Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آم کے آم گٹھلیوں کے دام

مختار احمد

آم کے آم گٹھلیوں کے دام

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    چند روز بعد حسن کی پھپھو کی شادی ہونے والی تھی۔وہ اس کے دادا دادی کے ساتھ بہاولپور میں رہتی تھیں۔اس شادی میں شرکت کے لیے آج وہ اپنی امی اور ابّا کے ساتھ بسوں کے اڈے پر آیا تھا۔اس کے ابّا نے بس میں تین سیٹیں پہلے ہی سے بک کروا لی تھیں۔راولپنڈی سے بہاولپور کا سفر آٹھ دس گھنٹوں کا تھا۔لمبے سفر کا اپنی ہی ایک مزہ ہوتا ہے۔حسن نے سوچ رکھا تھا کہ وہ کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھے گا تاکہ سارے راستے باہر کے منظر سے لطف اندوزہوتا رہے۔اسے سفر کے دوران کھیت، دریا، پل اور چھوٹے بڑے گھروں کو دیکھنے میں بڑا مزہ آتا تھا۔

    ان کی بس آنے میں ابھی کچھ دیر تھی۔اس کے ابّا انھیں ویٹنگ روم میں لے آئے اور انھیں وہاں بٹھا دیا۔سامان سے بھرے بیگ انہوں نے اپنی کرسی کے پاس رکھ لیے تھے۔اپنی بہن کی شادی پر وہ بھی بڑے خوش تھے۔انہوں نے بینک سے ایک لاکھ روپے نکلوا کر قمیض کے اندر اپنے بنیان کی زپ والی جیب میں رکھے ہوئے تھے۔یہ پیسے انہوں نے اس لیے نکلوائے تھے تاکہ بہن کی شادی میں کام آسکیں۔

    حسن کی امی نے بھی اس شادی کی تیاری پہلے سے ہی شروع کر رکھی تھی۔جس زمانے میں سونا سستا تھا، انہوں نے زیوروں کا پورا سیٹ حسن کی پھپھو کو شادی میں دینے کے لیے بنوا کر رکھ لیا تھا اور وہ اس وقت ان کے بڑے سے پرس میں رکھا ہوا تھا جسے انہوں نے بڑی احتیاط سے گلے میں لٹکا کر دونوں ہاتھوں سے پکڑ رکھا تھا۔یہ دیکھ کر حسن کو بڑی ہنسی آئی۔اس نے کہا۔امی آپ نے جس انداز سے اپنا پرس پکڑا ہوا ہے کوئی بچہ بھی دیکھے تو سمجھ جائے کہ اس میں کوئی قیمتی چیز رکھی ہوئی ہے”۔

    اس کی امی نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پرس سے ہاتھ ہٹا لیے۔حسن نے ٹھیک بات کی تھی۔

    حسن ان کے پاس نہیں بیٹھا۔وہ ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگا۔اس کے ابّا اس پر مسلسل نظریں رکھے ہوئے تھے کہ وہ کہیں دور نہ نکل جائے۔وہاں پر لوگوں کا کافی رش تھا جو دور دراز کے سفر پر جانے کے لیے یہاں آئے تھے۔حسن دس سال کا تھا اور کافی سمجھدار اور ہوشیار تھا۔وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتا تھا جس سے اس کے امی ابّا کو کوئی پریشانی ہو، اس لیے وہ خود بھی وہاں سے زیادہ دور نہیں جا رہا تھا۔

    اس انتظار گاہ کے سامنے لوہے کی ایک ریلنگ بنی ہوئی تھی۔حسن ریلنگ کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔سامنے سڑک کے پار ایک بازار تھا جس میں بہت ساری چھوٹی بڑی دکانیں تھیں۔اس بازار کا وہاں سے فاصلہ زیادہ نہیں تھا اس لیے حسن کو دکانوں میں رکھی ہوئی چیزیں بالکل صاف نظر آ رہی تھیں۔ان دکانوں پر بچوں کے کھلونوں سے لے کر کھانے پینے کی ہر چیز موجود تھی۔اسے کتابوں اور اخبارات کی بھی ایک دکان نظر آئی۔

    اچانک اس کی نظر پھلوں کی ایک بہت بڑی سی دکان پر پڑی۔اس میں زمین سے لے کر چھت تک پھلوں کی پیٹیاں تھیں اور ان پیٹیوں میں قسم قسم کے پھل نہایت قرینے سے سجا کر رکھے گئے تھے۔ایک نوجوان لڑکا سفید شرٹ اور جینز کی پینٹ پہنے گلّے پر بیٹھا تھا اور کچھ ملازم پیٹیوں سے پھل نکال نکال کر تول رہے تھے اور کاغذ کے تھیلوں میں بھر بھر کر گاہکوں کے حوالے کر رہے تھے۔

    اس پھل والے کی دکان پر بہت رش تھا۔گاہک جلدی کرنے کا تقاضہ کر رہے تھے اور بار بار گردن گھما کر بسوں کی طرف بھی دیکھ رہے تھے– کسی کی بس ابھی اڈے پر لگی نہیں تھی اور جس کی بس اڈے پر لگ گئی تھی وہ کچھ دیر میں چلنے والی تھی۔اسی لیے وہ سب بڑی جلدی میں تھے۔

    حسن کو یہ منظر بہت اچھا لگا اور وہ دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا۔اچانک اس کی نظر اسی دکان کے باہر لٹکے ایک بورڈ پر پڑی۔اس پر لکھا ہوا تھا:

    گل زمان پھل فروش

    خوشخبری

    پھل کھا کر ان کی گٹھلیاں کوڑے دانوں میں نہ ڈالیں بلکہ تھوڑی سی زحمت کرکے انہیں سنبھال کر رکھیں۔

    یہاں پر گٹھلیاں تول کر خریدی جاتی ہیں۔اس لیے جب بھی فرصت ملے انھیں یہاں دے کر مقررہ قیمت وصول کر لیں۔

    بورڈ پر لکھی تحریر پڑھ کر حسن کو بہت حیرت ہوئی۔وہ اپنے ابّا کے پاس آیا۔وہ کسی سوچ میں گم بیٹھے تھے۔ابّا جان۔وہ دیکھیے۔پھلوں والے کی دکان پر کیا لکھا ہے”۔اس نے کہا۔

    اس کے ابّا نے ایک نظر بورڈ پر ڈالی اور مسکرا کر بولے۔اس بارے میں تو ایک کہاوت بھی بہت مشہور ہے کہ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔

    لیکن ابّا جان۔یہ دکاندار ان گٹھلیوں کا کیا کرتے ہونگے؟ حسن نے پوچھا۔اگر اس کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی تھی تو وہ اپنے ابّا سے اس کے بارے میں پوچھتا ضرور تھا۔یہ ایک اچھی بات تھی کیونکہ اس سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔

    اس کے بہت سے جوابات ہوسکتے ہیں۔یا تو وہ ان گٹھلیوں کو اپنے باغ میں بو دیتا ہوگا اور ان سے پھلوں کے پودے اگ آتے ہوں گے۔اور یا پھر انھیں مہنگے داموں کسی حکیم کو بیچ دیتا ہوگا۔وہ حکیم ان گٹھلیوں سے دوائیاں بنا لیتا ہوگا۔بہرحال وہ کچھ نہ کچھ تو ان سے کرتا ہی ہوگا۔اصل بات تو وہ دکان دار ہی بتا سکے گا”۔

    ابّا جان کی یہ بات سن کر حسن کا تجسس اور بھی بڑھ گیا۔وہ یہ جاننے کے لیے بے چین تھا کہ پھل والا یہ گٹھلیاں کیوں خریدتا ہے، جب کہ لوگ تو انہیں کوڑے میں پھینک دیتے ہیں۔تھوڑی دیر تک خاموش رہنے کے بعد اس نے اپنے ابّا سے کہا۔ابّا جان۔بس تو جانے کب آئے گی۔کیا آپ میرے ساتھ اس پھل والے کی دکان پر چلیں گے۔میں اس سے اس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہوں”۔

    حسن تم تو ایک بات کے پیچھے ہی پڑ جاتے ہو”۔اس کی امی نے اسے سرزنش کی۔خاموشی سے بیٹھو اور اپنے ابّا جان کو تنگ مت کرو۔ہماری بس آنے ہی والی ہے”۔

    اس کے ابّا نے دھیمے لہجے میں کہا۔دیکھو حسن۔اس وقت ہمارے پاس بہت سا روپیہ پیسہ اور زیور ہے۔یہ بات مناسب نہیں ہوگی کہ ہم لوگ بے مقصد ادھر ادھر گھومیں۔یہاں پر بہت سارے نو سر باز اور جیب کترے گھوم رہے ہوتے ہیں۔چپ چاپ بیٹھ کر دعا کرو کہ ہم ساتھ خیریت کے اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔تمہاری پھپھو کی شادی ہوجائے گی تو ہم واپسی پر اس دکاندار سے معلوم کرلیں گے کہ وہ گٹھلیاں کیوں خریدتا ہے اور ان کا کیا کرتا ہے”۔

    ان کی بات سن کر حسن خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گیا اور جھک کر اپنی امی کی گود میں سر رکھ کر آتے جاتے مسافروں کو دیکھنے لگا مگر اس کا ذہن اسی سوال کی طرف لگا ہوا تھا کہ دکان والا ان گٹھلیوں کا کیا کرتا ہوگا۔

    تھوڑی دیر بعد ان کی بس اڈے پر لگ گئی۔وہ لوگ جن کے پاس اس بس کے ٹکٹ تھے اپنا اپنا سامان لے کر اس کی طرف بھاگے۔سیٹیں تو سب کی ہی بک تھیں، حسن کے ابّا نے جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ان مسافروں کو دیکھتے رہے۔

    بس کے عملے کا ایک آدمی میٹل ڈٹیکٹر سے مسافروں کا سامان چیک کر رہا تھا، دوسرا اس کا ٹیگ بنا کر سامان پر لگا رہا تھا اور اس ٹیگ کا ایک حصہ مسافروں کو دے رہا تھا تاکہ سفر کے اختتام پر اسے دکھا کر وہ اپنا سامان لے سکیں۔ایک تیسرا ملازم اس سامان کو بس کے باہر والے حصے میں بنے ہوئے کمپارٹمنٹ میں رکھتا جا رہا تھا۔

    جب سب مسافر بس میں بیٹھ گئے تو حسن کے ابّا بھی اپنا سامان لے کر وہاں پہنچ گئے۔حسن کو سیٹوں کے نمبر یاد تھے وہ بھاگ کر بس میں چڑھا اور اپنی کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس کی امی اور ابّا بھی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔

    اس وقت شام کے سوا چار بجے تھے۔بس نے ساڑھے چار بجے چلنا تھا۔حسن کی نظر پھر اس پھل فروش کی دکان پر پڑی۔لوگ لائن لگا کر اپنے ساتھ لائے ہوئے بیج اور گٹھلیاں اس دکان والے کو دے رہے تھے۔یہ لوگ مسافر نہیں لگ رہے تھے، قریبی بستیوں میں رہنے والے لوگ تھے۔وہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر انھیں دیکھنے لگا۔

    اسی لمحے دو کم عمر لڑکے بس میں چڑھے۔وہ شکل و صورت اور کپڑوں سے طالب علم لگ رہے تھے۔ان کے ہاتھوں میں چمڑے کے بیگ تھے۔ان میں سے ایک لڑکے نے اونچی آواز میں کہا۔ معزز خواتین و حضرات۔ہماری دعا ہے کہ آپ کا سفر ساتھ خیریت کے ساتھ اختتام پذیر ہو۔سڑک کے پار ہماری پھلوں کی دکان ہے۔ہمارے بھائی صاحب لوگوں سے پھلوں کے بیج خرید کر انھیں پیکٹوں میں رکھ کر آپ جیسے دور دراز کے سفر پر جانے والوں کے حوالے کروا دیتے ہیں اور وہ بھی بالکل مفت میں۔اس پیکٹ میں مختلف پودوں کے بیج ہیں۔آپ سے درخواست ہے کہ منزل مقصود پر پہنچتے ہی پہلی فرصت میں ان بیجوں کو کسی مناسب اور نرم زمین دیکھ کر اس میں بو دیجیے گا۔تھوڑے عرصے بعد ان میں سے پودے نکل آئیں گے۔اس کام کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر کریں۔پودے نہ صرف ہمارے ماحول اور ہوا کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، بلکہ یہ موسم کی تبدیلیوں کو روکنے کا سبب بھی بنتے ہیں۔جتنے زیادہ درخت ہمارے ملک میں ہونگے، ہماری آب و ہوا بھی صاف ستھری رہے گی اور گرمی بھی کم پڑے گی۔ان کی وجہ سے بارشوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ذمہ دار اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے ہم سب کی یہ کوشش ہونا چاہئیے کے ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں تاکہ ہمارا پاکستان سرسبز اور شاداب رہے۔ویسے بھی درخت لگانا ثواب کا کام ہے۔جب تک لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے، انہیں لگانے والے کو اس کا اجروثواب ملتا رہے گا”۔

    لڑکے کی بات ختم ہوئی تو اس نے اور اس کے ساتھ آئے ہوئے دوسرے لڑکے نے اپنے بیگوں میں سے چھوٹے چھوٹے خوبصورت پیکٹ نکال نکال کر سیٹوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کردیے۔ان پیکٹوں میں مختلف قسم کی گٹھلیاں اور بیج موجود تھے۔

    وہ لڑکے جلد ہی ان کی سیٹ تک بھی آگئے اور ان میں سے ایک لڑکے نے تین پیکٹ حسن کو پکڑا دئیے۔حسن نے ان کا شکریہ ادا کیا اور بولا۔آپ لوگ تو یہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔

    یہ تو ہے”۔اس لڑکے نے مسکرا کر جواب دیا۔لوگ ہماری باتیں غور سے سنتے ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ انھیں درختوں کی اہمیت کا احساس ہونے لگا ہے کیوں کہ ہمارے اس کام کے بارے میں وہ دوسروں کو بھی بتاتے ہیں۔ان باتوں کو سن کر دوسرے لوگوں میں بھی درختوں کی اہمیت کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ہم انہیں بسوں میں اس لیے تقسیم کرتے ہیں کہ اس طرح پودوں کے بیج اور گٹھلیاں بغیر کسی خرچ کے ملک کے دور دراز شہروں میں بہ آسانی پہنچ جاتی ہیں”۔

    تھوڑی دیر بعد لڑکے اپنا کام ختم کرکے چلے گئے۔حسن انھیں تعریفی نظروں سے جاتا دیکھ رہا تھا۔اس کے ابّا مسکرا کر بولے۔لو میاں حسن۔شکر ہے تمہیں اپنے سوال کا جواب مل گیا اور امید ہے تمہاری الجھن دور ہوگئی ہوگی۔یہ بچے اور ان کا بھائی کہنے کو تو پھل فروش ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک ذمہ داری کا کام بھی کر رہے ہیں۔انہوں نے کتنی اچھی ترکیب نکالی ہے۔اب لوگ پھل کھا کر ان کی گٹھلیاں کوڑے میں نہیں پھینکتے بلکہ جمع کرکے انہیں فروخت کردیتے ہیں اور یہ پھل فروش ان گھٹلیوں کو دھو کر صاف ستھرا کرکے اور خوبصورت پیکٹوں میں رکھ کر دور دراز علاقوں میں جانے والے مسافروں کے حوالے کردیتے ہیں۔سب تو نہیں مگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان بیجوں کو زمین میں بو دیتی ہوگی اور اس طرح ہمارے پیارے پاکستان میں درختوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہوگا”۔

    حسن اس بات سے بہت متاثر نظر آ رہا تھا۔اس نے کہا۔ایسے لوگ کتنے اچھے ہوتے ہیں جو خاموشی سے اپنے ملک کی بہتری کے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔جیسے یہ نیک دل پھل فروش۔اب میں بھی پھلوں کی گٹھلیاں اور سبزیوں کے بیج پھینکا نہیں کروں گا۔انھیں جمع کرتا رہوں گا۔گھر اور اسکول کی کیاریوں میں، کھیل کے میدان کے کنارے پر اور پارکوں کے اندر، اس کے علاوہ پکنک پر کہیں گھومنے پھرنے گیا تو انھیں وہاں زمین میں لگا دیا کروں گا۔بارش کے پانی اور دھوپ سے پودے نکل آیا کریں گے اور خود بخود ہی بڑے ہوتے رہیں گے۔ان بیجوں کو میں پھپھو کے گھر کے صحن میں بھی لگاؤں گا۔شادی کے بعد وہ جب دادی دادا سے ملنے آیا کریں گی تو میں موبائل پر ان سے ان پودوں کے متعلق پوچھا بھی کروں گا کہ وہ کتنے بڑے ہوگئے ہیں”۔

    اس نیک دل دکان دار کی کہانی اپنے دوستوں کو بھی سنانا تاکہ وہ بھی اس بات پر عمل کرسکیں اور پھلوں اور سبزیوں سے نکلی ہوئی گٹھلیاں اور بیج ضائع نہ کریں بلکہ تھوڑی سی محنت کر کے انھیں زمین میں بو دیں تاکہ ان سے درخت اور پودے نکل آئیں۔اور اسی سلسلے میں ایک اور بات بھی تمہیں پتہ ہوگی۔جتنی توجہ ہم نئے درختوں کے لگانے پر دیتے ہیں، اتنی ہی توجہ ہمیں ان درختوں پر بھی دینی چاہیے جو پہلے ہی سے ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ہمیں انھیں کاٹنا بھی نہیں چاہیے اور ان کی ہر طرح حفاظت بھی کرنا چاہئیے اور ان کی کھاد اور پانی کا خاص دھیان رکھنا چاہیے”۔

    جی ابّا جان۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کروں گا”۔حسن نے کہا۔بس کے چلنے کا وقت ہوگیا تھا تھوڑی دیر بعد وہ چل پڑی۔حسن کی نظر ان دونوں لڑکوں پر پڑی۔وہ اب ایک دوسری بس میں چڑھ رہے تھے۔حسن انھیں دیکھ کر مسکرانے لگا۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے