- کتاب فہرست 181733
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1653
طب565 تحریکات257 ناول3434 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی9
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1333
- دوہا61
- رزمیہ92
- شرح149
- گیت86
- غزل750
- ہائیکو11
- حمد32
- مزاحیہ38
- انتخاب1387
- کہہ مکرنی7
- کلیات635
- ماہیہ16
- مجموعہ4001
- مرثیہ332
- مثنوی680
- مسدس44
- نعت425
- نظم1009
- دیگر46
- پہیلی14
- قصیدہ143
- قوالی9
- قطعہ51
- رباعی256
- مخمس18
- ریختی17
- باقیات27
- سلام28
- سہرا8
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی19
- ترجمہ80
- واسوخت24
حمید قیصر کے افسانے
راز داں
میں موچی کے تھڑے پر پہنچا تو وہ اکیلا کسی جوتے پر جھکا اپنے کام میں مگن تھا۔ ابھی میں بیٹھا ہی تھا کہ مجھے بھن بھن کا نامانوس ساشور سنائی دیا، میں نے معنی خیز نگاہوں سے موچی کی طرف دیکھا تو وہ بدستور اپنے کام میں مصروف رہا۔ میں نے ذرا غور سے سنا تو مجھے
آواز
‘’کیا تم میری آواز سن سکتی ہو؟’‘ ‘’ہاں، مگر یہ تم کیوں پوچھ رہے ہو؟’‘ ‘’تم اس قدرمیرے قریب ہوکہ بنا بتائے دل کا ہر بھید پا لیتی ہو؟‘‘ ‘’ہاں ہاں آخر ہوا کیا ہے؟‘‘ ‘’لگتا ہے میری آواز بے صوت ہو گئی ہے’‘ ‘’بےصوت۔۔۔ اور آواز؟ یہ آج تم پہیلیاں
دوسرا آخری خط
میں نے چوتھا مکان بھی بدل لیاہے، شاید یہی بتانے کے لیے تمہیں دوسرا آخری خط لکھ رہا ہوں۔ یوں تو پہلے خط کا جواب نہ پا کر مجھے ہر گز دوسرا خط نہیں لکھنا چاہیے تھا مگر کیا کروں اور کوئی چارہ بھی تو نظر نہیں آتا۔ نئے مکان میں اور خوبیوں کے علاوہ ابھی کل
دوسرے باؤجی
جب اگست 1947ء میں بر صغیر پاک و ہند کی تقسیم عمل میں آئی توادھرسے جوق در جوق لُٹے پُٹے خاندان نوزائیدہ پاکستان آئے تو ان قافلوں کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی آگئے جن کے لیے خاک و خون کے دریا عبور کر کے پاکستان آنا محض ایک ایڈو ینچر تھا۔ ان میں انبالہ کے سنیل،
دوسرے دکھ
جب میں تمہارے خط کا جواب لکھنے بیٹھاتو دیر تلک یہ سوچتا رہا کہ کہاں سے شروع کروں اور کیا لکھوں؟ جانے کتنا وقت بیت گیا، احساس نہ رہا کہ اچانک دم توڑتی شب کے سینے پر اک دھماکہ ہوا، ایک اور دھماکہ اور پھر ایک اور۔۔۔ تو کھلا کہ آج 23 مارچ ہے۔۔۔ نیند کے متوالوں
شناخت
ہوش سنبھالتے ہی کٹھن امتحانات شروع ہو گئے۔ ماں سے ربط کیا ٹوٹا گویا میں اپنے مدار میں تیزی سے گھومتے ہوئے باہر آن پڑا اور بےمرکز ہو کر اپنی شناخت کھو بیٹھا۔ میرے ساتھ یوں ہوا جیسے کمہار کے تیزی سے گھومتے ہوئے چاک سے مٹی کا تودا پھسل کر زمین پر گر پڑے
دوسرے قیدی پرندے
لالی کے ناتواں کندھے بڑے بڑے ٹو کرانما پنجروں میں پرندوں کا بوجھ اٹھائے اٹھائے شل اور ٹانگیں تھک کر چور ہو گئی تھیں۔ اب اس کے لیے مزید چلتے رہنا دشوار ہو رہا تھا۔ اوپر سے پریشانی یہ کھائے جارہی تھی کہ سورج سر پر آگیا اوراب تک بونی بھی نہ ہوپائی تھی۔
دوسرا جنم
اس نے جب سے ہوش سنبھالا تو معلوم ہوا کہ اس کا باپ قصبے کی مسجد کا خطیب ہے جس کی وجہ سے سب لوگ انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کا باپ ہر نماز، خاص طور پر جمعہ کی نماز سے قبل لاؤڈسپیکر پر بڑے جذباتی انداز میں تقریر کے دوران نمازیوں کو پندو
دوسری تدفین
اب کے میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ میلینیم کارگو والے کسٹم ایجنٹ کی پکی چھٹی کروا دوں گا، حیرت ہے کراچی سے برطانیہ آئے اسے بیس سال ہو چلے تھے مگر مجال ہے جو اس میں ذرا سی بھی کوئی تبدیلی آئی ہو؟ کام کرنے کا وہی دیسی سٹائل۔ کارگو ٹرمینل پر واقع اس کے چھوٹے
سیڑھیوں والا پل
تاری حسب معمول سورج نکلنے سے پہلے ٹین کی صندو قچی، مٹیالے رنگ کی گٹھڑی اور طوطوں کا پنجرہ اٹھائے شہر کی جانب چل پڑا۔ جیراں نے اسے آج پھر چائے پیئے بغیر گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا بلکہ اسے اکثر بنا ناشتہ کئے دھندے کے
دوسری ناہید
مجھے فلمی دنیا کے گورکھ دھندوں میں بھٹکتے ہوئے ایک عرصہ ہو چلا تھا اور اس جنون کو کسی بھی پل قرار نہ ملتا تھا۔ صبح جلد بیدار ہونا اور رات کو جلد لوٹنا فلمی دنیا کے نصاب میں نہ تھا، مجھے اس مدرسے اور اس کے نصاب نے اب تک شادی جیسی کل وقتی مشقت سے دور رکھا
قرض
اس روز سورج کو نکلتے اور غروب ہوتے کسی نے نہ دیکھا تھا۔ سرما کا وہ دن عجیب طرح کی پژمردگی لے کر نکلا تھا، دھند کے ہالے نے دن بھر فضا کو گھیرے میں لیے رکھا لیکن عصر کے بعد ہونے والی بارش نے سردی میں قدرے اضافہ کر دیا تھا۔ اس دوران لڑکی کے ورثا تدفین کے
دوسرا ہار
کمرشل مارکیٹ میں عموماً گرمیوں کی شاموں میں شاپنگ کرنے والوں کا رش قدرے بڑھ جاتا ہے۔ گرمی اور لوڈشیڈنگ کے مارے لوگ گھروں سے باہر نکلنے کے بہانے ڈھونتے ہیں۔ اس شام بھی نئے شاپنگ مال پر گاہکوں کا رش دھیرے دھیرے بڑھتا جا رہا تھا۔ جیولرز، کراکری، گارمنٹس،
صفر کا فرق
میں اور ڈاکٹر اورنگزیب کباب ہاؤس پہنچے تو وہ ہلکی سبز روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ اندر داخل ہوئے تو ہال کی روشنیوں اور دھیمے سروں کی موسیقی نے ہمارا استقبال کیا۔ کباب ہاؤس شہر کی بڑی مارکیٹ میں اچھا اور صاف ستھرا ریسٹورنٹ تھا۔جس کے اعلی معیار اور ذائقوں
دوسرا کبوتر
انعام ابھی نیند سے پوری طرح بیدارنہیں ہوا تھا۔سکون کا نرم و گرم احساس لیے ابھی رضائی اس کے اوپر تھی کہ سرکنڈوں والی جھاڑو کی سرڑ،سر، سرڑ۔۔۔سر، کی سر سراہٹیں صبح دم مشکی کے آنے کا اعلان کرنے لگی تھیں۔ انعام کو عابد اور خسرو کے ساتھ چھڑوں کے اس چوبارے
وارث
شادی کو گیارہ سال ہو گئے تھے، لیکن اولاد نرینہ سے محرومی اس کی پوری زندگی پر محیط ہو چکی تھی۔ شادی سے پہلے اس نے کتنے منصوبے بنائے تھے، ’’دو بیٹے ہوں گے اور دو ہی بیٹیاں پیدا کریں گے’‘ لیکن اللہ میاں کی منصوبہ بندی میں انسان کی سوچ کو بھلا کیا دخل؟ وہ
دوسرا آدمی
شہر کی نئی اور پرانی آبادی کے درمیان راستے میں کوڑے کا بڑا ڈھیر پڑتا تھا، اعجاز کا ہفتے میں دوبار نئی آبادی کے ترقیاتی دفتر کا پھیرا ضرور لگتا تھا۔ کبھی ٹینڈر داخل کرانے تو کبھی سپلائی آرڈر دینے۔ اگر کوئی کام نہ بھی ہوتا تب بھی اعجاز اور نعیم کی ملاقات
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS
-
ادب اطفال1653
-