Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آنکھ کی سیر

شاہ تاج خان

آنکھ کی سیر

شاہ تاج خان

MORE BYشاہ تاج خان

    میں آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے چہرے کا معائنہ کر رہا تھا۔۔سب سے پہلا سوال میرے ذہن میں آیا کہ”یہ بھنویں کیوں ہیں؟“کتاب کھولی۔۔جواب ملا۔۔

    ”بھنوں کے محراب پسینے اور بارش کو آنکھوں سے دور رکھ کر ان کی چہرے کے اطراف میں نیچے کی طرف نکاسی کرتے ہیں۔۔“

    پھر میں نے کتاب سے سوال کیا کہ

    ”کیا پلکیں آنکھوں کو خوبصورت بنانے کے لیے ہیں؟“تو جواب خشک سا ملا۔۔

    ”ہماری پلکیں نہ صرف دھول کو آنکھ میں داخل ہونے سے پہلے ہی روک لیتی ہیں بلکہ وہ کافی حسّاس بھی ہوتی ہیں کوئی بھی غیر متوقع لمس کے سبب یہ حفاظتی پلکیں جھپکنا شروع کر دیتی ہیں۔۔“

    میں اپنا چہرہ تھوڑا اور غور سے دیکھنے لگا۔آئینے کے قریب جاکر اپنی آنکھ میں جھانک کر دیکھا تو ایک اور سوال ذہن میں آیا کہ

    ”آنکھیں اتنی گیلی گیلی کیسے رہتی ہیں؟“پھر وہی روکھا پھیکا جواب ملا کہ

    ”اشکی غدود۔۔۔یہاں آنسو پیدا ہوتے ہیں اور آنکھ کے اندرونی حصّے کی طرف بہہ جاتے ہیں۔اس طرح سے وہ سطح کو صاف اور پرورش کرنے میں مدد کرتے ہیں۔“

    یہ خشک اور روکھے سے جواب میں رٹ تو لوں۔۔لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ مجھے یاد نہیں رہ سکتے۔۔۔اس لئے میں نے سوچا کہ آنکھ کے اندر داخل ہونے سے پہلے میں اپنے سُپر گائیڈ کو ساتھ لے لوں۔۔جی ہاں میرے دادا جی۔۔۔وہ سائنس کی سیر ایسے کراتے ہیں مانو ہم کسی تاریخی عمارت کا دیدار کر رہے ہوں۔۔

    دیر کئے بنا اپنی آنکھ کی ساخت لیکر ان کے سامنے پہنچ گیا۔اور ان سے کہا کہ مجھے آج آنکھ کی سیر کرنا ہے۔انہوں نے کہا

    ”تیرنا آتا ہے نہ۔۔اس میں ۵۹فیصد پانی ہوتا ہے۔۔“

    ”اچھا تبھی سارے شاعر آنکھوں میں ڈوبتے رہتے ہیں۔۔“میں نے بھی ہنس کر کہا۔دادا جی نے مسکرا کربات شروع کی۔۔۔

    ”یہ ہمارے sense organیعنی حواسِ خمسہ میں سے ایک ہے۔بنیادی طور پر آنکھ تین کام کرتی ہے۔نمبر ایک۔۔یہ ہمیں رنگ دکھاتی ہے۔۔جیسے کالا،پیلا، ہرا،سفید وغیرہ دوسرے یہ چیزوں کی shape یعنی شکل و صورت دکھاتی ہے۔۔جیسے گول،مثلث۔۔وغیرہ۔۔اور تیسرا کام یہ آنکھیں ہمیں movement یعنی ہماری نقل و حرکت دکھاتی ہیں۔۔جیسے چیزیں چلتی ہیں تو ہماری آنکھیں بتاتی ہیں کہ سامنے کی چیز حرکت کر رہی ہے۔۔سمجھے یا نہیں۔۔؟“

    ”جی دادا جی۔۔ایک بات بتائیے کہ جیسے میں بڑا ہو رہا ہوں تو مجھ میں بہت سی تبدیلیاں آرہی ہیں۔کیا ہماری آنکھوں میں بھی ہماری عمر کے ساتھ اس کی جسامت میں کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔۔؟“

    ”بر خورادار بالکل نہیں۔۔آنکھ کی جسامت تاعمر یکساں رہتی ہے۔۔لیکن ناک اور کان بڑھتے رہتے ہیں۔۔یہ دیکھیے میری ناک۔۔کتنی بڑی اور موٹی ہو گئی ہے۔۔!“دادا جی نے اپنے ناک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا

    ”آپ کی ناک کبھی پتلی بھی تھی۔۔؟“دادا جی نے میری شرارت پر سر پر ہلکے سے چپت لگائی اور کہا

    ”آنکھ جو ساری دنیا دیکھتی ہے لیکن جب اس کے اندر کچھ چلا جائے تو وہ اسے نہیں دیکھ سکتی۔۔!اچھا اب تھوڑا آنکھ کی سائنس پر بات کریں۔۔؟“

    ”جی دادا جی۔۔ کیا آنکھ پوری طرح گول ہوتی ہے۔۔؟“میں نے پوچھا

    ”ہاں کہہ سکتے ہیں۔۔پیچھے سے تو گول ہوتی ہے لیکن آگے کی طرف سے تھوڑاباہر کی طرف ابھری ہوئی ہوتی ہے۔اور یہ جو آپ کا گول ہڈیوں کا گڈھا ہے اسے socket یعنی چشم خانہ کہتے ہیں جس میں آپ کی آنکھ کی بال سیٹ ہے۔۔اسے orbit کہتے ہیں۔۔مطلب آنکھ کا حلقہ یا کاسہ چشم۔۔“

    ”کیا دادا جی۔۔ آپ بھی مشکل الفاظ کا استعمال کرنے لگے۔۔!تھوڑا آسان زبان ہی رہنے دیجئے۔۔اسکول جاکر یہ اصطلاحات رٹ لوں گا۔“

    ”ہاں یہ بات تو سو فیصدی درست کہی برخوردار۔۔لیکن کہاں چلے۔۔؟“

    ”ابھی آیا۔۔!“

    جب میں ہاتھ میں چھوٹا سا آئینہ لیکر دوبارہ داداجی کے سامنے پہنچا تو انہوں نے پوچھا

    ”یہ آئینہ کیوں لے آئے۔۔؟“

    ”میں زرا اپنی آنکھوں کا جائزہ لے رہا ہوں۔۔!“میں نے اپنی آنکھوں کو آئینہ میں دیکھتے ہوئے کہا

    ”کیا دکھا۔۔؟“دادا جی نے پوچھا

    ”دادا جی دو منٹ تو رکیے۔۔اچھا یہ بتائیے کہ ہماری آنکھیں اتنی تیزی سے حرکت کیسے کرتی ہیں۔۔؟دیکھیے ایسے اوپر،نیچے،دائیں،بائیں۔۔۔“میں نے اپنی آنکھوں کو گھما گھما کر دکھاتے ہوئے کہا تو داداجی مسکرا دئیے

    ”جی ارسلان۔۔ انسان کے جسم میں سب سے تیز حرکت کرنے والے پٹھے یہیں ہماری آنکھوں میں ہوتے ہیں۔۔جن کی تعداد چھ ہے۔۔تبھی تو یہ آپ کی آنکھوں کے بٹن ہر وقت گھومتے رہتے ہیں۔۔۔!“دادا جی نے اپنے اسٹئل میں سمجھایا

    ”اب ایک بات میں بتا تا ہوں۔۔یہ جو ہماری پلکیں eyelids۔۔یعنی ہماری آنکھوں کےغلاف۔۔یہ بالکل ایک پردے کی طرح کام کرتے ہیں۔اور جب یہ پردہ گر جاتا ہے تو ہم کچھ دیکھ نہیں پاتے کیونکہ روشنی اندر نہیں جاتی اور روشنی نہیں ہوگی تو ہم کچھ دیکھ بھی نہیں سکتے۔۔۔لیکن دادا جی یہ روشنی کا کیا معاملہ ہے۔۔؟“مجھے میری ہی بات میں سوال نے گھیر لیا۔۔داداجی نے مسکرا کر کہا

    ”واہ بھئی آپ کی بات مجھے اچھی معلوم ہوئی اور اسی میں سے آپ نے ایک اور سوال بھی تلاش کر لیا۔۔بہت خوب۔۔! آپ کے سوال کے جواب کے لیے ہمیں آنکھ کی تھوڑی اور گہرائی میں اترنا ہوگا۔۔!“

    ”دادا جی کیا بہت ساری باتیں یاد کرنا پڑیں گی۔۔؟“

    ”نہیں نہیں۔۔اتنا مشکل نہیں ہے۔۔ہماری آنکھ کی کہانی صرف تین پردوں پر محیط ہے۔۔باہر والا پردہ،درمیانی پردہ اور اندرونی پردہ۔۔“

    ”سب سے پہلے باہر والے پردے کے بارے میں بتائیے۔۔!“

    ”باہر والے پردے کوsclerotic layer سفیدہ چشم یا تصلب زدہ بھی کہتے ہیں یہ پوری طرح سفید رنگ کا ہوتا ہے۔اور کافی موٹا ہوتا ہے لیکن جب یہ آنکھ کے سامنے والے حصّے میں پہنچتا ہے تو یہtransparentشفاف۔۔ ہو جاتا ہے۔جس میں سے روشنی آر پار جا سکتی ہے یہاں یہ بہت پتلا ہو جاتا ہے اور پھر اس کا نام بدل کر cornea ہوجاتا ہے۔اردو میں اسے آنکھ کا شفاف پردہ،بیرونی پردہ اورقرنیہ کہتے ہیں۔“

    ”اب دوسرا پردہ۔۔“میں نے فوراً کہا

    ”دوسرے پردے کا نام ہےchoroid layer مشیمیہ۔۔یعنی آنکھ کا کالا پردہ۔۔یا پھر آنکھ کے ڈھیلے کا پردہ۔۔اور اس میں خون کی نالیاں اور خلیات بھی پائے جاتے ہیں۔جب یہ پیچھے کی جانب سے بڑھتے ہوئے cornea کے علاقے میں پہنچتا ہے توخود کو گھما لیتا ہے اور دونوں جانب سے سامنے کی طرف آکر ایک دوسرے سے ملتا نہیں ہے بلکہ ایک ساخت ایک ڈھانچہ بناتا ہے جسےiris یعنی آنکھ کی پتلی یا قزحیہ کہتے ہیں۔دونوں جانب سے آنے والے درمیانی پردے کے گھماؤ سے آنکھ کی پتلی بن جاتی ہے اور جو ان کے درمیان ایک چھوٹی سی جگہ باقی رہ جاتی ہے جو ہمیں ایک سوراخ کی شکل میں دکھائی دیتی ہے اسے pupil پُتلی کہتے ہیں۔۔“

    ”دادا جی یہ جو آپ کی آنکھ کا کالا کالا گول حصّہ ہے کیا وہی iris ہے۔۔؟“

    ”جی برخوردار۔۔۔اور اس کے درمیان میں ایک چھوٹا سا سوراخ بھی نظر آرہا ہے یا نہیں۔۔۔؟“

    ”ہے نہ دادا جی۔۔یہ رہا pupil۔۔۔“میں نے دادا جی کی آنکھ میں تقریباً انگلی ڈالتے ہوئے کہا

    ”ارے رے۔۔کیا میری آنکھ میں ہی داخل ہو جاؤگے۔۔۔!چلیے تھوڑا اس کے بارے میں اور بات کرتے ہیں۔۔یہ چھوٹا سا دکھائی دینے والا سوراخ بہت کام کا ہوتا ہے۔یہ بہت لچکدار ہوتا ہے۔۔ خود کو چھوٹا اور بڑا بہت آسانی سے کر لیتا ہے۔اچانک زیادہ روشنی اس کے سامنے آجائے تو یہ خود کو سکیڑ لیتا ہے اور کم روشنی میں یہ خود کو پھیلا لیتا ہے۔بڑا سائز ہوگا تو زیادہ روشنی اندر داخل ہوسکے گی۔“

    ”اگر میں اچانک آپ کی آنکھوں کے سامنے تیز روشنی کر دوں بالکل ایسے۔۔۔“میں نے دادا جی کے ٹیبل لیمپ کو جلا کر اچانک ان کی آنکھوں کے ایک دم سامنے کر دیا۔۔

    ”ارے یہ کیا کر رہے ہو بند کرو روشنی۔۔۔کیا سارے تجربات مجھ پر ہی کر لوگے۔۔۔!“دادا جی نے ہنستے ہوئے کہا

    ”اب جاؤ مجھے تھوڑا آرام کرنا ہے۔۔۔!“

    ”دادا جی ابھی تیسرے پردے کے بارے میں بتانا باقی ہے۔۔۔!“

    ”ارے ہاں۔۔ میں تو بھول ہی گیا تھا۔۔اس پردے کا نام ہے retina یعنی پردہ چشم یا پردہ شبکیہ۔یہ آنکھ کا اندرونی کوٹ ہے جو روشنی کے لیے حساس ہوتا ہے۔یہ دوسرے پردوں کی طرح کچھ بناتا نہیں ہے بس اس کا کام صرف اتنا ہے کہ روشنی کو لیتا ہے اور اس سے تصویر بناتا ہے۔جو کچھ بھی آپ دیکھتے ہو اسے بنانے کی کلاکاری یہی پر دہ انجام دیتا ہے۔یہاں دو خلیات ہوتے ہیں جو اس کی مدد کرتے ہیں۔۔rods and cones۔ روڈس کا کام چیزوں کی ساخت و بناوٹ کو پہچاننا ہوتا ہے اور کونس کا کام ان میں رنگ بھرنا ہوتا ہے۔“

    ”ہاں دادا جی۔۔جب اندھیرا ہو جاتا ہے تو ہمیں چیزیں تو نظر آتی ہیں لیکن روشنی نہ ہونے کے سبب ہم ان کے رنگ نہیں پہچان پاتے۔۔۔اور اگر بالکل اندھیرا ہو تو ہم کچھ بھی نہیں دیکھ پاتے۔۔۔میرے سوال کا جواب بھی مل گیا۔۔۔یعنی ہمیں کسی بھی چیز کو دیکھنے کے لیے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے اس کے بنا ہم کچھ نہیں دیکھ سکتے۔۔۔واہ دادا جی۔۔آج کی سیر تو بہت شاندار ہے۔۔۔اب آگے۔۔“میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا

    ”ارسلان بیٹا۔۔آج کے لیے اتنا کافی ہے۔۔۔ابھی ان معلومات پر نظرِثانی کر لیجیے کل پھر آگے کی بات کریں گے۔۔۔“ایک بات بتاؤں۔۔میرے دادا جی اسکول میں دسویں جماعت کے بچوں کو سائنس پڑھاتے تھے۔۔اور مجھے تو وہ جب سے پڑھا رہے ہیں جب میں دس دن کا تھا۔۔۔ہا ہا ہا ہا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے