Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mohammad Hasan Askari's Photo'

محمد حسن عسکری

1919 - 1978 | کراچی, پاکستان

ممتاز نقاد ، مترجم اور افسانہ نگار۔ اپنی غیر معمولی تنقیدی تحریروں کے لیے جانے جاتے ہیں جن کے ذریعے اردو تنقید میں کسی حد تک مغربی دانش سے واقفیت پیدا ہوئی۔ آخری برسوں میں اسلامی ادب کی نظریہ سازی کا کام بھی کیا۔

ممتاز نقاد ، مترجم اور افسانہ نگار۔ اپنی غیر معمولی تنقیدی تحریروں کے لیے جانے جاتے ہیں جن کے ذریعے اردو تنقید میں کسی حد تک مغربی دانش سے واقفیت پیدا ہوئی۔ آخری برسوں میں اسلامی ادب کی نظریہ سازی کا کام بھی کیا۔

محمد حسن عسکری کے اقوال

398
Favorite

باعتبار

فسادات کے متعلق جتنا بھی لکھا گیا ہے اس میں اگر کوئی چیز انسانی دستاویز کہلانے کی مستحق ہے تو منٹو کے افسانے ہیں۔

ہم کتنے اور کس قسم کے الفاظ پر قابو حاصل کر سکتے ہیں، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمیں زندگی سے ربط کتنا ہے۔

محاورے صرف خوب صورت فقرے نہیں، یہ تو اجتماعی تجربے کے ٹکڑے ہیں جن میں سماج کی پوری شخصیت بستی ہے۔

نیک جذبات سے صرف برا ادب پیدا ہو سکتا ہے۔

آرٹ بنفسہ زندگی کی جستجو ہے۔

استعارے سے الگ ’’اصل زبان‘‘ کوئی چیز نہیں۔ کیونکہ زبان خود ایک استعارہ ہے۔

سب سے نفیس پہچان فحش اور آرٹ کی یہی ہے کہ فحش سے دوبارہ وہی لطف نہیں لے سکتے جو پہلی مرتبہ حاصل کیا تھا۔ آرٹ ہر مرتبہ نیا لطف دیتا ہے۔

شاعر ٹھیٹ معنوں میں خالق ہوتا ہے۔

منٹو کو انسان اپنی شکل ہی میں قبول ہے۔ خواہ وہ کیسی بھی ہو۔

جس کائنات میں صرف انسان ہی انسان رہ جائے وہ صرف بے رنگ ہی نہیں، انحطاط پذیر کائنات ہوگی۔

ماحول اتنی تیزی سے بدل رہا ہے کہ کسی چیز کو غور سے دیکھنے کی مہلت ہی نہیں ملتی۔

جس تہذیب میں انسان کی پوجا ہو وہاں بڑی شخصیتیں پیدا ہی نہیں ہوسکتیں۔

اصلی انقلاب صرف سیاسی یا معاشی نہیں ہوتا بلکہ اقدار کا انقلاب ہوتا ہے۔ انقلاب میں صرف سماج کا ظاہری ڈھانچہ نہیں بدلتا بلکہ دل و دماغ سب بدل جاتا ہے۔ اس سے نیا انسان پیدا ہوتا ہے۔

انقلاب کے معنی حقیقت میں یہ ہیں کہ نظام زندگی جو ناکارہ ہو چکا ہے بدل جائے اور اس کی جگہ نیا نظام آئے جو نئے حالات سے مطابقت رکھتا ہو۔

فن کار ہر اس چیز سے دور بھاگتا ہے جس کے متعلق کہا جاسکے کہ یہ اچھی ہے یا بری ہے، جھوٹی ہے یا سچی۔

انقلاب کا اصلی مفہوم خونریزی اور تخریب نہیں، نہ محض کسی نہ کسی طرح کی تبدیلی کو در اصل انقلاب کہتے ہیں۔ یہ تو انقلاب کے سب سے سستے معنی ہیں۔ اصلی انقلاب تو بغیر خون بہائے بھی ہو سکتا ہے۔

استعارے سے انحراف زندگی سے انحراف ہے۔

اردو کے ادیبوں کی کمزوری یہ ہے کہ انہیں اپنی زبان ہی نہیں آتی۔ ہمارے ادیبوں نے عوام کو بولتے ہوئے نہیں سنا، ان کے افسانوں میں زندہ زبان اور زندہ انسانوں کا لب و لہجہ نہیں ملتا۔

غیر معمولی حالات میں غیر معمولی حرکتیں ہمیں انسان کے متعلق زیادہ سے زیادہ یہ بتا سکتی ہیں کہ حالات انسان کو جانور کی سطح پر لے آتے ہیں۔

جب ادب مرنے لگے تو ادیبوں ہی کو نہیں بلکہ سارے معاشرے کو دعائے قنوت پڑھنی چاہئے۔

زندگی کی اکتا دینے والی بے رنگی کو قبول کئے بغیر ناول نہیں لکھا جاسکتا۔ ناول نویس میں زندگی سے محبت کے علاوہ زندگی کی یکسانی کو سہارنے کی طاقت بھی ہونی چاہئے۔

ادیب کویہ معلوم ہونا چاہئے کہ اسے کس وقت کس حیثیت سے عمل کرنا ہے۔ شہری کی حیثیت سے یا ادیب کی حیثیت سے۔

آخر لذت سے اتنی گھبراہٹ کیوں؟ جب ہم کسی پیڑ کو، کسی کردار کے چہرے کو، اس کے کپڑوں کو، کسی سیاسی جلسے کو مزے لے لے کر بیان کر سکتے ہیں تو پھر عورت کے جسم کو یا کسی جنسی فعل کو لذت کے ساتھ بیان کرنے میں کیا بنیادی نقص ہے۔ لذت بجائے خود کسی فن پارے کو مردود نہیں بنا سکتی بلکہ اس کے مقبول یا مردود ہونے کا دار و مدار ہے لذت کی قسم۔

اگر ادب میں فحش موجود ہے تو اسے ہوا بنانے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ اگر آپ لوگوں کوفحش کی مضرتوں سے بچانا چاہتے ہیں توانہیں یہ سمجھنے کا موقع دیجئے کہ کیا چیز آرٹ ہے اور کیا نہیں ہے۔ جوشخض آرٹ کے مزے سے واقف ہوجائے گا اس کے لئے فحش اپنے آپ پھسپھسا ہوکر رہ جائے گا۔

ادب بنفسہ ایک نئے توازن کی تلاش ہے اور انقلاب کے تصور میں توازن کی جگہ ہی نہیں رکھی گئی۔ انقلاب کے تصور سے مؤثر ادب تو پیدا ہو سکتا ہے مگر بڑا ادب پیدا نہیں ہو سکتا۔

اگر ادیبوں کے پاس لفظ کم رہ جائیں تو پورے معاشرے کو گھبرا جانا چاہئے۔ یہ ایک بہت بڑے سماجی خلل کی علامت ہے۔ ادب میں لفظوں کا توڑا ہو جائے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ معاشرے کو زندگی سے وسیع دلچسپی نہیں رہی یا تجربات کو قبول کرنے کی ہمت نہیں پڑتی۔

سیاسی لوگ عزیز ترین تصورات کو بھی مصلحت پر قربان کر سکتے ہیں۔

حکمران صرف بادشاہ یا آمر نہیں ہیں بلکہ جمہوری رہنما، سماجی مصلحین، اجتماعی زندگی کے متعلق سوچنے والے فلسفی، ان سب کو میں حکمرانوں میں شامل کرتا ہوں۔ یعنی وہ تمام لوگ جو چاہتے ہیں کہ آدمی ایک خاص طریقے سے زندگی بسر کریں۔

لامحدود مسرتوں پر انسان کا حق تسلیم کر لینے کا آخری نتیجہ یہ ہوا کہ اصلی زندگی ہی معطل ہو کے رہ گئی ہے۔

جو شخص یا جو جماعت استعارے سے ڈرتی ہے، وہ در اصل زندگی کے مظاہرے اور زندگی کی قوتوں سے ڈرتی ہے۔ جینے سے گھبراتی ہے۔

وجود کے متضاد اصولوں اور قوتوں کو یکجا کرکے ان کی نوعیت بدل دینا صرف استعارے کا کام ہے۔

مارکسیت سرمایہ داری کے ارتقاء کی تاریخ تو بیان کر سکتی ہے لیکن یہ نہیں بتاسکتی کہ آخر سرمایہ دار اتنی دولت کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کا جواب صرف نفسیات دے سکتی ہے۔ لہٰذا بنیادی اعتبار سے معاشی مسئلہ نفسیاتی اور اخلاقی مسئلہ بن جاتا ہے۔

کچھ شاعروں پر سب سے زیادہ لعنت ملامت اس لیے کی جاتی ہے کہ انھوں نے سماجی مسائل کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ انھوں نے کسی خاص جماعت کی سیاست کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔

مجسموں اور تصویروں میں جنسی اعضا اس وقت چھپائے جانے شروع ہوتے ہیں جب زمانہ انحطاط پذیر ہوتا ہے۔ جب روحانی جذبے کی شدت باقی نہیں رہتی اور خیالات بھٹکنے لگتے ہیں۔ جب فن کار ڈرتا ہے کہ وہ اپنے ناظرین کی توجہ اصلی چیز پر مرکوز نہیں رکھ سکے گا۔

فن کار کے لیے تمام اخلاقی تعلقات مردہ ہو چکے ہیں۔ حسن وہ آخری تنکا ہے جس کا سہارا لیے بغیر اسے چارہ نہیں۔

جب من چلا پن اپنی خود اعتمادی میں حد سے گزرنے لگتا ہے تو محبت اچھی خاصی پہلوانی بن جاتی ہے۔

جو لوگ کسی نہ کسی شکل میں فن کی برتری کے قائل تھے، ان کی بنیادی خواہش زندگی سے کنارہ کشی نہیں تھی۔

مجھے حقیقت کی نسبت افسانوں سے زیادہ شغف ہے۔ کیونکہ جب تک حقیقت پر انسانوں کے تخیل کاعمل نہیں ہوتا وہ مردہ رہتی ہے۔

فن برائے فن ہر قسم کی آسانیوں، ترغیبوں اور مفادوں سے محفوظ رہ کرانسانی زندگی کی بنیادی حقیقتوں کوڈھونڈنے کی خواہش کا نام ہے۔

میں انسان پرستی سے اس لئے ڈرتا ہوں کہ اس کے بعد آدمی کے ذہن میں لطیف، وسیع اور گہرے تجربات کی صلاحیت باقی نہیں رہتی اور آدمی کئی اعتبار سے ٹھس بن کے رہ جاتا ہے۔

روایت کا صحیح تصور نہ ہونے کی وجہ سے تخلیقی فنکاروں کو جو پریشانی ہو رہی ہے وہ عبرت خیز ہے۔

ممکن ہے کہ آرٹ موت کا اعلان کرتا ہو۔ اس میں فرد یا قوم کی زندگی سے بیزاری یا موت کی خواہش جھلکتی ہو۔ لیکن آرٹ کبھی اور کسی طرح موت کی تلاش نہیں ہو سکتا۔

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے