Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sheen Kaaf Nizam's Photo'

شین کاف نظام

1947

ممتاز ما بعد جدید شاعر، ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

ممتاز ما بعد جدید شاعر، ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

شین کاف نظام کے اشعار

2.8K
Favorite

باعتبار

خاموش تم تھے اور مرے ہونٹھ بھی تھے بند

پھر اتنی دیر کون تھا جو بولتا رہا

خاموش تم تھے اور مرے ہونٹ بھی تھے بند

پھر اتنی دیر کون تھا جو بولتا رہا

اداسی اکیلے میں ڈر جائے گی

گھڑی دو گھڑی کو خوشی بھیج دے

ذرا سی بات تھی تیرا بچھڑنا

ذرا سی بات سے کیا کچھ ہوا ہے

جن سے اندھیری راتوں میں جل جاتے تھے دیے

کتنے حسین لوگ تھے کیا جانے کیا ہوئے

اونچی عمارتیں تو بڑی شاندار ہیں

لیکن یہاں تو رین بسیرے تھے کیا ہوئے

دوستی عشق اور وفاداری

سخت جاں میں بھی نرم گوشے ہیں

اپنے افسانے کی شہرت اسے منظور نہ تھی

اس نے کردار بدل کر مرا قصہ لکھا

سن لیا ہوگا ہواؤں میں بکھر جاتا ہے

اس لئے بچے نے کاغذ پہ گھروندا لکھا

ظلم تو بے زبان ہے لیکن

زخم کو تو زبان کب دے گا

کہاں جاتی ہیں بارش کی دعائیں

شجر پر ایک بھی پتہ نہیں ہے

کسی کے ساتھ اب سایہ نہیں ہے

کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے

ساحلوں کی شفیق آنکھوں میں

دھوپ کپڑے اتار کر چمکے

ایک آسیب ہے ہر اک گھر میں

ایک ہی چہرہ در بدر چمکے

منظر کو کسی طرح بدلنے کی دعا دے

دے رات کی ٹھنڈک کو پگھلنے کی دعا دے

بدلتی رت کا نوحہ سن رہا ہے

ندی سوئی ہے جنگل جاگتا ہے

کوئی دعا کبھی تو ہماری قبول کر

ورنہ کہیں گے لوگ دعا سے اثر گیا

چبھن یہ پیٹھ میں کیسی ہے مڑ کے دیکھ تو لے

کہیں کوئی تجھے پیچھے سے دیکھتا ہوگا

گلی کے موڑ سے گھر تک اندھیرا کیوں ہے نظامؔ

چراغ یاد کا اس نے بجھا دیا ہوگا

پتیاں ہو گئیں ہری دیکھو

خود سے باہر بھی تو کبھی دیکھو

یاد اور یاد کو بھلانے میں

عمر کی فصل کٹ گئی دیکھو

برسوں سے گھومتا ہے اسی طرح رات دن

لیکن زمین ملتی نہیں آسمان کو

وحشت تو سنگ و خشت کی ترتیب لے گئی

اب فکر یہ ہے دشت کی وسعت بھی لے نہ جائے

تو اکیلا ہے بند ہے کمرا

اب تو چہرا اتار کر رکھ دے

آرزو تھی ایک دن تجھ سے ملوں

مل گیا تو سوچتا ہوں کیا کروں

بیچ کا بڑھتا ہوا ہر فاصلہ لے جائے گا

ایک طوفاں آئے گا سب کچھ بہا لے جائے گا

نکلے کبھی نہ گھر سے مگر اس کے باوجود

اپنی تمام عمر سفر میں گزر گئی

آنکھیں کہیں دماغ کہیں دست و پا کہیں

رستوں کی بھیڑ بھاڑ میں دنیا بکھر گئی

دروازہ کوئی گھر سے نکلنے کے لئے دے

بے خوف کوئی راستہ چلنے کے لیے دے

یادوں کی رت کے آتے ہی سب ہو گئے ہرے

ہم تو سمجھ رہے تھے سبھی زخم بھر گئے

اپنی پہچان بھیڑ میں کھو کر

خود کو کمروں میں ڈھونڈتے ہیں لوگ

دھول اڑتی ہے دھوپ بیٹھی ہے

اوس نے آنسوؤں کا گھر چھوڑا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے