واحد پریمی کے اشعار
ہجوم غم سے ملی ہے حیات نو مجھ کو
ہجوم درد سے پایا ہے حوصلہ میں نے
کوئی گردش ہو کوئی غم ہو کوئی مشکل ہو
جس کو آنا ہو ہمارے وہ مقابل آئے
ایک مدت سے اسی الجھن میں ہوں
ان کو یا خود کو کسے سجدہ کروں
اف گردش حیات تری فتنہ سازیاں
اپنے وطن میں دور ہیں اہل وطن سے ہم
بعد تکلیف کے راحت ہے یقینی واحدؔ
رات کا آنا ہی پیغام سحر ہوتا ہے
آزاد تو برسوں سے ہیں ارباب گلستاں
آئی نہ مگر طاقت پرواز ابھی تک
حق بات سر بزم بھی کہنے میں تأمل
حق بات سر دار کہو سوچتے کیا ہو
نہ پوچھئے کہ شب ہجر ہم پہ کیا گزری
تمام رات جلے شمع انجمن کی طرح
ہے شام اودھ گیسوئے دلدار کا پرتو
اور صبح بنارس ہے رخ یار کا پرتو
اس طرح حسن و محبت کی کرو تم تفسیر
مجھ کو آئینہ کہو اور انہیں تصویر کہو
کبھی نہ حسن و محبت میں بن سکی واحدؔ
وہ اپنے ناز میں ہم اپنے بانکپن میں رہے
ہم وہ رہرو ہیں کہ چلنا ہی ہے مسلک جن کا
ہم تو ٹھکرا دیں اگر راہ میں منزل آئے
کسی کو بے سبب شہرت نہیں ملتی ہے اے واحدؔ
انہیں کے نام ہیں دنیا میں جن کے کام اچھے ہیں
وہ اور ہیں کناروں پہ پاتے ہیں جو سکوں
ہم کو قرار ملتا ہے طوفاں کی گود میں
میری دیوانگئ عشق ہے اک درس جہاں
میرے گرنے سے بہت لوگ سنبھل جاتے ہیں
راہ طلب کی لاکھ مسافت گراں سہی
دنیا کو میں جہاں بھی ملا تازہ دم ملا
کعبہ و دیر و کلیسا کا تجسس کیوں ہو
جب مرے قلب ہی میں میرا خدا ہے یارو
آشیاں جلنے پہ بنیاد نئی پڑتی ہے
عکس تخریب کو آئینۂ تعمیر کہو
کس شان کس وقار سے کس بانکپن سے ہم
گزرے ہیں آزمائش دار و رسن سے ہم
گل غنچے آفتاب شفق چاند کہکشاں
ایسی کوئی بھی چیز نہیں جس میں تو نہ ہو
اندھیروں میں اجالے ڈھونڈھتا ہوں
یہ حسن ظن ہے یا دیوانہ پن ہے
شب فراق کئی بار گوشۂ دل سے
اٹھی تو آہ مگر آہ بے اثر اٹھی
شخصیت فن کار معمہ نہیں واحدؔ
فن ہی میں ہوا کرتا ہے فن کار کا پرتو
کیوں شکوۂ بے مہرئ ساقی ہے لبوں پر
پینا ہے تو خود بڑھ کے پیو بادہ گسارو
کوئی ہنگامۂ حیات نہیں
رات خاموش ہے سحر خاموش
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اپنا نفس نفس ہے کہ شعلہ کہیں جسے
وہ زندگی ہے آگ کا دریا کہیں جسے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں اوروں کو کیا پرکھوں آئنۂ عالم میں
محتاج شناسائی جب اپنا ہی چہرا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ