- کتاب فہرست 187236
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1947
طب894 تحریکات294 ناول4552 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی12
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1444
- دوہا64
- رزمیہ108
- شرح192
- گیت83
- غزل1138
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1559
- کہہ مکرنی6
- کلیات685
- ماہیہ19
- مجموعہ4954
- مرثیہ377
- مثنوی824
- مسدس58
- نعت542
- نظم1221
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ186
- قوالی19
- قطعہ61
- رباعی294
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی29
- ترجمہ73
- واسوخت26
دیپک بدکی کے افسانے
فرض شناس
میں اپنے دفتر میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ آج کوئی منحوس خبر ضرور ملنے والی ہے۔ کوئی کابوسی ڈر تھا جو مجھے پریشان کر رہا تھا۔ دن ہی کچھ ایسے تھے کہ ذہن ہر دم منفی خیالات میں گرفتار رہتا تھا۔ ہڑتالیں، جلسے جلوس، سرکاری کرفیو، سِول کرفیو، گولی باری، بم دھماکے،
ایک بے کار آدمی کی کہانی
اس نے خود کو کبھی بے کار نہیں سمجھا۔ نہ اس وقت، جب وہ گرلز کالج کے گیٹ کے باہر سفید خوبصورت کبوتریوں کی آمد و رفت سے اپنی آنکھوں کو طراوت پہنچاتا تھا اور نہ اب جب وہ گھر میں بیٹھا بیوی کے لوٹ آنے کا انتظار کرتا ہے۔ لڑکپن میں والدین نے خوب سمجھایا کہ
گونگے سناٹے
یہ ایک سچی کہانی ہے مگر میری گزارش ہے کہ ان کرداروں کو آپ ڈھونڈنے نہیں نکلنا کیونکہ اب وہ وہاں پر نہیں رہتے ہیں۔ نہ جانے ٹرانسفر ہو کر کہاں چلے گئے۔ منوہر کھرے کام تو کسی اور سنٹرل دفتر میں کرتا تھا مگر عبوری طور پر رہتا تھا کسی اور محکمے کے گیسٹ ہاؤس
ایک انقلابی کی سرگزشت
میری بوڑھی آنکھوں نے اسّی بہاریں اور اسی پت جھڑ دیکھے ہیں۔ بہار تو خیر نام کے لیے آتی تھی ورنہ جن دنوں میں چھوٹا تھا میں نے کہیں چمن میں گل کھلتے دیکھے ہی نہیں۔ ہر طرف سیلاب، سوکھا، قحط، بھوک مری، غلامی اور بےروزگاری نظر آتی تھی۔ ملک پر فرنگیوں کا قبضہ
اب میں وہاں نہیں رہتا
ڈاکیہ تین بار اس ایڈرس پر مجھے ڈھونڈنے گیا تھا لیکن تینوں بار مایوس ہو کر لوٹ آیا۔ اس نے دروازے پر کئی بار دستک دی تھی، بلند آواز میں میرا نام پکارا تھا اور پھر دائیں بائیں دیکھ لیا تھا کہ شاید کوئی پڑوسی آواز سن کر گھر سے باہر نکل آئے اور اسے بتلا
دودھ کا قرض
ساری بستی شعلوں میں لپٹی ہوئی تھی۔ آگ کی لپٹوں اور دھوئیں کی اوٹ میں سے نہ جانے کہاں سے ایک چھوٹا سا لڑکا برآمد ہوا اور سنسان سڑک پر سر پٹ دوڑ نے لگا۔ عمر کوئی دس گیارہ برس کی تھی۔ رات بھر وہ اندھیرے کو اوڑھ کر خود کو چھپاتا رہا، پھر صبح کاذب نے اس
موت کا کنواں
پتا جی نے میرا ہاتھ زور سے پکڑ رکھا تھا تاکہ میں کہیں اِدھر اُدھر نہ چلا جاؤں اور بھیڑ میں گُم ہو جاؤں۔ میرے ساتھ میری ماں اور بڑی بہن بھی تھی جو عمر میں مجھ سے آٹھ سال بڑی تھی۔ ایتوار ہونے کے سبب گورنمنٹ سنٹرل مارکیٹ میں، جس کو ’نمائش گاہ ‘ یا ’نمائش‘
گواہوں کی تلاش
میں نے گواہوں کی تلاش میں سارا شہر چھان مارا مگر کوئی گواہی دینے کے لیے تیار نہ ہوا۔ انھیں عدالت میں جھوٹ نہیں بولنا تھا بلکہ سچائی بیان کرنی تھی، پھر بھی کسی کو میرے ساتھ ہمدردی نہ ہوئی۔ شاید عدالت میں سچ بولنا مشکل ہوتا ہو گا۔ نہیں تو سب کے سب انکار
جاگتی آنکھوں کے خواب
آرزوؤں کی اڑان کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ وہ نہ مالی حالت دیکھتی ہے اور نہ سماجی رتبہ۔ شعبان ڈار کی دِلی آرزو تھی کہ اس کے دونوں بیٹے، خالد اور اشتیاق ڈاکٹر بن جائیں۔ دراصل ان دنوں اکثر والدین اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ ان
لہو کے گرداب
کئی گھنٹوں سے وہ اپنے ہم سفر کا انتظار کر رہی تھی مگر وہ واپس آیا نہ کہیں دکھائی دیا۔ ہر لمحہ اس کے لیے امتحان بنتا جا رہا تھا۔ وہ سوچنے لگی۔ ‘’یہ ریل گاڑی جب منزل مقصود پر پہنچ جائے گی تو میں کہاں جاؤں گی؟ وہاں میرا کوئی بھی نہیں ہے۔ اجنبی شہر۔۔۔ اجنبی
ہرکارہ
تپتی ہوئی سرمئی سڑک پر وہ اپنی سائیکل گھسیٹے جا رہا تھا مگر ٹانگیں ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ سارا بدن جلتا ہوا سا محسوس ہو رہا تھا۔ سانس بھی پھول چکی تھی۔ پھر بھی وہ منزل تک پہنچنے کی لگاتار کوشش کر رہا تھا۔ آسمان سے شعلے برس رہے تھے۔ لوگ کئی دنوں سے مون
آگ کا دریا
میری پہلی پوسٹنگ تھی۔ تجربے کی کمی ہونے کے سبب فائیلوں پر فیصلے دینے میں ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ مگر مرتا کیا نہ کرتا۔ فائلیں تو نپٹانی تھیں۔ آخر تنخواہ کس بات کی لے رہا تھا۔ ماتحتوں پر بھروسہ کر کے کام چلانا پڑتا تھا۔ میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں دیانت
یوم حساب
ایک زمانہ تھا کافی ہاؤس کشمیری سیاست کا بیرومیٹر ہوا کرتا تھا۔ دن ڈھلنے سے پہلے ہی سیاست دان، صحافی، دانشور، فن کار، گورنمنٹ ملازم اور طلبہ کافی ہاؤس میں جمع ہو جاتے اور حالات حاضرہ پر بحث و مباحث کرتے۔ ہر کوئی اپنی فراست کی نمائش میں غلطاں و پیچاں رہتا۔
اندھیر نگری
ایک زمانہ تھا کہ مطبوعہ تحریر کو اکثر مستند مانا جاتا تھا۔ جہاں کہیں کسی اخبار، رسالے یا کتاب میں کوئی بات چھپ جاتی اس پر فوراً یقین کیا جاتا۔ تشکیک کی بہت کم گنجائش ہوتی تھی۔ جہالت اور ضعیف الاعتقادی کی یہ حالت تھی کہ ’جو مانگو گے وہی ملے گا‘ جیسا اشتہار
join rekhta family!
-
ادب اطفال1947
-