Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تنقید اور ادبی تنقید

کلیم الدین احمد

تنقید اور ادبی تنقید

کلیم الدین احمد

MORE BYکلیم الدین احمد

     

     (۱) اس میں ایک بات یہاں اور جوڑ لیجئے کہ بچے کی تنقیدی صلاحیت واستعداد بھی اسی طرح بالکل فطری اور طبعی انداز سے خود بخود بڑھتی اور ابھرتی ہے، یہ صلاحیت بڑی دھیمی رفتار سے ابھرتی ہے اور بالکل غیرمرئی ہوتی ہے۔ اگرچہ ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جہاں ہم اسے دیکھ بھی سکتے ہیں کہ فرق وتمیز کی صلاحیت بچے کے اندر صاف نمایاں ہے مثلاً دو کھلونے اس کے سامنے رکھ دیجئے پھر دیکھئے ان میں سے ایک کو وہ پسند کر لےگا اور دوسرے کو صاف رد کر دےگا۔
     
    فرق وتمیز کی اس صلاحیت کا ظہور ہوتا تو آغاز ہی سے ہے مگر ابتدا میں وہ ’’طبعی جبلت‘‘ کا انداز لئے ہوتی ہے، بچہ تمیز تو کرتا ہے مگر اس معاملۂ تمیز میں وہ کسی ناقابل فہم جبلت کے زیر اثر ہوتا ہے، وہ جو کچھ بھی کرتا ہے سوچ سمجھ کے نہیں کرتا۔ اسے مطلق خبر نہیں ہوتی کہ اس نے جو فلاں حرکت کی تو اس کا اصلی سبب اور محرک کیا تھا، وہ کون سی چیز تھی جو اس عمل کی موجب ہوئی یا اگر کچھ آگہی اس کو ہوگی بھی تو بہت ہی دھندلی دھندلی اور گول مول سی ہوتی ہوگی۔ وہ اپنے کسی عمل کے ’’سبب‘‘ سے نہ تو پوری طرح خود آگاہ ہوتا ہے نہ اپنی اس ’’معقولیت‘‘ سے کسی دوسرے کو آگاہ کر سکتا ہے۔ قوت نقد وانتقاد تو بیشک موجود ہوتی ہے مگر ناصاف اور غیرمربوط۔ وہ مختلف چیزوں میں تقابل بھی کرتا ہے، امتیاز برتتا ہے، آنکتا بھی ہے اور تخمینہ بھی کرتا ہے لیکن اس کا یہ آنکنا اور تخمینہ کرنا انتہائی نجی اور شخصی نوعیت کی چیز ہوتی ہے اور اتنی ہی ڈانواں ڈول بھی یعنی اس میں استقلال بالکل نہیں ہوتا اور جیسا کہ ابھی میں نے کہا، اس کی یہ کیفیت نہایت مبہم سی اور بے ربط ہوتی ہے۔
     
     نقدوانتقاد اور فرق وامتیاز کی واضح اور مربوط صلاحیت کی کمی جس طرح بچوں میں ہوتی ہے اسی طرح جوانوں میں بھی ہوتی ہے، اس معاملے میں دونوں ملتے جلتے سے ہیں۔ عام طور پر ایک جوان آدمی بھی ان اسباب ووجوہ کی کوئی معقول توجیہ نہیں کر پاتا جن کی بنا پر اس کی پسند اور ناپسند کا جذبہ حرکت میں آتا ہے اور وہ ایک چیز کو تو قبول کر لیتا ہے اور دوسری کو مسترد کر دیتا ہے، بعض خاص چیزوں کو دوسری چیزوں پر ترجیح دیتا ہے، ان میں باہم مقابلہ کرتا ہے، ان کی قدر وقیمت کا اندازہ لگاتا ہے اور ایک خاص احساس کی سی کیفیت اس کے اندر پائی جاتی ہے، مگر پوچھئے کہ وجہ ترجیح کیا ہے، عموماً وہ یہی کہے گا کہ ’’بس مجھے پسند ہے۔‘‘ یہ انداز بیان کے اندر کوئی بات نہیں ہوتی۔
     
    ’’تنقید ہماری زندگی کے لیے اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی سانس۔‘‘ یہ جملہ ایلیٹؔ کا ہے اور میری نظر میں بڑا عمیق اور بڑی گہرائی اپنے اندر رکھتا ہے۔ گرچہ شواہد ایسے موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ خود ایلیٹؔ کے نزدیک کوئی عمق اور کوئی گہرائی اس جملہ میں نہ تھی۔ یہ بات اتفاقاً کسی اضطراری جذبے کے ماتحت اس کے قلم سے نکل گئی تھی، اسے محسوس تک نہ ہوا کہ وہ کیا کہہ گیا۔ حالانکہ اس سیدھے سادے جملے نے واقعتاً سب سے بڑی اور بیش بہا صداقت کا سرا تھام لیا ہے، اس جملے کو ایک مرتبہ پھر پڑھئے، وہ کہتا ہے، ’’تنقید ہماری زندگی کے لیے اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی سانس۔‘‘ 

    اور یہ واقعہ ہے کہ تنقید ایک فطری نعمت اور بیش بہا ودیعت ہے، اتنی ہی فطری اور بیش بہا جتنی کہ ’’بینائی‘‘ یا ’’گویائی‘‘ کی نعمت ہے بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ لیکن بینائی یا گویائی ہی کی قدر وقیمت کو ہم پوری طرح کب پہچانتے ہیں؟ عام طور پر تو لوگوں نے بس فرض سا کر لیا ہے کہ ہاں یہ چیزیں بھی ہیں، حالانکہ یہ چیزیں بھی اتنی ہی ناگزیر ہیں جتنی کہ نفس کی آمد وشد ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ اصل یہ ہے کہ نعمتوں کی ’’فطرتیت‘‘ اور ’’ناگزیری‘‘ نے ان کی حقیقی قدر وقیمت اور حیثیت اور منزلت کو ہماری نظر سے اوجھل کر دیا ہے۔ بچہ اپنی آنکھوں کو استعمال کرتا ہے اور ان کا استعمال خود بخود ہی سیکھتا ہے، اس کی قوت گویائی نشوونما پاتی ہے تو اس کی نشو ونما بھی تقریباً آپ ہی آپ ہوتی ہے۔

    آج تنقید کے نام سے بھی جتنی چیزیں گزر رہی ہیں، ان میں بھی آپ یہی نقص پائیےگا۔ ان میں بڑی طاقت اور بڑا طنطنہ ہوگا، الفاظ وعبارات کی بھی خوب ہی بہتات ہوگی، دلائل بھی بڑے شاندار ہوں گے اور زاویہ نظر بھی بڑے شعور اور تمیز داریوں کا حامل ہوگا، لیکن غور کیجئے تو ان کی حیثیت بھی بنیادی طور پر اس جملے سے بہت زیادہ مختلف نہ ہوگی جو عام طور پر لوگ اپنی روز مرہ کی پسند اور ناپسند کے معاملے میں ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ یعنی وہی بے خبری، عناصر واصول کی وہی بے شعوری، خود اپنے صادر کردہ فیصلوں کی نوعیت کی طرف وہی ریلامن موجی پن کا اور وہی فقدان نظم وترتیب، اس لطافت ونزاکت کا جو تسلی بخش کیفیات ونتائج کی واحد ضمانت تھی۔

    یہ ممکن ہے کہ ایک نقاد ہوڈ کی نظم (Ode To Autumn) کو نہایت ہی لطیف ونفیس نظم تصور کرے، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ملٹن کو ڈرنؔ پر ترجیح دے بلکہ یہ بھی ناممکن نہیں کہ اپنی وجہ ترجیح کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے ہمہ قسم کے بظاہر نہایت ہی مستحکم اور دقیقہ رس دلائل بھی پیش کر دے لیکن آخری تجزیہ تحلیل کی میزان پر پہنچ کر تو یہ سارے دلائل عامیوں کے اس بے بصرانہ جملے سے نہ تو بہتر ہی نظر آئیں گے نہ مفید ہی، جو کہہ اٹھتے ہیں کہ ’’مجھے تو یہی پسند ہے۔‘‘ 

    یہ صحیح ہے کہ تنقید اتنی ہی ناگزیرشے ہے جتنی نفس کی آمد وشد وار اس کی نشو ونما کا جو حال ہے اسے مشکل ہی سے تسلی بخش کہا جا سکتا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ ہم لوگ اس کی طرف سے بڑی سخت بےگانہ وشی اور بے اعتنائی برتتے چلے آرہے ہیں اور ہماری بے حسی اور مردہ دلی کی یہ انتہائی حیرت ناک مثال ہے۔ تنقید کے بغیر زندگی ناممکن ہے، اسی طرح ناممکن، جیسے ہم سانس لینا چھوڑ دیں تو اسی لمحے مر جائیں۔ تنقید ہمارے دم کے ساتھ ہے، یہ ہماری معین ومددگار ہے، ہمیں رستہ دکھاتی ہے اور سنبھالے رکھتی ہے، زندگی کا ایک ایک شعبہ اس کی قوت واثر کو محسوس کرتا ہے، اس کا ممنون کرم ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ زندگی کا شاید ہی کوئی لمحہ ایسا گزرتا ہو جس میں ہم ’’تنقیدی‘‘ فیصلے نہ کرتے ہوں۔معاملہ چاہے ٹائیوں کے انتخاب کا ہو یا پیشے یا کاروبار کا یا آمریت کے مقابلے میں جمہوریت کا۔ ’’فلارنس ناٹنگیل‘‘ کی تحسین ہو یا لکزیریا بورگیا کی تنقیص، مادی آسایش واکرام پر تسکین روحانی کی برتری واضح کرنی ہو یا شیکسپیرؔ کوایڈگرویلیسؔ سے زیادہ اہم ثابت کرنا۔۔۔ ہر جگہ ہر چیز، ہر بات میں تنقیدی صلاحیت ہی ہمارا راہ نما ہوتی ہے۔ کوئی جج ہو یا چور، کوئی حاجی ہو یا تاجر، سائنس داں ہو یاعطائی، وکیل ہو یا ڈاکٹر، سپہ سالار ہو یا فلسفی، حتی کہ طوائف تک۔۔۔ سب کے سب نقد وانتقاد میں غرق ہیں اوران میں سے ہر ایک کی کامیابی منحصر اس بات پر ہے کہ وہ اپنی تنقیدی قابلیت وصلاحیت کا استعمال صحیح طور پر کرتا ہے یا نہیں۔

    یہاں ممکن ہے یہ اعتراض کیا جائے کہ میں نے اس لفظ تنقید کو ضرورت سے زیادہ ہمہ گیری بخش دی لیکن ایک ذرا ٹھہریئے اور غور کیجئے، آٖ پ پر خود واضح ہوجائےگا کہ تنقید کے اس مفہوم میں نہ تو کوئی کمی کی گئی ہے نہ زیادتی۔ اصل یہ ہے کہ تنقید کا استعمال ایک مدت دراز سے بہت ہی محدود اور مخصوص معنوں میں ہوتا رہا ہے، اب تک اسے فقط ’’ادبی تنقید‘‘ کے دائرے میں بند رکھا گیا ہے، اس لئے ہمہ گیر صورت میں جب بھی اسے پیش کیا جائےگا، ایک اچنبھا سا ضرور محسوس ہوگا، ورنہ ادبی تنقید تو نقدو انتقاد کی بے شمار شکلوں میں سے بس ایک شکل ہے اور غالباً بلند ترین بھی، مگر صرف اسی ایک شکل تک اس کو محدود رکھا گیا جس کی وجہ سے اس کی اہمیت اور قدر ومنزلت بہت کم ہو گئی، گرچہ خالص ادبی تنقید بھی بڑی گراں قدر چیز ہے اوراتنی ہی بیش بہا بھی۔

    تقابل، تجزیہ، فرق وامتیاز اور تعین قدر ومقام، تنقید کے ’’چار پہئے‘‘ (یا عناصر اربعہ) ہیں۔ انتہائی کو دن سے کود ن اور لاابالی قسم کا آدمی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ شعوری یا تحت الشعوری طور پر ہم میں سے ایک ایک فرد، تقابل، تجزیے، فرق وامتیاز اور تعین قدر ومقام کے عمل میں ہمہ دم مصروف ہے یعنی ہم اگر چاہیں بھی تو اس’’عمل‘‘ کو روک نہیں سکتے جس میں ہم مستقل ڈوبے ہوئے ہیں، نہ کسی ہوش مند آدمی کے خواب وخیال میں کبھی یہ بات آ سکتی ہے کہ اس عمل کو روک دیا جائے، اس کا روکنا تو خودکشی کے مرادف ہے۔

    اگر آپ کو اپنا تحفظ وبقا مطلوب ہے تو اس کا راستہ یہی ہے کہ تنقید کو سمجھئے، اس کی حقیقی قدر وقیمت کو پہچانئے، اس کے صحیح استعمال کا طریقہ سیکھئے لیکن یہ راستہ اتنا آسان بھی نہیں کیونکہ تنقید بلا مبالغہ بہروپیا ہے، ایسی، ایسی شکلیں بدلتی ہے اور اتنی صورتیں اختیار کرتی ہے کہ اس پر قابو پانا بے حد دشوار ہے لیکن قابو پانا بہرحال ضروری ہے، ہم اس کے اسرار اور رموزسے ضرور واقف ہو سکتے ہیں بلکہ صاف لفظوں میں اسے یوں کہئے کہ تنقید کو ہمیں اپنا اصل موضوع اور مقصود بنانا چاہئے۔ تنقید ایک چمن ہے اور اپنے اس چمن کو ہمیں خود ہی سینچنا اور تیار کرنا پڑےگا۔ ہماری بے مغزانہ بلکہ مجرمانہ غفلت کی وجہ سے تنقیدی صلاحیت واستعداد کی جیسی کچھ نشو ونما ہونی چاہئے ہو نہیں رہی ہے، ضرورت اسی لگن کی ہے کہ ٹھیک سے اس کی نشوونما ہو مگر اس کی پوری پوری نشوونما کا واحد ذریعہ محتاط اور صحیح تربیت ہے اور اس تربیت کا آغاز بھی شروع سے ضروری ہے اور جس قدر باقاعدگی بھی اس میں ممکن ہو تو برتی جانی چاہئے، بالخصوص تعلیم ہی کے زمانے سے کیونکہ اس عمر میں آدمی کا دل ودماغ انتہائی اثر پذیر ہوتا ہے اور آسانی سے مڑنے اور ڈھلنے کی پوری صلاحیت اس میں رہتی ہے۔

    ہاں یہ کہا تو جا سکتا ہے کہ تعلیم کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی، تربیت تو ہم پاتے ہی ہیں لیکن تعلیم گاہوں میں وہ تربیت ہمیں کہاں ملتی ہے جس کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں۔ تعلیم کے زمانے میں ہماری قوت تنقید پراگندہ رہتی ہے اور اس کا ظہور اتفاقاً ہی ہوتا ہے اور کوئی معقول رہنمائی ہمیں مطلق نصیب نہیں ہوتی، وہاں تو ہم یوں ہی تیر چلاتے رہتے ہیں او رجب وہاں سے نکلتے ہیں تب بھی زندگی بھر تیر تکے ہی چلا چلاکر کام نکالتے رہتے ہیں۔

    اس تیر تکے والی کیفیت کو کیسے روکا جائے، اصل سوال یہ ہے۔ حیوانات کو دیکھئے، اس معاملہ میں ان کے مظاہرے ہم سے کہیں بہتر ہیں۔ تنقید کی یہ نعمت ان کو’’جبلت‘‘ کی شکل میں ودیعت ہوتی ہے اور بڑی حد تک ان کے تحفظ وبقا کا دارومدار ان کی اسی جبلی قوت تمیز پر ہوتا ہے۔ ما قبل تاریخ انسانی کا آدمی بھی اسی قسم کی جبلت کا حامل تھا اور بچہ آج بھی اسی جبلت کا حامل ہوتا ہے، مگر جب بڑا ہو جاتا ہے تو اس کی یہ جبلت عقل ودانش بن جاتی ہے یا بن جانا چاہئے۔ ماقبل تاریخ انسانی کا آدمی اپنے اندر بہت ساری اور بھی جبلتیں تقریباً اسی قسم کی رکھتا تھا جیسی جانوروں کے اندر ہوتی ہیں، مگر عقل وتعقل کی نشو ونما اور تمدن کی طرفا س کے تدریجی ارتقا نے ان جبلتوں کو پژمردہ کر دیا۔ پھر رفتہ رفتہ وہ غیرضروری ہوکر رہ گئیں، آخر ختم ہو گئیں اورا ب آدمی آہستہ آہستہ اپنی عقل وفہم پر اعتماد کرنے لگا اور یہ کیفیت بڑھتی چلی گئی۔
    عقل وفہم کو جبلتوں پر فوقیت اور برتری حاصل ہے، کیونکہ جبلتیں آنکھ بند کرکے یکسر میکانکی انداز سے عمل کرتی ہیں اور ان کو اپنے اجزائے ترکیبی یا نظام عمل کا مطلق شعور نہیں ہوتا لیکن عقل اس کے برخلاف آنکھ بند کرکے میکانکی انداز سے عمل نہیں کرتی۔ یہ جبلتوں سے بلند وبرتر اس لئے بھی ہے کہ اسے اپنے وجود کی پوری طرح خبر ہوتی ہے۔ جبلتیں بقائے ہستی میں ہماری معاون ومددگار تو ہو سکتی ہیں لیکن عقل ہماری ترقیوں کے امکانات پیدا کرتی ہے، دروازے کھولتی ہے۔

    پس تنقید ایک عقلی صلاحیت واستعداد ہے، اسے ڈھیلے ڈھالے اندازمیں یوں کہئے کہ یہ ارتقا یافتہ اور مہذیب وشائستہ شکل ہے جانوروں والی جبلت امتیاز کی اور اسی کی مہر بانیوں سے تمدن وجود میں آیا ہے لہٰذا بہتر سے بہتر نتائج وثمرات کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اس کی پرورش وپرداخت نہایت ہی احتیاط کے ساتھ کی جائے اور جسمانی صلاحیتوں کی طرح اس کو بھی ایک سخت اور مرتب قسم کے ضابطے کے ماتحت رکھا جائے تو یوں ہم لوگ اچھل کود بھی سکتے ہیں، دوڑ بھاگ بھی سکتے ہیں اور خوب چھلانگیں بھی لگا سکتے ہیں، لیکن سلیقے سے ناچنا اور ڈانس کرنا ہو تو اس میں حسن پیدا کرنے کے لئے یہ بڑا ضروری ہے کہ آدمی سخت سے سخت ریاضت وتربیت کی منزلوں سے گزرے، جسم پر، جسم کے اعصاب پر پورا پورا قابو اس کو حاصل ہو اور جسم کی ساری حرکتیں اور جنبشیں ایک بلند تر مقصد کے ماتحت اور مطیع ہوں، ٹھیک اسی طرح عقل وفہم کی صلاحیت واستعداد کو بھی باقاعدہ ترتیب دینا، اس پر قابو پانا اور ایک بلند تر مقصد کے ماتحت رکھنا ضروری ہے۔

    بجز اس فوری ضرورت واحتیاج کے جو بقائے وجود سے تعلق رکھتی ہے، جانوروں کو اور کسی بلند تر مقصد کا شعور نہیں ہے مگر مہذب اور متمدن آدمی کی نظر اس فوری اور پیش پا افتادہ ضرورت واحتیاج سے پرے بھی پڑتی ہے اور ظاہر ہے کہ پڑنی چاہئے، اس کی نظر میں فقط زندہ رہنا کافی نہیں۔ وہ اس ہستی کو اس لائق بھی بنانا چاہتا ہے کہ یہ ہستی قابل اعتنا ثابت ہو، وہ بلند تر زندگانی اور رفیع المرتبت طرز حیات کا تصور بھی کر سکتا ہے اور اس کا طلب گار ہوتا ہے، اس بلند تر زندگانی اور رفیع المرتبت طرز حیات کی صحیح نوعیت کی بحث اس وقت میرے موضوع سے متعلق نہیں ہے لہٰذا یہاں صرف اتنا تسلیم کر لینا بھی کافی ہے کہ فقط زندہ رہنا نہیں بلکہ اس سے بھی کچھ بلند اور بہتر صورت حیات کی طلب اس کی مراد ہے مگر یہ طلب پوری صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ تنقید کا صحیح استعمال کیا جائے کیونکہ ہمارے برتر اور اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ۔ جیساکہ میں نے عرض کیا، منحصر ہی اس بات پر ہے کہ بقائے ہستی کی فوری اور پیش پا افتادہ طلب واحتیاج سے پرے نظر رکھنے کی صلاحیت ہمارے اندر کتنی موجود ہے۔

    ہم اس بات پر قانع نہیں ہو سکتے کہ ہمیں جو چیز جس حالت میں بھی مل جائے، اسی حالت میں اس کو قبول کر لینے پر اکتفا کرلیں اور اموال وظروف کے سامنے ہتھیار ڈال کر خود انہیں کے سانچے میں ڈھل جائیں۔ جی نہیں، ہم تو مسلسل غوروتامل سے کام لیتے ہیں، چیزوں کو خوب جانچتے اور پرکھتے ہیں، تب انہیں قبول کرتے ہیں، یا مسترد کرتے ہیں، حیات کی مثال اس جوار (مد) کی سی ہے جو اپنی حرکت میں معلوم تو خاموش ومست خواب ہوتی ہے لیکن ہرزندہ چیز کو دم بہ دم آگے ہی بہائے لئے چلی جاتی ہے۔ ہرزندہ چیز ابھرتی اور بڑھتی ہوئی مد کے ساتھ پے بہ پے ابھرتی، بہتی اور بڑھتی چلی جاتی ہے بجز انسان کے۔ ایک انسان ہی ہے جو حیات کا تفحص کرتا ہے، اس کے اسرارورموز پر قابو پانے کی جد وجہد کرتا ہے اور پھر ان کی قدروقیمت اور حقیقت کو جانچتا، پرکھتا اور تولتا ہے۔

    لہٰذا یہ واضح ہواکہ تنقید کی قدروقیمت کا انکار دراصل زندگی کی قدروقیمت کا انکار ہے اور اپنی ایک بیش بہا میراث کو قبول کرنے سے انکار ہے۔ تنقید تو ایک صحیح تربیت پائے ہوئے شائستہ اور مہذب دماغ کا عمومی جوہر ووصف بھی ہے اور اس کی بے انتہا متنوع رنگا رنگ خصوصی شکلیں بھی ہوتی ہیں۔ بہرصورت تنقید ناگزیر ہے، ماہر دینیات ہوں یا فلسفی، ڈاکٹروں ہوں یا وکیل، یا کوئی سائنسداں، تنقید کے تو سبھی دست نگر ہیں اور ان کو چاہے کوئی علم اس کا ہو یا نہ ہو، تنقید کی کسی نہ کسی خاص شکل پر ان کا انحصار ضرور ہے۔
    ساری تحقیق وتفتیش، ساری تلاش وجستجو اور ساری قیاس آرائیاں چاہے وہ فکر وخیال کی ہوں، چاہے مادیات کی، چاہے روح کی، اگر ان سب کی ہدایت وانصرام کے لیے خصوصی اشکال وصور کے مرتب نقشے بھی موجود نہ ہوں تو ان میں بڑا انتشار پھیل جائےگا، اور وہ قطعی بے ثمر ثابت ہوں گی۔ پھر وہ آلات جو بحفاظت تمام ان کو ساحل مراد تک پہونچانے کے لیے خاص طور پر بنائے گئے ہیں، اگر نہ ہوں تو یہ ساری چیزیں تو ادھر سے ادھر بھٹکتی، بہکتی اور گھسٹتی پھریں گی۔

    یہ آلات کیا ہیں۔۔۔؟ آلات تنقید! جو اسی مقصد کے لیے وجود آئے ہیں کہ وہ حاصل ہونے والے تمام اعداد وشمار کی چھان بین کریں، ان کو جوڑیں اور مرتب کریں، سنواریں اور درست کریں، جانچیں اور پرکھیں۔ لہذا وہ ماہر دینیات جو واقعات کو سند پر قبول کرتا ہے اور وہ سائنس داں جو کسی معقول سائنٹفک ثبوت کے بغیر کوئی چیز قبول نہیں کرتا، دونوں کو اپنے اپنے آلات پر یکساں اعتماد کرنا پڑتا ہے۔ یہ آلات بہت سے مواقع پر مادی صورت بھی اختتیار کر لیتے ہیں۔ مثلاً نظام قانونی، جج، وکلا، عدالتیں، قید خانے، پولیس اور قیدی، یہ سب کے سب انہیں کی ایک مادی صورت تو ہیں۔ اس پیچیدہ اور بے ڈھنگے نظام کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہے کہ چھان بین کی جائے، جانچا پرکھا اور فیصلے کئے جائیں، جالینوسؔ کی قرابادین بھی یہی خدمت انجام دیتی ہے اور قرابادین ہی کی طرح عہد جدید کے علم طب کا مقصد بھی وہی ہے جس کے ذرائع اور وسائل لاتعداد ہیں۔ ماڈرن قرنبیق، آزمایشی نلکیاں اور دیگر آلات اور پھر ساز وسامان سے آرستہ عمل گاہیں سب اسی کی مثالیں ہیں۔

    یہ ساری چیزیں اور بالخصوص مادی آلات بے انتہا مفید ہیں، پھر بھی ان کی افادیت محدود ہے اور یہ کسی قسم کے معروف حلقہ عمل میں کام دیتے ہیں۔ کسی مریض کی نسبت معلوم کرنا ہو کہ وہ بخار کی وجہ سے جاں بحق تسلیم ہوا یا السر کی وجہ سے، تو اس معاملے میں سارے کا سارا نظام قانون بیکار ہے، اسی طرح بغاوت یا مداخلت بے جا کا فرق دریافت کرنا ہو تو قرابادین اس کی ’’تشخیص‘‘ میں قطعاً کوئی مدد نہیں پہونچا سکتی، پھر اس قسم کے بیشتر آلات مرض ہی کا پتہ لگا سکتے ہیں یا جرائم کا۔ مثلاً قانون کسی ملزم کے جرم کا یا کسی خاص جرم میں اس کی بے گناہی کا فیصلہ تو کر سکتا ہے لیکن یہ فیصلہ ہرگز نہیں کر سکتا کہ وہ شخص طبعاً معصوم ہے۔

    کسی قانون پسند شہری پر قانون بالواسطہ ہی اثرانداز ہوتا ہے، وہ اس کی بے شمار ایجابی خوبیوں اور نیکیوں پر کوئی روشنی نہیں ڈال سکتا، قانون کا اصلاً تعلق سماجی خطارکاروں سے ہے، قانون پسند شہریوں سے نہیں، جیسے علم طب کا تعلق بیمار جسموں سے ہوتا ہے مگر طبعی طور پر جو آدمی صحت مند ہو اس کے حق میں میڈیکل سائنس کے جملہ اسباب وسائل بالکل بے محل معلوم ہوں گے۔

    بہرکیف روح تنقید کے خصوصی مظاہر کو زیادہ سختی کے ساتھ صرف انہی متعلقہ حلقوں تک محدود نہ رہنا چاہیے، زندگانی بڑی پیچ درپیچ تنظیم ہے، اس کے مختلف شعبے ایک دوسرے سے جداگانہ تو ہیں مگر سب کے سب اسی لمحے ناقابل تقسیم انداز سے باہم مربوط بھی ہیں۔ بعض لحاظ سے کسی خاص شعبے کی مہارت خصوصی بڑی اچھی چیز ہوتی ہے، بلکہ زندگی کی پیچیدگی اور آدمی کے عمر کے اختصار کی وجہ سے یہ کچھ ضروری بھی ہے کیونکہ کوئی فرد واحد اطمینان بخش علم ودانش کے تمام شعبوں پر قدرت حاصل نہیں کر سکتا، وہ زیادہ عرصہ تک زندہ بھی نہیں رہتا، اس لئے کسی ایک شعبے میں مہارت خصوصی پیدا کر لینا اس کے لئے ضروری ہے مگر اس کو ایک ’’لازمی برائی‘‘ (اور مجبوری) تصور کرنا چاہئے۔ ایک ماہر خصوصی (اسپیشلسٹ) اپنے آپ کو کسی خاص حلقے میں محصور کر لیتا ہے اور یہ حلقہ بڑا تنگ اور محدود ہوتا ہے، اس کی فکرونظر محدود ہوکے رہ جاتی ہے، اس کا احساس تناسب ضائع ہو جاتا ہے پھر وہ اشیا پر نگاہ صحیح تناسب سے ڈال ہی نہیں سکتا۔

    لہٰذااسے یاد رکھئے کہ زندگانی کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں کاٹ کاٹ کر تقسیم نہیں کیا جا سکتا، علم ودانش کی مختلف شاخیں باہم پیوستہ اور مربوط ہیں اور ایک دوسرے کا سہارا ہیں، ایک وکیل کو اگر علم طب بھی حاصل ہو تو وہ بہتر وکیل ہو سکتا ہے، ایک ڈاکٹر اگر علم النفس بھی حاصل کر لے تو اس کی افادیت میں اضافہ ہو جائےگا اور بقول ایلیٹ اگر شاعر نقاد بھی ہو تو وہ بہتر شاعر ہوگا۔

    تنقید کی بہت سی اور خصوصی شکلیں تو سامنے آئی نہیں، بس ایک ہی شکل ’’ادبی تنقید‘‘ کے نام سے سامنے آئی تو اس پر خوب خوب سب وشتم ہوئی، سخت لے دے ہوئی۔ ’’ادبی تنقید‘‘ اپنی ذات سے الگ کسی دوسری چیزسے متعلق ہوتی ہے اور یہ دوسری چیز ادب ہے، اس لئے ظاہر ہے کہ ادب کے بغیر خود اس کا کوئی وجود نہیں، تو پھر یہ ایک ’’طفیلی‘‘ ہوئی، حالانکہ طفیلی کا لفظ اس کے لئے کسی طرح صحیح نہیں۔ تنقید اپنے عمومی اور ہمہ گیر مفہوم میں، جہاں فیصلوں کی قدر وقیمت کا تعین ہوتا ہو، عقل وفہم کے آزادانہ عمل اور فرق وامتیاز کے احساس وشعور کا معاملہ ہو، صرف ادب ہی سے متعلق نہیں ہوتی (اگر واقعی کسی چیز سے متعلق ہونا ہی اس کے لئے ضروری ہو) بلکہ حیات سے متعلق ہوتی ہے۔ تنقید تو ختم ہی اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ خود حیات ختم ہو جائے، تنقید کو وجود میں لانے والی تو حیات ہی ہے اور پھر اپنے تسلسل و ارتقا میں اسی پر انحصار بھی کر لیتی ہے۔

    (۲)عام طور سے ’’تنقید‘‘ کا لفظ جب استعمال کیا جائے تو اس سے مراد ادبی تنقید لی جاتی ہے۔ ایلیٹؔ کہتا ہے، ’’مانتا ہوں کہ تنقید وہ شعبہ فکر ہے جو یا تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ شاعری کیا چیز ہوتی ہے؟ اس کے فوائد کیا ہیں؟ یہ کن خواہشات کی تسکین بہم پہونچاتی ہے؟ اشعار لکھے کیوں جاتے ہیں؟ سنائے کیوں جاتے ہیں؟ یا ان تمام باتوں کے متعلق علم و آگہی کے چند شعوری یا غیرشعوری مفروضات قائم کرکے نظم واشعار کی حیثیت متعین کرتا ہے۔‘‘

    لیکن جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں تنقید کے وظائف دو ہیں، (۱) نظری طور پر شعر کی ترکیب وترتیب کی پیش بندی کرنا، زمین ہموار کرنا اور وہ خدمت انجام دینا جو نشانہ باندھتے وقت بندوق کی مکھی انجام دیا کرتی ہے، لیکن میرے خیال میں اس قسم کی ’’پیش بینی‘‘ کی کوئی تحریری مثال، جو شعراء کے علاوہ کسی کے لئے بھی سود مند رہی ہو، موجود نہیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اصول نظم وآہنگ کی ابھرتی ہوئی صورت کو پیش کرنے والا تو بس وہی ہے جو اسے برتتا ہے، وجود میں لاتا ہے۔

    (۲) شعر کی تراش خراد، اس کی عام نظم وترتیب کو سنوارنا، جو بات ادا کی گئی ہو اس کی نوک پلک درست کرنا اور مکررات کو چھانٹنا، قلم زد کرنا، بلفظ ودیگر وہ کام جو کسی نیشنل گیلری یا کسی بایولوجیکل میوزیم میں کوئی اچھی ’’مجلس انتخاب‘‘ کرتی ہے یا کسی شعبہ خاص کا نگراں انجام دیتا ہے، یعنی معلومات کو اس طرح مرتب کرنا کہ جب کبھی وہ کسی دوسرے شخص (یا نسل) کے سامنے پیش ہو تو اس کا جاندار حصہ فوراً واضح ہو جائے اور فرسودہ ومتروک قسم کی باتیں اس کا وقت کم سے کم ضائع کر سکیں۔

    اس طرح بقول ایلیٹؔ دو نظریاتی حدیں مقرر ہو جاتی ہیں۔ ایک تو وہ حد ہے جہاں ہم اس سوال کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’شاعری ہے کیا چیز‘‘ اور دوسری حد وہ ہے جہاں اس سوال کا جواب دیا جاتا ہے کہ فلاں نظم عمدہ ہے یا عمدہ نہیں ہے مگر آج تنقیدی ادب کا سارا ذخیرہ موخر الذکر ہی سوال سے تعلق رکھتا ہے، یعنی آرٹ کی کسی خاص تصنیف کی خوبی وخرابی کو واضح کرتا ہے یا اس کی قدر متعین کرنے میں لگا رہتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مقدم الذکر سوال کو حل کرنے کی کوشش بھی کچھ کی تو گئی ہے مگر یہ کوکشش کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہی۔
    بہرحال بات صرف اتنی ہی نہیں کہ شاعری کی کوئی موزوں تعریف مل جائے اور جو مل بھی گئی تو اس سے فائدہ کیا پہونچےگا۔ مسئلہ کے زیر نظر مقاصد تو اس کے کہیں زیادہ وسیع ہیں، لہٰذا یہ گتھی اگر سلجھائی جائے تو اس سے نہ صرف یہ ہوگا کہ کم وبیش بے سود قسم کی کوئی تعریف حاصل ہو جائےگی بلکہ اس رابطے کو سمجھنے میں مدد ملےگی جو زندگی وشعر کے درمیان ہے، ورنہ یہ مسائل ہنوز منتظر حل ہیں کہ مراحل حیات میں شعروشاعری کس قدر وقیمت کی چیز ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش سعی رائیگاں ہرگز نہیں ہو سکتی مگر عام طور پر تو لوگ اس بات کو جیسے فرض کر بیٹھے ہیں کہ ہم ان ساری باتوں سے آگاہ ہیں اور یہی سبب ہے کہ بیشتر نقادوں نے اپنے آپ کو بس نظم وغزل کی تشخیص وتعین ہی کے مسائل سے وابستہ کر رکھا ہے۔

    اس طرح تنقید کے لازمی اور بنیادی پہلو کی طرف سے نسبتاً غفلت برتی گئی، جس کا نتیجہ لازماً یہی ہونا تھا کہ زندگی اور ادب، زندگی اور ادبی تنقید کے درمیان ایک تفریق سی پیدا ہوکر رہ جائے۔ چنانچہ ادب کے بارے میں یہ خیال عام ہو گیا کہ اس کی حیثیت روز مرہ کی ضروریات زندگی جیسی نہیں، اس کا درجہ وہ نہیں جو ہماری زندگی میں دال روٹی کا ہے بلکہ وہ ایک قسم ’’لکژری‘‘ ہے، تعیش ہے۔ اس تصور کی ذمہ داری ظاہر ہے کہ خود ہماری غفلت کے سر ہے، ہم نے زندگی اور ادب کے اس اہم رشتے کو فراموش کر دیا جو چولی دامن کا رشتہ تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ادبی تنقید کے معاملے میں وہ روش چل پڑی جس نے ادبی تنقید کو زندگی سے جدا ایک الگ تھلک سی بے تعلق چیز بناکر کے رکھ دیا اور ادبی نقد وانتقاد کی سرگرمیاں کچھ بہت زیادہ سودمند یا ضروری شے باقی نہ رہیں۔ عام لوگوں کی نظرمیں ادبی نقد وانتقاد گویا ایسا بے نتیجہ و بے ثمر کام ہے جس میں ایسے لوگ جن کو دوسرے مفیدتر کام کرنے کی نہ تو خواہش ہوتی ہے، نہ صلاحیت، لہٰذا وہ اسی میں لگے رہتے ہیں۔

     ادھر ادبی تنقیدوں کا حال یہ ہے کہ ان پر بڑی عالمانہ اور محققانہ فضا طاری رہی ہے اور جن چیزوں کو ہم زندگی کے انگڑھ اور کھردرے اور عریاں حقائق کے نام سے یاد کرتے ہیں ان سے دور کا بھی واسطہ باقی نہیں رہتا۔ نتیجہ یہ کہ ان ادبی تنقیدوں کا رخ تجریدی عمومیات کی طرف رہتا ہے اور اگر کبھی تجریدی انداز نہیں بھی ہوتا بلکہ جزئیات ومحسوسات کی طرف توجہ مبذول ہو جاتی ہے تو پھر وہ اور بھی پست ہو جاتی ہیں۔ سطحی قسم کے لفظی اور لغوی تجزیے کے سوا اور کچھ ان میں نہیں ہوتا یعنی بس وہی ٹکنکل کھیل جس کی بدولت نقاد کی ساری محنت ومشقت، ایک بے کیف اور سپاٹ نمایش ہوتی ہیں کیونکہ ان دونوں صورتوں میں دلچسپی سمٹ سمٹا کر صرف اس چیز تک محدود ہو جاتی ہے جو نقاد کے پیش نظر ہو اور نقاد کی فوری توجہ کا مرکز جو چیز ہو جاتی ہے وہ دوسری تمام چیزوں سے بےتعلق اور منقطع رہتی ہے اور نقاد اسے پیش بھی قطعاً بے ربطی وبے علاقگی کے جذبے میں کرتا ہے۔

    تخلیقی عمل کوئی سطحی اور سرسری شے ہرگز نہیں ہے، یہ تو ایک فطری عمل انسانی ہے اور تھوڑی سی بھی تہذیب جس سوسائٹی میں موجود ہوگی، وہاں اس پر عمل کا پایا جانا ضروری ہے۔ اس عمل کا ربط دوسرے اعمال وافعال سے بڑا گہرا ہے۔ یہ کوئی الگ تھلگ اور بے علاقہ قسم کی چیز نہیں ہے کہ الگ تھلگ صورت میں پائی جائے۔ ریڈؔ لکھتا ہے کہ ’’ہماری نگاہیں پلٹ کر ماضی میں ڈوب جاتی ہیں اور صاف دیکھتی ہیں کہ آرٹ اور مذہب، ماقبل تاریخ کے دھندلکے سے ہاتھ ڈالے ابھرتے نکھرتے چلے آ رہے ہیں۔‘‘ 
    لہٰذا آرٹ کو کسی الگ تھلگ قسم کی چیز (یا کٹی ہوئی ٹہنی) کی طرح ہرگز نہ برتنا چاہئے۔ انسانی سرگرمی وعمل کے دوسرے شعبوں کے ساتھ اس کی وابستگی بڑی گہری ہے بلکہ یہ عرض کرنے کی پھر اجازت دیجئے کہ یہ ایک ’’فطری عمل انسانی ہے‘‘ ہے۔ فطری طلب وتقاضائے انسانی کی تسکین بہم پہونچانے والا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آرٹ ایک عمل ہے جو انسان کے ساتھ ساتھ وجود میں آیاہے۔ ماقبل تاریخ کی اولیں سے اولیں سوسائٹی پر بھی ایک نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ لوگ اپنے گردوپیش کی دنیا کی ’’نقلیں‘‘ اتار اتار کر بڑا لطف وسرور حاصل کرتے تھے۔ ان کی یہ کوششیں اگرچہ بڑی بھونڈی اور خادم ہوتی تھیں، پھر بھی ان ’’نقلوں‘‘ کے دیکھنے والے تماش بین ہمیشہ موجود رہتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ آرٹ انسان کے بعض فطری تقاضوں کے لئے سامان تسکین مہیا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ آرٹ ہمیشہ متحرک، قوت بخش اور حیرت انگیز ہوتا ہے، ارسطوؔ کی زبان میں تو ’’بعض اعتبار سے آرٹ دراصل وجود کی ایک بالیدگی ہے، نمو ہے۔‘‘ 

    ما قبل تاریخ انسانی کے مطالعے سے اس تخلیقی عمل کی نوعیت واہمیت واضح طور پر منکشف ہوتی ہے، کیونکہ اوائل عہد انسانی کی آرٹسٹک تخلیق اصل میں زندگی کی مطلق العنان اور دو ٹوک انداز کی بے درد کیفیات سے ایک فرار تھی۔ ان کی زندگی میں ہر دن بجائے خود ایک نیا دن تھا، وہ روزاپنی ضرورت کی چیزیں مہیا کرتے تھے اور وہیں کے وہیں اپنی ضرورت پوری کر لیتے تھے، ان کی زندگی کو استقلال نصیب نہیں تھا، وہ عرصہ اور مدت کے شعور سے بھی محروم تھے، حتی کہ آج بھی ان قبائل کے کسی فرد کو جو تمدن سے بس واجبی ہی سامس رکھتے ہیں، وعدہ وامید کا مفہوم سمجھانا بہت دشوار بلکہ ناممکن ہے، وہ اپنی فوری ضرورت اور فوری موقف سے آگے کی بات سوچ نہیں سکتا۔ وہ تو حوادث روزگار کے ہر موڑ پر بالکل جبلی تحریک سے عمل کرتا ہے، لہٰذا وہ جب کبھی کسی آرٹ کی تخلیق کرتا ہے، مثلاً کسی جادو ٹونے کا سہارا لیتا ہے تو سمجھ لیجئے کہ وہ اپنی ہستی یاوجود کی ان بے درد کیفیات واحوال سے جود واور چار کے سے دو ٹوک فیصلے صادر کرتے رہتے ہیں، دراصل فرار چاہتا ہے اور ایسی چیز تخلیق کرتا ہے جو اس کے خیال میں کامل ومکمل اور وجود مطلق کا ایک نظر آ سکنے والا مظہر ہے۔
    اس طرح کچھ دیر کے لیے وہ گویا سیل وجود کو روک تھام لیتا ہے، ایک ٹھوس اور مستحکم شے بنا لیتا ہے۔ ’’زمان‘‘ سے ہٹ کر ’’مکان‘‘ (Space) کی تخلیقی کر لیتا ہے اور اس ’’مکان‘‘ کی تشریح ایک خاکے کی صورت میں کرتا ہے۔ پھر اس کے جذبات کی شدت اس کے خاکے کو نہایت ہی مؤثر شکل عطا کر دیتی ہے اور یہ ایک مرتب قسم کی چیز اور ایک وحدت بن جاتی ہے، جس کو آپ اس کے جذبات وکیفیات کی ایک ہم معنی وہم نوا تمثیل اور باقاعدہ مرادف کہہ لیجئے۔

    تحلیل نفسی نے آرٹسٹک جذبہ وتحریک کی جو تشریح پیش کی ہے، اس سے شاید روشنی اس پر اور زیادہ پڑتی ہے، کیونکہ فرد کی نفسیات کے جو اصول ہیں، ان کے مطابق ’’ہر انتشار عصبی کو ایک ایسی کوشش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جس میں آدمی برتری کے حصول کی خاطر، کمتری کے احساس سے نجات پانے کا متمنی رہتا ہے۔‘‘ احساس کمتری بالعموم گھرانے کے ماحول میں ابھرتا ہے اور اس کی تلافی کے طور پر احساس برتری عموماً ایک واہمہ کی صورت میں قائم ہو جاتا ہے۔ ما فوق الفطرت قسم کی اونچی اونچی تمناؤں کے خواب دکھانے والا یہ واہمہ واہیات تو بیشک بہت ہے مگر لاشعور میں گھر بنائے جما رہتا ہے۔ البتہ معقولیت، ہمدردی اور تعاون باہمی کے جماعتی معیار واصول کی وجہ سے دبا رہتا ہے۔

    یہ دبا اور چھپا ہوا احساس برتری ویسے تو ہم میں سے اکثر وبیشتر افراد کے اندر موجود ہے لیکن ایک فن کار (آرٹسٹ) اس منزل کبریائی کے معاملہ میں بڑا سنجیدہ ہوتا ہے۔ وہ حقیقی زندگی سے فرار اختیار کرنے پر زندگی کے اندر ایک اور زندگی کی جستجو اور اس کی تگ ودو سے رشتہ جوڑ لینے پر مجبور سا ہے، کیونکہ ایک فنکار، اسی بنیاد ومزاج پر فنکار ہوتا ہے کہ وہ اس حیات باطنی کو مثالی شکل وصورت اور کمال بخشنا چاہتا ہے۔ فرائڈؔ بھی اسی خیال کا حامی ہے، وہ کہتا ہے کہ فن کار تو وہی ہے جو فطری اور جبلی احتیاجات کے ان تقاضوں پر چلتا ہو جو حد درجہ پرشور ہیں، وہ بھوکا ہوتا ہے اعزاز واکرام کا، طاقت واقتدار کا، دولت وثروت کا، شہرت کا اور عورت کی محبت کا لیکن تکمیل تمنا اور حصول آزادگی کے ذرائع سے محروم ہوتا ہے۔

    لہٰذا دوسرے ناکامان تمنا کی طرح وہ بھی حقیقت کی طرف سے منھ موڑ لیتا ہے اور اپنی تمام تر دلچسپیوں کو اور اپنی جملہ تشنگی وہوس کو بھی، اپنی خواہشات کو اس تخلیق کی طرف منتقل ومبذول کر لیتا ہے جو اس کے واہمے کی دنیا میں جنم پاتی رہتی ہے۔‘‘ فرائڈؔؔ نے بڑی وضاحت سے یہ بتایا ہے کہ کس کس طرح ایک فن کار اپنے واہموں کی عمارت اٹھا اٹھا کر اس شخصی چیز کو اپنے اظہار کی قوت سے، آرٹ کا ایک غیرشخصی اور ہمہ گیر روپ بخش سکتا ہے اور اسے اتنا دیدہ زیب ودل رس بن اسکتا ہے کہ دوسرے بھی اس کی تمنا کرنے لگیں۔

    ادب پر نفسیاتی تحلیل کی یہ نگاہ میں تو نہیں ڈالتا لیکن تحلیل نفسی کے اس ماہر نے انتشار عصبی، احساس کمتری، جذبہ برتری اور واہمہ پر جو کچھ لکھا ہے اس سے توثیق اس حقیقت کی واقعی ہوتی ہے کہ فن کارانہ جذبہ وتحریک ایک فطری چیز ہے اور فنکار کے بارے میں جو یہ بات مشہور ہے، وہ مافوق الطبع (ابنارمل) ہوتا ہے، یہ صحیح نہیں، اس کی یہ ’’مافوقیت‘‘ (ابنارملٹی) بھی فطری ہی ہے اور ہم جس چیز کی بدولت فنکار کی طرف کھنچتے ہیں، وہ اس کی مافوقیت یا ابنار ملٹی نہیں بلکہ بنیادی طبیعت اور فطریت (نارملٹی) ہے۔ بہرحال وہ جذبہ تحقیق جو فن پاروں کو وجود میں لانے کا ذمہ دار ہے، اور وہ شعور نقد وانتقاد جو فن پاروں کی تعین قدر کرتا ہے، دونوں ہمارے اندر موجود ہیں اور یہ دونوں صلاحیتیں خلقی اور فطری ہیں، ان کی فطریت پر اعتراض، خود زندگی کی فطریت پر اعتراض ہے اور ان کی افادیت وقدر سے انکار بھی بہ لفظ دیگر خود زندگی کی افادیت وقدر سے انکار کے مرادف ہوگا۔

    مختصر یہ کہ تخلیق وتنقید کا ساتھ بالکل چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زندگی ایک محیط بے کراں ہے اور پورے محیط پر بے شمار نقطے ہیں جہاں یہ دونوں باہم مخلوط ومربوط ملیں گے۔ اس لئے ظاہر ہے کہ کوئی تخلیقی کوشش الگ تھلگ رہ کر وجود میں آ ہی نہیں سکتی، کیونکہ ایک ہی چیز ہے جس کے بارے میں فن کار حد درجہ ذکی الحس ہوتا ہے اور اسی شدت سے اس کا اثر بھی لیتا ہے اور وہ ہے زندگی کی پیچیدگی۔ یہی سبب ہے کہ ایک فن پارے کے اندر ایسی قوی اور سریع النفوذ لہریں موجود ہوتی ہیں کہ زندگی کے نازک سے نازک، بعید از بعید اور مخفی سے مخفی پہلو بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے، لہٰذا وہ تنقید جو اتنے شدید اور اتنے عمیق ارتباط باہمی کی منکر ہو یا آرٹ کے کسی کارنامے کو ’’اصول علت ومعلول‘‘ سے بے تعلق قرار دیتی ہو، وہ تسلی بخش ہرگز نہیں ہو سکتی۔
    حاشیے

    (1) دی یوز آف پوئٹری اینڈ دی یوز آف کریٹی سزم۔
    (2) میک اٹ ناؤ۔
    (3) دی یوز آف پوئٹری اینڈ دی یوز آف کریٹی سرزم۔
    (4) دی میننگ آف آرٹ۔
    (5) پوئٹری اینڈ کرائسس۔
    (6) دی میننگ آف آرٹ۔


    مأخذ:

    تنقیدی نظریات (Pg. 74)

      • ناشر: اترپردیش اردو اکیڈمی، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 2009

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے