Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Haseebul Hasan's Photo'

حسیب الحسن

1995 | خوشاب, پاکستان

حسیب الحسن کے اشعار

161
Favorite

باعتبار

حضور آپ تکلف میں کیوں پڑے ہوئے ہیں

مرے ہوؤں کے جنم دن نہیں مناتا کوئی

تجھے پتہ تھا میں تیرے بغیر کچھ بھی نہیں

ذرا ترس بھی نہ آیا تجھے بچھڑتے ہوئے

پاگل کیا ہے عشق نے آدھا جو رہ گیا

اب آدھے سر کے درد کا پورا مریض ہوں

ہماری خیر ہے لیکن بس اک گزارش ہے

ہمارے بعد کسی سے بھی یوں نہیں کرنا

پہلے بھی میرے گاؤں میں گھائل ہیں تین شخص

آزار آگہی کا میں چوتھا مریض ہوں

ہمارے دل سے نکلتے ہوؤں کو سات سلام

وہ اس لیے کہ وہ اس حبس میں مکین رہے

نہ میرے پاس تسلی نہ اس کے پاس آنسو

خدا کے سامنے بے بس کھڑے ہیں ہم دونوں

داد کب پاتے ہیں اس میرؔ کی دیوانی سے

زنگ آلود تخیل سے کھرونچے ہوئے شعر

پچھلے جنم کا کوئی تعلق تھا اس کے ساتھ

دیکھے بغیر مجھ کو خد و خال یاد تھے

خوف اس درجہ مسلط تھا ترے بعد حسنؔ

دل دھڑکتا تھا تو ہم خود سے لپٹ جاتے تھے

میں کئی کام تو دانستہ غلط کرتا تھا

تاکہ وہ نقص نکالے کہ نہیں ایسے کر

زمانے بھر کی دعائیں مرے لئے تھیں مگر

میں چاہتا ہی نہیں تھا کہ صبر آ جائے

تمہارے حسن کا صدقہ اترنا لازمی ہے

سو یوں کرو کسی بچے کو ماتھا چومنے دو

ہم ایسے لوگ ضائع ہو رہے ہیں

خدا چپ چاپ دیکھے جا رہا ہے

ہماری وحشت کسی پرانے کھنڈر کے آسیب کی امانت

ہماری غزلیں ہماری دیوی کی ایک ترچھی نظر کا صدقہ

خدا کے بعد اسے مجھ پہ مان تھا کیونکہ

خدا کے بعد اسے میں ہی پیار کرتا تھا

میں بہت سوچ کے بچھڑا تھا محرم میں حسیبؔ

میں نے اس شخص کو رونے کی سہولت دی تھی

شاہزادی کی مرضی ہے لیکن

مجھ سے اچھا غلام کوئی نہیں

قسم ہے تیرے تغافل کی تجھ سے پہلے مجھے

نہیں پتہ تھا کہ احساس کمتری کیا ہے

اسے بتانا پرندے اسے بلاتے ہیں

اسے بتانا کہ شاعر اداس ہے اس کا

یہ ساتھ گاؤں میں ایک چھوٹا سا کام ہے بس

مری اداسی اداس مت ہو میں آ رہا ہوں

ہمی پریم چند کی کہانیوں کے لوگ ہیں

وہ لوگ جن کی عمر کو ادھار نے نگل لیا

ہمارے آنسو کسی ٹھکانے تو لگ رہے ہیں

فرات کے بد نصیب پانی کا کیا بنے گا

اس کے معیار پر خدا لائے

اس نظر تک تو آ گئے ہیں ہم

لاکھ میٹھے ہوں ترے شہر کے چشمے لیکن

ہم ترے شہر کو خوش آب نہیں کہہ سکتے

ہمارے بعد کوئی سر پرست مل نہ سکا

یتیم خانے میں رکھا گیا محبت کو

تمہاری آنکھوں پہ نظم کہنے سے پہلے ہم نے بھگوئی آنکھیں

سنا ہوا تھا زمین نم ہو تو اچھی ہوتی ہے کاشتکاری

تیرے خوابوں کے پیچھے بھاگی تھیں

میری آنکھوں میں پڑ گئے چھالے

تمہارا حسن یہ کھلتا ہے جیسے دھیرے سے

ہمارے شعر بھی ایسے ہی دیر پا ہوں گے

تمہارے جانے کے بعد ہم نے سکون ڈھونڈا کچھ اس طرح سے

بچھڑنے والوں کے پاؤں پڑنا انہیں جدائی سے باز رکھنا

ابھی سے سوچ لو پھر واپسی نہیں ہوگی

طلسم بڑھتا ہی جائے گا دن بہ دن اس کا

ستارے دیکھنے والے ہمیں بتاتے ہیں

ہمارے ہونٹ تمہاری جبیں کو ترسیں گے

اب اس کی مرضی مسافر کہے کہ گرد پا

میں اس کے ساتھ مسلسل سفر میں رہتا ہوں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے