زلف شاعری
شاعری میں زلف کا موضوع بہت دراز رہا ہے ۔ کلاسیکی شاعری میں تو زلف کے موضوع کے تئیں شاعروں نے بے پناہ دلچسپی دکھائی ہے یہ زلف کہیں رات کی طوالت کا بیانیہ ہے تو کہیں اس کی تاریکی کا ۔اور اسے ایسی ایسی نادر تشبہیوں ، استعاروں اور علامتوں کے ذریعے سے برتا گیا ہے کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے ۔ شاعری کا یہ حصہ بھی شعرا کے بے پناہ تخیل کی عمدہ مثال ہے ۔
پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
whether me or you, or miir it may be
are prisoners of her tresses for eternity
-
موضوع : مشہور اشعار
کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی
-
موضوعات : پانیاور 1 مزید
اپنے سر اک بلا تو لینی تھی
میں نے وہ زلف اپنے سر لی ہے
جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے
تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے
When my beloved raised her arms to gather up her tresses
A million desires gathered in my heart and got tied up in a tangle.
یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ
کچھ بکھری ہوئی یادوں کے قصے بھی بہت تھے
کچھ اس نے بھی بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
-
موضوع : دنیا
چھیڑتی ہیں کبھی لب کو کبھی رخساروں کو
تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے
نہ جھٹکو زلف سے پانی یہ موتی ٹوٹ جائیں گے
تمہارا کچھ نہ بگڑے گا مگر دل ٹوٹ جائیں گے
-
موضوعات : دلاور 2 مزید
زلفیں سینہ ناف کمر
ایک ندی میں کتنے بھنور
-
موضوع : کمر
اجازت ہو تو میں تصدیق کر لوں تیری زلفوں سے
سنا ہے زندگی اک خوبصورت دام ہے ساقی
دیکھی تھی ایک رات تری زلف خواب میں
پھر جب تلک جیا میں پریشان ہی رہا
اے جنوں پھر مرے سر پر وہی شامت آئی
پھر پھنسا زلفوں میں دل پھر وہی آفت آئی
-
موضوعات : دلاور 1 مزید
بکھری ہوئی وہ زلف اشاروں میں کہہ گئی
میں بھی شریک ہوں ترے حال تباہ میں
آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت
بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجئے
-
موضوع : نزاکت
ہاتھ ٹوٹیں میں نے گر چھیڑی ہوں زلفیں آپ کی
آپ کے سر کی قسم باد صبا تھی میں نہ تھا
دیکھ لیتے جو مرے دل کی پریشانی کو
آپ بیٹھے ہوئے زلفیں نہ سنوارا کرتے
ابر میں چاند گر نہ دیکھا ہو
رخ پہ زلفوں کو ڈال کر دیکھو
یہ کھلے کھلے سے گیسو انہیں لاکھ تو سنوارے
مرے ہاتھ سے سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی
سرک کر آ گئیں زلفیں جو ان مخمور آنکھوں تک
میں یہ سمجھا کہ مے خانے پہ بدلی چھائی جاتی ہے
زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا
the priest has seen my piety, he hasn't seen your grace
he has not seen your tresses strewn across your face
صبح دم زلفیں نہ یوں بکھرائیے
لوگ دھوکا کھا رہے ہیں شام کا
سب کے جیسی نہ بنا زلف کہ ہم سادہ نگاہ
تیرے دھوکے میں کسی اور کے شانے لگ جائیں
کبھی کھولے تو کبھی زلف کو بکھرائے ہے
زندگی شام ہے اور شام ڈھلی جائے ہے
-
موضوع : زندگی
الجھا ہے پانوں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
میرے جنوں کو زلف کے سائے سے دور رکھ
رستے میں چھاؤں پا کے مسافر ٹھہر نہ جائے
جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
بال اپنے اس پری رو نے سنوارے رات بھر
سانپ لوٹے سیکڑوں دل پر ہمارے رات بھر
شکر ہے باندھ لیا اپنے کھلے بالوں کو
اس نے شیرازۂ عالم کو بکھرنے نہ دیا
ذرا ان کی شوخی تو دیکھنا لیے زلف خم شدہ ہاتھ میں
میرے پاس آئے دبے دبے مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا
کئی چاند تھے سر آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
-
موضوع : چاند
کسی کے ہو رہو اچھی نہیں یہ آزادی
کسی کی زلف سے لازم ہے سلسلہ دل کا
تصور زلف کا ہے اور میں ہوں
بلا کا سامنا ہے اور میں ہوں
منہ پر نقاب زرد ہر اک زلف پر گلال
ہولی کی شام ہی تو سحر ہے بسنت کی
زلفوں میں کیا قید نہ ابرو سے کیا قتل
تو نے تو کوئی بات نہ مانی مرے دل کی
رخ روشن پہ اس کی گیسوئے شب گوں لٹکتے ہیں
قیامت ہے مسافر راستہ دن کو بھٹکتے ہیں
اللہ رے تیرے سلسلۂ زلف کی کشش
جاتا ہے جی ادھر ہی کھنچا کائنات کا
برسات کا مزا ترے گیسو دکھا گئے
عکس آسمان پر جو پڑا ابر چھا گئے
-
موضوع : ابر شاعری
ان کے گیسو سنورتے جاتے ہیں
حادثے ہیں گزرتے جاتے ہیں
اس کے رخسار پر کہاں ہے زلف
شعلۂ حسن کا دھواں ہے زلف
اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
حاتمؔ اس زلف کی طرف مت دیکھ
جان کر کیوں بلا میں پھنستا ہے
دنیا کی روش دیکھی تری زلف دوتا میں
بنتی ہے یہ مشکل سے بگڑتی ہے ذرا میں
وہ نہا کر زلف پیچاں کو جو بکھرانے لگے
حسن کے دریا میں پنہاں سانپ لہرانے لگے
اگر دیکھے تمہاری زلف لے ڈس
الٹ جاوے کلیجا ناگنی کا
تری جو زلف کا آیا خیال آنکھوں میں
وہیں کھٹکنے لگا بال بال آنکھوں میں