Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ولی کی غزل

وزیر آغا

ولی کی غزل

وزیر آغا

MORE BYوزیر آغا

    ولیؔ کی غزل کا امتیازی وصف بت پرستی اور سراپا نگاری کا وہ رجحان ہے جسے بعض نقادوں نے ولیؔ کے رجحان جمال پرستی کا نام دیا ہے لیکن ‏کوئی بھی رجحان محض شخصیت کے بے محابا اظہار کی صورت نہیں ہوتا بلکہ اس کی تشکیل اور ترتیب میں روایت اور ماحول کے جملہ عناصر ‏بھی شریک ہوتے ہیں۔ یوں خودشخصیت بھی محض طبعی رجحانات کے اجتماع کا نام نہیں بلکہ اس ’سمجھوتے‘ کی ایک صورت ہے جو ‏لاشعوری تحریکات اور خارجی زندگی کی آویزش سے وجود میں آتا ہے۔ گویا داخلی زندگی کا کھردراپن جب تہذیب کے عمل سے گزرتا ہے تو ‏شخصیت کے نقوش ابھر آتے ہیں۔

    اگر یہ بات ہے توپھر خارجی مظاہر کی اہمیت کو نظرانداز کرنا اور بھی مشکل ہے۔ ولیؔ کی غزل کے سلسلے میں محض یہ کہہ دینا شاید کافی نہ ہو ‏کہ اس کے ہاں رجحان جمال پرستی موجود تھا، جس نے اس کے غزل کے مزاج کو ایک خاص صورت دی اور یہ اس لےد کہ ولیؔ نے جس ‏ماحول میں آنکھیں کھولیں اور تربیت حاصل کی، نیز جوتہذیبی ورثہ اسے ملا، یہ سب مزاجاً جمال پرستی کے رجحان کی ایک واضح صورت تھی۔ ‏ادب میں اس کا مظہر وہ ہندی گیت ہے جس کے اثرات دکنی شاعری پر بہت عام ہیں اور جس کی اساس پر ہی ولیؔ نے اپنی غزل کی عمارت ‏کھڑی کی مگراس اجمال کی تفصیل بھی ضروری ہے۔

    ہندوستانی کلچر پر زرعی معیشت اور تہذیب الارواح کے جواثرات مرتسم ہوئے ان کی ایک جھلک اس ہندی شاعری میں ملے گی جس کے اہم ‏ترین مظاہر دو ہے اور گیت ہیں۔ بالخصوص گیت توازمنہ قدیم ہی سے ہندوستان میں ایک نہایت مقبول صنف کی حیثیت میں موجود رہا ‏ہے، اس قدر کہ جب ہندوستان پر مسلمان حملہ آور ہوئے اور فارسی اور ہندی کی آمیزش سے ’ریختہ‘ وجود میں آیا تواس کی شاعری میں ‏ہندی کا حصہ خالصتاً گیت کے مزاج کا حامل تھا۔ خسروؔ کی غزلیں اس کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ بعد ازاں جب دکن میں ‏اردوشاعری کا آغاز ہوا تو دکنی شعرا بالخصوص محمدقلی قطبؔ شاہ، عبداللہ قطب شاہ، وجہیؔ، غواصیؔ، علی عادلؔ شاہ اور سید میراں ؔ ہاشمی وغیرہ ‏کے ہاں گیت کے لہجے ہی نے بنیادی کام سرانجام دیا۔ چنانچہ ان شعراء کے کلام میں نہ صرف گیت کے الفاظ کی فراوانی ہے بلکہ ہندی گیت ‏کی روایات کے تحت کئی موقعوں پر تخاطب بھی عورت سے مرد کی طرف ہے۔ اس کے علاوہ اس شاعری کا معتدبہ حصہ عشق کی مجرد ‏کیفیات کے بیان کے بجائے حسن کی عکاسی کے لیے مختص ہے اور شعرا نے محبوب کے خدوخال کو ظاہر کرنے اور اس کے سراپا سے لطف ‏اندوز ہونے تک ہی خودکوزیادہ تر محدود رکھا ہے۔

    سراپا نگاری اور بت پرستی کا یہ رجحان ہندوستان کی مٹی کی تاثیر بھی ہے۔ ہندوستانی کلچر نے جنگل کے اثرات کو ایک ورثے کے طورپر حاصل ‏کیا ہے اورجنگل کی فضا بت پرستی ہی کی محرک ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جنگل میں درختوں اور پتوں کی فراوانی، بصارت، سوچ او ر تخیل ‏کے عمل کو تو محدود کردیتی ہے البتہ دوسری حیایت بالخصوص لامسہ، شامہ اور سامعہ زیادہ متحرک ہوجاتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جنگل ‏نہ صرف جذبے کے والہانہ اظہار کی ایک صورت ہے بلکہ اس میں جذبے کی منزل بھی ایک ایسا بت ہے جو تخیل کے بجائے حقیقت کی ‏دنیا میں موجود ہے اورجسے گویا چھوکر محسوس بھی کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ اس فضا میں بصارت کا عمل محدود ہے، اس لیے نظریں محبوب کے ‏بت سے آگے نہیں جاتیں اور بت کو مزید تگ وتاز کے لیے ایک وسیلے کے طورپراستعمال کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

    بت تراشی کا رجحان اسی لیے ہندوستانی کلچر کے خمیر میں داخل ہے۔ چنانچہ مذہبی جذبات کے اظہار میں بھی اس رجحان ہی کو سب سے ‏زیادہ اہمیت ملی ہے بلکہ اگریہ کہیں کہ بت پرستی کا عمل جس میں پرستش عورت اور مرد کی جنسی محبت کا روپ دھار لیتی ہے، یہاں نسبتاً ‏زیادہ مقبول رہا ہے تویہ بات کچھ ایسی غلط نہ ہوگی۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ جب ہندوستان میں بھگتی تحریک کا آغازہوا تو اس تحریک کے تحت ‏لکھے گئے گیتوں میں محبت اور پرستش کا جذبہ واضح طورپر عورت اور مرد کے باہمی تعلق کا غماز تھا۔ ودیاپتیؔ، میرابائیؔ، تکارامؔ، چنڈیؔ داس ‏وغیرہ کے اشعار اس سلسلے مںل بآسانی پیش کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستانی رقص (جوگیت کے ساتھ ہمیشہ سے متعلق ہے ) بجائے ‏خودپرستش کی اسی صورت کو پیش کرتا ہے۔ اس پرستش میں کرشنؔ ایک بت کی طرح اپنی جگہ جامد کھڑا ہے اور رادھاؔ اس کے گرد ناچتی ‏چلی گئی ہے۔ یہی چیز گیت کا بنیادی وصف بھی ہے کہ اس میں محبوب ایک بت کی طرح بے حس و حرکت ہے اور عورت (جوعاشق ہے ) ‏اس پر فدا ہورہی ہے۔ چنانچہ گیت میں اہم ترین بات عشق کی عکاسی نہیں بلکہ محبوب کے سراپا کا بیان ہے۔

    دکنی شاعری کو جب فروغ حاصل ہوا تو اس نے غزل اور مثنوی کی اصناف کوتوباہر سے منگایا اور ان اصناف کے ساتھ تلمیحات اور ‏استعارات کے ’فاضل پرزے‘ بھی درآمد کیے تاہم اس نے بنیادی رجحانات کے اظہار کے لیے وطن کے زمین ہی سے اپنا تعلق قائم کیا۔ یہ ‏مجبوری بھی تھی کیونکہ اور تو ہرشے درآمد ہوسکتی ہے مگردھرتی کوباہر سے لانا ناممکن ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں کہ دکن کی شاعری میں ‏گیت کے واضح اثرات ظاہر ہوئے اور ان کے نتیجے میں بت پرستی اورسراپا نگاری کی وہ روایت وجود میں آئی جس سے ولیؔ نے اکتساب کیا اور ‏اپنی غزلوں کوعشق کی تگ وتاز کے بجائے حسن کی عکاسی کے لیے مختص کردیا۔

    ولیؔ کی غزل میں بت پرستی کا یہ انداز اس اعتبار سے بھی گیت کی فضا سے متعلق ہے کہ اس میں بہت سی ایسی علامات اور تلمیحات ابھرآئی ‏ہیں جو براہ راست ہندوستان کی دھرتی سے متعلق ہیں۔ فارسی غزل میں گلستان اور اس کی علامتوں مثلاً گل لالہ، بلبل، سرو، نرگس، سنبل ‏وریحان، مرغ وغیرہ، صحرا کی علامتوں مثلاً آہو، ناقہ، آفتاب وغیرہ اور میدان جنگ کی علامتوں مثلاً تیغ، تیر، کمان، اسپ وغیرہ اوران سب ‏سے وابستہ مختلف تلمیحات کی فراوانی تھی اور ولیؔ نے ان میں سے بیشتر کو اپنی غزل میں منتقل بھی کیا لیکن اس ضمن میں ولیؔ نے ‏اخذواکتساب کے رجحان کواختیار کیا نہ کہ انجذاب وانضمام کی روش کوجوہندی روایات کے سلسلے میں اس کے ہاں ابھرکر نمودار ہوئی۔

    پھر ایک یہ بات بھی قابل غور ہے کہ شعوری کوشش کے باوجود ولیؔ خود کو اس فضا کی عکاسی تک محدود نہ رکھ سکا جو فارسی غزل کی فضا ‏تھی اور اس لیے جب اس نے غزل کہی تو بہت سے ارضی عناصر اس مںس صاف ابھرتے چلے آئے۔ ایران کی فضا میں تحرک اور انجماد کی ‏ثنویت وجود میں آئی تھی اور اس نے غزل کی اس صنف کو جنم دیا تھا جو بجائے خودجزواورکل کی ثنویت پراستوار ہے لیکن ہندوستان کی فضا ‏زرعی معیشت اور اس سے بھی زیادہ جنگل کی فضا سے وابستہ ہونے کے باعث ایران کی فضا سے کم متحرک تھی اور یہاں اشیا کے ساتھ چمٹنے ‏اور کسی ایک نقطے پر رک جانے کا وہ رجحان قوی تھا جو گیت میں بت پرستی کے روپ میں برآمدہوا۔ ولیؔ کے ہاں ایرانی غزل سے وابستگی کے ‏باوصف پوجا کا یہ ارضی رجحان بہت قوی تھا اوراسی رجحان نے اس کی غزل میں سراپانگاری کا روپ دھارا۔

    چنانچہ ولیؔ کے ہاں فارسی غزل کی علامات اور تلمیحات کے علاوہ بنسی، نیشکر، پان، بان، براگی، بھیاس، بھنگ، بھوجن، بید (وید) ترنگ، ‏تپتی، چیتل، جل پور، چیتا، دیول، رہس، سیس، کاشی، لیلاوتی، گجکری، گوپی ادران ایسے درجنوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو ارض دکن کے ‏مظاہر اور اشیا سے ولیؔ کی گہری وابستگی کوظاہر کرتے ہیں۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ فضا ایران کے چمن یا سطح مرتفع کی فضا نہیں بلکہ ‏جنگلوں، ندیوں اور کھیتوں کی وہ فضا ہے جس میں چیتل اور چیتے آزاد پھرتے ہیں۔ جل پور پر لڑکیاں نہاتی ہیں، نیشکر اورپان کی فراوانی ہے ‏اور براگی بھوجن کی تلاش میں گھرگھر کا چکر لگاتے ہیں۔ یہ ساری فضا ہندوستانی معاشرے کی فضا ہے اور ہندی گیت نے اسی پس منظر پر ‏فراق کی ماری ہوئی عورت کی پتی پوجا کو واضح کیا ہے۔

    ولیؔ کی غزل میں فارسی غزل کی تقلید کے رجحان کے باوصف ہندی گیت کی یہ فضا ابھر آئی ہے۔ مثلاً یہی دیکھئے کہ ولیؔ کے ہاں ’بت پرستی‘ کی ‏روش کے تحت محبوب کو درجنوں ناموں سے مخاطب کیا گیا ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ محبوب کا سراپا ہی اس کی غزل کا سب سے اہم ‏موضوع ہے۔ چنانچہ محبوب کے لیے سریجن، پیا، دلبر، جانی، شیریں، بچن، موہن، سجن، پی وغیرہ الفاظ موجود ہیں جو ہندی گیت کے اثرات ‏کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بید، ارجن، شیام، راون، لیلاوتی، گوپی وغیرہ الفاظ کا استعمال بھی ہندوستان کی قدیم فضا سے ولیؔ ‏کے تعلق خاطر ہی کواجاگر کرتا ہے۔ چندمثالیں،

    سرود عشق مجھ دل میں لبالب ہے عجب مت کر

    اگر مجھ آہ کی نے سوں صدائے بانسلی آوے

    لگے برسات انچھواں کی ہر اک کے دیدہ تر سوں

    جہاں مانند بجلی کے مراچنچل چپل جاوے

    جب سوں تو کھایا ہے پان اے آفتاب

    تیرے لعل لب بدخشانی ہوئے

    اے زہرہ جبیں کشنؔ ترے مکھ کی کلی دیکھ

    گاتا ہے ہر اک صبح کوں اٹھ رام کلی کوں

    اے موئے میاں وصف ترے موئے کمر کا

    چیتے کی کمر پر قلمِ موسوں لکھا ہے

    بیراگیوں کے پنتھ میں آکر وہ مہ جبیں

    بیراگ کوں اٹھا کے چڑھایا اکاس میں

    چھپا ہوں میں صدائے بانسلی میں

    کہ تاجاؤں پری رو کی گلی میں

    گرچہ لچھن ترا ہے رام ولے

    اے سجن توکسی کا رام نہیں

    ہوئے ہیں رام پیتم کے نئین آہستہ آہستہ

    کہ جیوں پھاندے میں آتے ہیں ہرن آہستہ آہستہ

    ترے جو قد سے رکھا نیشکر نے دل میں گرہ

    تو کھینچ پوست کیا اس کا بند بند جدا

    گیت میں فریق مخاطب واضح طورپر مرد ہے۔ ولیؔ نے فارسی غزل کی روایت کے زیراثر تذکیر وتانیث سے اوپر اٹھنے کی کوشش کی ہے اور ‏بالعموم تخاطب کے انداز سے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ اس کا مخاطب کون ہے؟ البتہ ولیؔ کے ہاں خطاب کرنے والے کی جنس کے بارے ‏میں کوئی الجھن موجود نہیں، یعنی صاف محسوس ہوتا ہے کہ بات کرنے والا مرد ہے، عورت نہیں جیسا کہ ہندی گیت مںب عام ہے۔ تاہم ‏ولیؔ کے ہاں زیادہ سے زیادہ خطاب کرنے کا منصب ہی مردکو ودیعت ہوا ہے ورنہ جہاں تک تحرک اور تموج اور روشنی کی صفات کا تعلق ‏ہے، وہ اب بھی زیادہ تر اس محبوب ہی کو حاصل ہیں جو گیت میں عاشق کے لبادے میں ابھرا تھا۔ اسی لیے ولیؔ کی غزل کا عاشق زیادہ ‏متحرک نہیں۔ بنسری کے ساتھ اس عاشق کی وابستگی اس حد تک وہ بانسری کی آواز میں ڈھل کر محبوب کے گھر تک جاتا ہے، صاف طورپر ‏اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ ولیؔ نے عشق کرنے کا منصب روایتی کرشنؔ کو ودیعت کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ ہندی گیت کی روایت کے ‏مطابق یہ منصب رادھاؔ اور گوپیوں کوحاصل تھا۔ نتیجتاً دلیؔ کے عاشق پر ایک خاصی حد تک انفعالیت غالب ہے۔ وہ اپنی جگہ سے ذرا کم ہی ‏حرکت کرتا ہے۔ یہ کام اس کے محبوب کا ہے کہ وہ اس کے گھرمیں یوں آئے جیسے راز سینے میں درآتا ہے۔

    مجموعی اعتبار سے ولیؔ کی غزل میں ہندی گیت کا یہ ٹھہراؤ موجود ہے۔ دراصل کی ولیؔ کے ہاں بت پرستی کا رجحان سب سے نمایاں ہے۔ لیکن ‏لطف کی بات یہ ہے کہ ولیؔ نے بت کواس آئینے کی صورت نہیں دی جو ایک طرف تو عاشق کو عشق کی واردات کا منظر دکھاتا اور دوسری ‏طرف ایک وسیلہ بن کر عشق کی کیفیات کو زندگی کے اسرارورموز تک پھیلانے میں ممدثابت ہوتا ہے۔ فی الاصل ولیؔ کے ہاں ساری بات ‏جسمانی حسن کے بیان کی حد تک ہے۔ اس میں تخیل یا سوچ کا وہ عنصر ناپید ہے جو غزل کے لیے ضروری ہے۔

    یہاں تک تو ولیؔ کی غزل، غزل کے اصل مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی یعنی ایک تو اس میں ذہن کا تحرک وجود میں نہیں آیا اور دوسرے ‏ولیؔ نے گیت کی روایت کے تحت زیادہ تر محبوب کے جسمانی حسن ہی کے گن گائے ہیں لیکن اسے اپنے عشق کی جولانیوں کے لیے ایک ‏وسیلے کے طور پر استعمال نہیں کیا مگران دو باتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں ولیؔ کے ہاں دوایسے رجحانات بھی ملتے ہیں جن کے تحت اس نے گیت ‏کی فضا سے باہر نکل کر غزل کے مزاج سے قریب تر ہونے کی کوشش کی ہے۔ یہ دو رجحانات ہیں تشبیہ اور استعارے کا استعمال اورباصرہ کا ‏تحرک! ان میں سے پہلے تشبیہ اوراستعارے کولیجئے۔ محمدحسین آزادؔ نے آب حیات میں ایک جگہ لکھا ہے،

    ’’بھاشا زبان جس شے کا بیان کرتی ہے اس کی کیفیت ہمیں ان خط وخال سے سمجھاتی ہے جوخاص اس شے کودیکھنے، سونگھنے، چکھنے، یا ‏چھونے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس بیان میں اگرچہ مبالغہ کے زور یا جوش وخروش کی دھوم دھام نہیں ہوتی مگر سننے والے کواصل شے کے ‏دیکھنے سے جومزہ آتا ہے وہ سننے میں آجاتا ہے۔ برخلاف شعرائے فارس کے یہ سب چیز کا ذکر کرتے ہیں۔ صاف اس کی برائی بھلائی نہیں ‏دکھادیتے بلکہ اس کے مشابہ ایک اور شے جسے ہم نے اپنی جگہ اچھا یا برا سمجھا ہوا ہے، اس کے لوازمات کو شے اول پر لگا کر ان کا بیان کرتے ‏ہیں۔ مثلاً پھول کی نزاکت، رنگ اور خوشبو میں معشوق سے مشابہ ہے۔ جب گرمی کی شدت میں معشوق کے حسن کا انداز دکھاتا ہے توکہیں ‏گے کہ مارے گرمی کے پھول کے رخساروں سے شبنم کا پسینہ ٹپکنے لگا۔‘‘

    آزادؔ کے اس بیان سے کئی باتیں فی الفورنظروں کے سامنے ابھر آتی ہیں۔ اول یہ کہ بھاشا جس کا سب سے اہم مظہرگیت ہے، حسیات کی ‏برانگیخگی کی شاعری ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس پر آزادؔ نے روشنی نہیں ڈالی۔ تاہم اگر جنگل کے معاشرے سے ہندوستانی کلچر کی وابستگی کوملحوظ ‏رکھیں توبات واضح ہوجاتی ہے۔ دوم یہ کہ اس میں مبالغے کا زوریا جوش وخروش کی دھوم دھام نہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس میں ‏تحرک نسبتاً بہت کم ہے۔ اس بات کے پس منظر میں اگرجھانکیں توصاف محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ جس نے گیت کو جنم دیا، ‏مادری نظام کا علم بردار تھا اوراس میں بندھنوں کو توڑ کر متحرک ہونے کے بجائے چمٹنے، سننے اور سونگھنے کے رجحانات زیادہ قوی تھے۔

    اس کے برعکس ایران میں اولاً آریائی یلغار اور ثانیاً عربوں کے نفوذ نے آوارہ خرامی کے اس رجحان کو بھی ابھار دیا تھا جس کے نتیجے میں غزل ‏نے مبالغہ اور جوش وخروش کا اظہار کیا جبکہ ہندی گیت میں ٹھہراؤ، دھیمی لے اور بت پرستی کا تسلط قائم رہا۔ ثالثاً یہ کہ بھاشا میں شے یا بت ‏کی جسمانی قربت کا احساس غالب ہے اور اسی لیے منزل تک پہنچنے کے لیے سیدھا مختصر راستہ طے ہوتا ہے جبکہ غزل میں آوارہ خرامی کے ‏جذبے کے تحت ایک طویل راستے سے منزل پر پہنچنے کا رجحان ابھرا ہے۔ غزل میں تشبیہ یا استعارے کا استعمال اسی طویل راستے کی نشاندہی ‏کرتا ہے یعنی یہ کہنے کے بجائے کہ محبوب کا گال سرخ، نرم یا ملائم ہے، غزل کا شاعر اسے گلاب کے پھول سے مماثل قراردیتا ہے اور قاری کو ‏اس بات پر مائل کرتا ہے کہ وہ سرخی، نرمی، یا ملائمت کی صفات کو اپنے تخیل کی جست کی مدد سے اخذ کرنے کی کوشش کرے۔ گویا تشبیہ ‏یا استعارہ ذہنی تحرک کی طرف پہلا قدم ہے اور چونکہ غزل بجائے خود ایک نیم متحرک معاشرے کی پیداوار ہے، لہٰذا اس نے تشبیہ اور ‏استعارے کے حربوں کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا ہے۔

    اردو غزل کے سلسلے میں ولیؔ کی ایک اہم عطا یہ ہے کہ اس نے محبوب تک پہنچنے کے لیے گیت کے مروجہ سیدھے اور مختصر راستے کے بجائے ‏تشبیہ اور استعارے کے خم دار اورطویل راستے کواختیار کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بحیثیت مجموعی ولیؔ کی غزل ’بت پرستی‘ کی ایک ‏صورت ہے اوراس میں فکر کے عناصر کا عام طور سے فقدان ہے، تاہم اس نے تشبیہ یا استعارے کے وسیع استعمال سے اردوغزل کے سلسلے ‏میں ایک اہم خدمت ضرور سرانجام دی ہے اور اردوغزل کواپنا مزاج دریافت کرنے پر مائل کیا ہے۔ چنانچہ یہ کہنا ممکن ہے کہ اس ضمن ‏میں ولیؔ نے اردوغزل کوگیت کے چنگل سے آزاد کرنے کی کوشش کی ہے۔

    دوسرا رجحان جوولیؔ کی غزل کی کو غزل کے اصل مزاج سے قریب تر کرتا ہے، اس کے ہاں بصارت کا عمل ہے۔ جنگل میں لامسہ، سامعہ اور ‏شامہ وغیرہ نسبتاً زیادہ قوی ہوتی ہیں جب کہ کھلے میدان میں باصرہ زیادہ متحرک ہوجاتی ہے اور فاصلے ابھر آتے ہیں۔ لامسہ، سامعہ اور شامہ ‏بت پرستی کے رجحان کو ابھارتی ہیں۔ ان کی یلغار کا میدان محدود ہے اوراس لیے جنگلی بیل کی طرح یہ قریب تریں شے سے لپٹنے اور چمٹنے کی ‏کوشش کرتی ہیں کہ یہی عمل ان کی بقا کا ضامن بھی ہے۔ دوسری طرف باصرہ کی تگ وتاز کا میدان وسیع ہے اوریہ معمولی رکاوٹوں کوخاطر ‏میں نہیں لاتی بلکہ جوشے اس کے راستے میں آتی ہے، یہ اسے فی الفور عبور کرکے اس سے آگے نکل جاتی ہے۔ آوارہ خرام قبائل کے ہاں (جو ‏کھلے میدانوں میں سفر کرتے ہیں ) باصرہ زیادہ متحرک ہوجاتی ہے اور ان کے ہاں چمٹنے اور بت کی پوجا کرنے کے رجحان کے بجائے آگے ‏بڑھنے اور بتوں کو توڑنے کا میلان ابھر آتا ہے۔ شے سے گہری قربت بلکہ پیوستگی اورساتھ ہی ساتھ اس کے پس منظر میں جھانکنے کا رجحان، ‏غزل کی ایک امتیازی خصوصیت ہے اوراس ضمن میں باصرہ نے اس کی بہت مدد کی ہے۔ ہندوستان کی فضا میں باصرہ زیادہ متحرک نہیں ‏رہی اور اس لیے بھاشا کے گیت میں بھی دوسری حسیات کی برانگیختگی ہی زیادہ نمایاں ہے۔

    ولیؔ کی اہمیت اس بات میں ہے کہ بت پرستی کے باوصف اس کے ہاں بصارت کا عمل ابھرا اور اس نے اشیاء کو سونگھنے، چھونے اور سننے ‏سے کہیں زیادہ دیکھنے کی کوشش کی۔ چنانچہ ولیؔ کا محبوب نور کے ایک پیکر کی حیثیت رکھتا ہے اور ولیؔ نے اسے شمع، سورج، گلاب، آئینہ، ‏شعلہ، چاند، روشنی اور رنگ کے لاتعداد دوسرے مظاہر سے تشبیہ دی ہے۔ پھر محبوب کے حسن کے بیان میں بھی ولیؔ نے اپنی قلم کا زیادہ ‏زورمحبوب کی آنکھوں کی صفات کو پیش کرنے پر صرف کیا ہے، جو باصرہ سے اس کی وابستگی ہی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے ہاں ‏محبوب سورج کی طرح تاریکیوں سے طلوع ہوتا ہے اور ولیؔ کی ساری مسرت کاراز تاریکی کے ہٹنے اور روشنی کے مسلط ہوجانے میں مضمر ‏ہے۔

    صاف محسوس ہوتا ہے کہ جنگل کاباسی جنگل کی فضا سے تازہ تازہ برآمد ہوا ہے اور اس نے اب ہر شے کوآنکھوں کی مدد سے ’’محسوس‘‘ ‏کرنے کا آغاز کردیا ہے۔ چونکہ اس باسی نے ایک طویل عرصہ تاریکیوں میں بسر کیا تھا، اس لیے اب اس کے لیے تاریکی غم کی ایک صورت ‏ہے اور روشنی مسرت و بہجت کا سرچشمہ۔ بے شک فارسی غزل سے وابستگی کے باعث اور تقلید کے عمل میں مبتلا ہوکر بھی ولیؔ کے ہاں ‏دیکھنے کی یہ حس زیادہ نمایاں ہوسکتی تھی لیکن ولیؔ کے کلام کا مطالعہ کریں تو اس کے ہاں یہ حس اس قدر برانگیختہ نظرآتی ہے کہ اسے کسی ‏شعوری عمل کے تابع قرار دینا قطعاً ناممکن ہے۔ چنانچہ یہ بات قابل غور ہے کہ بت پرستی اور سراپانگاری کے عمل میں بھی ولیؔ نے باصرہ ‏ہی کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ چند مثالیں دیکھئے،

    تیری طرف انکھیاں کوں کہاں تاب کہ دیکھیں

    سورج سوں زیادہ ترے جامے کی بھڑک ہے

    حاجت نہیں ہے شمع کی اس انجمن منیں

    جس انجمن میں شمع سجن کا جمال ہے

    تجھ تجلی کے صحیفے کا سرج ہے یک ورق

    عکس تیری زلف کا جگ میں شب دیجور ہے

    مکھ ترا آفتاب محشر ہے

    نور اس کا جہاں میں گھر گھر ہے

    سرج ہے شعلہ تری اگن کا جو جا فلک پر جھلک لیا ہے

    نمک نے اپنے نمک کوں کھوکر نمک سوں تیرے نمک لیا ہے

    یہ درسوں تیرے جو نور چمکا سو اس سوں تارے ہوئے منور

    یہ چاند تجھ حسن کا جو نکلا فلک نے تجھ سوں اچک لیا ہے

    مثال شمع کرتا ہے سنے کی انجمن روشن

    ولیؔ جب نس کوں مجھ دل میں خیال یار آتا ہے

    تجھ رخ سوں جب کنارے صبح نقاب ہووے

    عالم تمام روشن جیوں آفتاب ہووے

    کلیات ولیؔ روشنی اور رنگ کے ان مظاہر کا ایک عکس تاباں ہے اور ولیؔ نے اس میں اشیا کی تشریح اور تفہیم روشنی کی زبان میں کی ہے۔ ‏روشنی کا یہ تحرک ولیؔ کی غزل میں فکر کے تحرک کومہمیز لگا سکتا تھا لیکن ولیؔ کے ہاں پرستش کا جذبہ اس قدر قوی تھا کہ اس نے ذہنی تحرک ‏کووجود میں آنے کی اجازت نہیں دی۔ چنانچہ یہ کہنا ممکن ہے کہ روشنی کے باوصف، ولیؔ نے پرستش کے جذبے کو ترک نہیں کیا بلکہ ایک ‏آتش پرست کے روپ میں ابھر کر ظاہر ہوا ہے۔ اسی لیے ولیؔ کا محبوب سورج کی مانند ہے اور ولیؔ ہر صبح اٹھ کر اس کی پوجا کرتا ہے۔ بے ‏شک ولیؔ خود کو پرستش اور پوجا کی خالص دیسی فضا سے باہر نکال نہیں سکا تاہم اس کے ہاں روشنی کا وجود اور بصارت کا عمل اس بات کا غماز ‏ضرور ہے کہ اس نے غزل کے تحرک سے خود کو ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ اردوغزل کے ارتقاء کے سلسلے میں ولیؔ ‏کی اس عطا کو نظرانداز کرنا ناممکن ہے۔

    مأخذ:

    تنقید اور احتساب (Pg. 74)

    • مصنف: وزیر آغا
      • ناشر: اے۔ ایم۔ خواجہ
      • سن اشاعت: 1968

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے