکبابی اور فل لینتھ ڈرامے غیر مطبوعہ ہیں۔ ایک زمانے میں وہ ’اِپٹا‘ کے سرگرم رکن تھے۔ جب بھی اردو ڈرامے کا ذکر ہوتا ہے ان کا نام بہت احترام سے لیا جاتا ہے۔ ڈرامہ نویسی پر انہیں غالب انعام بھی مل چکا ہے۔

    فلم ہو، ڈرامہ ہو یا افسانہ ساگر صاحب چالو فیشنوں سے متاثر نہیں ہوتے۔ وہ اپنے انداز سے کام کرنے کے عادی ہیں۔ انہوں نے ’بازار‘ جیسی موضوعاتی اور رومان پر مبنی فلم اس وقت بنائی جب اسٹنٹ فلموں کا بازار گرم تھا۔ بازار آج بھی محبت پر بنی فلموں میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے۔ انہوں نے شروع میں افسانے بھی لکھے بہت پہلے، ’آوازوں کا میوزیم‘ کے عنوان سے ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔ انہوں نے بہت کم افسانے لکھے مگر جو لکھے ان کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ جس زمانے میں وہ افسانے لکھ رہے تھے۔ جدیدیت اور تجریدیت کا غلغلہ تھا مگر ان کے افسانوں پر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ انہوں نے اپنے ذاتی مشاہدے اور تجربے پر زیادہ بھروسا کیا اور اپنے آس پاس کی دنیا اور ارد گرد کے افراد پر کہانیاں لکھیں۔ ان کے ڈرامے دیکھتے ہوئے اور افسانے پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ انہیں سماج کے دبے کچلے افراد سے خاص ہمدردی ہے۔ ان کے نہ ختم ہونے والے دکھوں اور غموں پر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ عملی طور پر بھی احتجاجی تحریکوں اور عوامی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ میدھا پاٹکر، گدر اور ورورا راؤ جیسی انقلابی شخصیتوں سے ان کے ذاتی مراسم ہیں۔

    فرد کی تنہائی بھی ان کے افسانوں کا خاص موضوع ہے۔ ایسا لگتا ہے تنہائی کے حوالے سے انہیں خود اپنی ذات کی تلاش ہے۔ یہ تلاش انہیں اپنے ارد گرد کے افراد کو قریب سے دیکھنے سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اپنی ذات کی تلاش کا یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔ انہوں نے ایک جگہ اپنا ایک ذاتی واقعہ بیان کیا ہے۔

    ان کا آبائی وطن پیشاور ہے۔ ۱۹۴۷ میں وہ ایک شرنار تھی کی حیثیت سے دلّی میں پناہ گزین تھے۔ اس وقت ان کی عمر دس بارہ برس سے زیادہ نہیں تھی۔ اپنی بستی، اپنا ملک، اپنے لوگ اور اپنی زمین سے بچھڑنے کا غم انہیں کھائے جارہا تھا۔ ایک دن وہ بخار کے عالم میں بھٹکتے ہوئے کسی انجان جگہ پہنچ گئے۔ انہیں شدید پیاس لگی ہوئی تھی۔ سامنے ایک کنویں پر کچھ عورتیں پانی بھر رہی تھیں۔ وہ ان کے قریب گئے اور پانی طلب کیا۔ ایک لڑکی پانی پلانے ان کی طرف بڑھی۔ تبھی ایک دوسری عورت کی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔ یہ تو ہندو ہے یہ سنتے ہی وہ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ آواز آج بھی ان کا پیچھا کرتی رہتی ہے۔ اسی لیے انہیں ان ناموں سے نفرت ہے جو انسان کو انسان سے جدا کرکے صرف ہندو اور مسلمان کے خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کا اصلی نام گنگا ساگر تلوار ہے البتہ وہ فلمی اور ادبی حلقوں میں ساگر سرحدی کے نام سے مشہور ہیں۔ ساگر مذہب کو نہیں مانتے ان کے گھر میں کوئی مورتی یا دیوی دیوتا کی تصویر نہیں ہے۔ وہ صرف انسانیت کے پاسدار ہیں اور اپنے اطراف کے لوگوں میں انسانیت کی رمق تلاش کرتے ہیں۔ آج کل جس قسم کی اول جلول فلمیں بن رہی ہیں۔ ساگر صاحب ان سے سخت نالاں ہیں۔ چند برس پہلے انہوں نے نئے لڑکے اور لڑکیوں کو لے کر چوسر نام کی ایک فلم بنائی تھی فلم کسی وجہ سے ریلیز نہیں ہوسکی اور وہ مقروض ہوگئے۔

    حال فی الحال انہوں نے قرض سے تو چھٹکارا پا لیا ہے مگر بڑھتی عمر کے عوارض انہیں گھیرے رہتے ہیں ساگر سرحدی نے شادی نہیں کی لہٰذا تنہائی اب ان کی مستقل ہمسفر ہے۔ ان سارے مسائل کے باوجود ان کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ اب بھی ایک ایسی فلم بنانے کی فکر میں ہیں جو موجودہ فلمی ڈھرے سے الگ ہو اور بازار کی طرح فلم انڈسٹری کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر سکے۔ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ وہ ایک دن اپنے ارادے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے