- کتاب فہرست 188629
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
کارگزاریاں59
ادب اطفال2076
ڈرامہ1028 تعلیم377 مضامين و خاكه1532 قصہ / داستان1738 صحت108 تاریخ3579طنز و مزاح748 صحافت216 زبان و ادب1977 خطوط817
طرز زندگی26 طب1033 تحریکات300 ناول5028 سیاسی372 مذہبیات4901 تحقیق و تنقید7352افسانہ3057 خاکے/ قلمی چہرے294 سماجی مسائل118 تصوف2281نصابی کتاب568 ترجمہ4579خواتین کی تحریریں6357-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی14
- اشاریہ5
- اشعار69
- دیوان1498
- دوہا53
- رزمیہ106
- شرح211
- گیت66
- غزل1330
- ہائیکو12
- حمد54
- مزاحیہ37
- انتخاب1659
- کہہ مکرنی7
- کلیات717
- ماہیہ21
- مجموعہ5352
- مرثیہ400
- مثنوی886
- مسدس62
- نعت602
- نظم1318
- دیگر82
- پہیلی16
- قصیدہ201
- قوالی18
- قطعہ74
- رباعی306
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا10
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت28
دیپک بدکی کے افسانے
فرض شناس
میں اپنے دفتر میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ آج کوئی منحوس خبر ضرور ملنے والی ہے۔ کوئی کابوسی ڈر تھا جو مجھے پریشان کر رہا تھا۔ دن ہی کچھ ایسے تھے کہ ذہن ہر دم منفی خیالات میں گرفتار رہتا تھا۔ ہڑتالیں، جلسے جلوس، سرکاری کرفیو، سِول کرفیو، گولی باری، بم دھماکے،
ایک بے کار آدمی کی کہانی
اس نے خود کو کبھی بے کار نہیں سمجھا۔ نہ اس وقت، جب وہ گرلز کالج کے گیٹ کے باہر سفید خوبصورت کبوتریوں کی آمد و رفت سے اپنی آنکھوں کو طراوت پہنچاتا تھا اور نہ اب جب وہ گھر میں بیٹھا بیوی کے لوٹ آنے کا انتظار کرتا ہے۔ لڑکپن میں والدین نے خوب سمجھایا کہ
گونگے سناٹے
یہ ایک سچی کہانی ہے مگر میری گزارش ہے کہ ان کرداروں کو آپ ڈھونڈنے نہیں نکلنا کیونکہ اب وہ وہاں پر نہیں رہتے ہیں۔ نہ جانے ٹرانسفر ہو کر کہاں چلے گئے۔ منوہر کھرے کام تو کسی اور سنٹرل دفتر میں کرتا تھا مگر عبوری طور پر رہتا تھا کسی اور محکمے کے گیسٹ ہاؤس
ایک انقلابی کی سرگزشت
میری بوڑھی آنکھوں نے اسّی بہاریں اور اسی پت جھڑ دیکھے ہیں۔ بہار تو خیر نام کے لیے آتی تھی ورنہ جن دنوں میں چھوٹا تھا میں نے کہیں چمن میں گل کھلتے دیکھے ہی نہیں۔ ہر طرف سیلاب، سوکھا، قحط، بھوک مری، غلامی اور بےروزگاری نظر آتی تھی۔ ملک پر فرنگیوں کا قبضہ
اب میں وہاں نہیں رہتا
ڈاکیہ تین بار اس ایڈرس پر مجھے ڈھونڈنے گیا تھا لیکن تینوں بار مایوس ہو کر لوٹ آیا۔ اس نے دروازے پر کئی بار دستک دی تھی، بلند آواز میں میرا نام پکارا تھا اور پھر دائیں بائیں دیکھ لیا تھا کہ شاید کوئی پڑوسی آواز سن کر گھر سے باہر نکل آئے اور اسے بتلا
دودھ کا قرض
ساری بستی شعلوں میں لپٹی ہوئی تھی۔ آگ کی لپٹوں اور دھوئیں کی اوٹ میں سے نہ جانے کہاں سے ایک چھوٹا سا لڑکا برآمد ہوا اور سنسان سڑک پر سر پٹ دوڑ نے لگا۔ عمر کوئی دس گیارہ برس کی تھی۔ رات بھر وہ اندھیرے کو اوڑھ کر خود کو چھپاتا رہا، پھر صبح کاذب نے اس
موت کا کنواں
پتا جی نے میرا ہاتھ زور سے پکڑ رکھا تھا تاکہ میں کہیں اِدھر اُدھر نہ چلا جاؤں اور بھیڑ میں گُم ہو جاؤں۔ میرے ساتھ میری ماں اور بڑی بہن بھی تھی جو عمر میں مجھ سے آٹھ سال بڑی تھی۔ ایتوار ہونے کے سبب گورنمنٹ سنٹرل مارکیٹ میں، جس کو ’نمائش گاہ ‘ یا ’نمائش‘
گواہوں کی تلاش
میں نے گواہوں کی تلاش میں سارا شہر چھان مارا مگر کوئی گواہی دینے کے لیے تیار نہ ہوا۔ انھیں عدالت میں جھوٹ نہیں بولنا تھا بلکہ سچائی بیان کرنی تھی، پھر بھی کسی کو میرے ساتھ ہمدردی نہ ہوئی۔ شاید عدالت میں سچ بولنا مشکل ہوتا ہو گا۔ نہیں تو سب کے سب انکار
جاگتی آنکھوں کے خواب
آرزوؤں کی اڑان کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ وہ نہ مالی حالت دیکھتی ہے اور نہ سماجی رتبہ۔ شعبان ڈار کی دِلی آرزو تھی کہ اس کے دونوں بیٹے، خالد اور اشتیاق ڈاکٹر بن جائیں۔ دراصل ان دنوں اکثر والدین اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ ان
لہو کے گرداب
کئی گھنٹوں سے وہ اپنے ہم سفر کا انتظار کر رہی تھی مگر وہ واپس آیا نہ کہیں دکھائی دیا۔ ہر لمحہ اس کے لیے امتحان بنتا جا رہا تھا۔ وہ سوچنے لگی۔ ‘’یہ ریل گاڑی جب منزل مقصود پر پہنچ جائے گی تو میں کہاں جاؤں گی؟ وہاں میرا کوئی بھی نہیں ہے۔ اجنبی شہر۔۔۔ اجنبی
ہرکارہ
تپتی ہوئی سرمئی سڑک پر وہ اپنی سائیکل گھسیٹے جا رہا تھا مگر ٹانگیں ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ سارا بدن جلتا ہوا سا محسوس ہو رہا تھا۔ سانس بھی پھول چکی تھی۔ پھر بھی وہ منزل تک پہنچنے کی لگاتار کوشش کر رہا تھا۔ آسمان سے شعلے برس رہے تھے۔ لوگ کئی دنوں سے مون
آگ کا دریا
میری پہلی پوسٹنگ تھی۔ تجربے کی کمی ہونے کے سبب فائیلوں پر فیصلے دینے میں ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ مگر مرتا کیا نہ کرتا۔ فائلیں تو نپٹانی تھیں۔ آخر تنخواہ کس بات کی لے رہا تھا۔ ماتحتوں پر بھروسہ کر کے کام چلانا پڑتا تھا۔ میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں دیانت
یوم حساب
ایک زمانہ تھا کافی ہاؤس کشمیری سیاست کا بیرومیٹر ہوا کرتا تھا۔ دن ڈھلنے سے پہلے ہی سیاست دان، صحافی، دانشور، فن کار، گورنمنٹ ملازم اور طلبہ کافی ہاؤس میں جمع ہو جاتے اور حالات حاضرہ پر بحث و مباحث کرتے۔ ہر کوئی اپنی فراست کی نمائش میں غلطاں و پیچاں رہتا۔
اندھیر نگری
ایک زمانہ تھا کہ مطبوعہ تحریر کو اکثر مستند مانا جاتا تھا۔ جہاں کہیں کسی اخبار، رسالے یا کتاب میں کوئی بات چھپ جاتی اس پر فوراً یقین کیا جاتا۔ تشکیک کی بہت کم گنجائش ہوتی تھی۔ جہالت اور ضعیف الاعتقادی کی یہ حالت تھی کہ ’جو مانگو گے وہی ملے گا‘ جیسا اشتہار
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here
-
کارگزاریاں59
ادب اطفال2076
-
