سرور جمال کے طنز و مزاح
اگر میں شوہر ہوتی
آپ پوچھیں گے کہ میرے دل میں ایسا خیال کیوں آیا؟ آپ اسے خیال کہہ رہے ہیں؟ جناب یہ تو میری آرزو ہے، ایک دیرینہ تمنا ہے۔ یہ خواہش تو میرے دل میں اس وقت سے پل رہی ہے، جب میں لڑکے لڑکی کا فرق بھی نہیں جانتی تھی۔ اس آرزو نے اس دن میرے دل میں جنم لیا،
مفت کےمشورے
یہ کوئی انگلینڈ یا امریکہ تو ہےنہیں جہاں خیال بکتا ہو۔ مشورے حاصل کرنے کےلئے روپیہ خرچ کرنا ہوتا ہے۔ کسی سےملنے یا باتیں کرنےکےلئے ہفتوں پہلے اپوائنٹ منٹ کرنا پڑتا ہو، یہ جناب ہندوستان ہے ہندوستان، جہاں رشتہ داروں سے زیادہ ملاقاتی اور ملاقاتیوں سے زیادہ
دوپٹے سے پٹے تک
’’اے ہے! یہ نگوڑا مارے دو ڈھائی گز کے دوپٹے تم سے نہیں سنبھلتے؟‘‘ ’’غضب خدا کا، تمام مردوں کا سامنا ہورہا ہے اور تمھارے سر پر دوپٹہ تک نہیں ٹکتا۔‘‘ ’’الہیٰ خیر! یہ دوپٹہ ہے یا گلے کا ہار؟‘‘ ’’ارے بی بی سر پر دوپٹہ تو ڈالو۔‘‘ یہ تیر
جنون لطیفہ
لطیفہ کا جنون بھی کیا جنون ہوتا ہے صاحب۔ معاف کیجئے گا، لطیفہ کا نہیں، لطیفہ گوئی کا۔ جنونِ لطیفہ کے مریض کی پہچان یہ ہے کہ وہ خود کوئی لطیفہ سننا پسند نہیں کرتا۔ بفرض محال اگر اس نے ایک لطیفہ جبراً قہراً سن بھی لیا تو اس کے بدلے بلا مبالغہ آپ کو
میڈم
میڈم نے بھی کیا عجیب طبیعت پائی ہے۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ کبھی ہنسی کا پٹارا بنی خود قہقہہ لگارہی ہیں اور دوسروں کو بھی قہقہہ لگانے کی دعوتِ عام دے رہی ہیں، کبھی سنجیدگی کے ایسے گہرے لبادے میں کہ مسکراہٹ تک منہ پر نہیں آتی۔ موڈ میں آئیں تو
شوہر ہونے کے بعد
ایک صبح میری آنکھ کھلی، تو میں نے دیکھا کہ میں ایک شوہر ہو چکی ہوں۔یہ معجزہ کیسےظہور پذیر ہوا، اس کےلئے میں خود حیران ہوں، بس اتنا یاد ہے کہ ایک بارمیں نےشوہر بننےکی خواہش ٹوٹ کرکی تھی۔ قدرت نےغالباً میری پچھلی تمام خواہشوں کی پامالی کےصلہ میں اتنی
وقت کی مار
بچپن سے سنتے چلے آرہےہیں، کہ وقت بہت بری شئےہے۔ ایسا نہ ہوتا تو یہ محاورے کیسے بنتے۔ ’’وقت آپڑا ہے۔‘‘ ’’وقت وقت کی بات ہے۔‘‘ ’’خدا کسی پر وقت نہ ڈالے۔‘‘ وقت کی اہمیت جانے بغیران محاوروں کو موزوں وناموزوں لاتعداد بار استعمال کرتی چلی