- کتاب فہرست 181733
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1653
طب565 تحریکات257 ناول3434 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی9
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1333
- دوہا61
- رزمیہ92
- شرح149
- گیت86
- غزل750
- ہائیکو11
- حمد32
- مزاحیہ38
- انتخاب1387
- کہہ مکرنی7
- کلیات635
- ماہیہ16
- مجموعہ4001
- مرثیہ332
- مثنوی680
- مسدس44
- نعت425
- نظم1009
- دیگر46
- پہیلی14
- قصیدہ143
- قوالی9
- قطعہ51
- رباعی256
- مخمس18
- ریختی17
- باقیات27
- سلام28
- سہرا8
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی19
- ترجمہ80
- واسوخت24
مشتاق احمد نوری کے افسانے
اور پھر ایسا ہوا
(منشی پریم چند کے الگو چودھری اور شیخ جمن سے معذرت کے ساتھ) یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح سارے گاؤں میں پھیل گئی، جس نے بھی سنا دنگ رہ گیا۔ ’’ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا؟‘‘ ’’پھر آج کیسے ہو گیا؟‘‘ کانوں کان یہ بات پھیلتی چلی گئی اور گاؤں میں بھگدڑ
وردان
ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر قد آدم آئینے پر پڑی۔ آئینے کو شاید جان بوجھ کر اس زاویے سے رکھا گیا تھاکہ ہر آنے والے کو اپنا آپا نظر آ جائے۔ اس نے لمحہ بھر کو آئینے میں دیکھا پھر ٹیبل پر رکھے ہوئے پیتل کے گلدان کو اٹھاکر اسے پوری طاقت سے آئینے
لمبی ریس کا گھوڑا
آج وہ بہت خوش تھا۔ اس نے اپنے طور پر بہت بڑا تیر مار لیا تھا، حالانکہ اس کی بیوی سلمیٰ نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ان کے ساتھ تمہیں ایسا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘ ’’اس سے اتنی ہمدردی کیوں؟ وہ تمہارا رشتہ دار لگتا ہے کیا؟‘‘
جن کی سواری
آج پھر قمر آرا پر جن کی سواری ہے۔ ایسا جب بھی ہوتا ہے پورے گاؤں میں بھونچال سا آ جاتا ہے۔ جسے دیکھو وہ ادھر ہی دوڑا جا رہا ہے۔ ان میں بہت سے تو صرف تماش بین ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں ان باتوں پر یقین نہیں ہوتا، پھر بھی وہ اپنی آنکھ سے دیکھ
جادوگر
شہر کا سب سے بڑا میدان آدم زاد سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لوگ سورج طلوع ہونے کے قبل سے ہی میدان میں آنا شروع ہو گئے تھے تاکہ آسانی سے اسٹیج کے قریب کی جگہ انہیں مل سکے۔ میدان میں داخلے کے لئے کوئی ٹکٹ نہیں تھی، اس لئے بھیڑ میں ہر آن اضافہ ہوتا جا رہا
شمائلہ
آخر شمائلہ نے جانے کا ارادہ کر ہی لیا۔ جس نے بھی سنا حیران رہ گیا۔ آخر اتنی جلدی بھی کیا تھی۔ سب سے زیادہ پریشانی تو ہم سب کو تھی۔ بیگم بالکل گم صم تھیں، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھاکہ وہ کہیں تو کیا کہیں؟ شمائلہ سے پہلی ملاقات آج بھی یاد ہے۔ ایک
نظربند
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میں بالکل تنہا خاموش پڑا رہتا ہوں۔ سامنے کوئی نہیں ہوتا، لیکن پھر بھی میرے اندر سے چیخ ابھرتی رہتی ہے۔ پھریہ ہوتا ہے۔ کوئی میری دکھتی رگوں پر اپنی انگلیاں دھر دیتا ہے۔ میں بلبلانے لگتا ہوں اور تبھی میرے زخموں پر نمک پاشی شروع
چھت پر ٹھہری دھوپ
کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ ہم دونوں خود اپنے ساتھ فریب کر رہے ہیں؟ آخر اس خود فریبی میں مبتلا ہو کر ہم کس حقیقت سے فرار چاہ رہے ہیں۔ زندگی فرار کا نام تو نہیں ہے؟ زندگی تو خود سپردگی کا نام ہے۔ تو پھر اپنے آپ کو چھلنے کی یہ خواہش اپنے ہی ساتھ کی
گہن چاند کا
اسے جیسے ہی ابو کا خط ملا وہ پریشان ہو گیا۔ خط بہت مختصر تھا، صرف چند سطریں ’’بیٹے ،خط ملتے ہی تم فورا چلے آؤ۔ تفصیل یہاں آنے پر بتاؤں گا۔‘‘ اس کی الجھن بڑھ گئی۔ آخر گھر میں کیا ہو گیا ہوگا؟ کہیں امی کی طبیعت تو پھر خراب نہیں ہو گئی، کہیں اس کی
اعتبار
’’۴۰۸ نمبر کوارٹر میں تم آئے ہو؟‘‘ ’’جی ہاں۔‘‘ ’’تم بھی عجیب ہو یار۔ تم نے مجھے بتایا نہیں کہ تم اس کوارٹر میں آئے ہو۔‘‘ ’’مجھے یہ نہیں معلوم تھاکہ یہاں آنے کے بعد اس کی اطلاع آپ کو دینی لازمی ہوگی۔‘‘ ’’ارے یار تم تو برا مان گئے۔ دراصل میں
ترشول پر ٹنگی کہانی
گیریج کے اندر بس اتنی ہی جگہ تھی کہ چار پانچ نفوس کسی طرح گزارا کر لیتے۔ زمین پر پوال بچھاکر فرش کی سردی سے بچنے کے ساتھ بستر نرم کرنے کی ترکیب نکالی گئی تھی۔ ایک ٹاٹ تھا جو پوال کو ڈھکے رہتا تھا۔ اس پر ایک معمولی سی چادر بچھی تھی۔ دروازے پر بھی ٹاٹ
وراثت
پھر وہی آواز آئی: ’’لاسن۔۔ لاسن‘‘ میں چونک گیا۔ میرے اندر بےچینی کروٹ بدلنے لگی۔ میں جب بھی اس کی آواز سنتا ہوں میرے اندر اتھل پتھل ہونے لگتی ہے۔ کبھی کبھی تو باہر نکل کر اسے دیکھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ اسے دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS
-
ادب اطفال1653
-