Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ظفر کی شاعری

نیاز فتح پوری

ظفر کی شاعری

نیاز فتح پوری

MORE BYنیاز فتح پوری

    کوئی غزل پر اپنی جو نازاں آگے تیری غزل کے ہو

    شعر سنا دے اس کو ظفر اک اس میں کا اک اس میں کا

    میری رائے میں یہ بہترین سر سری تنقید ہے جو ظفر نے خود اپنی شاعری کے متعلق کی ہے۔ اس میں کلام نہیں کہ ظفر کے جستہ جستہ اشعار اگر کسی کے ناز کو خجل نہیں کر سکتے تو کم ازکم سننے سنانے کے قابل ضرور ہیں اور اگر ’’کوئی شعر اس میں کا‘‘ اور ’’کوئی اس میں کا‘‘ لے کر گلدستہ مرتب کیا جائے تو یقیناً اہل ذوق کی میز کی زینت بن سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ظفر کے چار ضخیم دیوانوں کا غایر مطالعہ کر کے اس خدمت کو کون انجام دے؟

    شاعر برا ہو یا بھلا، پیدا ہوتا ہے اور اس لئے سب سے پہلے میں کسی شاعر کے کلام پر گفتگو کرنے سے قبل یہ دیکھتا ہوں کہ وہ فطرت کی طرف سے شاعر بناکر بھیجا گیا ہے یا وہ اپنے آپ کو شاعر کی حیثیت سے پیش کرنے میں فطرت سے جنگ کرتا ہے۔ اس کا فیصلہ کرنے کے بعد میں یہ دیکھتا ہوں کہ قدرت نے ا س کے دماغ کو کس نوع کی شاعری کے لئے وضع کیا تھا اور ماحول نے کس حد تک اس کی فطری افتادکی موافقت یا مخالفت کی اور آخرکار نتیجہ کے لحاظ سے وہ کامیاب ہوا یا ناکام۔ آ سکر وائلڈ کا ایک تنقیدی لطیفہ ہے کہ ’’کسی تصنیف یا کتاب کے متعلق یہ بحث کرنا کہ وہ اخلاق کا درس دیتی ہے یا بد اخلاقی کا، بالکل لا یعنی سی بات ہے۔ اس کے متعلق صرف یہ بحث ہو سکتی ہے کہ وہ تصنیف ایک تصنیف کی حیثیت سے اچھی ہے یا بری۔‘‘ آسکر وائلد کی یہ رائے جملہ اصناف تصنیف و تالیف پر حاوی ہو یا نہ ہو لیکن شاعری کے باب میں یقیناً قابل عمل ہے اور میں کبھی شاعری کے اخلاقی یا غیراخلاقی ہونے سے بحث نہیں کرتا بلکہ یہ دیکھتا ہوں کہ بری یا بھلی، جو ودیعت فطری ایک شاعر کو عطا ہوئی اس کا استعمال اس نے درست کیا یا نہیں۔

    فرض کیجئے ایک شخص حد درجہ فاحش و عریاں شاعری کا ذوق لے کر آیا ہے تو میں صرف فن کے لحاظ سے یہ دیکھوں گا کہ اس نے اس میں کس حد تک کامیابی حاصل کی ہے اور سنجیدگی کے تحت میں آکر اس نے اپنے ذوق کے منافی کوئی حرکت تو نہیں کی۔ ا س کے بر عکس اس کے ایک مخالف مثال کو لے کر سمجھ لیجئے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ ضرو ر ہے کہ جب مراتب شاعری سے بحث کی جائےگی اور منازل شعر پر گفتگو ہو گی تو اس وقت یہ بھی کہنا پڑےگا کہ فلاں کا ذوق پست ہے اور فلاں کا بلند اور نقد کی یہی ناگوار صورت پیش آ جاتی ہے جب دہلی اور لکھنؤ کی شاعری سے کوئی شخص بحث کرتا ہے۔ ورنہ یوں لکھنؤ کی شاعری جب تک مدارج کا سوال نہ پیدا ہو، اپنی جگہ یقیناً مکمل چیز ہے۔

    جس وقت ان اصول کو پیش نظر رکھ کر ظفر کی شاعری کو دیکھا جائےگا تو معلوم ہوگا کہ ایسے شخص کے فطری شاعر ہونے میں کس کو کلام ہو سکتا ہے جو چار ضخیم دیوان چھوڑ جائے۔ اسی کے ساتھ انتخاب سے اس کے یہاں اچھے شعر بھی مل جائیں تو ان کی تعداد اس قدر کم ہوکہ اگر میں ابھی اتنا ہی کلام چھوڑ جاؤں تو شاید میرے یہاں بھی اتنے ہی اچھے شعر ڈھونڈنے سے مل سکیں۔

    ظفر جس خاندان کی یادگار تھا، اس کے افراد میں علم پروری، نکتہ رسی، بالغ نظری، قدر علم و فضل، میراث کی حیثیت سے منتقل ہوتی چلی آ رہی تھی اور ہرچند تیموری خاندان میں کوئی زبر دست شاعر یا ادیب پیدا نہیں ہوا لیکن اس کی ادب نوازی اور شاعر آفرینی کے واقعات سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ اس لئے ظفر شاعر تھا تو حیرت کی بات نہیں کیونکہ وہ اس خاندان کا فرد تھا جو اپنے ذوق ادب کے لئے مشہور ہے، اور اگر اس نے اتنا کلام چھوڑا تو بھی تعجب نہ کرنا چاہئے کیونکہ آغاز جوانی سے لے کر کہاولت تک جو تقریباً تین ربع صدی کا زمانہ ہوتا ہے، اس کو سوائے اس فکر فضول کے اور کام ہی کیا تھا۔

    یوں تو سلطنت مغلیہ کا مفہوم محمد شاہ کے وقت ہی میں ختم ہو گیا تھا لیکن اس کا انعکاسی اثر جو کچھ قائم تھا، وہ بھی اکبر شاہ ثانی (ظفر کے والد) کے زمانہ میں جاتا رہا اور جب بہادر شاہ ظفر تخت نشیں ہوا تو اس کی حیثیت ایک شطرنج کے بادشاہ کی بھی نہیں تھی بلکہ وہ صرف ایک وظیفہ یاب رئیس کی حیثیت رکھتا تھا، جس کے حدود حکمرانی کے لئے قلعہ کے تنگ فضا بھی ضرورت سے زیادہ سمجھی جاتی تھی۔

    ولی عہدی کازمانہ بھی ظفر کا خلش و بے چینی میں بسر ہوا کیونکہ اکبر شاہ ممتاز محل کے بیٹے مرزا جہانگیر کو ولی عہد بنانا چاہتے تھے ااور ان سے نا خوش رہتے تھے۔ ہرچند بعد کو حکومت برطانیہ نے قطعی فیصلہ بہادر شاہ ظفر کے حق میں کر دیا تھا لیکن باپ کے جیتے جی ان کو کوئی آرام و سکون نصیب نہ ہوا اور جب پورے 62 سال عمر کے اس کلفت میں بسر ہو گئے، جب کہیں جا کر 1837 میں اکبر شاہ کا انتقال ہوا اور ظفر کو تخت نشینی کا موقع ملا۔ ہر چنداس کے بعد ظفر 25 سال اور زندہ رہے لیکن وہ زندگی اس طرح کی تھی کہ دو سال تو غدر کے مصائب میں بسر ہوئے اور پانچ سال رنگون کے بلا خانہ میں۔ باقی اٹھارہ سال کا زمانہ، جس میں ظفر نے سلطنت کی، وہ بھی اس انداز سے بسر ہوا کہ جی کھول کر گناہ کرنا کیسا طاعت و بندگی کے بھی اسباب فراہم نہ ہو سکے۔

    تیموری خاندان کا خون، جو جذبہ داد و دہش کے پیدا کرنے میں تاریخی اہمیت حاصل کر چکا تھا، رگوں میں دوڑ رہا تھا لیکن اس کی حالت اس فوارہ کی سی تھی جس کا خزانہ خشک اور قوت جست و خیز مفقود ہو چکی ہو۔ ظفر چاہتا تھا اور یقیناً بے تابانہ طور پر چاہتا تھا کہ وہ اپنے دربار کو شعرا اور اہل علم و کمال سے بھر لے اور ہر اس چیز کو فراہم کر لے جو مٹی ہوئی تیموری عظمت و جلال کی یاد کو زندہ کرنے والی ہو لیکن اس کی بے کسی و بےچارگی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے استاد (ذوق) کو ایام ولی عہدی میں چار روپیہ ماہوا ر سے زیادہ نہ دے سکا اور تخت نشین ہونے کے بعد پچیس روپیہ (یا بقول صاحب تذکرہ گل رعنا) زیادہ سے زیادہ سو روپیہ ماہوار سے زیادہ ہمت نہ کر سکا۔

    الغرض ظفر کی ساری زندگی سخت ’’حوصلہ فرسا‘‘ ماحول میں بسر ہوئی اور جتنی تمنائیں اس کے دل میں پیدا ہوئیں، ان میں سے ایک بھی تکمیل کو نہ پہنچ سکی۔ اس لئے وہ جس رنگ کی شاعری کے لئے پیدا ہوا تھا اگر اس کی بھی تکمیل نہ ہو سکی ہو تو جائے تعجب نہیں۔ یہ ہم ظاہر کر چکے ہیں کہ ظفر کی شاعری کو سوزوگداز کی شاعری سمجھا جاتا ہے لیکن اس کا فطری رنگ کیا تھا؟ اس بات میں مجھے اکثر تذکرہ نویسوں سے اختلاف ہے۔ عام طور پر ظفر کی شاعری کو سوز و گداز کی شاعری سمجھا جاتا ہے لیکن میں اس کو یکسر اس صفت سے خالی پاتا ہوں۔

    میرے نزدیک ظفر پیدا ہوا تھا صرف جرات کے رنگ کی مادی شاعری کرنے کے لئے اور اگر زمانہ مخالفت نہ کرتا تو وہ اس رنگ کا بے مثل شاعر ہوتا لیکن عسرت و افلاس کی مصیبت، زوال و ادبار کی نحوست، تاثرات غم والم کی کلفت نے ا س کو اس قدر مکدر بنا دیا تھا کہ اس کی زندگی کا لا عبانہ پہلو، جس پر اس کی شاعری کی بنیاد قائم ہوئی تھی، شگفتہ ہونے سے قبل ہی مضمحل ہو گیا اور اس کے کلام میں وہ رنگ پیدا ہو گیا جسے ہم سوزوگداز کے بجائے صرف افسردگی و سوگواری کہہ سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ خود ایک جگہ لکھتا ہے۔

    شعر افسردہ ظفر مت سناؤ بزم میں

    عشق کے مارے ہوئے جتنے ہیں افسردہ سے ہیں

    میرے نزدیک سوز و گداز، افسردگی سے بالکل علاحدہ چیز ہے۔ سوز و گداز کا تعلق تاثرات روحانی کی اس بلند دنیا سے ہے جسے مادیات سے کوئی واسطہ نہیں اور اگر ہوتا بھی ہے تو صرف اس قدر کہ اس کو ذریعہ اظہار تاثر سمجھا جائے۔ سوزوگداز اور افسردگی دونوں کے ارتقا کا لازمی نتیجہ سکون ہے لیکن فرق یہ ہے کہ ا س میں سکون استغنا ہوتا ہے اور اس میں سکون یاس۔ اس میں روح و روحانیت کو ترقی ہوتی ہے اور یہ دماغ و اعضا میں تعطل پیدا کر دیتی ہے۔

    اس میں شک نہیں کہ ظفر جمالیاتی نقطہ نظر سے کچھ نہ کچھ ذوق ضرور رکھتا تھا اور اس لئے فنون لطیفہ میں سے شاعری کے علاوہ موسیقی اور خطاطی سے بھی اسے لگاؤ تھا لیکن چونکہ اس کا یہ ذوق بلند قسم کا نہ تھا، اس لئے وہ نہ موسیقی و خطاطی میں کوئی قابل ذکر یادگار چھوڑ گیا نہ شاعری میں، لیکن اگر حالات مساعد ہوتے تو ممکن تھا کہ اس کا فطری ذوق جیسا کچھ بھی تھا، پوری وسعت کے ساتھ ظاہر ہوتا اور تکمیل کی ایک صورت پیدا ہو جاتی۔ ظفر کی شاعری میں تھوڑا سا جو متشائم (Pessimistie) رنگ پایا جاتا ہے، اس کا سبب یہ نہ تھا کہ اس کی فطرت ایسی ہی تھی بلکہ وہ اثر تھا صرف اسباب و حالات کا، اس وقت کی فضا و ماحول کا۔ اگر یہ عارضی اسباب پیدا نہ ہو جاتے تو اس کے دیوان میں جو کہیں کہیں افسردہ و سوگوار قسم کے شعر مرثیہ کا رنگ لئے ہوئے نظر آ جاتے ہیں، بالکل نہ ہوتے۔

    پھر چونکہ سوز وگداز کا تعلق متشائم جذبات نہیں بلکہ اس عقلی و ذہنی ارتفاع (Intellectual sublimity) سے ہے جس کی بنیاد بالکل جمالیات اخلاقی (Ethical Aesthitics) پر قائم ہے اس لئے وہ صرف ایک غموض روحانی (Spritual Profundity) ہے اور جس کی تصور ی منزل Utopia اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک انسان بیک وقت زبر دست فلاسفر، بے مثل آر ٹسٹ اور روحانی قسم کا لطیف اخلاق نہ رکھتا ہو .حقیقت یہ ہے کہ یہ صفات ظفر میں موجود نہ تھے اور اس لئے ان کے یہاں سوزوگداز کا پتہ نہیں۔ ظفر اسی مادی دنیا اور مادی جذبات کا شاعر تھا. اس لئے ہم کو انہیں حدود میں رہ کر اس کی شاعری پر تبصرہ کرنا چاہئے۔

    ظفر کے عہد کا دور تاریخ شاعری کے لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس دور کی ابتدا شاہ نصیر سے ہوتی ہے جن کومیں صرف ضلع جگت کا شاعر کہتا ہوں کیونکہ سوائے رعایات لفظی، استعمال محاورات اور سنگلاخ زمینوں میں چند شعر نکال لینے کے انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ ممکن ہے کہ جب یہ لکھنؤ آئے ہوں اور ناسخ کے رنگ کا زور دیکھا ہو تو ان کے اس فطری ذوق میں جو بیک وقت جرأت، انشاؔ اور ناسخؔ کی شاعری کا حامل تھا، زیادہ تحریک ہوئی ہو لیکن یہ کہنا کہ ان کی شاعری ناسخؔ جرأتؔ کا تتبع تھا، صحیح نہیں۔ ان کا جو رنگ تھا، فطری تھا۔ اور چونکہ تھے سر زمین دہلی کے شاعر، اس لئے باوجود تصنع، آورد اور تکلف کے کہیں کہیں واردات قلبی بھی کہہ جاتے تھے لیکن اس قدر کمی کے ساتھ کہ اگر ظفر کا مقابلہ اس باب میں شاہ نصیر سے کیا جائے تو ظفر کو بہتر شاعر ماننا پڑےگا۔

    اس میں کلام نہیں کہ زبان کی صفائی، ترکیبوں کی حلاوت، فارسی الفاظ کی دلکش آمیزش، بندش کی روانی، قدیم الفاظ سے احتراز، اس عہد کی خصوصیت رہی ہے اور شاہ نصیر نے بھی کافی حصہ اس اصلاح و تہذیب میں لیا ہے لیکن جہاں تک حقیقی شاعری کا تعلق ہے، سب سے پہلے مومن، غالب اور ذوق پر ہی نگاہ پڑےگی اور اس کے بعد ممنون، تسکین اور شیفتہ پر۔ ظفر بھی اسی دور کا شاعر ہے اور ہر چند اس کی شاعرانہ ہستی ایسی نہ تھی کہ اس کو اس دور کے برکات میں شمار کیا جائے لیکن اسے نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر ایک طرف سنگلاخ زمینوں سے شعر نکالنے، محاورات کے استعمال کرنے اور رعایات لفظی کا لحاظ رکھنے میں وہ شاہ نصیر سے بڑھے ہوئے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ان کے کلام کی کثرت مجموعی حیثیت سے اس عہد کے تمام شعرا سے ان کو ممتاز کر دیتی ہے۔

    ظفر اول اول شاہ نصیر سے اصلاح لیتے تھے لیکن جب وہ دکن چلے گئے اور ذوق کا در خور، درربار میں ہوا تو باوجود ان کے کم عمر ہونے کے ظفر نے انہیں کا اپنی استادی کے لئے انتخاب کیا۔ مومن دربار شاہی تک جانا اپنی توہین جانتا تھا۔ غالب اس تمنا میں تڑپتے رہے لیکن انہیں اس کا موقع نہ ملا۔ ملا بھی تو اس وقت جب شاید ظفر کے تمام دیوان مرتب ہو چکے تھے اور شاعری بھی ترک سی ہو گئی تھی لیکن اگر مومن و غالب کی صحبت ظفر کو نصیب ہوتی تو بھی مجھے اس میں کلام ہے کہ وہ پورا فائدہ ان لوگوں سے اٹھا سکتے۔

    کیونکہ اول تو ان کارنگ طبیعت بہت مختلف تھا اور دوسرے یہ کہ شاہ نصیر کی شاعری کا رنگ بر بنائے ہم مذاق ہونے کے ان میں اس قدر رچ گیا تھا کہ اگر وہ شاہ نصیر کے بعد کسی کا انتخاب کر سکتے تھے تو وہ ذوق ہی ہو سکتا تھا، کیونکہ ان کے یہاں بھی مضمون آفرینی، جدت تخیل، ندرت بیان مفقود تھی۔ اور عام فہم ہونا اور محاورہ کا خوبی کے ساتھ نظم ہو جانا ان کی شاعری کا بھی ماحصل تھا جو ظفر کو محبوب ہونا چاہئے تھا۔ علاوہ اس کے چونکہ ذوق خود شاہ نصیر کے شاگرد تھے، اس لئے یوں بھی استاد بھائی ہونے کی حیثیت سے ظفرؔ کو ذوق ہی کا انتخاب کرنا تھا۔

    ذوق میں ایک چیز اور تھی جسے جوش و خروش کہتے ہیں اور جس کا پورا اظہار ان کے قصائد میں ہوتا ہے، ظفر کے کلام میں اس چیز کا پتہ نہیں اور نہ ان کا یہ فطری رنگ تھا اور اسی کو دیکھ کر آزاد کا یہ الزام کہ ظفر کا اکثر کلام ذوق کی فکر کا نتیجہ ہے، بالکل بیٹھ جاتا ہے۔ یہاں تک جو عمومی تبصرہ میں نے ظفر کے کلام پر کیا ہے اس کو ملخصاً یوں ظاہر کیا جا سکتا ہے،

    (1) ظفر کی شاعری عام فہم، محاورہ و زبان کی شاعری تھی۔

    (2) ظفر کے کلام میں سوز و گداز نہیں بلکہ حالات و واقعات کے لحاظ سے افسردگی و سوگواری ضرور پائی جاتی ہے۔

    (3) ان کے کلام میں جرأت کی سی عریانی، یا ادنی قسم کے معاملات عشق و محاکات محبت نظر آتے ہیں اور زیادہ دلکش طور پر۔

    (4) سنگلاخ اور مشکل زمینیں نکالنے میں وہ شاہ نصیر سے زیادہ کامیاب و قابل تعریف تھے۔

    (5) رعایات لفظی کی وجہ سے جو آورد و صنعت شعر میں پیدا ہو جاتی ہے وہ بھی ان کے یہاں کم نہیں ہے۔

    (6) فارسی ترکیبیں کبھی استعمال نہ کرتے تھے اور نہ اس زبان کی حلاوت سے وہ آشنا تھے۔

    (7) لیکن باوجود اس کے اگر ان کے مجموعہ کلام کا استقصا کیا جائے تو ایسے شعر بھی نکلیں گے جو واردات محبت کے بیان کے لحاظ سے بہت دلکش ہیں۔

    اب میں ذرا تفصیل کے ساتھ ان خصوصیات پر روشنی ڈالتا ہوں۔ سب سے اخیر میں میں نے واردات محبت کے بیان کا ذکر کیا ہے اور اس میں کلام نہیں کہ ظفر کی کوئی غزل ایسی نہیں ہے جس میں اس قسم کے دو ایک شعر نہ نظر آتے ہوں، یہاں تک کہ نہایت ہی مشکل زمینوں اور سنگلاخ ردیف وقوافی کے ساتھ بھی وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ظفرؔ کی کوئی غزل پوری ایک رنگ کی نہیں ہوتی بلکہ اس میں مختلف قسم کے اشعار پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک غزل کے دو شعر یہ ہیں،

    کسی نے اس کو سمجھا یا تو ہوتا

    کوئی یاں تک اسے لایا تو ہوتا

    جو کچھ ہوتا سو ہوتا تو نے تقدیر

    وہاں تک مجھ کوپہونچایا تو ہوتا

    انداز بیان کی سادگی اور جذبات کے لحاظ سے صحیح معنی میں غزل کے شعر کہلائے جا سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ،

    نہ بھیجا تو نے لکھ کر ایک پرچہ

    ہمارے دل کو پرچایا تو ہوتا

    نہ بولا ہم نے کھڑکایا بہت دیر

    ذرا درباں کو کھڑکایا تو ہوتا

    اس سے زیادہ کھلی ہوئی مثال لا یعنی رعایت لفظی کی اور کیا ہو سکتی ہے۔ دوسری غزل کے یہ شعر کس قدر پاکیزہ ہیں،

    میں اس کو دیکھ کے یہ محوہوں کہ حیراں ہوں

    جو کچھ وہ پوچھے گا مجھ سے جواب کیا دوں گا

    نہ پوچھ مجھ سے ظفر تو میری حقیقت حال

    اگر کہوں گا ابھی تجھ کو میں رلا دوں گا

    لیکن اس غزل میں اس رنگ کے شعر بھی موجود ہیں،

    اگر تو آوےگا تو جائے فرش پا انداز

    میں اپنی آنکھیں ترے زیرپا بچھا دوں گا

    کہے ہے مجھ سے وہ قاتل کہ میرے کوچہ میں

    رکھا جو تونے قدم سر ترا اڑا دوں گا

    ایک مشکل زمین میں کتنا اچھا شعر نکالا ہے،

    نہ پہونچا تو نہ پہونچا طالب دیدار تک اپنے

    ترے تکتے ہی تکتے راہ وقت واپسیں پہونچا

    لیکن اس غزل کے یہ شعر ملاحظہ ہوں،

    زمیں لرزی تڑپنے سے ترے بسمل کے یہ قاتل

    کہ آخر اس کااک صدمہ سر گا وز میں پہنچا

    مجھے ڈر ہے نہ پہونچے پہونچیوں کے بوجھ سے صدمہ

    کہ نازک ہے نہایت ہی ترا اے نازنین پہونچا

    یہ ہم پہلے ظاہر کر چکے ہیں کہ مشکل زمینوں کے پیدا کرنے میں ظفر کو خاص ملکہ حاصل تھا اور اس باب میں انہیں اس قدر شغف تھا کہ ا گر چاروں دیوانوں سے اس قسم کی غزلوں کو علیحدہ کر دیا جائے تو شاید ہی ایک پورا دیوان معمولی اور آسان ردیف و قافیہ کا باقی رہ جائے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ ’’اس کوہکنی‘‘ کے بعد صرف ’’کاہ بر آری‘‘ نہیں ہوتی بلکہ اس قدر خوبی کے ساتھ وہ ردیف و قافیہ کو نباہتے ہیں کہ حیرت ہو جاتی ہے اور ہرچند صنعت و آورد کا بیشتر حصہ ظفر کے کلام میں اسی میلان طبع سے پیدا ہوا کیونکہ جب نہایت ہی انمل، بے جوڑ ردیف و قوافی ہوں گے تو مضامین میں شگفتگی و بے ساختگی کا پیدا ہونا معلوم۔ مثلاً انہوں نے ایک غزل میں ردیف گلابی ہو گیا قرار دی ہے اور قافیہ اکثر بستر وغیرہ۔ فرض کیجئے کہ ایک شخص محشر گلابی ہو گیا لکھنا چاہتا ہے تو وہ کیا کرےگا۔ ظفر کا شعر ملاحظہ فرمائیے کہ یہی ایک صورت محشر کے گلابی ہونے کی ہو سکتی تھی فرماتے ہیں،

    تیرے دامن سے جو ٹپکا خون شہید ناز کا

    خوب گہرا دامن محشر گلابی ہو گیا

    کہیں کہیں قافیہ جو آسان مل گیا ہے تو اس زمین میں بھی انہوں نے ایک رنگ پیدا کر دیا۔ یہ دو شعر اسی زمین کے ملاحظہ کیجئے۔

    ہو چکی گرمی گلابی بادہ گلگوں سے بھر

    اب تو جاڑا اے پر ی پیکر گلابی ہو گیا

    ذیل میں بعض اشعار ان کے مشکل زمینوں سے درج کرتے ہیں جن سے یہ دونوں پہلو نمایاں ہو ں گے۔

    خدا نے جب کہ جمال بتاں بنایا تھا

    مژہ کو تیر بھوؤں کو کماں بنایا تھا

    رہا نہ آ کے وہ ایوان چشم میں میری

    مژہ سے میں نے عبث سائباں بنایا تھا

    ہنسے ہے دیکھ کے محفل میں وہ بت بے درد

    الہی کیوں مجھے گریہ کناں بنایا تھا

    دنداں کی تاب دیکھ کے انجم ہوئے خجل

    وہ مہ جبیں جو شب کو لب بام ہنس پڑا

    کیا بات یاد آ گئی اس کو کہ اے ظفرؔ

    وہ یک بیک جو سن کے مرا نام ہنس پڑا

    وصل ظاہر تو نہ ہوتا تھا ہمیں اس کا نصیب

    خواب میں وہ چھپکے آیا یوں نہ تھا تو یوں ہوا

    دے کے اس بے درد کودل ہوں ظفر میں درد مند

    واہ دکھ بیٹھے بٹھائے یوں نہ تھا تو یوں ہوا

    تونے کیوں ڈوری سے پیٹی باندھی اے صیاد واہ

    باندھنی بلبل کی تھی تار رگ گل سے کمر

    کیوں نہ اس میں سے رواں دریائے اشک ضعف ہو

    جب کہ ہو ہ مشکل محراب درِ پُل سے کمر

    روز و شب جوں مہرومہ پھرتے ہیں بہر قرص ناں

    اہل دنیا کھول بیٹھے کب تحمل سے کمر

    کبھی تو آؤ ہمارے گھر میں سنو ہماری بھی چار باتیں

    عجب ہے شکوہ رقیب کایاں ہزار منہ ہیں ہزار باتیں

    چڑھا ہے کوٹھے پہ کون اپنے کہ دیکھنے کو اب آہ جس کے

    بگولا بن کر یہاں فلک سے کر ے ہے اپنا غبار باتیں

    گئے ظفر کل جو اس کے گھر ہم کھلا یہ شکوہ کا آگے دفتر

    گزر گئی شب تمام تس پر نہو چکیں زینہار باتیں

    ایک تو مہندی کی ہے تحریر دونوں پاؤں میں

    دوسرے ہے کفش بھی تصویر دونوں پاؤں میں

    دشت گردی خاک کیجے بعد مجنوں اے ظفر

    مارے ہے خار بیاباں تیر دونوں پاؤں میں

    لب کو میں تیرے مے ناب کہے تو کہہ دوں

    چشم کو ساغر زہر آب کہے تو کہ دوں

    چشم پر آب میں ہے میرے کہاں لخت جگر

    یعنی تالاب میں سر خاب کہے تو کہہ دوں

    لے کے نام اس کا بہت آہیں بھرا کرتا ہوں

    کیوں ابھی اے دل بیتاب کہے تو کہ دوں

    یوں تو افسانہ مرا وہ نہیں سنتا اے دل

    اس سے یہ قصہ دم خواب کہے تو کہہ دوں

    خوں مرا کیوں اس بت کافر کے گیسو پی گئے

    کچھ یہ گنگا جل نہ تھا جو اس کو ہندو پی گئے

    ایک دو ساغر سے کیا ہوتا ہے ہم تو خم کے خم

    بیٹھ کر ساقی کے سب زانو بہ زانوپی گئے

    کی سحر ہم نے تڑپ کر ہجر کی شب مہ جبیں

    رات بھر سویا کئے تم ماہتابی میں پڑے

    گر نہ کھائے ساتھ اپنے وہ نہیں کھانے کا لطف

    ہے مزا جب ہاتھ دونوں کارکابی میں پڑے

    اے ظفرؔ جانے وہ کیفیت نگاہ مست کی

    آنکھ اس میکش کی جس پر بے حجابی میں پڑے

    یوں ہے طبیعت اپنی ہوس پر لگی ہوئی

    مکڑی کی جیسے تاک مگس پر لگی ہوئی

    آزاد کب کرے ہمیں صیاد دیکھئے

    رہتی ہے آنکھ باب قفس پر لگی ہوئی

    اس اقتباس سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ مشکل زمینوں میں بھی ظفر اپنی کامیابی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، جب تک انہیں ایک قافیہ بھی کام کا مل جاتا ہے۔ البتہ ایسے ردیف و قوافی میں جہاں کسی اچھے شعر کے پیدا ہونے کا امکان ہی نہیں ہے، وہ ضرور مجبور ہو جاتے ہیں، مگر اپنے استاد شاہ نصیر کے تتبع میں اور کچھ قدرت شاعری کے اظہار کے لئے انہوں نے ایسی ایسی مہمل ردیفیں پیدا کی ہیں اور اسی کے ساتھ ایسے ایسے مکروہ و لغو قافیے استعمال کئے ہیں کہ شاید ہی کہیں اور نظر آئیں۔ مثلاً

    خلاف تنگ۔ شگاف تنگ

    موڑ کی ایک۔ ہنسوڑ کی ایک

    فولاد کی نوک۔ ناشاد کی نوک

    سنگ تڑق ۔ رنگ تڑق

    قاتل کے چار پانچ۔ ساحل کے چار پانچ

    قلقل سے کمر۔ بلبل سے کمر

    گھر میں سلاخ۔ کمر میں سلاخ۔ وغیرہ

    ظاہر ہے کہ ان زمینوں میں کوئی شعر نہیں نکل سکتا، لیکن ظفر نے کثرت سے اس طرح کی غزلیں کہی ہیں اور جہاں تک صرف نظم کر دینے کا تعلق ہے، خوب ہیں ورنہ غزل سے انہیں کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہو سکتا ہے۔ ظفر کا کلام دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ واردات قلب کو نظم کرتے ہیں تو سہل و آسان الفاظ میں خاص قسم کی تاثیر پیدا کر دیتے ہیں اور اسی لئے ان کی مسلسل غزل کی صورت میں پیش کیا ہے اور اس میں شک نہیں کہ خوب ہے۔ ملاحظہ ہو۔

    تو جو مہتابی پہ کل رات کھڑا گاتا تھا

    دائرہ مہ بھی لئے ساتھ کئے جاتا تھا

    بندھ گئی تھی وہ ہوا گانے کی تیری کہ مرا

    ساتھ ہر تان کے جی تھا کہ اڑا جاتا تھا

    کیا کہوں رقص کا عالم عجب انداز کے ساتھ

    ساتھ ٹھوکر کے تری ٹھوکریں دل کھاتا تھا

    ہاتھ کو ہاتھ پہ تو رکھ کے لگا جب چلنے

    ہاتھ ہم ملتے تھے دل تھا کہ ملا جاتا تھا

    لکھتے لکھتے اخیر میں مقطع لکھتے ہیں اور کس قیامت کاکہ،

    آنکھ چاہت کی ظفر کوئی بھلا چھپتی ہے

    اس سے شرماتے تھے ہم، ہم سے وہ شرماتا تھا

    مسلسل غزلوں میں ان کی یہ غزل بہت مشہور ہے۔

    تادرِ جاناں ہمیں اول تو جانا منع ہے

    اور گئے تو حلقہ در کا ہلانا منع ہے

    حلقہ در گر ہلایا بھی تو بولے کون ہے

    اب بتائیں کیا کہ نام اپنا بتانا منع ہے

    نام بتلایا جو میں نے تو وہ سن کر چپ رہے

    پھر پکاریں کس طرح سے غل مچانا منع ہے

    غل مچا کر گر پکارا بھی تو جھنجھلا کے کہا

    جاؤ، کیوں آئے تمہیں گھر میں بلانا منع ہے

    اور بلایا بھی تو پھر جائیں وہاں ہم کس طرح

    وہ جہاں ہیں ہم کو واں تک بار پا نا منع ہے

    بار پا کر کچھ اگر چہ ہم گئے بھی واں تلک

    آنکھ اٹھا کر کیونکر دیکھیں آنکھ اٹھانا منع ہے

    سامنے وہ بھی کسی صورت سے گر آئے تو پھر

    بولنا ہنسنا تو کیا واں مسکرانا منع ہے

    مسکرائے بھی توکچھ چپکے ہی چپکے غنچہ وار

    دل میں کیا کیا مدعا اور لب ہلانا منع ہے

    لب ہلائے بھی تو کی کچھ بات منہ سے اور ہی

    پڑھنا ہر مطلب پہ شعر عاشقانہ منع ہے

    عاشقانہ شعر بھی کوئی پڑھا تو پڑھ کے پھر

    آہ بھرنا منع ہے، آنسو بہانا منع ہے

    آہ بھر کر کچھ اگر آنسو بہائے بھی تو پھر

    وہ جو دل کی بات ہے اس کا جتانا منع ہے

    بات گر دل کی جتائی بھی تو پھر ہوتا ہے کیا

    اے ظفر ایسی جگہ دل ہی لگانا منع ہے

    کہیں کہیں دوران غزل میں قطعہ بھی وہ اسی رنگ کا لکھتے ہیں۔ مثلاً،

    خط جسے چاہو لکھو تم لیکن

    اتنا بندہ پہ کرم کیجئےگا

    وہ جو القاب لکھا ہے مجھ کو

    وہ کسی کو نہ رقم کیجئےگا

    اے ظفر دل کو وہ لیں گر بقسم

    ان کی باور نہ قسم کیجئےگا

    یعنی دل لے کے نہ دیں گے وہ تمہیں

    لاکھ گر چشم کو نم کیجئےگا

    دل انہیں دے کے تم اپنے دل پر

    اپنے ہاتھوں سے ستم کیجئےگا

    مسلسل غزلوں کے سلسلہ میں ظفر نے جو سراپا لکھے ہیں وہ کوئی خصوصیت نہیں رکھتے۔ کیونکہ ندرت تخیل کے نہ ہونے کی وجہ سے تمام تشبیہات پامال و فرسودہ استعمال کی گئی ہیں۔ چیں جبیں کو موجِ سمندر (عربی لفظ کی اضافت ہندی لفظ کے ساتھ) ابرو کو باب سکندر، مانگ کو خط کہکشاں، پیشانی کوماہ انور، بالوں کو شب یلدا، رخ کو خورشید محشر، جوڑے کومشک نافہ، عارض کو صبح صادق، قد کو قیامت، جس طرح اور شعر ا اس سے قبل لکھ گئے تھے، ظفر نے بھی لکھا ہے لیکن ایک غزل میں ہلکے ہلکے جذبات سے ملا ہوا سراپا شاید کسی مغنیہ کا ظفر نے ا چھا لکھا ہے۔

    شمشیر برہنہ مانگ غضب بالوں کی مہک پھر ویسی ہی

    جوڑے کی گندھا وٹ قہر خدا بالوں کی مہک پھر ویسی ہی

    ہر بات میں اس کے گرمی ہے ہر ناز میں اس کے شوخی ہے

    قامت ہے قیامت چال پر ی چلنے میں پھڑک پھر ویسی ہے

    نوخیز کچیں دو غنچہ ہیں، ہے نرم شکن اک خرمن گل

    باریک کمر جوں شاخ گل رکھتی ہے لچک پھر ویسی ہی

    محرم ہے حباب آب رواں سورج کی کرن ہے اس پہ بلا

    جالی کی ہے کرتی اس کی بلا گوٹے کی دھنک پھر ویسی ہی

    وہ گائے تو آفت لائے ہے ہر تال میں لیو ے جان نکال

    ناچ اس کا اٹھائے سو فتنے گھنگر و کی جھنک پھر ویسی ہی

    ہر بات پہ ہم سے وہ جو ظفر کرتا ہے رکاوٹ مدت سے

    اور اس کی چاہت رکھتے ہیں ہم آج تلک پھر ویسی ہی

    اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ظفر کو اپنے جذبات و احساسات کے اظہار پر کافی قدرت تھی اور وہ کسی واقعہ یا تاثر کو کافی شرح و بسط اور جزئیات کا پورا احاطہ کرتے ہوئے ظاہر کر سکتے تھے۔ اسی لئے طویل بحروں کی غزلیں یا مستزاد انہوں نے بہتر لکھی ہیں اور تنگ بحروں میں وہ کامیاب نہ ہوتے تھے کیونکہ فارسی تراکیب کا استعمال وہ کرتے نہ تھے، اور وسیع مطالب کو مختصر الفاظ میں ظاہر کرنے کے لئے فارسی ترکیبوں کا استعمال نا گزیر ہے۔ اگر کہیں فارسی ترکیب انہوں نے استعمال کی ہے تو ردیف و قافیہ سے مجبور ہو کر مثلاً یہ غزل،

    مانند شمع عشق میں گردن بریدہ ہوں

    پر بل بے سر کشی کہ وہی سر کشیدہ ہوں

    مطلب نہ آشنا سے نہ دام و قفس سے کام

    میں اس چمن میں طائر رنگ پریدہ ہوں

    بدلے زلال خضر نہ منہ کا مرے مزا

    میں تلخ کام زہر محبت چشیدہ ہوں

    وحشت کے وہ ہی ڈھنگ ہیں مستی سے تا قدم

    میں وحشی رمیدہ کہاں آرمیدہ ہوں

    نے شمع انجمن ہوں نہ میں لالہ چمن

    پھر کیوں جہاں میں داغ بدل آفریدہ ہوں

    فارسی کا ذوق ظفر کا ناقص تھا، جیسا کہ ان کی بعض فارسی غزلوں سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک غزل کے بعض اشعار ملاحظہ ہوں،

    اے بت طناز قربانت شوم

    اے سراپا ناز قربانت شوم

    حلقہ زلف و کمند جان و دل

    اے کمند انداز قربانت شوم

    چوں مسیحا در لب جاں بخش تو

    صد ہزار اعجاز قربانت شوم

    مرغ جانم در ہوائے کوئے تو

    می کند پرواز قربانت شوم

    تا بہ قربان گاہ من یکرہ زناز

    باز آ تا باز قربانت شوم

    تو بہر انداز بنما جلوہ

    من بہرانداز قربانت شوم

    ہر دم آں ابرو کماں را از ظفرؔ

    می ر سد آواز قربانت شوم

    معلوم ہوتا ہے کہ کہنے والے کو فارسی زبان سے کوئی مس ہی نہیں ہے۔

    ظفر کے یہاں اس رنگ تصوف کے بھی اشعار کہیں کہیں پائے جاتے ہیں جس کا لطف صاحب حال حضرات کے مطالعہ کے بعد ہی حاصل ہو سکتا ہے اور بعض بعض صوفیہ نے فارسی میں بےاختیارانہ طور پر اس کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ ظفر نے بھی انہیں کے تتبع میں چند غزلیں اس رنگ کی لکھی ہیں لیکن چونکہ صرف قال ہی قال ہے اس لئے بے کیف ہیں۔

    صوفیوں میں ہوں نہ رندوں میں نہ مے خواروں میں ہوں

    اے بتو! بندہ خدا کا ہوں گنہگاروں میں ہوں

    میری ملت ہے محبت میرا مذہب عشق ہے

    خواہ میں ہوں کافروں میں خواہ دینداروں میں ہوں

    اسی طرح وہ کہتے گئے ہیں کہ نہ گلوں میں ہوں نہ خاروں میں، نہ مدہوشوں میں ہوں نہ ہوشیاروں میں ہوں، نہ آزادوں میں ہوں نہ گرفتاروں میں اور صرف ایک شعر ان کا اس غزل میں اچھا ہے۔

    جو مجھے لیتا ہے پھر وہ پھیر دیتا ہے مجھے

    میں عجب اک جنس ناکارہ خریداروں میں ہوں

    ظفر ایک بزرگ شاہ فخر الدین کے مرید تھے، جن کا ذکر انہوں نے متعدد جگہ اپنے کلیات میں کیا ہے۔ اس غزل کے مقطع میں بھی لکھتے ہیں۔

    اے ظفر میں کیا بتاؤں تجھ سے جو کچھ ہوں سوہوں

    لیکن اپنے فخر دیں کے کفش بر داروں میں ہوں

    ظفر نے پنجابی زبان میں کہیں کہیں کاوش کی ہے اور مخمس، تضمین، رباعی وغیرہ بھی ان کے کلیات میں پائی جاتی ہیں لیکن کوئی خصوصیت ان میں بھی نہیں ہے۔ بہرحال ظفر شاعر تھا ا ور نہایت پر گو قسم کا اور باوجود اس سخافت دونایت کے جو رعایات لفظی، ادنیٰ تشبیہات اور مشکل زمینوں میں محض قدرت نظم ظاہر کرنے کے سلسلہ میں اس سے ظاہر ہوئی ہے، ہم کو ماننا پڑےگا کہ ظفر کو قدرت نے شاعر پیدا کیا تھا۔ لیکن نہایت ہی سیدھا سادھا شاعر جو مادی عشق کے مادی جذبات کے نظم کرنے میں بغیر کسی جوش خروش اور بغیر کسی غیر معمولی بلندی کے پوری مہارت رکھتا تھا۔ زبان کی صفائی اور روز مرہ کی خوبی، یہ دو باتیں ان کے کلام میں ایسی ہیں جن کو تمام تذکرہ نویسوں نے بالاتفاق تسلیم کیا ہے۔ موجودہ چاروں دیوان جنہیں نول کشور پریس نے چھاپا ہے، وہی ہیں جو رنگون جانے سے قبل مرتب ہو چکے تھے۔ قیام رنگون کے زمانہ کا کلام دستیاب نہیں ہوتا۔ ممکن ہے انقلاب حالات کی وجہ سے اس میں کوئی اور کیفیت پیدا ہو گئی ہو۔

    ظفر کی ولادت 1775ء میں ہوئی، 1837ء میں تخت نشین ہوئے، 1858ء میں معزول کر کے رنگون بھیج دیے گئے اور 1862 میں انتقال ہوا۔ وہ بہت منکسر مزاج، متواضع، رحم دل، مخیر شخص تھا، اس نے کبھی کسی کو کوئی آزار نہیں پہنچایا اور نہ عصبیت اس سے ظاہر ہوئی۔ عام تصوف کا ذوق رکھنے والوں کی طرح اس میں تفضیلی رنگ غالب تھا اور اس لئے مجالس عزا داری وغیرہ کا بھی پابند تھا۔ ذیل میں اس کے کلام کا ایک سر سری و ناقص کا انتخاب پیش کیا جاتا ہے۔

    کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا

    کوئی یاں تک اسے لایا تو ہوتا

    جو کچھ ہوتا سو ہوتا تو نے تقدیر

    وہاں تک مجھ کو پہنچایا تو ہوتا

    میں اس کو دیکھ کے یہ محو ہوں کہ حیران ہوں

    جو کچھ وہ پوچھے گا مجھ سے جواب کیا دوں گا

    نہ پوچھ مجھ سے ظفر تو میری حقیقت حال

    اگر کہوں گا ابھی تجھ کومیں رلا دوں گا

    وہ بےحجاب جو کل پی کے یاں شراب آیا

    اگر چہ مست تھا میں پر مجھے حجاب آیا

    بیچ میں پر دہ دوئی کا تھا جو حائل اٹھ گیا

    ایساکچھ دیکھا کہ دنیا سے مرا دل اٹھ گیا

    اے ظفر کیا پوچھتا ہے بےگناہ و پر گناہ

    اٹھ گیا اب توجدھر کو دست قاتل اٹھ گیا

    یہ کراہا ترا بیمار الم درد کے ساتھ

    کسی ہمسایہ کو بیمار نے سونے نہ دیا

    میری آنکھ بندتھی جب تلک وہ نظر میں نور جمال تھا

    کھلی آنکھ تو نہ خبر رہی کہ وہ خواب تھا کہ خیال تھا

    مرے دل میں تھا کہ کہوں گا میں جو یہ دل پہ رنج و ملال تھا

    وہ جب آ گیا مرے سامنے نہ تو رنج تھا نہ ملال تھا

    بھید دل کا گر یہ سے اے چشم نم کھل جائےگا

    وہ جو ہے پوشیدہ اپنا حال غم کھل جائےگا

    اس کے رکنے پرنہ جا، پیتے ہی جام مے ظفر

    دیکھنا باتوں میں وہ کافر صنم کھل جائےگا

    نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر

    پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

    کئی روز میں آج وہ مہر لقا ہوا میرے جو سامنے جلوہ نما

    مجھے صبر و قرار ذرا نہ رہا اسے پاس حجاب و حیا نہ رہا

    وہ بگڑے ایسے کہ پھر کچھ معاملہ نہ بنا

    رہی نہ جائے سخن موقع گلہ نہ رہا

    جو دل لیا ہے تو عہد وفا پہ قائم رہ

    ظفر سے آپ کو تو بد معاملہ نہ رہا

    دے دیا دل اور نہیں اب یاد کہ کس کو دیا

    عشق کو کھودے خدا جس نے جہاں سے کھو دیا

    خواہ وہ داغ جنوں ہو خواہ کوئی اشک خوں

    ہم نے سر آنکھوں پہ رکھا عشق تونے جو دیا

    چاہے دلداری کرے چاہے دل آزاری کرے

    اے ظفر اس دل ربا کو ہم نے دل اب تو دیا

    کیا کہوں کیونکر ترے کوچہ میں ہوکر آیا

    تجھ کوپایا جو نہیں خوب میں رو کر آیا

    ہے عشق کی منزل میں یہ حال اپنا کہ جیسے

    لٹ جائے کہیں راہ میں سامان کسی کا

    گلی گلی تری خاطر پھرا بہ چشم پر آب

    لگا کے تجھ سے دل اپنا بہت خراب ہوا

    قسم خدا کی تجھے قاصد کہ یہ پیغام

    کہا ہے یار نے یا تو نے اپنے جی سے کہا

    ظفر وہ دشمن جاں ہے اسے نہ جانیو دوست

    ترے جتانے کو ہم نے یہ دوستی سے کہا

    کیا بات یاد آ گئی اس کو کہ اے ظفر

    وہ یک بیک جو سن کے مرا نام ہنس پڑا

    کوچہ میں ترے تنہا ہر شب مجھے ہو جانا

    دو چار گھڑی اپنا دل کھول کے رو جانا

    نیند آئے ظفر کیونکر یاد آئے جوشب مجھ کو

    سر رکھ کے سرِ زانو اس یار کے سو جانا

    وہ توہے نا آشنا مشہور عالم میں ظفر

    پر خدا جانے وہ تم سے آشنا کیونکر ہوا

    کچھ خبر قاصد نے دی ایسی کہ سنتے ہی جسے

    دل سے میں، مجھ سے مرا دل بےخبر ہونے لگا

    ہم نے کہہ کر اپنا حال دل دیا سب کو رلا

    ہر طرف رو مال پر رومال تر ہونے لگا

    کوچہ جاناں میں جانا ہی پڑےگا ہو سو ہو

    کیا کروں بے تاب دل پھر اے ظفر ہونے لگا

    مجھ کو سمجھائیں گے یا میرے دل دیوانہ کو

    حضرت ناصح سے پوچھو کس کو سمجھائیں گے آپ

    آپ کی خاطر سے ہم کرتے تھے ضبط اضطراب

    دیکھ کر بیتاب ہم کو اور گھبرائیں گے آپ

    وقت غفلت اور ہے، ہنگام ہشیاری ہے اور

    خواب کی سیر اور ہے اور سیر بیداری ہے اور

    درمندانِ محبت کا طبیبوں سے علاج

    کس طرح ہو سکے یارو، یہ بیماری ہے اور

    میکدہ میں عشق کے جو لوگ ہیں کافر تو ہیں

    لیکن ان کے کفر میں اندازِ دین داری ہے اور

    کبھی تو آؤ ہمارے گھر میں سنو ہماری بھی چار باتیں

    عجب ہے شکوہ رقیب کایاں ہزار منہ ہیں ہزار باتیں

    گئے ظفر کل جو اس کے گھر ہم کھلا یہ شکوہ کا آگے دفتر

    گزر گئی شب تمام تس پر نہ ہو چکیں زینہار باتیں

    یار دل مانگے نہ دوں کیونکر، کہو تو کیا کروں

    اور جب دے دوں تو لوں کیونکر، کہو تو کیا کروں

    جب کہ پوچھے یار مجھ سے شیفتہ ہے کس پہ تو

    منہ سے میں اپنے کہوں کیونکر، کہو تو کیا کروں

    اپنا احوال محبت سامنے اس کے ظفر آپ

    میں لکھ کر پڑھوں کیونکر، کہو تو کیا کروں

    یار ہو پیش نظر یہ کبھی ہونے کا نہیں

    ہو تو دیکھوں نہ ادھر یہ کبھی ہونے کانہیں

    صبر مشکل ہے نہ کر صبر کا دعویٰ ہرگز

    عشق میں تجھ سے ظفر ؔیہ کبھی ہونے کا نہیں

    تم نظر آ جاؤ شاید اس ہوس میں آج ہم

    صبح سے تا شام سوئے رہ گزر دیکھا کئے

    گر نہیں ہے ربط کچھ باہم تو پھر محفل میں شب

    تم انہیں اور وہ تمہیں کیوں اے ظفر ؔدیکھا کئے

    نہیں ہے طاقت پرواز آہ اے صیاد

    خدا کرے کہ تو اب وا در ِقفس نہ کرے

    جو اس کی جان پہ گزری ہے وہ ہی جانے ہے

    خدا کسی کوجہاں میں کسی کے بس نہ کرے

    بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

    جیسی اب ہے تری محفل میں کبھی ایسی تو نہ تھی

    لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار

    بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی

    مأخذ:

    انتقادیات (Pg. 75)

    • مصنف: نیاز فتح پوری
      • ناشر: عبدالحق اکیڈمی، حیدرآباد
      • سن اشاعت: 1944

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے