Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شعریت کیا ہے؟

کلیم الدین احمد

شعریت کیا ہے؟

کلیم الدین احمد

MORE BYکلیم الدین احمد

    سرورؔ صاحب فرماتے ہیں، ’’معاصر کے حصۂ نظم میں شعریت کم ہے۔ شعریت سے میری مراد وہ رسیلاپن نہیں ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے بلکہ وہ جذبات کی شدت، وہ والہانہ کیفیت، وہ بات کو اس طرح کہنے کی عادت کہ پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لئے چونک اٹھے اور اس کے سامنے خیالات کی ایک پوری دنیا آ جائے۔ غرض وہ سارا اسلوب جو شعر کو نثر ہونے سے بچاتا ہے، کم نظر آتا ہے۔’‘

    اب سوال یہ ہے کہ شعریت کیا ہے؟ سرور صاحب تین چیزوں کا ذکر کرتے ہیں، جذبات کی شدت، والہانہ کیفیت، بات کو اس طرح کہنے کی عادت کہ پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لئے چونک اٹھے اور اس کے سامنے خیالات کی ایک پوری دنیا آ جائے۔ دوران گفتگو میں انھوں نے فرمایا تھا کہ شعر میں جادو کا قائل ہوں۔ غالباً ’’جادو‘‘اور ’’بات کو اس طرح کہنے کی عادت کہ پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لئے چونک اٹھے۔’‘ دونوں ایک ہیں۔ جادو اور شاعری میں ہمیشہ لگاؤ رہا ہے۔ جادو اور شاعری ایک دلچسپ موضوع ہے اور اس موضوع پر تحقیق و تدقیق کے بعد ایک مفصل کتاب لکھی جا سکتی ہے لیکن اس کا یہ موقع نہیں۔

    انسان نے جب سے ہوش سنبھالا تو دنیا میں اسے ہر شے عجیب اور پراسرار معلوم ہوتی تھی۔ ہرچیز اسے کسی غیبی طاقت، کسی فوق الفطرت ہستی کا کرشمہ نظر آتی تھی۔ جس کسی فطرت مظاہرہ کا سبب اس کا نوزائیدہ ہوش سمجھ نہ سکتا تھا، اسے وہ فوق الفطرت طاقت پر محمول کرتا تھا، اس لئے جادو پر ایمان لانا اس کے لئے کچھ مشکل نہ تھا۔ یہ یقین محکم ہوتا گیا اور سائنس کے دور سے پہلے یہ یقین عالمگیر تھا۔ بہرکیف شعر بھی اسے جادو کا کرشمہ نظر آیا، کیونکہ وہ شعر سے متاثر ہوتا تھا لیکن اس اثر کی وجہ اسے سمجھ میں نہ آتی تھی۔ شاعر گویا ایک ساحر تھا جو الفاظ کے ذریعہ سامعین پر جادو کر سکتا تھا۔ شاعری ایک پراسرار کرشمہ تھی جس کا بھید سمجھنے سے عقل عاجز تھی۔ یہ نقطۂ نظر محکم ہوتا گیا۔ ایسا محکم ہوا کہ ابھی تک شعوری یا غیرشعوری طور پر حال کی تنقیدوں میں بھی کارفرما ہے۔

    سائنس کی ترقی نے اگر جادو کو صفحۂ ہستی سے مٹایا نہیں تو اس کے نقش کو دھندلا تو ضرور بنا دیا ہے۔ جادو جہالت کی پیداوار ہے، یہ تاریکی میں پرورش پاتا ہے۔ علم کی روشنی اس کے لئے سم قاتل ہے۔ اگر عہد وسطیٰ میں کوئی شخص ہوائی جہاز میں پرواز کناں نظر آتا تو سب اسے فوراً ساحر تصور کر لیتے اور ہوائی جہاز کو جادو کا کرشمہ خیال کرتے لیکن آج ہوائی جہاز کوئی غیرمعمولی شے نہیں۔ دوسرے علوم کی طرح شاعری بھی انسان کی دماغی تحریکات کی ایک صورت ہے۔ شاعری کو بھی سائنٹفک نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہئے۔ شاعری کو جادوگری سے تعبیر کرنا اور شعر کو جادو کہنا موضوع سے گریز کرنا ہے۔

    اگر جادو شعر کی لازمی خصوصیت ہے تو پھر یہ یاد رہے کہ جادو کی دو قسمیں ہیں، ایک تو وہ جسے صحیح معنوں میں جادو کہہ سکتے ہیں۔ دوسری شعبدہ بازی۔ شعبدہ بازی کی بنیاد فریب پر قائم ہے۔ شعبدہ باز بظاہر حیرت انگیز کرشمے کر سکتا ہے، دراصل وہ کسی فوق الفطرت قوت کا حامل نہیں۔ وہ اپنی چابک دستی سے تماشائیوں کو دام تحیر میں گرفتار کرتا ہے لیکن جسے بصیرت ہے وہ جانتا ہے کہ یہ شعبدہ بازی ہے، معجزہ نہیں، ایک دھوکہ ہے۔ جادوگر شعبدہ بازنہیں۔ وہ تماشائیوں کو دھوکا نہیں دیتا۔ وہ فوق الفطرت قوت رکھتا ہے یا وہ فطرت کی نامعلوم اور پراسرار طاقتوں سے مصرف لیتا ہے۔ اگر شاعر کو جادو گر قرار دیا جائے تو پھر اس کا لحاظ رہے کہ شاعری حقیقی جادو گری ہو محض شعبدہ بازی نہ ہو۔ اردو میں عموماً اس فرق کو اور اس فرق کی اہمیت کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے، مثلاً جگرؔ کا یہ شعر لیجئے،

    ان لبوں کی جاں نوازی دیکھنا

    منھ سے اٹھنے کو ہے جام شراب

    سطحی نظر کو غالباً اس شعر میں جادو نظر آئےگا۔ پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لئے چونک اٹھےگا لیکن اس شعر میں جادو نہیں شعبدہ بازی البتہ موجود ہے۔ چند الفاظ کے انتخاب اور ان کی ترتیب نے بظاہر ایک حیرت انگیز کرشمہ دکھایا ہے لیکن دراصل اس شعر میں محض لفظی شعبدہ بازی ہے۔ لبوں، جان نوازی، منھ، بول اٹھنے کو ہے، عموماً اس لفظی شعبدہ بازی کو جادو تصور کیا جاتا ہے۔ یہ سطحی چیز ہے اس لئے پڑھنے والا بغیر توجہ خاص کے اسے فوراً دیکھ لیتا ہے۔ وہ وقتی طور پر متاثر ہوتا یا چونک اٹھتا ہے لیکن یہ اثر دیرپا نہیں ہوتا۔ بصیرت کی روشنی میں یہ فوری اثر بھی فنا ہو جاتا ہے۔ جسے غوروفکر کی عادت ہے، جس کی نگاہ عمیق وباریک بیں ہے، جو شاعری کی ماہیت سے واقف ہے، وہ یہ شعر سن کر چونک نہیں اٹھتا ہے۔ وہ صرف شاعر کی چابکدستی پر متبسم ہو جاتا ہے۔ یہ وہی چابکدستی ہے جس کا نتیجہ ’’گلزار نسیم‘‘ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نسیم نے عیب کو کسی حد تک ہنر بنا دیا ہے۔ جگرؔ کے شعر میں عیب نے ہنر کی شکل اختیار نہیں کی ہے۔ جگر کی شعبدہ بازی کا میرؔ کی جادوگری سے مقابلہ کیجئے،

    جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم

    سو اس عہد کو اب وفا کر چلے

    بظاہر اس شعر میں کچھ بھی نہیں۔ سیدھے سادھے الفاظ ہیں اور بس، لیکن اس شعر سے ہم تھوڑی دیر کے لئے چونک اٹھنے کے بدلے جتنا غور کرتے ہیں، اتنا ہمارا استعجاب بڑھتا جاتا ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ جگرؔ کا شعر محض رعایت لفظی کا نتیجہ ہے اور جس ’’جادو‘‘ کو شعر کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے، وہ اس میں موجود نہیں، اس لئے میں ایک دوسری مثال پیش کرتا ہوں۔ یہ شعر فانیؔ کا ہے اور جس ’’جادو‘‘ جس اسلوب کی طرف سرورؔ صاحب نے اشارہ کیا ہے، وہ اس میں موجود ہے،

    اس کو بھولے تو ہوئے ہو فانی

    کیا کروگے وہ اگر یاد آیا

    ’بھولے‘ اور ’یاد‘ یہاں بھی رعایت لفظی موجود ہے لیکن شعر کی تاثیر کا سبب محض رعایت لفظی نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس شعر کی تاثیر جگرؔ کے شعر کی تاثیر سے زیادہ گہری اور دیرپا ہے۔ پڑھنے والا چونک اٹھتا ہے اور اس کے سامنے خیالات کی ایک پوری دنیا آ جاتی ہے۔ اگر جگرؔ کے شعر میں محض شعبدہ بازی تھی تو اس شعر میں شعبدہ بازی اور جادو گری میں اس قدر قربت ہے کہ دونوں میں تمیز مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں، اب ذوقؔ کا یہ شعر ملاحظہ ہو،

    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

    مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

    جادوگری یا شاعری اسے کہتے ہیں۔ لیکن جس جادو، جس اسلوب کی عموماً تلاش کی جاتی ہے، وہ وہی ہے جو جگرؔ یا زیادہ سے زیادہ فانیؔ کے شعر میں نظر آتا ہے۔

    جقیقی جادو وہ ہے جسے دیکھنے والا جادو نہ سمجھے، جو بظاہر معمولی سی چیز معلوم ہو، جس کا حیرت انگریز کرشمہ غوروفکر کے بعد سمجھ میں آئے، جو دیکھنے میں آسان سیدھا سادا ہو لیکن جس میں ایسی گہرائی، پیچیدگی اور باریکی ہو کہ غور کرنے سے استعجاب بڑھتا جائے۔ ہمارے گرد وپیش ہرساعت بلکہ ہر لمحہ ایسے ایسے حیرت انگریز واقعات ہوتے رہتے ہیں جن کے آگے جادو کے کرشمے حقیر اور بے وقعت معلوم ہوتے ہیں۔ فطرت کا جادو سب سے قوی ہے لیکن سطحی نظر اس سے آگاہ بھی نہیں ہوتی۔ انسانی جسم کی تشریح پر غور کیجئے، کس قدر پیچیدہ، باریک اور عجیب طور پر انسانی جسم کی بناوٹ اور اس کی زندگی کی بقا کا سلسلہ قائم ہے۔

    پھولوں کو دیکھئے، کس طرح فطرت نے پھولوں کی زندگی اور ان کے تسلسل کے اسباب مہیا کئے ہیں، حامل زر، زر گل، بقچۂ گل، کیسہ تخم کی ساخت، پھر ہوا کا کیڑوں کے ذریعہ زر گل کا حامل زر سے بقچۂ گل تک پہنچنا اور اس طرح پھولوں کی بقا کا سلسلہ جاری رہنا، یہ چیزیں کس قدر تعجب خیز ہیں لیکن ہم ان کی طرف متوجہ بھی نہیں ہوتے یعنی ہمیں آنکھیں ہیں لیکن بصیرت نہیں، ہم عقل تو رکھتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں، بہترین شاعری میں اگر کوئی جادو ہے تو وہ اسی قسم کا ہے۔ ان دو شعروں میں کوئی جادو نہیں۔

    آپ ہیں ہم ہیں مے ہے ساقی ہے

    یہ بھی اک امر اتفاقی ہے

    نوحؔ ناروی

    اچانک نزول بلا ہو گیا

    یکایک ترا سامنا ہو گیا

    آزاد انصاری

    اسی طرح فانیؔ کے اس شعر میں بھی حقیقی جادو نہیں،

    یوں سب کو بھلادے کہ تجھے کوئی نہ بھولے

    دنیا ہی میں رہنا ہے تو دنیا سے گذر جا

    پہلے دو شعر مبتذل ہیں۔ فانیؔ کا شعر برا نہیں لیکن ان تینوں میں ایک چیز مشترک ہے۔ یعنی ان میں اسلوب بیان، نفس مضمون سے زیادہ ہے۔ جو شے ہمیں کھینچتی ہے، جس سے ہم چونک اٹھتے ہیں، وہ اسلوب ہے۔ اب ذرا غالبؔ کا یہ شعر ملاحظہ ہو،

    کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند

    کس کی حاجت روا کرے کوئی

    یہاں نفس مضمون اور اسلوب دونوں یکساں اہمیت رکھتے ہیں، الفاظ معمولی ہیں لیکن غور کرنے سے اس شعر کے حسن اور خیال کی گہرائی دونوں میں نمایاں ترقی ہوتی ہے۔ شاعری میں الفاظ محض ذریعہ ہیں اظہار خیالات وجذبات کا۔ اگر انھوں نے تجربات سے زیادہ اہمیت اختیار کر لی تو پھر شاعری ممکن نہیں، اگر شاعر نے قصداً بات کو اس طرح کہنے کی عادت ڈالی کہ پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لئے چونک اٹھے تو اس کے لئے شاعری، کامیاب شاعری اگر ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہو جائےگی۔ اسے بات کو اس طرح کہنے کی عادت ڈالنی چاہئے کہ پڑھنے والا چونک اٹھنے کے بدلے یہ سمجھے کہ شعر محض سیدھا سیدھا ہے لیکن جسے غور کرنے پر شعر کی باریکی، پیچیدگی، گہرائی کا احساس ہو اور یہ احساس بڑھتا جائے۔

    شاعری نہ تو شعبدہ بازی ہے اور نہ جادوگری۔ شاعری نام ہے انسانی تجربات، خیالات وجذبات کے اظہار کا اور یہ اظہار الفاظ، نقوش (یا تخئیلی پیکروں) اور اوزان کی مدد سے ہوتا ہے۔ تجربات مختلف قسم کے اور مختلف دماغی اور جذباتی سطح پر ہوتے ہیں۔ ہرتجربہ صرف قابل قدر ہی نہیں بلکہ یکساں ہوتا ہے، اس لئے اس کے بیان میں بھی یکتائی کا وجود ضروری ہے۔ اگر تجربات میں اصلیت ہے اور شاعر کو الفاظ، نقوش اور اوزان پر قدرت حاصل ہے تو پھر نتیجہ کامیاب شاعری ہے۔ اگر تجربہ میں اصلیت نہیں، اگر اس میں کسی قسم کا نقص ہے تو یہ نقص، یہ اصلیت کی کمی اسلوب بیان میں ظاہر ہو جائےگی۔ اگر اسلوب میں کوئی خامی ہے تو پھر تجربہ بھی ناقص ہوگا۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ حسین الفاظ ایک جگہ اکٹھا ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی شعر کامیاب نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں شعر ایک حسین سرد و بے جان مجسمہ ہوتا ہے۔

    سرور صاحب بجا فرماتے ہیں کہ شعریت کے لئے جذبات کی شدت، ایک والہانہ کیفیت ضروری ہے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ’’والہانہ کیفیت‘‘، یہ ’’جذبات کی شدت‘‘ حقیقی ہو نقلی نہ ہو۔ جگرؔ کے اس شعر میں،

    آئی کسی کی یاد تو آتی چلی گئی

    ہر نقش ما سوا کو مٹاتی چلی گئی

    نہ تو جذبات کی شدت ہے اور نہ حقیقی والہانہ کیفیت۔ اس میں زبان کی صفائی اور روانی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ زبان کی صفائی اور روانی، الفاظ کی شان وشوکت، بندشوں کی چستی، لہجہ کی بلندی، اکثر ان چیزوں کے وجود کو جذبات کی شدت کی دلیل سمجھتا جاتا ہے لیکن وہ جذبات کی شدت جو میرؔ کے اس شعر میں موجود ہے جگرؔ کے شعروں میں کہیں نظر نہیں آتی،

    شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے

    دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

    اچھے شعروں میں ایک خاص لہجہ ہوتا ہے جو جذبات کی شدت اور اصلیت پر دلالت کرتا ہے۔ اس لہجہ کی پہچان مشکل ہے۔ اس کے لئے حساس طبیعت اور باریک بصیرت ضروری ہے۔

    اردو شعرا اور نقاد غزلوں کے اس قدر خوگر ہو گئے ہیں کہ وہ نظم کے محاسن سے آگاہ نہیں ہوتے۔ موجودہ زمانے میں کہنے کو نظمیں لکھی گئیں اور لکھی جارہی ہیں لیکن زیادہ تر نظمیں مربوط اشعار سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں۔ نظم ایک پیچیدہ شے ہے۔ اس میں ہر شعر یا ہر سطر بجائے خود زیادہ اہم نہیں۔ یہ شعر یا سطر مکمل نظم کی ترقی کا سبب ہے۔ اگر ہر شعر یا سطر جگرؔ کے اشعار کی طرح اپنی طرف توجہ جذب کر لے یا اگر ہر شعر یا سطر پڑھنے والے کو چونکا دے یعنی اگر جزئیات اہمیت اختیار کر لیں تو پھر کامیاب نظم کا وجود ممکن نہیں۔ مطلب یہ نہیں کہ ہرشعر سپاٹ ہو لیکن اتنا حسین بھی نہ ہو کہ پڑھنے والے کی توجہ اپنی طرف جذب کر لے اور اسے نظم کی ترقی کی طرف سے بے پروا بنا دے۔

    مثلاً جوشؔ کی نظم ’’البیلی صبح‘‘دراصل نظم نہیں۔ ہر شعر مکمل ہے اور ہر شعر کے بعد پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جاتا ہے۔ حسین استعارے اور تشبیہیں ہیں لیکن یہ گویا اپنے حسن، اپنی قدر وقیمت سے آگاہ ہیں۔ ہر تصویر گویا کہتی ہے، ’’مجھے دیکھو میں کس قدر حسین ہوں!’‘ جزئیات میں اس قسم کا حسن نظم کے لئے سم قاتل سے کم نہیں۔ حسین جزئیات نظم میں ہوتی ہیں لیکن ان کا حقیقی حسن یہ ہے کہ وہ نظم کے حسن میں اضافہ کرتی ہیں۔ نظم میں جزئیات کے حسن سے زیادہ اہم ’’حسن صورت‘‘ ہے لیکن حسن صورت کی تمیز اور اس کی قدر اردو انشا پردازوں کے لئے خصوصاً بہت مشکل ہے۔ وہ نظموں میں بھی اشعار کے محاسن ڈھونڈتے ہیں اور انھیں کسی نظم میں جزئی حسن، حسین وشیریں الفاظ، دلکش بندشیں، نئے استعارے، انوکھی تشبیہیں، جاذب نظر صورتیں، یہ سب چیزیں نہیں ملتیں تو بےچارگی و لاچاری کی تصویر بن جاتے ہیں۔

    میں نے سرورؔ صاحب سے کہا تھا کہ اگر وہ عام تنقید کے بدلے کسی ایک نظم پر تفصیل کے ساتھ تنقید کرتے تو یہ تنقید زیادہ مفید ہوتی، کم از کم ان کے خیالات زیادہ واضح ہو جاتے۔ میں طوالت کے خوف سے صرف ایک نظم کی مفصل تنقید پر قناعت کرتا ہوں۔ ’’معاصر‘‘جنوری نمبر میں ایک نظم ہے ’’عالم تنہائی۔’‘ سرورؔ صاحب نے اس نظم کا ذکر نہیں کیا ہے لیکن غالباً ان کی تنقید کے حلقہ میں یہ نظم بھی داخل ہے۔ اگر سرورؔ صاحب نظموں کی زبان یا طرز ادا کے نقائص بیان کرتے تو مجھے اس قدر تعجب نہ ہوتا۔ ’’معاصر‘‘کی بیشتر نظمیں واقعی حالات اور واردات پر مبنی ہیں اور اگر ان میں کوئی شے مثل آفتاب روشن ہے تو وہ جذبات کی شدت اور اصلیت ہے، جذبات کی شدت اور اصلیت شاعری کے لئے ضروری ہے لیکن جذبات پر قابو بھی ضروری ہے۔ اگر شاعر کو اپنے جذبات پر قابو نہیں تو پھر وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ عموماً اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ دوسری اہم چیز یہ ہے کہ جذبات کا جوش، جذبات کی افراط یا نمائش کی صورت نہ اختیار کر لے۔ جو شخص آسانی سے اپنے جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے، جو اپنے جذبات کی موجودگی کو افراط یا نمائش کی صورت میں تبدیل ہونے دیتا ہے، اسے ہم کمزور اور حقیر خیال کرتے ہیں۔ شاعر کے لئے اس قسم کی کمزوری ناکامی کا پیش خیمہ ہے۔

    ان حقیقتوں کو مدنظر رکھ کر ’’عالم تنہائی‘‘کا تجزیہ کیجئے اور یہ بھی یاد رہے کہ شاعری میں لہجہ اور حرکت اہم چیزیں ہیں۔ بہرکیف اس نظم میں جذبات کی شدت ہے اور شدت کے ساتھ شاعر کو ان پر قابو بھی ہے۔ جذبات کی ایسی شدت ہے کہ باوجود زبردست قابو کے بھی آواز رکی رکی معلوم ہوتی ہے۔ اگر شاعر کو قابو نہ ہوتا تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ آواز بند ہو جاتی اور آنسوؤں کا سیلاب رواں ہو جاتا،

    ہے زیر زمیں پنہاں

    دل اس کا مگر خواہاں

    ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر ہر لفظ کا بولنا تکلف کا باعث ہے اور شاعر کا قابو مستقل نہیں۔ اگر کسی شے، کسی خیال، کسی بات سے دل کو ٹھیس لگ جائے تو پھر وہ اپنے جذبات سے مغلوب ہو جائےگا۔

    اس نظم میں محض تسلسل ’’جامعیت، خیال کی وضاحت، الفاظ کی سادگی‘‘یہ چیزیں موجود نہیں۔ سب سے اہم چیز جذبات کی شدت ہے، جیسے جیسے نظم کی ترقی ہوتی ہے، شاعر کا قابو بڑھتا جاتا ہے۔ لہجہ اور حرکت میں نمایاں تغیر ہوتا ہے۔ لہجہ صاف اور متعین ہوتا ہے، مصرعوں میں روانی اور ایک قسم کا زور ہے۔ وہ پہلی رکاوٹ اب نہیں کیونکہ پڑھنے والا چونک اٹھتا ہے اور یہ چونک اٹھنا کسی حسین بندش یا تشبیہ کا نتیجہ نہیں کیونکہ چونک اٹھنے کا سبب تجربے کی نوعیت، جدت اور یکتائی ہے۔ تعجب ہے کہ اس نظم کو پڑھ کر بھی سرورؔ صاحب فرماتے ہیں، ’’معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں سوچ سوچ کر دماغ سے اتاری گئی ہیں، دل پر گذری نہیں۔’‘

    اس نظم میں صناعی ضرور ہے اور صناعی شاعری کے لئے لازمی ہے لیکن تصنع مطلق نہیں۔ باتیں سوچ سوچ کر دماغ سے نہیں اتاری گئی ہیں بلکہ جو دل پر گذری ہے، اس کی صفحے پر تصویر کھینچی گئی ہے یعنی اس نظم میں واقعیت ہے، وہ واقعیت جس کا دور حاضر کی نظموں میں عموماً فقدان ہے۔ اس نظم سے متعلق ڈاکٹر عندلیب شادانی یوں رقم طراز ہیں، ’’آپ کی چھوٹی سی نظم جو ’’عالم تنہائی‘‘کے عنوان سے جنوری نمبر میں شائع ہوئی ہے، مجھے بہت پسند آئی، میں نے کئی بار اسے پڑھا اور بےحد متاثر ہوا۔ سچ یہ ہے کہ انچہ از دل خیزد، بردل ریزد، کاش! ہمارے ’اساتذۂ دور حاضر‘ شاعری میں حقیت نگاری کے عنصر کی اہمیت کو سمجھتے۔’‘

    دوسری نظموں خصوصاً ’’انتظار‘‘ ور ’’وحشت‘‘میں بھی یہی واقعیت، یہی حقیقت نگاری ہے۔ سرورؔ صاحب کہتے ہیں، ’’انتظار‘‘ میں کوئی خاص بات پیدا نہیں ہونے پائی۔ معلوم نہیں کوئی خاص بات سے سرورؔ صاحب کا کیا مطلب ہے لیکن دوسرے بند کو غور سے پڑھئے۔

    جو چاہا میں نے، بنایا اسے، وہ ہو کے رہا

    جو جانے والی تھیں چیزیں انھیں میں کھو کے رہا

    ہنسا بھی خوب پر آٹھ آٹھ آنسو روکے رہا

    بڑھی وہ عمر کہ جینے سے ہاتھ دھوکے رہا

    نہ باقی ہوش، نہ صبروقرار باقی ہے

    وہ کیا ہے جس کا مجھے انتظار باقی ہے

    یہاں بھی وہی حقیقت نگاری ہے جو ’’عالم تنہائی‘‘میں ہے۔ ہر مصرعہ ایک واقعہ ہے اور اس کے سیدھے سادھے بیان میں جو اثر ہے وہ حسین تصویروں، جاذب نظر بندشوں میں ممکن نہیں، طوالت مانع آتی ہے ورنہ میں ان نظموں سے متعلق بھی تفصیل کے ساتھ لکھتا، ان نظموں میں بھی جذبات کی شدت ہے۔ سادگی نثریت کے سبب سے نہیں۔ یہ تنقید کا پیش پا افتادہ نکتہ ہے کہ خلوص کی زبان سیدھی سادی ہوتی ہے۔ اگر شاعر کے جذبات میں شدت واصلیت ہے تو عموماً اسلوب میں حیرت انگیز سادگی ظاہر ہوتی ہے جو بظاہر نثر سے مشابہ معلوم ہوتی ہے لیکن ایسی سادگی اور نثر میں مشرقین کا فرق ہے۔

    (’’معاصر‘‘ سے متعلق سرورؔ صاحب نے اپنے خط میں اظہار خیال فرمایا تھا۔ اس خط پر یہ نوٹ لکھا گیا تھا اور معاصر کے حصہ نظم پر جو تنقید تھی، اسی سے متعلق کچھ اصولی باتیں کہی گئی تھیں۔ ’’معاصر‘‘ جلد ۲، نمبر۳، جولائی ۱۹۴۱ء۔)

    مأخذ:

    سخن ہائے گفتنی (Pg. 32)

    • مصنف: کلیم الدین احمد
      • ناشر: کتاب منزل سبزی باغ، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1967

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے