Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوسرا جنم

حمید قیصر

دوسرا جنم

حمید قیصر

MORE BYحمید قیصر

    اس نے جب سے ہوش سنبھالا تو معلوم ہوا کہ اس کا باپ قصبے کی مسجد کا خطیب ہے جس کی وجہ سے سب لوگ انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کا باپ ہر نماز، خاص طور پر جمعہ کی نماز سے قبل لاؤڈسپیکر پر بڑے جذباتی انداز میں تقریر کے دوران نمازیوں کو پندو نصائح کرتا اور اخلاقیات کا درس دیتا تھا مگراس کو اپنے باپ کی کوئی بات اچھی نہ لگتی شاید اس لیے کہ وہ اس کا سوتیلا باپ تھا اور وہ اپنے باپ کو بہت قریب سے جانتا تھا۔ خول کے اندر کے باپ کو جو اس نے دوسروں کے لیے چڑھا رکھا تھا۔ اس کا باپ اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور تھا، گھر میں بھی اپنا جوشِ خطابت دکھاتا رہتا۔ بات بے بات سبھی کو جھاڑ پلاتا۔ کبھی انتہائی معمولی بات پر اس کی ماں کے ساتھ جھگڑتا۔ بہانے بہانے سے دوسروں کی تذلیل کرتا اور اپنے آپ کو سوسائٹی کا بہترین انسان گردانتا رہتا۔ ’’یہ نہ کرو، وہ نہ کرو۔‘‘

    بچوں میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے احسن کی ہر وقت شامت آئی رہتی اور احسن سے چھوٹے بہن بھائی اپنی اپنی باری کے انتظار میں سہمے رہتے۔ وہ گھر کے گھٹے گھٹے ماحول سے تنگ آ گیا تھا۔ اسے اپنے باپ سے ایک طرح کی چِڑ سی ہو گئی تھی۔ گھر میں باپ کی سلطنت کی بے جاپا بندیوں میں اس کا دم گھٹنے لگا تھا۔ احسن نے عربی فاضل امتیازی حیثیت سے پاس کر لیا تھا۔رفتہ رفتہ اس نے نصاب کے علاوہ دیگر کتابوں میں اپنی الگ دنیا بسالی۔ گویا سلطنت کے اندر سلطنت، احسن نے ٹاؤن کمیٹی کی لائبریری کی ساری کتابیں پڑھ ڈالی تھیں۔ اس کی سوچ کا آزاد پرندہ اونچی ،بہت اونچی پرواز کرنا چاہتا تھا۔۔۔ مگر باپ کی سلطنت اور اس کی فصیلیں بہت تنگ تھیں جس میں وہ اپنے آپ کو باوجود ہزارہا کاوشوں کے فٹ نہیں کر سکا تھا۔ باپ بیٹے کے درمیان فاصلے کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھتے جا رہے تھے۔ ماں کے ذریعے پتہ چلا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد باپ اسے اپنا جانشین بنانے کا آرزو مند ہے تا کہ اس کے بعد وہ قصبے کی مسجد کا منبر سنبھال سکے مگر معاشرے کو سُدھارنے والے باپ کو کیا معلوم کہ وہ تو کسی اور ہی دنیا کا باسی تھا۔

    جب احسن کے باپ کواس کی ماں کے ذریعے احسن کے خیالات معلوم ہوئے تو وہ جوان اولاد کے ساتھ سختی پر اتر آیا۔ باپ کے سخت روّیے نے اس کے حساس دل و دماغ میں بغاوت کا زہر بھر دیا۔ اب تک اسے جس جذبے نے انتہائی قدم اٹھانے سے روک رکھا تھا، وہ تھا اپنی ماں اور بہن بھائیوں کے لیے محبت کا جذبہ! احسن نے دیکھا کہ اس کے باپ کی ضد اور ہٹ دھرمی کے آگے کسی کی پیش نہ چلتی تھی۔ سب کے سب بے بس تھے۔ اس سے پہلے کہ بات بڑھ کر مار پیٹ تک پہنچتی احسن کی سوچ کے پرندے نے جست بھری اور ایک لمبی اڑان پر نکل گیا۔ وہ بھاگتے بھاگتے نڈھال ہو چکا تھا اور جب اسے ہوش آیا تو وہ اتنی دور نکل آیا، جہاں اس کے باپ کی کڑک دار آواز تو کیا اس کی ہوا بھی نہ پہنچ سکتی تھی۔ ویسے بھی اس کے لیے لڑکپن میں پتو کی سے بہاول پور تک کا فاصلہ، لنڈی کو تل سے کراچی کے برابر ہوا کر تا تھا۔ پھر وہ جیسے جیسے جوان ہوا یہ فاصلے سمٹ کر اپنی جگہ پر آ گئے۔

    اب وہ تیس سال کا ایک خوبرو اور کڑیل جوان تھا۔ زندگی کی امنگوں سے بھر پور ذہین اور پختہ ارادوں کا مالک احسن، جس نے بچپن سے جوانی تک حوادث زمانہ کو اس پامردی کے ساتھ سہا تھا کہ اب کوئی بھی مشکل، اس کے لیے مشکل نہ رہی تھی۔ اس کے سراپے میں اس کا بڑا سر اور گھنے بال بہت نمایاں تھے۔جناح میڈیکل کالج میں اس کا دوسرا سال تھا۔ احسن کی وجاہت اور اعلیٰ ادبی ذوق کے، کیا لڑکیاں اور کیا لڑکے سبھی قائل تھے۔ وہ کالج کی تمام علمی، ادبی اور نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتا تھا۔ مطالعہ کی چاٹ تو اسے بچپن ہی سے لگی تھی۔ وہ جس کسی کو جہاں کہیں بھی نظر آتا کتاب، محبوبہ کی طرح اس کے بغل میں ہوتی۔ حتیٰ کہ سٹوڈنٹ یونین کی سیکریٹری شپ کے ایک الیکشن کے لیے اسے کتاب خصوصی طور پر انتخابی نشان کے طور پر الاٹ کی گئی۔ راوی کہتا ہے کہ گھر سے بھاگنے کے بعداحسن اگر کسی فٹ پاتھ پہ بھی سویا تو صبح سر کے نیچے سے کتاب ہی برآمد ہوئی۔ کسی انسان کے اندر کثرت مطالعہ اپنے لیے ذرائع اظہار خود ہی تلاش کر لیتا ہے۔ احسن مجلسی تنقید کا بادشادہ بن گیا۔ اسٹوڈنٹ لائف میں مخالفین، کالج یا ضلعی انتظامیہ سے کسی بھی مسئلہ پر مذاکرات میں ایسی دلیلیں ڈھونڈ کر لاتا کہ مِد مقابل بغلیں جھانکتے رہ جاتے۔ انہیں مسئلہ حل کئے بغیر کوئی راستہ نہ ملتا۔ کسی پروفیسر کو بھی کہیں کسی کوٹیشن کے لیے لائبریری سے کتاب نہ ملتی تو وہ احسن کو ڈھونڈتا۔ میر و غالب اسے پورے کے پورے ازبر تھے۔ مگر شعر و سخن کا اعلیٰ ذوق رکھنے کے باوجود وہ نثر لکھتا تھا۔ نثر میں انشائیہ اور ڈرامہ اسے زیادہ مرغوب تھے۔ ‘’آتشِ بے دود’‘ اس کا خوب صورت ڈرامہ تھا جو کئی بار کالج کے پلیٹ فارم پر سٹیج بھی کیا گیا۔ اپنی ان تمام خوبیوں کی بنا پر سبھی اسے اپنا رفیق رکھتے تھے مگر احسن کے دو ہی دوست تھے ایک ممتاز اور دوسرے انوار جو اس کے بُرے وقتوں کے دوست تھے، دونوں احسن کے بڑے سر کی وجہ سے اسے’’کن سرا‘‘ کہتے تھے۔

    پھر احسن کو جیل کے وہ دن یاد آ گئے جب ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں ممتاز صحافی ناصر زیدی شاداب احمد اور بہت سے دوسرے دانشور وں کو سچ لکھنے کی پاداش میں لاہور میں کوڑے مارے گئے تھے۔بہاول پور میں بھی دفعہ ۱۴۴ نافذ تھی مگر اس نے پابندی کے باوجود احتجاجی ریلی میں شریک ہو کر اپنا شدید احتجاج ریکارڈ کرایا تھا، جس پر اسے جیل ہو گئی تھی۔

    اس کا سگریٹ کب کا بجھ چکا تھا۔ وہ جناح میڈیکل کالج کی ایک خاموش اور اداس سی بالکنی کی ریلنگ پر کہنیاں ٹکائے حسب معمول سگریٹ کا فلٹر چبائے جا رہا تھا۔ اس کا گزرا ہوا تلخ ماضی کسی فلم کی طرح اس کے ذہن کی سکرین پر چل رہا تھا۔ اس نے سگریٹ کا چبایا ہوا فلٹر ریلنگ سے نیچے تھوک دیا۔ خزاں کی اداس شام دھیرے دھیرے اپنے پر پھیلا رہی تھی۔ آوار ہ ہوا پیپل کے پتوں کو طوفان کی زَد میں آئے بجروں کی طرح اٹھاکے ادھر ادھر پھینک رہی تھی۔ ایسے میں آج احسن کو جانے کیوں اپنے والدین اور چھوٹے بہن بھائی بےطرح یاد آ رہے تھے۔ اللہ جانے وہ سب کس حال میں ہوں گے؟ نہ میں نے کوئی پتہ دیا نہ ان کی کوئی خبر پائی۔ معلوم نہیں ماں کیسی ہوگی؟ ان سب سے بچھڑ ے ہوئے ایک زمانہ بیت گیا تھا۔ چھوٹے سے قصبے سے نکل کر اونچی عمارتوں، طویل اور کشادہ سڑکوں والے شہر میں آجانا اور پیچھے کی جانب مڑ کر نہ دیکھنا اب ایک ڈراؤنا خواب سا لگتا تھا۔ اسے یقین نہ آتا تھا کہ وہ لڑکپن سے جوانی تک ایک کٹھن طویل اور صبر آز ماسفر طے کر چکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ پڑھ لکھ کر کسی مقام تک پہنچنے کا سود ا تو اس کے سر میں بچپن ہی سے سمایا ہوا تھا مگر اس کے باپ کے سخت رویے اور نارواپا بندیوں نے مہمیز کا کام کیا تھا اور اسے یک دم ایک کمزور بچے سے بہادراور کڑیل جوان بنا ڈالا تھا۔ بہادر تو شاید وہ جنم جنم سے تھا۔ اتنی سی عمر میں باپ سے بغاوت کر دینا گھر کی ساری آسائشیں تج کے اچانک زمانے کی چلچلاتی دھوپ میں اجنبی اور اَن دیکھی راہوں پر تنہا نکل آنا بھلا بہادری نہیں تو اور کیا تھا؟ احسن نے لمحہ بھر کو پھر سے سوچ کی کڑیاں ملائیں اور نیا سگریٹ سلگا کر دھوئیں کے مرغولے چھوڑنے لگا۔ اتنے میں اسے ممتازدور سے کالج کے گیٹ سے اندر آتا دکھائی دیا۔

    ارے! میرے شہزاد ے آج اخبار کے دفتر نہیں جانا کیا؟ میں اب تک ‘’پان ہاؤس‘‘ پہ تیرا انتظار کر رہا تھا۔ ممتاز نے وہیں سے ہانک لگائی۔

    ’’دھت تیرے کی۔۔۔ یہ سالا اخبار بھی ہمارے لیے شاہرائے زیست کا سنگ گراں ہو چلا ہے۔ جو اب اٹھا ئے نہیں اٹھتا۔۔۔‘‘ احسن نے بے دلی سے کتابیں سمیٹیں اور سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آن پہنچا۔ اس نے ایک لمبا ساکش لے کر سگریٹ کا دھواں ممتاز کی طرف اچھال دیا۔ ’’پورا ایک گھنٹہ لیٹ ہوچکے ہیں یار تم جانتے ہو خاکو انی صاحب کتنے غصے والے ہیں، وقت کے معاملے میں تو وہ اپنے آپ کو بھی معاف نہیں کرتے۔ وقت کے اس قدر پکے ہیں جیسے گھڑیال کی سوئیوں کے ساتھ بندھے رہتے ہوں’‘۔ ممتاز حسب معمول پان کی گلوری سمیت لفظوں کی جگالی کرنے لگا۔

    ممتاز اپنا من تو صبح سے ریڈیو کی جانب کھنچ رہا ہے یار۔ آج تو ناشتہ بھی شہناز کا ریڈیو پروگرام سُنتے ہوئے کیا تھا۔ کالج میں سارا دن کانوں میں جلتر نگ سے بجتے رہے اور ذہن پر اس ماہتاب کا سراپا چھایا رہا۔ چل لعنت بھیج اخبار پر، ریڈیو اسٹیشن چلتے ہیں آج رات کو پھر اس کا پروگرام آن ائیر جانا ہے۔’‘ احسن بچوں کی سی معصومیت سے کہہ گیا۔‘‘

    ’’نا۔ بابا نا، اپنے تو بچوں کی روزی روٹی کا معاملہ ہے، تو تو چھڑ ا چھانٹ ہے تیرا کیا ہے نا کوئی آگے نا پیچھے اور ویسے بھی ہمیں ریڈیو والوں نے اگلے ہفتے کے لیے بک کر رکھا ہے۔ اس سے پہلے یوں بن بلائے جانے سے انسان ہلکا ہوتا ہے سمجھے؟’‘ ممتاز نے چشمہ ناک پر بٹھاتے ہوئے رائے دی۔

    ‘’یار! کبھی کبھی مجھے تم میں پتوکی کے کسی محلے کی چھوٹی سی مسجد کے خطیب کی جھلک دکھائی دینے لگتی ہے۔’‘ یہ کہہ کر احسن ممتاز کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی ہنسی روکنے لگا۔ ممتاز نے چشمے کے اوپر سے احسن کو گھورتے ہوئے رکشہ روکنے کے لیے ہاتھ لمبا کر دیا۔

    ‘’استاد! یہ شہناز کے معاملے میں تو مجھے کچھ زیادہ ہی سنجیدہ دِکھتا ہے۔ یار، اس ریڈیو اناؤنسر میں ایسی کیا بات ہے جو تو پٹڑی سے ہی اتر گیا ہے؟‘‘ رکشہ چل پڑا تو ممتاز پیک کی کتھی پچکاری مار کر بولا۔

    ‘’یار! مجھے بالکل سمجھ نہیں آئی کہ میرے ساتھ کیا وار دات ہو گئی ہے؟ پہلے پہل تو وہ مجھے ریڈیواناؤنسر کی حیثیت میں آواز کا جادو جگاتے ہوئے بھلی لگتی تھی۔ خوبصورت جسم و جاں رکھنے والی ایک بھر پور عورت! اس سے زیادہ شہناز کے بارے میں ،مَیں اور کچھ نہیں جانتا تھا مگر جب سے کالج کے پلیٹ فارم پر اسے اپنے سٹیج ڈرامے میں کلاسیکل رقص کرتے دیکھا ہے، تب سے مجھے ساری دنیا رقص کرتی دکھائی دیتی ہے۔‘‘

    یہ سن کر پہلی بار رکشہ والا بھی شیشے میں سے دونوں کو دیکھتے ہوئے مسکرا دیا۔

    ’’بلے بھئی اور وہ جو کالج میں آٹھ دس الٹرا ماڈرن شہزادیاں تیری دانش کے گن گاتی پھرتی ہیں ان کا کیا ہوگا؟’‘ ممتاز نے استفسار کیا۔

    ‘’ارے، وہ تو پاگل ہیں سالی بڑے گھروں کی بگڑی ہوئی اولاد، انہیں کیا معلوم عشق کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا؟’‘ احسن نے قدرے سنجیدگی سے کہا۔

    ’’یار میرے اندر تو مصطفٰے زیدی سے بھی قربت کا احساس جاگنے لگا ہے کہ اس کی محبوبہ کا نام بھی شہناز تھا۔‘‘ احسن نے کہا۔

    ‘’چل استاد تو تو گیا کام سے!‘‘ ممتاز نے شوخی سے کہا۔

    رکشہ اخبار کے دفتر کے سامنے جا رکا۔ ابھی دونوں دفتر کی سیڑھیوں پر ہی پہنچے تھے کہ انوار سے مڈبھیڑ ہو گئی۔

    ‘’ارے احسن! تیرے کالج والے سٹیج ڈرامے کی رپورٹ اور تصویریں چھپ گئی ہیں۔‘‘ احسن نے بچوں کی طرح انوار کے ہاتھ سے اخبار جھّپٹ لیا اور پورا اخبار دونوں ہاتھوں میں کھول کر تصویریں دیکھنے لگا۔

    ‘’واہ، کیا کلاسیکل پوز ہیں، خاصی پروفیشنل معلوم ہوتی ہیں موصوفہ’‘ ممتاز نے احسن کی اخبار پر پھسلتی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے جملہ کسا۔

    ‘’ارے ہاں احسن! تقریب کی اصل تصویریں فوٹو گرافر سے لے لینا اور تمہارے لیے اخبار کی تین کاپیاں میز کی دراز میں رکھی ہیں مجھے ایک جگہ ضروری پہنچنا ہے پھر ملیں گے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے انوار نے اخبار لپیٹا اور سیڑھیاں اتر گیا۔ دونوں جلدی جلدی ایڈیٹر کے کمرے میں حاضری لگاکر اپنے ڈیسک پر جا بیٹھے۔ خوش قسمتی سے خاکوانی صاحب ان کی جانب پشت کیے پیسٹر سے کاپی جڑوا رہے تھے۔

    احسن نے چھوٹتے ہی پورا اخبار ڈیسک پر پھیلا لیا اور زاویے بدل بدل کر شہناز کے رقص کے انداز جانچنے لگا۔ ممتاز جو قدرے حیرانی اور پریشانی سے احسن کے آئنہ چہرے پر قوس قزح کے رنگوں کو اترتے چڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اس کی پیشانی پر اندیشوں کی لکیریں اورگہری ہونے لگیں۔

    ‘’احسن صاب جی!‘‘ کینٹین والا احسن کو مخاطب کرنے لگا۔

    ‘’آئیے آئیے چھٹکی استاد، کیا بات ہے، کیوں چلا رہے ہو؟ دیکھتے نہیں صاحب مصروف ہیں؟ میرے شہزاد ے، ایک ڈبی گولڈ لیف اور دو کڑک دودھ پتی، فوراً سے پہلے لے آ‘‘۔ احسن کے بجائے ممتاز نے اسے پچکارتے ہوئے پچاس کا نوٹ تھمایا۔

    ‘’صاب جی! ایڈیٹر صاب نے یہ چِٹ بھی دی ہے۔‘‘ جواباً چھوٹے نے ممتاز کو چٹ پکڑائی اور لوٹ گیا۔ ممتاز نے احسن کی توجہ حاصل کرنے کے لیے چِٹ با آواز بلند پڑھنا شروع کر دی۔ ’’احسن صاحب! آج گیارہ بجے سے اب تک سات مرتبہ کسی شہناز صاحبہ کا ریڈیو سے فون آ چکا ہے۔ بار بار آپ کا پوچھتی ہیں مگر کوئی پیغام نہیں دیتیں۔۔۔ فاروقی۔‘‘

    ‘’لوبھیا! دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی’‘ ممتاز کے لہجے کی شوخی برقرار رہی۔ احسن نے اخبار ڈیسک پر چھوڑ کر چِٹ ممتاز سے لے کریوں پڑھنا شروع کر دی جیسے اسے ممتاز کی زبان پر یقین نہ آیا ہو۔ ’’دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ آج مجھے اخبار کے بجائے ریڈیو پر ہونا چاہیے تھا‘‘۔

    احسن اخبار لپیٹ کر لفافے میں ڈالتے ہوئے بولا۔ ممتاز بدستور ناک پر عینک ٹکائے ڈیسک پر پہنچنے والی خبروں کی ایڈیٹنگ کرتا رہا۔ احسن فوٹو گر افر سے جب تک تصویریں لے کر آیا تب تک چائے آ گئی۔

    ‘’یار ممتاز! میں چائے پی کے ایمرجنسی کا بہانہ کر کے نکلتا ہوں، شہناز کے فون تو فاروقی صاحب ویسے بھی کئی بار اٹینڈ کر چکے ہیں’‘۔ احسن نے چائے پیتے ہوئے کہا۔

    ‘’ٹھیک ہے شہزاد ے! نکل لے پتلی گلی سے!‘‘ ممتاز کی آشیر باد ملتے ہی احسن نے فاروقی صاحب کو بتایا اور ریڈیو روانہ ہو گیا۔

    نہایت قلیل عرصہ میں جو چند واضح تبدیلیاں احسن کی شخصیت اور روز مرہ معمولات میں رُونما ہوئیں، انہوں نے ممتاز کو پریشان کر دیا۔ زندگی سے بھر پور، احسن ہر شے سے بےنیاز ہو گیا۔ مسلسل غیرحاضر یوں کی بدولت تھوڑے ہی عرصے میں شام کا اخبار چھوٹ گیا۔ کالج سے بھی رشتہ واجبی سارہ گیا۔ دودن جاتا اور ہفتے کے بقیہ دن ریڈیو اسٹیشن کی نذر کر دیتا۔ پہلے پہل ممتاز اور انوار نے احسن کو اپنے اپنے طریقے سے سمجھایا مگر احسن، شہناز کے عشق میں اس بُری طرح مبتلا ہو گیا تھا کہ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی جاتی رہی تھی۔ ایک دن احسن نے ممتاز اور انوار دونوں کو منہ پھاڑ کر کہہ دیا کہ تم دونوں مجھ سے جلنے لگے ہو۔ دونوں دوست جہاں دیدہ اور سمجھدار تھے۔ آپس میں صلاح کر کے انہوں نے احسن کو اس کے حال پہ تنہا چھوڑ دیا۔ ‘’عشق کا بھوت اترے گا تو خود ہی اپنے اصل کی جانب لوٹ آئےگا۔’‘ اس کے بعد احسن سے ان کی ملاقاتوں کے درمیان وقفے بڑھتے گئے۔ روزانہ ہونے والی ملاقاتیں ہفتوں اور مہینو ں پر محیط ہو گئیں مگر ممتاز اور انوار احسن کی برابر خیر خبر رکھتے۔ اس صورت حال میں دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال بیت گیا۔

    ایک دن ممتاز ابھی کام سے گھر لوٹاہی تھا کہ دستک ہوئی۔ ممتاز نے دروازہ کھولا تو سامنے ہنستا مسکراتا احسن کھڑا تھا۔ ’’استاد! اندر آنے کو نہیں کہوگے؟‘‘

    ’’آ۔۔۔ میرے شہزادے گلفام۔۔۔ کیسے ہو؟ آ جاؤ۔۔۔ آ جاؤ‘‘

    ممتاز نے اپنی روایتی شوخی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔

    ‘’یار ممتاز وہ شادی کے لیے راضی ہو گئی ہے۔۔۔‘‘ احسن گلاب کی مانند کھل رہا تھا۔

    ‘’اچھا۔۔۔ یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے’‘۔ ممتاز نے اپنی دلی کیفیت چھپا کر احسن کی خوشی میں خوش ہوتے ہوئے جواب دیا۔

    ‘’بھئی یہ خبر تو انوار کو بھی سنانی چاہیے۔۔۔ شاید اس کی آج نائٹ شفٹ ہے کل اسے گھر پر پکڑتے ہیں۔۔۔’‘ ممتاز نے پلان دیا۔

    ‘’ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔۔’‘ احسن خوش ہو گیا۔

    ‘’شہزادے۔۔۔ اتنے روز گزر گئے تم نے درشن ہی نہیں دیئے کیا بہت زیادہ مصروف ہو گئے؟’‘ ممتاز نے پوچھا۔

    ‘’بھیا۔۔۔ ریڈیو پر کئی ایک پروگراموں کے سکرپٹ لکھ رہا ہوں، وقت کہاں ہے میرے پاس؟’‘ احسن نے گویا نئی خبر سنائی۔

    ‘’اچھا پھر تو بہت مال بنا رہا ہوگا ہمارا یار‘‘ ممتاز نے خوشی کا اظہار کیا۔

    ‘’زندگی کا دھار ااک نئے رخ پر بہہ نکلا ہے۔۔۔ اب دیکھئے کیا ہوتا ہے؟‘‘ لمحہ بھر کو احسن کی چوڑی پیشانی پر طوفان کے آثار نمایاں ہوئے۔

    ’’یار ممتاز!ریڈیو پر مجھے کسی نے بتایا ہے کہ شہناز طوائف زادی ہے۔۔۔ پر مجھے اس سے کیا۔۔۔ ہے تو انسان نا۔۔۔۔ ایک خوبصورت آرٹسٹ ہے۔۔۔ ریڈیو پر اس کا بڑا نام ہے۔۔۔ محنت کر کے اپنا رزق کماتی ہے۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر ہم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔۔۔ اور اب جلد نئی زندگی کا آغاز کرنے والے ہیں۔۔۔ میرا ناقص علم تو یہی سکھاتا ہے کہ ہم سب انسان ہیں اور باہمی احترام لازمی شرط ہے۔ ہمیں کسی کے ماضی سے کیا لینا دینا اور پھر اپنا ماضی کون سا اتنا شاندار ہے گھر سے بھاگ کر۔۔۔ دھکے کھا کھاکر فٹ پاتھوں پر پل کر جوان ہوئے۔۔۔ نہ ماں کا پتہ۔۔۔ نہ باپ کی خبر۔۔۔!!‘‘ یہاں پہنچ کر احسن کی آواز بھر اگئی اور وہ خاموش ہو گیا۔ ممتاز نے اسے اپنے بازؤوں میں بھر کر تسلی دی۔

    ‘’میری جان۔۔۔ تو صحیح کہتا ہے۔۔۔ فکر نہ کر ،سب ٹھیک ہو جائےگا میں اور انوار جو تیرے ساتھ ہیں۔۔۔ پورے گیارہ آدمی۔۔۔‘‘ ممتاز نے ماحول بدلنے کی اپنی سی سعی کی۔

    اس رات احسن دیر تک بیٹھا، ممتاز کے ساتھ مل کر اپنے مستقبل کی نقشہ بندی کرتا رہا۔ جب سگریٹوں کے دھوئیں میں دونوں ایک دوسرے کو دُھند لا دیکھنے لگے اور اگلے روز کا آغاز ہو چکا تو احسن صبح دَم رخصت ہو گیا۔

    جب احسن اپنے ڈیرے پر سو کر اٹھا تو دن کا ایک بج رہا تھا۔ وہ جلدی جلدی تیار ہو کر ریڈیو اسٹیشن پہنچا تو دو بج چکے تھے۔ شہناز پہلے ہی اس کی منتظر تھی اور قدرے پریشان بھی۔۔۔ اس کی ماں نے احسن کو اکیلے شام کی چائے پہ بلایا تھا۔ شہناز جس نے اپنے تئیں اب تک آگ اور پٹرول کو نزدیک آنے سے روک رکھا تھا، مزید مزاحمت نہ کر سکی تھی۔ وہ اپنی ماں کے احسن کواس طرح اکیلے گھر بلانے کا مفہوم اچھی طرح جانتی تھی۔ اس کی زندگی کی آشائیں ایک بار پھر ماں کی کاروباری ضرورتوں کی بھینٹ چڑھنے کو تیار تھیں۔ شہناز جانتی تھی کہ احسن کس قدر دیوانہ وار اسے چاہتا ہے مگر وہ ماں کی ’’بزنس میٹنگ‘‘ کی تاب نہ لا سکےگا۔ اس نے احسن کو سب کچھ بتانے کا ارادہ کر لیا۔ شہناز اپنا ریڈیو پروگرام کر چکی تھی جب کہ رات کا پروگرام آن ائیر نہیں جانا تھا۔ احسن کمرے میں داخل ہو ا تو شہناز اضطراری کیفیت میں ٹہل رہی تھی۔

    ‘’احسن آپ کہاں رہ گئے تھے۔۔۔ اتنی دیر سے انتظار کر رہی ہوں؟’‘ اس نے چھوٹتے ہی دریافت کیا۔

    ’’مابدولت ممتاز کے گھر سے رات کو دیر سے لوٹے تھے اور خواب خرگوش سے فرار پاتے ہی قرار پانے ادھر آ نکلے ہیں۔۔۔ کیا حکم ہے شہزادی صاحبہ۔‘‘ احسن نہایت خوش گواری سے سینے پر ہاتھ رکھ کر کورنش بجا لایا۔

    ‘’احسن میں بہت پریشان ہوں۔۔۔ تم جانتے ہو میں اب تک تمہیں اپنے گھر کیوں نہیں لے کر گئی اور اپنی ماں سے کیوں نہیں ملوایا؟‘‘ شہناز سبزہ زار کی جانب کھلنے والے دریچے سے باہر دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ احسن اس کے کمر سے نیچے لٹکتے گیسوؤں میں الجھ کر رہ گیا۔

    ‘’احسن! میری ماں طوائف ہے’‘۔۔۔ شہناز نے جیسے یہ جملہ اپنی تمام تر توانائیاں مجتمع کر کے ادا کیا اور اس جملے کا ردعمل دیکھنے کے لیے احسن کی طرف پلٹی۔

    ‘’اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟۔۔۔ میں یہ سب پہلے سے جانتا ہوں’‘ احسن نے کرسی سے ٹیک لگاکر سگریٹ سلگاتے ہوئے جواب دیا۔

    ‘’مگر آپ میری ماں کی کاروباری طبیعت سے بالکل واقف نہیں۔۔۔‘‘

    شہناز کے سینے پرسے ایک بھاری پتھر ڈھلک گیا مگر طبیعت کا اضطراب بدستور قائم تھا۔ نائب قاصد کل کے لیے پروگرام شیٹ اور تازہ ڈاک میز پر رکھ کر خاموشی سے لوٹ گیا۔

    ‘’ماں نے آج شام آپ کو گھر پر بلایا ہے۔۔۔‘‘ شہناز اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔

    ‘’اجی۔۔۔ گھر آئے مہمان کو کم از کم چائے تو پلائیں گی نا۔۔۔تمہاری طرح صرف روکھی پھیکی گفتگو تو نہیں فرمائیں گی۔۔۔ ذرا بیل بجائیے خلیفہ جی راہداری میں پڑے کب سے اونگھ رہے ہیں۔‘‘

    گھنٹی کی آواز پر خلیفہ جی چائے اور سموسوں کا آرڈر لے کر چلے گئے۔ احسن نے دیکھا کہ شہناز کی دراز پلکیں بھیگ رہی ہیں۔ احسن یک دم سنجیدہ ہو گیا۔

    ‘’احسن! میرا دل بیٹھا جاتا ہے۔۔۔ مجھے ڈرلگ رہا ہے اور میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا، میں کیا کروں؟‘‘ اس کی آواز بھرا گئی۔

    احسن نے درمیان میں حائل میز پر جھک کر شہناز کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں بھر لیا۔ کمرے سے باہر پرندوں کے چہچہانے کی آواز ماحول کو مترنم کر رہی تھی۔ احسن دل و جان سے شہناز پہ واری جانے کو تیار بیٹھا تھا مگر شہناز آنے والے وقت کے بےرحم اندیشوں میں گھری سوگوار بیٹھی تھی۔

    ‘’جانِ من! تم دل چھوٹا نہ کرو، میں تمہاری ماں سے مل کر سب کچھ ٹھیک کر لوں گا۔‘‘

    احسن نے شہناز کے ہاتھ کو پرندے کی مانند سہلاتے ہوئے بڑی آسانی سے کہہ دیا تھا۔

    ‘’احسن! تم بہت بھولے ہوا ور میری ماں بہت شاطر اور مکار عورت ہے۔ تم اس کی چالوں کی تاب نہ لا سکوگے۔۔۔ اور میں تمہیں اس کے سامنے رسوا ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔۔۔ میری ماں انسانی جذبات کو کار، کوٹھی اور بینک بیلنس میں تو لنے کی عادی ہے۔۔۔ جذبے اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔۔۔ میں اس کی باقی ماندہ زندگی کا وہ آخری اور قیمتی اثاثہ ہوں، جسے داؤ پر لگا کروہ صرف اور صرف جیتنا چاہتی ہے، ہار نا نہیں۔۔۔ اسے میری اور تمہاری آرزؤں سے کوئی سرو کار نہیں۔۔۔‘‘ شہناز دھیرے دھیرے اپنے من کا بوجھ ہلکا کرنے لگی۔

    خلیفہ جی چائے اور سموسے میز پر رکھ کر جا چکے تھے۔ احسن اضطراب میں سگریٹ پھونکے جا رہا تھا۔ اس کی بے قراری دیدنی تھی۔

    ‘’دیکھو شہناز میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا۔۔۔ زندگی پہلے ہی مجھ سے میرا سب کچھ چھین چکی ہے اگر تم بھی مجھ سے چِھن گئیں تو۔۔۔ پھرمیں زندگی سے بھی سب کچھ چھین لوں گا، یہ میرا وعدہ ہے تم سے۔۔۔!‘‘

    ‘’احسن میری ماں دو ر شتے پہلے بھی رد کر چکی ہے، اسے کسی بڑے کاروباری کی تلاش ہے۔۔۔ وہ میرا رشتہ نہیں، سودا کرنا چاہتی ہے۔ وہ تو اللہ بخشے چاچے کرم دین طبلہ نواز کو جس نے بدلتے ہوئے حالات میں میری ماں کو مجھے پڑھانے کا مشورہ دیا تھا اور آج انہی کی بدولت میں یہاں ریڈیو پروڈیوسر ہوں۔۔۔ ورنہ آج میں بھی کسی کوٹھے پر ہوتی۔۔۔‘‘

    ’’پھر تو میں اس عورت سے ضرور ملوں گا جو اپنے آپ کو تمہاری ماں کہتی ہے’‘ احسن نے غصے سے کہا۔۔۔ شہناز خاموش رہی۔ اس کی کیفیت یوں تھی جیسے نہ وہ احسن کو جانے کا کہہ سکتی ہو اور نہ ہی روک سکتی ہو۔

    ‘’آؤ چلیں۔۔۔‘‘ سگریٹ ایش ٹرے میں مسل کر احسن اٹھ کھڑا ہوا۔ شام کے چار بجے تھے شہناز بھی تھکی تھکی سی پرس اٹھاکر چلی دی۔ شہر کے خوب صورت رہائشی علاقے میں درمیانے سائز کی ایک کوٹھی کے سامنے ان کا رکشہ جا رکا۔ احسن پہلی بار شہناز کے گھر آیا تھا مگر اب ا سے یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ شہناز کی ماں سے نہیں بلکہ کسی بازاری اور کاروباری عورت سے ملنے آیا ہے۔

    شہناز کے پیچھے پیچھے احسن بھی گیٹ کے اندر داخل ہوا۔ کوٹھی کے چھوٹے سے لان میں ایک طرف کرسیاں بچھی تھیں۔ گیٹ کی جانب رخ کیے ایک ادھیڑ عمر خاتون شوخ رنگ کی ساڑھی پہنے مردوں کی طرح ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بے نیازی سے سگریٹ پی رہی تھی۔ اس کے سامنے میز پر ایش ٹرے اور روایتی پان دان اپنی مالکہ کی عمر رفتہ کی چغلی کھار رہا تھا۔ شہناز نے قریب پہنچ کر سلام کیا اور موؤب کھڑی ہو گئی۔

    ‘’اچھا تو یہ ہیں تمہارے عاشقِ نا مراد۔۔۔‘‘ کیا نام بتایا تھا۔۔۔ حسن؟ ہاں احسن۔۔۔ ’’بیٹھیے’‘ ایسے انداز سے کہا جیسے کہہ رہی ہو، ’’مت بیٹھیے‘‘۔ اس سلوک پراحسن کا جی تو نہیں چاہتا تھا مگر بات بیٹھ کر ہی کرنی تھی، اس لیے وہ سامنے کی کرسی پر بیٹھ گیا۔

    احسن نے خاتون کو بے اعتنائی اور بے پرواہی کی ایکٹنگ کرتے دیکھا تو اسی کے انداز میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر پاؤں ہلانا اور کنکھیوں سے اس کابغور جائرہ لینا شروع کر دیا۔ خاتون نے آخری کش لگا کرسگریٹ کیاری میں اچھال دیا تھا۔ اس نے ماہ و سال کی ریکھاؤں اور بڑھاپے کو مصنوعی سراپے اور چہرے کی جھریوں کو غاز ے کی دبیز تہہ میں چھپانے کی نا کام کوشش کر رکھی تھی۔ کافی دیر وہ اس کرب میں مبتلا رہی کہ بات کہاں سے شروع کرے؟ پھر اچانک ہی جیسے پھٹ پڑی۔

    ‘’ہاں تو لڑکے کیا ہے تیرے پاس شہناز کو دینے کے لیے’‘؟

    ‘’وہ سب کچھ جو بنیادی انسانی ضرورتوں کے زمرے میں آتا ہے۔’‘ احسن جیسے ہر طرح کے حملے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔

    ‘’بھئی! میں تم سے صاف صاف بات کرنا چاہتی ہوں۔۔۔ شہناز سے شادی کے لیے تمہیں اپنا گھر لینا ہوگا اور ایک لاکھ روپے حق مہر ادا کرنا ہوگا۔۔۔ اگر تمہیں منظور ہے تو ٹھیک ورنہ۔۔۔ اپنا راستہ لو۔’‘ خاتون نے گویا اپنا فیصلہ سنا دیا۔

    ‘’شہناز کے والد صاحب کہاں ہیں۔۔۔؟‘‘ احسن نے اچانک پینتر ابدلا۔

    ‘’جی۔۔۔کیا مطلب۔۔۔؟؟‘‘ خاتون چکرا سی گئی۔

    ‘’دیکھئ محترمہ! سوال بہت ہی سادہ ہے۔‘‘ احسن نے اطمینان سے کہا۔ شہناز یہ سنتے ہی اٹھ کر اندر چلی گئی۔ تھوڑی دیر میں ملازمہ چائے اور لوازمات میز پر رکھ کر پلٹ گئی مگر شہناز اندر چین نہ پاکر دوبارہ باہر آ گئی اور خاموشی سے چائے بنانے لگی۔

    ‘’تمہیں اس سے کیا۔۔۔ تم اپنے مقصد کی بات کرو۔‘‘ وہ ذر اسنبھل کر بولی۔

    ‘’آپ تو شہناز کی ماں بھی نہیں ہیں، باپ کے بارے میں کیا بتائیں گی؟’‘ احسن نے کمالِ ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرا سوال داغ دیا۔ خاتون سٹپٹا گئی اور شہناز کو مشکوک نگاہوں سے گھورنے لگی، جواب تک خاموش تھی اور چائے بناتے ہوئے حیرت سے کبھی احسن تو کبھی ماں کی طرف دیکھتی تھی۔

    اگر یہ تمہاری سگی ماں ہوتی تو اسے تمہاری خوشیاں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتیں اور اس طرح کی سودے بازی نہ کرتی۔ بیٹی کی زندگی کو اپنی نا تمام خواہشات کی بھینٹ چڑھانے والی ’’ماں‘‘ نہیں ہو سکتی احسن جذبات میں کہے چلا جا رہا تھا۔

    ‘’تو سن گستاخ لڑکے، ہم کنجر لوگ تیرے جیسے لاوارثوں کو اپنی بیٹی نہیں دیتے۔ بڑے بڑے ساہوکار ہماری مٹھی میں ہوتے ہیں تو کس شمار میں ہے؟’‘ اس نے جگالی کرتے ہوئے دانتوں میں آئی سپاری غصے سے باہر تھوکتے ہوئے کہا۔

    احسن غصے سے سگریٹ کا فلٹر چبانے لگا، اس کی نظریں بار بار شہناز کی جانب اٹھتی تھیں جو کافی دیر سے نظریں زمین میں گاڑے بےبسی کی تصویر بنی بیٹھی تھی۔ چائے پیالیوں میں پڑی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ احسن ایسے میں بہت کچھ کہہ سکتا تھا مگر اس سے آگے اس کا کچھ کہنا شہناز کی توہین ہوتا، وہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتا تھا۔ اسے شہناز کی پلکوں پہ رکے آنسوؤں نے بہت کچھ کہہ دیا تھا۔ احسن نے بظاہر اطمینان سے سگریٹ سلگا یا اور شہناز کی اور یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو۔ ’’شہناز تم نے اس عورت کے بارے میں بالکل ٹھیک کہا تھا۔۔۔’‘ اور وہاں سے اٹھ کر چپ چاپ چلا آیا مگر وہ اندر سے ٹوٹ گیا تھا۔ اسے پہلی بار کسی نے لاوارثی کا طعنہ مارا تھا اور وہ بھی کسی کنجری نے۔۔۔ احسن کا ذہن بالکل خالی ہو چکا تھا۔ وہ بہت دیر تک یونہی بےمقصد فٹ پاتھ پر چلتا رہا۔آدھی رات ہو چکی تھی، شہر ابھی تک روشنیوں سے جگمگا رہا تھا مگر اس کے سپنوں اور اس کی امیدوں کے دیے وقت کی تیز آندھی نے ایک ہی ہلے میں بجھا دیئے تھے۔ وہ یوں ہی بےمقصد چلتے چلتے نڈھال ہو چکا تھا۔ ایسے میں سامنے ملک طافو کا اڈہ نظر آیا اور اس نے نہ چاہتے ہوئے پہلی بار اس حویلی کا رخ کیا جہاں من کو بہلانے کے سارے سامان بیک وقت میسر تھے۔

    احسن کا ریڈ یو جانا چھوٹ گیا۔ وہ اس کے بعد منظر سے بالکل غائب ہو گیا۔ ممتاز اور انوار، احسن کے لیے سخت پریشان تھے اور جگہ جگہ اسے ڈھونڈتے پھرے تھے مگر احسن انہیں کہیں نہ مل سکا تھا۔

    احسن کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ نے اسے بکھیر کر رکھ دیا تھا۔ وہ جلد از جلد اپنے آپ کو سمیٹنا اور کسی نتیجے تک پہنچنا چاہتا تھا۔ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ اس کی حالت زار پر ترس کھائیں اور اسے عاشق نامراد قرار دے کر عضو معطل بنا دیں۔ ایسی صورت حال میں طافو کا اڈہ اس کے لیے گوشۂ عافیت ثابت ہوا۔ ملک طافو اور اس کے گماشتے احسن کو اخبار کے حوالے سے اچھی طرح جانتے تھے۔ انہوں نے احسن کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ احسن وہاں ڈیڑھ ماہ تک رہا اور اس عرصے میں احسن نے کسی سے کوئی رابطہ نہ کیا۔ نہ شہناز سے اور نہ ہی اپنے دوستوں سے، طافو نے کئی بار چاہا بھی کہ ممتازاور انوار کو بتا دیا جائے مگر احسن نے منع کر دیا وہ کسی منطقی نتیجے پر پہنچنے کے لیے مکمل یک سوئی چاہتا تھا۔

    مہینوں بعد ایک دن ممتاز جنرل شفٹ ختم کر کے پیدل گھر آ رہا تھاکہ اچانک فٹ پاتھ پر اس کی احسن سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ ممتاز نے پہلی نظر میں احسن کو نہ پہچانا۔ احسن ممتاز کو دیکھ کر رک گیا، تب ممتاز کو ایک دھچکا سا لگا کیونکہ احسن وہ پہلے والا احسن نہ رہا تھا۔اس کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ تھی۔ بڑھا ہوا شیو، پچکے ہوئے گال، بکھرے بال، میلے کپڑے، بالکل گم سم اور خاموش! اسے دیکھ کر ممتاز جیسے دوست نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اس پر کیا بیتی ہوگی؟ گرمیوں کی اور شاموں کی طرح وہ شام بھی سہانی اور خوبصورت تھی۔ ممتاز نے احسن سے کچھ نہ پوچھا۔ وہ اسے لے کر کمپنی باغ کے ایک گوشے میں آ گیا۔ دونوں گھاس پر یوں ڈھیر ہو گئے جیسے میلوں کا سفر کر کے آئے ہوں۔ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو تکتے رہے اور خاموشی باتیں کرنی لگی۔ کمپنی باغ کیا تھا، شہر کے بیچوں پیچ پھولوں کے تختوں کے درمیان اک کنج تنہائی، جہاں پہنچ کر منظر اور بھی خوبصورت ہو گئے تھے۔ شہر سے قدرے اونچا ہونے کی وجہ سے ہوا کے معطر جھونکوں نے ساری تھکن اتارکر انہیں ہلکا پھلکا کر دیا تھا۔ چاروں اور طرح طرح کے پھولوں کا بسیرا تھا۔ باغ میں آئے بچوں اورپرندوں کا چہچہا ایک جیسا معلوم ہوتا تھا۔

    ‘’ممتاز میں ٹوٹ گیا ہوں یار۔۔۔ تم لوگ ٹھیک کہتے تھے’‘ احسن کی آواز کہیں دور سے آ رہی تھی۔

    ’’میں ہی عشق میں اندھا، بہرہ اور خود غرض ہو گیا تھا۔ شہناز سے جو امیدیں باندھی تھیں سب خاک میں مل گئیں۔ وہ خاتون، اس کی ماں نہیں بلکہ کسی کوٹھے پر بیٹھی نائیکہ ہے جو اس کی زندگی کی قیمت سے اپنی عاقبت سنوارنا چاہتی ہے۔ بڑی بولی کے لگنے تک۔۔۔ وہ شہنازکو اپنی قیدمیں رکھنا چاہتی ہے۔۔۔ شہناز اس کی ڈھلتی عمر کا واحد سہارا ہے۔‘‘ احسن نے سگریٹ سلگا یا اور پھر سے کہنا شروع کیا۔

    ‘’ممتاز! میں اپنا شمار ان مردوں میں نہیں کروانا چاہتا جو عورتوں کے پیچھے پاگل اور دیوانے ہو جاتے ہیں۔۔۔ ہوش کھو دیتے ہیں۔ ناکام عشق کاروگ ایسا ہی ہے جس کا فطری نتیجہ پاگل پن اور دیوانگی ہوتا ہے۔ لیکن دوست۔۔۔ میں مردہوں، دیوانگی کی سرحد کو چھو کر زندگی کی طرف لوٹ آیا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ زندگی ایک تلخ حقیقت اور ایک بڑا معر کہ ہے۔ میں ہمیشہ زمانے کی آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر جیا ہوں۔۔۔ اب میں اس کے آگے گھٹنے نہیں ٹیک سکتا‘‘۔ احسن خاموش ہو گیا۔ ممتاز، اس کی تمام تر کیفیات کو پوری طرح سمجھتا تھا اس لیے کوئی تبصرہ کرنے اور بحث کرنے کی بجائے اس نے اپنے رویے سے احسن کو یہ احساس دلایا کہ ہاں احسن تم واقعی بہادر اور ذی ہوش مرد ہو۔۔۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور اسے اپنے گھر لے آیا۔ گھر پہنچ کر احسن یوں سویا کہ دو دن تک بےخبر سوتا ہی رہا۔۔۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے صدیوں کا جاگا ہوا ہو۔ جب بیدار ہوا تو ایسا ہلکا پھلکا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں!

    ‘’ممتاز! آج میں بھی تمہارے ساتھ اخبار جاؤں گا‘‘۔ احسن نے میز پر رکھے اخبارکو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے کہا۔

    ‘’ہاں۔۔۔ ہاں کیوں نہیں۔۔۔ سب تمہیں یاد کرتے ہیں، پوچھتے ہیں وہ کن سرا کدھر گیا؟ انوار بھی خاصا پریشان تھا تمہاری وجہ سے۔’‘ ممتاز خوش ہوکر بولا۔

    ‘’اور ہاں تم خاکو انی صاحب کی فکر نہ کرو، ان سے میں خود ہی بات کر لوں گا۔ ممتاز نے اسے تسلی دی تو وہ اٹھ کر تیار ہونے لگا۔ جب احسن اتنے عرصے بعد ممتاز کے ساتھ اچانک دفتر پہنچا تو شام کی شفٹ نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ انوار کو احسن کے آنے کی اطلاع ہو گئی تھی۔ وہ جنرل شفٹ ختم کر کے احسن کا انتظار کر رہا تھا۔ ممتاز نے پہلے ہی سے سب کو صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا۔ اس لیے کسی نے بھی احسن سے کوئی الٹا سیدھا سوال نہ کیا۔ سب نے اس کے واپس آنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ کسی نے کہا لو بھئی ہماری گمشدہ ڈکشنری واپس آ گئی۔۔۔ کوئی بولا دانشور لوٹ آیا۔ خاکوانی صاحب کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ فاروقی صاحب نے پوری شفٹ کے لیے چائے بسکٹ منگوائے اور تھوڑی دیر تک خوب ہنگامہ رہا۔ اس کے بعد احسن، ممتاز اور انوار اپنے کمرے میں آ گئے۔‘‘

    ‘’انوار! وہ تمہارے تنقیدی اجلاس کیسے چل رہے ہیں؟ احسن نے اپنی کرسی سنبھالتے ہوئے پوچھا۔‘‘

    ‘’یار۔۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ تمہارے بغیر کسی بھی محفل میں رونق نہیں رہی۔ سبھی تمہارا پوچھتے ہیں، ایک دم وی آئی پی ہو گئے ہو قسم سے۔۔۔ ہمیں تو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔۔۔’‘ انوار نے شوخی سے کہا۔

    اور وہ جومس ‘’خاموش’‘ ہے ناں۔۔۔ تمہارے فراق میں اس نے بھی چپ کا روز ہ تو ڑ دیا ہے۔۔۔خوب بولنے لگی ہے۔ ممتاز نے بھی لقمہ دیا۔

    ’’اور حلقے کے جلسوں میں بھی بڑی باقاعدگی آ گئی ہے‘‘۔ انوار بتانے لگا۔

    ‘’وہاں آج کل بڑے بھر پور تنقیدی اجلاس ہو رہے ہیں۔ جن میں چیدہ چیدہ سبھی شاعر و ادیب شامل ہوتے ہیں۔ آئندہ ہم بھی حلقے کے کسی اجلاس میں دوبارہ جائیں گے‘‘۔

    ‘’ہاں بھئی! وہاں کے لوگ نثری نظم کی بحث والے اس یادگار اجلاس کو آج تک نہیں بھولے، جس میں تم نے بیٹھے بیٹھے آٹھ نثری نظمیں لکھ کر شرکت کی تھی‘‘۔ ممتاز نے یاد دلایا۔

    ‘’پرسوں شام کو ہے ناں اجلاس؟۔۔۔ ممتاز، احسن کو ضرور ساتھ لانا۔۔۔ میں اب چلتا ہوں۔۔۔ اوکے؟‘‘ انوار اجازت لے کر چلا گیا۔ ممتاز اور احسن کل کے اخبار کا پیٹ بھرنے کے لیے نئی، پرانی خبروں کے آپریشن میں جت گئے۔

    ‘’یار! بڑی بڑی خبروں میں آنے والے یہ لوگ کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں ناں؟‘‘ احسن نے اچانک قلم چلاتے ہوئے رک کر ممتا زسے پوچھا۔

    ’’میرے بھولے بادشاہ یہ بڑے لوگ خبریں اور تصویریں چھپوانے کے لیے بڑی بڑی رقمیں خرچ کرتے ہیں۔‘‘ ممتاز بولا۔

    ‘’مگر میں سیاسی و سماجی شعبدہ بازوں کی نہیں، ان معصوم لوگوں کی بات کررہا ہوں،جو انجانے میں جان پر کھیل کر خبر بن جاتے ہیں۔‘‘ احسن نے کہا۔

    ‘’ہوں۔۔۔ شاید’‘ ممتاز عینک ناک پر ٹکائے کسی خبر پر ماہر سر جن کی طرح جھکا ہوا تھا۔

    ‘’مگر۔۔۔ وہ بےچارے اپنی خبر کے متن سے بھی بےخبر ہی مر جاتے ہیں، دوسرے لوگ لمحہ بھر کے لیے بوجھل دل کے ساتھ خبر پڑھتے ہیں۔۔۔ اور پھرسے زندگی کی چکاچوند میں گم ہو جاتے ہیں۔ زندگی بھی عجیب گورکھ دھندہ ہے۔‘‘ احسن خود کلامی کی کیفیت میں کہے چلا گیا۔

    ‘’ممتاز صاحب! آپ کو فاروقی صاحب نے یاد کیا ہے۔‘‘ قاصد نذیر نے دروازے سے پکارا اور ممتاز سگریٹ بجھا کر کمرے سے نکل گیا۔ احسن تادیر موت و حیات کے فلسفوں پر مبنی الجھی گتھیاں سلجھاتا رہا۔

    ‘’چل شہزاد ے تیرا کام ہو گیا۔۔۔ فاروقی صاحب نے تجھے بحال کر کے بڑی فیوردی ہے یار‘‘۔ ممتاز نے آدھے گھنٹے بعد کمرے میں داخل ہوتے ہوئے خوشی سے کہا۔

    احسن نے کسی بھی ردعمل کا اظہار نہ کیا، جیسے اسے یہ سب پہلے ہی سے معلوم تھا۔

    ‘’او ئے ٹھل سرے! تجھے خوشی نہیں ہوئی؟‘‘ ممتاز نے احسن کو پیار سے چھیڑا۔

    ‘’میرے لیے اب اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ کیا خوشی اور کیا غم؟۔۔۔ سب ایک برابر ہیں’‘ احسن کا ردعمل بھانپ کر ممتاز بھی خاموش ہو گیا۔

    ‘’اور۔۔۔ یہ جو بڑے سر ہوتے ہیں ناں، یہ سرداروں کے ہوا کرتے ہیں۔۔۔ تم لوگ شاہ دولے کے چوہوں کی طرح چھوٹے سروں والے۔۔۔ محدود سوچ والے، اپنے اپنے دائروں میں قید لوگ۔۔۔ آگے کی سوچ ہی نہیں سکتے’‘ احسن اپنی ترنگ میں کہے چلا گیا اور ممتاز سمجھ گیا کہ اسے پھر سے دورہ پڑ گیا ہے۔۔۔ اس کے اندر کا غبار کہیں نہ کہیں تو نکلنا ہی ہے، اس لیے خاموش رہا۔

    چند ہی دنوں میں بظاہر زندگی اپنے معمول پر آ گئی۔ احسن اپنی کرائے کی بیٹھک میں شفٹ ہو کر اخبار کے دفتر آنے لگا ۔’’ایک شام حلقے کے اجلاس میں شرکت کے لیے ممتاز اور احسن جب ہال میں داخل ہوئے تو اجلاس شروع ہو چکا تھا۔ انوار نے دونوں کو سرزنش کے انداز میں گھور کر دیکھا۔ کسی نوجوان شاعرکی غزل پر صاحب صدر اپنی حتمی رائے دے رہے تھے۔ دونوں پچھلی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد صاحب صدر نے نوجوان افسانہ نگار ظہیر کمال کو اپنا افسانہ تنقید کے لیے پیش کرنے کی دعوت دی۔ افسانے کا عنوان تھا۔’’ زرد کا رکے تعاقب میں ‘‘ ظہیر کمال نے افسانہ پڑھا۔ ’’افسانے کا مرکزی کردار، ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اس کی زرد کار کا بار بار تعاقب کرتا ہے۔۔۔ اسے پانے کی خاصی جدوجہد کرتا ہے بالآخر لڑکی راضی ہو جاتی ہے مگر جب بات لڑکی کے گھر والوں تک پہنچتی ہے تو وہ صاف انکار کر دیتے ہیں۔ افسانے کا مرکزی کردار اس قدر جذباتی ہوتا ہے کہ دل برداشتہ ہو کر خودکشی کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ افسانے پر گفت گوکے آغاز میں نوجوان شرکاء میں سے کوئی اسے مرکزی کردار کا جذباتی پن تو کوئی اسے محبت کی جیت قرار دیتا ہے۔ ایک آدھ نے اسے سطحی افسانہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ ایک سینئر ادیب نے اسے افسانہ ماننے سے ہی انکار کر دیا۔ صاحبِ صدر نے بحث و مباحثے کو سنبھالتے ہوئے کہا کہ یہ افسانہ ضرور ہے مگر خودکشی کا عمل زندگی سے فرار اور بزدلی ہے، آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟ یوں گفت گو کو نئی سمت مل گئی تھی۔

    بہت سے سینئر لکھنے والے جنہیں کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا صاحبِ صدر کی بات کی تائید کرنے لگے۔ ایک نے کہا کہ خودکشی حرام ہے۔ انوار نے کہا کہ یہ بےحس معاشرے کے خلاف کھلا احتجاج ہے۔ ممتاز نے کہا کہ آپ خودکشتی کے عمل کو کچھ بھی کہیں مگر یہ ہے مشکل کام۔ ہمارے بزرگوں کو فرسودہ روایات ترک کر کے نئے سویرے کا کُھلے دل سے استقبال کرنا چاہیے۔ مس خاموش نے بھی اپنی موجودگی کا احساس یوں دلایا اور کہا کہ نئی نسل اور بزرگوں کے درمیان فاصلوں کی وجہ سے ایسے المیے جنم لیتے ہیں۔ دونوں کے درمیان دوستانہ روابط کی ضرورت ہے، جس کی ابتدا بزرگوں کی طرف سے ہونی چاہیے۔ ایک سینئر دانشور نے انتہائی جذباتی ہوتے ہوئے کہا کہ نوجوان نسل بالکل بگڑ چکی ہے اور بےراہ روی کا شکار ہے۔ کہانی کا کردار انتہائی بزدل اور مایوس نوجوان ہے جو زندگی جیسی متاع کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اسے جوش کی بجائے ہوش کے ناخن لینا چاہیے تھے۔ اس سے قبل کہ صاحب صدر اپنے اختتامی کلمات کے لیے منہ کھولتے احسن بول اٹھا، صاحب صدر! میرے نزدیک خودکشی کا عمل عین بہادری ہے۔ اس عمل کو بزدلی قرار دینے والے خود پر لے درجے کے بزدل اور ڈر پوک ہیں۔ زندگی کی صداقتوں کو جھٹلاتے جھٹلاتے آج دانشور بن بیٹھے ہیں، خودکشی نہ تو راہِ فرار ہے اور نہ ہی آسان بلکہ یہ انتہائی صبر آزما اور مشکل کا م ہے۔ یہ کام بہادر اور منفرد لوگ کرتے ہیں۔ مثال کے طورپر (احسن جانے کس وقت چوکیدار کے باورچی خانے سے چھری اٹھا لایا تھا) آپ اشارہ کیجیے اور میں آپ کے سامنے اپنے ہاتھ کی انگلیاں کاٹ دیتا ہوں۔۔۔ احسن نے یہ کہتے ہوئے اپنی انگلیاں کاٹنے کے لیے چھری بائیں ہاتھ پہ رکھی تو ممتاز نے احسن کو چیختے ہوئے ایسا کرنے سے منع کر دیا۔۔۔ ‘’اور اگر آپ میں سے کوئی میرے کہنے پر ایسا کر گزرے تو میں اسے بہادر مان لوں گا۔۔۔’‘ ممتاز نے آگے بڑھ کر احسن سے چھری لے لی۔ صاحب صدرنے موقع کی نزاکت بھانپتے ہوئے بالآخر کہا کہ ’’حاضرین میں نے تو بحث کو نیا رنگ دینے کے لیے خودکشی کو زندگی سے فرار اور بزدلی قرار دیا تھا جبکہ افسانے پر بہت اچھی گفت گو ہوئی۔ اپنی جان کو ختم کرناآسان نہیں ہوتا یہ واقعی مضبوط ارادے والے بہادر لوگوں کا کام ہے‘‘ اور اجلاس ختم کر دیا گیا۔

    اجلاس کے ختم ہوتے ہی سب نے احسن کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ کسی نے کہا بھئی! ہم نے اتنے عرصے میں آج پہلی بار احسن کو ایک نئے روپ میں دیکھا ہے۔ ‘‘ایک بولا’’ بات کرنا بہت آسان ہوتا ہے عمل کرنا سہل نہیں ہوتا ’‘ظہیر کمال ممنونیت بھری نظروں سے احسن کو تکے چلے جا رہا تھا۔’’ ارے احسن بھائی! آپ ہیں کہاں اتنے عرصے سے۔۔۔ ایمان سے جلسوں کی رونقیں ہی ختم ہو گئی تھیں۔ آج اگر آپ نہ ہوتے تو میرے افسانے کو ان بڑوں نے کنارے لگا دینا تھا۔ ‘‘پاس ہی مِس خاموش کھڑی آنکھیں جھپکا رہی تھی۔’’ آپ نے اتنی مضبوط دلیل دی کہ سب سینئرز کو اپنی رائے بدلنے پر مجبور کر دیا، ‘‘وہ بولی۔’’مجھے تو اس بات کی خوشی ہے کہ آپ نے بولنا شروع کر دیا ہے۔۔۔ ہماری مجلسی زندگی میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔۔۔ اس کے بغیر انسانی شخصیت کے جوہر کھلتے ہی نہیں ’‘احسن بولا اور ہاں ظہیر صاحب۔ ۔۔آپ کا افسانہ مجموعی طور پر تو ٹھیک تھا، مگرکہیں چھپوا نے سے پہلے کہانی کے ٹریٹمنٹ پر اور اس کے مکالمے جو کہیں کہیں ذرا طویل ہو گئے ہیں ان پر توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘ احسن نے مشورہ دیا۔ ’’احسن بھائی! ایسا ہی ہوگا‘‘ ظہیر نے سعادت مندی سے کہا۔

    اس گفتگو کے دوران ممتاز اور انوار پاس کھڑے اپنی گپ شپ کرتے رہے۔ بہت سے سینئر شاعر و ادیب اجلاس ختم ہوتے ہی صاحب صدر سمیت چلے گئے تھے۔ اس کے بعد ظہیر کمال کے ہمراہ ’’مس خاموش’‘ اور دوسرے نوجوان بھی رخصت ہو گئے۔

    ’’اے بھائی بقرا! اگر تمہاری مجلسی زندگی میں ذراسی گنجائش ہو تو میں بھی کچھ کہوں؟‘‘ ممتاز اپنے روایتی شوخ انداز میں کہا جس پر احسن اور انوار ہنس پڑے۔

    ’’آپ سے پہلے مجھے کچھ کہنا ہے‘‘۔۔۔ انوار جلدی سے بولا۔

    ‘’چل بھائی مولوی پہلے تو بول لے۔۔۔‘‘ ممتاز نے مصنوعی ناراضگی دکھائی۔

    ’’یار آج ببلو کی سالگرہ ہے، گھر پہ سب انتظار کر رہے ہوں گے تم لوگ اگر چاہو تو میرے ساتھ گھر چلو’‘ انوار نے پروگرام پیش کیا۔

    ‘’یار پہلے سب میرے گھر چلو، مجھے اباجی کی دوا ئی گھر پہنچانی ہے۔۔۔ اس کے بعد وہیں کھانا کھاتے ہیں’‘۔ ممتاز نے اپنی مجبوری ظاہر کی۔

    ‘’لیکن مجھے آج کسی چار دیواری میں قید نہیں رہنا، آزاد۔۔۔ بہت آزاد فضاؤں میں پھرنا ہے۔۔۔ تم بیویوں والے ہمیشہ گھر جانے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہو۔’‘ احسن اپنے انداز میں بولا۔

    اچھایوں کرتے ہیں میں چلتا ہوں، تم احسن کے ہمراہ اباجی کو دوائی دے کر آ جانا، کیا خیال ہے؟ انوار یہ کہہ کر چلتا بنا۔

    ‘’یار احسن میرا خیال ہے تم بھی تھک گئے ہوگے، آرام کرو چل کر اور میں گھر چلوں ابا جی انتظار کرتے ہوں گے۔۔۔ ہوں؟ ممتاز نے بھی تھکے تھکے لہجے میں کہا۔‘‘

    ‘’استاد گھر تو آپ روز ہی جاتے ہو۔۔۔ ذرا گزر ے وقت کو یاد کرو جب ساری رات تھڑے پہ بیٹھے شعر و سخن کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔۔۔ ان چاندنی راتوں کو یاد کرو ممتاز جب زیرِ زمین گمشدہ دریا کی یاد کنارے بیٹھ کر تم مجھے اپنے باپ دادا کی یاد میں ملاحوں کے گیت سنایا کرتے تھے۔۔۔‘‘ احسن نے باب ماضی کا ایک ورق الٹا۔

    ‘’او میرے شہزاد ے! آج کون سا ضروری ہے کل بیٹھ جائیں گے، جہاں کہوگے آوارہ گردی کر لیں گے۔۔۔ مجھے جانے دو اباجی کی طبیعت ٹھیک نہیں!‘‘ ممتاز بولا

    ‘’دیکھ یار۔۔۔ شہناز بھی مجھے چھوڑ گئی ہے۔۔۔ تم بھی مجھے چھوڑے جاتے ہو۔میں بالکل اکیلا ہو گیا ہوں۔۔۔ دیکھ آج میرے پاس اخبار کے دفتر سے ملا بڑا مال ہے۔۔۔ چلو میں تمہیں سلور سینڈ ہوٹل میں اچھی سی چائے پلاتا ہوں، میں نے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں، تو مجھے چھوڑ کے مت جا یار۔۔۔ چائے پی کر کینٹ ریلوے اسٹیشن چلیں گے جہاں آج مجھے اخبار کے لیے خبر تراشنی ہے۔‘‘ آج احسن کا ممتاز کو چھوڑنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔

    ‘’اچھا۔۔۔ آج آوارہ گردی کو جی چاہ رہا ہے ناں تو چل مجھے گھر چھوڑ آ، راستے میں گپ شپ بھی کرتے جائیں گے۔۔۔ ٹھیک ہے؟‘‘ممتاز نے مسئلے کا فوری حل نکالا۔ احسن جواب دینے کی بجائے خاموشی سے ممتاز کے ساتھ ہو لیا۔

    ‘’شہناز سے رابطہ ہوا کیا۔۔۔؟‘‘ ممتاز نے کریدا۔

    ‘’اوں۔ ہوں‘‘ احسن نے قدرے لاتعلقی سے جواب دیا۔

    ‘’کل دفتر میں کوئی کہہ رہاتھا کہ شاید اس کا فون آیا تھا۔۔۔ نام تو نہیں بتایا لیکن فون سننے والے نے خیال ظاہر کیا شاید وہ شہناز کی کال تھی۔۔۔ تمہارا اور میرا پوچھا تھا مگر ہم دونوں دفتر میں نہیں تھے۔‘‘ احسن نے ممتاز کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ راستے میں ممتاز نے اباجی کے لیے دوا خریدی اور گھر پہنچ کر ممتاز نے بہت کوشش کی کہ احسن گھر آ جائے مگر احسن پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ ’’آج وہ کسی چار دیواری میں قید نہیں رہےگا۔’‘ اس لیے ممتاز نے زیادہ زور نہیں دیا۔۔۔ اس نے ممتاز کے ساتھ کس کر معانقہ کیا اور نیم دلی سے واپس چل پڑا۔ ممتاز اس کی اس حالت پر قدرے پریشان تو ہوا مگر اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا کہ ‘’میرے یار۔۔۔ بہت دیر ہو چکی ہے، میرے انجائنا کا درد بھی جاگ اٹھا ہے، جاؤ جاکر سو جاؤ۔۔۔کل دفتر میں ملیں گے‘‘۔

    احسن وہاں سے پیدل چلتے ہوئے سید ھا سلو رسینڈ ہوٹل پہنچا۔ ہاف سیٹ چائے کاآرڈر دے کر دھوئیں کے مرغولے بنانے لگا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سامنے پھیلے کاغذ پر کچھ لکھنے لگتا، جیسے شاعری کر رہا ہو۔ کبھی سگریٹ کا کش لیتا اور کبھی چائے کا سپ۔۔۔ اور پھر لکھنے لگتا۔۔۔ اس کی نظر بار بار وال کلاک کی جانب اٹھ جاتی تھی جیسے اسے کسی کے آنے کا انتظار تھا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد جب وال کلاک نے ساڑھے دس بجائے تو احسن نے بل ادا کرنے اور بیر ے کو تگڑی ٹپ دینے کے بعدٹائلٹ کا رخ کیا۔ واش بیسن میں ہاتھ دھوتے ہوئے احسن نے قد آدم آئینے میں اپنے سراپے کا جائزہ لیا۔ احسن نے بہت دنوں بعد گہرے براؤن رنگ کاسلکی سوٹ اور پاؤں میں ملتانی کھسہ پہن رکھا تھا۔ گھنے بال، تازہ شیو اور خوبصورت تراشیدہ باریک مونچھیں احسن کی شخصیت کو چار چاند لگا رہی تھیں۔ اسے لمحہ بھر کو اپنے آپ پر بہت پیار آیا۔ احسن ہوٹل سے نکل کر کینٹ اسٹیشن کی طرف چل پڑا۔ رونق بازار اپنے عروج پر تھی، اسے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے پہلی بار عجیب سی لطافت کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔ جیسے وہ چل نہ رہا ہو بلکہ اڑ رہا ہو۔ وہ اتنا ہلکا پھلکا ہو رہاتھا کہ اس کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ وہ اسی سرمستی میں ابھی اور چلتا رہتاکہ سامنے کینٹ اسٹیشن آ گیا۔۔۔ اسے یاد آیا کہ آوارگی کے ابتدائی دنوں میں ریلوے اسٹیشن آکر بےمقصد گھومنا اسے خاصا مرغوب تھا۔ اس کا بیشتر وقت ریلوے بک سٹال پر کتب و رسائل کی ورق گردانی میں گزرتا۔ چند ہی لمحوں میں وہ ریلوے بک سٹال پہ تھا اور اس کے ہاتھ میں اپنے محبوب شاعر فیض احمد فیض کا شعری مجموعہ ‘’شام شہریاراں’‘ تھا۔ کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے احسن کو اپنی گزری شام شہریاراں کا ایک ایک لمحہ پوری تفصیل کے ساتھ یاد آنے لگا۔۔۔ وہ ایک ایک کر کے اپنے سب دوستوں اور چاہنے والوں سے مل لیا تھا، چپکے چپکے۔۔۔ کسی کو بتائے بغیر وہ ان سب سے رخصت لے آیا تھا۔ بھلا وہ اسے آنے دیتے اگر احسن انہیں شہر چھوڑکر جانے کا بتا دیتا تو۔۔۔؟ کبھی نہیں۔۔۔ جس شہر کے گلی کوچوں میں احسن نے اپنی صبحیں اور شامیں کی تھیں، جن دوستوں کے ساتھ ابتدائی زندگی کے سردو گرم سہے تھے۔۔۔وہ اسے یوں چپ چاپ کیسے رخصت کر دیتے۔۔۔ احسن نے کبیر والا کا ٹکٹ لیا اور زاد سفر کے طور پر کتاب ‘’شام شہریاراں’‘ خرید لی تھی۔

    چلتن ایکسپریس جھومتی جھامتی سیٹیاں بجاتی بہاول پور اسٹیشن کی حدود میں داخل ہو رہی تھی۔ پلیٹ فارم کی گھڑی میں گیارہ بج کر پانچ منٹ ہو چلے تھے۔ چلتن کے پلیٹ فارم پر پہنچتے ہی ہلچل سی مچ گئی تھی۔ جیسے جھیل کے ٹھہرے ہوئے پانی میں کسی نے بڑا سا پتھر پھینک دیا ہو۔۔۔ لوگ باگ سب ایک ہی وقت میں گاڑی میں سوار ہونا چاہتے تھے۔ کوئی پندرہ، بیس منٹ کی دھینگا مشتی کے بعد پلیٹ فارم پھر سے پر سکون ہو گیا۔

    احسن نے ڈبیہ کے آخری سگریٹ کا آخر ی کش لے کر ریل کے نیچے اچھال دیا تھا۔ چلتن کی روانگی میں ابھی شاید کچھ وقت باقی تھا۔۔۔ احسن آہستہ آہستہ بےفکری کے ساتھ چلتے ہوئے انجن ڈرائیور کے پاس آ گیا جو اپنے مگ سے گھونٹ گھونٹ چائے پی رہا تھا۔ احسن نے پکی عمر، پکی رنگت والے انجن ڈرائیور کو مسکرا کر دیکھا تو جو اباً وہ بھی مسکرایا۔

    ‘’استادجی! کتنی دیر ہے۔۔۔؟’‘ احسن نے روایتی سا سوال کیا مگر اس کے اپنے لیے اس سوال کی بڑی اہمیت تھی۔

    ’’بس یہی کوئی پانچ دس منٹ۔۔۔ پھر چلتے ہیں اللہ کا نام لے کر۔۔۔‘‘ انجن ڈرائیور خوش دلی سے بولا۔

    ’’استاد جی! آپ تنگ نہیں آ جاتے دن رات کی چھکا چھک۔۔۔ چھکا چھک سے؟’‘ احسن نے یونہی بات بڑھائی۔

    انجن ڈرائیور جواباً مسکرایا اور بولا! ’’بھائی میرا روز کا کام ہے، میری تربیت ہی اسی شور شرابے کی ہے۔۔۔ تنگ کیا آنا؟ تقسیم سے پہلے میرا باپ بھی ریلوے میں تھا اور پھر جاتے جاتے مجھے بھی ریلوے میں بھرتی کرا گیا۔‘‘

    ‘’اچھا آپ کو رات کو نیند آ جاتی ہے آسانی سے؟’‘

    ‘’جناب! انسان تھکا ہوا ہو تو کہتے ہیں سولی پہ بھی نیند آ جاتی ہے۔‘‘

    ‘’یہ تو ہے۔۔۔ استادجی!’‘ احسن نے یوں کہا جیسے کہہ رہا ہو ’’حیرت ہے ہمیں تو بستر پر بھی نہیں آتی اور۔۔۔‘‘ احسن نے انجن کے پیچھے جڑے زنانہ ڈبے کی طرف دیکھا تو ایک شریر سی مسکراتی نگاہوں نے اس کا استقبال کیا۔ ایک پانچ سالہ بچہ کھڑکی سے سر نکالے اپنی حرکتوں میں مصروف تھا۔ دوسری جانب اس کی ننھی منی بہن فیڈر سے دودھ پی رہی تھی۔ اتنے میں ایک ریڑھی والا ٹافیاں اور بسکٹ بیچتا زنانہ بوگی کے قریب آ گیا۔ چلتن کی روانگی میں زیادہ وقت نہیں تھا۔۔۔ احسن نے جلدی سے ٹافیاں اور بسکٹ خریدے اور اپنے معصوم دوست کے قریب جاکر اسے پچکارنے لگا۔

    ‘’تمہارا نام کیا ہے؟’‘ احسن نے اسے ٹافیاں اور بسکٹ پکڑاتے ہوئے پوچھا۔

    ‘’جی احسن۔۔۔’‘ بچہ بولا۔۔۔ ‘’احسن؟‘‘ اس عجیب اتفاق پر احسن بھونچکا رہ گیا۔ ’’شامِ شہریاراں‘‘ اس کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچی۔ بچے نے احسن کے ہاتھ سے ٹافیاں اور بسکٹ بغیر تردد کے یوں لے لیے جیسے اس نے اپنی ہی جیب سے نکالی ہوں۔ بچے کی ماں دونوں کو اپنائیت بھری نظروں سے دیکھے جا رہی تھی۔ اس نے دودھ پیتی بیٹی کو گود میں بھر رکھا تھا۔ چلتن نے آخری وسل دی اور آہستہ آہستہ رینگنا شروع کر دیا۔ ننھا احسن۔۔۔ احسن کو ٹکر ٹکر دیکھے جا رہا تھا۔ احسن کو اور کچھ بھی پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ ریل نے ابھی پلیٹ فارم نہیں چھوڑ اتھا۔

    احسن آہستہ آہستہ ریل کے ساتھ چل رہا تھا۔۔۔ ابھی لمبا پلیٹ فارم باقی تھا۔۔۔ ننھے احسن نے جب اسے ریل کے ساتھ چلتے دیکھا تو الوداعی جذبے سے سرشار ہوکر ہاتھ ہلانا شروع کردیا۔ جواباً احسن نے بھی ہاتھ ہلایا۔ ریل کی رفتار میں اضافہ ہوتا چلا گیا احسن نے بھی انجن سے آگے دوڑ نا شروع کر دیا۔ جونہی انجن نے پلیٹ فارم چھوڑ احسن نے چیتے کی سی پھرتی کے ساتھ انجن کے آگے چھلانگ لگا دی۔

    انجن کی رفتار اس قدر تیز ہو چکی تھی کہ ڈرائیور کے ایمرجنسی بریک لگاتے لگاتے نصف ٹرین کی بوگیاں اس کے اوپر سے گزر گئی تھیں۔۔۔ ابھی چند ثانیے پہلے پلیٹ فارم پر ہاتھ ہلاتے، بچوں کے ساتھ باتیں کرتے احسن کی لاش خاک و خون میں لتھڑی ریلوے ٹریک کے درمیان میں پڑی تھی۔ اس کی روح کا برسوں سے بےچین پر ندہ قفسِ جاں سے نکل کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہو چکا تھا مگر ‘’شام شہریاراں’‘ اس کے کٹے ہوئے ہاتھ کی گرفت سے آزادنہ ہو سکی تھی۔کوئی گھنٹہ بھر کی تگ و دو کے بعد اس کا دریدہ بدن ریلوے ایمبولینس کے سٹریچر پر سفید چادر سے ڈھکا پلیٹ فارم کے وسط میں رکھا تھا۔ جیب سے برآمد ہونے والی احسن کی آخری تحریر شہناز کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور وہ چیخ مار کر بےہوش ہو گئی۔ خط میں لکھا تھا۔

    ’’مجھے کسی عربی مّفکر کا ایک قول یاد آ رہا ہے کہ اگر انسان کبھی یہ محسوس کرے کہ اس کی زندگی عذاب ہو چکی ہے تو اسے اپنی باقی سانسیں عزرائیل کے منہ پردے مارنی چاہیں۔‘‘ میری زندگی عذاب تو نہیں ہوئی مگر میں چلتے چلتے ایک ایسی بند گلی میں پھنس کر رہ گیا ہوں جہاں سے واپسی نا ممکن ہے۔ میں نے اپنے لیے ہمیشہ مشکل راستوں کا انتخاب کیا ہے اور ایسا بہادر لوگ کیا کرتے ہیں اور بہادر لوگ کبھی بےبس نہیں ہوتے۔۔۔ پھر میں بے بس کیوں ہوتا؟ چنانچہ اپنے لیے یہ راستہ بھی میں نے ہی چنا ہے۔۔۔ میں ‘’لاوارث’‘ ہرگز نہیں۔۔۔ مگر مجھے میرے وارثوں کے حوالے کرنے کی بجائے جناح میڈیکل کالج کے ان سٹوڈنٹس کے سپرد کیا جائے، جو انسانی زندگی کی بقائے دوام کے خواب دیکھتے ہیں۔ جو کبھی میں بھی دیکھا کرتا تھا۔۔۔ شاید ان خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے اب مجھے دوسرا جنم لینا ہوگا۔

    اپنے دوستوں ممتاز، انوار اور شہناز سے انتہائی معذرت کے ساتھ!

    احسن

    شہناز سر شام، دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر احسن کی تلاش میں ہر جگہ ماری ماری پھری تھی۔ رات گئے ممتاز کے گھر پہنچی تو پتہ چلا کہ احسن اخبار کے لیے کسی خبر کی تلاش میں ریلوے اسٹیشن کی طرف نکلا ہے۔۔۔ بھاگم بھاگ جب شہناز ریلوے پلیٹ فارم تک پہنچی تب تلک اس نے دیکھا کہ احسن نے اپنے خون سے کل کے اخبار کی سرخی رقم کر دی تھی۔۔۔!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے