Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اور زندگی مسکرانے لگی

ناز قادری

اور زندگی مسکرانے لگی

ناز قادری

MORE BYناز قادری

    اور اس کی نظریں مس نگار پر جم کر رہ گئیں۔

    ’’ساجد! ارے او ساجد!! ذرا پروین سے کہنا سارے مہمان آمگئے۔ لیکن ڈاکٹر کا پتہ نہیں، فون پر دریافت کرے آخر کیا بات ہے؟‘‘

    پرنسپل ریاض نے عینک صاف کرتے ہوئے چپراسی سے کہا اور پھر نئے مہمانوں کے استقبال کو آگے بڑھ گئے۔

    آج گورنمنٹ کالج کا احاطہ خوش پوش مہمانوں سے جگمگا رہا تھا۔ پرنسپل ریاض کی اکلوتی لڑکی پروین کی پندرہویں سالگرہ کی تقریب میں کوٹھی بقعۂ نور بنی ہوئی تھی۔ جیپ، کار اور موٹرسائیکلیں ایک تانتا بندھا ہوا تھا۔ حکام، رؤسا اور شہر کے معززین تقریب کو چار چاند لگا رہے تھے۔

    زنان خانہ میں خواتین کے استقبال کو نوشابہ، شاہینہ، شیریں، نسرین اور کملا اور پروین کی دوسری سہیلیاں پیش پیش تھیں۔ لیکن ڈاکٹر کا پتہ نہ تھا۔ ڈاکٹر جو پروین کو بہت چاہتا تھا۔ اس تقریب میں اتنی دیر باہر رہے، تعجب خیز بات تھی۔

    نسرین نے گرلس اسکول سے آئی ہوئی استانیوں کو اپنے ہاتھوں سے شربت کے گلاس پیش کیے۔ جشن سالگرہ کی تقریب میں چند ہی منٹ باقی رہ گئے تھے کہ ڈاکٹر پرویز کی کار احاطہ میں داخل ہوئی اور پرویز مسکراہٹ کے پھول بکھیرتا ہوا مہمانوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنی تاخیر کی معذرت چاہتا رہا۔

    تقریب شروع ہو گئی اور جب گانے کا پروگرام آیا تو پروین نے اعلان کیا کہ اس کے اسکول کی ہیڈ مسٹریس مس نگار طالبات کے اصرار پر غزل کے چند اشعار سنانے کو تیار ہو گئی ہیں۔

    تالیوں کی گونج میں مس نگار نے پیانو پر ضرب لگائی۔

    ڈاکٹر کے لب پھڑپھڑائے۔

    ’’مس نگار! ہیڈ مسٹریس!!‘‘

    اور اس کی نظریں مس نگار پر جم کر رہ گئیں۔

    یادوں کے دیے جگمگا اٹھے۔ ذہن کے پردے پر ماضی کی حسین تصویریں اجاگر ہونے لگیں۔ ماضی نے پکارا اور حال نے اسے آج سے سات سال پیچھے دھکیل دیا۔

    ’’مسٹر پرویز! کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں؟‘‘

    سائنس کالج کے دار التجربہ میں پہلی بار مس نگار نے پرویز کو مخاطب کیا تھا۔ اس کی مخروطی انگلیوں کے درمیان ٹِسٹ ٹیوب استفہامیہ انداز میں مرتعش تھی۔ پرویز کے وہم وخیال میں بھی نہ تھا کہ نگار جیسی خود دار اور غیور لڑکی کو اِس کی مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے!

    ’’کہیے؟ کیا بات ہے ؟‘‘

    پرویز نے اپنی پلکوں کی نوک سے ملکوتی حسن کو کریدا۔

    ’’سالٹ ٹسٹ کرنا ہے اور یہ مجھ سے ہو نہیں رہا ہے۔ بات ہی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔‘‘

    اور وہ مسکرا پڑی۔

    کیوپڈ نے اپنا ترکش خالی کر دیا۔ وینس اور قلو پطرہ شرما گئیں۔ ہیر رانجھا کی یاد تازہ ہو گئی۔

    دن بیتتے رہے، وقت کا پہیہ چکر لگاتا رہا۔

    پرویز نگار سے قریب ہوتا گیا۔ خیالات کے شیش محل تعمیر ہوتے رہے۔ آئے دن کی ملاقاتیں محبت کا روپ دھارتی گئیں، محبت کا جذبہ بڑھتا گیا۔ نگار کی مستی بھری آنکھوں نے پیمانہ کا کام کیا اور وہ شرابِ محبت پیتا رہا۔ پیتا رہا اور بہکتا رہا، مخمور و بیخود ہوتا رہا۔ مستقبل سے بےنیاز، انجام سے بےخبر!

    کتنے حسین لمحات آئے اور بیت گئے۔ پرویز نے بارہا اظہارِ محبت کرنا چاہا۔ لیکن حرفِ مُدّعا زبان پر نہ آ سکا۔ حسن وعشق کے درمیان جھجک کا پردہ حائل رہا۔ آس اور یاس میں آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ اگر نگار نے انکار کر دیا تو؟ تو پھر وہ کہیں کا نہ رہےگا، وہ لٹ جائےگا۔ اس کی دنیا تباہ و برباد ہو جائےگی!

    اور وہ اس سے آگے نہ سوچ پاتا۔ انسان ایک خاص حد تک جذبۂ محبت برداشت کر سکتا ہے، اس سے آگے نہیں۔ شعلۂ محبت کبھی نہ کبھی ضرور بھڑک اٹھتا ہے۔ پرویز کے ضبط کی ڈور بھی ڈھیلی پڑ گئی۔

    سالانہ امتحان کے پرچہ کا آخری دن تھا۔ اس کے بعد طویل مدت کے لیے کالج بند ہو رہا تھا۔ امتحان گاہ سے نکلتے ہوئے پرویز نے نگار کو سب کچھ بتادیا۔ محبت کی بھیک مانگی۔ اپنی زندگی کے لیے اس کی محبت کا قرض مانگا۔ لیکن نگار نے کچھ جواب نہ دیا۔ سنتی رہی اور چلتی رہی چلتی رہی اور سنتی رہی۔ آخر اس سے نہ رہا گیا اور اس نے صاف کہہ دیا۔

    ’’پرویز! مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ تم نے مجھے غلط سمجھا۔ میں تمہیں پسند کرتی ہوں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم سے محبت بھی کرتی ہوں۔ پرویز! تم انجانے میں بہت دور نکل آئے ہو۔ لوٹ جاؤ پیچھے کی طرف۔ سمجھ لینا ہم ملے ہی نہیں۔ میں مجبور ہوں پرویز! میں نے اپنا جیون ساتھی چن لیا ہے۔ مجھے ان سے محبت ہے، عشق ہے۔ ہم ایک دوسرے کے بغیر جی نہیں سکتے پرویز! اشرف کو تم جانتے ہوگے۔ وہی اشرف جس کا باپ جج ہے، جس کی اپنی شاندار کوٹھی ہے۔ چمکتی ہوئی کار اور زندگی کی ہر حسین شے موجود ہے۔ لیکن پرویز! مجھے اشرف کی کوئی چیز نہیں چاہیے۔ مجھے اشرف چاہیے، صرف اشرف!‘‘

    ’’پرویز! میں نے تمہیں اپنا بہترین دوست جانا ہے اور بس میری زندگی اشرف کے لیے ہے پرویز! تم اسے خدا را مجھ سے مت چھینو۔ اشرف کو معلوم ہوا کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میں کہیں کی نہ رہوں گی۔ للہتم ہماری محبت سے نہ کھیلو۔ ایک اچھے اور پرخلوص دوست کا فرض ادا کرو پرویز اور میری زندگی برباد نہ کرو۔‘‘

    پرویز کے ذہن کے سارے تار جھنجھنا اٹھے۔

    رقص و سرود کی محفل شباب پر تھی۔ ہر شخص مست وبیخود تھا۔ لیکن ڈاکٹر کا ذہن ماضی کے کھنڈر میں بھٹکتے بھٹکتے تھک چکا تھا۔ اس نے انگڑائی لی، سگریٹ کا کش لگایا اور محفل پر طائرانہ نظر ڈالی۔ پروین، نوشابہ، شاہینہ اور دوسری لڑکیوں کے قریب مس نگار بیٹھی محفل سے دلچسپی لے رہی تھیں۔ لیکن اُ س نے محسوس کیا نگار کے چہرے پر پہلی سی تازگی و شگفتگی نہیں ہے زندگی کی رمق سے خالی آنکھیں۔ نگار کو دیکھ کر اس کا ماضی جاگ گیا۔ اس کی محبت کی سوکھی ٹہنیوں میں کونپلیں پھوٹ پڑیں۔ اس خوف سے ڈاکٹر آہستہ سے اٹھا اور اپنے کمرے میں جاکر آرام کرسی پر نیم دراز ہو گیا۔

    تخیلات کی دیوی نے اس کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ وہ پھر ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو گیا۔ نگار کے انکار محبت پر وہ کچھ نہ بول سکا تھا۔ جاتے جاتے اس نے کہا تھا:

    ’’کوئی ضرورت آ پڑے تو مجھے یاد کر لینا نگار!! اچھے دوست کی حیثیت سے تمہارے لیے میری زندگی کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہےگا!‘‘

    اور وہ تیزی سے چلا گیا۔

    اس دن سے اس کا دل اچاٹ رہنے لگا۔ دنیا کی کوئی چیز اسے اچھی نہ معلوم ہوتی۔ اسے پہلی بار دولت کی ضرورت کا احساس ہوا۔ ایک حسین عورت کے لیے دولت، عزت، موٹر اور آسائش کے تمام لوازمات کا ہونا لازمی ہے۔

    ’سچ مچ محبت ایک دھوکا ہے، فریب ہے؛ پرویز سوچنے لگا ’نہیں‘ نہیں!! ایسی بات نہیں ہے۔ محبت آزاد ہے اور زندگی سے زیادہ عزیز وپرمسرت ہے؛

    اشرف جس نے ہمیشہ دوسروں کی محبت کا مذاق اڑایا، خود کیسے محبت میں مبتلا ہو گیا تھا۔ اس نے اکثر محبت کو حسین فریب، حسین دھوکا کہا۔ ہوس پرستی کا دوسرا نام محبت رکھا۔

    پرویز کو دولت کی ضرورت تھی جس کے سہارے وہ نگار جیسی لڑکی پا سکے۔ سماجی عزت درکار تھی، جس کے پیچھے حوا کی مغرور بیٹیاں سایے کی طرح لگی رہیں۔

    پرویز نے جان توڑ محنت کی۔ پڑھتا رہا، محنت کرتا رہا اور بالآخر یونیورسٹی میں اول آیا۔ ایم۔ بی۔ بی۔ ایس۔ کا امتحان پاس کیا اور اب دوسال سے صدر ہسپتال میں اونچے درجہ پر فائز تھا۔

    آج اُس کے پاس دولت ہے، عزت ہے، زندگی کی ہرمسرت موجود ہے۔ لیکن وہ دل جس پر نگار کا نقشہ جم چکا تھا، آج تک بےنور ہے!

    ’’چھوٹے ابا! آپ یہاں ہیں۔ کیوں؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘

    پرویز کی آنکھیں کھل گئیں۔ سامنے پروین کھڑی دریافت کر رہی تھی۔

    ’’ہاں بیٹا! طبیعت کچھ سست ہو گئی ہے۔ آج ہسپتال میں ایک بہت ہی خطرناک کیس آ گیا تھا۔ تھک گیا ہوں۔ خیر چھوڑو ان باتوں کو۔ یہ بتاؤ کہ کیا سب مہمان جا چکے؟‘‘

    ’’کچھ تو چلے گئے، باقی لوگ اب جا رہے ہیں۔ ذرا اپنی گاڑی دیجیے کہ استانیوں کو اسکول پہنچا دوں۔‘‘

    ’’تو کیا سب ہی چلے جائیں گے؟‘‘ پرویز گھبرایا ہوا بول پڑا ’’ارے ہاں! میں یہ دریافت کرنا ہی بھول گیا کہ مس نگار تمہارے اسکول میں کب سے ہیں؟ گاتی تو بہت اچھا ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے میں نے انہیں کہیں دیکھا ہے۔‘‘

    ’’دیکھا ہوگا۔ یہ ہمارے اسکول میں امسال آئی ہیں۔ بہت مخلص اور ملنسار ہیں۔ کملا کہہ رہی تھی کسی اشرف نام کے ’’شریف‘‘ انسان نے اِنھیں دھوکا دیا ہے، ان کی زندگی سے مذاق کیا ہے۔ ساری زندگی ساتھ دینے کا وعدہ کرکے اس دغاباز نے کہیں اور شادی رچا لی اور جب انھیں یہ خبر ملی تو کچھ نہ کر پائیں۔ تین سال ہو گئے کہ اشرف سے ملاقات بھی نہ ہو سکی ہے۔‘‘

    ’’بس کرو، پروین!‘‘ پرویز سے آگے نہ سنا گیا اور وہ مغموم نڈھال قدم اٹھاتا ہوا باہر آ گیا۔ راہ داری میں نگار سے ملاقات ہو گئی۔ دونوں اپنی اپنی جگہ مبہوت کھڑے رہے۔ نگار کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو!

    پھر وہ یکایک بول اٹھی۔

    ’’پرویز! تم یہاں؟‘‘

    ’’ہاں نگار! میں یہیں ہوں اور زندہ ہوں۔ پروین میری بھتیجی ہے کیوں یہ بنگلہ تمہیں اچھا نہیں معلوم ہوتا کیا؟ تم بھاگنے کو کیوں بیتاب ہورہی ہو؟ کوئی کِسی کو زبردستی نہیں روک سکتا نگار !‘‘

    ڈاکٹر نے نظریں نیچی کیے نگار سے کہا۔

    ’’مجھے معاف کر دو پرویز ! میں نے تمہاری محبت کو ٹھکرایا، تمہارے پیار کی قدر نہیں کی۔ میں نے اشرف پر بھروسہ کیا۔ لیکن ‘‘

    ’’بس بس رہنے دو۔مجھے سب کچھ معلوم ہے۔ پروین نے ساری باتیں بتادی ہیں۔ اشرف کی فطرت سے میں پہلے ہی واقف تھا۔ لیکن تمہارے جذبات کو ٹھیس لگنے کے خیال نے اظہار حقیقت سے معذور رکھا تم محبت میں اندھی ہو رہی تھی۔ میری باتوں پر تمہیں یقین نہ ہوتا اور تمہارا دل اسے قبول نہ کرتا۔ اس لیے میں نے خاموشی اختیار کی اور ارے تم رو رہی ہو، تم رو رہی ہو نگار!! ایسا نہ کرو، خدا کے لیے نگار ایسا نہ کرو، ورنہ نگار میری زندگی کا دروازہ تمہارے لیے ہمیشہ کھلا رہےگا! میں تمہیں آج بھی اسی طرح چاہتا ہوں، جتنا پہلے چاہتا تھا۔ میری زندگی تمہارے بغیر ویران اور تاریک ہے نگار!! تم چاہو تو اِسے منور کر سکتی ہو۔ زندگی کی سُوکھی ٹہنیوں میں برگ وبار آ سکتے ہیں اور ‘‘

    ’’پرویز پرویز!!‘‘

    جذبات کی شدت سے نگار اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکی اور پرویز کے سینے سے لگ گئی۔ پرویز نے اسے سہارا دیا۔ طوفان تھم جانے کے بعد دونوں کے لبوں پر مسکراہٹ کی کلیاں پھول بننے لگیں، حسن گنگنانے لگا اور زندگی مسکرانے لگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے