Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مفت کےمشورے

سرور جمال

مفت کےمشورے

سرور جمال

MORE BYسرور جمال

    یہ کوئی انگلینڈ یا امریکہ تو ہےنہیں جہاں خیال بکتا ہو۔ مشورے حاصل کرنے کےلئے روپیہ خرچ کرنا ہوتا ہے۔ کسی سےملنے یا باتیں کرنےکےلئے ہفتوں پہلے اپوائنٹ منٹ کرنا پڑتا ہو، یہ جناب ہندوستان ہے ہندوستان، جہاں رشتہ داروں سے زیادہ ملاقاتی اور ملاقاتیوں سے زیادہ احباب ہوتے ہیں، اور جہاں یہ مقولہ بری طرح فیل ہوجاتا ہے کہ ’’واقف کار زیادہ سے زیادہ بناؤ لیکن دوست صرف چند رکھو۔‘‘ اور ان سب کے مقابلہ میں جو چیز ہندوستان میں بکثرت پائی جاتی ہے، وہ ہے ’مفت کا مشورہ‘ مفت،بالکل مفت، ایک دم مفت اور قطعی مفت مشورے دینے والے ہر قسم اور ہر عمر کے حضرات اور خواتین سے ہمارا آئے دن پالا پڑتا رہتا ہے، کوئی صورت نہیں کہ ہم ہر ایک کے قیمتی اور فاضل مشوروں سے جان چھڑاسکیں۔

    سچ پوچھئے، تو مشورہ دینے میں یہ بڑے ہی فراخ دل ہوتے ہیں۔ آپ ان سے خوش ہوں یا نہ ہوں، لیکن یہ عام طور پر آپ سے ناخوش رہا کرتے ہیں کہ آپ ان کے فالتو مشوروں سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاتے اور نہ ان کی صلاحیتوں سے مستفیض ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

    مشورے دینے والے دوقسم کے ہوتے ہیں، ایک تو وہ جو وقت بے وقت ہرجگہ اور ہر موقع پر اپنی قیمتی رائے دینے کوتیار رہتے ہیں۔ دراصل یہ پیشہ ور مشیر ہوتے ہیں،لیکن مشورے ان کے بالکل مفت ہوتے ہیں۔ ان کے مفت مشورے اکثر جان لیوا ثابت ہوتے ہیں جن پر بھولے سے بھی عمل کرنے کے بعد زندگی بھر قیمت چکانی پڑتی ہے، یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے مشورے پر چلنے کی چبھن زندگی بھر دل پر کچوکے لگاتی رہتی ہے۔ مثلاً ایک فاضل مشورہ دینے والے نے فرمایا، ’’ارے یہ کیا گرم گرم پانی پیتی رہتی ہے۔ برف ورف کے چکر میں پڑنا بھی کیا، بس سیدھے سے ایک ریفری جریٹر لےلو۔‘‘

    ان کے نزدیک تو بہت ہی سستا نسخہ تھا بتا کر چلے گئے، ان سے یہ بھی تو نہ ہوا کہ اس مہنگائی میں ریفری جریٹر خریدنےکےمالی پہلو پرغورکرنےکےبعد زیادہ سے زیادہ ’آئس باکس‘ خریدنے کی رائے دیتے۔

    اب ذرا ریفری جریٹر کےدلکش تصورکوذہن میں لائیے۔ جب بھی چلچلاتی دھوپ اور لو میں پسینہ پسینہ ہونے کے بعد آپ کا دل ٹھنڈے پانی یا آئس کریم کو چاہے گا تو ان کا مشورہ آپ کو یاد آئے گا اور زندگی بھر ریفری جریٹر کی یاد یا کمی آپ کو ستاتی رہے گی۔

    مشورہ دینے والوں کی دوسری تکلیف دہ قسم وہ ہے جو وقتی طور پرکسی تکلیف سےمتاثرہونےکےبعد آپ کو کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلا کرنےپرآمادہ ہوجاتے ہیں مثلاً آپ کا کوئی اچھا بھلا ملاقاتی آپ کے شاندار پانچ منزلہ عمارت کی ساری سیڑھیاں طے کر کے جب ہانپتا کانپتا اوپر پہنچے تو مکان کی تعریف کے بعد آپ کو بتائے کہ اتنےعمدہ مکان میں آپ نے بس ایک کسر چھوڑدی ہے اور جب آپ سوالیہ نشان بن جائیں تو بڑی سادگی اور بھولے پن سے وہ مشورہ دیں، ’’آپ اس میں لفٹ کیوں نہیں لگوالیتے۔‘‘

    آپ کےمہربان تومشورہ دے کرچلتےبنیں گےلیکن زندگی بھرزینےاترنے چڑھنےکےساتھ ہرباران کا ’لفٹ‘ کا مشورہ آپ کا تعارف کرتا رہےگا اورہمیشہ آپ کورونا رہےگا کہ مفلسی کےسبب ایک لفٹ تک نہ لگواسکے۔

    ان مشورہ دینےوالوں کےآئےدن کےمشوروں سےتو میرے کان پک گئے۔اتفاق سے ایک بار امتحان میں فیل ہوگئی، اب جو پرسا دینے والوں کا تانتا بندھا تو دل ہی دل میں خدا کا شکر بجالائی، کہ اگرغلطی سے پاس ہوجاتی تواتنےلوگوں کومٹھائی کھلانے کے لئے خود حلوائی بننا پڑتا۔ جو آتا وہ فیل ہونے پر اظہارِ افسوس تو کم کرتا اور پاس ہونے کے مشورے زیادہ دیتا۔ جن بزرگوں نے ہمیں دن رات محنت سے پڑھ کر اگلا امتحان پاس ہونے پر زور دیا تھا، ان میں سے زیادہ تر کی سات پشتوں میں بھی کسی نے کتاب کی شکل نہیں دیکھی تھی، اور ان کی قابلیت کا یہ عالم تھا کہ خود گھر کے روزمرّہ کے سودا سلف اور دھوبی کے کپڑوں تک کا حساب نہ دیکھ سکتے تھے، بلکہ بعض انگوٹھا لگانے والے تک ہمیں مشورہ دے رہے تھے۔

    ایک دن میں اپنا غرارہ جو سینے بیٹھی، تو پڑوس کی بی آمنہ ٹپک پڑیں، پہلے تو انہوں نےکپڑے کا بغور معائنہ کرکے اس میں نقص نکالا، ہمارا جی ہی تو جل گیا، اس کے بعد کتربیونت اور سلائی کے بارے میں اپنی رائے دیتی رہیں۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ وہ سلائی کے بارے میں قطعی ناواقف ہیں، بس ان کے ذہن میں دوچار فلمی غرارے تھے، جن کے بل پر وہ اپنی بے پناہ قابلیت کا رعب مجھ پر جھاڑ رہی تھیں۔

    مگر سب سے زیادہ غصّہ تو ان پر آتا ہے، جو کھانے پینے کی چیزوں میں اپنا مشورہ ملا کر کھانے پینے کا ناس مارتے ہیں،مثلاً ہمیں آلو،مٹراورٹماٹرپسند ہیں تووہ لوکی، ترئی اور بھنڈی کے افادی پہلو پر غور کرنے کا مشورہ دیں گے، اگر ہمیں چاول بھاتا ہے تو وہ اصرار کریں گے، کہ روٹی کھایا کیجئے۔ اس قسم کے مشورے لاکھ اس کان سے سن کر اس کان سے اڑادیں، مگر اس سے ہماری ’جنرل نالج‘ میں جواضافہ ہوتا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا، کہ کس ترکاری میں وٹامن ’ب‘ ہے اور کس میں ’ٹ۔ غرضیکہ ٹ، ث، ج، چ، ح‘ سبھی طرح کے وٹامنوں سے پوری پوری واقفیت ہوجاتی ہےاورگیہوں بشرطیکہ کنٹرول میں آنےکی وجہ سےسڑنہ چکےہوں،چاول سےزیادہ طاقتورہوتے ہیں۔ حالانکہ گیہوں کےبارے میں ہم اتناعلم ضرور رکھتے ہیں کہ گیہوں کھانےکےبعد ہی حضرت آدم علیہ السلام اس دنیا میں پہنچنے کے مرتکب ہوئے تھے،اوراب ان کا گیہوں کھانے کا مشورہ خدا جانے ہمیں کس جہنم میں لے جائے۔

    ہمارے بعض ملاقاتی تو مشورہ دینے میں اس قدر حاتم واقع ہوئے ہیں کہ ہمیں طرح طرح کے مشورے دینے کی فکرمیں دن رات دبلے اور بیمار رہتے ہیں اور وہ گھرکےہرمعاملےکواپنا معاملہ سمجھتے ہیں، اگر گرمیاں گذارنے کے لئے ہم کشمیر جانے کو بالکل ٹکٹ بہ دست ہوں، تو وہ اصرارکریں گے،کہ بھئی کشمیر میں کیا رکھا ہے،نینی تال یا شملہ جاؤ، اورمزے کی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے پہاڑ اور پہاڑی تو کیا،کوئی ٹیلہ تک نہیں دیکھا۔ لیکن جمہوریت میں آزادیٔ رائے، اورصحت مند حزبِ مخالف کا ہونا ضروری ہے، اس لئے وہ عادت سے مجبورہوکراختلاف برائے اختلاف کی خاطر کشمیر پر شملہ کو ترجیح دے رہے ہیں۔

    کچھ بھلے مانس اپنی بات اوپر رکھنے یا نبھانے کی خاطر مشورے دیا کرتے ہیں، اگر آپ نے اوشا سلائی مشین خریدی ہے، تو یہ فوراً آپ کی ٹانگ کھینچیں گے، کہ ’میرٹ‘ کیوں نہیں خریدی، وہ تواس سےزیادہ اچھی ہوتی ہے،اگرآپ سینی پنکھاخرید لائے ہیں،تو وہ آپ کی جان کو آجائیں گےکہ آپ اس کو واپس کرکے ’اوشا‘ پنکھا لےآئیں۔

    اس قسم کےمشورے دینےوالوں کی اس وقت سب سے زیادہ بن آتی ہے جب ان کی دعاء سے ان کا کوئی دوست یا عزیز بیمار پڑجاتا ہے۔ اس کے بعد ان کے غول کے غول آپ کے غریب خانے پر گرنا شروع ہوجائیں گے، انھیں اس سے بحث نہیں کہ آپ کو محض موسمی بخاریا معمولی نزلہ بخار ہوگیا ہے، وہ کسی بھی صورت میں اسے’ٹی بی‘ سے کم کا درجہ نہ دیں گے، ان کی پوری کوشش یہ ہوگی کہ آپ زندگی سے ہاتھ نہ دھوسکیں، تو کم ازکم صحت سے تو دھوہی لیں۔ اس کا تجربہ مجھے پچھلی برسات میں اس وقت ہوا، جب میں موسمی بخار میں مبتلا ہوکر بسترِ علالت پر دراز تھی، جس کے چاروں طرف عیادت کرنے والوں کا صبح سے شام بلکہ رات گئے تک میلہ سا لگا رہتا تھا۔

    ایک بڑی بی آئیں، تو آتے ہی انہوں نے ماتھے پر ہاتھ رکھا، نبض کے دھوکے میں کلائی پکڑ کر ٹٹولتی رہیں، سینہ ٹھونک بجا کر دیکھا۔ ہماری جملہ بدپرہیزیوں کا جائزہ لینے کے لئے کمرہ کے چاروں طرف گہری نظروں سے معائنہ کیا، لیکن جب کمرہ میں یا میرے آس پاس ایسی کوئی چیز تو درکنار’نمدا‘ تک نہ ملا،توپھرمیری شامت آئی، بولیں، ’’آخرکیسے آگیا بخار؟ کیا کیا کھایا تھا؟ ٹھنڈے میں غسل کیا تھا؟ کیلا کھایا تھا،یا امرود اورسیب وغیرہ کوئی ٹھنڈی چیزاس برسات میں کھائی تھی،یا شبنم میں سوگئی تھیں؟‘‘

    ان کی جرح جاری تھی، اور ہم دل ہی دل میں حیران، کہ نہانا تو صحت کے لئے ضروری ہے اور پھل صحت بخش چیز ہوتے ہیں، ان کا بھلا بیماری سے کیا تعلق، پھر بھی اقبالِ جرم کے طور پر سرہلانا پڑا، اور انہوں نے جوابی گولہ باری کرتے ہوئے کونین مکسچر سے بھی تلخ لیکچر پلانا شروع کردیا۔

    ’’غضب خدا، تم نے بھی حدکردی۔ گرمیوں میں نہانے کے بعد ٹھنڈے پھل کھائے، بخار نہ آتا تو کیا گرمی دانے نکلتے۔‘‘

    دوسرے صاحب کی رگِ حکمت جو پھڑکی، تو پوچھ ہی تو بیٹھے، ’’کس کا علاج ہورہا ہے؟‘‘

    ’’ڈاکٹر احمد کا۔‘‘

    ’’اوہو،یہ بھی کوئی ڈاکٹروں میں ڈاکٹر ہے۔ حکیم اسداللہ خاں کوکیوں نہ دکھایا، اسے مسیحا جانو، مردہ زندہ کردیتا ہے۔‘‘

    صبح سے اب تک یہ مشیر ہو میوپیتھک، ایلوپیتھک، آیورویدک، بابو کیمک، نیچرکیورماہرِطب اورماہرِبرقیات سےلےکرتکیہ والے شاہ صاحب تک کئی سو معالج تجویز کر چکے تھے، اور خدا نخواستہ اگر میں ان میں سے کسی کا علاج کرنا بھی چاہتی، تو ان کے انتخاب میں کم سے کم ایک ہفتہ ضرور لگ جاتا، جبکہ بخار دوتین دن میں رفوچکر ہوجاتا۔

    ایک صاحبہ ٹمپریچر، نبض وغیرہ کی تفصیل معلوم کرنےکےبعد بجائے مطمئن ہونےکے،کہ معمولی بخار ہے،شام تک اترجائےگا،مجھ پربرس پڑیں۔ ان کا پارہ ایک دم چڑھ گیا اورمیں سمجھی کہ میرا بخاران کےچڑھ گیا، جواس صورت میں اترا کہ ’’بس بس، یہی سب باتیں کچے پن کی ہیں۔ دشمن اور بیماری کو کبھی حقیر نہیں سمجھنا چاہئے۔ تم کہتی ہو کہ بخار 99 ڈگری ہے اور میں کہتی ہوں کہ ننانوے کا پھیرابراہوتا ہے،اس سےبچنےکےلئےٹوٹکا ضروری ہے۔‘‘

    دوسری نے مشورہ دیا، ’’کچھ نہیں، پہلے ایکسرے کراؤ، ایکسرے۔‘‘

    غرض یہ کہ رات کو جب سونے کی کوشش کی، تو نیند اس لئے غائب نہیں ہوئی کہ میں بیمار تھی، یا یہ کہ ’’موت کا ایک دن معین ہے‘‘، بلکہ اس لئے کہ معمولی بیماری کے خوفناک پہلوؤں نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ رات بھر اٹھ اٹھ کر کبھی تھوک کا معائنہ کرتی، کبھی ٹمپریچر دیکھتی،کبھی بلغم کی کمی وبیشی اور نوعیت پر غورکرتے، رات تو کٹ ہی گئی، مگر ہفتوں ہم اس کش مکش میں مبتلا رہے، کہ ہمیں ضرور کچھ خطرناک بیماریاں لاحق ہوچکی ہیں اور ہمارا یہ شک اس وقت تک دورنہ ہوا، جب تک ہم اپنی ایک سہیلی کے پاس نہ چلے گئے، اور مفت کے مشورے دینے والوں سے محفوظ ہوتے ہی نہ صرف ہم اچھے بھلے ہوگئے، بلکہ ہمیشہ کے لئے بیمار پڑنے سے تو بہ کرلی۔

    موسمی بخار سے تو ہم پیچھا چھڑاچکے ہیں، لیکن بے موسم کے مشیروں سے اٹھتے، بیٹھتے، سوتے، جاگتے، چلتے، پھرتے مفت کے مشوروں سے نجات پانا ابھی باقی ہے۔

    مأخذ:

    مفت کے مشورے (Pg. 12)

    • مصنف: سرور جمال
      • ناشر: بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1981

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے