- کتاب فہرست 188047
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
کارگزاریاں55
ادب اطفال2070
ڈرامہ1025 تعلیم377 مضامين و خاكه1518 قصہ / داستان1720 صحت107 تاریخ3560طنز و مزاح747 صحافت215 زبان و ادب1972 خطوط812
طرز زندگی24 طب1031 تحریکات300 ناول5018 سیاسی370 مذہبیات4873 تحقیق و تنقید7317افسانہ3047 خاکے/ قلمی چہرے293 سماجی مسائل118 تصوف2278نصابی کتاب567 ترجمہ4566خواتین کی تحریریں6352-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی14
- اشاریہ5
- اشعار69
- دیوان1492
- دوہا53
- رزمیہ106
- شرح209
- گیت63
- غزل1321
- ہائیکو12
- حمد53
- مزاحیہ37
- انتخاب1653
- کہہ مکرنی7
- کلیات713
- ماہیہ21
- مجموعہ5321
- مرثیہ400
- مثنوی881
- مسدس60
- نعت598
- نظم1312
- دیگر78
- پہیلی16
- قصیدہ200
- قوالی18
- قطعہ71
- رباعی306
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا10
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت28
خواجہ حسن نظامی کے مضامین
غالب کا روزنامچۂ غدر ۱۸۵۷ء
غالبؔ کے روزنامہ میں ایک حرف فرضی نہیں ہے بلکہ چشم دید اصلی حالات کی تصاویر ہیں اور پھر بیان ایسا صاف، ستھرا اور اعلیٰ ہے کہ میری عبارت اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ غالبؔ کے اس روزنامچہ سے دہلی کی عمارتوں، دہلی کے نامور آدمیوں، دہلی کی قدیمی معاشرت،
فاقہ میں روزہ
جب دہلی زندہ تھی اور ہندوستان کا دل کہلانے کا حق رکھتی تھی، لال قلعہ پر تیموریوں کا آخری نشان لہرا رہا تھا۔ انہیں دنوں کا ذکر ہے کہ مرزا سلیم بہادر (جو ابو ظفر بہادر شاہ کے بھائی تھے اور غدر سے پہلے ایک اتفاقی قصور کے سبب قید ہو کر الہ آباد چلے گئے
گلاب تمہارا کیکر ہمارا
ان سب شاعروں کو سامنے سے ہٹاؤ جو گلاب کے پھول پر مرتے ہیں۔ سینکڑوں برس سے ایک ہی چہرے کے طلب گار ہیں۔ یہ سب لکیر کے فقیر ہیں ، مقلد ہیں، سنی سنائی تقلیدی باتوں پر جان دیتے ہیں۔ میں کچھ اور دیکھتا ہوں۔ مجھ کو ایک اور آنکھ ملی ہے جو ان سب سے اونچی
بنت بہادر شاہ
یہ ایک بے چاری درویشنی کی سچی کہانی ہے، جوزمانہ کی گردش سے ان پر گذری۔ ان کا نام کلثوم زمانی بیگم تھا۔ یہ دہلی کے آخری مغل بادشاہ ابو ظفر بہادر شاہ کی لاڈلی بیٹی تھیں۔ چند سال ہوئے ان کا انتقال ہوگیا۔ میں نے بارہا شہزادی صاحبہ سے خود ان کی زبانی ان
بہادر شاہ بادشاہ کی درویشی
دلی کے آخری بادشاہ ایک درویش صفت بادشاہ گذرے ہیں۔ ان کی فقیری اور فقیر دوستی کی سینکڑوں مثالیں دہلی اور اطراف ہند میں مشہور ہیں اور دہلی میں تو ابھی سینکڑوں آدمی موجود ہیں جنہوں نے اس خرقہ پوش سلطان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے ان کے درویشانہ
ٹھیلہ والا شہزادہ
۱۹۱۱ء کے دربار میں دہلی کے دن پھرے۔ نئے شہر کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ نقشے بنے۔ نامورانجینئروں کی دماغ آرائیاں اپنے جوہر دکھانے لگیں۔ شاہان اودھ کی مورث منصور علی خاں صفدر جنگ کے مقبرہ کے آس پاس کئی اینٹ بنانے اور پکانے کے کارخانے جاری ہوئے۔ ہزاروں
بھکاری شہزادہ (۲)
دہلی کی جامع مسجد سے جو راستہ مٹیا محل اور چتلی قبر ہوتا ہوا دہلی دروازہ کی طرف گیا ہے، وہاں ایک محلہ کلو خواص کی حویلی کے نام سے مشہور ہے۔ اس محلے سے روزانہ رات کو اندھیرا ہو جانے کے بعد ایک فقیر باہر آتا ہے اور جامع مسجد تک جاتا ہے۔ پھر وہاں سے واپس
شہزادے کا بازار میں گھسٹنا
یہ دہلی جس کو ہندوستان کا دل اور حکومت کا تخت گاہ کہتے ہیں، جب آباد تھی اور لال قلعہ میں مغلوں کی آخری شمع ٹمٹما رہی تھی، آفت اور بلا میں مبتلا ہونے کو آئی تو پہلے اس کے باشندوں کے عمل میں فرق آیا۔ الناس علی دین ملوکھم۔ پہلے حاکموں کے اعمال خراب
یتیم شہزادہ کی ٹھوکریں
ماہ عالم ایک شہزادے کا نام تھا، جو شاہ عالم بادشاہ دلی کے نواسوں میں تھا اور غدر میں اس کی عمر گیارہ برس کی تھی۔ شہزادہ ماہ عالم کے باپ مرزا نوروز حیدر دیگر خاندان شاہی کی طرح بہادر شاہ کی سرکار سے سو روپے ماہوار تنخواہ پاتے تھے۔ مگر ان کی والدہ کے پاس
یتیم شہزادہ کی عید
اسی ۱۳۳۲ ہجری کی عید الفطر کا ذکر ہے۔ دہلی میں ۲۹ کا چاند نظر نہ آیا۔ درزی خوش تھے کہ ان کو ایک دن کام کرنے کی مہلت مل گئی۔ جوتے والوں کو بھی خوشی تھی کہ ایک روز کی بکری بڑھ گئی۔ مگر مسلمانوں کے ایک غریب محلہ میں تیموریہ خاندان کا ایک گھرانہ اس دن بہت
بھکاری شہزادہ
میں قریشیہ بیگم کا لاڈلا بیٹا ہوں، جو بہادر شاہ بادشاہ کی مشہور صاحبزادی تھیں۔ بچپن میں، میں صاحب عالم میرزا قمر سلطان بہادر کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ مگر اب ذلیل گداگر کے سوا کوئی نام نہیں۔ پہلے بھی خوش تھا، اب بھی راضی ہوں۔ گردش و انقلاب کا کیا شکوہ؟ سلطانی
نرگس نظر کی مصیبت
شہزادی نرگس نظر میرزا شاہ رخ ابن بہادر شاہ کی بیٹی تھیں۔ غدر ۱۸۵۷ء میں ان کی عمر سترہ سال کی تھی۔ موجودہ لال قلعہ دہلی میں دیوان خاص اور موتی مسجد کے غرب میں اور گورا بارگ کے شرق میں ایک سنگین تالاب ہے، جس کے وسط میں ایک محل بنا ہوا ہے اور اس کے شمال
دو شہزادے جیل خانے میں
میرزا تیغ جمال کی عمر اب اسی برس کی ہے۔ غدر ۱۸۵۷ء میں وہ انیس برس کے گبرو جوان تھے اور ان کو غدر سے پہلے کی باتیں ایسی یاد ہیں جیسے ابھی کل کی گذری ہوئی حالت کو بیان کیا کرتے ہیں۔ تیغ جمال میرزا فخر و ولی عہد دوم کے لڑکے ہیں۔ میرزا دارا بخت بہادر
شہزادی کی بپتا
ہونے کو تو غدر پچاس برس کی کہانی ہے مگر مجھ سے پوچھو تو کل کی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ ان دنوں میری عمر سولہ سترہ برس کی تھی۔ میں اپنے بھائی یاور شاہ سے دو برس چھوٹی اور مرنے والی بہن ناز بانو سے چھ سال بڑی ہوں۔ میرا نام سلطان بانو ہے۔ ابا جان مرزا قویش
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here
-
کارگزاریاں55
ادب اطفال2070
-
