Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Intizar Hussain's Photo'

انتظار حسین

1925 - 2016 | لاہور, پاکستان

ممتاز ترین فکشن رائیٹر ، اپنے منفرد حکایتی اسلوب اور تقسیم کے تجربے کے تخلیقی بیان کے لیے معروف۔ مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیے جانے والے پہلے اردو ادیب ۔

ممتاز ترین فکشن رائیٹر ، اپنے منفرد حکایتی اسلوب اور تقسیم کے تجربے کے تخلیقی بیان کے لیے معروف۔ مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیے جانے والے پہلے اردو ادیب ۔

انتظار حسین کے اقوال

3.1K
Favorite

باعتبار

رومانی شاعری اور رومانی افسانہ اردو ادب کے سیم زدہ علاقے ہیں۔

جس زمانے میں تاروں کو دیکھ کر زمین کی سمت اور رات کا سمے معلوم کیا جاتا تھا، اس زمانے میں سفر شاید تعلیم کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔

افسانے لکھنا میرے لئے اپنی ذات سے ہجرت کا عمل ہے۔

گہرائی اور گیرائی علامتوں سے پیدا ہوتی ہے۔ ادب میں بھی، زندگی میں بھی، اور علامتیں دونوں علاقوں سے جا رہی ہیں۔

اگر سماج کا عمل من حیث المجموع تخلیقی نہیں ہے تو ادب میں بھی تخلیقی سرگرمی نہیں ہو سکتی۔

شاعری، کم از کم بڑی شاعری محض شعور کا معاملہ نہیں ہوتی۔ وہ چھوٹے شاعر ہوتے ہیں جنھیں پوری خبر ہوتی ہے کہ وہ شعر میں کیا کر رہے ہیں۔ بڑا شاعر خبر اور بے خبری کے دوراہے پر ہوتا ہے۔

پیغمبروں اور لکھنے والوں کا ایک معاملہ سدا سے مشترک چلا آتا ہے۔ پیغمبروں کا اپنی امت سے اور لکھنے والوں کا اپنے قارئین سے رشتہ دوستی کا بھی ہوتا ہے اور دشمنی کا بھی۔ وہ ان کے درمیان بھی رہنا چاہتے ہیں اور ان کی دشمن نظروں سے بچنا بھی چاہتے ہیں۔ میرے قارئین میرے دشمن ہیں۔ میں ان کی آنکھوں، دانتوں پر چڑھنا نہیں چاہتا۔ سو جب افسانہ لکھنے بیٹھتا ہوں تو اپنی ذات کے شہر سے ہجرت کرنے کی سوچتا ہوں۔ افسانے لکھنا میرے لئے اپنی ذات سے ہجرت کا عمل ہے!

جذباتیت حقیقت نگاری کی مابعد الطبیعات ہے۔ حقیقت نگار جب حقیقت سے گریز کرتے ہیں تو جذباتیت میں پناہ لیتے ہیں۔

میں سوچتا ہوں کہ ہم غالب سے کتنے مختلف زمانے میں جی رہے ہیں۔ اس شخص کا پیشہ آبا سپہ گری تھا۔ شاعری کو اس نے ذریعہ عزت نہیں سمجھا۔ غالب کی عزت غالب کی شاعری تھی۔ شاعری اس کے لئے کسی دوسری عزت کا ذریعہ نہ بن سکی۔ اب شاعری ہمارے لئے ذریعہ عزت ہے۔

پرانی دنیا میں عشق جز وقتی مشغلہ نہیں تھا ۔اس کی حیثیت ضمنی اور غیر ضروری کام کی نہیں تھی۔ عشق کے آغاز کے ساتھ سارے ضروری کام معطل ہو جاتے تھے اور آدمی کی پوری ذات اس کی لپیٹ میں آجاتی تھی۔ یہ صنعتی عہد کا کارنامہ ہے کہ عشق کو ذات کی واردات اور زندگی کا نمائندہ جذبہ ماننے سے انکار کیا گیا۔

دنیا آدمی کے ساتھ لگی ہوئی ہے، لیکن جب آدمی دنیا کے ساتھ لگ جائے اور دنیوی ضروریات معاشرہ کے اعصاب پر سوار ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی قدر مر گئی ہے۔ اس واقعہ کی خبر یا تو کسی ولی کو ہوتی ہے یا ادیب کو ہوتی ہے۔

اس صدی (بیسوی) کی تیسری اور چوتھی دہائی کا اردو افسانہ حقیقت نگاری اور جذباتیت کے گھپلے کی پیداوار ہے۔ اس عمارت کی اینٹ ٹیڑھی رکھی گئی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پریم چند اردو افسانے کی ٹیڑھی اینٹ ہیں۔

فارسی رسم الخط ہماری تہذیب کی وہ شکل ہے جو اس کی بنیادی وحدت کے نشان کا مرتبہ رکھتا ہے لیکن اگر ہماری تہذیب کی دوسری شکلیں جاری ہیں تو یہ نشان کب تک کھڑا رہے گا، اور گر یہ نشان گرگیا تو تہذیب کی باقی شکلیں کتنے دن کی مہمان ہیں۔ پس مسئلہ محض اس رسم الخط کا نہیں بلکہ اس پوری تہذیب کا ہے جس کا یہ رسم الخط نشان ہے۔

نقاد اور پروفیسر اور تہذیبی اداروں کے سربراہ جھوٹ بولتے رہیں لیکن اگر کوئی ایسی سبھا ہے جہاں جیتے جاگتے ادیب بیٹھے ہیں تو اس کا درد سر اولاً آج کا ادب ہونا چاہئے۔

آج کے لکھنے والوں کے لئے ماضی کوئی واضح اور معین رشتہ نہیں رہا ہے۔ بلکہ رشتوں کا ایک گچھا ہے جس کے مختلف سرے ان کے ہاتھ میں آ آکر پھسل جاتے ہیں۔

ادب اور موٹر کار دو الگ الگ قدریں ہیں۔ ادب ایک ذہنی رویہ ہے، جینے کا ایک طور ہے، موٹر کار جینے کا ایک دوسرا اسلوب ہے۔

چار آدمیوں کی صحبت ادیب کے تخلیقی کام میں کھنڈت ڈالتی ہے۔ لڑاکا بیوی، باتونی انٹلکچول، لائق معلم، ادب کی سرپرستی کرنے والا افسر۔

جب محسوس کرنے کے بدیشی سانچے فیشن کے طور پر راہ پاتے ہیں تو پیچ در پیچ اور تہہ در تہہ اظہار کے وہ طریقے بھی بے اثر ہو جاتے ہیں جن کی بنیاد قومی تہذیب کے پیدا کئے ہوئے طور طریقوں اور سوچنے اور محسوس کرنے کے سانچوں پر ہوتی ہے۔

آج اتحاد اور آزادی کے جذبات نے دنیا میں ہنگامہ پیدا کر رکھا ہے۔ کل تک یہ ہوتا تھا کہ محبت کے پیچھے آدمی خودکشی کر لیتا تھا۔ آج اجتماعی جذبات عالمگیر تباہی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔

الف لیلہ کو بس یوں سمجھ لیجئے کہ سارے عربوں نے یا ایک پوری تہذیب نے اسے تصنیف کیا ہے۔

زمانے کی قسم آج کا لکھنے والا خسارے میں ہے اور بے شک ادب کی نجات اسی خسارے میں ہے۔ یہ خسارہ ہماری ادبی روایت کی مقدس امانت ہے۔

لفظ جب ڈوبتا ہے تو اپنے ساتھ کسی احساس یا کسی تصور کو لے کر ڈوبتا ہے اور جب کوئی اسلوب بیان تقریر اور تحریر کے محاذ پر پٹ جاتا ہے، تو وہ تصویروں، اشاروں، کنایوں تلازموں اور کیفیتوں کے ایک لشکر کے ساتھ پسپا ہوتا ہے۔

قوموں کو جنگیں تباہی نہیں کرتیں۔ قومیں اس وقت تباہ ہوتی ہیں جب جنگ کے مقاصد بدل جاتے ہیں۔

ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں۔ ذاتی منفعت اس معاشرہ کا اصل الاصول بن گئی ہے اور موٹر کار ایک قدر کا مرتبہ حاصل کر چکی ہے۔

افسانے کا میں تصور ہی یوں کرتا ہوں جیسے وہ پھلواری ہے جو زمین سے اگتی ہے۔

کہتے ہیں کہ موجودہ بر اعظموں کے منجملہ پہلے ایک اور بر اعظم تھا جو سمندر میں غرق ہوگیا۔ اردو کی پرانی داستانوں اور پرانی شاعری میں جو رنگا رنگ اسالیب بیان اور ان گنت الفاظ نظر آتے ہیں، وہ پتا دیتے ہیں کہ اردو زبان بھی ایک پورا بر اعظم غرق کئے بیٹھی ہے۔

افسانے کا المیہ تو یہ ہے کہ اس میں منشی پریم چند پیدا ہوگئے۔ شاعری کے ساتھ یہ گزری کہ وہ مختلف تحریکوں کے ہاتھوں خراب و خستہ ہو کر پریم چند کے افسانے کے انجام کو پہنچ گئی۔

بڑا ادیب فرد کے تخلیقی جوہر اور معاشرہ کے تخلیقی جوہر کے وصال کا حاصل ہوتا ہے۔ بڑا ادیب ہمارے عہد میں پیدا نہیں ہو سکتا، اس لئے کہ یہ عہد اپنا تخلیقی جوہر کھو بیٹھا ہے۔

ہر دور ادب پیدا کرنے کے اپنے نسخے ساتھ لے کر آتا ہے۔

جب کسی زبان سے علامتیں گم ہونے لگتی ہیں تو وہ اس خطرے کا اعلان ہے کہ وہ معاشرہ اپنی روحانی واردات کو بھول رہا ہے، اپنی ذات کو فراموش کرنا چاہتا ہے۔ اردو میں حقیقت نگاری کی تحریک اصل میں اپنی ذات کو فراموش کرنے کی تحریک تھی۔

اشتہارات دل و دماغ پر یلغار کرتے ہیں اور عقل کے گرد گھیرا ڈالتے ہیں۔ وہ جدید نفسیاتی اسلحہ سے مسلح ہوتے ہیں جن کے آگے کوئی مدافعت نہیں چلتی اور دل و دماغ کو بالآخر پسپا ہونا پڑتا ہے۔

جب سب سچ بول رہے ہوں تو سچ بولنا ایک سیدھا سادہ اور معاشرتی فعل ہے لیکن جہاں سب جھوٹ بول رہے ہوں وہاں سچ بولنا سب سے بڑی اخلاقی قدر بن جاتا ہے۔ اسے مسلمانوں کی زبان میں شہادت کہتے ہیں۔

تخلیقی عمل ایک ہمہ گیر سرگرمی ہے۔ اس کا آغاز دکانوں اور باورچی خانوں سے ہوتا ہے اور تجربہ گاہوں اور آرٹ گیلریوں میں اس کا انجام ہوتا ہے۔ وہ روز مرہ کی بول چال اور نشست و برخاست سے شروع ہو کر افسانہ اور شاعری میں انتہا کو پہنچتا ہے۔

ہر متروک لفظ ایک گمشدہ شہر ہے اور ہر متروک اسلوبِ بیان ایک چھوڑا ہوا علاقہ۔

بات یہ ہے کہ معلومات حواس سے بے تعلق رہیں اور افکار و خیالات خون کا حصہ نہ بنیں، یعنی فکر اور احساس کا سنجوگ نہ ہو سکے تو پھر یہ علم خشک علم رہتا ہے، حکمت نہیں بنتا۔ اس میں وہ تولیدی قوت پیدا نہیں ہوتی کہ خیال سے خیال پیدا ہو اور عملی زندگی کے ساتھ اس کے وصل سے کچھ نئے رنگ، کچھ تازہ خوشبوئیں جنم لیں۔

آدمی نے پہلے پہل براہ راست چیزوں کی تصویریں بنا کر صرف مطلب کا اظہار کیا۔ یہ تصویریں تجدیدی رنگ میں ڈھلے ڈھلتے رسم الخط بن گئیں۔

اشتہاروں کی طاقت یہ ہے کہ آج کوئی فرم یہ ٹھان لے کہ اسے غلیلوں کا کاروبار کرنا ہے تو وہ اسے کرکٹ کے برابر بھی مقبول بنا سکتی ہے۔

عورت یعنی چہ؟ محض جنسی جانور؟ پھر مرد کو بھی اسی خانے میں رکھئے۔ یہ کوئی الگ جانور تو نہیں ہے، اسی مادہ کا نر ہے۔

رسم الخط کی تبدیلی محض رسم الخط کی تبدیلی نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنے باطن کو بھی بدلنے کا اقدام ہوتی ہے۔

اگر ہمیں کوئی نیا نظام بنانا ہے تو پرانے نظام کو یاد رکھنا چاہیے۔ اگر ہم نے پرانے نظام کو بھلا دیا تو پھر ہمیں یہ بھی پتہ نہیں چلے گا کہ کس قسم کی باتوں کے لئے جد و جہد کرنی چاہیے، اور ایک دن نوبت یہ آئے گی کہ ہم جد و جہد سے بھی تھک جائیں گے اور مشین کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔

ہم نے تجربات اور واردات کو یاد رکھا تھا اور انہیں علامتوں اور استعاروں میں محفوظ کر لیا تھا۔ پھر یہ کیا افتاد پڑی کہ غزل سے قیس و فرہاد ہجرت کر گئے اور کوہ طور پر ایسی بجلی گری کہ غزل میں اب اس کا نشان نہیں ملتا۔ قیس و فرہاد کے استعاروں کے مرجانے کے معنی یہ ہیں کہ ایک بنیادی انسانی جذبہ ہمارے معاشرے میں ایک پیہم تہذیبی اثر کے ماتحت جس سانچے میں ڈھل گیا تھا وہ سانچا بکھر گیا ہے۔ جب ایسا سانچا بکھرتا ہے تو اخباروں میں اغوا اور قتل کی خبروں اور رسالوں میں رومانی نظموں اور افسانوں کی بہتات ہو جاتی ہے۔ رومانی شاعری اور رومانی افسانہ جذبات کے اغوا اور قتل کی واردات ہیں۔

آج کا ادب، اگر وہ صحیح اور سچے معنوں میں آج کا ادب ہے تو آج کے چالو معاشرتی معیارات کا ترجمان نہیں ہو سکتا۔

جب روزہ مرہ کے کاموں میں تخلیقی عمل رک جائے یا مندا پڑ جائے تو اسے کلچر کے زوال کی علامت سمجھنا چاہیے۔

رشتوں کی تلاش ایک درد بھرا عمل ہے۔ مگر ہمارے زمانے میں شاید وہ زیادہ ہی پیچیدہ اور درد بھرا ہوگیا ہے۔

سر انگشت حنائی کا تصور بھی اچھا ہے کہ یوں دل میں لہو کی بوند بھی نظر آتی ہے اور دماغ میں حسن کا تصور بھی قائم رہتا ہے۔

انگریزی پھول اور رومن حروف اجنبی زمینوں سے آئے ہیں ہمیں ان سے مہک نہیں آتی۔ شاید ہماری باطنی زندگی میں وہ رسوخ انہیں کبھی حاصل نہ ہو سکے جس کے بعد پھول اور حروف روحانی معنویت کے حامل بن جایا کرتے ہیں۔

ناموں کا جانا اور ناموں کا آنا معمولی واقعہ نہیں ہوتا۔ نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔ اپنے مستند ناموں کو رد کرکے کسی دوسری تہذیب کے ناموں کو سند سمجھنا، افکار و خیالات کے ایک نظام سے رشتہ توڑ کر کسی دوسرے نظام کی غلامی قبول کرنا ہے۔

نئی غزل وضع کرنے کا ٹوٹکا یہ ہے کہ نئی اشیا کے نام شعر میں استعمال کیجئے۔ جیسے کرسی، سائیکل، ٹیلیفون، ریل گاڑی، سگنل۔

اصل میں ہمارے یہاں مولویوں اور ادیبوں کا ذہنی ارتقا ایک ہی خطوط پر ہوا ہے۔

ایک بے ایمان قوم اچھی نثر نہیں پیدا کر سکتی تو اچھی شاعری کیا پیدا کرے گی۔ ویسے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے معاشرہ میں اچھے نثرنگار یا شاعر سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ہوتے تو ہیں مگر وہ ایک مؤثر ادبی رجحان نہیں بن سکتے اور ادب ایک معاشرتی طاقت نہیں بن پاتا۔

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے