Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تین رخی تنقیدی کشمکش: آخری قسط

باقر مہدی

تین رخی تنقیدی کشمکش: آخری قسط

باقر مہدی

MORE BYباقر مہدی

     

    ترقی پسندی، جدیدیت کی کشمکش کا تفصیلی ذکر کر چکا ہوں۔ اب یہ کشمکش تین رخی ہو گئی ہے یعنی مابعد جدیدیت بھی داخل ہو گئی ہے۔ اس طرح اردو زبان اپنے آخری دور میں نہایت نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے ’’گروہوں‘‘ میں اتنا تناؤ ہے کہ کسی کو اردو زبان کی زبوں حالی کا شعور بھی نہیں ہے اور یہ لسانی، نظریاتی اور تاریخی جدوجہد کے بجائے انفرادی اور تیزی سے موجودہ زبان کی حالت سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ استالینی ترقی پسندی (مارکسی ترقی پسندی سے سالہاسا ل پہلے الگ ہو چکی تھی جس کا میں نے تفصیلی ذکر اپنے مضامین میں کیا تھا۔)

    ہندوستان میں ایک معمولی بے بضاعت گروہ ہے۔ اس کا نام بھی لینا نہیں چاہتا۔ ہاں جدیدیت نیم جاں ہوکر بھی حضرت فاروقی کی وجہ سے ’’زندہ‘‘ ہے اور مابعد جدیدیت کا شاخسانہ انہیں چند ادیبوں کی زبانی سنا جا سکتا ہے جو کل تک حضرت فاروقی کے ہم نوا تھے اور آج دشمن ہو گئے ہیں۔ مابعد جدیدیت کیسے اور کب داخل ہوئی؟ اس کی تاریخ معین نہیں کی جا سکتی ہے۔ میرے پاس ’’دریافت‘‘ (نومبر ۱۹۹۲ء) کا شمارہ موجود ہے۔ اس کے اداریہ میں جناب قمر جمیل نے لکھا ہے۔ چند جملے ملاحظہ ہوں،

    ’’دریدا کے افکار اور نظریات سے ڈرنا اور گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اس کے بہت سے افکار ہسرل اور سو سیر کے افکار کا لازمی نتیجہ ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ دریدا یورپ کا پہلا مادی مفکر نہیں ہے۔۔۔ دریدا انسان کی داخلیت تک کو مادیت میں ڈھالنا چاہتا ہے۔ وہ کسی قسم کے نطق کے LOGO میں یقین نہیں رکھتا اور اس قدر مادہ پرست ہے کہ روح اسپرٹ اور ذہن کو مادہ کی طرح حقیقی نہیں سمجھتا اور نہ ہی جسم اور روح کی ثنویت میں یقین رکھتا ہے۔۔۔ اور یوں بھی دریدا ادب اور فلسفہ کے دونوں شعبوں کو متاثر کرتا نظر آتا ہے اور ہسرل اور دریدا دونوں کے یہاں ان کے تصور نشان کی بڑی اہمیت ہے۔‘‘ (ص ۹)

    اس بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے انیس ناگی 1 کی بدنام کتاب ’’شعری لسانیات‘‘ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ بدنام اس لیے کہا کہ اس کتاب پہ نہایت ناقابل برداشت تبصرہ سلیم احمد نے سات رنگ (کراچی کا ایک پرچہ) میں کیا تھا۔ اس کتاب کو ’’مہمل‘‘ تک کہا تھا۔ افسوس کہ وہ پرچہ میرے پاس نہیں ہے۔ انیس ناگی کی کتاب ۱۹۶۹ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے بارہ ابواب ہیں۔ مختصراً ذکر کرتا ہوں کہ اردو میں یہ پہلی کتاب تھی جس نے نہایت سنجیدگی سے نکات کو پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں اب ابواب کے نام لکھتا ہوں (۱) لسانی ادراک (۲) اشارہ اور استعارہ (۳) لغاتی معنی (۴) استعارتی معنی (۵) مشابہتی رشتے (۶) لغاتی اور استعارتی (۷) تسخیر معانی (۸) محاکاتی استعارہ (۹) استعارہ یا تشکیل معانی (۱۰) سیاق وسباق میں (۱۱) ابلاغ، افہام، ابہام (۱۲) لسانی آہنگ۔

    میں ہر باب کے چند جملے پیش کروں گا تاکہ یہ اندازہ ہو جائے کہ انیس ناگی کے کیا نکات تھے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ انیس ناگی پاکستانی ادب میں بہت’’بدنام‘‘ رہ چکے ہیں۔ ترقی پسندی اور جدیدیت دونوں حلقوں میں وہ واحدشخص ہیں جو ہدف ملامت بنائے گئے تھے۔

    (۱) لسانی ادراک: تجربات اور اشیا کا لسانی ادراک ان کا موقف ہے۔ زبان حقیقت کا ایسا استعاراتی قالب ہے جو انسان کے مجرد تجربات اور واردات کو منظم ٹھوس جسمانیت سے ہم کنار کرتا ہے۔ زبان میں صرفی ونحوی اصولوں کی کارفرمائی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ انسان اپنے خیالات اور جذبات کو منظم کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ زبان کا بامعنی استعمال زندگی میں تنظیم اور تربیت کا مظہر ہے۔ زبان بیک وقت ایک انفرادی اور معاشرتی عمل ہے۔ (ص ۱۵)

    دوسرا باب: اشارہ اور استعارے کے بارے میں ایک مروجہ تصور یہ ہے کہ تمام استعارے اشارے سے ہوتے ہیں لیکن تمام اشارے استعارے نہیں ہوتے۔ یہ ایک منطقی تضاد کا مشاہدہ ہے جو جزوی صداقت کا حامل ہے۔ یہ مشاہدہ اشارہ اور استعارہ کے اشتراکی وضعی کا نتیجہ ہے۔۔۔ اشارہ تحویلی یکتائی (Single Refrence) کے باعث استعارہ سے منفرد وجود رکھتا ہے۔ اشارہ میں تحویل متعین ہوتی ہے یا اسے خود متعین کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سے زیادہ معنی کا حامل نہیں ہوتا۔ ایک سے زیادہ معانی کی مملکت استعارہ کا مقدر ہے۔۔۔ اشارہ لفظ اور شے کے وفاقی عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ زبان میں اشاروں کا وجود استعاروں کی تشکیل کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔۔۔ شعری لسانیات کا سارا تاروپود اشارہ اور استعارہ کے باہمی تعمل سے تیار ہوتا ہے کہ یہ تجربات کی حسیاتی اور وضعی تشکیل سے عبارت ہے۔ (ص ۲۷۔ ۲۲)

    (۳) لغاتی معانی: لغت کا وجود ترقی یافتہ دور سے عبارت ہے۔۔۔ انسان کے لسانی اظہار کی ابتدائی شکل تکلم کی ہے اور لغت کا جملہ اثاثہ تکلم سے ماخوذ ہے۔۔۔ فی الحقیقت استعاراتی معانی کی ’لغاتیت‘‘ کو استعارہ کے تحویلی سانچے FRAME OF REFERENCE) میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔۔۔ شعری لسانیات کی تشکیل میں لفظ کی ہر دو دلالتوں کی تعین میں بعض دفعہ مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ ان میں ایک وضعی دلالت ہے اور دوسری غیروضعی دلالت ہوتے ہوئے بھی اپنے سیاق وسباق میں وضعی ہو جاتی ہے۔ جب اسے اساسی معانی میں استعمال کیا جائے تو وہ ایک معنی کی متحمل ہو جاتی ہے۔ جب ایک سے زیادہ معانی کی شرح کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ اپنے مفردی معانی کے مفرد ہونے کی نفی کرتا ہے اور جس معنوی اسلوب کو پیدا کرتا ہے اس میں اس کی حیثیت قطعی اور یقینی ہوتی ہے۔ (ص ۴۰۔ ۲۹)

    (۴) استعارتی معانی: استعارہ بیک وقت ایک ذہنی اور لسانی عمل ہے جو خارجی اور داخلی انسانی کائنات کو ایک قابل فہم سطح پر متصل کرتا ہے۔ شاعر کے ذہنی مضمرات تب ہی قابل فہم ہو سکتے ہیں اگر ان کا معروضی حقائق سے علاقہ ہو۔ اس صورت میں استعارہ شاعر کی داخلی واردات کو خارجی واقعات اور حقائق سے متعلق کراتا ہے اور خارجی حقائق کو جذبہ اور تاثر کی داخلیت سے متعارف کراتا ہے۔ (ص ۴۷)

    (۵) مشابہتی رشتے: اردو تنقید میں شبلی پہلا نقاد ہے جس نے استعارہ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ شبلی کے نظریات بھی ارسطو سے ماخوذ ہیں۔۔۔ شعری لسانیات کی تشکیل میں اصول اتحاد کی بدولت الفاظ نئے صفاتی اور حسیاتی اوصاف سے روشناس ہوتے ہیں۔۔۔ شاعری میں مشابہتی رشتوں کی تخلیق زندگی کے بوقلموں اور متنوع مظاہر کو متحد اکائیوں میں منتقل کرنے کا عمل ہے۔ (ص ۶۹۔ ۵۶)

    (۶) لغاتی اور استعاراتی باب چار صفحے پر مشتمل ہے۔ پہلا جملہ ’’لغاتی معانی اشیا کا معنوی تعارف ہے۔‘‘ آخری جملہ ’’استعارہ معرفت اور آگہی کی لسانی تشکیل ہے (ص ۷۴۔ ۷۱)

    (۷) تسخیر معانی۔ اس باب کے شروع میں مشہور نقاد کے چند جملے انگریزی میں نقل کیے گئے ہیں جن کو درج کرنا بہتر سمجھتا ہوں۔

    The power of language to keep stop with the expansion of experience the long course of 
    history lies in the tendence of words mean more than they designate (Susan K. Langer)

    شعری لسانیات میں وہی الفاظ دوامی معنویت کا رتبہ حاصل کرتے ہیں جن میں اپنے وجود سے بڑھ کر معانی کے اظہار کی استطاعت ہوتی ہے۔ شاعر اور الفاظ کی آزمائش گاہ کا میدان استعارہ اور خصوصا ًصورت حال کا استعارہ ہوتا ہے کہ استعارہ محض مشابہت نہیں ہے۔ یہ انسان اور معروضات کا مسئلہ ہے (ص ۸۹۔ ۷۵)

    (۸) محاکاتی استعارہ: ’’محاکاتی استعارہ شعری لسانیات کو محاکات کے ذریعے ٹھوس جسمیت سے ہم کنار کرتا ہے۔ یہ استعارہ کی ٹھوس ترین شکل ہے۔‘‘ یہ تھا پہلا جملہ۔۔۔ اور ’’محاکاتی استعارہ ذہن کی ادراکی صلاحیت اور اس کے لسانی اظہار کی باہمی کارکردگی کا نتیجہ ہوتا ہے۔‘‘ (ص ۱۰۶)

    (۹) استعارہ یا تشکیل معانی: ’’استعارہ خودبخود نہیں بنتا کہ اس کی معنویت اس کی تشکیل میں مخفی ہوتی ہے۔ وہ مافی الضمیر کی پردہ پوشی نہیں کرتا بلکہ ذہن کو اس طرح حقیقت سے روبرو کرتا ہے کہ جس کا نظارہ عمومی ادراک کے حلقہ قدرت سے باہر ہوتا ہے (ص ۱۳۱)

    (۱۰) سیا ق وسباق: اس باب کا آخری جملہ ہے، ’’شعر ی سیاق وسباق انسانی تجربات کے حسیاتی اور تصوراتی اظہار کی مخصوص زبان ہے۔‘‘ (ص ۱۴۶)

    (۱۱) ابلاغ، افہام، ابہام: یہ بحث آج تک جاری ہے۔ مشاعرہ میں ہزاروں کی تعداد میں سامع ہوتے ہیں اور وہی شاعر حاصل مشاعرہ شعر سناتا ہے جو فوراً سمجھ میں آ جائے۔ اخترالایمان نے جب ایک مشاعرے میں پہلی بار ’’ایک لڑکا‘‘ سنائی تو سب خاموش تھے، اس لیے کہ اخترالایمان کی فلمی شہرت سے ڈرے ہوئے تھے۔ سردار جعفری نے جب پہلی بار آزاد نظم لکھنؤ میں سنائی تو ہوٹنگ ہوئی تھی اور اب چند برسوں بعد یہی نہایت مقبول ہوئی کہ سردار جعفری اپنی شہرت کے عروج پر تھے۔ یہ دو مثالیں میں اس لیے دے رہا ہوں کہ اب رسل ورسائل، شاعر وقاری کے رشتے بہت بدل گئے ہیں۔ پھر بھی اولیت وہی ہے یعنی شعر یا نظم فوراً اثر انداز ہو۔

    میں نے فیض کو تقسیم ہند سے پہلے سنا تھا۔ مجمع خاموشی سے سنتا رہا اور سالہا سال بعد ممبئی میں سناتھا۔ ان کے ہر شعر پر واہ واہ کا شور اٹھتا تھا۔ ترنم نے حضرت مجروح کی بڑی مدد کی ہے۔ وہی اشعار آپ پڑھیں تو ممکن ہے پسند کریں یا نہ کریں مگر آواز الفاظ کو ایک نغمہ بنا دیتی ہے جووہ نہیں ہوتا۔

    (۱۲) لسانی آہنگ کا سب سے بھرپور اظہار شاعری ہے۔۔۔ شاعری کا سارا نظام صورت ومعانی کے رشتے سے عبارت ہے۔

    پروفیسروں کا کاروبار تدریس کی پیشہ ورانہ ضرورت ہے۔ یہ نظریات امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام پر قائم معاشرے میں نئے فیشن کی مانگ بڑھاتے ہیں۔ نئی تنقید اور ساختیات میں فرق یہ ہے کہ نئی تنقید کے علم بردار تاریخ کو مانتے تو ہیں لیکن اسے تنقید میں کوئی اہمیت نہیں دیتے اور ساری توجہ شاعری کے اجزائے ترکیبی کے مطالعے پر صرف کرتے ہیں۔ ۱۹۶۶ء تک ساختیات کا زور باقی تھا کہ اس زمانے میں ساختیات کو امریکی جامعات کے دانشوروں سے متعارف کرانے کے لیے جون ہو یونیورسٹی بالٹی مور میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ژاک دریدا کو فرانس سے مدعو کیا گیا تھا۔ دریدا نے یہاں مطالعہ متن کے سلسلے میں ’’ردتعمیر (ڈی کنسٹرکشن) کا طریقہ پیش کیا۔ دریدا نے کلوڈلیوی اسٹراس کے ساختیاتی بشریات کے تصور ساخت کی تنقید پیش کی جس پر خوب گرماگرم بحث ہوئی۔

    یہ کانفرنس جو ساختیات کو متعارف کرانے کے لیے منعقدکی گئی تھی، ساختیات کی نماز جنازہ پڑھنے پر ختم ہوئی۔ دریدا نے اپنے مقالے کی مقبولیت کے بعد ساختیات پرکھل کر تنقید کی، نہ صرف اسے رد کیا بلکہ ان نقادوں کے ساختیاتی علم علامات کو بھی نشانہ بنایا جو ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۰ء کے درمیان مقبول تھے۔ ان ساختیاتی نقادوں میں رولاں بارتھ، زوئین ڈروف اور ژیراژینت تھے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ اب جامعات کی چاردیواری میں محصور ہے اورصرف ایک تدریسی عمل بن کررہ گئی ہے۔ یہ اب خالصاً پیشہ ورانہ تنقید بن گئی ہے جسے ادب کے ذیل میں نہیں لایا جا سکتا ہے۔۔۔

    ہمارے لیے یہ مباحث اور تحریریں کچھ بھی معنویت نہیں رکھتیں۔ اگر رکھتی ہیں تو براہ کرم بتایا جائے کہ ہماری تہذیب اور ہمارے ادب کے لیے ان کے کیا معنی ہیں؟ یہ بات یاد رکھئے کہ جب تک قوت تخلیق باقی ہے، تنقید کا عمل باقی رہےگا۔‘‘ (دریافت شمارہ ۹ جلد ۳ ص ۲۱۔ ۱۸)

    حسب دستور پروفیسر نارنگ نے ڈاکٹر جمیل جالبی کا جواب دیا ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں، ’’بات یہ ہے کہ سب نئے فلسفے جرمن فلسفی ہوسریل سے چلے ہیں پھر مظہریت کو وجودیاتی مظہریت یا وجودیت کی شکل ہوسرل کے شادگر ہائیڈیگرنے دی۔‘‘ پروفیسر صاحب نے ہوسرل کا نام تو لیا مگر اپنے پورے مضمون میں صرف دوبار اس فلسفی کا نام آیا ہے جونئے فلسفیانہ تنقید کا ’’سرچشمہ‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ میں اب اس کتاب کا ذکر کروں گا جو نقادوں اور قارئین نے نظرانداز کر دیا تھا۔ یہ کتاب ہے، ’’لسانی فلسفے کے آئینے میں۔‘‘ یوں تو اس میں بہت فکرخیز مضامین ہیں مگر میں قارئین کی توجہ ہسرل کے فلسفیانہ خیالات تک اپنے حساب سے محدود رکھوں گا تاکہ ہمیں یہ تو پتہ چل جائے کہ اس ’’سرچشمہ‘‘ سے ہمیں سیراب ہونے میں کتنی مدد ملی تھی۔

    خلیل مامون نے ہسرل کے فلسفے کو نہایت وضاحت سے پیش کیا ہے۔ افسوس کہ آج تک اس کتاب پر کسی کی نظر نہیں پڑی۔ وہ سوغات کے تیسرے دور میں محمود ایاز کے معاون مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ خلیل مامون نے نہایت صاف سیدھی زبان میں ہسرل کے تصورات کا ذکر کیا تھا۔ میں چند اقتباسات اردو کے عام قارئین کے لیے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے یہ کتاب ۱۹۸۸ء میں انہوں نے عنایت کی تھی۔ ’’ہسرل کے مطابق عام طور سے نشاندہی کے عمل اور اظہار کو ہم معنی قرار دیا جاتا ہے۔۔۔ یہ اس لحاظ سے غلط ہے کہ علامیہ کا بنیادی عمل نشاندہی کرتا ہے جبکہ اظہار کا مقصد بامعنی گفتگو ہے۔ علامیہ یا نشاندہی کسی شئے کا نعم البدل ہے جبکہ وہ بذات خود بامعنی ہے۔ ہسرل مزید کہتا ہے کہ علامیہ اور اظہار کے درمیان وجود میں آنے والی موجودہ ابتری محض اس حقیقت کی بنا پر ہے کہ ترسیلی گفتگو میں علامتی نسبت ہمیشہ اظہار کی وابستگی کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے تاہم اظہار کسی علاحدہ ذہنی صورت حال میں اس وقت بھی بے معنی ہو سکتا ہے جہاں اس کا عمل محض نشاندہی کرنا ہو۔۔۔

    کسی بھی علامیہ اور نشان کا جوہر یہ ہے کہ وہ ہمارے ایقان کو کسی چیز کی جانب مبذول کر سکے۔۔۔ تحریک اور وجہ کا یہ تعلق ہمارے فیصلہ جات کے اعمال کے توضیحی اتحاد کا علم بردار ہے جس میں نشان اور نشان کردہ شئے اور امور مفکر کے ذہن میں تنظیم پاتے ہیں۔ کسی علامیہ کی نشاندہی کا عمل ہمارے فیصلہ جاتی اعمال کے لیے تحریکی اتحاد کا درجہ رکھتا ہے۔۔۔ ہسرل یہ بھی کہتا ہے کہ اظہار کے بامعنی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ کسی حقیقت یا کسی امر کی نشاندہی بھی کرتا ہو۔ معنی اظہار کا اصل عنصر ہے جبکہ نشاندہی اس کا روایتی عمل۔۔۔ ہسرل اظہار یاتی اور فکری پہلوؤں کے امتیاز کو نہیں مانتا۔

    عام طور پر یہ کہا گیا ہے کہ ہر اظہار ایک طبعی پہلو یعنی کسی نشان پرچا ہے وہ صوتی روپ ہو یا پھر کاغذ پر لکھے گئے نشان کے طور پر ظاہر ہوتا ہو اور اس کے نتیجے میں ذہن میں کوئی صورت حال پید ہوتی ہو، اس ذہنی صورت حال کوعام طور پر اظہار کا معنی قرار دیا گیا ہے۔ ہسرل اس امتیازی دوہرے پن کو غلط بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ منطقی مقاصد کے پس منظر میں طبعی نشان اور حسی تجربے کے لیے یہ امتیاز کافی نہیں۔ اسما کی مثال دیتے ہوئے ہسرل کہتا ہے کہ بولے گئے یا لکھے گئے ناموں کے ذریعے ذہن میں پیدا ہونے والی صورت حال میں جوکہ کسی معروض کی جانب نشاندہی کرتے ہیں اور ان کے معانی میں بہت بڑا فرق ہے، اس پس منظرمیں معانی اظہار کا ایک نادر کردار ہیں جبکہ اظہار سے پیدا ہونے والی صور ت حال اور حسی معروض اس کا تجربی اور نفسیاتی نتیجہ ہے۔۔۔‘‘

    ہسرل نے ان مسائل کے پہلوؤں کو پیش کیا ہے کہ اظہار اور معنوی عمل کے امتیازات کا اظہار ہو سکے۔۔۔ اظہار اور معنی۔۔۔ ایک عینی اتحاد۔۔ معانی اور اہمال۔۔۔ معانی میں تبدیلی اورمعانی کی عینی وحدت، منطقی محض معانی۔ معنوی تجربات کا عینی اور مظہریاتی مواد۔۔۔ خالص معانی اور اظہار کردہ معانی—آزاد اور غیر آزاد معانی اور تصور قواعد محض۔۔۔ معنوی آمیزش کے ماقبل تجرباتی قوانین، قواعد محض اور منطق محض کا تصور، نظریہ اظہار۔۔۔‘‘

    میں صرف خلیل مامون کی تفصیلی بحث کو مختصراً اس لئے پیش کررہا ہوں کہ یہ خاص کر قارئین کے لیے مشکل ثابت ہو سکتی ہے۔ آخر میں ہسرل کے بنیادی خیالات کا خلاصہ پیش کرتا ہوں جو خلیل مامون نے لکھا ہے۔ حرف آخر عنوان کے تحت وہ لکھتے ہیں، ’’ہمارے عصرکے تقریبا ًتمام طرح کے علوم میں لسانی مسئلہ فکری اور وجودی دونوں سطحوں پرایک مسئلہ تصور کیا گیا ہے۔ فلسفہ نے اس مسئلہ کو کچھ زیادہ گہرائی اور شدت سے محسوس کیا ہے۔ یہ بات کسی مکتب فکر تک محدود نہیں ہے وہ آئر، آسٹن، رسل یا ڈنگسٹائین کا تجرباتی فلسفہ ہو یا سارتر، ہیڈگر کا انسانی یا مابعدالطبیعاتی فلسفہ یا پھر ہسرل کا مظہریاتی فلسفہ، لسان کی اہمیت پر زور سبھی میں ہے۔ یہ مظہر اس بات کا بھی شاہد ہے کہ بذات خود فلسفیانہ فکر اور اس کی تحقیق کس عجیب کشمکش کا شکار ہے کیونکہ متضاد اور مختلف قیاسات کی بنیاد پر مختلف نتائج تک نہیں پہنچا جا سکتا ہے۔‘‘

    خلیل مامون نے ہسرل کی تنقید بھی کی ہے اور واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ وہ ’’یہ ثابت کرنے سے قاصر ہے کہ آزاد اور غیرآزاد معانی کن امور کی تشریح کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حقیقت میں معانی روزمرہ استعمال اور عملی مباحث دونوں میں کلیوں کے طور پر ابھرکر سامنے نہیں آتے۔ چونکہ معانی کا تعلق فہم سے ہے۔ ہم انہیں ان کے عینی مفہوم میں نہیں لے سکتے، محض اس بنا پر ہم معنی کو آزاد اور غیر آزاد قرار نہیں دے سکتے کہ علاحدہ طور پر ان کی توصیف وتوضیح کی جا سکتی ہے۔۔۔‘‘ توضیح کا عمل کہ جو انسانی فہم اور اس کے واسطے سے معنی میں بہت اہم مسئلہ ہے، معانی سے جڑا ہوا ہے۔ ہسرل کا تجزیہ اس کو بالکل فراموش کر دیتا ہے۔۔۔‘‘

    میں نے ہسرل کا اس لیے ذکر کیا کہ پروفیسر نارنگ کا بیان ہے کہ ہسرل تمام مباحث کا سرچشمہ ہے اور ڈاکٹر جمیل جالبی نے ہسرل اور کئی اہم فلسفی نقادوں کو پڑھا تک نہیں ہے۔ کیا پروفیسر نارنگ نے ان سب کو پڑھا اور سمجھاہے۔ جی نہیں میں یہ سوال ان سے نہیں کر سکتا، اس لیے کہ ترقی پسندکارل مارکس سے بڑ ی حد تک ناواقف تھے اور جدیدیے مغربی جدید رجحانات سے بےخبر۔

    پروفیسر نارنگ نے اپنے مضمون کا آغاز گرامچی کے اقتباس سے کیا ہے۔ کیا انہیں یاد نہیں آیا ہوگا کہ ’’شعور‘‘ (بلراج منیرا) میں گرامچی پراقبال اختر کا تفصیلی مضمون موجود ہے۔ کہاں وہ حضرت فاروقی کے اتنے قریبی دوست تھے کہ میر کے اشعار کی ’’بلند خوانی‘‘ بھی فاروقی سے کرائی تھی 2 دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو— میں ایک طویل مدت تک خاموشی سے مابعد جدیدیت کا ’’تماشا‘‘ دیکھتا رہا اور خاموش رہا۔ اس لیے کہ شطرنج کے کھیل میں جب سارے مہرے اپنی جگہ بیٹھ جاتے ہیں تو ’’کھیل‘‘ شروع ہوتا ہے اور پروفیسر نارنگ کی کتاب ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی تھی۔ یعنی وہ ’’تنقید‘‘ میں اپنی جگہ ’’مستحکم‘‘ کر چکے تھے اور اب ان کا اور میرا سامنا ہے یعنی ’’کھیل‘‘ شروع ہوتا ہے۔

    اپنے ایک مضمون میں ان گنت مارکسی مفکرین کا ذکر’’خیر‘‘ کیا ہے۔ وہ نام اس طرح لیتے ہیں جیسے کہ تمام مفکرین کا مطالعہ کرچکے ہیں اور جگہ جگہ ان کی توصیف میں جملے لکھتے ہیں۔ ’خدا‘ را کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ ایک توثقافت، تاریخ، اور طبقات کا ذکر نہیں آتا یا آتا بھی ہے تو اتنی جلدی سے ورق پلٹ دیتے ہیں کہ قارئین ان کے دیے ہوئے اقوال سے ’’حیران‘‘ ہوجاتے ہیں۔ میں معاشیات کا ایک طالب علم رہ چکا ہوں۔ مارکسزم میرے ام اے کے کورس میں داخل تھی اور میں نے پروفیسر ڈی پی مکرجی کی نگرانی میں کچھ جان پہچان ۵۱۔ ۴۹ء میں حاصل کی تھی۔ ان کے پہلے مضمون میں یوں تو کئی نامی گرامی نقادوں کا ذکر ہے مگر بھولے سے بھی جارج لوکاچ کا نام نہیں ہے یعنی پروفیسر نارنگ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مابعد جدیدیت آزادی فکر، آزادی گفتار، آزادی تحریر کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ع پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔۔۔

    لوکاچ کی تنقید بھی ہوتی ہے اور آج مارکسی حلقوں میں اسے بڑی عزت اور احترام سے پڑھا جاتا ہے۔ وہ اپنی کتاب تاریخ اور طبقاتی شعور میں لکھ چکا ہے۔ یہ کتاب انگریزی میں ۱۹۷۱ء میں شائع ہوئی تھی۔ میں نے ۱۹۷۲ء میں پڑھی تھی۔ شام لال نے لوکاچ کی کئی کتابوں پر سخت تنقید کی تھی۔ اپنی کتاب ’’اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے ۱۹۸۰ 3 میں جدیدیت کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ کیا انہیں وہ مضمون یاد نہیں ہے جو خاکسار نے ۱۹۶۷ء 4 میں اردو ادب (پروفیسر آل احمد سرور) میں لکھا تھا۔ اپنے ہاتھوں اپنا سہرا باندھنے کی ان کوعادت ہے۔ ہمارے اردو ادب میں یہ بہت پرانی روایت ہے ع مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔۔ پروفیسر نارنگ نے اپنے پہلے مضمون میں ان گنت کتابوں اور مارکسی نقادوں کا ذکر کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں قدم قدم پر سہارا لینا پڑا ہے۔ صفحہ ۲۲ اور ۲۳ پر دس کتابوں کے نام ہیں۔ اپنے حساب سے ’’نئی‘‘ مگر فسردہ بات کہتے ہیں، ’’صدیوں سے چلا آ رہا انسانی تصور بے دخل ہو گیا۔ دوسرے لفظوں میں جو تصور عقلیت پسند تحریکوں اور ہر طرح کے آئیڈیولوجی کی جان تھا اس کی بنیادیں ہل گئیں۔‘‘

    میں انیس ناگی کی کتاب رد تشکیل اور خلیل مامون کی ’’لسانی فلسفہ کے آئینہ میں‘‘ کا تفصیلی ذکر کر چکا ہوں۔ یہاں ان باتوں کو دہرانا مقصود نہیں ہے۔ صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ خیالات میں تبدیلی تو ممکن ہے مگر اتنی کایا پلٹ تقریباً ناممکن ہے۔ آج پروفیسر نارنگ اپنا اسٹیبلشمنٹ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ایک گروپ کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ اس طرح ان کے دورخی بیان کی اثبات پوری ہو جاتی ہے مگر میں اس کتاب کے بہت سے پامال جملوں کا جائزہ لینا چاہتا ہوں تاکہ اردو زبان کے قارئین کو کسی قدریقین آ جائے کہ پروفیسر نارنگ کو اردو زبان کی بقا سے زیادہ اپنے کو حضرت فاروقی سے اہم ناقدثابت کرنے کی کوشش ہے۔ یہ جملہ ملاحظہ ہو،

    ’’اسی طرح کمپیوٹر ذہن (کمپیوٹر میں ذہن نہیں ہوتا یہ تو آدمی ہی کے ذہن کا کام کمپیوٹر کرتا ہے) نے علم کی نوعیت اور ضرورت کو بدل کر رکھ دیا ہے اورعلم کی ذخیرہ اندوزی اور بازیافت کے یکسر نئے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ ان جملہ تبدیلیوں اور نئی کلچرل فضا کا اگر کوئی اصطلاح احاطہ کرتی ہے تو وہ مابعد جدیدیت ہی ہے۔‘‘ (ص ۲۲)

    یہ بیان اس طرح پیش کیا گیا ہے جیسے تبدیلیاں، یعنی سماجی اور ثقافتی فضا میں جو صورت حال ہے اس کو صرف مابعد جدیدیت پیش کرتی ہے جبکہ پروفیسر نارنگ خود کہہ چکے ہیں کہ یہ برسوں پہلے سے چلی آ رہی تھیں۔ دیکھ لیجئے کہ آج اپنے ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ یہاں پہلے بھی دقیا نوسیت تھی اور آج نئے رنگ ڈھنگ سے اپنا پرانا زہر پھیلا رہی ہے۔ مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ اردو ادب ہماری علاقائی زبانوں سے کتنا پچھڑا ہوا ہے۔ بنگلہ زبان میں یہ بحث بہت پہلے آ چکی ہے۔ علم تعمیر یعنی عمارتیں بنانے کے طریقوں میں بھی پہلے سے دخل اندازی ہو چکی ہے اور پروفیسر نارنگ اس طرح ان زبانوں کا انکشاف کرتے ہیں جیسے یہ تماشا نیا ہے۔ کیا وہ ثقافت کے معنی سمجھا سکتے ہیں۔ ہند کے جنوب، شمال کے درمیان کے فاصلوں کو اپنی اپنی زبانوں کے حلقے میں کتنی کتنی مشکلوں کا سامنا ہے۔

    آریہ زبان کا بڑا ادیب مہا پتر ا (SRI KANT MAHAPUTRA) اپنی کتاب THE IMPORTANCE OF TRADITION میں اپنے صوبے ہی کی نہیں، پورے ملک کی روایات کا ذکر کر چکا ہے مگر پروفیسر نارنگ نے اس کو نظر انداز کیا ہے۔ مرہٹی دانشور پروفیسر ڈی ڈی کوسومبی نے بھی تفصیلی بیانات اپنی کتابوں میں دیے ہیں، خاص کر اسطور اور حقیقت میں وہ قدرے سخت گیر مارکسی مفکر تھے مگر ان کی کتابیں نہایت فکر خیز ہیں۔ مگر پروفیسر نارنگ نے کبھی بھولے سے بھی ان کا ذکر نہیں کیا۔ خیر!

    پروفیسر نارنگ نے یہ بیان دیا ہے، ’’میں یہ بات پورے وثوق سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تھیوری یعنی ادبی نظریہ سازی یا فلسفہ ادب ایک مکمل مثالی (آدرشی) صورت حال ہے۔‘‘ (ص ۵۰)

    پروفیسر نارنگ کو اتنا تیقن کیسے حاصل ہوا کہ وہ اپنی’’ دریافت‘‘ پر پورے وثوق سے گفتگو کرتے ہیں۔ دیکھیے شام لال نے اٹھائیس اپریل 1961 میں ریمنڈ آیران REYMOND ARON کی کتاب تاریخ کے فلسفہ کے تعارف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا، ’’یہ بحث نا تمام ہے۔ یہ صرف ایک طرح کی کوشش ہے۔ اب آپ یعنی قارئین ریمنڈ آیران کے چند جملے ملاحظہ کیجیے۔

    ’’تاریخ کی تکمیلیت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ بکھرے ہوئے اجزا کو اکٹھا کرکے اپنی طرف داری میں بیان دے دیتے ہیں۔ فوری مشاہدات میں ہمیں کئی طرح کے اعمال نظر آتے ہیں اور ان کے درمیان ایک دوسرے میں فاصلے بھی اور اس تسلسل سے ہمیں کچھ جگہ پر عمل کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں۔ اور ہمیں ذاتی فیصلے دینے کا موقع مل جاتا ہے۔۔۔‘‘

    میں اتنا پرانا شام لال کا تبصرہ اس لیے پیش کرتا ہوں کہ ایک مدت تک مارکسی مفکرین بھی کوئی بیان ’’پورے وثوق سے‘‘ نہیں دیتے تھے۔ پروفیسر نارنگ (ص۵۱) پر فرماتے ہیں،

    ’’واضح رہے کہ مابعد جدیدیت کے پاس کوئی ایسا اینٹی ایجنڈا نہیں جیسا جدیدیت کے پاس ترقی پسندی کے خلاف تھا (اس جملے کو نئے انداز میں دہراتے ہیں) مابعد جدیدیت کا سرے سے کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ اس کا مسئلہ زندگی اور انسان کا کرائسس (Crisis) ہے جس میں اکیلے جدیدیت کا کوئی مرکزی مسئلہ نہیں۔ اس لیے کہ بدلی ہوئی ترجیحات اور کامن سینس (COMMON SENSE) کے چیلنج میں جدیدیت تو آپ ہی کالعدم ہو جاتی ہے۔‘‘

    پچھلے صفحے پر پورے وثوق سے نظریہ سازی کو آدرشی کہہ چکے ہیں۔ انہیں ضرور معلوم ہوگا کہ یوٹوپیابذات خود ایک نامکمل خیال یا ایسا آدرش ہے جو مفکرین دیکھتے سوچتے ر ہتے ہیں۔ مگریہ خواب آج صرف ایک خواب یا خیال ہے۔ یہ صحیح ہے زندگی میں خواب کی ضرورت رہتی ہے مگر زیرک وہی شخص کہلاتا ہے جو سایے کے پیچھے نہیں بھاگتا۔ پروفیسر نارنگ آٹھ صفحے بعد نظام صدیقی کے خیالات کو دہراتے ہیں، ’’مابعد جدیدیت موضوعاتی، اسلوبیاتی، ساختیاتی، لفظیاتی اور نحویاتی سطح پربہت حد تک (یہ تین لفظ قابل غور ہیں) جدیدیت سے متغائر اور متمائز ہے۔‘‘ میں کہاں تک ان کے خیالات کو بیان کروں؟ ژاک دریدا پروفیسر نارنگ کے ’’محبوب‘‘ فلسفی نقاد ہیں مگر اس کی کتاب Spectres of Marx  5کا کہیں ذکر نہیں ہے۔

    شام لال نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔ تبصرہ کا عنوان بھی قابل غور ہے (Massianic Make Believe) جادوئی خیال آرائی شام لال کا پہلا جملہ ہی فکر خیز ہے، ’’کبھی صاف سطحی فلسفیانہ فکر سے فریب نہ کھانا جو (Creed) پرکشش ہوتی ہے اور ایک طرح کا سکون آمیز بیان۔۔۔‘‘ دریدا کے الفاظ ملاحظہ ہوں، ’کیوں ان غریب بھوتوں کی پرانے اخبارات کے تراشوں میں تلاش کی جائے وہ بھی مارکس کی موت کے بعد۔ اگرچہ چند مشکل سوالات آتے ہیں۔ مارکس کے تشکیل نوکی ضرورت نہیں مگر ان میں جادوئی ترجیحات اور خیالات ہیں تو انہیں نظرانداز کرنا چاہئے۔‘‘

    ’’دریدا اپنی خوشی دیوانہ پن اور بیانات کے اظہار میں کامیابی میں مست ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’اور یہ نعرہ Long Live Liberation بڑا مکروہ معلوم ہوتا جب کہ عوام کی اکثریت آمر حکمرانوں کی ’’غلامی‘‘ میں زندگی گزار رہی ہے۔۔۔‘‘ دریدا کہتا ہے (مذاقاً) کہ تشکیل نو کی پھر سے تشکیل کرنی چاہئے۔۔۔‘‘ جب قاری اس کتاب کو ختم کرتا ہے تو عجیب سے لسلسلی مزے کا احساس ہوتا ہے مگر وہ مسائل کا حل نہیں ڈھونڈ پاتا تواس لیے کہ نہایت پیچیدہ معاملات ہیں (یہ تبصرہ ۱۲ جنوری میں کلکتہ کے اخبار میں شائع ہوا تھا) مجھے دیوندر اسر سے امید تھی کہ اپنے مضمون میں Crony Capitalism کا ذکرکر یں گے اور مابعد جدیدیت پر سخت تنقید کریں گے مگر وہ بھی ایسا معلوم ہوتا ہے آج کی ’’ادبی تنقیدی فضا‘‘ سے گھبرا گئے ہیں۔ صرف بہت پرانی بات دہراتے ہیں کہ تہذیبیں ایک دوسرے سے متاثر ہوتی ہیں۔

    ذرا یہ بتائیے کہ کتنے پہلے جان ڈن نے کہا تھا، ’’آدمی ایک جزیرہ نہیں ہے۔‘‘ حیرت ہے کہ ان سا دانشور بھی مابعد جدیدیت کے بارے میں دورخی باتیں کرتا ہے۔ تاریخ کا ذرا بھی مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہر زمانے میں زبانیں، ادب، علوم حتی کہ مصوری بھی ایک دوسرے کو متاثر کرتی رہیں اور کرتی رہیں گی، خواہ رسل ورسائل کی اتنی بڑی دریافت ہوتی نہ ہوتی۔۔۔ ایک کتاب Derrida & Indian Philosophy ۱۹۹۲ میں شائع ہوئی تھی۔ اس پر تبصرہ Shelly Walia نے ۲۲ ستمبر ۱۹۹۳ء میں کیا تھا۔ کتاب کے مصنف کا نام Howard Cowed ہورڈ کا ڈوہے۔ دریدا کے چند جملے ملاحظہ ہوں۔

    ’’کیا یہ حقیقت ہے انسانی خیالات اور زبان پر یہ مسلط کی گئی ہیں یا خود بخود انسانی ذہن اور زبان میں آئی تھیں۔ وہ دریدا کی اہمیت کو مانتی ہے مگر یہ سوال بھی کرتی ہے کہ مسائل بہت سنگین ہیں اور ان کا حل بہت مشکل ہے۔ شنکر اور بھارت ہری کا اثر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے مگر وہ تفصیل میں نہیں گیا ہے (یہاں وہ سے مراد دریدا ہے) وہ یعنی دریدا مشرقی اور مغربی افکار میں مماثلت ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے مگر تلاش نہیں کر پاتا ہے۔ یہ کتاب اس لیے اہم ہے کہ ایک ناتمام سہی، کوشش تو ہے۔ ٹائمس میں یہ تبصرہ شائع ہوا تھا۔ میں نے بھی سرسری ذکر کیا ہے مگر پروفیسر نارنگ کو ساری خبریں تاخیر سے ملتی ہیں۔ میری یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جو شخص صبح وشام اپنے کوبلندی کی طرف جانے میں کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا، آخر وہ کس طرح ’’استعارہ‘‘ گروپ کا صرف سرپرست بن کر رہ گیا؟ شاید اسی لیے یگانہ نے بہت پہلے کہا تھا،

    بلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور پستی کا
    بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

    (۳)
    میں حضرت وارث علوی کی کتاب پراپنی رائے دینے کی ’’جرأت‘‘ کرتا ہوں۔ کتاب کا نام ہے ’’ادب کا غیراہم آدمی۔‘‘ اس پراب تک کوئی تبصرہ نہیں شائع ہوا، البتہ اس کتاب کے آخری سرورق پر حضرت فاروقی کا خط شائع کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو پتا چل جائے وارث علوی صاحب کے خط نے حضرت فاروقی کو اشک بار کر دیا تھا۔ گوکہ وارث صاحب کے اس خط کا جواب نہیں دیا گیا مگر حضرت فاروقی کے چند آنسو کے قطرے وارث صاحب کی اہمیت کو ’’فروغ‘‘ دیتے ہیں۔ قارئین کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ میں نے اپنے خاکے ’’پیارے دقیانوسی‘‘ میں لکھا تھا کہ وارث صاحب حضرت فاروقی کو’’عظیم ناقد‘‘ سمجھتے ہیں اور دہلی کا ایک رسالہ انہیں ’’اردو ادب کی آبرو‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے۔

    وارث صاحب نے کہیں بھی مابعد جدیدیت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ میں اسے نظرانداز بھی کر سکتا تھا مگر نقاد کی اہمیت کا ذکر اس میں بڑے نرالے طریقے سے کیاہے کہ میں نے اس پر بھی ایک نظر ڈالنا مناسب سمجھا۔ ’’ذہن جتنا بالانشین ہوگا شعروں کی اڑان بھی اتنی ہی بلندی ہوگی۔‘‘ یہ جملہ تنقیدی ہے یا نہیں مگر اس سے وارث صاحب کے ’’تنقیدی‘‘ مزاج کا پتہ چلتا ہے کہ وہ ’’انشاپردازی سے تنقید کو قابل مطالعہ بنانے کا ’’فن‘‘ جانتے ہیں۔ ایک اور جگہ ایسی ہی بات یوں کہتے ہیں، ’’عظیم تنقیدوں میں تخیل، تخلیق اور بصیرت کا ایک دھارا ہوتا ہے جس کا سرچشمہ شعروادب کا پرکیف مطالعہ رہا ہے۔ تنقید کا یہی تخلیقی اور وجدانی جوہر خشک عالموں اور بے جان مدرسوں کو اپنی طرف للچاتا ہے لیکن اس وقت تک ہاتھ نہیں آ جاتا جب تب ادبی تجربہ نشہ بن کر حواس پرنہ چھا جائے۔‘‘

    وارث صاحب قاری کو بھی ’’فنکار‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہ کتنی ’’مسرت‘‘ کی جگہ ہے۔ افسوس کہ ایسے جملوں سے قاری ’’خوش‘‘ تو ہو جاتا ہے مگر’’نشہ‘‘ نہیں آتا، خالی خالی آنکھوں سے تکتا رہ جاتا ہے۔ اپنی باتوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ’’عموما ًفنکار لکھنے کاگر نقادوں سے نہیں بلکہ دوسرے بڑے فنکاروں کے مطالعے سے سیکھتا ہے۔ اسی لیے لکھنے والے کے لیے بھی ادب کا قاری ہونا ضروری ہے۔ فنکار قاری کی کوکھ سے پیدا ہوتا ہے اور نقاد قاری ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔‘‘ چلئے قصہ ختم ہوا یعنی قاری اور نقاد ایک دوسرے میں وارث صاحب کے خیال سے مدغم ہو گئے۔ کاش ایسا ہوتا۔۔۔؟

    آگے چل کر لکھتے ہیں، ’’کیا تنقید کا درجہ تخلیق سے کم ہے؟ ‘‘ اسی جملے کو نئے الفاظ میں پھر فوراً لکھتے ہیں، ’’کیا تنقید تخلیق کی نعلین بردار ہے؟ کیا نقاد ادب کا غیراہم آدمی ہے؟ ‘‘ یہ لکھنے کے بعد وہ فوراً زقند لگاتے ہیں اور فرماتے ہیں، ’’سماجیات ہو یا نفسیات، لسانیات ہو یا علم اساطیر، علوم کے مختلف شعبوں میں جو کچھ بہترین سوچا گیا ہے تنقید اسے اپنے اندر سموتی ہے۔ اس معنی میں تنقید ’جہان افکار‘ ہے۔‘‘ اب وارث صاحب قاری کی صلاحیتوں کو علموں سے بچانے کی کوشش میں اسے ’’جہان افکار‘‘ میں ڈال دیتے ہیں۔ کچھ اور آگے جاکر وہ اپنی گفتگو اور دلچسپ بنانے کے لیے فرماتے ہیں، ’’تنقید وہ سرد لبراں ہے جو منبر پر فاش کیا جاتا ہے، وہ وعظ ہے جو راز کی صورت رازدانوں کو سنایا جاتا ہے۔ تنقید تخیل کی جادونگری کی سیر ہے جہاں افکار سیاحت ہے۔‘‘ وہ تنقید کو تخلیق سے بالاتر بنانے کی کوشش میں بھول جاتے ہیں کہ وہ کہیں بھی قاری کی ذہنی سطح کا خیال نہیں کر رہے ہیں۔ صرف پرلطف، دلچسپ جملے تراش رہے ہیں۔

    کاش وہ نہیں اورہاں میں گفتگو نہ کرتے ہوئے بھی تنقید کی اہمیت کو فروغ دینے میں مسائل کا ذکر کرتے جس سے آج ادب کا قاری دوچار ہے۔ یعنی شعر کی تشریح، معانی کے مفاہیم، الفاظ کی پرکھ اور فکر کی بنیادیں کیا ہیں؟ ایک جگہ لکھتے ہیں، ’’تخلیق کا تجربہ جمالیاتی ہے اور تنقید کا دانشورانہ۔‘‘ دیکھئے عام اردو قاری کو وارث صاحب کہاں چھوڑ کرچلے گئے۔ نہ تو جمالیاتی کی تفصیل بیان کی اور نہ دانشورکی۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اردو کا عام قاری کتنا مجبور اور بے کس ہے۔ اردو زبان صرف مسلمانوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے اور خود وہ اسی مضمون میں لکھ چکے ہیں کہ ناخواندگی اتنی بڑھ چکی ہے کہ مقبول عام شاعر جگر کا مجموعہ بھی فروخت نہیں ہوتا ہے اور اس دور کے سب سے مشہور شاعر اپنے مجموعے کا اجرا فلمی شخص مہیش بھٹ سے کراتے ہیں گوکہ اب بھی مشاعرے میں لوگ جمع ہوتے ہیں مگر رات کو مشاعرے کے ختم ہونے کے بعد ’’خوف‘‘ کی گلیوں سے گزرتے ہیں۔

    اردو زبان اتنی محدود اور کمزور ہوئی ہے کہ مجروح صاحب کو ’’مشعل جاں‘‘ ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں شائع کرانا پڑا تھا اور آج بھی کتنی کتابیں دکانوں میں خریدار کا انتظار کر رہی ہیں۔ مجھے حیرت نہیں ہوتی کہ قرۃالعین حیدر کا ناول گردش رنگ چمن آج بھی بکنے کے لیے موجود ہے۔ اردو زبان عالم نزع سے گزری ہے مگر ہمارے نام نہاد ادیب، قاری اور نقاد خاموشی سے یہ تباہی کا منظر دیکھ رہے ہیں اور گروہوں میں تقسیم ہوکر آپس میں بحث وتکرار میں گرفتار ہیں۔ میں وارث صاحب کی تحریر کو بہت پسند کرتا ہوں۔ بڑا لطف آتا ہے مگر مجھے ان کی بے کسی پر ہنسی نہیں آتی، میں صرف ایک عام اردو قاری کی طرح ’’خاموش‘‘ ہوں۔ غالب نے کہا تھا،

    ہمہ ناامیدی ہمہ بدگمانی
    میں دل ہوں فریب وفا خوردگاں کا

    اس کتاب کے دوسرے مضمون میں انہوں نے حضرت فاروقی سے اپنی ’’عقیدت‘‘ کا اعتراف کیا ہے۔ ص ۸۷ کی آخری سطر میں موجود ہے۔ وہ فاروقی کو عظیم نقاد بہت پہلے بھی کہہ چکے تھے، یہاں بھی وہ ان کی عظمت کے معترف ہیں جبکہ اردو میں اہم نقاد تو دور کی بات ہے قابل ذکر نقاد بھی گنتی کے ہیں! وارث صاحب کے چند جملے پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ پتا چلے کے وہ خود کس درجے کے ناقد ہیں۔

    ’’تنقید بیل گاڑی ہی کی مانند سخت جان ہے۔ اول تو اسے ہوائی جہاز ہونے کا دعویٰ نہیں ہے۔ وہ ہچر مچر چال چلتی رہتی ہے۔ دیکھا کہ فکر کے گڑھے میں پہیا پھنس گیا تو دوچار فلسفیوں کو بلاکر کہا لگاؤ دھکا۔ نظریہ کی لاش بھاری ہو گئی ہے تو دوچار نقادوں کو کندھے دینے کے لیے آوا زدی۔ پانچ دس اشعار کے غل غپاڑہ مچانے والے چھوکروں کو جمع کیا اور ان کے شور شرابے میں شاعر کا جلوس بیل گاڑانہ بڑھ گیا۔‘‘ ( ص ۱۶)

    ’’تنقید ٹھرانوشی سے پرہیز کرتی ہے۔‘‘

    ’’تنقید تخلیق کے اڑن کھٹولے کا پایا پکڑ کرعظیم تخیل کے اندرلوک کی سیاحت کرتی ہے۔‘‘

    ’’بصیرت کے بغیر تنقید بھی رائیگاں ہے لیکن کوندا لپکے نہ لپکے، گھنگھور گھٹاؤں کا اپنا ایک لطف ہے، خصوصاً بدلیوں سے علم کی پھوار برسنے لگے تو ذہن سیراب ہو جاتا ہے۔ نقاد ادب کا وہ تپسوی ہے جوعلم کی لنگوٹی پہنے نظریہ کی ایک ٹانگ پر کھڑا اس تیسری آنکھ کے کھلنے کا منتظر ہے جو خاشاک کے تودے میں دماوند دیکھتی ہے۔‘‘

    وارث صاحب جملے تراشتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ ان الفاظ کے کیا معنی ہیں۔ ان کی نظر میں نظریہ ’’بھاری لاش‘‘ ہے۔ ذرا زحمت کرکے بتا دیں کہ مرنے سے پہلے یہ ’’لاش‘‘ ایک زندہ آدمی تھی یا Still Born تھی۔ میں ان سے عرض کر چکا ہوں کہ ان کے مضامین ’’الفاظ‘‘ کا انبار ہیں۔ اگر وہ سوچ سوچ کر لکھتے تو کیا واقعی اتنی کتابیں لکھ پاتے۔ انہیں کی معاشی مدد سے اظہار کا آخری شمارہ شائع ہوا تھا۔ میں یہ جملے لکھنے پر مجبور ہوں کہ وارث صاحب ’’سرمست آدمی‘‘ ہیں، جو جھونک میں آ کر لکھتا چلا جاتا ہے۔ انہیں معلوم ہے فاروقی، احمد مشتاق (پاکستانی شاعر) کو فراق سے بہتر شاعر سمجھتے ہیں مگر ایک دھن میں لگے کسی شخص کو کہاں تک کوئی سمجھا سکتا ہے۔ فاروقی نے لکھا ہے، ’’تم نے زندگی کو، ادب کی سیاست کو جس بہادری، پامردی اور شانت ہم سایہ کے خوف سے ماورا ہوکر برتا ہے، اس کی مثال نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔‘‘

    ان جملوں کے فاروقی کو وہ حالی کے بعدسب سے بڑا نقاد کیوں نہ کہیں گے؟ گجرات اکادمی کے دس سال سکریٹری رہے، مجھ سے مراسم رکھے جو ایک قسم کی مفاہمت ہی تھی۔ میرے نام ایک کتاب کا انتساب کیا۔ وہ تو قدم قدم پر مفاہمت کرتے رہے ہیں اور اب لاچار بیٹھے ہیں۔۔۔ ان تمام باتوں کے باوجود میں ان کی کتابیں دلچسپی سے پڑھتا ہوں،

    غیر سے دیکھئے کیا خوب نبھائی اس نے 
    نہ سہی ہم سے پر اس بت میں وفا ہے تو سہی

    (۴)
    اب پھر مابعد جدیدیت کی بحث کی طرف واپس آتا ہوں۔ پروفیسر نارنگ نے The Peotics of Post Mordernism (1998) by lind Hutcheonاس کتاب کا نام تو لیا ہے مگر اس کے خیالات کا ذکر ضروری نہیں سمجھا ہے۔ آئیے اس پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ وہ اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتی ہے، ’’میں نے موجودہ ثقافتی مسائل کا مطالعہ پیش کیا ہے جوآج بحث اور مزید تکرار کا باعث بنے ہوئے ہیں۔۔۔ امبریٹو ایکو (UMBRETO ECO)، (ایک اطالوی ادیب) نے نہایت بے باکی سے کہا ہے، ’’گلاب کا نام‘‘ نشان اور اس کی متعدد تفسیر کرتا ہے۔ یہ بات قدیم زمانے میں دلچسپی کا باعث تھی۔

    شیکسپیئر کے تاریخی ڈراموں میں متضاد ذاتی تاثرات اور تاریخی واقعات پائے جاتے ہیں۔ صرف مابعد جدیدیت کا طنز (IRONY) لازمی حصہ بناہے۔ یہی نہیں وہ تضادات اور ان کا خبط بار بار ان کی موجودگی کا احسا س دلاتی ہے۔ شاید اسی لیے ہمارے ثقافتی نقاد اس طرف توجہ دے رہے ہیں۔ آج ہمارے حلقوں میں مابعد جدیدیت کی ضرورت سمجھی جا رہی ہے، یہ سوالا ت اٹھاتی ہے بلکہ مباحث کاذریعہ بھی بنتی ہے مگر جوابات ثقافت کے بارے میں نہیں دے پاتی ہے۔ میں جانتی ہوں کہ مسائلاتی (Problematize) ایک بھدا لفظ ہے مگر دوسرے الفاظ بھی ایسے ہیں جیسے Theorize ’’نظریات، جمالیات وغیرہ۔ یہ یکسانیت نہیں ہے بلکہ اس بات کو اقتدار سے مناسبت کرتے ہیں۔ ان پوشیدہ رشتوں کا اظہار کرتے ہیں جو انسانی اثباتی منسلکاتی موا د کو جمالیاتی اور سائنسی روپ دیتے ہیں۔‘‘

    مارکوز کے مشہور ناول ’’ایک سو برس کی تنہائی‘‘ پر متضاد آراکا اظہار کیا گیا ہے اور یہ مابعد جدیدیت کی ایک مثال ہے۔ مشہور نقاد لاری کافری Lorry Coffery اسے ایک سیاسی اور تاریخی حقیقت سے موسوم کرتا ہے۔ یہ ایک نمونہ بن گیا ہے موجودہ ادیبوں کے لیے۔ وہ اپنی کتاب کے آخری صفحات Melafictional Muse میں کہتا ہے، یہیں سے میری بحث کا آغاز ہوتا ہے۔

    ’’سب سے اہم بات یہ ہے کہ داخلیات کی محرکات کو چیلنج کرتا ہے تاکہ انسانیت کے خیال کو یکجہتی مل سکے۔ یہ صرف ایک التباس (Illusion) یکجہتی کو پیش کرتا ہے۔ تعلیم یافتہ، حساس، دانشورانہ یا کمرشلزم ثقافتی سابق سرمایہ دارانہ نظام کی نشاندہی ہے جو صنعتی سماج میں ظہورپذیر ہوئی ہے۔‘‘

    ’’مابعد جدیدیت یہ بتانا چاہتی ہے کہ تمام مرمت انسانی تعلقات کی قدروقیمت اپنے تمام متضادات محدودیات میں ممکن ہے۔‘‘

    ’’نامور فلسفی بڈیسہ راڈ BANDRILLARD اسے ثقافتی اخراج سمجھتا ہے یا آخری TECHONOSCAPE کی طرف مراجعت، مشہور فرانسیسی ڈرامانگار آرتار (ARTAND) کا خیال ہے یہ ایک جسم ہے بغیر کسی اعضا (ORGANS) کے۔‘‘

    اور بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ RICHARDROTRY کاکہنا ہے ’’دریدا یا کوئی اور کہتا ہے روایات نے متنی تنقید کو نظرانداز کیا ہے صحیح نہیں ہے۔ پرانی طرز گفتگو کا الٹ پھیر ہے اور خاصا مشکوک بھی۔ ساری بحث کا آغاز مابعد سے شروع ہوتا ہے۔ کیا یہ رد جدیدیت ہے یا اس کے اوپر مسلط کیا گیا ہے۔‘‘ یہ بحث ناتمام رہتی ہے اور ناتمامی اس کی ایک خصوصیت ہے۔ لینڈا نے تصویر کے دونوں رخ پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ قارئین خود فیصلہ کریں۔ جیسے وہ پیراڈی (PARODY) کے بارے میں کہتی ہے۔ یہ اٹھارہویں صدی کا مزاح (WIT) نہیں ہے۔ اس کی نئی تشریح کی گئی ہے۔ وہ یکسانیت کے دونو ں پہلو کو پیش کرتی ہے۔ طنز کی نشاندہی کرتی ہے کہ دونوں رخ سامنے آجائیں یعنی ہاں بھی اور نہیں بھی۔ یہ پیراڈی تاریخ نگاری م، ابعدفکشن، فلم، مصوری، فن تعمیرات میں نمایاں ہے۔ یہ تبدیلی اور تسلسل میں بھی کارفرما ہے۔ اس لیے یونانی لفظ Pare ذومعنی لفظ ہے۔ تبدیلی کا مخالف دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

    یہ کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ اس میں بارہ ابواب ہیں۔ ہرباب کسی ادیب، مفکر یا ناول کے اقوال سے شروع ہوتا ہے۔ لینڈا نے بڑی کوشش کی ہے حمایتوں اور مخالفین دونوں کے خیالات پیش کرکے ان پر بحث بھی کی ہے مگر خود کو الگ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ میرامضمون خاصا طویل ہو گیا ہے ورنہ میں ہرباب کا مختصراً تذکرہ کرتا۔ اس لیے اب میں آخری باب ہی کا ذکر کروں گا۔ اس کتاب کے انجام کا لب لباب ہے۔ اس کی ابتدا وہ یوں کرتی ہیں، ’’تھیوری بھی عمل کے بڑھاوے سے آگے نہیں جاتی ہے۔‘‘ یہ اقوال چارلس برسٹین Charles Bernstine کا ہے۔ پھر وہ اپنے ’’اختتامیہ کا آغاز یوں کرتی ہیں، ’’آرٹ اور تھیوری (شاید) انقلابی خیالات نہیں جیسے کہ اس کے حمایتی خطیبانہ انداز کہتے ہیں۔ اورنہ وہ نئے دقیانوسی ہیں جیسے کہ ان کے مخالفین سمجھتے ہیں۔‘‘

    اس باب کا عنوان ہے شعریت یا مسائل (A Poetics or Problematize) آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے خیال سے پتا نہیں اسے شعریت کہا جائے یا مسائل کی بحثیں۔۔۔ وہ پہلے پیراگراف کے آخری جملے میں کہتی ہے میں اس کی حمایتی نہیں ہوں۔ دوسرے پیراگراف کے آغاز میں کہتی ہے، ’’اب مابعد جدیدیت کے (Dark Side) سیاہ رخ کا فیشن بن گیا ہے۔ بات یہ ہے کہ مابعد جدیدیت کے دورخی انداز کو آپ اسی کے اندر رہ کربحث کریں، یعنی آپ کوباہر سے اس پر بحث کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ تاریخ کو چیلنج کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ اس کی اہمیت ہی نہ مانیں۔

    تیسرے پیراگراف کا آغاز BAUDRILLARD کے نہایت فکرخیز مضمون کے ذکر سے کرتی ہے The Precesson of Simulacra (1984) اس مضمون میں آپ Subsitutes (مثاوی) کو اصلی حقائق کی جگہ رکھ کر تجزیہ کریں۔ یہ مابعد جدیدیت کر رہی ہے۔ اس طرح اختلافات کو رد کر کے تخلیقی محرکات اور مقابلیاتی رجحانات کو معطل کر دینے کے مترادف ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ماس میڈیا حقیقت کو غیرجانب دارانہ کرکے اس کو مسخ کر رہی ہے۔ یہ ایک طرح Simulacrive یعنی معنی کو بالکل ختم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ نہیں ہے کہ ’’سچ‘‘ او رجوابات موجو دنہیں ہیں مگر وہ اہمیت کھو چکے ہیں۔ اس پیراگراف کے آخری جملے میں وہ کہتی ہے، میں سمجھتی ہوں بڈیسہ راؤ ہی مابعدجدیدیت کی تعریف Definition کر سکتا ہے۔

    چوتھے پیراگراف کا آغاز اسی فلسفی کے قول سے کرتی ہے۔ تمام ثقافتیں (Cultures) یہ مان لیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں وہ رہ رہی ہیں۔ اس طرح ہم قول محال کو برعکس کر سکتے ہیں۔ ایڈوڈ سعید کے قول کو بیان کرتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں ’’تنقیدی شعور‘‘ (Critical consciousness) چاہئے۔ مابعد جدیدیت اقتدار (Power) کو منطقی سیاسی چال سمجھتی ہے مگر وہ آرٹ کے تخلیق کی مخالف نہیں ہے۔ اس پیراگراف کے آخری جملہ میں کہتی ہے، یہ نظریہ مابعد جدیدیت اپنا سکتی ہے مگر یہ بھی جستجو طلب ہے۔ پانچویں پیراگراف کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے، مابعد جدیدیت کے اقوال محال کی کمزوری یہ ہے کہ وہ ہمیں کلیاتی نظام یامعین اداروں کی سرحدوں (جیسے عملیاتی منطقی اور نظریاتی) کے بیانات میں مدد نہیں کرتی ہے جبکہ وہ ناتمام تلقین کرتی ہے۔

    اس پیراگراف کا آخری جملہ یہ ہے، ’’ادبیت تنقیدی رویے پر منحصر ہے ناکہ نظریے اور اس کے عمل پر۔۔۔ متن کی Properties نظریاتی منقش پر مبنی ہے۔‘‘ (T. Bannett 1979) چھٹے پیراگراف کا آغاز، یہ شعریت کی بجائے مسائل کے مختلف ڈسکورس میں مابعد جدیدیت کے الجھ جاتی ہے جیسے فکشن اور غیرفکشن یا زندگی اورآرٹ کے فاصلے۔۔۔ پورا آرٹ اور حقائق کی جستجو میں الجھ جاتا ہے۔ تاریخی اور ذاتی تاثر ات۔۔۔ یہ صرف سوالات اٹھاکر رہ جاتی ہے اور’’حقائق‘‘ پیش کرتی ہے۔ اس سے پہلے معنی متعین ہوتے ہیں۔

    ساتواں پیراگراف خاصا طویل ہے۔ میں صرف دوتین جملے لکھو ں گا۔ جارجن ہربرماس JURGEN HARBERMAS (مارکسی نقاد) قبول کرتا ہے کہ دو نقاد مغربی امریکہ میں استعمال ہوئے۔ تعلقات کی بحث اور تاریخیت، مارکسی اور روایاتی دونوں حلقوں نے اس کی مزاحمت کی۔ (1983) اور یہ ڈسکورس تانیثیت (Faminiest) سیاہ فام لوگ مابعد ملوکیت اور دوسری غیرمرکزی نفسیاتی مباحث جیسے تاریخی نظریے اور تجزیاتی فلسفہ بھی۔

    میں اب مختصراً پیش کروں، اس لیے کہ مضمون خاصا طویل ہوگیا ہے۔ مارکسی مفکر ونقاد ہربرماس کا خیال ہے کہ مابعد جدیدیت ایک قسم کا نیا تارہ آرٹ اور عالمی ادب کے لیے ہو سکتا تھا مگر متنازع فی مسائل میں الجھ کر عارضی اور وقتی مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کچھ مفکرین کا خیال ہے کہ حقیقت کے معنی کو مسخ ہی نہیں بلکہ ان کو مکمل رد کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔

    لینڈا نے مابعد جدیدیت کی دورخی کشمکش کو نہایت خلوص سے غیرجانب دارانہ طریقہ سے پیش کیا ہے یعنی اس کے منفی اور اثباتی پہلوؤں کی تنقید پیش کی ہے۔ وہ سوالات کو پیش کرتی ہے مگر کوئی جواب نہیں دے پاتی کیونکہ وہ کلیت کو رد کرتی ہے۔ اس کتاب میں ایک سو پچاس کتابوں کے حوالے دیے گئے ہیں۔ کتاب کے آخر میں ادیبوں اور ان کی کتابوں کے نام موجود ہیں۔ لینڈا نے قارئین پر فیصلہ کرنے کی ذمہ داری چھوڑ دی ہے۔ وہ پروفیسر نارنگ کی طرح ’’پورے وثوق‘‘ کا شکار نہیں ہے!

    (۵)
    میں ایک کتاب کا مختصراً ذکر کرنا چاہتا تھا۔ یہ پروفیسر احمد سہیل کی کتاب ’’ساختیات، تاریخ، نظریہ اور تنقید‘‘ ہے مگر پروفیسر ستیہ پال آنند نے صفحہ ۱۲ پر لکھا ہے، ’’یہ تنقید کی کتاب نہیں ہے۔‘‘ اس کے باوجود میں اس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ شاید اردو زبان میں یہ پہلی مکمل کتاب ’’ساختیات‘‘ کے بارے میں ہے۔ اس میں بھی کم ازکم سو کتابوں کے حوالے مصنف اور کتابوں کی اشاعت کی تاریخیں دی گئی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس پر اب تک ہندوستان میں کہیں بھی تبصرہ نہیں ہواہے گوکہ پروفیسر آنند پروفیسر نارنگ کے ہم نوا ہیں۔ اس میں ترجمے کے ساختیاتی نظریے کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ قیمت مناسب ہے یعنی چا رسو پچاس صفحات کی قیمت صرف دو سو روپے ہے۔ اس میں بیشتر مفکرین اور اہم شخصیات کی مختصراً تعارفی زندگی بھی لکھی ہوئی ہے۔ یہی نہیں اس میں اردو کے ایک قدیم ڈرامے ’’گل بہ صنوبر چہ کرد‘‘ اور ساختیات کا باب بھی ہے۔ یہ ڈراما ۲۴ فروری ۱۸۹۰ء میں پہلی بار منچ پہ پیش کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا پلاٹ حاتم طائی سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب اردو قارئین کو ضرور پڑھنا چاہئے۔

    (۶)
    میں مضمون گجرات میں فسادات اور الیکشن میں بھاجپا کی ’’شاندار‘‘ جیت کے بعد لکھ رہا ہوں۔ اردو زبان مسلمانوں کی زبان بن کے محدود ہوکر رہ گئی ہے اوریہ دائرہ اتنا کم ہو جاتا ہے کہ مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرنا آسان ہو گیا ہے۔ ایک اخبار نے تو لکھا ہے کہ وہ دن دور نہیں ہے جب ترنگا جھنڈا کے بجائے بھگوا جھنڈا تین چوتھائی ہندوستان پر لہرائےگا۔ میں قنوطی ہوں مگر اتنا نہیں۔۔۔ دیکھئے سترسال میں ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت یعنی تین رخی کشمکش اب بھی جاری ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے گروہوں سے میں الگ اس لیے ہوں کہ یہ ادیب کے بنیادی حق آزادی تحریر پر غیرسرکاری طورسے پابندیاں عائد کرتی ہیں۔ سب سے چھوٹا گروپ استالینی ترقی پسندوں کا ہے۔

    میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں ان تینوں کے آپسی مزاحمات اتنے سخت ہیں کہ ’’مکالمہ‘‘ کی فضا بنائی نہیں جا سکتی ہے۔ اس لیے اردو میں ’’مابعد جدیدیت پر ایک مکالمہ ’’خاصی پرانی معلوم ہوتی ہے۔ ہماری ثقافت اور تاریخ کو ’’مسخ کرنے کی ایک ناتمام کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ غالب نے کتنے پہلے کہا تھا،

    ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو
    آتا ہے ابھی دیکھئے کیا کیا میرے آگے؟


    حاشیے
    (۱) یہ انیس ناگی تھے جنہوں نے محترمہ کشورناہید کو’’پھولن دیوی‘‘ کے نام سے یاد کیا تھا اور جب وہ شدید بیمار پڑے تو محترمہ ان کو دیکھنے اور مزاج پرسی کرنے گئی تھیں۔ 
    (۲) غالب نے کہا ہے،
    خطر ہے رشتہ الفت رگ گردن نہ ہو جائے
    غرور دوستی آفت ہے تودشمن نہ ہو جائے 
    (۳) ص ۶۲ پر اپنی تعریف میں یہ بیان دیا گیا ہے۔ 
    (۴) میرا مضمون ’ترقی پسندی اور جدیدیت کی کشمکش’ ۱۹۶۷ء میں شائع ہوا تھا۔ 
    (۵) کارلس مارکس کا بھوت
    (۶) علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا تھا،
    موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
    آنسو جوتھے میرے عرق انفعال کے 
    (۷) اس کتاب کا نام عملیات کے اثرات consequences of Pregmatism (اشاعت ۱۹۸۰) ہے۔ میں نے یہ کتاب نہیں پڑھی ہاں اس کے اقتباسات پر نظر ڈالی ہے۔

     

    مأخذ:

    تین رخی نظریاتی، ادبی تنقیدی کشمکش (Pg. 108)

    • مصنف: باقر مہدی
      • ناشر: اظہار پبلیکیشنز، ممبئی
      • سن اشاعت: 2003

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے