- کتاب فہرست 188640
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
کارگزاریاں59
ادب اطفال2075
ڈرامہ1028 تعلیم377 مضامين و خاكه1531 قصہ / داستان1738 صحت108 تاریخ3579طنز و مزاح748 صحافت216 زبان و ادب1978 خطوط817
طرز زندگی26 طب1033 تحریکات300 ناول5029 سیاسی372 مذہبیات4900 تحقیق و تنقید7352افسانہ3057 خاکے/ قلمی چہرے294 سماجی مسائل118 تصوف2281نصابی کتاب568 ترجمہ4579خواتین کی تحریریں6357-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی14
- اشاریہ5
- اشعار69
- دیوان1498
- دوہا53
- رزمیہ106
- شرح211
- گیت66
- غزل1330
- ہائیکو12
- حمد54
- مزاحیہ37
- انتخاب1659
- کہہ مکرنی7
- کلیات717
- ماہیہ21
- مجموعہ5351
- مرثیہ400
- مثنوی886
- مسدس61
- نعت602
- نظم1318
- دیگر82
- پہیلی16
- قصیدہ201
- قوالی18
- قطعہ74
- رباعی306
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا10
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت28
اخلاق احمد کے افسانے
کہانی ایک کردار کی
ایک رات عجیب واقعہ پیش آیا۔ مشہور ادیب عابد شہباز کا تخلیق کردہ مقبول کردار شکیل رات کے ڈھائی بجے زندہ ہو گیا۔! زندہ کیا ہو گیا، یوں سمجھئے کہ جیسے ہوش میں آگیا۔ اب خدا کے واسطے یہ مت کہہ دیجئے گا کہ آپ نہ عابد شہباز سے واقف ہیں اور نہ اس کے
بھائی صاحب
پھر وہی خوف تھا۔۔۔! بھائی صاحب کا خوف۔۔۔!! وہ امریکہ چلے گئے تھے تو ارشد اس خوف کو یوں بھول گیا تھا جیسے آدمی گزری پریشانیوں کو فراموش کر دیتا ہے۔ پندرہ برس تک وہ ایک آزاد آدمی تھا۔ بےفکر، بے خوف آدمی۔ بھائی صاحب بالکل ابا جی ٹائپ تھے، لیکن
ایک کہانی کا بوجھ
بہت دنوں سے ایک کہانی کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہوں۔ عرفی چچا کی کہانی کا بوجھ۔! عام طور پر کہانیاں بوجھ نہیں ہوتیں۔ لکھنے والوں کے لئے تو وہ ایک نشہ ہوتی ہیں۔ ایک سرور۔ ایک خواب کی سی کیفیت جس میں اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، صبح شام، کوئی خیال پرورش
اچھے ماموں کا چائے خانہ
اچھے ماموں ایک چائے خانے میں رہتے تھے اور ہمارے غریب، شریف خاندان کی بدنامی کا واحد سبب تھے۔ ویسے تو پندرہ بیس برس قبل چائے خانے میں گھنٹوں گزارنا کوئی بہت زیادہ معیوب بات نہیں ہوسکتی تھی۔ لیکن چوبیس گھنٹے ایک چائے خانے میں رہنا کچھ ناقابل یقین سا
کھویا ہوا آدمی
باہر سیاٹل کی رات تھی۔ یخ ہوا ہر چیز کے آرپار گزر جاتی تھی۔ اوورکوٹ، دستانے، ونڈبریکر جیکٹس، چربی، ہڈیاں، سب کے درمیان سے گزر جاتی تھی۔ انگلیوں کی پوریں اور ناک جیسے بے حس، بےجان ہونے لگتی تھیں۔ صرف تین منٹ تک انور اس خوفناک سردی کو برداشت کر
ایک، دو، تین، چار
سیٹھ لطیف کانجی کا نام اب بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔ کراچی کی پرانی تاریخ سے وابستہ کچھ لوگ شاید ذہن پر زور ڈالیں تو انہیں کچھ نہ کچھ یاد آ جائے۔ مگر ایسے لوگ بھی اب کتنے رہ گئے ہیں۔ خود کراچی بھی اب وہ کراچی کہاں رہا ہے۔ یہاں کس کے پاس اتنی فرصت ہے
فسانہ ختم ہوتا ہے
مسلا ہوا بستر پوری کہانی تھا۔ ثاقب نے ٹہلتے ٹہلتے سوچا۔ مزے کا افسانہ بن سکتا ہے اس پر۔ بے ترتیب چادر اور بکھرے ہوئے تکیے اور فضا میں پھیلی ایک وحشی بُو۔ اولڈ ماسٹرز میں سے کوئی لکھتا تو کمال کردیتا۔ ابو الفضل صدیقی۔ یا سیّد رفیق حسین۔ ایک کمرے کی
رئیس کیوں چپ ہے؟
رئیس کچھ دنوں سے چپ ہے۔ اب یہ مت سمجھ لیجئےگا کہ رئیس نے بولنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ وہ بولتا تو ہے مگر بس، ضرورت کے مطابق۔ ہر سوال کا جواب دیتا ہے۔ دفتر میں ساتھیوں کی خیریت بھی دریافت کرتا ہے۔ بچوں سے اور بیوی سے گفتگو بھی کرتا ہے۔ رات گئے گھر آنے والے
بنجر، بے رنگ زندگی والا
یہ کہانی میں بہت جلدی میں لکھ رہا ہوں۔ اور اگر آپ نے یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ اس جلدی کی وجہ کیا ہے، تو میں آپ کا سر توڑ دوں گا۔ مجھے ایسے پڑھنے والے زہر لگتے ہیں جو ہر چیز کی وجہ جاننا چاہتے ہیں۔ ہر کردار، ہر واقعے، ہر صورتحال کے پس منظر میں چھپی
مہرو ماہ اور اختر، آسماں انہی سے ہے
تنویر نے بٹن دبایا تو اپارٹمنٹ کے اندر دور کہیں گھنٹی بجی۔ ریلیکس۔۔۔ ابوجی ہمیشہ کہتے تھے۔ دروازے کے پیچھے نہ جانے کون ہوگا۔ اس کی پہلی نظر تم پر پڑے تو تم مطمئن اور پراعتماد نظر آؤ۔ کشادہ گیلری میں ایک گہرا سناٹا تھا۔ مہنگے اپارٹمنٹس کی روایتی
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here
-
کارگزاریاں59
ادب اطفال2075
-
