Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شاہد بھائی

سلام بن رزاق

شاہد بھائی

سلام بن رزاق

MORE BYسلام بن رزاق

    (بحوالہ مکتبہ جامعہ)

    ابتدائی دنوں میں مجھے شعر گوئی سے لگاؤ تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں میری کچھ نظمیں انجمن ترقی اردو (ہند) کے ہفتہ وار اخبار ہماری زبان میں شائع ہوئی تھیں۔ اس میں انجمن ترقی اردو (ہند) کی ادبی سرگرمیوں کی روداد بھی شائع ہوتی تھی جسے میں بڑے شوق سے پڑھا کرتا۔

    ان سرگرمیوں کو پڑھ کر میرے دل میں بھی امنگ پیدا ہوئی کہ میں بھی اپنے قصبے (پنویل) میں انجمن ترقی اردو ہند کی شاخ قائم کروں۔ آخر چند دوستوں کے ساتھ مل کر میں نے پنویل میں انجمن ترقی اردو (ہند) کی شاخ قائم کردی۔

    اس زمانے میں انجمن ترقی اردو (ہند) مہاراشٹر شاخ کے صدر مکتبہ جامعہ بمبئی کے مینجر جناب شاہد علی خان اور سکریٹری ان کے معاون جناب یوسف کھتری ہوا کرتے تھے۔ یوسف کھتری سے انجمن کے دفتری امور سے متعلق خط و کتابت رہتی تھی۔ ایک دن میں یوسف کھتری سے ملنے مکتبہ جامعہ چلا گیا۔ وہیں پہلی بار شاہد علی خان صاحب سے ملاقات ہوئی۔ شاہد صاحب بڑے تپاک سے ملے اور پنویل جیسے چھوٹے قصبے میں انجمن کی شاخ قائم کرنے پر مجھے سراہا اور میری حوصلہ افزائی کی۔ بعد ازاں مجھے بمبئی میں ملازمت مل گئی۔ اس دوران گھروالوں کے اصرار پر ترت پھرت شادی بھی کرنی پڑی۔ آخر میں نے بمبئی کے مضافات میں ایک کھولی کرائے پر لے کر یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ابھی قلم سے میرا رشتہ مستحکم نہیں ہوا تھا۔ ادھر ادھر کچھ نظموں کے ساتھ دوایک افسانے ضرور شائع ہوئے تھے مگر باقاعدہ لکھنا شروع نہیں کی0ا تھا۔ انجمن کی ذمہ داری پنویل کے چند دوستوں کو سونپ دی تھی لیکن جب بھی کسی کام سے شہر کی طرف جانا ہوتا تو میں مکتبہ جامعہ ضرور جاتا۔ شاہد علی خان صاحب جنہیں میں احتراماً شاہد بھائی کہنے لگا تھا بڑی اپنائیت سے پیش آتے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ میں کچھ لکھتا لکھاتا بھی ہوں تو انہوں نے مکتبہ جامعہ سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالے پیام تعلیم میں لکھنے کی ترغیب دی۔ میں گاہے گاہے پیام تعلیم میں بھی لکھنے لگا۔

    ترقی پسند کے عروج کا زمانہ تھا۔ بمبئی میں ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی دھوم تھی۔

    جدیدیت بھی اپنے پر پرُزے نکال رہی تھی مگر میں نہ ترقی پسندی سے واقف تھا نہ جدیدیت سے، کرشن چندر، سردار جعفری، مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی جیسے بڑے ادیبوں اور شاعروں کے نام ضرور سنے تھے۔ تھوڑا بہت انہیں پڑھا بھی تھا مگر ملاقات کسی سے نہیں ہوئی تھی۔ جدید لکھنے والوں سے تو بالکل بھی نہیں۔

    میں ایک چھوٹے قصبے سے شہر آیا تھا۔ ادب کی دنیا میں بھی نووارد تھا لہٰذا بڑے شاعروں اور ادیبوں سے ملتے ہوئے میں نروس ہوجاتا تھا۔ ایک بار میں کسی کام سے مکتبہ گیا۔ وہاں ایک صاحب شیروانی اور علی گڑھی پاجامے میں ملبوس شاہد بھائی سے محو گفتگو تھے۔ شاہد بھائی نے تعارف کرایا، ’’سلام میاں! یہ قاضی سلیم ہیں۔‘‘ اس وقت تک میں نے نہ قاضی سلیم کا نام سنا تھا نہ ان کی کوئی چیز پڑھی تھی۔ بوکھلاہٹ میں نام بھی ٹھیک سے سن نہیں پایا۔ بعد میں یوسف کھتری سے پوچھا۔ ’’یہ حاجی سلیم کون ہیں؟‘‘ یوسف کھتری پہلے تو ہنسے پھر بولے۔ ’’ارے بھائی! وہ حاجی سلیم نہیں قاضی سلیم ہیں۔ جدیدیت کے نمائندہ شاعر ہیں۔‘‘

    ان دنوں مکتبہ جامعہ اردو ادیبوں اور شاعروں کی آما جگاہ بنا ہوا تھا۔ بالخصوص سنیچر کی شام کو بمبئی کے قلمکاروں کا اچھا خاصا جمگھٹا رہتا جس میں باقر مہدی فضیل جعفری، یوسف ناظم، ندا فاضلی اور انور خان وغیرہ شریک رہتے۔ بعد میں، میں بھی ہر سنیچر کو باقاعدہ حاضری دینے لگا۔

    مکتبہ جامعہ پر ہونے والی علمی اور ادبی گفتگو کا کچھ ایسا چسکا لگا کہ سنیچر کے روز سہ پہر کے بعد قدم خود بخود مکتبہ جامعہ کی جانب اٹھ جاتے تھے۔

    مجھے کالج اور یونیورسٹی سے فیضیاب ہونے کے مواقع نہیں ملے تاہم میری ذہن سازی میں مکتبہ کی ان محفلوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ آج بھی جب ان محفلوں کو یاد کرتا ہوں توذہن کے پردے پر کتنی ہی تصویریں متحرک ہوجاتی ہیں۔ باقر مہدی کے بلند بانگ قہقہے فضیل جعفری کی دو ٹوک گفتگو یوسف ناظم کے پر مزاح فقرے، ندا فاضلی کے دلچسپ چٹکلے، پوری محفل ہر دم زعفران زار بنی رہتی ان سب پر مستزاد شاہد بھائی (شاہد علی خان) کے مسکراہٹ بکھیرتے دھواں دھار کش آج جب کہ اس قسم کی محفلیں عنقا ہوچکی ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی ذہنی تربیت کے لیے ایسی محفلوں کی کتنی اہمیت ہوتی ہے۔

    میں بمبئی میونسپل کارپوریشن میں مدرس کی حیثیت سے ملازم تھا۔ اس زمانے میں مدرس کی تنخواہ بہت معمولی تھی۔ شادی کے بعد گھریلو ذمہ داریاں اور اخراجات بڑھ گئے تھے۔ مالی حالت پہلے بھی خستہ تھی نئی گرھستی کے بعد مزید خستہ ہوگئی۔ بمبئی میں نیا تھا۔ زیادہ شناسائی بھی نہیں تھی۔ اسکول کی تنخواہ میں تنگی ترشی سے گزاراہ ہو رہا تھا۔ سوچا کچھ ٹیوشن کرلوں مگر میں جس علاقے میں رہتا تھا وہ معمولی مل مزدوروں کی بستی تھی۔ وہاں بھلا ٹیوشن وغیرہ کی گنجائش کہاں؟ مکتبہ جامعہ کے آس پاس بھنڈی بازار اور ناگپاڑہ کے علاقے میں کھاتے پیتے لوگ رہتے تھے۔ جہاں ٹیوشن مل سکتے تھے۔ ایک دن میں نے جھجکتے ہوئے شاہد بھائی سے درخواست کی کہ وہ مجھے کوئی معقول ٹیوشن دلا دیں۔ چند روز بعد شاہد بھائی نے مجھے ایک ٹیوشن دلوا دیا۔ چالیس روپے ماہوار فیس طے ہوئی۔ مالی طور پر تھوڑی راحت ملی۔ اس ٹیوشن سے میں اس لیے بھی خوش تھا کہ یہ ٹیوشن بھنڈی بازار ہی میں تھا۔ اس بہانے مجھے مکتبہ جامع کی سینچری محفلوں میں شرکت کرنے کا بھی موقع ملنے لگا۔ اس طرح وہاں آنے والے قلمکاروں سے میرے مراسم میں اضافہ ہوا اور ادب کے مطالعہ میں میری دلچسپی بڑھتی گئی۔ اس ٹیوشن کے لیے میں شاہد بھائی کا شکر گزار رہوں۔

    یہ ٹیوشن دو برس تک قائم رہا۔ بعد میں میں نے خود ہی اسے خیرباد کہہ دیا کیوں کہ میں چوبیس گھنٹے مدرس بنا نہیں رہ سکتا تھا۔ لکھنا اب میری روز مرہ کی زندگی کا ناگزیر حصہ بن چکا تھا۔ چند برس بعد شاہد بھائی مکتبہ جامعہ کے جنرل مینجر بن کر دلّی چلے گئے۔ ان کے جانے سے مکتبہ جامعہ کی سنیچری محفل کی رونق ختم ہوگئی۔ ادیبوں اور شاعروں کی آواجاہی بھی کم ہوگئی۔ شروع شروع میں سال چھے مہینے بعد شاہد بھائی جب کبھی مکتبہ وزٹ پر بمبئی آتے اور سنیچری محفل کے احباب کو اطلاع ملتی تو اکا دکا ملنے چلا جاتا۔ رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا اور اب تو لوگ باگ یہ بھی بھول چکے ہیں کہ مکتبہ جامعہ کبھی تشنہ گان ادب کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ دلّی جانے کے بعد شروع شروع میں شاہد بھائی سے میری خط و کتابت رہی، بعد میں وقت کے غبار میں وہ سلسلہ بھی معدوم ہوگیا۔

    ۱۹۸۵ میں دلّی اردو اکیڈمی کی جانب سے کل ہند افسانہ سیمنار منعقد ہوا۔ سیمنار میں ممبئی سے اس وقت کے نووارد ان ادب انور خان انور قمر، علی امام نقوی، مشتاق مومن، ساجد رشید اور راقم الحروف نے شرکت کی تھی۔ شاہد بھائی جلسہ گاہ میں بطور خاص بمبئی کے فنکاروں سے ملنے آئے۔ بمبئی سے اتنے افسانہ نگاروں کی نمائندگی پر خوشی کا اظہار کیا اور اپنی رہائش گاہ پر ایک پر تکلف عشائیہ کا اہتمام بھی کیا۔ بمبئی والوں سے ان کے یہ روابط کم کم ہی سہی مگر آج بھی جاری ہیں۔ البتہ بمبئی والوں سے قربت اور محبت کے باوجود بمبئی کے ادیبوں کو شاہد بھائی سے یہ شکایت رہی کہ ان کی کارکردگی کے دور میں مکتبہ جامعہ کے اشاعتی پروگرام میں بمبئی کے لکھنے والوں کو خاطر خواہ نمائندگی نہیں مل سکی۔ خیر یہ شکایت بھی اب رفت گذشت ہوگئی۔

    شاہد بھائی کو مکتبہ جامعہ سے علاحدہ ہوئے ایک عرصہ ہوگیا۔ انہوں نے اپنا ذاتی پبلشنگ ادارہ قائم کر لیا ہے۔ ان کی ادارت میں نئی کتاب نام کا ایک سہ ماہی رسالہ بھی نکلتا ہے۔ اب مکتبہ جامعہ سے شاہد بھائی کا کوئی تعلق نہیں رہا لیکن بمبئی کے وہ ادیب جنہوں نے شاہد بھائی کے زمانے میں مکتبہ کے اس سنہرے دور کو دیکھا ہے آج بھی شاہد بھائی کو یاد کرتے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے