aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو زبان کا مسئلہ

شاہد احمد دہلوی

اردو زبان کا مسئلہ

شاہد احمد دہلوی

MORE BYشاہد احمد دہلوی

    برادر مکرم طفیل صاحب۔ سلام مسنون

    تازہ ’’نقوش‘‘ میں آپ کا اداریہ ’’طلوع‘‘ پڑھا۔ آپ نے اس میں اردو کے ایک نہایت اہم مسئلے کو چھیڑا ہے۔ یہ مسئلہ جتنا اہم ہے اتنا ہی نازک بھی ہے۔ خصوصاً میرے لئے کہ میرے بیان سے بعض آبگینوں کو ٹھیس لگنے کا اندیشہ ہے۔ سچی بات کڑوی ہوتی ہے مگر آپ مصر ہیں تو عرض کرتا ہوں۔

    رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی سے معاف

    آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

    ’’طلوع‘‘ کا پہلا فقرہ ہی محلِ نظر ہے۔ آپ نے پہلے ہی سے یہ فرض کر لیا ہے کہ آپ کے علاوہ اور سب تنگ دل ہیں۔ جبھی تو آپ نے لکھا ہے۔ ’’آپ بھی دل میں کشادگی پیدا کر لیں۔‘‘ اگر میں اسے آپ کی تنگ دلی قرار دوں تو کیسا؟

    جی ہاں، اردو بڑی اچھی اور بڑی پیاری زبان ہے اور بڑی نرالی زبان ہے۔ کیوں کہ اردو بولنے والے مردوں کی زبان اور ہے اور عورتوں کی زبان اور بھی اپنی جگہ پر ترقی یافتہ ہے اور اتنی وسیع کہ مولانا سید احمد، صاحب فرہنگ آصفیہ، عورتوں کے محاوروں کی ایک جامع لغات ’’لغات النساء‘‘ کے نام سے لکھ گئے ہیں، دنیا کی شاید ہی کوئی ترقی یافتہ زبان ایسی ہو کہ اس میں مردوں اور عورتوں کی زبانیں الگ الگ ہوں۔ عورتوں کی زبان میں اگر شاعری دیکھنی ہو تو ریختیاں ملاحظہ فرمائیے۔ ان کے مضامین شاید ثقہ طبیعتوں پر ناگوار گزریں تو گزریں، زبان کا چٹخارہ یقیناً مزہ دے جائےگا۔

    دنیا کی دوسری بڑی زبانوں کی طرح اردو بھی مقامی بولیوں اور دوسری زبانوں کو اپنے اندر جذب کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس کا تو خمیر ہی زبانوں اور بولیوں کے آمیز ے سے اٹھا ہے۔ چھوت چھات کی یہ نہ تو پہلے کبھی قائل تھی اور نہ اب ہے۔ زندہ زبانیں چھوت چھات کو نہیں مانتیں اور نہ اچھوت رہنا پسند کرتی ہیں۔ ان کا تال میل سب سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اردو ہر جائی بھی ہے، حریص بھی ہے، جس کی جو چیز پسند آتی ہے لے کر اپنے اندر جذب کر لیتی ہے، کبھی پرائی چیز کو جوں کا تو رہنے دیتی ہے اور کبھی اس کی شکل ہی بدل ڈالتی ہے۔ یہ عادت بھی اس نے اپنی ترقی پذیر بہنوں سے سیکھی ہے۔ جبھی تو من موہنی بن گئی اور اس کا جادو سارے ہندوستان پر چل گیا تھا۔

    بھلا جس نے عوام میں جنم لیا ہو، سرکاروں، درباروں میں قدم رکھا ہو، بادشاہوں کی منہ چڑھی رہی ہو، اس کی بڑھوتری کیسے رک سکتی تھی؟ ککڑی کی بیل کی طرح بڑھتی ہی چلی گئی اور ہندوستان کی سرحدوں کو پھلانگ کر دوسرے براعظموں پر بھی چولائی کی طرح پھیلنے لگی۔ اب دنیا میں آپ جہاں چاہے چلے جائیں، اردو بولنے والے آپ کو مل ہی جائیں گے۔ اور صاحب، غضب کی ڈھیٹ زبان ہے، بڑی سخت جان، ہمسایہ ملک میں اردو کو نہ صرف اچھوت بنایا جا رہا ہے، بلکہ اسے قتل کرنے کے سامان کئے جا رہے ہیں، مگر یہ ہے کہ ڈٹی ہوئی ہے اور برابر بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ عجب بلا ہے کہ یونانی صنمیات کے ہائیڈرا کی طرح اگر اس کا سر قلم کیا جاتا ہے تو ایک کے بدلے دو سر نکل آتے ہیں۔ اردو کسی کے مارے نہیں مر سکتی۔ یہ تو یونہی نئے نئے میدان مارتی چلی جائےگی۔ کوئی صاحب اگر اس کے باب میں چھوت چھات کے وہم میں مبتلا ہیں تو اس وہم کو دل سے نکال دیں۔

    جی ہاں، کسی زمانے میں اردو کے دو مرکز تھے۔ پہلا مرکز دلی اور دوسرا لکھنؤ۔ اگر دونوں مرکزوں میں روز مرہ، تذکیر و تانیث اور بعض لفظوں کے استعمال میں فرق تھا تو کیا غضب آ گیا؟ ہر زبان جغرافیائی اور مقامی لحاظ سے چولے بدل لیتی ہے۔ انگریزی زبان کو دیکھو کہ اسکاٹ لینڈ میں، آئرلینڈ میں، ویلز میں، پھر ان پڑوسی ملکوں سے نکل کر سات سمندر پار کے ملکوں میں کس کس طرح اور کس کس فرق سے بولی جا رہی ہے۔ اور تو اور امریکہ ہی کو لے لیجئے۔ انگریز ہی تو جا کر امریکہ میں بسے تھے۔ اپنی زبان انگریزی ہی تو ساتھ لے گئے تھے۔ ان ہی انگریزوں کی اولاد کو دیکھئے کہ اب کیسی بولی بول رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے تو لفظوں کسے حروف تک بدل ڈالے اور لفظ کے حروف تلفظ سے ہم آہنگ کر دئے۔

    تبدیلی تو صاحب اس حد تک بھی ہو سکتی ہے۔ دلی اور لکھنؤ کے ذرا ذرا سے فرق پر کیوں گرفت کی جائے؟ یہ بھی زبان کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے کہ وہ مقامی اثرات کو قبول کرتی رہتی ہے۔ اگر دلی سے نکل کر لکھنؤ، بہار، پنجاب اور حیدرآباد دکن وغیرہ میں اردو اپنے نئے ماحول کے اثرات قبول نہ کرتی تو البتہ تعجب کی بات ہوتی اور اردو مسدود ہو کر حجریات میں شامل ہو جاتی۔ اردو بولنے والوں کی طرح اردو بھی کشادہ دل ہے۔ اگر ایسی نہ ہوتی تو حضرت امیر خسرو ہی کے زمانے میں ٹھٹھر کر مر جاتی۔ مرقی وہ زبانیں ہیں جو تنگ دل ہوتی ہیں اور جن کے بولنے والے تنگ دل ہوتے ہیں جیسے سنسکرت موت کے گھاٹ اتر گئی۔

    زبان کے مرکز کسی کے قائم کئے سے قائم نہیں ہوتے۔ جس طرح فطری زبانیں خود بخود بنتی چلی جاتی ہیں، زبان کے مرکز بھی خود بخود بن جاتے ہیں۔ جس شہر میں ثقہ اہل زبان زیادہ ہوتے ہیں، مستند شاعر اور ادیب زیادہ ہوتے ہیں وہ شہر مرکز بن جاتا ہے اور زبان کی سند اسی شہر کے بزرگان ادب سے ملنے لگتی ہے۔ دلی میں جب تک مغل بادشاہوں کی خوش اقبالی اور درباروں میں فارغ البالی رہی، اہل ہنر اور اہل کمال بھانت بھانت کے کھینچ کر آتے رہے اور اس شہر کے نام کو چار چاند لگاتے رہے۔ اس شہر کو انہوں نے اپنا وطن بنایا اور اسی شہر میں پیوند خاک ہو گئے۔

    چپے چپے پہ ہیں یاں گوہرِ غلطاں، تہہِ خاک

    دفن ہوگا نہ کہیں اتنا خزانہ ہرگز

    دلی ان اہل کمال کی وجہ سے زبان کی ٹکسال بنی اور اسی ٹکسال سے اردو کا سکہ جاری ہوا۔ جب مغل بادشاہی برائے نام رہ گئی اور شاہی خزانے خالی ہو گئے تو متوسلین شاہی اور اہلِ ہنر اور اہلِ فن نے ترکِ وطن کر کے پورب کا رخ کیا۔ فیض آباد اور فیض آباد کے بعد لکھنؤ کا شاہی دربار ان کا مرجع بنا۔ دلی کی کوکھ اجڑتی رہی اور لکھنؤ کی کوکھ ہری ہوتی رہی۔ مرکز اینٹ پتھر سے نہیں بنتا، اہلِ کمال سے بنتا ہے۔ چنانچہ لکھنؤ دوسرا مرکز بنا۔

    ہر کجا چشمۂ بود شیریں

    مردم و مور و ملخ گرد آیند

    جو سخت جاں تھے وہ دلی ہی میں رہے۔ لال قلعہ میں مغلوں کی شمع جھلملا رہی تھی۔ اس کے گرد پروانے جمع ہوتے رہے۔ انہیں کے دم سے دلی کی مرکزیت قائم رہی۔ لہٰذا دونوں مرکز اپنی اپنی جگہ پر قائم رہے۔ حالات و واقعات اور ان سے بڑھ کر ماحول نے ان دونوں مرکزوں میں چھوٹے چھوٹے سے اختلافات پیدا کر دیے جو آگے چل کر بڑے بڑے معرکوں کی شکل اختیار کر گئے۔ جب دو برتن ہوتے ہیں تو کھڑک ہی جاتے ہیں۔ دونوں اپنی اپنی بات پر اڑے رہے،

    وہ اپنی خونہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں۔

    یہ اختلافات بھی زبان کی ترقی کا ذریعہ بن گئے کہ اردو کے دو بڑے دبستان قائم ہو گئے۔ دبستانِ دہلی اور دبستانِ لکھنؤ۔ دوسرے شہر والوں نے جسے پسند کیا اس کی تقلید و پیروی کرنے لگے۔ اردو کے لئے دونوں آنکھیں برابر تھیں۔ ان میں سلوک بھی رہا اور چشمکیں بھی ہوتی رہیں۔ تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دنیا کی ریت ہی یہ ہے۔ ہم اختلاف اس لئے کرتے ہیں کہ ہم میں اتفاق ہو۔

    آپ نے بڑے مزے کی بات کہی ہے کہ ’’جو چیز لکھنؤ سے مؤنث چلتی تھی، وہ دلی پہنچ کر مذکر بن جاتی تھی۔‘‘ یہ فقرہ ناتمام ہے۔ اسے یوں ہونا چاہیے، ’’جو چیز لکھنؤ سے مؤنث چلتی تھی وہ دلی پہنچ کر مذکر بن جاتی تھی اور لاہور پہنچ کے مخنث۔‘‘ یعنی مذکر بھی اور مؤنث بھی۔ یہ خرابی ہے دو کشتیوں میں ایک ساتھ پاؤں رکھنے کی۔

    اب یہ کہ ’’لکھنؤ نہ وہ لکھنؤ ہے۔ نہ دلی وہ دلی ہے۔ اردو کے طالب علم کدھر جائیں؟ کسے اپنا امام تسلیم کریں؟ کس سے سند پائیں؟‘‘ اس مسئلہ کو واقعی حل کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ یہ نہ بھولیے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد دلی اور لکھنؤ سے زیادہ لاہور اردو علم و ادب اور زبان کا مرکز بن گیا تھا۔

    ۱۸۵۶ء میں شاہان اودھ کی بساط الٹی اور اس کے ایک سال بعد لال حویلی اجڑی۔ اہلِ کمال آشفتہ حال ہوئے اور جس کے جہاں سینگ سمائے نکل گیا۔ مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا حالیؔ نے لاہور کو اپنے لئے پسند کیا۔ کسی نے رام پور اور کسی نے حیدرآباد دکن کی راہ لی۔ آگے چل کر دکن بھی اردو کا ایک مرکز بن گیا۔ بہار والوں کو بھی بہار کے مرکز ہونے پر اصرار رہا۔ مگر یہ سارے مرکز اب ختم ہو چکے ہیں (سوائے لاہور کے) لہٰذا آپ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ، ’’اردو کے طالب علم اب کدھر جائیں؟ کسے اپنا امام تسلیم کریں، سند کس سے پائیں؟‘‘

    سند اس سے لی جاتی ہے جو سند دینے کے اہل ہوتے ہیں۔ شہروں سے سند نہیں لی جاتی۔ مستند اہلِ زبان جہاں بھی ہوں ان سے سند لیجئے۔ مستند مصنفوں کی مستند تصنیفوں سے سند لیجئے۔ اگر سائلؔ و بیخودؔ سے سند لی جاتی تھی تو جوشؔ ملسیانی سے بھی سند لی جاتی تھی اور لی جاتی ہے۔ اگر امیرؔ و داغؔ، آزادؔ و سرشارؔ مر چکے ہیں تو ان کے دیوان اور ان کی کتابیں تو نہیں مریں؟ وہ اپنی گزار گئے مگر ہمارے لئے ہدایت کے چراغ تو چھوڑ گئے۔

    ’’چھوڑیے صاحب!‘‘ کی بھی ایک ہی رہی۔ یہ آپ کے چھڑائے کب چھوٹتے ہیں؟ انہوں نے تو آبِ حیات پیا ہے اور اردو کو آب حیات پلایا ہے۔ ہاں اردو کو چھوڑ دیجئے تو ان سے آپ کا پیچھا چھوٹ جائےگا۔ آپ ماضی سے اپنا رشتہ منقطع کرنے کے بعد کہاں رہ جائیں گے؟ آج کا ماحول اتنا تو نہیں بدلا کہ امیرؔ و داغؔ اس میں ناکارہ ثابت ہوں۔ ابھی تو ہم مرزا مظہر جانِ جاناں اور سوداؔ اور میرؔ کو بھی نہیں چھوڑ سکے۔ یہ خیال بھی آپ کا صحیح نہیں ہے کہ، ’’اردو کو دھکے مار کر اپنے گھر سے نکال دیا گیا ہے۔‘‘

    جن ۱۴ زبانوں کی سرپرستی بھارت کی حکومت کر رہی ہے ان میں سے ایک اردو بھی ہے۔ ہرچند کہ بھارت کی قومی زبان ہندی قرار دی گئی ہے۔ پھر بھی بھارت کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اردو ہی راج رج رہی ہے، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہندی کی چھاتی پر مونگ دل رہی ہے۔ بارہ سال کے بعد میں ایک خیرسگالی کے وفد میں دلی گیا تھا۔ مجھے تو ۲۴ لاکھ کی آبادی میں ایک بھی ہندی بولنے والا نہیں ملا۔ ہاں لکھنے والے بہت سے ملے۔ مگر وہ بھی بولتے اردو ہی ہیں۔ پھر پانچ کروڑ مسلمان جو وہاں ہیں وہ کون سی زبان بولتے ہیں؟ ہندو تو ہندی بولتا ہی نہیں، مسلمان کیا کھا کر ہندی بولے گا؟ بھارت میں کاغذ پر قومی زبان ہندی ہے مگر آج بھی بھارت کی عام زبان اردو ہی ہے۔

    اردو کے دشمن تک اردو بولنے پر مجبور ہیں اور اگر ہٹ دھرمی سے ریڈیو وغیرہ پر ہندی بولتے ہیں تو کسی کے پلے نہیں پڑتا کہ کیا فرمایا گیا۔ لاچار ہو کر آل انڈیا ریڈیو کو روزانہ ایک اردو بلیٹن بھی نشر کرنا پڑا اور کسی کا تو ذکر ہی کیا، پنڈت جواہر لال نہرو کی تقریر جب چاہے سن لیجئے۔ ایک آدھ لفظ مصلحتاً ہندی کا بیچ میں ڈال دیتے ہیں، ورنہ ساری تقریر اردو ہی میں ہوتی ہے۔ بقول آپ کے ’’دھکے مار کے‘‘ تو ہمیں نکالا گیا ہے۔ تو ہوا یہ کہ ہمارا سب کچھ وہاں رہ گیا مگر ہماری زبان ہمارے ساتھ یہاں آگئ۔ ’’پاکستان اردو کے لئے پناہ گاہ بن گیا۔‘‘ اور مغربی پاکستان کی قومی زبان اردو بن گئی۔ یہاں بھی اردو خوش نصیب رہی۔ اردو کا مسکن تو سرحد کے دونوں طرف دلوں میں ہے۔ مغربی پاکستان اردو کا من ہے۔

    ’’آئندہ چل کر اردو کا ڈھانچہ کیا ہوگا؟‘‘ اس کا جواب تو مستقبل ہی دےگا۔ اردو کی تاریخ میں اس کی تدریجی ترقی دیکھئے اور دیکھئے کہ حضرت امیر خسرو کے وقت میں اردو کیا تھی؟ اور رفتہ رفتہ وہ اردو کیسے بنی، جس کے وارث ہم ہیں۔ اس کے بعد آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ مستقبل میں اردو کیسی ہوگی۔ اردو تو ہمیشہ اپنے ماحول سے متاثر ہو کر بدلتی چلی آ رہی ہے۔ مقامی زبانوں کے الفاظ اس میں ہمیشہ نفوذ کرتے رہے ہیں۔ دکھنی اردو کی بین مثال ہمارے سامنے ہے۔ پشتو، پنجابی، سندھی اور بلوچی کے الفاظ اور محاورے بھی ’’حسب ضرورت‘‘ اس میں جگہ پاتے جائیں گے۔ یہ چھوٹی زبانیں تو اردو کے لئے خون صالح مہیا کریں گی، خدانخواستہ ان زبانوں سے اردو کو کسی قسم کا بیر نہیں ہے۔ اردو تو دامن پھیلا کر ان سے امداد لےگی۔ چھوٹے دریا ہمیشہ بڑے دریا میں شامل ہو کر اسے زندہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح اُردوئے معلیٰ ہے، آج کل کی اردو کو ضرورت ہوگی تو اس سے بھی مدد لے گی۔

    اعلیٰ درجے کی اردو کو چھوڑ کر ہم ادنیٰ درجے کی اردو کو رواج نہیں دے سکتے۔ مگر اس کے ساتھ ہی آپ کا یہ کہنا کہ، ’’آج اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ’’میں نے جانا ہے، غلط ہے تو وہ کوئی دانش مندی کا ثبوت نہیں دےگا۔‘‘ دل کو نہیں لگا۔ ایک طرف تو آپ اردوئے معلیٰ کو رواج دینا ایک غیر دانشمندانہ فعل قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف آپ غلط اردو کو رواج دینے پر مصر ہیں، کیوں کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ’’آج اردو کو اہل پنجاب کے مزاج کا ساتھ دینا ہوگا۔‘‘ یہ ’’نے‘‘ کا اشقلہ کوئی تیس سال پہلے محمد دین تاثیر مرحوم نے چھوڑا تھا۔ مرحوم کے دماغ میں نت نئی شرارتیں جنم لیتی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ایک غزل میں یہ مصرعہ رکھ دیا تھا،

    تو نے الفت مجھ سے کرنی ہے تو کر میرے لئے۔

    اس وقت اس پر خاصی لے دے ہوئی تھی اور تاثیر کا مقصد بھی یہی تھا کہ کچھ ہنگامہ ہو۔ انہوں نے لکھا تھا کہ مجھے اس میں زیادہ ترنم معلوم ہوتا ہے۔ مگر یہ ترنم صرف تاثیر ہی کو سنائی دیا اور بس ایک ہی دفعہ سنائی دیا۔ اس کے بعد انہوں نے بھی اپنی نظم یا نثر میں اس ترنم کا استعمال نہیں کیا۔ اس وقت لاہور ہی میں ڈاکٹر اقبال، شیخ عبد القادر، ظفر علی خاں، سالکؔ، مہرؔ، امتیاز علی تاجؔ، پطرسؔ، حامد علی خاں، صلاح الدین احمد، میرا جیؔ، حفیظؔ، حسرت جیسے جلیل القدر بزرگانِ ادب موجود تھے۔ کسی نے تاثیر کی تائید نہیں کی۔ کسی نے اس مترنم ’’نے‘‘ کو اختیار کر کے اپنی تخلیقات کو وقیعتر نہیں بنایا اور اس تیس سال کے عرصے میں پنجاب کے ہزاروں اچھے شاعروں اور ادیبوں میں سے کسی نے اس ترنم زدہ بدعت کو اختیار نہیں کیا۔ ڈاکٹر تاثیر نہایت ذہین اور قابل آدمی تھے۔ مگر انہوں نے بھی پطرسؔ کی طرح ادب کا کوئی علمی کام نہیں کیا۔

    ایک دفعہ تاثیرؔ نے ایک مشہور ماہنامہ میں کسی شاعر کا تذکرہ لکھا اور اس کا نمونۂ کلام بھی پیش کیا۔ ہمارے محققین میں بڑی واہ واہ ہوئی۔ بعد میں تاثیر نے بتایا کہ سرے سے اس شاعر کا وجود ہی نہیں تھا۔ سب من گھڑت تھی۔ نمونۂ کلام بھی خود ہی گڑھ دیا تھا۔ مرحوم کو ایسی انوکھی شرارتیں سوجھا کرتی تھیں۔ اب تیس سال بعد آپ کو اس پر اصرار ہوا ہے کہ ’’میں نے جانا ہے‘‘ کو صحیح مانو ورنہ پنجاب کا مزاج برہم ہو جائےگا۔ جی، تو میں اسے غلط ہی کہوں گا۔ لاہور ہی میں اب بھی کئی مستند بزرگ خدا کے فضل سے موجود ہیں۔ چلئے مولانا مہر اور مولانا صلاح الدین احمد (اور حضرات بھی ہوں گے جو اس وقت یاد نہیں آ رہے) سے اس ’’نے‘‘ کے بارے میں ان کی رائے اور لے لیجئے۔

    بولنے کی زبان اور ہوتی ہے اور لکھنے کی اور۔ بولنے میں مقامی الفاظ اور محاورے اور لہجہ سب چلتا ہے۔ مگر لکھنے میں اہلِ زبان ہی کی تقلید کی جاتی ہے۔ دکن کے کسی ادیب یا شاعر کو ہو (ہاں) نکو (نہیں) پن (لیکن) پانی نہانا۔ میرے کو (مجھے) اور سینکڑوں مقامی الفاظ اور محاوروں کو اپنی تخلیقات میں داخل کرتے آپ نے کبھی دیکھا؟ اگر من مانی کرنے کی ادب و شعر میں کھلی چھٹی مل جاتی تو اردو مینار ِبابل بن جاتی۔

    آپ شوق سے ’’میں نے جانا ہے‘‘ اور ’’تونے آنا ہے‘‘ اپنے مضامین میں لکھنا شروع کیجئے۔ آج کی اور مستقبل کی اردو نے اگر قبول کر لیا تو چشمِ ما روشن، دل ماشاد۔ زندہ زبانوں میں الفاظ آتے رہتے ہیں اور جاتے رہتے ہیں۔ اگر کسی لفظ کی ضرورت زبان کو ہوتی ہے تو وہ اسے قبول کر لیتی ہے، ورنہ کھوٹے سکے کی طرح نکال کر باہر کرتی ہے۔

    زبانیں بڑی سست رفتاری کے ساتھ چولے بدلتی ہیں۔ میرامنؔ کی ’’چہار درویش‘‘ آج بھی ہماری رہ نمائی کر رہی ہے۔ اللہ بخشے بابائے اردو مولوی عبدالحق فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح ایمان تازہ کرنے کے لئے قرآن شریف پڑھا جاتا ہے، میں اپنی زبان تازہ کرنے کے لئے ’’چہار درویش‘‘ پڑھا کرتا ہوں۔

    جب تک ایسی کلاسیکس زندہ ہیں ہم ان سے روگردانی نہیں کر سکتے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری زبان نئے الفاظ حسب ضرورت اپنے اندر شامل نہ کرتی رہے۔ جب آپ فرمائیں گے۔ ’’بادشاہو! ناراض ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘ تو آپ کا مخاطب بھلا مانس کہےگا، ’’چنگا جی۔‘‘ اس پر اہلِ سرحد، اہل سندھ اور اہل بلوچستان کی آئندہ بننے والی اردو کا قیاس کر لیجئے۔ آپ تو دلی اور لکھنؤ کے تھوڑے سے اختلافات ہی پر معترض ہیں۔ مغربی پاکستان کے ان چار ’’اہلوں‘‘ کی مختلف مستقبل کی اردوؤں کے متعلق کیا ارشاد ہے؟

    دیکھئے! مستقبل کی اردو آپ کے یا میرے کہنے سے نہیں بنے گی۔ زبان کی نمو فطری ہوتی ہے کیوں کہ زندگی سے اس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آپ کا خیال ہے کہ ’’اس خودرو پودے کی نشوونما میں غیر فطری باڑیں نہ لگائی جائیں۔‘‘ مگر زبانوں کو اگر مادر پدر آزادی دے دی جائے، اس کی رکھوالی کرنے والا کوئی نہ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو، کلاسیکس اور اردوئے معلیٰ سے تعلق منقطع کیا جائے تو اس زبان کا حشر کیا ہوگا؟ جھاڑ جھنکاڑ کا ایک جنگل نہ بن جائےگا؟ آزادی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ہر زمانے میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو زبان کی تراش خراش کر کے اسے خوب صورت بناتے رہتے ہیں۔ یہ تراش خراش ایک غیرفطری حرکت ہوتی ہے مگر آرٹ کا کام ہی یہ ہے کہ آزاد فطرت میں جو کچھ حسین ہے، اسے تراش خراش کر غیرفطری طور پر مفید اور حسین تر بنائے۔

    باڑیں خوش نمائی کے لئے ہی لگائی جاتی ہیں اور انہیں مالی تراش خراش کر خوش نما بناتے ہیں۔ یہ مالی یا رکھوالے ہمارے وہ ادیب و شاعر ہیں جنہیں بصارت کے ساتھ بصیرت بھی ملی ہے، جن کی نظر زبان کی ان باریکیوں تک پہنچ جاتی ہے جن تک سب کی نظریں نہیں پہنچ سکتیں۔ جیسے نظام عالم کو قائم رکھنے کے لئے غوث، ابدال، قطب، مجذوب وغیرہ صاحب خدمت ہوتے ہیں، زبان کے بھی صاحب خدمت ہوتے ہیں۔ یہ اپنی خاموش خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ ہمیں اتنا زیادہ زبان کے باب میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ فطری عمل بھی جاری رہےگا اور اس کی آراستگی بھی ہوتی رہےگی۔

    زمانے کے ساتھ ساتھ زبانیں بدل جاتی ہیں۔ یہ بھی ایک فطری عمل ہے۔ دکھنی اردو آج ہمیں غیرمانوس نظر آتی ہے تو یہ بھی ایک فطری بات ہے۔ شیکسپیئر کی انگریزی بھی اب بولی اور لکھی نہیں جاتی۔ نصف صدی یا ایک صدی تو نہیں البتہ تین چار صدی بعد اگر ہم کسی طرح اس دنیا میں آ سکے تو اردو کی شکل بھی شاید ہم سے پہچانی نہ جا سکےگی۔ شاید اس وقت اس کا نام بھی کچھ اور ہو، کیوں کہ اردو اپنی صورت کے ساتھ نام پلٹتی چلی آ رہی ہے۔ پاکستان بن جانے کے بعد اردو کے نادان دوستوں نے اس کا نام پلٹ کر ’’پاکستانی‘‘ رکھنے کی تحریک پیش کی تھی۔ ممکن ہے کہ چند صدیوں بعد اس کا نام بھی بدل جائے تو پھر اس میں ایسا کون سا اندیشہ ہے جس کے لئے ہم دبلے ہونے لگیں؟ ہمارا کام یہ ہے کہ ہمیں جو امانت ملی ہے، اسے بنا سنوار کر آنے والی نسل کو سونپ جائیں۔ آگے وہ جانیں اور ان کا کام۔

    اردو صرف لال قلعہ کی زبان نہیں ہے۔ اردو لال قلعہ سے دو سو سال پہلے بھی موجود تھی۔ یوں کہیے کہ لال قلعہ میں پہنچ کر اردو، اردوئے معلیٰ بنی۔ ورنہ اردو خاص و عام سب کی زبان تھی۔ ہر طبقے کی زبان تھی اور طبقے ہی کے اعتبار سے اس کی طبقاتی شکلیں مروج تھیں۔ لال قلعہ کی زبان گلی کوچوں کی زبان بن ہی نہیں سکتی تھی، جیسے ونڈسر پیلس کی انگریزی نچلے طبقوں کی زبان نہیں بن سکتی۔ پڑھے لکھے شرفاء اور ثقہ حضرات کی زبان گلی کوچوں اور بازار کی زبان سے مختلف ہوتی ہے۔ آپ کا خیال یہ ہے کہ ’’اردو لال قلعہ کی زبان ہے، اسے آج مغربی پاکستان کے گلی کوچوں کی زبان بنا ہوگا، ورنہ۔ ورنہ اس ڈولی کا بوجھ ہمارے کندھے سہار نہ سکیں گے۔‘‘

    یہ اچھی ضد ہے کہ یا تو آگ میں موتو ورنہ مسلمان ہو۔ جی صاحب! یہ فطری عمل کے خلاف ہے۔ ایسا تو دلی میں بھی نہیں ہوا۔ جہاں لال قلعہ موجود ہے کہ دلی کے گلی کوچوں میں لال قلعہ کی زبان بولی گئی ہو۔ مغربی پاکستان کے گلی کوچوں میں جو زبانیں بولی جا رہی ہیں، انہیں اگر آپ سنیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ یہ آموختہ زبانیں ہیں۔ گجراتی اردو، مکرانی اردو، بلوچی اردو، سندھی اردو، سرائیکی اردو، پنجابی اردو، پوٹوہاری اردو، پشتو اردو اور سب سے زیادہ انگریزی اردو۔

    مغربی پاکستان میں تو ابھی زبانوں کی باؤلی ہنڈیا پک رہی ہے۔ جب یہ پک چکےگی تو ہماری مستقبل کی اردو اس میں سے برآمد ہوگی اور اس کے بولنے اور لکھنے والے ہماری تحریروں کو اسی نظر سے دیکھیں گے جس نظر سے آج ہم ’’سب رس‘‘ کی اردو کو دیکھ رہے ہیں۔ ہم اور آپ اس وقت اس ڈولی کا بوجھ سہارنے کے لئے موجود نہیں ہوں گے۔ اس وقت کوئی اور کہار ہوں گے۔

    آپ نے اچھا کیا کہ اس مسئلہ کو چھیڑ دیا۔ آپ کی بعض باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور صحیح فیصلہ کے لئے اختلاف ضروری ہوتا ہے۔ حکومت کے اداروں میں بھی حزب مخالف ہوتا ہے لہٰذا آپ اختلاف سے دلگیر نہ ہوں۔ آپ نے ایک بات خلوص و محبت سے کہی ہے۔ سوتیلی ماں کی زبان سے نہیں سگی ماں کی زبان سے۔ مگر سگی ماں بھی تو بے راہ روی سے بالاتر نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ جذبات کی رو میں بہہ جاتی ہے۔ ہر شخص کو اپنی زبان پیاری ہوتی ہے۔ ادیبوں اور شاعروں کو اور بھی زیادہ۔ کیوں کہ زبان کا بنانا سنوارنا اور اسے ترقی دینا انہیں کا کام ہوتا ہے۔ اسے سیکھنے اور سلیقے سے برتنے کے لئے انہیں سیکڑوں معیاری کتابوں کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ پھر انہیں مشق و مزاولت کے ہفت خواں طے کرنے پڑتے ہیں۔ اس پر بھی برسوں کے بعد ان کی نثر یا نظم میں چٹخارہ پیدا ہوتا ہے۔

    امیرؔ اک مصرعۂ ترتب کہیں صورت دکھاتا ہے

    بدن میں خشک جب ہوتا ہے شاعر کے لہو برسوں

    زبان کا معاملہ آزادی کا نہیں پابندی کا ہے۔ ادیبوں کا ایک ایک لفظ زبان و بیان کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے کیوں کہ ادیب سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نفیس اور قابل تقلید نثر لکھے لگا۔ ہر ادیب کی امکانی کوشش یہی ہونی چاہیے۔ تو اس کا دعویٰ کوئی نہیں کر سکتا کہ وہ بے عیب نثر لکھتا ہے، یا اس سے کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ ہمارے سامنے رہ نمائی اور تقلید کے لئے اسلاف کے اعلیٰ نمونے ہیں۔ دلی اور لکھنؤ کے نمونے بڑی حد تک مثالی سمجھے جاتے ہیں۔ کنگز انگلش کے بعد آکسفورڈ اور کیمبرج کی انگریزی مثالی تصور کی جاتی ہے۔ اب دلی اور لکھنؤ مرکز نہیں رہے تو لاہور اور کراچی مرکز بن گئے ہیں اور لاہور تو ایک صدی سے اردو کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کراچی قیام پاکستان کے بعد بن رہا ہے، کیونکہ دلی اور لکھنؤ کی بیشتر آبادی کراچی میں منتقل ہو گئی ہے اور اب اس ۲۲ لاکھ آبادی کے شہر میں اردو کے مقتدر ادارے بھی قائم ہو چکے ہیں اور لاہور کی طرح کراچی میں بھی اردو کا کچھ کام نہیں ہو رہا ہے۔

    مشرقی پاکستان کی داستان اندوہناک ہے۔ وہ بھی کسی وقت لکھی جائےگی۔ پنجاب کے احسانات سے جو انکار کرے وہ کافر، زندہ باد زندہ دلان پنجاب۔ جب تک اردو کے مخلص خادم موجود رہیں گے، ’’اردو کی مانگ کا سیندور نہیں لٹ سکتا۔‘‘

    مأخذ:

    دلی جو ایک شہر تھا (Pg. 240)

    • مصنف: شاہد احمد دہلوی
      • ناشر: فیاض رفعت
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے