Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زبان یار من ترکی

طارق مرزا

زبان یار من ترکی

طارق مرزا

MORE BYطارق مرزا

    میں استنبول کے معروف تاریخی مقام تقسیم چوک پر کافی دیر سے کھڑا خالی ٹیکسی کا منتظر تھا۔ سیاحوں سے اٹے اس علاقے میں خالی ٹیکسی ملنا ناممکن نہیں تو خاصا مشکل تھا۔ شام کے مصروف اوقات میں ایک ٹیکسی خالی ہوتی تو کئی مسافر اس کی جانب لپکتے۔ استنبول کے ٹیکسی ڈائیور یوں تو انگریزی کو زبان غیر سمجھتے ہوئے اس سے ایسے احتراز برتتے ہیں جیسے ہمارے ہاں نوبیاہتا دلھن اپنے دولھا کا نام لینے سے شرماتی ہے لیکن یہی ڈرائیور مسافر سے منزل پوچھ کر ”نو“ کہنے میں دیر نہیں کرتے۔

    اس ”نو“ کا سامنا مجھے بھی متعدد بار ہو چکا تھا۔ حالانکہ میرا ہوٹل شہر کے مرکز سے زیادہ دور نہیں تھا اور وہاں سے سواری ملنے کے روشن امکانات تھے مگر ان فربہ اندام اور اسٹیم انجن کی طرح سگریٹ کا دھواں اگلتے ڈرائیوروں کو شاید مسافروں کو ستا کر مزہ آتا تھا۔ میں دن بھر استنبول کے اPونچے نیچے راستوں پر چلنے کی وجہ سے تھکن سے چور تھا اور ہوٹل جانے کے لیے آدھے گھنٹے سے ٹیکسی کی تلاش میں تھا۔ چار پانچ ٹیکسیاں خالی ملیں لیکن الفتیح کا نام سنتے ہی نو کہہ کر ڈرائیور چلتے بنے۔

    بالآخر ایک ڈرائیور نے ٹیکسی روکی تو میں نے موقع غنیمت جان کر پسنجر سیٹ والا دروازہ کھولا اور سیٹ پر براجمان ہو کر ڈرائیور سے فتیح جانے کے لیے کہا۔ دراصل فتیح وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا اسی لیے وہ متردد تھے۔ ڈرائیور نے برا سا منہ بنایا اور موبائل پر سو لیرا لکھ کر دکھایا۔ میں نے لکھا میٹر پر چلو یہ بیس لیرا سے زیادہ نہیں بنتے، سو بہت زیادہ ہیں۔ اس نے پڑھا تو اس کا چہرہ مزید بگڑ گیا اور جانے سے انکار کر دیا۔

    میں تھکا ہوا تھا اور مزید کھڑے رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا لہذا بادل نخواستہ سو لیرا دینے پر رضامند ہو گیا۔ ڈرائیور چل تو دیا مگر تمام راستے بڑبڑاتا رہا۔ وہ ابھی بھی نا خوش تھا۔ ہوٹل کے سامنے سڑک پر اتر کر میں نے کرایہ ادا کیا اور پھر جیب میں ہاتھ ڈالا تو موبائل فون غائب تھا۔ مجھے فوراً خیال آیا کہ ٹیکسی میں رہ گیا ہے۔ میں اس کے پیچھے بھاگا مگر ٹیکسی بائیں مڑی اور نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ میں گاڑی کا نمبر بھی نوٹ نہیں کر سکا۔

    میں سخت پریشان ہو گیا۔ موبائل فون کے بغیر میں بے دست و پا تھا۔ میرا ویزہ اور دیگر تمام اہم کاغذات اور معلومات، اگلے ہوٹلوں اور فلائٹوں کی بکنگ سمیت میری رہنمائی اور رابطے کا واحد ذریعہ موبائل فون تھا اس کے بغیر تو میں سفر کرنے قابل نہیں تھا جبکہ ابھی دو ہفتے کا سفر باقی تھا۔ ملائیشیا میں چند دن قیام کرنے کے بعد میں دو روز قبل استنبول پہنچا تھا۔ ترکی میں دو ہفتے کا قیام تھا۔ قیام کیا سفر مسلسل در پیش تھا کیونکہ میں استنبول کے علاوہ دیگر شہروں قونیہ، انتالیہ اور ازمیر بھی جا رہا تھا۔

    ان سارے شہروں کے بیچ فضائی سفر اور قیام کی بکنگ ہو چکی تھی سوائے قونیہ اور انتالیہ کے جہاں بس ذریعہ سفر تھی۔ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر بسے رنگا رنگ تہذیبوں کے آمین ملک، ترکی کی سیاحت میرا دیرینہ خواب تھا جو اب جا کر پورا ہوا۔ یوں تو بفضل تعالیٰ میں نے درجنوں ممالک کی سیاحت کی ہے لیکن ترکی کی سیاحت نہایت منفرد، دلچسپ، معلوماتی بلکہ روحانی تسکین کا باعث بنی کیونکہ مجھے شہر دل (City of Hearts) قونیہ جانے کا موقع ملا جہاں عشق کے امام اور اقبالؒ کے مرشد مولانا جلال الدین رومیؒ کی آخری آرام گاہ اور ان سے متعلق اشیا کی زیارت سے ایسی روحانی تسکین ملی جس کا بیان مشکل ہے۔

    وہیں تھوڑے فاصلے پر مولانا رومؒ کے پیر و مرشد اور انھیں عشق کی راہ پر لگانے والے مولانا شمس تبریزیؒ کا مزار بھی مرجع خلائق ہے۔ ان کے علاوہ بھی اس خاک پر کئی جید ہستیاں محو آرام ہیں۔ قونیہ میں دو دن کے قیام دوران میرے قلب و ذہن جلوہ انوار سے مہکتے رہے۔ ایسے لگتا کہ اس شہر پر نور کا ہالہ سایہ فگن ہے اور انوار و برکات کی بارش ہو رہی ہے۔ اس کی جھلک لوگوں کے طرز عمل سے بھی عیاں ہوتی ہے جو ترکی کے دیگر شہروں کی نسبت نرم خو اور گداز دل واقع ہوئے ہیں۔

    اس شہر میں مجھے جتنا سکون ملا اتنا صرف حرمین شریفین میں ہی ملا تھا۔ قونیہ میں قیام اور مولانا روم کی قبر پرنور کی زیارت میرے اس طویل سفر کا حاصل تھی۔ خدا کرے یہ انوار و تجلیات سدا میرے خانہ دل میں روشن رہیں۔ ترکی میں دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے کیونکہ یہاں بازنطینی، رومن اور عثمانی تین عظیم سلطنتوں کی نشانیاں جا بجا نظر آتی ہیں۔ جیسے مسجد آیا صوفیہ، جسے 1500 سال پہلے بازنطینی عہد میں گرجا گھر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا، 900 سال بعد سلطنت عثمانیہ کی فوج نے استنبول پر قبضہ کیا اور اسے مسجد میں بدل دیا گیا۔

    100 سال قبل خلافت عثمانیہ ختم ہوئی تو اسے عجائب گھر بنا دیا گیا تھا کیونکہ یہ فاتحین کی شرط تھی۔ معاہدے کے مطابق سو برس یہ عجائب گھر بنا رہا۔ 2020 میں جونہی سو برس پورے ہوئے یہ عظیم الشان عمارت پھر مسجد میں بدل گئی۔ آج یہ مسجد کی حیثیت سے دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ میں نے اندر سے یہ عمارت دیکھی تو تو اس کی بناوٹ و سجاوٹ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ ہزاروں برس قدیم یہ عمارت اب بھی اتنی پائیدار اور شان دار ہے کہ اسے دیکھ کر نظریں خیرہ ہوتی ہیں۔

    ترکی کی عثمانیہ سلطنت جس نے تقریباً سات سو برس تک تین بر اعظموں پر حکومت کی اس کے مختلف سلاطین کی بنائی مساجد اور دیگر تاریخی عمارتیں قابل دید اور فن تعمیر کے نادر نمونے ہیں۔ استنبول کی سلطان احمد مسجد (نیلی مسجد) اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی بناوٹ و سجاوٹ لاجواب ہے۔ خوش قسمتی سے مجھے اس میں نماز جمعہ ادا کرنے اور اندرونی و بیرونی تعمیر و تزئین دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ جمعہ والے دن یہ غیر مسلموں کے لیے بند کر دی جاتی ہے تاکہ نمازی تسلی سے نماز جمعہ ادا کر سکیں۔

    عثمانی سلاطین کے محلات میں عجائب گھر بنا دیے گئے ہیں۔ اس سلسلے کا سب سے بڑا عجائب گھر ٹوپ کاپی پیلس ہے۔ سمندر کے کنارے بنا یہ عجائب گھر نہ صرف باہر سے دلکش ہے بلکہ اس کے اندر موجود یوں تو بے شمار نادر اشیا موجود ہیں مگر پیغمبر اسلام کا موئے مبارک، ان کے نعلین، ان کی شمشیر، بی بی فاطمہ ؓ کا لباس اور خلفائے راشدینؓ اور دیگر اہم صحابہ کرام ؓکے زیر استعمال اشیا کی نمائش اس عجائب گھر کو دنیا کا انتہائی مقدس اور منفرد ترین عجائب گھر بنا دیتی ہیں۔

    استنبول اور ترکی کے دیگر شہروں میں بے شمار عجائب گھر ہیں جس میں ترکش اور اسلامی آرٹ کے نادر و نایاب نمونے موجود ہیں۔ ٹوپ کاپی پیلس کے علاوہ میں نے چند مزید عجائب گھر دیکھے ان میں سے ٹرکش اینڈ اسلامک آرٹ میوزیم بھی شامل ہے۔ اس ایک عجائب گھر میں خلافت عثمانیہ کی تاریخ مع اس کی نشانیوں کے دیکھی جا سکتی ہے۔ مختلف ادوار کے عثمانی سلاطین او ران کے خاندان کی بود و باش سمٹ کر اس عجائب گھر میں نمایاں ہو گئی ہے۔

    یہ عجائب گھر بھی عثمانی خلیفہ سلطان عبدل مجید کے محل میں بنایا گیا ہے جو بذات خود اندرونی اور بیرونی حسن و تزئین سے مرصع ہے۔ لہذا عجائب گھر کے جس کمرے یا ہال میں جائیں اس میں رکھی نوادرات کے علاوہ در و دیوار اور بام و در کی ساخت اور سجاوٹ بھی سیاحوں کی توجہ جذب کر لیتی ہے۔ اس کے ساتھ متذکرہ سلطان کی مستعمل اشیا سے اس دو رکی تہذیب و تمدن اور رہن سہن عیاں ہوتی ہے۔ خصوصاً انتہائی بلند چھتوں پر جو فنکارانہ نقش و نگار بنے ہیں انسان انھیں دیکھتا رہ جائے۔ اس دن استنبول یونیورسٹی میں اردو کے استاد محمد راشد بھی میرے ہمراہ تھے۔ ان کے ذریعے مجھے اس عجائب گھر، اس کی تاریخ اور جدید ترکی کے بارے میں مفید معلومات حاصل ہوئیں۔ اس کے ساتھ وہ تمام دن ڈراتے رہے کہ اپنی جیب اور اپنے بیگ کا خیال رکھیے کیونکہ یہاں اچکے بہت ہیں ۔

    ہم ایک بڑی اور پر تعیش کشتی پر سوار آبنائے فاسفورس کے نیلے پانیوں پر استنبول کے بیچوں بیچ محو سفر تھے۔ دنیا کے مختلف خطوں سے آئے سیاح کشتی کی چھت پر ایستادہ رنگین کرسیوں پر براجمان تھے اور استنبول کے دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ میرے سامنے والی سیٹ پر ایک خوش لباس سیاہ فام جوڑا موجود تھا۔ میں نے آدمی کو کیمرا دے کر تصویر بنانے کے لیے کہا تو اس نے بخوشی میری کئی تصاویر بنا دیں۔ گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو علم ہوا کہ وہ ساؤتھ افریقہ میں یونیورسٹی پروفیسر ہے اور کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے استنبول آیا ہے۔

    خاتون نے مجھ سے آسٹریلیا کے بارے میں کئی سوالات کیے۔ انھیں آسٹریلیا جانے کی خواہش تھی جبکہ مجھے جنوبی افریقہ جانے کی تمنا تھی۔ طے یہ ہوا کہ اپنے اپنے ملک میں ہم ایک دوسرے کی میزبانی کریں گے۔ وہ سہ پہر ہم نے اکٹھے گزاری اور ہماری دوستی کا پودا پروان چڑھنے لگا۔ ہماری کشتی کے بائیں جانب یورپ اور دائیں جانب ایشیا تھا اور ہمارے سامنے سمندر پر ایک بلند اور طویل پل ایشیا اور یورپ کو ملاتا تھا۔ ہمارے بائیں جانب یورپ والا حصہ عمومی طور پر قدیم، قدرے فرسودہ مگر تاریخی دلچسپیوں سے معمور تھا جبکہ ہمارے دائیں جانب سمندر کے کنارے حسین ڈھلوانوں پر بنے انتہائی گراں قدر مکانات اور ان کے گردوپیش کا علاقہ جدید اور قابل دید مناظر کا حامل تھا۔

    پروفیسر جیکب نے مسکراتے ہوئے کہا ”یہاں ایشیا یورپ سے کہیں آگے اور دلکش نظر آتا ہے“ میں نے کہا ”ہاں لیکن یہ نفسیاتی اور کاغذی تقسیم ہے ورنہ یہ ایک ملک اور ایک شہر ہے جس میں ایک جیسے لوگ رہتے ہیں۔ ہاں طبقاتی تقسیم ہو سکتی ہے جو ہر شہر میں ہوتی ہے“ پروفیسر جیکب مسکرایا ”ہاں یہ مصنوعی لکیریں انسانوں نے خود ہی کھینچ رکھی ہیں۔“

    ایشیا اور یورپ کی تقسیم کے علاوہ بھی ترکی میں مزید کئی لکیریں، کئی قسمیں اور کئی رنگ نظر آتے ہیں۔ جیسے ان کا سب سے بڑا شہر استنبول قدیم و جدید کا مجموعہ ہے۔ یہاں مختلف قدیم تہذیبوں سے متعلق مقامات، آثار، نشانات اور باقیات کا لا متناہی سلسلہ ہے جس کی وجہ سے تاریخ اپنے بھرپور رنگ و روپ کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔ تاہم جتنا اس کا تاریخی پہلو تابناک اور قابل توجہ ہے اتنا ہی جدید شہر اور خصوصاً یورپین تہذیب کا رنگ بھی نمایاں نظر آتا ہے۔

    ایک جانب صدیوں قدیم پتھروں سے بنی عمارتوں کے درو دیوار شان و شوکت سے استادہ ہیں تو دوسری جانب سیمنٹ اور شیشے کے رنگ و روپ لیے جدید عمارتیں بھی شانہ بشانہ نظر آتی ہیں۔ ایک جانب سمندر کے کنارے مہنگے ترین مکانات اور ان کے باہر کھڑی جدید ترین گاڑیاں اور لگژری کشتیاں نظر آتی ہیں تو دوسری جانب تنگ گلیوں اور خستہ پتھروں سے بنی رہائشی عمارتیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ ایک جانب سمندر کے اندر بنے مہنگے ریستوران میں سوٹڈ بوٹڈ گاہک بیٹھے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب فٹ پاتھوں پر موجود ٹھیلوں سے سمت ( گول سوکھی بریڈ) اور مکئی کے بھٹے خرید کر پیٹ بھرنے والے بھی بے شمار ہیں۔

    لیکن اس شہر خاص کے باسیوں بلکہ ترکوں کو بحیثیت مجموعی میں نے خوش لباس، خوش خوراک اور زندگی سے لطف اندوز ہونے والا پایا ہے۔ یہاں دکانوں، بازاروں اور ریستورانوں کا شمار نہیں۔ شہر چھوٹا ہو یا بڑا، ریستوران گاہکوں سے بھرے نظر آتے ہیں۔ کباب، پیزا، سینڈوچ، قیمے والی روٹی، لسی اور ترکش چائے ہر جگہ موجود ہے۔ چائے تو یہ اس قدر پیتے ہیں کہ دکان ہو یا گھر ان کے ہاتھ میں ہر وقت چھوٹی سی پیالی نظر آتی ہے۔ ازمیر میں میرے ہوٹل کے استقبالیہ کلرک نے مجھے بتایا کہ اس کی ماں روزانہ ساٹھ ستر کپ چائے پیتی ہے۔

    یہ چائے دودھ کے بغیر ہوتی ہے اور اس کے ساتھ چینی کے کیوب ( مکعب ٹکڑے ) رکھے ہوتے ہیں جو ہر کوئی حسب ضرورت ڈالتا ہے۔ اس چائے کی عادت مجھے بھی پڑ گئی جو آسٹریلیا واپس آنے کے بعد بھی برقرار ہے۔ میں ایک ترکش شاپ سے چائے خرید کر لایا ہوں اور گھر میں روزانہ یہ شوق پورا کرتا ہوں۔ کبھی کبھی مقامی ترکش ریستوران میں یہ چائے نوش کرنے جاتا ہوں۔ ترک سگریٹ نوشی کے کے انتہائی شائق ہیں۔ لگتا ہے نناوے فیصد مرد و زن سگریٹ نوشی کے عادی ہیں۔

    یہ عام سگریٹ نوشی نہیں ہے بلکہ اکثریت چین اسموکر ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور، دکاندار، خاکروب اور کاریگر ہر ایک کے ہاتھ میں جلتی سگریٹ ہوتی ہے۔ ایک دکان سے میں نے کچھ خشک میوہ جات خریدے۔ یہ اشیا تولتے ہوئے حسب معمول دکان دار سگریٹ پی رہا تھا او راس کی راکھ ان اشیا میں گر رہی تھی۔ ٹیکسی ڈارائیور مسافر سے پوچھے بغیر سگریٹ سلگا کر کش پہ کش لینے لگتے ہیں۔ ان ڈرائیوروں کو ٹوکتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ وہ سگریٹ تو نہیں پھینکیں گے کہیں مسافر کو ہی نہ اتار دیں۔

    انتالیہ میں ہماری خاتون گائیڈ نے بتایا کہ وہ روزانہ چار پیکٹ سگریٹ پی لیتی ہے۔ ہماری وین پانچ منٹ کے لیے کہیں رکتی وہ مسلسل دو سگریٹ پی کر گاڑی میں بیٹھتی۔ کچھ لوگوں نے بتایا کہ یہاں ناؤ نوش اور دیگر ہر قسم کا نشہ بھی عام ہے۔ شبینہ کلب، بار اور شراب کی خرید و فروخت بھی سر عام ہے۔ اسی طرح اکثر خواتین مغربی لباس زیب تن کرتی ہیں۔ ادھر تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ وہ یہ کہ کچھ خواتین حجاب بھی پہنتی ہیں اور مسجدیں نمازیوں سے آباد ہیں۔ گویا ترکی مشرق و مغرب دونوں تہذیبوں کے درمیان جھول رہا ہے۔ موجودہ صدر طیب اردگان کا رجحان چونکہ مذہب کی جانب ہے لہذا مذہب پرست بھی کم نہیں ہیں۔ دیکھیے مستقبل میں ترکی کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور کون سا ترکی دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوتا ہے عثمانیہ سلطنت والا یا پھر مصطفی اتا ترک والا۔

    اس مضمون کے حصہ اول، میں نے اپنے موبائل کی گمشدگی کا ذکر کیا۔ بے شمار لوگوں نے پوچھا کہ موبائل کا کیا بنا۔ دراصل وہ میرے تین ہفتے کے سفر کا سب سے اہم واقعہ ہے۔ میرا موبائل سنکی قسم کے ڈرائیور کی ٹیکسی میں رہ گیا تو میں ہکا بکا رہ گیا اور سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں گا۔ کیونکہ میرے سفر کی تمام تفصیل، بکنگ اور اگلے ملکوں کے ویزہ جات اسی موبائل میں تھے۔ اس کے بغیر میں سفر جاری نہیں رکھ سکتا تھا حتی کہ واپسی بھی مشکل تھی کیونکہ فلائٹ بکنگ بھی اسی میں درج تھی۔

    میرے پاس ٹیکسی کا نمبر تھا نہ ڈرائیور کا نام۔ لہذا میں پریشانی کی حالت میں ہوٹل کے اندر داخل ہوا۔ استقبالیہ کلرک نے پریشانی کی وجہ دریافت کی۔ میں نے بتایا تو اس نے کہا اپنا نمبر بتائیں۔ میں نے نمبر بتایا اس نے فوراً ڈائل کیا۔ اگلے ہی لمحے اس نے کسی سے ترکی زبان میں گفتگو شروع کر دی۔ فون بند کر کے اس نے بتایا۔ مبارک ہو آپ کا موبائل مل گیا۔ وہ ٹیکسی ہی میں تھا اور ڈرائیور لے کر آ رہا ہے۔ میری تو جیسے جان میں جان آئی۔

    باہر نکلا تو دیکھا کہ وہی ڈرائیور ٹیکسی سے نکل رہا ہے موبائل اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھایا تو میں نے اس کا ہاتھ ایسے چوم لیا جیسے ارطغرل ڈرامے میں چھوٹے بڑوں کا ہاتھ چومتے ہیں۔ تھوڑی دیر قبل جو سنکی لگتا تھا اب یہی ڈرائیور مجھے فرشتہ محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے اسے سو لیرا انعام دیا اور موبائل کو ایسے سینے سے لگایا جیسے گمشدہ خزانہ مل گیا ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے