Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لمبی ریس کا گھوڑا

مشتاق احمد نوری

لمبی ریس کا گھوڑا

مشتاق احمد نوری

MORE BYمشتاق احمد نوری

    آج وہ بہت خوش تھا۔ اس نے اپنے طور پر بہت بڑا تیر مار لیا تھا، حالانکہ اس کی بیوی سلمیٰ نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:

    ’’ان کے ساتھ تمہیں ایسا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘

    ’’اس سے اتنی ہمدردی کیوں؟ وہ تمہارا رشتہ دار لگتا ہے کیا؟‘‘ اکبر کے جواب میں اس نے کہا:

    ’’دیکھو اکبر! اس میں رشتہ دار لگنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے تمہارا کبھی نقصان نہیں کیا اور نہ ہی ان سے تمہاری لڑائی ہے پھر۔۔۔۔۔۔؟‘‘

    ’’تم چپ رہو سلمیٰ۔ تم ان بڑے لوگوں کو نہیں جانتیں۔ یہ دیکھنے میں بہت معصوم لگتے ہیں، لیکن ۔۔۔۔۔۔‘‘

    ’’ہوتے ہوں گے‘‘ سلمیٰ نے بات کاٹتے ہوئے کہا: ’’لیکن یہ اشفاق صاحب تو ایسے نہیں ہیں۔ تمہیں بھی معلوم ہے کہ وہ ایک اصول پسند آدمی ہیں۔ تم سے ہمیشہ بڑی محبت سے پیش آتے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘

    ’’چھوڑو ان باتوں کو، تم ابھی میری سیاست نہیں سمجھ پاؤگی۔ میں ایک عرصہ سے موقع کی تلاش میں تھا، وہ آج مل گیا۔ اب کل کیا ہوگا۔۔۔ دیکھا جائےگا۔‘‘ اکبر نے اس معاملے کو ختم کرتے ہوئے کہا۔

    سلمیٰ خاموش ہو گئی۔ وہ جیسی بھی رہی ہو کسی کو بلا وجہ ذلیل کرنے کے حق میں نہیں تھی۔ آج بھری محفل میں اکبر نے اشفاق صاحب کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا تھا کہ سارے لوگ دنگ رہ گئے تھے۔ سکتے میں تو وہ بھی آ گئی تھی۔ اسے یاد آیا کہ انہوں نے بڑی محبت سے کہا تھا:

    ’’سلمیٰ تم بھی آنا۔۔۔ تم میری مہمان رہوگی۔‘‘

    اگر اسے ذرا بھی خدشہ ہوتا کہ اکبر ایسی ذلیل حرکت کرےگا تو وہ ہرگز اس محفل میں نہیں آتی۔ وہ یہ سب سوچ رہی تھی اور اکبر کی نگاہیں خلا میں اٹک گئی تھیں۔ اس کے نہ جانے کون سے جذبے کی تسکین ہوئی تھی کہ وہ بہت پرسکون لگ رہا تھا۔ وہ جسمانی طور پر اپنے ہنومان نگر کے ایم آئی جی فلیٹ میں تھا، لیکن اس کی روح بہار کے اس خطے میں بھٹک رہی تھی جہاں گوبی کے کھیت میں انسانی سر بو دیئے گئے تھے اور اس علاقے نے فساد کی ایسی ہولناکی جھیلی تھی جس کی مثال اس سے قبل نہیں دیکھی گئی۔

    اس نے جب سے آنکھ کھولی خود کو ایک ایسے ماحول میں پایا جس سے اسے شدید نفرت تھی۔ چھوٹی سی آبادی والا یہ محلہ ناتھ نگر جہاں دن رات چرکھوں اور کرگھوں کی آواز آتی رہتی، پاور لوم کی گھڑگھڑاہٹ ان کی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ بن گئی تھی۔ اس گھڑگھڑاہٹ میں معصوم بچے بھی بڑی میٹھی نیند سونے کے عادی ہو گئے تھے۔ کوئی ایسا گھر نہیں تھا جہاں ہینڈ لوم کپڑے کا کاروبار نہیں ہوتا تھا۔ کہیں مختلف رنگ کے دھاگے رسیوں پر جھول رہے ہیں کہیں دھاگوں کی رنگائی چل رہی ہے۔ کہیں کپڑے بنے جا رہے ہیں اور کہیں ان کی تھان بنائی جا رہی ہے۔ ایک زمانے میں یہاں کا ریشم پورے ملک میں مشہور ہوا کرتا تھا، لیکن اب سب خواب کا حصہ بن گیا تھا۔ نسیم الدین انصاری صاحب بےحد شریف اور ملنسار آدمی تھے۔ ان کا اپنا کاروبار تھا۔ دو چار پاورلوم کے مالک وہ بھی تھے۔ ایک معمولی کاریگر کے پیشہ سے شروع کرکے انہوں نے اپنی محنت مشقت سے اسے کاروبار کا درجہ دیا تھا۔ اصغر علی ان کا پہلا بیٹا تھا جس کی پیدائش پر انہوں نے لڈو تقسیم کئے تھے، لیکن جب اصغر علی دس سال کا ہوا تو اسے اپنے نام کا معنی سمجھ میں آیا۔ اس نے خود ہی اپنا نام بدل لیا۔ باپ نے لاکھ سمجھایا لیکن اس کی ایک ہی ضد تھی:

    ’’اصغر معنی چھوٹا۔۔۔ کیا میں زندگی بھر چھوٹا ہی رہوں گا۔ اگر رکھنا ہی ہے تو میرا نام اکبر رکھئے۔ اس سے نام کا بھی اثر پڑےگا۔‘‘

    باپ کیا کرتا۔۔۔ اب اصغر علی، اکبر علی ہو گیا۔ اکبر شروع سے ہی ذہین تھا۔ اس نے اسکول میں اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کی اور مقامی کالج میں داخل ہو گیا۔ اس کے کالج میں داخل ہونے تک نسیم الدین انصاری صاحب کے یہاں یکے بعد دیگرے چھ بچے پیدا ہو چکے تھے۔ کثیرالاولاد ہونے کے ناطے اکبر کے کالج کا خرچ ان کے بوتے کا نہیں تھا پھر بھی انہوں نے بچے کی خواہش کے سامنے ہمت نہ ہاری اور رہی سہی کسر پروفیسر خان نے پوری کر دی۔

    جس کالج میں اکبر کا داخلہ ہوا، پروفیسر خان اسی کالج میں پڑھاتے تھے۔ بڑے مخلص شخص تھے اور لوگوں کی دل کھول کر مدد بھی کیا کرتے تھے۔ اکبر کی لگن کو وہ تعریفی نظروں سے دیکھتے تھے اور گاہے بگاہے اس کی مدد بھی کر دیا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اپنے ہی شہر کا بچہ ہے، پڑھ لکھ جائےگا تو محلے کا بھی نام روشن کرےگا۔ ان کی لڑکی جب میٹرک میں آئی تو انہوں نے اکبر کو اسے ٹیوشن پڑھانے پر رکھ لیا کہ اس طرح اکبر کی مالی مدد بھی ہو جائےگی۔

    اکبر نے کبھی بھی اپنے ماحول کو قبول نہیں کیا۔ نسیم الدین صاحب اسے اپنی پشتینی کاروبار میں لگانا چاہتے تھے، لیکن وہ سوت دیکھ کر ہی بدک جاتا۔ اسے محسوس ہوتا کہ وہ یہاں رہا تو اس کی قسمت بھی دھاگوں کی طرح الجھ جائےگی۔ جس طرح اتنی محنت سے بنے کپڑوں پر مال داروں کا حق ہوتا ہے اسی طرح اس کی زندگی بھی دوسروں کی غلامی میں چلی جائےگی۔ وہ بڑا آدمی بننے کا خواب بچپن سے ہی دیکھتا آیا تھا اور وہ ہر قیمت پر ان خوابوں میں رنگ بھرنا چاہتا تھا۔ وہ تو وقت کا منتظر تھا کہ کب اڑان کا موقع میسر ہو اور وہ آسمان میں اُڑنے لگے۔

    ’’چائے پی لو، ٹھنڈی ہو جائےگی۔‘‘

    سلمیٰ کی آواز پر وہ چونکا اور اس کی جانب غور سے دیکھنے لگا۔ نہ جانے آج اسے سلمیٰ کا چہرہ بدلا بدلا سا کیوں لگ رہا تھا۔ چائے سے نکلتی بھاپ کی طرح وہ بھی ہوا میں گم ہونے لگا۔

    پروفیسر خان اسے بیٹے کی طرح چاہتے تھے۔ اس کی جلد باز فطرت سے وہ بہت متفکر رہتے تھے۔ اکثر اسے سمجھاتے ہوئے کہتے:

    ’’دیکھو اکبر ۔۔۔ دنیا کے پیچھے بھاگنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ تمہاری تقدیر میں جتنا لکھا ہے، اس سے زائد نہیں ملنے والا۔‘‘

    ’’تو کیا ہم زندگی بھر چھوٹے ہی رہیں اور سماج کے یہ سفید پوش زندگی بھر موج مستی کرتے رہیں۔ کیا سارا سکھ وہی لوگ اپنی قسمت میں لکھا کر لائے ہیں۔‘‘

    ’’نہیں، ایسا نہیں ہے ۔۔۔‘‘

    ’’تو پھر ہم لوگوں کا اس طرح استحصال کیوں ہوتا ہے۔ کپڑے بننے والوں کے بچوں کے جسم پر کپڑے کیوں نہیں ہوتے؟ یہ کپڑے سفید پوش کو ہی کیوں بھلے لگتے ہیں۔ ہمارے لوگ پشت در پشت اس کاروبار سے جڑے ہیں، وہ اس سے باہر بھی نہیں نکل پاتے کہ باہر نکلنے کے دروازے ان پر بند کر دیئے گئے ہیں۔‘‘

    پروفیسر خان گفتگو کا رخ دوسری جانب موڑنے میں ہی عافیت سمجھتے۔ اکبر کے اندر جو آگ تھی وہ کسی کو بھی جلا کر راکھ کر سکتی تھی۔ خود اس کا اپنا وجود اس آگ میں جھلس رہا تھا۔ انہیں ڈر صرف اس بات کا تھا کہ کسی نہ کسی دن یہ لڑکا کوئی ایسا گل ضرور کھلا جائےگا جس کی توقع کسی اور سے نہیں کی جا سکتی۔

    اور ایسا ہی ہوا۔ اس نے واقعی ایک ایسا گل کھلا دیا جس کی توقع کسی اور سے نہیں کی جا سکتی تھی۔ ایک رات چپکے سے وہ پروفیسر خان کی کم سن لڑکی کو لے کر بھاگ گیا۔ لڑکی نے بس ابھی ابھی میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ عمر یہی کوئی پندرہ سولہ کے آس پاس رہی ہوگی۔ ان کی لڑکی کو پڑھانے کے چکر میں وہ خود اس کو پڑھتا رہا اور جب پڑھتے پڑھتے اس نے پوری کتاب ہی چاٹ ڈالی تو آخری ورق پلٹنے میں دیر ہی کتنی لگتی۔

    پورے شہر میں بھونچال آ گیا۔ پروفیسر خان جیسے شریف آدمی پر جیسے پہاڑ ہی ٹوٹ پڑا۔ نسیم الدین نے ان کے قدموں میں سر رکھ کر اپنی بےگناہی کا یقین دلایا، لیکن اب ہو ہی کیا سکتا تھا۔ وہ لڑکی کو لے کر سیدھے راجدھانی آ گیا اور اپنے ایک پرانے دوست عاصم کے یہاں پناہ ملی۔

    خان صاحب نے تھانے میں رپورٹ درج کرانے سے انکار کر دیا کہ رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جائےگی، لیکن لڑکی کے ماموں اس کی تلاش میں راجدھانی تک آ گئے۔ انہیں سراغ بھی ملا، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ خبر بھی ملی کہ لڑکی تین مہینے کے پیٹ سے ہے۔ یہ خبر سن کر خان صاحب رو پیٹ کر رہ گئے۔ لڑکی لے جاکر بھی کیا کرتے؟ کون کرتا شادی؟ اس جگ ہنسائی کے بعد مزید جگ ہنسائی؟ انہیں درد اس بات کا نہیں تھا کہ بیٹی بھاگ گئی، انہیں تو درد یہ تھا کہ وہ آستین میں سانپ پالتے رہے اور اس نے موقع ملتے ہی انہیں ڈس لیا۔ اکبر کی کمینگی کی وجہ سے پوری انسانیت سے ہی ان کا یقین اٹھ گیا تھا۔

    اس پورے واقعہ کے درمیان جو سب سے زیادہ پرسکون رہا وہ اکبر تھا۔ اس نے کچا کام کرنا سیکھا ہی نہ تھا۔ جب اسے مکمل یقین ہو گیا کہ وہ تین مہینے کی حاملہ ہے تب ہی اسے سکون ملا اور وہ اسے بہلا پھسلا کر لمبے لمبے خواب دکھا کر لے بھاگا۔

    ’’پاپا ۔۔۔ آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔‘‘

    وہ چونکا۔ اس کے سامنے اس کی بیٹی کھڑی تھی جس نے اس بار آئی ایس سی میں داخلہ لیا تھا۔ سامنے شکلا جی کھڑے تھے جو ایک فنکشن کے سلسلے میں اس سے ملنے آئے تھے۔

    ’’اکبرجی، اس ڈرامے کے بارے میں آپ سے بات کرنی ہے جس کے شو کے لئے ہم لوگ فنکشن کر رہے ہیں۔‘‘

    ’’آپ نے سلمیٰ سے بات نہیں کی؟‘‘

    ’’سلمیٰ جی سے تو بات ہو چکی ہے، وہ ابھی شرما جی سے ڈسکس کر رہی ہیں۔ آپ نے اس سلسلہ میں کچھ کہا؟‘‘

    ’’ہاں ۔۔۔ں ۔۔۔‘‘ وہ کچھ یاد کرتے ہوئے بولا۔

    ’’میں نے اشوک جی سے بات کر لی ہے۔ وہ ادگھاٹن سماروہ میں ضرور آئیں گے۔‘‘

    ’’لیکن ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ وعدہ کرکے بھی نہیں آتے۔‘‘ ڈرتے ڈرتے شکلا جی نے کہا۔

    ’’نہیں نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے کہہ دیا ہے اور پھر ان کا یہ پروگرام تو سلمیٰ نے طے کیا ہے۔‘‘

    یہ سن کر شکلا جی نے اطمینان کی سانس لی کیونکہ جب سلمیٰ نے پروگرام طے کیا ہے تو یہ طے ہی ہوگا۔

    شکلا جی تو مطمئن ہو کر چلے گئے اور وہ سوچنے لگا:

    ’’یہ ڈرامہ والے بھی خوب ہوتے ہیں۔ اسٹیج پر کوئی اور ڈراما ہوتا ہے اور پردہ کے پیچھے کوئی اور ڈراما کھیلا جاتا ہے۔‘‘

    اس نے ایک لمبی سانس لی۔

    ’’اس کا نام راج نیتی ہے۔۔۔ جو سامنے ہے، وہ نہیں ہے اور جو نظر نہیں آتا وہی سچ ہوتا ہے۔‘‘

    اس نے بھی کم ڈراما نہیں کیا تھا۔

    لڑکی بھاگنے کو تو بھاگ آئی تھی، لیکن اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس نے زندگی کی سب سے بڑی بھول کی ہے۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اکبر اسے کہیں کا نہیں

    رکھےگا۔ اس نے جب ڈرتے ڈرتے عاصم کی شکایت کی تھی کہ کس طرح اس نے اس کی غیرموجودگی میں۔۔۔

    ’’بھول جاؤ ان باتوں کو۔‘‘ اس نے فلسفیانہ انداز میں کہا تھا۔

    ’’کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔‘‘ پھر اس نے بڑی گہری مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا:

    ’’تم فکر کیوں کرتی ہو، تمہارے پاس اب کھونے کے لئے بچا ہی کیا ہے۔‘‘

    وہ تو بھونچک رہ گئی تھی۔

    ’’یا اللہ۔۔۔ میں کیا سے کیا ہو گئی۔۔۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی لیکن اس کے آنسو دیکھنے کے لئے اکبر اس کے سامنے نہیں تھا۔

    اکبر نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا تھا۔ وہ صرف سامنے دیکھنے کا عادی تھا۔ اسی دوران اس کی ملاقات سیاست کے گلیارے کے ایک ماہر کھلاڑی اشوک رائے جی سے ہو گئی۔ ان کے دوست انہیں بگلا بھگت کہتے تھے۔ رائے جی باہر سے معصوم لگتے لیکن اندر سے بہت ماہر کھلاڑی تھے۔ انہوں نے اکبر کو ایک ہی نظر میں تاڑ لیا تھا کہ یہ لمبی ریس کا گھوڑا ثابت ہو سکتا ہے۔

    اکبر اپنی کامیابی کے لئے کسی نہ کسی زینے کا استعمال کرتا تھا۔ پہلا زینہ تو خان صاحب ثابت ہوئے تھے جن کی چوکھٹ ہی اکھاڑ آیا تھا اکبر۔ اب رائے جی اس کی ترقی کے لئے دوسرا زینہ تھے۔ رائے جی نے اس کی دھار میں اورسان چڑھایا اور اسے کامیابی کی راہ کے داؤ پیچ سکھائے۔

    چار پانچ ماہ بیت گئے، اسی دوران وہ ایک بیٹی کا باپ بھی بن گیا۔ سلمیٰ نے جب پہلی بار اپنی بیٹی کا منھ دیکھا تو وہ اپنے سارے دکھ درد بھول گئی۔ اس کے سامنے حالات سے سمجھوتہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ بھی نہیں تھا۔ اس نے خود کو وقت کے دھارے پر چھوڑ دیا۔

    سلمیٰ ماں بن کر ایک مکمل عورت ہو گئی تھی۔ کچھ ہی دنوں میں اس کے چہرے میں ایک عجیب سا نکھار بھی پیدا ہو گیا۔ اس تبدیلی کو اکبر نے بھی محسوس کیا پھر اس نے اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے کے لئے سلمیٰ کو اور رنگین بنانا شروع کر دیا۔ ادھر سلمیٰ کا رنگ اترتا رہا اور ادھر اس کے خواب، زمین پر اترنے لگے۔ جہاں بھی اس کا کام اٹکتا وہ سلمیٰ کی سیڑھی لگا دیتا۔ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ:

    ’’جس کے پاس خوبصورت بیوی سا، زینہ ہو، وہ دنیا کی کوئی بھی بلندی طے کر سکتا ہے۔‘‘

    وہ اس زینہ کے سہارے زندگی کی ایک سے ایک کامیابی حاصل کرتا رہا۔ اشوک کمار رائے بھی سلمیٰ پر بہت مہربان تھے۔ پھر کیا تھا۔ اکبر نے ایم اے کیا، نوکری ملنی مشکل تھی اس لئے اس نے ایک این جی او کا رجسٹریشن کروایا۔ اب اس کے ذریعہ سرکاری اعانت حاصل کرتا اور مستی سے زندگی گزارتا۔ ایک این جی او، اس نے سلمیٰ کے نام سے بھی رجسٹر کروایا۔ اب یہ دونوں ادارے اس کے خوابوں میں رنگ بھرنے کے لئے کافی تھے۔

    اب وہ منزل کی تلاش میں دوڑنے لگا۔

    اس کے اندر کانٹوں کا بن اگ آیا تھا جس سے وہ اندر ہی اندر لہولہان ہو رہا تھا۔ اسے سماج کے اعلیٰ طبقے کے افراد سے شدید نفرت تھی۔ اس کا ماننا تھا کہ انہیں لوگوں نے اس کے طبقے کا استحصال کیا ہے۔ انہیں زمانے سے دبا کچلا سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس کی اس منفی سوچ میں دم تھا، سچائی تھی لیکن اس کا رویہ غلط تھا۔ وہ اعلیٰ سماج کے ہر فرد سے انتقام لینا چاہتا تھا۔ وہ حالات بدلنا نہیں بلکہ ایسے حالات پیدا کرنا چاہتا تھا جو خود اس کے لئے گھا تک ثابت ہو رہے تھے۔

    وہ ایک عجیب سی احساس کمتری کا شکار تھا۔ محفلوں میں کسی بات پر بحث کرنا تو دور کی بات وہ لوگوں سے آنکھ ملا کر گفتگو بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اپنی بات منوانے کی صلاحیت بھی اس میں نہیں تھی۔ وہ صرف دوسروں کو گالیاں دے سکتا تھا۔ ان کا مذاق اڑا سکتا تھا اور اس کی منفی سوچ جس ڈگر پر اسے ڈالتی وہ چلنے لگتا۔ یہ اس کی منفی سوچ ہی تھی کہ اس نے اپنے سب سے بڑے محسن پروفیسر خان کے ساتھ سب سے بڑا دھوکہ کیا تھا۔ دراصل اس نے اونچے طبقے سے انتقام لیا تھا۔کس بات کا؟ یہ تو اسے بھی معلوم نہیں تھا۔

    سلمیٰ کو اس نے واقعی ایک زینہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ شروع شروع میں سلمیٰ کو یہ سب ناقابل برداشت لگا، پھر قدرے اَٹ پٹا اور اب اسے ایک عجیب سا لطف بھی آنے لگا تھا اور کبھی کبھی تو وہ خود ہی بڑھ کر اس کی ترقی کے لئے زینہ بن جاتی تھی۔

    ایک بار اکبر نے محسوس کیا کہ جب سے رائے جی کی مہربانیاں بڑھی ہیں سلمیٰ پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے۔ اس نے اشارتاً یہ بات سلمیٰ سے کہہ بھی دی لیکن سلمیٰ نے بہت واضح الفاظ میں جواب دیا تھا:

    ’’دیکھو اکبر، میں تو نسیم سحری کی طرح معصوم تھی۔ تم نے میری معصومیت کی ردا کو خود ہی تار تار کر دیا۔ اب تو تم نے مجھے بادِ سموم بنا دیا ہے اور میں اس ڈگر پہ چل پڑی۔ اس ڈگر پر میں اپنی مرضی سے نہیں آئی بلکہ تم نے اپنے فائدے کے لئے مجھے یہاں پہنچا دیا۔ میں جب رکی تو تم نے دھکے مار کر آگے بڑھایا اور جب کہ میں اس ڈگر پر بڑھ آئی ہوں تو اس کی بھی کچھ اپنی پرمپرائیں ہیں، کچھ سیمائیں ہیں اور کچھ مجبوریاں ہیں، اس لئے میں اس کا النگھن کیسے کر سکتی ہوں۔ تمہارے آکروش کرنے سے کیا ہوگا۔۔۔؟‘‘

    وہ چپ ہو رہا۔ اپنے کئے کا آخر علاج بھی کیا تھا۔

    وہ جب سے ہندی ڈرامے میں کام کرنے لگی تھی تب سے اس کی گفتگو میں ہندی الفاظ کثرت سے در آئے تھے۔ وہ بات بات میں آکروش، سنگھرش، نپنسکتا، جیسے الفاظ کا استعمال کرتی تھی۔ نہ جانے اس کے ذہن میں کون سی گتھی الجھی ہوئی تھی کہ وہ ایسے الفاظ کا استعمال بات بات میں کرنے لگتی۔

    پورے شہر میں اس کے گھر کا نام ہی ’’زینہ گھر‘‘ پڑ گیا تھا۔ وہ جدھر سے بھی گزرتا لوگ چپکے سے کہتے:

    ’’وہ دیکھو، زینے والا جا رہا ہے۔‘‘

    یہ سب سن کر اس کے اندر کانٹے کا بن اور پھیل جاتا اور اس کے جی میں آتا کہ وہ سارے زمانے کو لہو لہان کر دے۔

    اسی دوران بنگال میں ایک یوتھ فیسٹیول کا انعقاد ہوا۔ اس میں سلمیٰ کو بطور خاص مدعو کیا گیا اور دل رکھنے کے لئے دعوت نامے میں اس کا نام بھی جوڑ دیا گیا۔ سلمیٰ پہلی بار باہر نکلی تھی۔ بنگال کی فضا اس کے لئے نئی تھی۔ وہاں کا کھلا پن اسے بہت بھایا۔ اسی فیسٹیول میں اس کی ملاقات دلیپ گانگولی سے ہو گئی۔ کیا بانکا جوان تھا اور اس کی آواز میں تو ایک جادو تھا۔ سلمیٰ گانگولی کی طرف شدت سے کھینچتی چلی گئی۔ اسے اکبر کے ساتھ دوسروں نے بھی محسوس کیا، خصوصاً شرما جی جو سلمیٰ کے ساتھ ہی آئے تھے۔انہیں لگا کہ اب سلمیٰ ان کے ہاتھ سے بھی پھسل جائے گی۔ اس لئے انہوں نے اکبر کا کان بھر دیا۔

    اکبر نے اسی رات ہوٹل کے کمرے میں سلمیٰ کو خوب کھری کھری سنائی۔ سلمیٰ نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے چبا چبا کر الفاظ ادا کئے:

    ’’اکبر علی صاحب۔۔۔ آپ کو یہ یاد ہے کہ آپ میرے پتی پرمیشور ہیں، لیکن آپ نے آج تک مجھے ایک پتنی کا درجہ نہیں دیا۔ صرف بچہ پیدا کردینے سے میں آپ کی پتنی نہیں ہو گئی۔‘‘

    وہ رکی اور اس کی جانب نفرت بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی کہنے لگی:

    ’’آپ اپنے فائدے کے لئے مجھے دوسروں کے پہلو میں بھیجتے رہے۔ یہ آپ کی نپنسکتا نہیں تو اور کیا تھی۔ میں جب آپ کی مرضی سے یہ سب کر سکتی ہوں تو پھر جب اپنی مرضی سے کر رہی ہوں تو آپ کو آکروش کیوں ہو رہا ہے؟ یہاں آ پ اصول پرست ہو گئے؟ نہ جانے آپ کس اصول کی بات کرتے ہیں جس نے زندگی بھر صرف نفرت کرنا سیکھا ہو وہ مجھے محبت کا درس دے رہا ہے؟‘‘

    ’’چپ رہو سلمیٰ ۔۔۔ تم میرے صبر کا امتحان مت لو اور نہ ہی میری مرضی میں دخل دو۔‘‘ وہ چیخا

    ’’میں دخل کہاں دے رہی ہوں۔ دخل تو آپ دے رہے ہیں۔ نو سوچوہے کھلا کر آپ بلی کو حج پر کیوں بھیجنا چاہتے ہیں؟‘‘

    اس رات دونوں میں خوب بک جھک ہوتی رہی۔ سلمیٰ نے بھی عاجز آکر ایک ساتھ نیند کی ڈھیر ساری گولیاں نگل لی، لیکن ایسے لوگوں کو اتنی آسانی سے موت کب ملتی ہے۔ جو اس طرح پل پل مرنا سیکھ جاتے ہیں ان کی زندگی بہت لمبی ہو جاتی ہے۔

    سلمیٰ کو بھی بچا لیا گیا اور اکبر میاں کی جان میں جان آئی کیونکہ ایک جھٹکے میں انہیں لگا تھا کہ جس زینے پر وہ کھڑے تھے کسی نے اچانک پاؤں کے نیچے سے کھینچ لیا ہو۔

    بنگال سے واپسی کے بعد سلمیٰ میں ایک خاص تبدیلی محسوس کی جانے لگی تھی۔ وہ قدرے مجبور ہو گئی تھی۔ اس کا باہر نکلنا بھی قدرے کم ہو گیا تھا۔ شرما جی بھی آتے تو وہ ملنے سے انکار کر دیتی۔ اپنی جوانی دونوں ہاتھوں سے لٹانے کے بعد بھی اس کا دم خم باقی تھا۔ اس کی بیٹی مقامی کالج میں پڑھتی تھی اور بیٹا کسی دوسرے شہر میں تعلیم پا رہا تھا۔ اشوک کمار رائے جی نے سی ایم کوٹا سے اس کا داخلہ میڈیکل کالج میں کروا دیا تھا۔ اس کی پوری کوشش رہی تھی کہ وہ اپنا سایہ بچوں پر نہ پڑنے دے۔

    بنگال سے آنے کے بعد اس کا زیادہ تر وقت بیٹی کے ساتھ گزرتا جو آئی ایس سی کا امتحان دینے والی تھی اور رائے جی نے وعدہ کیا تھا کہ اس بار بیٹی کا بھی داخلہ کوٹا سے کروا دیں گے۔ اکبر سے اس کی رسمی گفتگو ہوتی رہی۔ اکبر کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ سلمیٰ کے دل میں کون سی گانٹھ بیٹھ گئی ہے جو کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔

    اس نے سوچا وقت کے ساتھ سب کا کس بل نکل جاتا ہے۔ سلمیٰ بھی ہفتہ عشرہ میں نارمل ہو جائےگی۔ سلمیٰ کی مدد سے اس نے ایم آئی جی فلیٹ تو خرید ہی لیا تھا۔ اب ایک کار بھی آ گئی تھی کیونکہ اب کافی بڑے لوگوں میں اس کی پہنچ ہونے لگی تھی اور مزید ترقی کے لئے اس کے پاس جو زینہ تھا ابھی اس کے امکانات روشن تھے۔

    دونوں کے درمیان ایک سرد سی جنگ جاری تھی اور ادھر ایک بڑے نیتا نے اسے ایک ادارے کا چیئر مین بنوانے کی پیش کش کرتے ہوئے کہا تھا:

    ’’آپ تو مصروف رہتے ہیں۔ آپ سلمیٰ جی کو کل شام بھیج دیجئےگا۔ میں انہیں سارا ۔۔۔ سمجھادوں گا اور پھر انہیں بھی تو مہیلا آیوگ کا سدسیہ بنانا ہے۔ چیئر مین بننے کے بعد تو آپ کا ایم ایل سی بننا طے ہے اکبرجی۔ اب تو آپ کے راج ہی راج ہیں۔‘‘

    گھر لوٹ کر اس نے سارا پلان سلمیٰ کو سمجھا دیا تھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ وہ رات بھر رنگین۔۔۔ دیکھتا رہا۔ کبھی وہ خود کو لال بتی لگی کار میں گھومتا ہوا دیکھتا اور کبھی ایوان بالا میں اپوزیشن کو گالیاں دیتا ہوا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ایک نہ ایک دن وزارت کی کرسی بھی حاصل کر لےگا۔

    صبح سویرے وہ بیدار ہوا تو بغل کا بستر خالی تھا۔ سلمیٰ نے اس پر ایک سلپ چھوڑا تھا:

    ’’اکبر علی صاحب! آپ نے مجھے ہمیشہ زینے کی طرح استعمال کیا اور میں آپ کی ہر بات مانتی رہی۔ اپنی دنیا کو بےرنگ کرکے آپ کی دنیا رنگین بناتی رہی۔ اب تو میں ایک ایسے راستے پر ڈال دی گئی ہوں جس پر واپسی کے نشان ہوتے ہیں تو ایسی حالت میں، جب واپسی ممکن ہی نہیں، تو میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب یہی سب کرنا ہے تو پھر اپنے لئے ہی کیوں نہ کروں؟۔۔۔ زندگی بھر میری آب اتری اور آب دار آپ ہوتے گئے۔۔۔ آپ کو جو بننا تھا آپ بن چکے، اب جو بننا ہے وہ میں بنوں گی۔ چاہے چیئر مین ہو یا ایوان بالا کی ممبری ۔۔۔ آیوگ کی ممبری ہو یا وزارت کی کرسی۔۔۔ آپ کی مرضی سے بہت جی چکی، اب اپنی مرضی سے جینے کے لئے میں آپ کا یہ گھر چھوڑ رہی ہوں۔۔۔‘‘

    اس کے ہاتھ میں کاغذ کا سلپ تھرتھرانے لگا۔ اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی سرک گئی۔ خوابوں کی فلک بوس عمارت آن واحد میں زمیں بوس ہو گئی۔ اس سے قبل کہ اس کی آنکھوں میں مکمل اندھیرا چھاتا، دروازے سے آواز آئی:

    ’’پاپا! چائے ۔۔۔‘‘

    اس کی بیٹی دو کپ چائے لئے پوچھ رہی تھی:

    ’’ امی کدھر گئی ہیں پاپا۔۔۔؟‘‘

    اس سے قبل کہ وہ کوئی جواب دیتا دروازے سے ہوا کا تیز جھونکا آیا اور اس کے ہاتھوں میں تھرتھراتے کاغذ کو اڑا کر کھڑکی سے باہر لے گیا۔ اس نے گھور کر اپنی جوان بیٹی کو دیکھا اور اس کے مرجھائے ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی اور اس کی آنکھوں میں پھیلتا ہوا اندھیرا غائب ہونے لگا۔۔۔!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے