- کتاب فہرست 187666
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1973
طب919 تحریکات300 ناول4726 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی13
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1459
- دوہا60
- رزمیہ109
- شرح200
- گیت74
- غزل1185
- ہائیکو12
- حمد46
- مزاحیہ36
- انتخاب1593
- کہہ مکرنی6
- کلیات691
- ماہیہ19
- مجموعہ5076
- مرثیہ384
- مثنوی836
- مسدس58
- نعت559
- نظم1252
- دیگر73
- پہیلی16
- قصیدہ189
- قوالی18
- قطعہ62
- رباعی297
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ73
- واسوخت26
ناز قادری کے افسانے
یادوں کے دریچے
آج ساری کائنات چاندنی میں نہا رہی ہے نہیں بیوہ کی طرح سفید ساڑی میں ملبوس ہے۔ دور آسمان پر چاند سِسک رہا ہے، تارے سلگ رہے ہیں اور چاندنی دریچے سے میرے کمرے میں جھانک رہی ہے چاندنی جس کے ہونٹوں پر بیکراں اداسی ہے، جس کی آنکھوں میں غم کے سایے لہرا رہے
یہ نہ تھی ہماری قسمت
اور میری نظریں فرحتؔ پر جم سی گئی ہیں۔ یادوں کے دیے جگمگا اٹھے ہیں، ذہن کے پردے پر ماضی کی تصویریں اجاگر ہوگئی ہیں اور حال نے مجھے آج سے پانچ سال پیچھے ڈھکیل دیا ہے۔ کلاس میں پہنچتے ہی کریم کے چاروں طرف طلبا کا ہجوم دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ آج ضرور
اور زندگی مسکرانے لگی
اور اس کی نظریں مس نگار پر جم کر رہ گئیں۔ ’’ساجد! ارے او ساجد!! ذرا پروین سے کہنا سارے مہمان آمگئے۔ لیکن ڈاکٹر کا پتہ نہیں، فون پر دریافت کرے آخر کیا بات ہے؟‘‘ پرنسپل ریاض نے عینک صاف کرتے ہوئے چپراسی سے کہا اور پھر نئے مہمانوں کے استقبال کو آگے
خوشبو تیری وفا کی
آج موسم کتنا خوش گوار ہے! ابھی ابھی زوردار بارش ہوکر تھم گئی ہے۔ لیکن نیلگوں آسمان کی بے کراں وسعت میں ابھی کالی کالی گھٹائیں چھارہی ہیں۔ سبزہ وگل پر ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی ہے، فضا کیف وسرور میں ڈوبی ہوئی ہے اور ہواؤں کے نرم نرم خُنک جھونکے فرحت بخش
درد کب ٹھہرےگا!
آج تمہارا خط آیا ہے! یونیورسٹی سے آتے ہی سامنے میز پر پڑے ہوئے ہلکے نیلے رنگ کے لفافے کے پتے کی خوبصورت تحریر میں میری نظریں الجھ کر رہ گئی ہیں۔ یہ تحریر جانی پہچانی سی معلوم ہو رہی ہے۔میری نگاہیں ان پیاری پیاری تحریروں کو چومنے لگی ہیں اور تم اِن
پلکوں میں آنسو
اور آج میرا سارا سکون درہم برہم ہو گیا ہے!! درد کے تمام فاصلے سمٹ آئے ہیں۔ میرے سینے میں عجیب سی کسک چٹکیاں لے رہی ہے۔ شاید اس کے دل کا درد زہر بن کر میری روح کی گہرائیوں میں اتر رہا ہے اور میں امجد کے غم کی آگ میں سلگنے لگی ہوں۔ امجد شروع ہی سے
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
اور تصویر اس کے ہاتھوں سے گر گئی! خوبصورت فریم ٹوٹ گیا۔ شکستہ شیشے کے ٹکڑے فرش پر بکھر گئے۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے شیشے کے یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس کے دل کی گہرائیوں میں سوئیوں کی طرح چبھ رہے ہوں، ’’میں بیٹھ سکتا ہوں‘‘ اسلم مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’شوق
تشنگی کا سفر
آج کی شام کتنی خوش گوار ہے!! سارے دن کا تھکا ماندہ آفتاب مغرب کی آغوش میں جھک گیا ہے۔ اس کی سنہری کرنین روئے کائنات پر رقصاں ہیں اور سبزہ وگل کو چوم رہی ہیں۔ فضا کیف برسارہی ہے، ہواؤں کے نرم نرم خوش گوار جھونکے فرحت بخش رہے ہیں۔ میں یونیورسٹی کے خوبصورت
آوارہ سایے
دن بھر کا تھکا ماندہ بوڑھا آفتاب مغرب کی آغوش میں چھپ گیا ہے۔ اس کی سنہری دھوپ شام کے قرمزی رنگ میں مدغم ہو گئی ہے اور پھر سرمئی شام کے سایے گھنے ہو گئے ہیں اور آسمان پر تارے جگمگانے لگے ہیں۔ نیم تاریک گلی میں چند آوارہ سایے منڈلا رہے ہیں۔ وہ دہلیز
join rekhta family!
-
ادب اطفال1973
-