Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shah Naseer's Photo'

شاہ نصیر

1756 - 1838 | دلی, انڈیا

اٹھارہویں صدی کے ممتاز ترین شاعروں میں نمایاں

اٹھارہویں صدی کے ممتاز ترین شاعروں میں نمایاں

شاہ نصیر کے اشعار

2.5K
Favorite

باعتبار

خیال زلف دوتا میں نصیرؔ پیٹا کر

گیا ہے سانپ نکل تو لکیر پیٹا کر

گلے میں تو نے وہاں موتیوں کا پہنا ہار

یہاں پہ اشک مسلسل گلے کا ہار رہا

ہم ہیں اور مجنوں ازل سے خانہ پرورد جنوں

اس نے کی صحرا نوردی ہم نے گلیاں دیکھیاں

غزل اس بحر میں کیا تم نے لکھی ہے یہ نصیرؔ

جس سے ہے رنگ گل معنیٔ مشکل ٹپکا

یہ داغ نہیں تن پر میں دیکھنے کو تیرے

اے رنگ گل خوبی آنکھیں ہوں لگا لایا

ہم دکھائیں گے تماشہ تجھ کو پھر سرو چمن

دل سے گر سرزد ہمارے نالۂ موزوں ہوا

آمد و شد کوچے میں ہم اس کے کیوں نہ کریں مانند نفس

زندگی اپنی جانتے ہیں اس واسطے آتے جاتے ہیں

گردش چرخ نہیں کم بھی ہنڈولے سے کہ مہر

شام کو ماہ سے اونچا ہے سحر ہے نیچا

نہیں ہے فرصت اک دم پہ آہ اس کو نظر

حباب دیکھے ہے آنکھیں نکال کے کیسا

یہ ابر ہے یا فیل سیہ مست ہے ساقی

بجلی کے جو ہے پاؤں میں زنجیر ہوا پر

چمن میں غنچہ منہ کھولے ہے جب کچھ دل کی کہنے کو

نسیم صبح بھر رکھتی ہے باتوں میں لگا لپٹا

پستاں کو تیرے دیکھ کے مٹ جائے پھر حباب

دریا میں تا بہ سینہ اگر تو نہائے صبح

بجائے آب مے نرگسی پلا مجھ کو

غذا کچھ اور نہ بادام کے سوا ٹھہرا

مے کشی کا ہے یہ شوق اس کو کہ آئینے میں

کان کے جھمکے کو انگور کا خوشا سمجھا

جب کہ لے زلف تری مصحف رخ کا بوسہ

پھر یہاں فرق ہو ہندو و مسلمان میں کیا

جوں موج ہاتھ ماریے کیا بحر عشق میں

ساحل نصیرؔ دور ہے اور دم نہیں رہا

وقت نماز ہے ان کا قامت گاہ خدنگ و گاہ کماں

بن جاتے ہیں اہل عبادت گاہ خدنگ و گاہ کماں

برقعہ کو الٹ مجھ سے جو کرتا ہے وہ باتیں

اب میں ہمہ تن گوش بنوں یا ہمہ تن چشم

نصیرؔ اس زلف کی یہ کج ادائی کوئی جاتی ہے

مثل مشہور ہے رسی جلی لیکن نہ بل نکلا

ہم وہ فلک ہیں اہل توکل کہ مثل ماہ

رکھتے نہیں ہیں نان شبینہ برائے صبح

دود آہ جگری کام نہ آیا یارو

ورنہ روئے شب ہجر اور بھی کالا کرتا

یہ چرخ نیلگوں اک خانۂ پر دود ہے یارو

نہ پوچھو ماجرا کچھ چشم سے آنسو بہانے کا

کیوں مے کے پینے سے کروں انکار ناصحا

زاہد نہیں ولی نہیں کچھ پارسا نہیں

ہوا پر ہے یہ بنیاد مسافر خانۂ ہستی

نہ ٹھہرا ہے کوئی یاں اے دل محزوں نہ ٹھہرے گا

اے خال رخ یار تجھے ٹھیک بناتا

جا چھوڑ دیا حافظ قرآن سمجھ کر

جا بجا دشت میں خیمے ہیں بگولے کے کھڑے

عرس مجنوں کی ہے دھوم آج بیابان میں کیا

کوئی یہ شیخ سے پوچھے کہ بند کر آنکھیں

مراقبے میں بتا صبح و شام کیا دیکھا

دیکھ تو یار بادہ کش میں نے بھی کام کیا کیا

دے کے کباب دل تجھے حق نمک ادا کیا

دلا اس کی کاکل سے رکھ جمع خاطر

پریشاں سے حاصل کب اک دام ہوگا

تار مژگاں پہ رواں یوں ہے مرا طفل سرشک

نٹ رسن پر چلے ہے جیسے کوئی رکھ کر پاؤں

عشق ہی دونوں طرف جلوۂ دلدار ہوا

ورنہ اس ہیر کا رانجھے کو رجھانا کیا تھا

خیال ناف بتاں سے ہو کیوں کہ دل جاں بر

نکلتے کوئی بھنور سے نہ ڈوبتا دیکھا

تو تو اک پرچہ بھی واں سے نامہ بر لایا نہ آہ

زندگی کیوں کر ہو گر ہم دل کو پر جاویں نہیں

کی ہے استاد ازل نے یہ رباعی موزوں

چار عنصر کے سوا اور ہے انسان میں کیا

اسی مضمون سے معلوم اس کی سرد مہری ہے

مجھے نامہ جو اس نے کاغذ کشمیر پر لکھا

ملا کی دوڑ جیسے ہے مسجد تلک نصیرؔ

ہے مست کی بھی خانۂ خمار تک پہنچ

خدا گواہ ہے میں شغل بت پرستی میں

سوائے عشق کسی کام سے نہیں واقف

دیکھو گے کہ میں کیسا پھر شور مچاتا ہوں

تم اب کے نمک میرے زخموں پہ چھڑک دیکھو

متاع دل بہت ارزاں ہے کیوں نہیں لیتے

کہ ایک بوسے پہ سودا ہے اب تو آ ٹھہرا

پوچھنے والوں کو کیا کہیے کہ دھوکے میں نہیں

کفر و اسلام حقیقت میں ہیں یکساں ہم کو

سپر رکھتا ہوں میں بھی آفتابی ساغر مے کی

مجھے اے ابر تیغ برق کو چمکا کے مت دھمکا

شراب لاؤ کباب لاؤ ہمارے دل کو نہ اب گھٹاؤ

شروع دود قدح ہو جلدی کہ سر پہ ابر بہار آیا

بوسۂ خال لب جاناں کی کیفیت نہ پوچھ

نشۂ مے سے زیادہ نشۂ افیوں ہوا

بنا کر من کو منکا اور رگ تن کے تئیں رشتہ

اٹھا کر سنگ سے پھر ہم نے چکناچور کی تسبیح

نہ ہاتھ رکھ مرے سینے پہ دل نہیں اس میں

رکھا ہے آتش سوزاں کو داب کے گھر میں

مشکل ہے روک آہ دل داغ دار کی

کہتے ہیں سو سنار کی اور اک لہار کی

سب پہ روشن ہے کہ راہ عشق میں مانند شمع

پاؤں پر سے ہم نے قرباں رفتہ رفتہ سر کیا

دن رات یہاں پتلیوں کا ناچ رہے ہے

حیرت ہے کہ تو محو تماشا نہیں ہوتا

غرض نہ فرقت میں کفر سے تھی نہ کام اسلام سے رہا تھا

خیال زلف بتاں ہی ہر دم ہمیں تو لیل و نہار آیا

کعبے سے غرض اس کو نہ بت خانے سے مطلب

عاشق جو ترا ہے نہ ادھر کا نہ ادھر کا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے