Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بنجر، بے رنگ زندگی والا

اخلاق احمد

بنجر، بے رنگ زندگی والا

اخلاق احمد

MORE BYاخلاق احمد

    یہ کہانی میں بہت جلدی میں لکھ رہا ہوں۔

    اور اگر آپ نے یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ اس جلدی کی وجہ کیا ہے، تو میں آپ کا سر توڑ دوں گا۔ مجھے ایسے پڑھنے والے زہر لگتے ہیں جو ہر چیز کی وجہ جاننا چاہتے ہیں۔ ہر کردار، ہر واقعے، ہر صورتحال کے پس منظر میں چھپی باتوں کا راز پانا چاہتے ہیں۔ لطف اٹھانے کے بجائے جستجو کے کرب میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں۔

    آدمی زندگی میں کئی کام بلا سبب کرتا ہے۔ کبھی کسی نہایت فضول لطیفے پر ہنس ہنس کر پاگل ہو جاتا ہے۔ کبھی صبح سے شام تک اداسی کے حصار میں رہتا ہے۔ کبھی اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ ایک شائستہ محفل میں بدتہذیبی کا ایسا مظاہرہ کرے کہ سب لوگ مڑمڑ کر اسے دیکھنے لگیں۔ لیکن دوسری طرف کچھ لوگ، بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ احمق لوگ، بلا سبب کئے جانے والے ہر کام کو شعور اور لاشعور اور تحت الشعور کی نیلی، پیلی، سبز عینکوں سے پرکھنے میں لگ جاتے ہیں۔ میری گستاخی کو نظر انداز کر دیجئےگا، مگر آپ بھی مجھے ایسے ہی لگتے ہیں۔ کیونکہ آپ کے دل میں اب تک وہی پھانس چبھی نظر آ رہی ہے کہ آخر میں یہ کہانی جلدی میں کیوں لکھ رہا ہوں۔

    چلئے، میں اس پھانس کو سبب کی چمٹی سے نکال دیتا ہوں تاکہ آپ کو قرار آجائے اور میں بھی سکون سے کہانی بیان کر سکوں اور وہ جو سر توڑ دینے والی بات ہے، وہ بھی حرف غلط کی طرح مٹ جائے۔ بات یہ ہے کہ میں اس روایتی کہانی سے تنگ آ چکا ہوں۔ فارمولا افسانہ نگاری ۔ بلکہ افسانہ بازی۔ تکنیک اور اسلوب اور بیانیہ اور جادو نگاری۔ یعنی کیا بکواس ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ بس، بیٹھوں اور سوچے سمجھے بغیر ایک کہانی بیان کرنا شروع کر دوں۔ انجام کی فکر کئے بغیر لکھتا جاؤں، لکھتا جاؤں۔ کسی عبدالقیوم یا محمد شفیق یا شمیم الدین کی داستان، جس کا ہر کردار آزاد ہو اور طاقتور ہو اور کسی سرکش گھوڑے کی طرح خود میرے قابو میں بھی نہ آتا ہو۔کوئی ایک کردار تو ایسا ہو کہ پوری کہانی کی بساط الٹ دے، سب کچھ ملیا میٹ کر دے۔

    اب اگر آپ کی تشفی ہو گئی ہو، وہ پھانس نکل گئی ہو اور آپ کو تھوڑا بہت قرار آ گیا ہو تو میں کسی عبدالقیوم کی، یا کسی محمد شفیق کی کہانی بیان کروں۔

    میرا خیال ہے کہ محمد شفیق بہتر رہےگا۔

    محمد شفیق کی زندگی میں محبت اس وقت آئی جب اسے السر ہو چکا تھا اور اس کی پندرہ سالہ بیٹی کو محلے کے نوجوان غور سے دیکھنے لگے تھے اور ایک ہی ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں مسلسل بیس سال کاپی رائٹنگ کرتے کرتے اس کا دماغ بنجر اور بے خیال ہو چکا تھا اور اس کی بیوی سرکاری اسکول میں لڑکیوں کو پڑھاتے پڑھاتے اور برانکائل استھما سے لڑتے لڑتے بیزار ہو چکی تھی اور وہ خود کو اڑتالیس سال کی عمر میں ستر سال کو بوڑھا سمجھنے لگا تھا۔

    اس وقت تک محمد شفیق کا خیال تھا کہ وہ نو عمری سے پختہ عمری تک متعدد کامیاب محبتیں کر چکا ہے۔ ان کامیاب محبتوں کے نتیجے میں، جو محمد شفیق کے خیال میں کامیاب بھی تھیں اور محبتیں بھی تھیں، وہ زندگی بھر سرشار اور مطمئن اور مسرور رہا تھا۔ اسے ان نظموں اور غزلوں کے کچھ مصرعے بھی اب تک یاد تھے جو ابتدائی محبتوں کے دوران یا ان کے ختم ہو جانے کے بعد اس نے کہی تھیں اور جن کی وجہ سے اس کو محدود ذہانت والے دوستوں کے ایک حلقے میں بڑا جینوئن تخلیق کار وغیرہ سمجھا جاتا تھا۔

    وہ اگرچہ ایک سپاٹ زندگی بسر کر رہا تھا مگر اس خوش گمانی میں تھا کہ یہ ایک بھرپور زندگی ہے۔ لہٰذا وہ ہفتے میں ایک دو بار دوستوں کے ساتھ شام کا وقت ایک کافی ہاؤس میں گزارتا تھا جہاں سب مل کر غیبت کرتے تھے اور چائے کے ساتھ قیمے کے سموسے منگواتے تھے اور آرٹ موویز اور دولتمند لوگوں کی داشتاؤں اور کامیابی نظر آنے والی اپنی اپنی کامیابیوں کی باتیں کرتے تھے۔ گھر پر وہ اپنے بچوں کو ذرا فاصلے پر رکھتا تھا اور بیوی کے استھما کے سلسلے میں ایک منافقانہ فکر مندی ہمیشہ ظاہر کرتا تھا اور جب اس کی بیوی کا وہ دورہ ختم ہو جاتا تھا جس میں سانس دھونکنی کی طرح چلتا ہے اور وہ اپنی خرخراہٹ سمیت سوجاتی تھی تو وہ گداز بدنوں والی عورتوں کے بارے میں فینٹاسائز کرتا تھا۔

    یہ وہ وقت تھا، جب محبت اس کی زندگی میں آئی۔

    محمد شفیق اس دن ایک ڈائجسٹ کے ایڈیٹر کے پاس گیا تھا جہاں وہ فاضل وقت میں لکھی جانے والی کہانیاں اکثر لے کر جاتا تھا۔ ڈائجسٹ میں نہایت زٹیل کہانیاں چھپتی تھیں اور محمد شفیق کو وہ کہانیاں لکھتے وقت بہت ذہنی تکلیف ہوتی تھی مگر مہینے میں اضافی دس پندرہ ہزار روپے مل جاتے تھے تو ساری تکلیف ختم ہو جاتی تھی کیونکہ یہی وہ رقم تھی جو وہ اپنی ذات پر یا اپنے شوق پر خرچ کر سکتا تھا۔ تو اس دن وہ بڑی بے فکری کے ساتھ، جس میں آدمی کا دل چاہتا ہے کہ وہ ہنسے یا سیٹی بجائے، ایڈیٹر کے کمرے میں داخل ہوا اور داخل ہوتے ہی ٹھٹک گیا۔

    ایڈیٹر حسب معمول بیک وقت کسی کہانی کا تعارفی نوٹ لکھ رہا تھا اور چپراسی کو بلانے کے لئے گھنٹیاں بجارہا تھا اور ٹیلیفون کے ریسیور کو کندھے اور گردن کے درمیان پھنسائے کسی کی باتیں غور سے سنتے ہوئے سرہلا رہا تھا اور اس کے سامنے، کچھ فاصلے پر رکھے صوفے پر شہناز بیٹھی تھی۔

    مگر یہ تو اسے بعد میں پتہ چلا کہ وہ شہناز تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے وقت ٹھٹکنے کے ایک لمحے میں اس نے دیکھ لیا تھا کہ کمرے میں ایک عورت بھی ہے جس نے گلابی کپڑے پہن رکھے ہیں اور چادر جیسے دوپٹے سے خود کو ڈھانپ رکھا ہے اور اونچی ایڑی والے سیاہ سینڈل پہن رکھے ہیں۔ اس ایک لمحے میں اس نے یہ سب دیکھ لیا اور خود پر وہ بےنیازی طاری کرلی جو دراصل صرف بےحد پرکشش مردوں پر، کھائے کھیلے مردوں پر سجتی ہے۔

    ایڈیٹر نے اسے دیکھا تو بائیں ہاتھ سے، جس سے وہ چپراسی کو بلانے کے لئے گھنٹی بجارہا تھا، اس سے ہاتھ ملایا اور اسے اشارے سے بیٹھنے کو کہا اور پھر ریسیور سے آنے والی آواز پر سر ہلانے لگا۔

    وہ بیٹھ گیا۔ بیٹھنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ وہ غلط زاویہ پر رکھی کرسی پر بیٹھ گیا ہے کیونکہ عورت اب اس کے پیچھے تھی۔ برسوں کی جبلت اسے عورت کو ایک نظر دوبارہ دیکھنے پر مجبور کر رہی تھی مگر گردن موڑ کر دیکھنا مردانہ شائستگی کے خلاف تھا۔ وہ کچھ دیر میز پر رکھے ایک رسالے کی ورق گردانی کرتا رہا اور ایڈیٹر کے کندھوں اور گردن کے درمیان پھنسے ہوئے ریسیور کے جھولتے ہوئے تار کو دیکھتا رہا۔

    پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اسی بے تکلفی اور بے نیازی کے ساتھ، جیسے یہ اس کا اپنا دفتر ہو، وہ ایڈیٹر کی میز کے گرد گھوم کر پیچھے نصب دیوار گیر شیلف میں بےترتیبی سے رکھی کتابوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے ایک دو کتابیں نکالیں، انہیں یونہی کھول کر دیکھا اور پھر واپس رکھ دیا۔ پھر وہ واپس مڑا، یوں جیسے اپنی کرسی کی طرف واپس جانا چاہتا ہو، اور منصوبے کے عین مطابق اس نے عورت پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی۔

    عورت یک ٹک اسی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔!

    ایک لمحے۔۔۔ بلکہ ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں اس نے عورت پر سے نظر ہٹالی اور یہ بھی دیکھ لیا کہ عورت نے بھی اسی تیزی سے، بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ تیزی سے نظریں جھکالی ہیں۔

    محمد شفیق دوبارہ اپنی کرسی پر بیٹھا تو کچھ شرمندہ سا تھا۔

    اسی وقت ایڈیٹر کا ٹیلیفون ختم ہو گیا اور ایک چپراسی بھی لاپرواہی سے دروازہ کھول کر اندر آ گیا۔ ایڈیٹر نے اس سے سب کے لئے چائے لانے کو کہا۔چپراسی اسی لاپرواہی سے دروازہ کھول کر باہر چلا گیا۔

    ’’یار۔۔۔‘‘ ایڈیٹر نے اپنے بکھرے بالوں کو سنوارنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’تم عجیب گھاسلیٹ آدمی ہو۔ کوئی حساب کتاب نہیں رکھتے کہ مہینے میں کتنے صفحے چھپے اور کتنی ادائیگی ہوئی۔ اکاؤنٹس والے ناراض ہورہے تھے۔ پانچ مہینے کے ساڑھے پانچ ہزار روپے اضافی بنے ہیں۔ جاتے ہوئے چیک لے جانا۔ کم از کم صفحے تو گن لیا کرو پرچے میں۔‘‘

    اضافی ادائیگی کا ذکر سن کر محمد شفیق کا دل خوشی سے بھر گیا۔ مگر وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ پیسے اس کا مسئلہ نہیں ہیں۔ لہٰذا اس نے کہا۔ ’’اگر سارا حساب کتاب ہم مصنفین کرنے لگیں تو تمہارا اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ تو بھوکا مرجائےگا۔‘‘

    ایڈیٹر ہنسا۔ محمد شفیق کو یوں لگا جیسے اس کے پیچھے بیٹھی عورت بھی مسکرائی ہے۔

    ’’معاف کرنا یار۔۔۔‘‘ ایڈیٹر نے کہا۔۔۔ ’’تمہارا تعارف نہیں کرایا۔ بھئی یہ ہیں محمد شفیق صاحب۔ ہمارے یہاں باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ شاعر بھی ہیں۔ اور سینئر کاپی رائٹر ہیں یونیورسل ایڈورٹائزنگ میں اور یہ مسز شہناز حسین ہیں۔ بہت اچھی علامتی افسانہ نگار ہیں۔ ایک ناول بھی لکھ رہی ہیں اور ٹی وی پر ان کا ایک سیریل بھی شروع ہونے والا ہے۔ اہم ترین بات یہ کہ ہماری بھابھی ہیں۔ اپنا عارف نہیں ہے جدہ والا۔۔۔؟ اس کی مسز ہیں۔۔۔‘‘

    اب محمد شفیق کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ جدّہ والا عارف کون ہے مگر اس نے کرسی کھسکا کر زاویہ درست کیا اور شہناز کی طرف دیکھ کر مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ سر کے اشارے سے سلام کیا۔

    اس ملاقات کی تفصیلات محمد شفیق کو چند دن بعد یاد نہیں رہیں۔ مثلاً اسے یہ یاد نہیں رہا کہ اس دفتر میں کچھ دیر تک بیٹھے رہنے کے دوران جو گفتگو ہوتی رہی تھی، وہ کس موضوع پر تھی اور یہ بھی کہ واپسی پر اس نے جو شہناز کو اپنی گاڑی میں گھر تک چھوڑنے کی حامی بھری تھی، وہ ایڈیٹر کے کہنے پر بھری تھی یا خود شہناز نے اس سے درخواست کی تھی۔ اسے ٹھیک طرح سے یاد نہیں تھا کہ وہ اور شہناز راستے بھر کیا باتیں کرتے گئے تھے۔ البتہ اسے یہ ضرور یاد تھا کہ ان کی گفتگو بے حد رسمی اور پر تکلف اور جبری شائستگی سے بھرپور تھی جس کا مقصد وہ وقت گزارنا تھا جس میں دو اجنبی لوگوں کو تھوڑی دیر کے لئے ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے۔ شہناز نے اپنے گھر کے سامنے اتر کر شاید اس کا شکریہ ادا کیا تھا اور اسے چائے کی دعوت دی تھی جسے اس نے ایٹی کیٹس سے آشنا، مہذب اور تعلیم یافتہ مرد کے طور پر شائستگی سے ٹال دیا تھا۔

    ایک نارمل اور اچھے اور مصروف انسان کی طرح محمد شفیق بہت جلد اس ملاقات کو بھول گیا۔ وہ زندگی کی مصروفیتوں میں اور پریشانیوں میں پھنس گیا جہاں آپ کو منافقت سے کام لینا پڑتا ہے اور جھوٹ بولنا پڑتا ہے اور وہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے جو آپ کے لئے ناپسندیدہ ہوتا ہے مگر ناگزیر ہوتا ہے۔ وقت، بعض اوقات سوچنے کا موقع بھی نہیں دیتا۔ یہ جانچنے کی مہلت بھی نہیں دیتا کہ یہ جو ہر وقت چیف ایگزیکٹو کی ناراضگی کا خوف ہے اور بیوی کو ہر وقت مطمئن رکھنے کی جدوجہد ہے اور رشتے داروں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہوجانے کا سلسلہ ہے اور جمعہ کے روز اخبارات میں نئی نوکریوں کے اشتہارات غور سے پڑھنے کا معمول ہے، اس سے ہٹ کر بھی زندگی کچھ مانگتی ہے۔

    لہٰذا ایک روز محمد شفیق ہکا بکا رہ گیا۔

    وہ شام ڈھلے اپنے کا م سے فارغ ہونے ہی والا تھا کہ انٹر کام کی گھنٹی بجی اور استقبالیہ پر بیٹھی لڑکی نے اسے بتایا کہ کوئی مسز شہناز عارف اس سے ملنے آئی ہیں۔ وہ آئی تو فرش پر اونچی ہیل کے بجنے کی آواز اور نرم خوشبو کے جھونکے کے ساتھ ہال نما کمرے میں موجود چار پانچ مردوں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ محمد شفیق کو سخت غصہ آیا۔ مگر پھر اس نے سوچا کہ ایسی دلکش چال والی عورت دفتر میں کسی اور سے ملنے آتی تو وہ خود بھی اسی طرح نظر اٹھا کر اسے دیکھتا۔

    ’’السلام علیکم۔۔۔‘‘ شہناز نے اس کے مقابل بیٹھ کر کہا۔ ’’میں سارے راستے خدا سے دعا کرتی آئی ہوں کہ آپ دفتر میں ہی موجود ہوں اور مجھے پہچان بھی لیں۔‘‘

    ’’حسین خواتین کی دعائیں عام طور پر بےاثر نہیں رہتیں۔‘‘ محمد شفیق نے کہا۔ ’’میں دفتر میں بھی ہوں اور میں نے آپ کو پہچان بھی لیا ہے اور مجھے آپ سے مل کر خوشی بھی ہوئی ہے۔‘‘

    شہناز نے ایک کھنکتا قہقہہ لگایا۔

    دفتر کی پژمردہ، اداس فضا میں وہ قہقہہ یوں گونجتا گیا جیسے سخت حبس اور گرمی میں کہیں سے خنک ہوا کا کوئی جھونکا آئے اور روح تک اترتا جائے۔ دفتر والوں نے چونک کر اسے دیکھا، اپنی ٹائیاں درست کیں، لاشعوری طور پر انگلیوں سے بال سنوارے اور ایک دوسرے سے کوئی غیر اہم دفتری بات کرنے لگے۔

    مگر شہناز نے کچھ نہیں دیکھا۔ وہ صرف محمد شفیق کو دیکھ رہی تھی اور اسی سے بات کر رہی تھی۔ اس نے کہا۔ ’’آپ تو باتیں کرنے کے بہت ماہر لگتے ہیں۔ خطرناک نشانی ہے۔‘‘

    محمد شفیق نے کہا۔ ’’معاف کیجئےگا۔ میں شاید ذرا زیادہ۔۔۔‘‘

    ’’نہیں، نہیں۔‘‘ شہناز نے ہاتھ ہلا کر اس کی بات کاٹ دی۔ ’’مجھے تو بہت اچھا لگا۔ بہت دنوں بعد میں یوں بے ساختہ ہنسی ہوں۔ بلکہ شاید بہت مہینوں بعد۔۔۔‘‘ وہ بولتے بولتے رک گئی۔ اس کی آنکھوں میں اور اس کے چہرے پر اداسی کسی سائے کی طرح چھا گئی تھی۔ پھر اس نے جیسے اپنی ساری قوت صرف کر کے خود پر قابو پایا اور مسکرا کر بولی۔ ’’بہرحال۔۔۔ میں آپ کے پاس ایک کام سے آئی تھی۔ میرا ٹی وی سیریل اگلی سہ ماہی سے شروع ہو رہا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ اس کا اسکرپٹ ایک نظر دیکھ لیں۔ دیکھ کیا لیں، اس پر نظر ثانی کر دیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ۔۔۔‘‘

    ’’ایک منٹ خاتون۔‘‘ محمد شفیق نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ ’’میں پہلے وضاحت کردوں کہ ۔۔۔‘‘

    ’’میرا نام خاتون نہیں، شہناز ہے۔‘‘

    ’’اوکے۔ شہناز صاحبہ۔ میں نے زندگی میں کبھی کوئی ٹیلیویژن اسکرپٹ نہیں لکھا۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ٹیلیویژن اسکرپٹ ہوتا کیا ہے۔۔۔‘‘

    ’’آپ کے خیال میں کیا ٹیلیویژن اسکرپٹ کے سینگ نکلے ہوئے ہوتے ہیں۔؟ بھئی، سیدھا سادہ ڈرامہ ہوتا ہے اور بائی دا وے، یہ کام دیکھے بغیر کام سے انکار کرنے کی عادت کہاں سے سیکھی آپ نے۔؟‘‘

    محمد شفیق لاجواب ہو گیا۔

    یا شاید اس کو لگا کہ وہ لاجواب ہو گیا ہے۔ یا شاید اس کا دل چاہا کہ وہ لاجواب ہوجائے، لاجواب نظر آئے۔

    اس وقت تک محمد شفیق ایک لاعلم آدمی تھا۔ اس شخص کی طرح، جو فٹ پاتھ پر بے فکری سے چل رہا ہوتا ہے اور اس بات سے لاعلم ہوتا ہے کہ تین منٹ دس سیکنڈ بعد ایک دیو ہیکل ٹرک ڈرائیور کے قابو سے باہر ہو جائےگا اور اسے کچلتا ہوا گزر جائےگا۔ اس لڑکی کی طرح، جو موٹر سائیکل پر اپنے محبوب کے ساتھ جا رہی ہوتی ہے اور کھلی آنکھوں سے سپنے دیکھنے کے دوران لاعلم ہوتی ہے کہ آگے سڑک پر ایک کار ترچھی کھڑی ہوئی ہے جس میں اس کے تین جوان بھائی چھرے لئے بیٹھے ہیں۔ اس عورت کی طرح جو اپنے شوہر کے پسندیدہ کباب تل رہی ہوتی ہے اور اس بات سے یکسر لاعلم ہوتی ہے کہ ابھی کچھ ہی دیر میں اس کا شوہر آئےگا اور پرانے محبت ناموں کی ایک گڈی اس کے سامنے پھینک کر ماں بہن کی گالیاں دینے کے بعد طلاق دے دےگا۔

    تو محمد شفیق بھی اسی طرح ایک لاعلم آدمی تھا۔

    اسی لاعلمی کے دوران اس نے اگلے سات دنوں میں شہناز کے ٹی وی سیریل کا اسکرپٹ پڑھا اور اس کی اصلاح کی۔ ایک بار اس نے فون پر شہناز سے بات کی۔ ایک بار شہناز خود دفتر آئی۔ دو مرتبہ وہ ایک بڑے ہوٹل کی کافی شاپ میں بیٹھے اور دیر تک بحث کرتے رہے۔ بعض سین زائد تھے۔ بعض ڈائیلاگ لمبے تھے۔ چھوٹے دورانئے کی سیریل کے حساب سے اسٹاک کیریکٹر زیادہ تھے۔ مگر محمد شفیق کو بہت حیرت ہوئی کہ شہناز نے اس کے سب اعتراضات خوش دلی سے قبول کئے اور بعض کا نہایت معقول جواب دیا۔

    آٹھویں دن جب شہناز نے کام مکمل ہو جانے پر اس کا شکریہ ادا کیا اور اس کو اگلے روز شام کی چائے اپنے گھر پلانے کی پیشکش کی تو محمد شفیق پہلے ہی بہت خوش تھا۔ اسی صبح اسے چیف کاپی رائٹر سے ترقی دے کر، کری ایٹو ڈائریکٹر بنایا گیا تھا۔ ترقی کا مطلب تھا، تنخواہ میں بیس ہزار روپے اضافہ، پرانی کار کے بجائے نئی کار، سو لیٹر مفت پٹرول، ہال کی جگہ خوبصورت کمرہ۔ چھوٹی چھوٹی مراعات بعض اوقات بےحد کمینگی آمیز خوشیاں بخشتی ہیں۔ اور بے حد حسد آمیز اطمینان۔ خوش دلی کی اسی کیفیت میں اس نے شہناز کے گھر چائے کی دعوت قبول کرلی۔

    مگر اگلے روز جب وہ کام سے فارغ ہونے ہی والا تھا، عین اسی وقت ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا مالک کسی بلائے ناگہانی کی طرح نازل ہوگیا۔ وہ کرسی گھسیٹ کر محمد شفیق کے سامنے بیٹھ گیا اور ایجنسی کے نئے کری ایٹو ڈائریکٹر سے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں اور کاپی رائٹنگ کے جدید مغربی تصورات کے بارے میں اور اپنی ایجنسی کو پاکستان کی سب سے بڑی ایجنسی بنانے کے بارے میں اتنی دیر تک گفتگو کرتا رہا کہ باہر رات کا اندھیرا پھیل گیا اور دفتر کا چوکیدار عشا کی نماز پڑھ کر واپس آگیا۔ سوا نو بجے وہ دفتر سے باہر نکلا تو شہناز کے گھر نہ جانے کے خیال سے شرمندہ اور پریشان تھا۔ مگر کچھ ہی دیر میں، ایک مشینی شہر میں رہنے سے حاصل ہونے والی صلاحیت کی مدد سے، اس نے اس شرمندگی کو دل سے نکال پھینکا اور اطمینان سے گھر چلا گیا۔

    دو دن بعد اسے ڈاک کے ذریعے ایک لفافہ موصول ہوا۔ ایک سادہ کاغذ پر، سرخ روشنائی سے لکھا ہوا تھا۔

    ’’تیرے آنے کا انتظار رہا۔۔۔!‘‘

    شام تک وہ اس کاغذ پر نظریں جمائے بیٹھا رہا۔

    محمد شفیق نہیں جانتا تھا کہ ایک مصرعہ اسے زندگی کے اڑتالیسویں سال میں ایک نئے سفر پر روانہ کردےگا۔ ملاقاتوں کے کسی خواب جیسے سفر پر، جہاں سب کچھ خودبخود ہوتا جاتا ہے، سرشاری کا بادل صبح شام برستا رہتا ہے، دل خوشی کی انجانی تال پر نئے سرے سے دھڑکنا شروع کرتا ہے اور ایک بگولہ۔۔۔ جذبوں کا ایک ناچتا، دائرے بناتا، طوفانی رفتار سے گھماتا بگولہ نہ جانے کن سرزمینوں کی سیر کراتا، اوپر ہی اوپر اڑاتا جاتا ہے۔

    محمد شفیق، شہناز کو یوں پڑھتا گیا جیسے وہ کسی دلچسپ کتاب کو پڑھتا تھا۔ صفحہ صفحہ، سطر سطر۔ شہناز چینی کھانے شوق سے کھاتی تھی۔ رات بارہ بجے سے ڈھائی بجے تک اپنے ناول پر کام کرتی تھی۔ غصّے میں اس کی ستواں ناک سرخ ہوجاتی تھی۔ وہ شوخ رنگ کے ملبوسات پہنتی تھی جو دہلی کالونی میں رہنے والی ایک بے نام ڈریس ڈیزائنر تیار کرتی تھی۔ وہ اپنے اکاؤنٹنٹ شوہر عارف سے، جو جدّہ کی کسی گمنام فرم میں ساڑھے چھ ہزار ریال کی تنخواہ پر کام کرتا تھا، بیزار ہوچکی تھی اور چند ماہ میں اسے خلع کا نوٹس بھجوانے کا ارادہ رکھتی تھی۔

    محمد شفیق ہر گفتگو سے، چھوٹی چھوٹی باتوں سے، جوابوں سے، سوالوں سے، تبصروں سے، شہناز کے بارے میں جانتا گیا۔ اس کی پسند نا پسند سے، عادتوں سے، پسندیدہ موضوعات سے، اس کے ملیح چہرے پر مسکراہٹ لانے کے حربوں سے، ہر چیز سے واقف ہوتا گیا۔ وہ زندگی کے اگلے برسوں میں آزاد رہنا چاہتی تھی۔ یا کسی ایسے وسیع القلب مرد کے ہمراہ جو تخلیقی صلاحیت رکھتا ہو۔ زندگی کو سمجھتا ہو۔ خود اس کو سمجھتا ہو۔

    ’’کیا میرا اتنا بھی حق نہیں ہے۔‘‘ وہ اپنی کاجل بھری آنکھیں محمد شفیق پر مرکوز کر کے کہتی تھی اور محمد شفیق صرف سر ہلاپاتا تھا۔

    محمد شفیق کے شب و روز بدل گئے تھے۔ شہناز کا ٹی وی سیریل بہت کامیاب نہیں رہا۔ پھر بھی ان کی روزانہ ملاقاتیں جاری رہیں۔ ایک روز اس کی بیٹی نے کہا۔ ’’بابا، آپ نے تو ہمارے ساتھ رات کا کھانا کھانا چھوڑ ہی دیا ہے۔‘‘

    محمد شفیق جوتے اتارتے اتارتے رک گیا۔ کسی جرم کے احساس نے اسے لمحہ بھر کو لاجواب کر دیا۔

    جواب اس کی بیوی نے دیا۔ ’’بابا کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں گڑیا۔ وہ تمہارے لئے دن رات کام کرتے ہیں۔ اب تم بڑی ہوگئی ہو، تمہیں یہ بات سمجھنی چاہئے۔‘‘

    مگر کمرے میں، لائٹ بجھانے اور محمد شفیق کی طرف کروٹ لینے کے بعد اس نے کہا۔ ’’کہہ تو وہ ٹھیک رہی تھی۔ ایسی بھی کیا مصروفیت ہو گئی ہے کہ ہر روز کھانا کھا کر آتے ہیں۔‘‘

    محمد شفیق چند لمحے خاموش رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’تم اچھی طرح جانتی ہوں کہ مجھے ہوٹل کا کھانا برا لگتا ہے۔ مجبوری میں کھاتا ہوں۔ ڈاکٹر کہہ چکا ہے کہ معدہ خالی نہیں رہنا چاہئے۔‘‘

    وہ سوگئی۔

    مگر محمد شفیق جاگتا رہا۔

    ایک سپاٹ، بےرنگ زندگی گزارنے والا محمد شفیق، جس کی جھولی میں آسمان سے ایک خزانہ آ گرا تھا، اپنے اندر ایک بے کلی، ایک اضطراب، ایک خوف کو پھیلتا محسوس کرتا تھا۔ یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا کہ یہ جو اس کے گرد سیاروں کی طرح گردش کرتے لوگ ہیں اور آس پاس پھیلی زندگی ہے، یہ سب کچھ ایک خواہش، ایک اشارے سے اس طرح ختم نہیں ہو سکتا جیسے وہ کمپیوٹر اسکرین سے اشتہاری سلوگنز اور جنگلز اور مغربی اشتہارات سے چرائی ہوئی کاپی کے لفظوں کو منتخب کر کے ڈیلیٹ کر دیتا ہے۔

    ہر سمجھدار آدمی کی طرح اسے بیوی سے زیادہ معاشرے کا خوف تھا۔ بیوی کو اس نے ہمیشہ اتنی ہی اہمیت دی تھی جتنی وہ اپنی نئی قمیضوں کو یا شارجہ میں رہنے والے اپنے خوشحال بڑے بھائی کو یا بڑھتی ہوئی مہنگائی کو دیتا تھا۔ یعنی وہ اسے اہم ضرور سمجھتا تھا مگر اس قدر اہم بھی نہیں کہ اس پر زندگی کا دارو مدار ہو۔ یوں بھی اس کی بیوی ایک دھیمی، ٹھنڈی، بھڑک اٹھنے کی صلاحیت سے محروم عورت تھی جو برسوں سے میٹرک کی لڑکیوں کو پڑھاتے پڑھاتے ایک نرم خو استانی بن چکی تھی۔ جواب دینے کی صلاحیت سے مالا مال، مگر سوال کرنے کی قوت سے محروم۔

    چار پانچ دن بعد محمد شفیق، شہناز سے گفتگو کرتے کرتے کسی بہانے سے اسی موضوع پر آگیا۔ رشتے، بیوی بچے، ذمہ داریاں، کشمکش، مشکل فیصلے، سماجی اور نفسیاتی الجھاوے۔ براہ راست اپنے معاملے پر بات کرنے کے بجائے وہ گھما پھرا کر ایک پورے معاشرے کی بات کر رہا تھا۔

    اپنی پسندیدہ مراکشی چائے کا ایک گھونٹ بھر کر، جس کی کڑواہٹ کم کرنے کے لئے کم از کم ایک چمچہ شہد ڈالا جاتا تھا، شہناز نے اس سڑک کی جانب نگاہ کی جو آگے ساحل کی طرف جاتی تھی اور کہا۔ ’’پتا نہیں۔ میں تو ان چیزوں کو جذبات کی عینک سے نہیں دیکھتی۔ جذبات کی عینک سے دیکھو تو باقی دنیا اہم ہوجاتی ہے۔ آدمی خود اہم نہیں رہتا۔ میرے لئے سب سے زیادہ اہمیت خود میری ہے۔ میری زندگی، میری خوشی کی ہے اور یہ زندگی بس ایک بار ملتی ہے۔ ایک بار۔ چاہے اپنی مرضی سے جیو، چاہے دوسروں کی مرضی سے پوری عمر گزار دو۔‘‘

    محمد شفیق نے اپنی زندگی پر نگاہ کی اور سر ہلایا۔

    ’’اور یہ معاشرہ کیا ہوتا ہے۔؟‘‘ شہناز نے کہا۔ ’’رشتے کیا ہوتے ہیں۔؟ ہر چیز آدمی کی اپنی ذات سے بندھی ہے۔ آدمی کے بغیر یہ رشتے، یہ دوستیاں، یہ معاشرہ، سب صفر ہیں۔ جو لوگ ہزاروں میل دور جاکر بس جاتے ہیں وہ کیا اپنا معاشرہ ساتھ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔؟ ایک بم دھماکے میں جس آدمی کا پورا خاندان فنا ہو جاتا ہے وہ کیا باقی زندگی کسی معاشرے یا رشتے کے بغیر گزارتا ہے۔؟ سب باتیں ہم نے خود بنائی ہیں۔ ساری اصطلاحات ہم نے خود تخلیق کی ہیں اور پھر ان کی پوجا شروع کر دی ہے۔‘‘

    محمد شفیق کو شبہ ہوا کہ وہ اپنے زیر تکمیل ناول کی لائنیں بول رہی ہے۔ مگر بس، ایک نامکمل سا شبہ۔

    ’’اکتالیس برس کی ہو چکی ہوں میں۔‘‘ شہناز کی نظریں نیچے، ساحل کی طرف جانے والی سڑک پر جمی تھیں جہاں گزرنے والی گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ’’اور اب سمجھ میں آئی ہے یہ بات، کہ اپنی مرضی کی خوشیاں حاصل کرنے کے لئے، اپنی مرضی کی زندگی پانے کے لئے خود قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ ورنہ یہ بنجر، بے رنگ زندگی کسی بھیانک خواب کی طرح چلتی رہتی ہے۔‘‘

    اس رات محمد شفیق کو سونے کے لئے نیند کی گولی کی مدد لینی پڑی جو اس کی بیوی کی دراز میں ہمیشہ ہوتی تھی۔

    دفتر میں اگلا دن بھی ایسے ہی گزرا اور اس سے اگلا دن بھی۔ ایک مسلسل بے کلی، ایک ختم نہ ہونے والا اضطراب۔ محمد شفیق کا دل کسی چیز میں نہیں لگ رہا تھا۔ اس نے رف ٹف شوز کے ٹی وی کمرشل کی کاپی پانچ بار لکھنے کی کوشش کی اور ہر بار اسے پھاڑ کر پھینک دیا۔ ایک بار تو اس کا دل چاہا کہ جوتوں کے اس اشتہار کو یوں لکھے کہ ساری دنیا حیران رہ جائے۔ رف ٹف شوز پہنئے۔ خود قدم اٹھایئے۔ ورنہ یہ بنجر، بے رنگ زندگی کسی بھیانک خواب کی طرح چلتی رہےگی۔

    تیسرے دن اسے اچانک خضدار جانا پڑا۔ کراچی سے چار سو کلو میٹر دور۔ کسی کلائنٹ کی فرمائش تھی کہ اس کے پروڈکشن پلانٹ کا بروشر شائع کیا جائے جس کے ذریعے ثابت ہو جائے کہ ایسا معیاری پروڈکشن پلانٹ نہ کبھی پہلے بنا تھا اور نہ آئندہ بن سکےگا۔

    آر سی ڈی شاہراہ پر سات آٹھ گھنٹے کے سفر کے دوران محمد شفیق کے اعصاب پر یہ خوف مسلسل سوار رہا کہ کسی بھی جگہ ان کی گاڑی روک لی جائےگی اور انہیں اغوا کر لیا جائےگا۔ اس کے ساتھ سفر کرنے والے کلائنٹ سروس ایگزیکٹو اور فوٹو گرافر بھی راستے بھر خاموش رہے۔ حالات نے سب کو ایک جیسا بزدل بنا دیا تھا۔

    خضدار میں انہیں ایک دن کے بجائے دو دن رکنا پڑا۔ فیکٹری شہر کے مضافات میں تھی جہاں موبائل فون کے سگنل نہیں پہنچ پاتے تھے، اردگرد سناٹا تھا اور شام ڈھلتے ہی ایک ایسی ہولناک تنہائی آسمان سے اترتی تھی کہ ذرا سے کھٹکے پر بھی دل لرز جاتا تھا۔

    تیسری صبح تھکن اور نامکمل نیند سے بے حال محمد شفیق کو گاڑی نے اس کے گھر کے دروازے پر اتارا تو اس کے بدن کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا اور اس کے دل میں ایک گہری نیند کی خواہش کے سوا کچھ نہ تھا۔

    وہ اندر گھسا تو اس کی بیوی سامنے لاؤنج میں کھڑی تھی۔

    ’’ارے۔۔۔!‘‘ محمد شفیق نے حیرت سے کہا۔۔۔ ’’تم اسکول نہیں گئیں۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ اس کی بیوی نے تلخی سے کہا۔

    ایک گھاگ شوہر کی طرح محمد شفیق نے اپنی بیوی کے لہجے میں چھپے غصّے کو دیکھ لیا اور اندازہ لگا لیا کہ وہ اس کی دو دن کے بجائے تین دن بعد آمد پر ناراض ہے۔ محمد شفیق کو تھوڑی سی حیرت بھی ہوئی۔ زندگی بھر اس نے اپنی بیوی کو کچھ نادیدہ حدود کا پابند رکھا تھا۔ وہ روٹھ سکتی تھی مگر اسے منانا ضروری نہیں تھا۔ اپنی اور گھر کی تمام ضروریات کے لئے پیسے لے سکتی تھی مگر بینک اکاؤنٹ کی تفصیل سے واقف ہونا ضروری نہیں تھا۔ اختلاف کرسکتی تھی مگر ہنگامہ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اپنے شوہر کی قوت برداشت کی نظر نہ والی لکیر کو پار کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

    لیکن اس روز اس کی بیوی کے تیور بدلے ہوئے نظر آتے تھے۔

    محمد شفیق کو احساس ہونے لگا کہ معاملہ سنگین ہے۔ اس نے اپنے چہرے پر وہی سنجیدگی طاری کرلی جو اس بات کا اشارہ ہوتی تھی کہ اس وقت وہ کوئی فضول بات سننا نہیں چاہتا۔

    اس کی بیوی نے کہا۔۔۔ ’’یہ شہناز کون ہے۔؟‘‘

    ذہنی طور پر منتشر اور تھکن سے چور محمد شفیق کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ ’’شہناز۔۔۔!‘‘ اس نے کہا۔۔۔ ’’کون شہناز؟‘‘

    ’’یہ بھی تمہیں میں بتاؤں کہ کون شہناز۔۔۔؟‘‘ اس کی بیوی نے زہریلے لہجے میں کہا۔

    محمد شفیق کے تمام اعصاب جیسے کسی جھٹکے سے بیدار ہو گئے۔ بدن میں لہو کے ساتھ ایڈرینالین دوڑنے لگی اور وہ ایک ہوشیار، چوکنے جانور کی طرح ایک خوفناک حملے کا دفاع کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ زندگی بھر اسے احترام سے ’آپ‘ کہہ کر مخاطب کرنے والی بیوی بغاوت پر آمادہ نظر آتی تھی۔

    ’’اگر تم مسز شہناز عارف کی بات کر رہی ہو۔‘‘ محمد شفیق نے اپنی آواز دھیمی مگر مضبوط رکھی۔ ’’تو وہ ایک رائٹر ہیں۔ ٹی وی ڈرامے لکھتی ہیں۔ ناول نگار ہیں۔ مگر یہ کون سا طریقہ ہے شوہر سے بات۔۔۔‘‘

    ’’بھاڑ میں گیا طریقہ۔۔۔‘‘ اس کی بیوی نے کہا۔ ’’اور اس کے ساتھ شوہر بھی۔ یہ بتاؤ کہ تم اس سے شادی کرنے کا پروگرام بنا رہے ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’کیا مطلب ہے اس بات کا۔؟‘‘ محمد شفیق نے اپنی آواز ذرا سی بلند کی۔ بس، ذرا سی بلند۔ ٹی وی اشتہارات کے وائس اوور کی ریکارڈنگ کرانے والے فنکاروں سے اس نے یہ گر سیکھا تھا۔ آواز کی پچ بہت بلند نہ ہو اور کھرج ذرا سی بڑھادی جائے تو تاثر گہرا ہو جاتا ہے۔

    اس کی بیوی نے ایک گہری سانس لی، یوں جیسے اچانک پھٹ پڑنے کی خواہش پر قابو پارہی ہو۔ پھر اس نے کہا۔ ’’وہ یہاں آئی تھی۔ تمہاری مسز شہناز عارف۔‘‘

    محمد شفیق آواز کے زیرو بم کو استعمال کرنے کا سارا کھیل پل بھر کو بھول گیا۔ ’’یہاں آئی تھی۔۔۔!‘‘ اس نے حیرت سے کہا۔ ’’مگر کیوں۔۔۔؟‘‘ ہزاروں ممکنہ مناظر، خدشات بن کر اس کی نظروں کے سامنے سے گزرنے لگے۔

    اس کی بیوی نے ٹھہر ٹھہر کر کہنا شروع کیا۔ ’’کیونکہ تمہارا موبائل فون بند تھا۔ وہ تمہارے لئے پریشان تھی۔ وہ تمہیں فون کر رہی تھی۔ پھر اس نے دفتر سے گھر کا نمبر لیا اور مجھ سے پوچھا۔ میں نے کہا کہ وہ شہر سے باہر ہیں۔ مگر وہ سوال پر سوال کرتی رہی۔ پھر ڈھونڈتی ڈھونڈتی وہ گھر آ پہنچی۔‘‘ محمد شفیق نے دیکھا، اس کی بیوی بار بار مٹھیاں بھینچ رہی تھی، کھول رہی تھی۔ ’’جو کچھ اس نے یہاں کہا اس کے بعد میں نے اس کے ساتھ وہی کیا، جس کی وہ مستحق تھی۔‘‘

    ’’کیا کیا تم نے۔۔۔؟‘‘ محمد شفیق نے غصے سے کہا۔ ’’تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’شادی تم کرنا چاہتے ہو اور دماغ میرا خراب ہے۔؟‘‘ اس کی بیوی نے چلّا کر کہا۔ ’’تم مجھے جانتے نہیں ہو محمد شفیق۔ کیونکہ تم نے مجھے جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ میں وہ بھی ہوں جو تمہیں نظر آتی ہوں اور وہ بھی، جو نظر نہیں آتی۔ سمجھ رہے ہو۔؟ میں وہ ہوں، جس نے تمہارا یہ گھر بنایا ہے۔ جس نے تمہیں آٹے، دال، سبزی سے، گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد رکھا ہے۔ میں نے تمہیں گرم روٹی کھلائی ہے اور تنگی میں گزارا کیا ہے اور تمہاری شوہرانہ رعونت کو ہمیشہ پیار سے تھپکی دی ہے۔‘‘

    محمد شفیق کے کانوں کی لویں سرخ ہو چکی تھی۔ یہ عورت، یہ معمولی استانی، نویں دسویں کی لڑکیوں کو میر اور داغ اور علامہ اقبال کے شعروں کی انٹ شنٹ تشریح ڈکٹیٹ کرانے والی، ہر صبح چائے میں پاپے ڈبو کر کھانے والی عام سی عورت اس پر حاوی آنے کی کوشش کررہی تھی۔ اسے مسلسل ’تم‘ کہہ کر مخاطب کر رہی تھی۔

    ’’بند کرو یہ بکواس۔‘‘ محمد شفیق نے گرج کر کہا۔

    اس کی بیوی کے لئے جیسے اس کی گرجدار آواز کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ اس نے محمد شفیق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’تم پچیس برس کے نہیں ہو محمد شفیق، پچاس برس کے ہونے والے ہو۔ دو دو بچوں کی مائیں تمہیں انکل کہنے لگی ہیں۔ پچھلی بار تمہارا شوگر لیول بہت بلند تھا اور کولیسٹرول بالکل سرحد پر تھا۔ تمہارے بال ڈائی کئے ہوئے ہیں مگر سامنے سے تم گنجے ہو چکے ہو اور اپنا پیٹ دیکھا ہے تم نے۔؟ تمہارا خیال ہے کہ کوئی عورت تمہاری وجاہت سے اتنی متاثر ہو سکتی ہے کہ تم سے شادی کرنے کے لئے مچل جائے۔ تم سٹھیا گئے ہو۔ بڑھاپے میں نوجوانی کا کھیل کھیلنے کے شوق نے تمہیں اتنا اندھا کر دیا ہے کہ تم یہ بھی نہیں دیکھ سکتے کہ وہ عورت اپنے شوہر سے جان چھڑانے کے لئے تمہیں وقتی طور پر استعمال کر رہی ہے۔ تم ایک عارضی بندوبست ہو۔ ایک عبوری انتظام۔‘‘

    محمد شفیق نے اپنے چہرے پر غصّے کے تاثرات برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی۔ مگر اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہو۔ جیسے وہ کسی ویرانے میں بےبس پڑا ہوا ہو اور اس کے سینے پر سوار اس کی بیوی تیز دھار والے خنجر سے اس پر پے در پے وار کرتی جا رہی ہو۔ غیراہم دکھائی دینے والی بیوی۔ دھیمی، بےآواز بیوی۔

    محمد شفیق کے دل پر پہلی بار خوف کسی سیاہ بادل کی طرح چھانے لگا۔

    اس نے اپنے جسم و جاں کی پوری قوت استعمال کر کے بلند آواز میں کہا۔ ’’تم پاگل ہو گئی ہو۔ مجھے اتنا غصّہ نہ دلاؤ کہ میں کوئی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاؤں۔‘‘

    ’’تم قدم اٹھاؤ گے۔۔۔؟‘‘ وہ ہنسی۔ اس کی کی ہنسی میں وحشت بھری تھی۔ ’’تم نہیں جانتے کہ جس دن میں نے کوئی قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا، اس دن کیا ہوگا۔ تم اس عمر میں سارے دفتر کے سامنے اپنی بیوی کا ہنگامہ برداشت نہیں کر سکتے۔ قانونی نوٹسوں کا سامنا نہیں کر سکتے ہو جو خلع کے لئے اور نان نفقے کے لئے تمہارے نام آئیں اور جن کی ایک ایک کاپی تمہارے ہر جاننے والے کو ملے۔ میں تمہیں برباد کرسکتی ہوں محمد شفیق، کیونکہ اس جنگ میں ہر شخص میرے ساتھ کھڑا ہوگا، اس احمق باپ کے ساتھ نہیں جو اپنی جوان ہوتی بیٹی کا رشتہ ڈھونڈنے کے بجائے خود شادی کرنے کا منصوبہ بنارہا ہو اور تم کچھ نہیں کرسکو گے۔ تم ایک بزدل، کم ہمت آدمی ہو۔ بےسروپا خواب دیکھنے والے۔ بےروزگار ہونے کے خوف سے ایک ہی نوکری سے چمٹے رہنے والے۔ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا۔ اچھی طرح سمجھ لو کہ تم کچھ نہیں ہو۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ تمہارے بغیر آرام سے زندگی گزار سکتی ہوں، مگر تم۔۔۔ تم اس اچھی بھلی زندگی کے بغیر صرف ایک صفر رہ جاؤگے۔ بے حیثیت، غیر اہم، زیرو۔‘‘

    محمد شفیق کا رنگ زرد پڑ چکا تھا اور اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے اور اس کے پورے بدن میں وہ کمزوری پھیلتی جاتی تھی جو کسی صورت نہ ٹل سکنے والی موت کو ایک لمحے کی دوری پر دیکھ کر سارے بدن کو مفلوج کر دیتی ہے۔

    وہ کچھ کہے بغیر مڑا اور اپنے بیڈروم میں چلا گیا۔

    اپنے بستر پر چت لیٹے لیٹے وہ کچھ دیر تک تصور کرتا رہا کہ وہ کسی پرسکون جھیل کی سطح پر ایک چھوٹی سی کشتی میں لیٹا ہوا ہے اور وہ کشتی ہلکی لہروں کی بدولت دھیرے دھیرے ڈول رہی ہے۔

    پھر نہ جانے کب وہ سو گیا۔

    اس کی آنکھ کھلی تو دوپہر ہوچکی تھی۔ وہ کچھ دیر آنکھیں بند کئے لیٹا رہا۔ باہر سے اس کی بیٹی کی آواز آرہی تھی۔ وہ اسکول سے آ چکی تھی اور شاید اپنی ماں کو جوشیلے انداز میں کوئی واقعہ سنا رہی تھی۔

    محمد شفیق نہا دھوکر باہر نکلا۔

    اس کی بیٹی نے اسے دیکھتے ہی کہا۔ ’’بابا۔ مڈٹرم میں دوسری پوزیشن آئی ہے میری۔‘‘

    ’’ویری گڈ۔۔۔‘‘ محمد شفیق نے مسکراکر اس کا ماتھا چوما۔

    باورچی خانے سے اس کی بیوی کی آواز آئی۔ ’’کھانا لگاؤ میز پر۔ لیکن پہلے میز صاف کرنا۔‘‘

    جتنی دیر میں کھانے کے برتن آئے، کھانا آیا، اس کی بیٹی اور پھر بیوی آئی، اتنی دیر محمد شفیق دائیں طرف کی کھڑکی سے نظر آنے والے جامن کے درخت کو دیکھتا رہا، جس کی بڑی بڑی ٹہنیاں اکثر اپنے ہی وزن سے ٹوٹ جاتی تھیں۔

    اس کی بیٹی نے کہا۔ ’’اوہو۔ آج تو بابا کے لئے اروی گوشت بنا ہے۔!‘‘

    ’’آرام سے کھانے دیا کرو بابا کو۔۔۔‘‘ اس کی بیوی نے دھیمی آواز میں کہا۔ ’’تین دن پتا نہیں کیا کیا کھاتے رہے ہیں۔‘‘

    محمد شفیق نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی۔ وہ ہمیشہ جیسی ہی تھی۔ پرسکون، مدہم، نرم خو۔

    ’’کھانا تو خیر مل جاتا تھا۔‘‘ محمد شفیق نے کہا۔ ’’فیکٹری میں ہی پکتا تھا وہاں۔ لیکن مرچیں بہت ہوتی تھیں ہر کھانے میں۔‘‘

    ’’ایسا کھانا کھانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔‘‘ اس کی بیوی نے سر جھکائے جھکائے آہستہ سے کہا۔

    ’’تو کیا کرتا۔؟‘‘ محمد شفیق نے کہا۔ ’’تین دن فاقہ تو نہیں کر سکتا تھا۔‘‘

    ’’بابا کو دکھائی رپورٹ کارڈ۔؟‘‘ اس کی بیوی نے بیٹی سے کہا۔

    ’’ابھی کھانے کے بعد دکھاتی ہوں۔‘‘ بیٹی مسکرائی۔ ’’انعام دینا پڑےگا بابا کو۔‘‘

    محمد شفیق اطمینان سے کھانا کھاتا رہا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے