Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اناؤ کا تخلیقی الاؤ

حقانی القاسمی

اناؤ کا تخلیقی الاؤ

حقانی القاسمی

MORE BYحقانی القاسمی

    مادیت صارفیت نے شہروں کے مزاج بدل دیے ہیں۔ اب شہروں میں شعور نہیں شور ہے۔ حد نگاہ تک ہجوم اور اس میں گم ہوتی تہذیبی ثقافتی قدریں یہ ہے شہر کا نیا شناخت نامہ۔

    شہر کی بدلتی سائیکی میں اب صبحوں کا جمال، شاموں کی ملاحت کون تلاش کرے، جاں نثار اختر کی طرح اپنے شہر کے عہد بہاراں، شاداب تمنا کے مہکتے ہوئے خواب، محفل کا فسانہ، خلوت کا فسوں، نغموں کی پکار، گیتوں کا سنگھار کون یاد رکھتا ہے۔ اس مصروف ترین عہد میں گلکدہ پارینہ کے بارے میں سوچنے کی فرصت کس کے پاس ہے؟ اختر شیرانی کی طرح یہ پوچھنے والے بھی تو نہیں رہے

    کیا شام پڑے گلیوں میں وہی دلچسپ اندھیرا ہوتا ہے

    اور سڑکوں کی دھندلی راہوں پر سایوں کا ڈیرا ہوتا ہے

    باغوں کی گھنیری شاخوں میں جس طرح سویرا ہوتا ہے

    کیا آم کے اونچے پیڑوں پر اب بھی وہ پپیہے بولتے ہیں

    شاخوں کے دیری پردوں میں نغموں کے خزانے کھولتے ہیں

    ساون کے رسیلے گیتوں سے تالاب میں امرس گھولتے ہیں

    اپنے شہر کی پرخواب فضائوں، بہاروں کے شبستاں کو اب کون یاد کرتا ہے۔ یادیں ذہن سے رشتہ توڑتی جا رہی ہیں اور شہر کی خاک سے خلوص، مہر و وفا غائب ہوتے جا رہے ہیں کہ وقت اور حالات نے لوگوں کی دنیائے آرزو بدل دی ہے۔

    آج کے مصروف انسان کو فرصت نظارگی بھی نصیب نہیں اس لئے شہر کی صباحتیں، ملاحتیں سبھی کچھ کھو گئی ہیں۔ شہر کے ماضی کی تلاش اب آسان نہیں رہی کہ یادوں کے نگر بھی آباد نہیں رہے۔ وقت بدلتا ہے تو کیفیتیں بھی بدل جاتی ہیں

    اب عشق یار کے وہ عجائب نہیں رہے

    اب حسن کی وہ عشوہ طرازی نہیں رہی

    اب شہر عجب انتشار میںہے، پھر بھی کچھ لوگ ہیں جو اجڑی یادوں کے شہر خموشاں میں اپنی عظمتوں کے کتبے ضرور تلاش کر لیتے ہیں کہ حال تاریک سہی مگر ماضی میں کچھ نہ کچھ تو روشنی ہے۔ اس احساس کے ساتھ وہ اپنے شہر کی تاریکی کو روشنی میںبدل لیتے ہیں کہ

    اٹھو اس ظلمت شب میں جلائیں مشعل ماضی

    کہ ماضی میں ابھی تک روشنی معلوم ہوتی ہے

    انائو بھی حال کا ایک فراموش شدہ شہر ہے مگر اس کے سر پر ماضی کی رفعتوں کا سائبان ہے۔ تاریخ کی آنکھوں سے انائو اوجھل نہیں ہو سکتا کہ تخلیقی کائنات کے کسی نہ کسی حصے میں اس مٹی کا نغمہ گونجتا رہتا ہے اور وہ نغمہ انسانی احساس، روح اور حافظے کا حصہ بن جاتا ہے اور یہی نغمہ پوری ادبی کائنات کا انائو سے رشتہ جوڑتا ہے

    خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد

    جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

    چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

    ان شعروں میں انائو کی مٹی کی بھینی بھینی خوشوئوں، چشم یار کی جادو نگاہیوں، شیرینی نسیم و سوز و گداز میر کو ہر باشعور شخص محسوس کر سکتا ہے، انائو کا یہی تخلیقی شناخت نامہ ہے اور یہی ہے اس کا وہ تخلیقی چہرہ جو اب اپنی رعنائی و زیبائی کھوتا جا رہا ہے۔

    ماضی میں اس چہرے پر جو چمک تھی اس کا اندازہ اس کہکشاں سے لگایا جا سکتا ہے۔ شاہ عزیز صفی پوری، امیر علی موہانی، بیخود موہانی، افقر موہانی، بسمل موہانی، جگت موہن لال رواں، مسعود حسن رضوی، سروش اناوی، اقبال صفی پوری، حسرت موہانی۔

    کس قدر تابناک تھی کبھی انائو کی سرزمین۔ ادب، ثقافت، معاشرت ہر باب میں بے نظیر، اودھ کی روشن تہذیب کا ایک نمونہ جس کا تاریخ اور تہذیب سے بھی گہرا رشتہ رہا ہے۔ روحانی اعتبار سے بھی یہ زمین اتنی معطر اورمنور ہے کہ اس کی خاک میں بہت سی عظیم ہستیاں مدفون ہیں۔ مخدوم شاہ صفی اور شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی جیسے بزرگوں کے وجود مسعود نے اس زمین کو مرجعیت اور محبوبیت بھی عطا کی ہے۔ ان بزرگوں کی وجہ سے یہ زمین زندہ و تابندہ ہے۔ اور یوں بھی یہ شہر زندہ رہے گا کہ جن شہروں میں انقلاب اور آزادی کی لہریں رقصاں رہی ہوں، ان شہروں کی موت کے محضر پر وقت بھی دستخط کرنے سے ڈرتا ہے۔ آزادی اور انقلاب کے باب میں کیا یہ نام کبھی فراموش کیے جا سکتے ہیں رام بخش سنگھ برطانوی استعماریت کے خلاف آواز بلند کرنے والا وہ مجاہد آزادی جسے 28؍دسمبر 1858 میں انگریزوں نے پھانسی پر لٹکا دیا۔ چندریکا بخش سنگھ— جس نے برٹش کمانڈر مورے اور اس کی بیوی کوقتل کیا اور کالا پانی کی سزا پائی، 30؍دسمبر 1959 کو انہیں بھی قتل کر دیا گیا۔ وشمبھر ناتھ ترپاٹھی، جو سبھاش چندر بوس کے قریبی دوست تھے اور جنہوں نے پپری کانڈ میںجیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ پدم بھوشن پنڈت اوما شنکر دیکشت، پنڈت دواریکا پرساد، مولانا حسرت موہانی اور بیگم حسرت— تحریک آزادی سے جڑی ہوئی یہ عظیم شخصیات ہیں۔ ان کے علاوہ بھی جنگ آزادی کے تعلق سے ایک عظیم شخصیت کا تعلق اس سرزمین سے تھا، بانگر مئو کا چراغ محمد، جو پوری دنیامیں سورج بن کر چمکا۔ دنیا نے اسے شیخ الاسلام کے خطاب سے سرفراز کیا اور جو اتنا بڑا محب وطن تھا کہ دو قومی نظریے کی مخالفت کی اور علامہ اقبال جیسے دانشور کے عتاب کا یوں شکار ہوئے

    زدیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبیست

    مجاہد آزادی مولانا حسین احمدمدنی کی جنم بھومی بھی انائو ہی کی سرزمین ہے۔ انائو کی عظمت کے لیے اتنی روشن علامتیں کافی ہیں اسی لئے منیر نیازی کی زبان میں اس شہر کے بارے میں یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ

    اس خاک میں کہیں کہیں سونے کا رنگ ہے

    یہ انائو کی ہی خوش قسمتی ہے کہ اس کے حصے میں ہندوستان کی سب سے بڑی 22 زبانوں کی اکیڈمی ، ساہتیہ اکیڈمی کے 3 ایوارڈ آئے اور پدم بھوشن و پدم شری بھی اسے نصیب ہوئے۔ یہ اکرام و اعزاز اس زمین کی تخلیقی عظمت کا اعتراف نامہ ہیں۔

    انائو کا تخلیقی افق بھی بہت تابندہ ہے۔ اس کی درخشانی میں جن آفتابوں اور ماہتابوں سے اضافہ ہوا ہے ان میں بہت سے اہم نام شامل ہیں۔ ان میں ایک نام مولانا حسرت موہانی کا بھی ہے۔

    مولانا حسرت موہانی کی ذات ستودہ صفات بھی انائو کی تخلیقی عظمت کا ایک روشن حوالہ ہے، جن کے احساس میں شعلگی، اظہار میں شبنمی اور شاعری میں عشق کے شرارے ہیں۔ حسرت کی سیاسی شخصیت انقلابی تھی مگر شعری شخصیت میں رومانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور اسی رومانیت کی وجہ سے حسرت کی فکر اور فلسفے میں توازن تھا۔ رومانیت نہ ہوتی تو شاید ان کا تخلیقی نظام درہم برہم ہو جاتا، صعوبت اور عسرت میں ان کی رومانیت نے ہی ان کی شگفتگی طبع کو بحال رکھا۔ ان کی آشفتہ سری میں بھی یہی شگفتگی تھی اور اسی وجہ سے انہوں نے زنداں کو بھی گلستاں کر لیا تھا۔ عشق کی قوت نے ان کے احساس کی منطق بدل دی تھی تبھی تو انہوں نے کہا

    قوت عشق بھی کیا شئے ہے کہ ہو کر مایوس

    جب کبھی گرنے لگا ہوں میں سنبھالا ہے مجھے

    شاید عشق وہ قوت محرکہ ہے کہ دشواری بھی اپنی عنصریت کھو کر آسانی میں ڈھل جاتی ہے اور نشاط و غم کے کیفی عناصر بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ حسرت کے یہاں تقلیب احساسات و کیفیات کی یہی تجلی نظر آتی ہے

    اے یاد یار دیکھ کہ باوصف رنج ہجر

    مسرور ہیں تری خلش ناتواں سے ہم

    اس ستمگر سے ستمگر نہیں کہتے بنتا

    سعی تاویل خیالات چلی جاتی ہے

    ہے ہجر میں وصل زہے خوبی خیال

    بیٹھے ہیں انجمن میں تری انجمن سے دور

    یہی خوبی خیال ہے جس کی وجہ سے جفا وفا میں اور خلش لذت میں بدل جاتی ہے۔

    حسرت موہانی کی شاعری میں متضاد کیفیتوں کا خوبصورت اجتماع ہے۔ ان کے ناز عاشقی کے جلال میں جلوہ نور جمال ہے۔ آرزوئے شوق کی شدت نے حسرت کی شاعری میں ایک نئی لذت بھر دی ہے

    وفور اشک پیہم سے ہجوم شوق بیحد سے

    مری آنکھوں سے ہے ایک آرزوئے آبشار جاری

    یہ جو ایک درد محبت کی خلش ہے حسرت

    مقصد دل ہے یہی جان تمنا ہے یہی

    ہجرمیں پاس مرے اور تو کیا رکھا ہے

    اک ترے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے

    تہذیب رسم عاشقی کا پاس رکھتے ہوئے حسرت نے عشقیہ شعر کہے ہیں۔ ان کی شاعری میں محبت اپنی پوری کیفیت میں سامنے آتی ہے۔ حسرت کی شاعری میں عشق کا عروج ہے اسی لیے فراق گورکھپوری نے لکھا ہے کہ ’’حسرت کے اشعار بیان حسن و عشق میں صاف صاف مصحفی کی یاد دلاتے ہیں۔ معاملہ بندی اور ادا بندی میں جراْت کی یاد دلاتے ہیں اور داخلی اورنفسیاتی امور کی طرف اشارہ کرنے میں عموماً نئی فارسی ترکیبوں کے ذریعے مومن کی یاد دلاتے ہیں لیکن حسرت کی شاعری محض مصحفی، جراْت اور مومن کی آواز بازگشت نہیں ہے۔ وہ ان تینوں کے انداز بیاں، وجدان اور ان کے فن شاعری کی انتہا و تکمیل ہیں۔‘‘

    حسرت کی شاعری میں عجب قسم کا سوز و گداز ہے اور اتنی گداختگی ہے کہ شکستہ دلوں کے لئے حسرت کی شاعری راحت جاں اور درد کا درماں بن جاتی ہے— ان کی شاعری ایک طرح کی مصوری بھی ہے۔ حسن کی ایسی خوب صورت تصویر کشی کم شاعروں کے ہاں ملتی ہے۔ ڈاکٹر سید عبداﷲ نے شاید حسرت کی شاعری کی اسی مصورانہ جہت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا تھا ’’حسرت محبت کے خوشگوار ماحول کے بہترین مقبول ترین اور مہذب ترین مصور اور ترجمان تھے۔ وہ خالص غزل کے شاعر تھے۔‘‘

    اردو کے بیشتر ناقدوں نے حسرت کو غزل کے مستقبل کا معیار قرار دیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ حسرت نے غزل کو نیا نقش و نور عطا کیا اور اس نئے پن کی وجہ سے حسرت کے نغمہ کو لوگوں نے ’’نگاہ تحیر‘‘ سے محسوس کیا اور ان کا نغمہ، قاری کے ذہنی وجود میں نور بن کر چمکنے لگا۔ علامہ نیاز فتح پوری نے قاری کی اسی ذہنی کیفیت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے ’’ حسرت کے نغمہ بے خودی کو سن کر لوگ چونک اٹھے، روحیں وجد کرنے لگیں اور شعر و فن کی فضا چمک اٹھی، وہ اپنے رنگ میں منفرد تھے اور ان کا کوئی ہمسر نہیں۔‘‘

    حسرت کی شاعری میں انسانی جذبات کی سچی تصویریں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حسرت کے اشعار آج بھی اپنی معنویت کا احساس دلاتے ہیں۔ ان کے شعروں میں یک طرفہ تازگی ہے، کہنگی نہیں۔

    شاعری میںحسرت کو جو معراج نصیب ہوئی، ویسی ہی بلندی انہیں صحافت میں بھی میسر آئی۔ اردوئے معلی، تذکرۃ الشعرا،مستقل کان پور ان کے صحافتی امتیازات کے تابندہ نقوش ہیں۔

    اردوئے معلی سے حسرت موہانی نے اردو صحافت کو نئے معیارات اور اسالیب عطا کیے۔ 1903 سے 1942 تک شائع ہونے والا رسالہ اردوئے معلی ایک نئی تاریخ رقم کر گیا۔ جولائی 1903 میں اس کا پہلا شمارہ شائع ہوا اور پہلے ہی شمارے نے لوگوں کے ذہنوں پر اپنا خاص نقش قائم کر دیا کہ اس میں جو مضامین شائع ہوتے تھے، ان میں صحت زبان کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ اس رسالے میں علمی، فلسفی، اخلاقی، تمدنی، ادبی، تنقیدی نوعیت کے مضامین شائع ہوتے تھے اور اسی رسالے میں انتخاب سخن اور نکات سخن جیسے سلسلے بھی تھے جس کی وجہ سے اردوئے معلی کی مقبولیت، معنویت اور افادیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ یہ صرف ادبی مجلہ نہیں تھا بلکہ اپنے عہد کا ایک سیاسی وثیقہ بھی تھا۔ اس وقت کی قومی سیاست کے رموز و اسرار اور اسالیب کو اردوئے معلی کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔

    صحافت کی طرح سیاست میںبھی مولانا حسرت کی شخصیت ممتاز تھی۔ وہ ایک لاغر بدن انقلابی تھے، جنہوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں مگر اپنے آہنی عزم کو نہیں بدلا۔ مولانا ایک خود مختار مکمل جمہوری ہندوستان کے حق میں تھے، اسی لیے انہوں نے ہندوستانی آئین پر دستخط کرنے سے انکارکر دیا تھا اور سردار پٹیل سے صاف صاف لفظوں میں یہ بھی کہا تھا کہ ’’یہ نہ سوچئے کہ مسلمان آج یتیم ہو گئے ہیں۔‘‘ بال گنگا دھر تلک کے نظریے کے حامی حسرت‘ گوکھلے کے مخالف رہے۔ انڈین نیشنل کانگریس سے اپنا رشتہ توڑا، کمیونزم میں پناہ لی مگر مذہبی اعتقادات سے منحرف نہیں ہوئے۔

    موہان کے مکتب سے محمڈن اینگلو اوریٹل کالج تک کا سفر کرنے والے سید فضل الحسن کو اتنی عزت شہرت اور مقبولیت نصیب ہوئی کہ آج ہندوستان کی سیاسی، ادبی تاریخ ان کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔

    1878 میں انائو کے قصبہ موہان کے ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہونے والے سید فضل الحسن المعروف بہ حسرت موہانی فرنگی محل لکھنؤ کے انوار باغ میں مدفون ہیں۔ 13؍مئی 1951 کو انہوں نے اس دنیائے فانی سے اپنا رشتہ توڑا، مگر اپنی تخلیقی فکر کا رشتہ اس کائنات سے اس طرح جوڑدیا کہ تا قیامت ان کی شاعری کی روشنی پھیلتی رہے گی۔ وہ اپنی کلیات ’نکات سخن، شرح دیوان غالب، انتخاب اردوئے معلی اور مشاہدات زنداں‘ میں ہی زندہ نہیں ہیں بلکہ ان کتابوں میں بھی زندہ ہیں جو ان پر لکھی گئی ہیں۔ ایسی کتابوں میں سید اشتیاق اظہر کی ’سید الاحرار‘، مولانا عارف ہسوی کی ’حالات حسرت‘، ان کی بیٹی نعیمہ کی ’حسرت کی کہانی نعیمہ کی زبانی‘، ایس ایم اصغر کاظمی کی ’مولانا حسرت موہانی ایک ہمہ جہت شخصیت اور دیگر کتابیں قابل ذکر ہیں۔

    نشاط النساء (بیگم حسرت موہانی)

    موہان کی مٹی میں وفا اور ایثار کی ایک مورت بھی تھی، نام تھا نشاط النسائ۔ مولانا حسرت موہانی سے منسوب نشاط النسا ایک نڈر، جری اور بہادر خاتون تھیں اور اتنی وفا شعار کہ خواجہ حسن نظامی کو یہ لکھنا پڑا ’’ایام بلا میں ایسی وفا شعاری اس عورت سے ظاہر ہوئی کہ جیسی سیتا جی نے رام چندر کے ساتھ کی تھی‘‘ اور مولانا عبدالحلیم شرر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اسلام کی پچھلی صدیوں میں ایسی ایک بیوی بھی نظر نہ آئے گی، جس نے دلیری اور ہمت سے قسمت کی بے رخیوں کو برداشت اور جفا شعار زمانے کا یوں مقابلہ کیا ہو۔‘‘

    مولانا حسرت موہانی جیسی تمام خوبیاں اور جواہر بیگم نشاط النسا کی ذات میں بھی تھے۔ تحریک آزادی میں مولانا کے ہم قدم رہیں۔ بالخصوص ایام اسیری میں نشاط النساء نے حق رفاقت ادا کر دیا۔ وہ نہ ہوتیں تو مولانا ٹوٹ چکے ہوتے کہ اتنی اذیتوں کا بار ان کا ناتواں جسم کہاں تک اٹھا پاتا۔ یہ تو نشاط النسا کی ہی ہمت اور جراْت تھی کہ مولانا کے پائے استقامت میں تزلزل پیدا نہ ہوا۔ مولانا محمد علی جوہر نے اپنے ایک خط میں نشاط النسا کی جراْت و شہامت کو یوں خراج پیش کیا ہے ’’حسرت سے کہہ دیجئے کہ برادرم، باوجود ہمت و استقلال کے تمہارا مرتبہ ایک نحیف الجثہ عورت سے کم ہی رہے گا جس کے سینے میں بظاہر تم سے بڑا دل موجود تھا اور جس نے تمہاری غیر حاضری میں مسلمانوں کو ہمت و استقلال، جراْت و حوصلے کا وہ سبق دیا جو تم خود آزاد ہو کر نہ دے سکتے تھے اور جو شاید قید ہو کر بھی نہیں دیا۔‘‘

    بیگم حسرت کے اوصاف حمیدہ کا ذکر ان ہی کے ہم وطن جلیل قدوائی نے یوں کیا ہے ’’بیگم حسرت مولانا کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ غالباً 1901 میں 15-16 برس کی عمر میں مولانا کے نکاح میں آئیں۔ اردو، فارسی، عربی سے اچھی واقفیت تھی۔ وہ صحیح معنوں میں حسرت کی رفیقہ حیات اور رنج و راحت میں شریک و معاون تھیں۔ آپ نے چکی پیس کر اور اجرت پر سلائی کر کے گزراوقات کی۔ برقعہ پہنتی تھیں مگر نقاب الٹ دیتی تھیں۔ مولانا کے دواوین اور دیگر کتب کی ترتیب و طباعت اور اردوئے معلی کی 40 برس تک اشاعت میں بیگم حسرت کی کوششوں کا بڑا دخل تھا۔‘‘

    سید شبیر حسن اور سیدہ منصور النسا کی بیٹی نشاط النسا کردار کے اعتبارسے مولانا حسرت کی نقش ثانی تھیں۔ انہوں نے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور حضرت محل، بی اماں (والدہ محمد علی جوہر، شوکت علی) زبیدہ دائودی بیگم مولانا شفیع دائودی، عزیزن، امجدی بیگم (بیگم مولانا محمد علی جوہر) سعادت بانو کچلو (بیگم سیف الدین کچلو)، زلیخا بیگم (بیگم مولانا ابوالکلام آزاد) جیسی عظیم خواتین کی کہکشاں میں نمایاں نام بن کر ابھریں کہ انہوں نے بے سرو سامانی اور فاقہ کشی کے باوجود تحریک آزادی سے اپنا تعلق نہیں توڑا۔ ایک جھونپڑے میں زندگی گزار دی مگر اپنی خودی اور غیرت کو بچائے رکھا۔

    آزادی کی تحریک میں مکمل طور پر شریک ہونے کے باوجود تصنیف و تالیف میں نہ صرف مولانا حسرت موہانی کی معاونت کی بلکہ اپنی تصنیف سے بھی اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کیا۔ بیگم حسرت موہانی کا سفرنامہ عراق اردوئے معلی میں مولانا حسرت موہانی کے اس نوٹ کے ساتھ شائع ہوا۔

    ’’عراق و حجاز کا دلچسپ سفرنامہ 1935 اور 1936 میں مرحومہ بیگم حسرت نے خطوط کی شکل میں اپنی بیٹی نعیمہ کو لکھ بھیجا تھا اب ان کے انتقال کے بعد بطور یادگار اردوئے معلی میں شائع کیا جاتا ہے۔‘‘ (اردوئے معلی جولائی 1935)

    8؍اپریل 1936 مطابق 25؍محرم 1350 ہجری میں نشاط النسا کا انتقال ہوا اور اس کا اثر ذہن حسرت پر یہ ہوا کہ مولانا نے ڈیڑھ سال کے عرصے میں صرف 5 شعر کہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بیگم سے حسرت کو کتنی محبت تھی اور ان کی جدائی ان کے لئے کتنی جان کاہ تھی۔ رابعہ بیگم نے مولانا کی خانگی زندگی کے بارے میں جو لکھا ہے اس سے دونوں کی بے پناہ محبت کا پتہ چلتا ہے۔ ’’کبھی کبھی دونوں میں دلچسپ نوک جھونک بھی ہو جایا کرتی تھی۔ مولانا کی شاعری پر مرحومہ بیگم حسرت تبصرہ فرماتی رہتی تھیں اور کہتی تھیں ، یہ اشعار غالباً تم نے فلاں کے عشق میں کہے ہیں۔ مولانا خود بھی بعض مرتبہ چھیڑنے اور ان سے کچھ سننے کی خاطر اپنی غزلیں سناتے اور کہتے کہ یہ اشعار فلاں کی یاد میں کہے ہیں۔ بس مولانا کا اتنا ہی کہنا ان کو بے چین کر دیتا۔ فوراً برس پڑتیں مگر ان لڑائیوں میں بالکل جان نہ ہوتی اور نہ ہی غلط فہمی کی بنا پر یہ باتیں ہوتیں، بس یوں ہی ایک دوسرے کو ستانا مقصود ہوتا۔‘‘ (رابعہ بیگم : حسرت کی خانگی زندگی، نگار، لکھنؤ، جولائی 1952)

    نشاط النساء مثالی خاتون کے ساتھ ساتھ موہان میں تعلیم نسواں کی محرک بھی تھیں۔ پرنسپل عبدالشکور نے لکھا ہے ’’چونکہ سادات موہان میں علم و کمال کا چرچا شروع ہی سے تھا اسی لئے محترمہ نشاط النسا بیگم اودھ کی عام لڑکیوں کی طرح زیور علم سے محروم نہ رہیں۔ آپ کو مذہبی تعلیم کے علاوہ اردو، فارسی اور عربی زبانوں کی معقول تعلیم دلائی گئی۔ زمانہ دوشیزگی میں آپ کا مشغلہ یہ تھا کہ پسماندہ طبقے کی لڑکیوں کو لکھنا پڑھنا سکھاتی تھیں اور اگر آج موہان میں تعلیم نسواں کی جھلک نظر آتی ہے تو محترمہ نشاط النسا کی کوشش اور مالی ایثار کا ثمرہ ہے۔‘‘ ان کے خطوط اور خطبات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ نہایت بیدار مغز خاتون تھیں اور عالمی حالات و واقعات پر بھی ان کی نظر گہری تھی۔ بیگم حسرت کے خطوط سے حسرت موہانی کی سیاسی زندگی کے بہت سے پہلو بھی روشن ہوتے ہیں۔ حسرت کی سیاسی فکر کی تفہیم میں بھی ان خطوط سے مدد مل سکتی ہے۔ بیگم نشاط النساء ایک خط میں لکھتی ہیں

    ’’ہمدم کے خاص نامہ نگار کی تحریر سے چونکہ غلط فہمی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے اس امر کی اطلاع ضروری ہے کہ حسرت نے گورنمنٹ سے قیام علی گڑھ کی اجازت طلب کی ہے اور اس درخواست کا حسب مراد جواب آنے تک حسرت نے عارضی طور پر کٹھور ضلع میرٹھ میں رہنا منظور کیا ہے اور وہ بھی اپنی خوشی سے۔ اسی لئے قانون تحفظ ہند کے تحت جو نوٹس ان کے خلاف 22؍مئی کو جاری ہونے والا تھا وہ گورنمنٹ نے ازراہ عنایت منسوخ کر دیا ہے۔‘‘

    اس طرح کے بہت سے خطوط اور وضاحتی بیانات ہیں جن سے بیگم حسرت کی مستعدی کا ثبوت ملتا ہے اور ان کے گہرے سیاسی شعور کا بھی۔

    جگت موہن لال رواں

    انائو کی تخلیقی تہذیب کی تصویر میں ایک نمایاں رنگ رباعیات رواں کا بھی ہے کہ ان میں زندگی کی مختلف کیفیات کے ساتھ مابعد الطبیعاتی تصورات کا عکس بھی محسوس کیا جا سکتاہے۔ رباعیات کے حوالے سے رواں کا نام اتنا نمایاں ہے کہ ان کے بغیر رباعی کی تاریخ نامکمل سمجھی جاتی ہے۔ رباعیات میں زندگی کے پیچیدہ مسائل کو بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انہوں نے گوتم بدھ کی فکر اور فلسفے کو حرز جاں بنائے رکھا اس لئے انکی رباعیات میں بھی وہی بودھی فکر نظر آتی ہے

    کیا تم سے بتائیں عمر فانی کیا تھی

    بچپن کیا چیز تھا، جوانی کیا تھی

    یہ گل کی مہک تھی، وہ ہوا کا جھونکا

    اک موج فنا تھی‘ زندگانی کیا تھی

    حرص و ہوس حیات فانی نہ گئی

    اس دل سے امید کامرانی نہ گئی

    ہے سنگ مزار پر تیرا نام رواں

    مر کر بھی امید زندگانی نہ گئی

    رواں کی بعض رباعیات تو بہت مشہور ہیں۔ ان ہی کی ایک رباعی ہے

    ساقی مے خانہ تیرا آباد رہے

    توخوش رہے تری بزم دل شاد رہے

    جانے کو تشنہ جاتے ہیں رواں

    فانی ہے جہان آرزو یاد رہے

    رباعیات میں رواں کا اپنا انفرادی رنگ تھا مگر ان کی تخلیقی جولانی صرف رباعی تک محدود نہیں تھی۔ انہوں نے غزلوں اور نظموں میں بھی طبع آزمائی کی اور فکر و زبان کے اعتبار سے اچھے شعر کہے۔ ان کی بعض نظموں میں بے پناہ کیف و تاثیر بھی ہے اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے شاعری میں عامیانہ الفاظ سے ہمیشہ گریز کیا اور زبان کی سطح پر کسی قسم کی مفاہمت نہیں کی۔ روح رواں اور رباعیات رواں ان کے مجموعے ہیں، نقد رواں کے نام سے ایک مثنوی بھی شائع ہوئی تھی۔

    جگت موہن لال رواں گو پیشے سے وکیل تھے مگر اردو شعر و ادب سے ان کا گہرا لگائو تھا، چودھری گنگا پرساد کے فرزند جگت موہن لال رواں کا جنم انائو کے قصبہ موراواں میں 14؍جنوری 1889 میں ہوا۔ اکتوبر 1934 میں ان کا انتقال ہو گیا۔

    سروش اناوی

    جگت موہن لال رواں کے فرزند چودھری پربھان شنکر سروش اناوی مرنجان مرنج، منکسر المزاج اور نہایت نستعلیق شخص تھے۔ اردو تہذیب کا مجسم پیکر، باپ کی طرح بیٹے کو اردو کلچر سے بے پناہ لگائو تھا۔ عمر انصاری نے لکھا ہے کہ بیٹے کی پرورش اور تعلیم کے سلسلے میں باپ کی دلچسپی کا ایک چھوٹا سا واقعہ کافی ہے کہ سروش کا کہنا تھا کہ ’’اگر کہیں وہ کچھ اور دن جیتے رہتے تو سروش چودھری پربھان شنکر کے بجائے مولوی پربھان شنکر سروش ہوتے۔‘‘

    اردو زبان پر انہیں ناز تھا اور اس زبان سے انہیں نہایت گہری عقیدت تھی۔ محفلیں منعقد کرتے اور اپنے بچوں کو بھی اردو تہذیب سے روشناس کراتے۔

    وہ ایک اچھے شاعر تھے اور بقول عمر انصاری ’’ چودھری پربھان شنکر سروش انائو میں اردو شعر و ادب کے قطب کی حیثیت رکھتے تھے جو ہمیشہ انائو اور اس کے نواح میں اردو شعر و ادب کی شمع جلائے رہے۔ جن کے بارے میں کچھ لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ یہ سب ان ہی کے دم سے ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب ان ہی کے دم تک ہے۔‘‘ (نیا دور، لکھنؤ۔ جنوری 2004 )

    شاعری تو سروش کو وراثت میں ملی تھی کہ ان کے والد رواں رباعی گو کی حیثیت سے منفرد مقام رکھتے تھے اور رواں جیسی شعری روایت سے وابستگی نے سروش کی شعری شخصیت میں اور بھی نکھار پیدا کر دیا تھا۔ عمر انصاری لکھتے ہیں سروش اردو ادب کی خالص کلاسیکی روایات کے معتبر امین کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کا شائستہ اور کلاسیکی لہجہ موجودہ عہد کے اقدار کی شکست و ریخت اور افرا تفری کے ماحول میں باقیات الصالحات کا درجہ رکھتا تھا۔ سادگی، سلاست اور روانی کے ساتھ سروش کی شاعری عشق کا ایک بہتا دریا ہے۔‘‘ (نیا دور، لکھنؤ۔ جنوری 2004 )

    ظفر اناوی

    ظفر ایسے شاعر تھے جن کے تخیل کی اڑان بلند تھی۔ ان کے شعری احساسات میں ندرت اور جدت تھی۔ عصری حالات اور واردات، داخلی جذبات کی عکاسی بہت خوبصورت انداز میں کی ہے۔ یہ اشعار ان کے رعنائی خیال کی گواہی دیتے ہیں

    یاد جنوں کا زور جو آیا ہوائوں میں

    سورج نے پنجے گاڑ دیے سب دشائوں میں

    بچھڑ کے تجھ سے طبیعت اداس رہتی ہے

    خود اپنے گھر میں بھی گھر کا مزہ نہیں ملتا

    میں تو سمندروں کی حفاظت میں محو تھا

    معلوم یہ ہوا کہ مرا گھر نہیں رہا

    سحر کا نکلا ہوا میں جو شام کو لوٹا

    تو مرے گھر میں کوئی دوسرا دکھائی دیا

    سید ذکی حیدر زیدی ظفراناوی اپنے وطن اپنی مٹی سے جدا ہو گئے۔ نیویارک کی فضائوں میں اردو کی شمع جلاتے رہے مگر یہ جدائی راس نہ آئی۔ نیویارک میں آنکھیں تو بند ہوئیں مگر جسم کو اماں اپنی مٹی میں ہی ملی۔

    دشت کا لمبا سفر تھا دور تک سایہ نہ تھا

    لوٹ جانے کے سوا آگے کوئی رستہ نہ تھا

    آسی نیوتنوی

    آسی نیوتنوی ایک جراْت مند شاعر تھے۔ جن کی عمر فتح گڑھ میں گزری مگر آبائی وطن انائو کا موضع نیوتنی تھا۔ وطن کی مٹی سے دور فتح گڑھ میں مدفون آسی کی شاعری میں حب الوطنی کی خوشبو ہے۔ انہیں اپنی سرزمین کے ذرے ذرے سے پیار ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں قومی جذبات کی شاعری کے نمونے ملتے ہیں۔ مکمل طور سے اپنی زمین سے جڑا ہوا یہ شاعر اس طرح کے شعر کہتا ہے

    وفائے عہد کو اندیشہ شکست نہیں

    وطن پرست ہوں میں حکمراں پرست نہیں

    بہار نو کہاں آئی ہے گلزاروں نے پوچھا ہے

    کہاں ہیں چارہ ساز درد بیماروں نے پوچھا ہے

    ستم ڈھانا ہے شاید اور کوئی روح گاندھی پر

    اہنسا ہے کہاں روپوش ہتھیاروں نے پوچھا ہے

    اسی طرح ان کی نظم نذر جواہر ان کے حب الوطنی کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔

    عذرا پروین

    ملیح آباد کی عذرا پروین نے بھی انائو میں ہی آنکھیں کھولیں اور کاغذ کائنات سے اتنا مضبوط رشتہ جوڑا کہ کاغذ ہی نیند بیداری اور خواب بن گئے پھر بڑھتی عمر کے ساتھ بے خوابیاں بھی کاغذ پہ قلم ہوتی رہیں ۔

    عذرا کی نفسی کائنات اس قدر پیچیدہ ہے کہ ان کی فکر کی گرہ کو سلجھانا آسان نہیں ہے۔ وہ ضدی، نٹ کھٹ بالک کی طرح اظہار و احساس کے پرانے سانچوں کو توڑتی ہوئی لسانی لا تشکیلیت کے اس منطقے تک پہنچ جاتی ہیں کہ جہاں ریزہ ریزہ لفظوں کو جوڑنا حسن کوزہ گر کے مقدور سے بھی باہر ہے۔ لسانی اور فکری شکست و ریخت کے عمل سے گزرتے ہوئے عذرا ملول ہوتی ہیں یا مسرور یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ عجب اضطراب آمیز تموج خیز وجود ہے عذرا کا۔ ان کے باطن میں ایک طوفان ہے، خاموشی میں مکالمہ اور تنہائی میں شور۔

    عذرا نظمیہ شاعری کی ایک ایسی انحرافی لکیر ہے کہ جس کے سامنے ساری دشائیں بھی اپنے حواس کھو بیٹھتی ہیں کہ کب یہ لکیر رقص جنوں میں تبدیل ہو جائے۔ یہ لکیر کوئی بھی روپ دھارن کر سکتی ہے کہ عذرا کسی ایک لکیر یا دائرے میں قید نہیں رہ سکتی۔

    عذرا احساس کے نئے آسمانوں کی تلاش میں آخری آسمان تک پہنچ جاتی ہیں۔ احساس کا یہ ارتقائی سفر کتنے ذہنوں کو نصیب ہوا ہے۔ سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کرنے کی کوشش کتنوں کی کامیاب ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عذرا کا امتیاز ہے کہ اس اسے ایسا ارتقا نصیب ہوا۔ عذرا نے اپنی داخلی کائنات کو دریافت کیا ہے۔ اس کے کرب اور وجودی کشمکش کا رشتہ اس کائنات ارضی سے زیادہ اس باغ بہشت سے ہے جہاں سے مراجعت نے عورت کے نصیب میں صلیب ہی صلیب لکھ دیا ہے۔ عذرا کے شعری تسلسل میں اسی صلیب کے حکایات خونچکاں ہیں اسی لئے عذرا کی شاعری میں ابدی نسائی شعور کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ یہ ایک فرد واحد کا کرب یا المیہ نہیں ہے بلکہ پوری نسائی ذات کا ہے۔ معاشرے کی جبریت نے عذرا کی فکر میں جس منفیت کو جنم دیا ہے وہ فطری ہے، اسی منفیت کی کوکھ سے آزادی اور انقلاب کا سورج طلوع ہو سکتا ہے۔ عذرا کی منفیت مثبت کی تشکیل کے لئے ہے۔ اسی منفیت نے عذرا کے احساس خود آگہی کو تیز اور توانا کیا ہے اور شاید یہی منفیت داخلی احساسات اور اقدار سے آگہی کا وسیلہ بھی بن گئی ہے۔ عذرا کے شعور اور سائیکی کی کلیت ان کی شاعری میں روشن ہے۔ ان کی پوری شاعری مرد معاشرے کے تجربوں کی میکانزم کے خلاف احتجاج ہے۔ وہ میکانزم جو انسان کے داخلی، فکری احساس کو سلب کر لیتی ہے۔ عذرا نے اس کے خلاف اپنی نظموں کے تیور تند کر دیے ہیں۔

    (الف)

    تم اچھی بھلی عورت کو رنڈی تو بنا سکتے ہو

    مگر رنڈی کو عورت نہیں بنا سکتے

    (فیشن چینل)

    (ب)

    تم تو صرف کتے ہی نکلے

    میں تو اس میں مرد ڈھونڈتی تھی

    میں اس مرد میں باپ بھی چاہتی تھی

    میں تو اس باپ میں ایک بچہ بھی

    میں اس بچے میں خدا بھی

    مگر تم

    تم تو… صرف کتے نکلے

    اور میں ماں نکلی

    (خسارہ)

    (ت)

    ایک گرم جیب والے نامرد کی نئی نئی سہاگن

    تم مری زندگی میں ایسی

    سولہویں عورت ہو

    جسے دیکھ کر

    ایک سولہ برس پرانا چور چور عورت پن

    سر سے پیر تک مجھ میں سسک رہا ہے

    بے امان لرز رہا ہے

    تم، تمہارا انچھوا سہاگ جوڑا

    سرخ دہکتا ہوا پان سے رنگا چہرہ

    چیخ چیخ کر پوچھ رہے ہیں

    نامرد کیوں آتے ہیں

    پوری عورتوں کی زندگی میں مردوں سے کہیں زیادہ اعتماد کے ساتھ

    اتنے دبے پائوں کہ کوئی نہیں پہچان پاتا انہیں

    ان کی چال سے ان کی چاپ سے

    جب انہیں پانی نہیں پینا ہوتا

    تو یہ سمندر گھیرتے کیوں ہیں

    (گبرو)

    یہ دو صنفوں کے مابین محاربہ یا معرکہ آرائی نہیں بلکہ نسائی وجود کی اصلیت کا اثبات ہے۔ یہ اپنے حقوق اور حیثیت کے حصول کے لئے ایک رزمیہ ہے۔ عذرا کی آواز کے انگارے کو محسوس کرنے کے لئے اس کے نفسی جغرافیہ سے آگہی ضروری ہے۔

    عذرا نے اس صنفی سیاست کے خلاف آواز بلند کی ہے جس کی وجہ سے عورت نہ صرف اپنے اسپیس سے محروم ہے بلکہ وہ ثانوی وجود یا جنسی معروض بن چکی ہے۔ وفا اور ایثار کے نام پر جبر و استحصال کی چکی میں پستی رہتی ہے اسی لئے عذرا اس استحصالی رویے کے خلاف بلند بانگ لہجے میں کہتی ہے

    مگر میں سیتا نہیں رام کی پڑی رہ جائوں اس جنگل میں وفا کے نام پر

    انورادھا ماں نہیں رجنیش کی بنائی ہوئی

    کہ بنا لوں جسم کو

    ساروجنک موترالیہ بغاوت اور آزادی کے نام پر

    مگر تم

    آریہ سماجی مومنو

    رجنیشی مومنو

    آئو دیکھو

    اور سنو کہ ہم

    سورۃ النسا کے سارے رکوع ختم کر کے اٹھے ہیں

    اور تمہیں ہم خود سناتے ہیں

    سورۃ طلاق کے کچھ رکوع

    عذرا کا یہ تلخ و تند لہجہ اس لئے ہے کہ ان کے یہاں اوروں کی طرح وہ خوف نہیں ہے جو ذہنوں کو مفلوج اور وجود کو معطل کر دیتا ہے بلکہ وہ بے خطری ہے جو آتش نمرود میں کود پڑتی ہے۔ عذرا کی بیشتر نظموں میں یہی رزمیہ انداز ہے اور یہی عذرا کا امتیاز بھی ہے۔ یہ فطری جذبہ و احساس کی شاعری ہے۔ یہ ان کے سیلف کا لینڈ اسکیپ ہوتے ہوئے بھی پورے نسائی وجود کا محضر نامہ ہے۔

    عذرا کی بارہ قبائوں کی سہیلی گلوبل عورت کا نیا عہدنامہ ہے۔ یہ نظموں کا وہ مجموعہ ہے جس کی ہر سطر میں آتش فشاں ہے اور بقول عذرا عورت کے جسم میں مار دی جانے والی چیخ کا نام بارہ قبائوں کی سہیلی ہے۔

    سن پتلی سے تخلیقی سفر کا آغاز کرنے والی کہانی کار عذرا نے اپنا سارا سچ زندہ کاغذ کے حوالے کر دیا ہے کہ عورت تو مر چکی ہے، عورت کی زندگی صرف اور صرف کاغذ میں کراہ رہی ہے۔ عذرا کے ان جملوں میں کتنا درد چھپا ہے، کیا کسی مرد کا دل اسے محسوس کر سکتا ہے

    بہت بار لگا کہ جیسے بمعہ کتاب میں جلائی جا چکی ہوں

    بہت بار لگا کہ بمعہ اپنے لفظوں کے دفنا دی گئی ہوں

    عذراکے دکھ کا انت نہیں ہے کہ جرم کسی کا بھی ہو سنگسار تو عذرا کو ہی ہونا ہے، عذرا یعنی عورت وہ مخلوق جو باغ بہشت سے نکلی تو دوسری مخلوق ہی اس کا خالق بن بیٹھی۔ عذرا کی نظم کون خدا ہے اسی مصنوعی خالق کے خلاف احتجاج بھی ہے اور حقیقی خالق سے فریاد بھی

    تب اگر واقعی خانم تمہارا بنا ہوا لباس تھی

    تو یہ لباس چیخ کیوں بن گیا؟

    وہ چیخ جو کفن کے لئے

    کورا لٹھا پھاڑتے وقت آکاش کو پکارتی ہے

    مگر بہرہ آکاش اس وقت بھی گا رہا ہوتا ہے

    خانم تمہارا لباس ہے

    اور تم خانم کا لباس!

    یہ تم آخر ہے کون

    اور کہاں ہے

    اور میرے خالق اتنا اور بتا دو

    کہ اگر تمہاری بنی قبا کو بھی

    تار تار کر دینے کی سہولت جبر کو حاصل ہے تو

    سچ سچ چپکے سے بتا دو

    کہ خدا کون ہوا

    بولو میرے خالق

    میں تمہاری ہی بنی ہوئی قبا بول رہی ہوں

    عذرا کی فنی اور فکری فردیت ان کی ہر نظم میں نمایاں ہے۔ ان کی اظہاری ہیئت مختلف توانائیوں سے تشکیل پاتی ہے۔ ان کی لفظیات میں کوئی منطقی ترتیب نہیں ہے۔ وہ لسانی بے ترتیبی سے ایک نئی ترتیب وضع کرتی ہیں۔ عذرا نے لفظیات و فکریات کی نئی راہیں تشکیل کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے لفظوں کو نئی حیاتیاتی توانائی سے روشناس کرایا ہے۔ وہ پرانی لفظیات میں محصور ہوتیں تو ان کا انفرادی رنگ و آہنگ کبھی بھی ابھر کر سامنے نہیں آ پاتا۔

    اردو فکشن کے سرمایہ میں بھی انائو نے گرانقدر اضافہ کیا ہے۔ اردو فکشن کے منظر نامے پر کئی نام ہیں جن میں جلیل قدوائی اور عفت موہانی نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔

    جلیل قدوائی

    علی گڑھ کے فیض یافتہ جلیل قدوائی کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے چے خف کے طرز پر افسانے لکھے اور موپاساں، ترگنیف، چے خف کے افسانوں کے تراجم بھی کئے۔ مغربی افسانوں کا مطالعہ گہرا تھا، جس کے اثرات طبع زاد افسانوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ جلیل قدوائی اپنے افسانوں میں زندگی کے معارف و حقائق کو پیش کرتے ہیں اور جذبات نگاری کے ذریعے نئی جان ڈال دیتے ہیں۔ ڈاکٹر سید اعجاز حسین نے ان کے افسانوں کے حوالے سے جو سطریں تحریر کی ہیں ان سے جلیل قدوائی کے افسانوں کے خصائص اور خوبیوں کی تفہیم میں مدد مل سکتی ہے۔

    ’’جلیل دنیا کو ایک بہتا ہوا سمندر سمجھتے ہیں جس کے ہر حصے میں لہریں ہی لہریں ہیں اور ہر لہر زندگی کا کوئی رخ پیش کر سکتی ہے۔ حیات انسانی کے ہزار ہا نقوش میں سے وہ کوئی ایک نقش لے کر ایک افسانہ مکمل کر لیتے ہیں۔ جلیل نے عام افسانہ نویسوں کی طرح صرف عشق و محبت ہی کو اپنا موضوع نہیں بنایا بلکہ حیات انسانی کے ہر رخ پر نظر ڈالنا چاہتے ہیں اور جس جگہ وہ زندگی کے معمے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں وہی ان کا افسانہ ہوتا ہے۔ نہایت پرخلوص طور پر وہ خود سمجھ کر دنیا کو سمجھانا چاہتے ہیں۔‘‘ (مختصر تاریخ ادب اردو)

    ان کے افسانوی فن کے بارے میں پروفیسر محمد مجیب کا یہ خیال ہے ’’اس مجموعے (اصنام خیالی) میں ایک بھی افسانہ ایسا نہیں ہے جس سے فقط دل بہلانا یا تخیل کو لبھانا مقصود ہو اور ایک سطر بھی نہیں جو محض زیب داستان کے لئے بڑھائی گئی ہو۔ ہر تصویر کسی حقیقت کا عکس معلوم ہوتی ہے اور ہر حقیقت کسی اور بڑی حقیقت کی طرف رہبری کرتی ہے۔‘‘

    سیر گل اور اصنام خیالی ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ ٹرلنگ کے ڈرامہ موناوانا کا ترجمہ بھی انہوں نے ہی کیا تھا۔

    فکشن نگاری کے علاوہ شاعری میں بھی طبع آزمائی کی اور رنگ حسرت میں غزلیں کہیں کہ حسرت کے شاگرد بھی تھے اور ان سے بے پناہ متاثر بھی۔ انہوں نے حسرت کے کلام کا انتخاب معہ مقدمہ شائع کیا تھا۔ جلیل قدوائی کی شاعری کی کتاب ’نقش و نگار‘ کے عنوان سے علی گڑھ سے 1930میں شائع ہوئی تھی۔ ’نوائے سینہ تاب‘ ان کا دوسرا مجموعہ تھا جو 1951 میں زیور طباعت سے آراستہ ہوا۔ خاکستر پروانہ ان کا تیسرا مجموعہ ہے جس میں غزلیات، منظومات، مختصرات کے ساتھ کلام سابق کا انتخاب بھی شامل ہے۔

    جلیل قدوائی شاعری کے باب میں حسرت کے جانشین تھے۔ بابائے اردو نے ان کے رنگ سخن کی نسبت سے یہ لکھا ہے ’’حسرت کی صحبت نے ان کی غزل میں متانت کے ساتھ لطافت پیدا کر دی۔ ان کی غزل میں حسرت کے رنگ کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔‘‘

    فراق گورکھپوری نے یہ تحریر کیا ’’میں نے حسرت کی کامیاب تقلید ان کے لب و لہجے کی قریب قریب بجنسہ تکرار صرف جلیل قدوائی کے یہاں دیکھی ہے۔‘‘

    علامہ نیاز فتح پوری جیسے نقاد نے بھی تقریباً ایسی ہی باتیں لکھی ہیں ’’حسرت موہانی کے رنگ تغزل کو پسند کرنے والے تو بہت ہیں لیکن اس رنگ میں ڈوب جانے والے خال خال ہیں۔ جناب جلیل قدوائی تنہا ایسے شخص ہیں جو شروع سے آخر تک اسی رنگ پر قائم رہے۔‘‘

    رنگ حسرت کے کچھ نمونے یوں ہیںـ:

    تاریکی فراق میں ہم ان کی یاد کی

    دھیمی سی ایک شمع جلائے ہوئے تو ہیں

    جب سے نہیں آغوش میں وہ جان تمنا

    ایک سل ہے کہ ہر وقت کلیجے پہ دھری ہے

    ایک نئی طرز جفا عشق میں ایجاد ہوئی

    اس نے سیکھا ہے جفائوں پہ پشیماں ہونا

    پھوٹا جو ان کے رخ پہ پسینہ دم حجاب

    دھل کر کچھ اور پھول سے عارض نکھر گئے

    خود جلیل قدوائی نے اپنے شعروں میں یہ اعتراف کیا ہے

    آج تیرے سوا جلیل کوئی

    رنگ حسرت میں کامیاب نہیں

    رنگ حسرت کا جہاں ذکر اب آتا ہے جلیل

    اکثر احباب مرا نام لیا کرتے ہیں

    ضیائے حضرت حسرت پڑی تو مجھ پہ جلیل

    مثال ذرّہ مگر آفتاب ہو نہ سکا

    جلیل قدوائی نے حسرت کی طرح عشقیہ شاعری کی۔ ان کے چند شعر ان کے تصور عشق کی عکاسی کرتے ہیں:

    ہر چند شب و روز رہی مشق تصور

    آنکھوں نے مگر وہ رخ تاباں نہیں دیکھا

    کام مشکل تھا بہت ہم نے مگر کام کیا

    ہو کے بدنام محبت میں بڑا نام کیا

    اﷲ ری چشم ناز کی شوخی کا یہ اثر

    اٹھی نہ تھی نگاہ کہ دل پائمال تھا

    ابھی پہنچے بھی نہ تھے منزل جاناں کے قریب

    درد ہونے لگا محسوس رگ جاں کے قریب

    اب دل کو آرزو ہے کہ ان کی نگاہ ناز

    اک درد دے کہ غم کا مداوا کہیں جسے

    جلیل قدوائی نے نظمیں بھی لکھیں، رباعیات اور شخصی مرثیے بھی لکھے۔ انہوں نے اپنے ہم وطن جگت موہن لال رواں کی وفات پر اشعار لکھے اور تذکرے اور تبصرے میں مضمون بھی لکھا تھا۔ بروفات رواں چند اشعار پیش ہیں کہ ان سے جلیل قدوائی کی انائو سے جذباتی وابستگی کا پتہ چلتا ہے:

    ہائے افسوس وہ یکتائے زمانہ نہ رہا

    سب ہیں بیگانے جو تھا میرا یگانہ نہ رہا

    ہجر میں تیرے مرے دیدہ و دل روتے ہیں

    میں کروں کیا مرے ہنسنے کا زمانہ نہ رہا

    ہو گئی کیا ترے مرنے سے وطن کی حالت

    وہ سماں اب نہ رہا اور وہ زمانہ نہ رہا

    شام کو بیٹھ کے جی اپنا کہاں بہلائوں

    آہ انائو میں اب کوئی ٹھکانہ نہ رہا

    میں سنوں کس کی کسے اپنی سنائوں بکواس

    اس کا سننا نہ رہا میرا سنانا نہ رہا

    جلیل قدوائی کا جو انداز بیاں تھا وہ خاصا متاثرکن تھا۔ ابوالخیر کشفی نے صحیح اشارہ کیا ہے ’’ان کی زبان میں وہ لطافت اور روانی ہے جو اردو غزل نے ڈیڑھ سو سال میں حاصل کی ہے اور اسی لئے ان کا انداز بیاں اردو کی ذہنی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔‘‘

    عفت موہانی

    اردو فکشن کے منظرنامے میں عفت موہانی کا نام بہت نمایاں ہے۔ بالخصوص خواتین ناول نگاروں میں ان کا مقام بلند ہے۔ خطہ یونان (موہان) سے ان کا وطنی رشتہ تھا مگر ساری عمر حیدر آباد میں گزری۔ عثمانیہ سے ایم اے کیا۔ ان کے زیادہ تر ناول نسیم بک ڈپو لکھنؤ سے شائع ہوئے۔ ان کے مشہور ناولوں میں ’اگنی برہا، چبھن، ہار جیت، خواب تمنا، ملن کے سپنے، نغمہ سنگ، رستہ پھولوں کا، تشنہ کام‘ ہیں۔ ان کے بیشتر ناول معاشرتی اور رومانی ہیں۔ سماجی نفسیات پر عفت موہانی کی نظر گہری تھی اسی لئے سماجی رویوں اور رشتوں کے حوالے سے انہوں نے ناول لکھے۔ عفت موہانی 1925 میں پیدا ہوئی تھیں اور 16؍نومبر 2005 کو ان کا انتقال ہو گیا۔

    تحقیق و تنقید کے شعبے میں بھی کئی اہم نام ہیں جن کا رشتہ انائو کی سرزمین سے ہے۔ بیخود وموہانی، مسعود حسن رضوی اور جلیل قدوائی، یہ وہ شخصیتیں ہیں جو علم و ادب کی دنیا میں امتیازی حیثیت کی حامل ہیں اور ان کے کارناموں سے اردو ادب کی تابناکیاں بڑھی ہیں۔

    بیخود موہانی

    بیخود موہانی (1883-27؍نومبر 1940) ایک بڑا نام ہے۔ ان کے مضامین غالب شناسی کے باب میں مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ گنجینہ تحقیق میں غالب کے تعلق سے اتنے وقیع مقالے شامل ہیں کہ علامہ اقبال سہیل نے ’معارف‘ میں اس کتاب پر مبسوط مضامین لکھے۔ غالبیات کے تعلق سے بیخود کا ایک اور اہم کارنامہ ہے، کلام غالب کی شرح، جو نظامی پریس لکھنؤ سے 1970 میں شائع ہوئی۔ انہوں نے نہایت سادہ اور سلیس انداز میں کلام غالب کی تشریح کی ہے۔ مغلق اور ادق الفاظ کی توضیح کے ساتھ شعر غالب کی ایسی تعبیر و تفسیر کی ہے کہ غالب کا ہر لفظ گنجینہ معنی لگتا ہے۔ ’جوہر آئینہ‘ اردو شعریات پر ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔

    شارح معبر اور محقق کے علاوہ وہ ایک ممتاز شاعر بھی تھے۔ غزل، قصیدہ، منقبت، قطعہ، مرثیہ اور رباعی میں بھی طبع آزمائی کی اور خوش بیانی کے جوہر دکھائے۔ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے۔ قند فارسی میں ان کے نمونے موجود ہیں۔ سید سکندر آغا نے انتخاب بیخود موہانی کے نام سے ایک کتاب مرتب کی ہے۔ ان کا ایک شعر بہت مشہور ہے

    نشیمن پھونکنے والے ہماری زندگی کیا ہے

    کبھی روئے کبھی سجدے کئے خاک نشیمن کے

    مسعود حسن رضوی ادیب

    اردو تحقیق کا ایک معتبر نام مسعود حسن رضوی ادیب (15؍جولائی 1893-1975) بھی ہے، جن کا آبائی وطن انائو کا وہ قصبہ نیوتنی ہے جہاں شمس العلما محمد جلیل عثمانی جیسی ہستی پیدا ہوئی جو عربی، فارسی اور اردو کے ممتاز دانشور اور بنارس یونیورسٹی میں شعبہ فارسی کے صدر تھے۔

    ادبی دنیا میں نقاد، محقق، مترجم اور ماہر لسانیات کی حیثیت سے مسعود حسن رضوی کی شناخت مسلم ہے بالخصوص لکھنویات کے باب میں ان کی تحقیقات معتبر اور مستند مآخذ کا درجہ رکھتی ہیں۔ یوں تو انہوں نے روح انیس، اردو ڈرامہ اور اسٹیج، تذکرہ نادر، فرہنگ امثال، دبستان اردو، ذکر میر، دیوان فائز، رزم نامہ انیس اور شاہکارانیس جیسی کتابیں ترتیب دیں، مگر ان کی کتاب ’’ہماری شاعری‘‘ کو سب سے زیادہ مقبولیت اور شہرت نصیب ہوئی۔ اس کتاب کو رضوی نے حالی کے مقدمے کا تتمہ یا تکملہ قرار دیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب اردو کی کلاسیکی شاعری کے تعلق سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے۔ مسعودحسن رضوی نے امانت کی اندر سبھا، لکھنؤ کا عوامی اسٹیج جیسی کتابوں کے ذریعہ لکھنؤ کے تہذیبی مطالعے کو نئی سمت عطا کی۔ عہد جدید کے ممتاز افسانہ نگار نیر مسعود انہی کے صاحبزادے ہیں جن کی خدمات کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے۔

    جلیل قدوائی

    تحقیق و تنقید کے باب میں جلیل قدوائی کو یوں فراموش نہیںکیا جا سکتا کہ ان کے تنقیدی و تحقیقی کارنامے دوسروں سے قدرے مختلف ہیں بالخصوص دیوان بیدار کی تدوین ایک بڑا کارنامہ ہے، جس کے حوالے سے مشفق خواجہ نے لکھا ہے کہ ’’میر محمدی بیدار عہد میر و سودا کے ایک اہم شاعر ہیں۔ دنیائے ادب ان سے صرف ان چند شعروں کے حوالے سے واقف تھی جو مختلف تذکروں یں ملتے ہیں۔ قدوائی صاحب کے پاس دیوان بیدار کا ایک اہم نسخہ تھا جسے انہوں نے ایک دوسرے نسخے مملوکہ مولانا احسن مارہروی سے مقابلہ کر کے مرتب کیا۔ اس دیوان کی اشاعت سے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ بیدار ہمارے قدیم شاعروں میں منفرد حیثیت کے مالک ہیں۔ اس دیوان کے مقدمے میں قدوائی صاحب نے بیدار کے ذاتی حالات اور ان کے عہد کے ادبی ماحول پر تفصیل سے لکھا ہے۔‘‘ (حرفے چند مشمولہ خاکستر پروانہ ص 20)

    جلیل قدوائی نے تنقید نگاری میں بھی اپنے شعور کی پختگی اور بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین تنقیدیں اور خاکے اور تبصرے اور تذکرے نامی کتابوں میں شامل ہیں۔ ان کی تنقید تاثراتی ہے مگر انہوں نے تفہیم کا ایک نیا زاویہ بھی نکالا ہے۔ جلیل قدوائی کا ایک اچھا اور بہتر تنقیدی کارنامہ انتخاب شعرائے بدنام بھی ہے جس میں جراْت، امانت، انشا، ناسخ اور رند کے کلام کا انتخاب ہے۔یہ کتاب اہم کیوں ہے اس تعلق سے مشفق خواجہ کے یہ اقتباسات شاید زیادہ مفید ہوں گے ’’لکھنؤ کے مخصوص ماحول میں جو شاعری پیدا ہوئی اس کے بارے میں ہمارے مورخوں اور ناقدوں کی رائے اچھی نہیں ہے۔ نیاز فتح پوری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ لکھنؤ کا شاعر ایک یادہ گو ناظم، ایک ہرزہ سرا متشاعر، ایک بوالہوس حسن پرست، ایک بازاری فقرہ باز، ایک عامی پھبتی گو، ایک سوقی عیاش کی حیثیت سے آگے نہیں بڑھا اور نہ بڑھ سکتا تھا کیونکہ ماحول کا اقتضایہی ہے۔ قدوائی صاحب نے انتخاب شعرائے بدنام کے دیباچے میں تفصیل سے بتایا ہے کہ جن باتوں کی وجہ سے شعرائے لکھنؤ بدنام ہیں وہ تمام باتیں شعرائے دہلی کے کلام میں بھی مل جاتی ہیں اس لئے لکھنؤ کی شاعری سے جو خصوصیات منسوب کی جاتی ہیں وہ دراصل پوری اردو شاعری کی خصوصیات ہیں لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ لکھنوی شاعری کی اس حد تک مذمت کی جائے کہ لکھنوی شاعروں کا اعلیٰ درجے کا کلام بھی نظر انداز کر دیا جائے۔‘‘

    مکتوبات عبدالحق، مرقع مسعود، خیابان مسعود اور شعلہ مستعجل جلیل قدوائی کی اہم کتابیں ہیں۔ حیات مستعار ان کی آپ بیتی ہے جو مکتبہ اسلوب پاکستان سے شائع ہوئی۔

    انائو نے اردو کے گیسو ہی نہیں سنوارے بلکہ ہندی ساہتیہ کو بھی نئی لہروں سے آشنا کیا۔ یہاں کے ادبی افق پر ہندی سے جڑے ہوئے بہت سے ستارے ہیں جن کی وجہ سے ہندی زبان و ادب کو نئی سمتیں اور نئی دشائیں ملیں۔ تخلیق کو نیا طرز اور تنقید کو نئی تجلی ملی۔ انائو نے ہندی ادبیات کو تابانی اور درخشانی عطا کرنے میں اہم کردار اداکیا ہے۔ انائو کے ادبی آسمان پر جو آفتاب و ماہتاب جگمگاتے رہے ہیں ان میں نرالا، بھگوتی چرن ورما، رام ولاس شرما، شیو منگل سنگھ سمن، جگدمبیکا پنڈت مشرا ہتیشی، پنڈت نرائن مشرا، رمئی کاکا، اوپیندر ناتھ شکلا کے نام نمایاں ہیں۔

    نرالا

    نرالا تو وہ جوہر ہے جس نے ہندی ساہتیہ کو نئی زمین عطا کی۔ ان کا شمار چھایاواد تحریک کے بانیوں میں ہوتا ہے جس نے اپنے انقلابی باغیانہ مزاج کے ذریعے ہندی شاعری کو ایک نیا رنگ و آہنگ دیا۔ ترقی پسندانہ انقلابی نظریات کے حامل سوریہ کانت ترپاٹھی نرالا (21؍فروری 1896- 15؍اکتوبر 1961 ) نے ہندی میں آزاد نظم کو فروغ دیا۔ ہیئت اور مواد کی آزادی پر ان کا یقین تھا۔ نرالا نے ہمیشہ سماجی، سیاسی استحصال اور نا انصافی کے خلاف لکھا۔ نرالا ایک بڑا تخلیقی ذہن تھا جو ٹیگور، وویکانند اور رام کرشن پرم ہنس سے متاثر تھا۔ ایک بوہیمین طرز زیست رکھنے والا نرالا بہت سے المیوں اور اذیتوں سے گزرا مگر اپنی فکر کی حرمت اور آبرو کو بچائے رکھا۔ مالی دشواریوں نے بھی ان کی طرز فکر کو تبدیل نہیں ہونے دیا۔ ’جنم بھومی، پریمل، گتیکا، انامیکا، تلسی داس، ککرمتا، نئے پتے کا خالق نرالا ہندی ادب کا ایک سنگ میل قرار پایا۔ حیرت کی بات ہے کہ مدناپور، بنگال میں پیدا ہونے والا نرالا بنگالی زبان وثقافت کا طالب علم اپنی بیگم انوہر دیوی کے اصرار پر ہندی سیکھتا ہے اور ہندی ثقافت کا ایک تابناک ستارہ بن جاتا ہے۔ نرالا کی نظمیں ان کی ترقی پسندانہ انسانی فکر کی عکاس ہیں۔ ’سروج سمرتی‘ نرالا کا وہ کرب نامہ ہے، جسے پڑھتے ہوئے پتھر آنکھیں بھی موم بن جاتی ہیں۔

    بھگوتی چرن ورما

    ہندی کا ایک بڑا نام جس کے امتیازات اور حاصلات کی ایک طویل فہرست ہے پدم بھوشن بھگوتی چرن ورما (30؍اگست 1903-5؍اکتوبر 1981) نے ہندی فکشن کو ایک نئی بلندی عطا کی۔ ’چتر لیکھا‘ جیسا ناول لکھا جس پر فلم بھی بنی۔ ’بھولے بسرے چتر‘ جیسا رزمیہ ناول تحریر کیا، جس پر ساہتیہ اکیڈمی کا باوقار اعزاز ملا۔ ’پدم بھوشن اور راجیہ سبھا کی ممبر شپ سے سرفراز ورما نے وچار اور نوجیون کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔

    صفی پور کے مکین ورما کو ان کے ناول بھولے بسرے چتر پر 1961 میں ایوارڈ دیا گیا۔ یہ ایک رزمیہ ناول ہے اس میں ہندوستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ کے لمس کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کے تسلط اور نئی قدروں کے المیے کو اجاگر کیا گیا ہے۔ آزادی کی قومی تحریک کے موضوع پر مبنی اس ناول میں بتایا گیا ہے کہ نسلوں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ تہذیبی قدروں میں کس طور سے تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ یہ ہندوستانی معاشرت اور سیاست کی تفہیم میں بھی معاون ہے۔ ’بھولے بسرے چتر‘ میں حقیقی ہندوستان کی سچی تصویر ملتی ہے اور اس اعتبار سے اس ناول کو اہمیت اور معنویت بھی حاصل ہے۔

    رام ولاس شرما

    ممتاز ترقی پسند ناقد، ماہر لسانیات شاعر اور دانشور رام ولاس شرما کاتعلق بھی انائو کے اونچا گائوں سے ہے جو انگریزی ادبیات سے وابستہ رہے مگر ہندی ادبیات کو نئی اونچائیاں عطا کیں۔ ادبی لسانی مسائل و مباحث کو انہوں نے جو نئی جہتیں دی ہیں اس کا اعتراف ان کے نظریاتی مخالفین کو بھی ہے۔ ان کے تنقیدی مطالعات کو اعتبار و استناد کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی تخلیقی تنقید کے نقوش نرالا کی رام کی شکتی پوجا، تلسی داس، سروج سمرتی اور پری مل کے تجزیاتی مطالعات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ پریم چند، بھارتیندو، آچاریہ شکلا پر ان کی تنقیدی تحریریں نہایت وقیع اور دانشورانہ نوعیت کی ہیں۔ انہوں نے ترقی پسندانہ نقطہ نظر سے ان فنکاروں کا تجزیہ کیا ہے۔

    سم آلوچک کے ایڈیٹر اور پریم چند اور ان کا یگ (1952)، پرگتی شیل ساہتیہ کی سمسیائیں (1955)، نرالا کی ساہتیہ سادھنا (3جلدیں)، آچاریہ رام چندر شکلا اور ہندی آلوچنا (1973)، بھارت میں انگریزی راج اور مارکسواد (1982)، روپ ترنگ اور پرگتی شیل کویتا کی وچارک پرشٹ بھومی (1990)، بھارتیہ ساہتیہ کی بھومیکا (1996) پرگتی اور پرمپرا (1953)، آستھا اور سوندریہ (1960)، بھاشا اور سماج (1961)، اپنی دھرتی اپنے لوگ (خود نوشت)، سوادھینتا سنگرام بدلتے پری پیکش (1992) جیسی کتابوں کے مصنف رام ولاس شرما کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ بھی ملا۔ یہ ان کے تنقیدی امتیازات کا اعتراف ہے۔ جس تصنیف پر انہیں یہ ایوارڈ ملا وہ تنقید کی ایک نئی جہت سے آشنا کرتی ہے۔ انہوں نے ایک تخلیق کار کے فن کی تفہیم کے لئے جو تنقیدی طریقہ کار اختیار کیا وہ یقینا ہندی کے دوسرے نقادوں سے مختلف ہے۔ نرالا کی ساہتیہ سادھنا، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ کتاب ہے جو جدید رزمیہ ناول کے انداز میں لکھی گئی ہے۔ تخلیقی اسلوب میں لکھی گئی تنقید میں نہ میکانکیت ہے اور نہ ہی جذباتیت۔ نرالا کی داخلی شخصیت کے تخلیقی تلاطم کی تفہیم جس طور پر کی گئی ہے دوسرے نقادوں سے شاید یہ ممکن نہ ہوتا۔ یہ کتاب نرالا کا تخلیقی حیات نامہ ہی نہیں بلکہ اعمال نامہ بھی ہے جس میں ان کی زندگی اور تخلیقی جہات سے جڑے ہوئے ہر زاویے کو روشن کیا گیا ہے اور ان کے تضادات کی تعبیریں بھی پیش کی گئی ہیں۔

    شیو منگل سنگھ سمن

    انائو کی عظمت کو ایک روشن جہت شیو منگل سنگھ سمن (5؍اگست 1915- 27؍نومبر 2002) کی تخلیقی شخصیت سے بھی ملی ہے۔ جس کی مایہ ناز شعری کتاب مٹی کی بارات ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے مفتخر ہوئی۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کے فیض یافتہ وکرم یونیورسٹی اجین کے وائس چانسلر کے فرائض انجام دے چکے سمن ہندی میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ ان کے تخلیقی اعمال نامہ میں ہلول (1939)، جیون کے گان (1942)، یگ کا مول (1945)، مہادیوی کی کاویہ سادھنا (1951)، گیتی کاویہ، پراکرتی پرش کالی داس (1961) کے نام قابل ذکر ہیں۔ ’مٹی کی بارات‘ ان کا شاہکار ہے۔ 72نظموں کے اس مجموعے میں بے پناہ کیف و تاثیر ہے۔ نہایت سادہ اور سلیس انداز میں انہوں نے نظمیں لکھی ہیں۔ ان نظموں کے ذریعہ ہندی ساہتیہ اظہار و احساس کی نئی دشائوں سے آشنا ہوئی۔ یہ ہندی دنیا کا ایک بڑا نام ہے جس کے حصے میں ساہتیہ اکیڈمی کے علاوہ شکھر سمان اور پدم شری جیسے اعزازات بھی آئے۔

    ان کے علاوہ ایک نہایت اہم شخصیت جگدمبیکا پنڈت مشرا ہتیشی (1895-1956) کی ہے۔ جن کا یہ شعر تو برقیاتی ذرائع ابلاغ اور محفلوں کے ذریعہ بہتوں کی زبان پر ہے

    شہیدوں کی چتائوں پر جڑیں گے ہر برس میلے

    وطن پر مرنے والوں کا یہی باقی نشاں ہو گا

    اسی خاک کا یہ نغمہ ہے جو ہمیشہ گونجتا رہتا ہے۔ گنج مرادآباد کے رہنے والے ہتیشی بنگلہ، فارسی اور سنسکرت کے ماہر تھے۔ ان کی کتاب ’سوایا چاند‘ کو کافی شہرت ملی اور نظم ’ماتر گیت‘ تو بہت ہی مقبول ہوئی۔

    رمئی کاکا یہاں کے مزاحیہ شاعر ہیں۔ پنڈت نرائن مشرا 50 سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ سنسکرت، انگریزی، فارسی، بنگلہ کے ماہر ’پریم پشپا ولی، من کی لہر‘ جیسی تصانیف کے خالق۔ اوپیندر ناتھ شکلا بھی ایک اہم نام ہے جو ایک ممتاز فکشن نگار بھی تھے۔ ’بہادر شاہ ظفر، لاشوں کا مقبرہ‘ جیسے ناول بھی انہوں نے لکھے۔

    انائو کا تخلیقی منظر نامہ ان افراد کے بغیر ادھورا ہے جنہوں نے دوسرے شہروں میں بود و باش اختیار کر لی یا ہجرت کر گئے۔ ایسی شخصیتوں میں ایک نمایاں نام راجہ جیا لال گلشن کا ہے جو رائے بھوانی بخش صاحب تعلق دار مرتضی نگر ضلع انائو کے بیٹے تھے اور نہایت خوش فکر شاعر تھے۔ ان کا پورا خاندان ہی علم و ادب کا رسیا تھا۔ یہ لکھنؤ کے مشہور رئیس گزرے ہیں جن کی یادگاریں پھاٹک راجہ جیا لال اور باغ راجہ جیا لال آج بھی لکھنؤ میں موجود ہیں۔ ان کی نزاکت خیال اورندرت احساس کے نمونے کچھ یوں ہیں

    قد رعنا صنوبر زلف سنبل چہرہ لالہ ہے

    بہار باغ ہے عالم تیرے جوش جوانی کا

    کوچہ زلف سے دل پا بہ رسن آتا ہے

    یا کوئی وحشی صحرائے ختن آتا ہے

    سر رشتہ دل کو زلف گرہ گیر سے ہوا

    دیوانے کو یہ سلسلہ زنجیر سے ہوا

    تلمیذ آتش گلشن کی پیدائش 1785 میں ہوئی اور انتقال 1865 میں ہوا۔ ڈاکٹر شاہ عبدالسلام نے دبستان آتش میں ان کا ذکر کیا ہے۔

    گلشن ہی کے فرزند کنور گوپال سہائے صبور تھے، جو ملیح آباد میں تحصیلدار کے عہدے پر فائز تھے اور ریاست گوپال پور کے نائب بھی رہے۔ فارسی پر قدرت کاملہ تھی اور خواجہ آتش کے شاگرد تھے۔ ڈاکٹر شاہ عبدالسلام نے تذکرہ بہار سخن مرتبہ شیام سندر لال برق کے حوالے سے ان کے چند شعر درج کیے ہیں

    جب نہ اثبات دہن ٹھہرا تو یہ ثابت ہوا

    بات جو ہے یار کی وہ غیر کی آواز ہے

    مال دنیائے دنی کی میںنہیں رکھتا ہوس

    بندیاں روز ازل سے باب حرص و آز ہے

    راز مطلق کو بھی عشرت میں نہ بھولے آدمی

    بند ہے گر ایک در تو دوسرا در باز ہے

    صبور کا جنم 1821 میں ہوا اور 1901 میں وفات پائی۔ انائو ہی کی سرزمین سے اقبال صفی پوری کا بھی تعلق تھا، جو پاکستان ہجرت کر گئے۔ ان کے اشعار بہت مقبول ہوئے۔ خاص طور پر ان کا ترنم پاکستان میں آج بھی مشہور ہے۔ ان کے بہت سے اشعار زبان زد خاص و عام ہیں۔ ان کے چند شعر سے ان کی قدرت کلامی اور رعنائی تخیل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے

    کوئی سمجھائے کہ کیا رنگ ہے میخانے کا

    آنکھ ساقی کی اٹھے نام ہو پیمانے کا

    گرمی شمع کا افسانہ سنانے والو

    رقص دیکھا نہیں تم نے ابھی پروانے کا

    چشم ساقی مجھے ہر غم پہ یاد آتی ہے

    راستہ بھول نہ جائوں کہیں مے خانے کا

    اب تو ہر شام گزرتی ہے اسی کوچے میں

    یہ نتیجہ ہوا ناصح ترے سمجھانے کا

    ’شاخ گل‘ اقبال صفی پوری کا مجموعہ ہے۔ 1921 میں پیدا ہوئے اور 1991 میں انتقال ہو گیا۔

    انائو کے منظر نامے میں شہید صفی پوری، اثر اناوی، فگار اناوی، رونق صفی پوری، فخر جمالی، نعیم اناوی، منور علی عاکف صفی پوری، مہتاب حیدر صفی پوری کے نام بھی اہم ہیں۔ ان لوگوں نے وہاں کی تخلیقی فضا کو درخشانی عطا کی ہے۔ اس کے علاوہ انائو کی عظمت کو سہیل زیدی اور معراج زیدی جیسے بڑے تخلیقی ذہنوںنے بھی نئی بلندیاں عطا کی ہیں۔ سیاسی میدان میں بھی کچھ اہم نام اس سرزمین سے جڑے ہوئے ہیں۔ ضیاء الرحمن انصاری جیسی ممتاز سیاسی شخصیت کا تعلق بھی انائو کی ہی سرزمین سے رہا ہے۔ جن کی خدمات سے ارباب اردو اچھی طرح واقف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حسرت موہانی کی سرزمین انائو نے بڑی بڑی شخصیتوں کو جنم دیا ہے اور یہ زمین بڑے تخلیقی ذہنوں کی زاد گاہ ہے۔ بہت کم زمینوں کو اتنے اعزازات حاصل ہوئے ہیں جتنے انائو کے حصے میں آئے ہیں۔ یہ انائو کو ادبی اعتبار عطا کرنے کے لئے کافی ہیں اور اس کی عظمت کے ثبوت کے لئے بھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے