Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shuja Khaavar's Photo'

شجاع خاور

1948 - 2012 | دلی, انڈیا

-سابق آئی پی ایس آفیسر جنھوں نے اپنی نوکری بیچ میں ہی چھوڑ دی تھی

-سابق آئی پی ایس آفیسر جنھوں نے اپنی نوکری بیچ میں ہی چھوڑ دی تھی

شجاع خاور کے اشعار

8K
Favorite

باعتبار

سب کا ہی نام لیتے ہیں اک تجھ کو چھوڑ کر

خاصا شعور ہے ہمیں وحشت کے باوجود

دل میں نفرت ہو تو چہرے پہ بھی لے آتا ہوں

بس اسی بات سے دشمن مجھے پہچان گئے

تنہائی کا اک اور مزہ لوٹ رہا ہوں

مہمان مرے گھر میں بہت آئے ہوئے ہیں

آپ ادھر آئے ادھر دین اور ایمان گئے

عید کا چاند نظر آیا تو رمضان گئے

شجاعؔ وہ خیریت پوچھیں تو حیرت میں نہ پڑ جانا

پریشاں کرنے والے خیر خواہوں میں بھی ہوتے ہیں

اوروں سے پوچھئے تو حقیقت پتہ چلے

تنہائی میں تو ذات کا عرفان ہو چکا

ساتوں عالم سر کرنے کے بعد اک دن کی چھٹی لے کر

گھر میں چڑیوں کے گانے پر بچوں کی حیرانی دیکھو

اسی پر خوش ہیں کہ اک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں

ابھی تنہائی کا مطلب نہیں سمجھے ہیں گھر والے

رند کھڑے ہیں منبر منبر

اور واعظ نے پی رکھی ہے

وصل ہوا پر دل میں تمنا

جیسی تھی ویسی رکھی ہے

جیسا منظر ملے گوارا کر

تبصرے چھوڑ دے نظارا کر

ہزار رنگ میں ممکن ہے درد کا اظہار

ترے فراق میں مرنا ہی کیا ضروری ہے

شجاعؔ موت سے پہلے ضرور جی لینا

یہ کام بھول نہ جانا بڑا ضروری ہے

قلم میں زور جتنا ہے جدائی کی بدولت ہے

ملن کے بعد لکھنے والے لکھنا چھوڑ دیتے ہیں

یہ دنیا داری اور عرفان کا دعویٰ شجاعؔ خاور

میاں عرفان ہو جائے تو دنیا چھوڑ دیتے ہیں

جو زندہ ہو اسے تو مار دیتے ہیں جہاں والے

جو مرنا چاہتا ہو اس کو زندہ چھوڑ دیتے ہیں

دل کی باتیں دوسروں سے مت کہو لٹ جاؤ گے

آج کل اظہار کے دھندھے میں ہے گھاٹا بہت

تنگئ ہیئت سے ٹکراتا ہوا جوش مواد

شاعری کا لطف آ جاتا ہے چھوٹی بحر میں

سبھی زندگی پہ فریفتہ کوئی موت پر نہیں شیفتہ

سبھی سود خور تو ہو گئے ہیں کوئی پٹھان نہیں رہا

مرے حالات کو بس یوں سمجھ لو

پرندے پر شجر رکھا ہوا ہے

دو چار نہیں سینکڑوں شعر اس پہ کہے ہیں

اس پر بھی وہ سمجھے نہ تو قدموں پہ جھکیں کیا

اس کو نہ خیال آئے تو ہم منہ سے کہیں کیا

وہ بھی تو ملے ہم سے ہمیں اس سے ملیں کیا

گھر میں بے چینی ہو تو اگلے سفر کی سوچنا

پھر سفر ناکام ہو جائے تو گھر کی سوچنا

زندگی بھر زندہ رہنے کی یہی ترکیب ہے

اس طرف جانا نہیں بالکل جدھر کی سوچنا

درد جائے گا تو کچھ کچھ جائے گا پر دیکھنا

چین جب جائے گا تو سارا کا سارا جائے گا

کچھ نہیں بولا تو مر جائے گا اندر سے شجاعؔ

اور اگر بولا تو پھر باہر سے مارا جائے گا

جن کو قدرت ہے تخیل پر انہیں دکھتا نہیں

جن کی آنکھیں ٹھیک ہیں ان کو تخیل چاہئے

سردی بھی ختم ہو گئی برسات بھی گئی

اور اس کے ساتھ گرمئ جذبات بھی گئی

ہم صوفیوں کا دونوں طرف سے زیاں ہوا

عرفان ذات بھی نہ ہوا رات بھی گئی

کرم ہے مجھ پہ کسی اور کے جلانے کو

وہ شخص مجھ پہ کوئی مہربان تھوڑی ہے

اس کے بیان سے ہوئے ہر دل عزیز ہم

غم کو سمجھ رہے تھے چھپانے کی چیز ہم

چارہ گری کی بات کسی اور سے کرو

اب ہو گئے ہیں یارو پرانے مریض ہم

بے آرزو بھی خوش ہیں زمانے میں بعض لوگ

یاں آرزو کے ساتھ بھی جینا حرام ہے

اس بے وفا کا شہر ہے اور وقت شام ہے

ایسے میں آرزو بڑی ہمت کا کام ہے

کیا منجم سے کریں ہم اپنے مستقبل کی بات

حال کے بارے میں ہم کو کون سا معلوم ہے

یا تو جو نافہم ہیں وہ بولتے ہیں ان دنوں

یا جنہیں خاموش رہنے کی سزا معلوم ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے