نورالحسنین کے افسانے
بیچ بھنور ندیا گہری
اقبال صا حب نے اخبار کی سرخی پڑھنے کے بعد پوری خبر کوپڑھنا بھی ضروری نہیں سمجھا اوراسے غصے سے کتابوں کے ریکٹ کی طرفا چھال دیا اور سوچنے لگے، حد ہو گئی اب تو ایسا لگتا ہے مسلمانوں سے ان کا اللہ بالکل ہی روٹھ گیا ہے اور انھیں آر ایس ایس کے حوالے کرکے بےفکر
بھور بھئی جاگو
وہ اپنے آفیس، آثار قدیمہ کے ٹیرس پر آنکھوں پر دور بین لگائے ایلورہ کی پہاڑیوں کا جائزہ لے رہا تھا کہ اچانک اس کی نظروں میں پہاڑ کی بلندی سے غار کے دامن پر گرتے ہوئے آبشار پر ٹھہر گئیں۔ سورج غروب ہونے کی تیاریوں میں تھا اور اس کی نرم سنہری کرنیں زمین
یہ عشق نہیں آساں
فضل محمد یہاں جب سے آیا پیدل ہی گھوم رہا تھا۔ شہر کی گلیوں میں اس کے بچپن کا ایک ایک لمحہ جیسے زندہ ہوتا جا رہا تھا۔ کبھی وہ کسی نکڑ پر آنکھیں بند کرکے کھڑا ہو جاتا اور ماضی کسی دریا کے تیز دھارے کے مانند اچھلتا کودتا اس کی آنکھوں سے بہہ جاتا۔ وہ آنکھیں
یہ تیرے پراسرار بندے
اس کے دماغ میں انجیل مقدس کے الفاظ گونج رہے تھے، ‘’بدن میں ایک ہی عضو نہیں، بلکہ بہت سے ہیں، اگر پاؤں کہے چونکہ میں ہاتھ نہیں اس لیے بدن کا نہیں، تو وہ اس سبب سے بدن سے خارج تو نہیں اور گر کان کہے چونکہ میں آنکھ نہیں اس لیے بدن کا نہیں، تو کیا وہ بدن
گڑھی سے ابھرتا سورج
قاضی سلطان کا سیدھا ہاتھ اتنی شدت سے ہوا میں بلند ہوا کہ اگر وہ ان کے بھانجے کے منہ پر گرتا تو یقیناً اس کے پورے دانت زمین پر ہوتے، لیکن ہاتھ اوپر ہوا ہی میں معلق رہ گیا اور پھر ان کی تین انگلیاں اور انگوٹھا ہتھیلی میں گھڑی ہو گئے اور ا نگشت شہادت آسمان