- کتاب فہرست 182667
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1917
طب861 تحریکات289 ناول4226 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1430
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1046
- ہائیکو12
- حمد39
- مزاحیہ36
- انتخاب1534
- کہہ مکرنی6
- کلیات663
- ماہیہ19
- مجموعہ4778
- مرثیہ372
- مثنوی811
- مسدس56
- نعت522
- نظم1172
- دیگر67
- پہیلی16
- قصیدہ179
- قوالی19
- قطعہ57
- رباعی289
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
آل احمد سرور کے اقوال
شاعری میں واقعہ جب تک تجربہ نہ بنے، اس کی اہمیت نہیں ہے۔ خیال جب تک تخیل کے سہارے رنگا رنگ اور پہلودار نہ ہو، بیکار ہے اور احساس جب تک عام اور سطحی احساس سے بلند ہو کر دل کی دھڑکن، لہو کی ترنگ، روح کی پکار نہ بن جائے اس وقت تک اس میں وہ تھرتھراہٹ، گونج، لپک، کیفیت، تاثیر و دل گدازی اور دلنوازی نہیں آتی جو فن کی پہچان ہے۔
نثر میں الفاظ خراماں ہوتے ہیں۔ شاعری میں رقص کرتے ہیں۔ خرام دیکھا جاتا ہے۔ رقص محسوس بھی کیا جاتا ہے۔
غزل کی زبان صرف محبوب سے باتیں کرنے کی زبان نہیں، اپنی بات اور اپنے کاروبار شوق کی بات کی زبان ہے۔ اور یہ کاروبار شوق بڑی وسعت رکھتا ہے۔
اچھا نقاد پڑھنے والے کو شاعر سے شاعری کی طرف لے جاتا ہے۔ معمولی نقاد شاعر میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔
اردو میں افسانہ اب بھی افسانہ کم ہے، مضمون یا مرقع یا وعظ زیادہ۔ افسانہ نگار اب بھی افسانوں میں ضرورت سے زیادہ جھانکتا ہے۔
دہلی کی شاعری جذبے کی شاعری ہے، وہاں جذبہ خود حسن رکھتا ہے۔ لکھنؤ کی شاعری جذبے کو فن پر قربان کر دیتی ہے۔
تنقید کے بغیر ادب ایک ایسا جنگل ہے جس میں پیداوار کی کثرت ہے، موزونیت اور قرینے کا پتہ نہیں۔
کسی ملک کے رہنے والوں کے تخیل کی پرواز کا اندازہ وہاں کی شاعری سے ہوتا ہے مگر اس کی تہذیب کی روح اس کے ناولوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
سائنس اور ادب دونوں اب حقیقت کی تلاش کے دو راستے مان لئے گئے ہیں اور دونوں کے درمیان بہت سی پگڈنڈیاں بھی ہیں اور پل بھی۔
بڑا نقاد وہ ہے جس سے اختلاف تو کیا جائے مگر جس سے انکار ممکن نہ ہو اور جس سے ہر دور میں بصیرت ملتی رہے۔
اچھی عشقیہ شاعری صرف عشقیہ ہی نہیں کچھ اور بھی ہوتی ہے۔ عشق زندگی کی ایک علامت بن جاتا ہے اور بادہ و ساغر کے پردے میں مشاہدۂ حق ہی نہیں مطالعۂ کائنات پر اس انداز سے تبصرہ ہوتا ہے کہ شعر ایک ابدی حقیقت کا پرتو بن جاتا ہے اور ہر دور میں اپنی تازگی قائم رکھتا ہے۔
ادبی زبان نہ مکمل طور پر بول چال کی زبان ہو سکتی ہے نہ مکمل طور پر علمی۔ ہاں دونوں سے مدد لے سکتی ہے۔
محمد حسین آزاد ہوں یا ابو الکلام آزاد طرحدار ضرور ہیں مگر ایک تمثیل اور دوسرا خطابت کے بغیر لقمہ نہیں توڑتا۔ ہماری نثر کو ابھی جذباتیت سے اور بلند ہونا ہے۔
ہر ادب میں تجربے ضروری ہیں، مگر تجربوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ صرف نئے فارم میں ظاہر ہوں۔ نئے موضوعات، نئے تصورات، نئے عنوانات میں بھی ظاہر ہونے چاہئیں۔
علامتی اظہار، اظہار کا وہ طریقہ ہے جو اس دور میں اس لئے مقبول ہوا کہ یہ دور کوئی سبق دینے یا کسی قصے کی زیبائش کرنے کا قائل نہیں بلکہ ان ننگے لمحوں کی مصوری کا قائل ہے جو کبھی کبھار اور بڑی کاوش کے بعد یا بڑے ریاض کے بعد ہاتھ آتے ہیں۔
ادیب زندگی سے، اس کی سچائی سے، اس کے حسن سے نہیں کٹا، بلکہ سیاسی اور سماجی حالات کی شکار پبلک اس سے کٹ گئی ہے۔
ادب وقتی اور ہنگامی واقعات کو ابدی تناظر میں دیکھنے کا نام ہے۔ ہر لمحے کے ساتھ بدل جانے کا نام نہیں۔
شاعری اور ادب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ وقتی سیاست کے اشاروں پر چلے اور سیاسی تحریکوں کے ہر پیچ و خم کا ساتھ دے۔
سادگی، شاعری کی کوئی بنیادی قدر نہیں ہے۔ بنیادی قدر شعریت ہے اور یہ شعریت بڑی پرکار سادگی رکھتی ہے اور ضرورت پڑنے پر مشکل بھی ہو سکتی ہے۔
تنقیدی شعور تو تخلیقی شعور کے ساتھ ساتھ چلتا ہے مگر تنقیدی کارنامے ہر دور میں تخلیقی کارناموں کے پیچھے چلے ہیں۔
join rekhta family!
-
ادب اطفال1917
-