Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اچھا لڑکا پکّا دوست

مختار احمد

اچھا لڑکا پکّا دوست

مختار احمد

MORE BYمختار احمد

    واجد کے اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئی تھیں۔وہ اپنی امی سے ضد کرنے لگا کہ یہ چھٹیاں گزارنے خالہ کے گھر حیدرآباد چلیں۔اس کی ضد سے مجبور ہو کر اس کی امی نے اس کے ابو سے بات کی اور انھیں بتایا کہ واجد خالہ کے گھر جانے کو کہہ رہا ہے۔اس پر اس کے ابّو نے کہا کہ ان کےدفتر میں اہم کام چل رہا ہے، انھیں چھٹی ملنا مشکل ہے۔

    یہ ان کی مجبوری تھی جس کا واجد کی امی کو اندازہ تھا۔مگر جب واجد کو انہوں نے یہ بات بتائی تو اس نے پھر بھی اپنی ضد نہیں چھوڑی اور ناراض ہوگیا۔اس روز اس نے نہ تو دوپہر کا کھانا کھایا اور نہ ہی اپنے کمرے سے باہر نکلا۔اپنی امی سے بات چیت تو اس نے صبح سے ہی بند کر دی تھی۔اس کی امی کو یہ سب دیکھ کر افسوس ہوا۔انھیں اس بات پر بھی دکھ تھا کہ واجد اپنے ابو کی مجبوری بھی نہیں سمجھ رہا تھا۔

    چونکہ واجد ان کا اکلوتا بیٹا تھا اس لیے امی اور ابو دونوں اس کے بہت لاڈ اٹھاتے تھے۔اس لاڈ پیار کی وجہ سے وہ یہ سمجھنے لگا کہ اس کی بہت اہمیت ہے۔اس بات نے اس میں ضدی پن پیدا کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ کچھ خود سر بھی ہوگیا تھا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کی محبّت کی قدر کرتا ، ان کا کہنا مانتا، ان کی خوشی میں خوش رہتا ، خوب دل لگا کر پڑھتا اور گھر کے کام کاج میں اپنی امی کا ہاتھ بٹاتا مگر وہ یہ سب کچھ نہیں کرتا تھا۔اس کی امی بار بار کہتیں تو وہ اسکول کا کام کرنے کے لیے بیٹھتا۔وہ گھر کے کسی کام میں بھی ہاتھ نہیں لگاتا تھا۔اسکول کا کام ختم کرکے وہ ہر وقت کھیل کود میں مصروف رہتا یا پھر کارٹون دیکھتا رہتا۔ضد کر کر کے وہ اپنی ہر بات منوا لیتا تھا۔اس کی امی اگر اسے کسی کام کا کہتیں بھی تو وہ یا تو سنتا ہی نہیں تھا یا پھر انکار کردیتا تھا۔

    رات کو جب اس کی امی نے اس کے ابو کو بتایا کہ واجد ضد میں آگیا ہے تو اس کے ابو بولے۔ “واجد بچہ ہے۔اس میں اتنی سمجھ نہیں ہے کہ ہماری تمہاری مجبوریاں سمجھے۔ان چھٹیوں میں اس کے دوست بھی اپنے اپنے رشتے داروں کے یہاں جا رہے ہوں گے۔اسے بھی شوق ہو رہا ہے”۔

    “تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟” واجد کی امی نے کچھ حیرت سے پوچھا۔

    “اس کی خالہ کونسا دور رہتی ہیں۔کراچی اور حیدرآباد کا فاصلہ زیادہ تو نہیں۔کل اتوار ہے۔اپنی گاڑی میں دو ڈھائی گھنٹے میں حیدرآباد پہنچ جائیں گے۔تم اپنی بہن سے بھی مل لینا”۔

    “مگر وہ تو وہاں چند روز رہنا بھی چاہتا ہے”۔اس کی امی بولیں۔

    “ہم اسے وہاں چھوڑ کر شام تک واپس لوٹ آئیں گے۔اچھا ہے وہ ہفتہ دس دن اپنے کزنزکے ساتھ رہ لے گا”۔اس کے ابو نے کہا۔

    “مگر میرا دل تو اسی میں پڑا رہے گا”۔اس کی امی کچھ الجھ کر بولیں۔

    “تو پھر تم بھی اسی کے ساتھ وہاں رک جانا”۔اس کے ابو نے کہا۔

    “تاکہ آپ یہاں ہوٹلوں کے کھانے کھا کھا کر بیمار پڑ جائیں۔ٹی وی پر دیکھتے نہیں ہیں کہ ہوٹلوں میں کھانا کس قدر خراب چیزوں سے بنتا ہے۔اور ان کا پانی تو بہت ہی گندہ ہوتا ہے۔پیٹ کی کتنی ہی بیماریاں گندے پانی سے لگتی ہیں۔میں تو وہاں نہیں ٹھہروں گی۔ہمارا واجد ماشا الله بارہ سال کا ہوگیا ہے۔چند دن اکیلا بھی رہ سکتا ہے”۔

    واجد کو جب یہ بات پتہ چلی کہ اس کے امی ابّو اسے خالہ کے گھر چھوڑنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں تو وہ بہت خوش ہوا اور امی سے ناراضگی ختم کر کے حیدرآباد جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔

    اگلے روز وہ سب لوگ کراچی سے حیدرآباد پہنچ گئے۔اس سفر میں واجد کو بہت مزہ آیا۔وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا مزے سے باہر کے نظارے دیکھتا رہا تھا۔واجد کی خالہ اس کی امی کی بڑی بہن تھیں۔ان کے دو بچے تھے۔فہیم اور نادیہ۔فہیم واجد کا ہم عمر تھا۔نادیہ دونوں سے چھوٹی تھی۔دونوں ان سب کو دیکھ کر خوش ہوگئے۔سب بچوں کے ماں باپ تو ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف ہوگئے۔یہ تینوں بچے مل کر کھیلنے لگے۔

    کھیلتے کھیلتے اچانک فہیم کو کچھ یاد آیا۔“واجد۔میں ابھی آتا ہوں”۔یہ کہہ کر وہ اٹھا اور کمرے کے دروازے کی جانب بڑھا۔واجد بھی اس کے پیچھے چلدیا۔فہیم اپنی امی کے پاس پہنچا۔وہ دوپہر کے کھانے کی تیاری کے لیے فرج میں سے گوشت وغیرہ نکال رہی تھیں۔

    “امی۔مہمان آئے ہوئے ہیں۔آپ نے مارکیٹ سے کچھ منگوانا تو نہیں ہے”۔اس نے کہا۔

    “نہیں بیٹا۔گھر میں ساری چیزیں موجود ہیں”۔اس کی امی نے بڑے پیار سے کہا۔

    “اچھا۔میں کسی کام میں آپ کا ہاتھ بٹاؤں؟” فہیم نے پھر پوچھا۔

    “کوئی کام ہوگا تو میں تمہیں بلا لوں گی”۔اس کی امی مسکرا کر بولیں۔ “تم اطمینان سے واجد کے ساتھ کھیلو۔وہ کتنے دن بعد یہاں آیا ہے”۔

    واجد سوچ میں پڑ گیا۔فہیم کی امی نے تو اس سے کسی کام کا کہا بھی نہیں تھا، وہ خود ہی ان سے کہہ رہا تھا کہ انھیں کوئی کام تو نہیں ہے، کوئی چیز تو نہیں منگوانی۔”فہیم اپنی امی کا کتنا خیال رکھتا ہے۔اور ایک میں ہوں کہ امی مجھ سے کسی کام کا کہتی بھی ہیں تو اول تو میں سنتا ہی نہیں ہوں، سن بھی لوں تو اسے کرنے سے منع کر دیتا ہوں”۔اس نے پشیمانی سے سوچا۔

    وہ دونوں وہاں سے نکلے۔واجد اور اس کی امی ابو کے آنے سے پہلے فہیم کی امی برآمدے میں پونچھا لگا رہی تھیں۔ان کے آنے کی وجہ سے وہ یہ کام چھوڑ کر ان کے استقبال میں لگ گئیں۔فہیم نے دیکھا کہ ابھی تھوڑا ہی سا فرش صاف ہوا تھا۔اس نے وائپر اٹھایا اور پانی ڈال ڈال کر منٹوں میں پورا برامدہ صاف کردیا۔

    واجد کو اس پر بھی حیرت ہوئی۔وہ تو گھر میں ٹافیوں، ببل گم، بسکٹ اور چپس کے ریپر جگہ جگہ فرش پر پھینک دیا کرتا تھا۔کیچڑ میں لت پت جوتے لے کر گھر میں داخل ہوجاتا تھا۔اس کی امی بے چاری صفائی کرتی پھرتی تھیں اور وہ صفائی میں ذرا بھی ہاتھ نہیں بٹاتا تھا۔اپنی اس حرکت پر اسے ایک مرتبہ پھر شرمساری محسوس ہونے لگی۔

    برآمدے کی صفائی سے فارغ ہو کرفہیم نے ہاتھ دھوئے اور واجد سے بولا۔ “آؤ اب ہم بیٹھ کر مزے سے ویڈیو گیم کھلیں گے۔پرسوں میں گیم کی نئی سی ڈی لایا تھا”۔واجد اس کے ساتھ چلدیا۔وہ لوگ ڈرائنگ روم سے گزرنے لگے تو فہیم کے پاپا باہر جانے کے لیے اٹھ رہے تھے۔وہ انھیں دیکھ کر مسکرائے اور پھر فہیم سے بولے۔ “میں واجد کے ابو کے ساتھ ذرا باہر جا رہا ہوں۔ہم تھوڑی دیر میں آجائیں گے”۔

    “کیا آپ گاڑی میں جائیں گے؟” ۔فہیم نے پوچھا۔

    “نہیں۔ہم قریب ہی جا رہے ہیں۔ایک دوست کے پاس۔پیدل ہی جائیں گے اور کھانے کے وقت تک واپس آجائیں گے”۔اس کے پاپا نے بتایا۔

    فہیم یہ سن کر جلدی سے اپنے کمرے میں گیا اور وہاں سے دو چھتریاں لا کر ایک اپنے پاپا کو دی دوسری واجد کے ابو کو اور بولا ۔ “بہت گرمی ہو رہی ہے۔باہر بہت تیز دھوپ بھی ہے۔بغیر چھتری کے باہر نکلنا مناسب نہ ہوگا”۔

    نادیہ کو بھی خبر ہوگئی تھی کہ اس کے پاپا اور خالو کسی دوست سے ملنے جا رہے ہیں۔وہ فٹا فٹ فرج میں سے پانی کی دو چھوٹی منرل واٹر کی بوتلیں لے آئی اور بولی۔ “پاپا یہ بھی ساتھ رکھ لیجیے۔راستے میں کہیں پیاس نہ لگنے لگے۔گرمی کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی ہوسکتی ہے”۔یہ کہہ کر اس نے ایک بوتل واجد کے ابّو کو اور دوسری بوتل اپنے پاپا کو تھما دی۔

    فہیم اور نادیہ کے پاپا نے دونوں بچوں کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور پھر واجد کے ابو کے ساتھ اپنے دوست سے ملنے کے لیے چل دیئے۔واجد یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس نے تو کبھی اپنے ابّو کو بارش میں بھی چھتری لا کر نہیں دی تھی۔یہ سوچ کر اس کے چہرے پر ندامت طاری ہوگئی۔

    ان کے جانے کے بعد فہیم واجد کو لے کر اپنے کمرے میں آیا۔واجد ابھی تک سوچ میں گم تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ فہیم اور نادیہ اپنے پاپا اور امی کا کس قدر خیال رکھتے ہیں۔وہ ان سے کوئی کام کہتے بھی نہیں ہیں مگر وہ دونوں خود سے ہی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی مدد کریں۔واجد کو اپنی امی اور اپنے ابو سے اپنا رویہ یاد آیا تو اسے ایک بار پھر شرمندگی ہونے لگی۔

    کمرے میں پہنچ کر فہیم نے اسے دیوار پر لگی بڑے اسکرین کے ڈیجیٹل ٹی وی پر پلے اسٹیشن تھری میں گاڑیوں کی ریسنگ والا گیم “ڈرائیور ۔سان فرانسسکو” لگا کر دے دیا۔واجد کو یہ گیم کھیلتے ہوئے بڑا مزہ آ رہا تھا۔کھیلتے کھیلتے اس کی نظر فہیم پر پڑی۔وہ نیچے قالین پر بیٹھا اپنے اور اپنے پاپا کے جوتوں پر پالش کر رہا تھا۔

    واجد کو اپنی طرف متوجہ دیکھا تو مسکرا کر بولا۔ “میں روز اپنے اور پاپا کے جوتوں پر پالش کر کے انھیں چمکا دیتا ہوں”۔

    “میرے اور میرے ابو کے جوتوں پر تو میری امی پالش کرتی ہیں”۔واجد نے گاڑی کو فٹ پاتھ پر چڑھنے سے بچاتے ہوئے کہا۔

    “میں سوچتا ہوں امی کو پورے گھر کے کام دیکھنے پڑتے ہیں۔وہ صبح سے رات تک کاموں میں ہی لگی رہتی ہیں۔میں اور نادیہ اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ چھوٹے موٹے کاموں میں ان کے ہاتھ بٹائیں۔ہم تو جب امی کپڑے دھوتی ہیں تو اس وقت بھی ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔وہ مشین میں سے کپڑے نکال نکال کر ایک ٹب میں رکھتی جاتی ہیں اور میں انھیں اٹھا کر کپڑے لٹکانے والی رسی تک لے جاتا ہوں۔نادیہ انھیں رسی پر ڈالتی رہتی ہے”۔فہیم نے بتایا۔

    “کپڑوں پر استری کون کرتا ہے؟”۔واجد نے دلچسپی سے پوچھا۔

    “امی کہتی ہیں کہ ہم دونوں ابھی چھوٹے ہیں اس لیے وہ ہمیں استری نہیں کرنے دیتیں۔اس میں ہاتھ جلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔استری وہ خود کرتی ہیں۔نادیہ ان کی یہ مدد کرتی ہے کہ استری شدہ کپڑوں کو ہینگر میں لٹکا کر الماری میں رکھتی جاتی ہے”۔فہیم نے بتایا۔اتنی دیر میں وہ جوتوں پر پالش کر چکا تھا۔وہ انھیں جوتوں کے ریک میں رکھنے چلا گیا۔

    کچھ دیر بعد نادیہ نے آ کر بتایا کہ کھانا تیار ہے۔وہ دونوں نادیہ کے ساتھ کمرے سے باہر آگئے۔اتنی دیر میں فہیم کے پاپا اور واجد کے ابو اپنے دوست سے مل کر واپس آگئے تھے۔فہیم کے پاپا نے کہا۔”شکریہ بچّو۔تمھاری چھتریاں اور پانی کی بوتلیں بہت کام آئی تھیں۔دھوپ بہت تیز تھی۔جسم کا پانی فوراً ہی خشک کیے دے رہی تھی”۔یہ سن کر فہیم اور نادیہ خوش ہوگئے اور اپنا ایک ایک ہاتھ فضا میں بلند کر کے انھیں آپس میں ٹکرا کر خوشی کا اظہار کیا۔

    سب لوگ کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔واجد اور فہیم کی امیوں نے مل کر کھانا پکایا تھا۔کھانے میں مٹن بریانی، کباب، قورمہ اور دال تھی۔میٹھے میں مزے دار کھیر اور فروٹ کسٹرڈ تھا۔ان چیزوں کی خوشبو نے ان کی بھوک بڑھا دی تھی۔

    ابھی انہوں نے کھانا شروع کیا ہی تھا کہ دروازے پر لگی بیل کے بجنے کی آواز آئی۔گھنٹی کی آواز سن کر فہیم کے ابو اٹھنے لگے مگر ان کے اٹھنے سے پہلے ہی فہیم اپنا چمچہ پلیٹ میں چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا اور بولا۔“پاپا آپ آرام سے کھانا کھائیں، میں جا کر دیکھتا ہوں”۔

    یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔اسے جاتا دیکھا تو واجد کو یاد آیا کہ گھنٹی کی آواز پر یا تو اس کے ابّو یا پھر اس کی امی دروازے پر جاتی تھیں۔وہ مزے سے بیٹھا رہتا تھا۔یہ بات یاد آئی تو اسے کچھ افسوس سا ہونے لگا۔واجد واپس آیا تو اس نے بتایا کہ اخبار والا اخباروں کے بل کے پیسے لینے آیا ہے۔امی نے اپنے پرس میں سے پیسے نکال کر اسے دیے جنہیں اس نے لے جا کر اخبار والے کو دےدئیے۔

    کھانا بہت اچھا پکا تھا۔سب نے خوب سیر ہو کر کھایا۔نادیہ بولی ۔ “امی آپ نے اور خالہ جان نے تو آج کمال کردیا۔اتنا مزے دار کھانا بنایا تھا”۔

    اس کی بات سن کر اس کی امی اور خالہ دونوں مسکرانے لگیں۔نادیہ کی بات سن کر واجد کو احساس ہوا کہ اس نے تو آج تک اپنی امی کے پکائے ہوئے کھانوں کی کبھی تعریف نہیں کی تھی۔الٹا ناک بھوں ہی چڑھاتا رہتا تھا۔

    کھانے کے بعد بچوں نے تو اپنی اپنی پسند کی کولڈ ڈرنک پیں۔بڑوں کے لیے قہوہ بننے لگا۔فہیم اور نادیہ ٹیبل پر سے برتن اٹھا کر کچن میں لے جانے لگے۔واجد کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔“ یہ کام تو امی کا ہوتا ہے”۔اس نے سوچا۔

    اسے ان دونوں بہن بھائی کی حرکتیں بہت عجیب سی لگ رہی تھیں مگر انھیں دیکھنے میں مزہ بھی بہت آ رہا تھا۔جب وہ کسی کام میں اپنی امی اور ابو کی مدد کرتے تھے تو ان کے چہرے پر اپنے بچوں کے لیے ایک خاص شفقت اور محبّت نظر آتی تھی۔وہ نہ صرف ان کو شاباش دیتے تھے بلکہ ان کے منہ سے اپنے بچوں کے لیے دعائیں بھی نکلتی تھیں۔

    واجد نے دیکھا کہ دونوں نے وہ برتن صرف سنک پر رکھ ہی نہیں دیے تھے بلکہ نادیہ انھیں دھونے لگی تھی اور واجد انھیں ایک کپڑے سے خشک کر کے برتنوں کے ریک میں رکھتا جا رہا تھا۔اس کام میں انھیں مشکل سے دس منٹ ہی لگے تھے۔نادیہ کو برتن دھوتے دیکھ کر خالہ نے اس کی مدد کی کوشش کی تو اس نے ہنس کر انھیں منع کردیا۔

    فہیم کی امی نے مسکراتے ہوئے اپنی بہن سے کہا ۔ “میں بھی اس طرح کے کاموں میں ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتی ہوں مگر یہ مجھے بھی ہاتھ نہیں لگانے دیتے۔لیکن ایک بات ہے۔یہ اکثر کاموں میں میرا ہاتھ بٹاتے ہیں جس سے مجھے بہت آسانی ہوگئی ہے۔ہمارے گھر کے تمام کام وقت پر ہوجاتے ہیں اور مجھے تھکن بھی نہیں ہوتی۔میرے دل سے تو ان کے لیے بڑی دعائیں نکلتی ہیں”۔

    اپنی خالہ کی باتیں سن کر واجد کو بہت شرمندگی ہو رہی تھی۔وہ تو کسی کام میں اپنی امی اور ابو کا ہاتھ نہیں بٹاتا تھا، الٹا وہ دونوں ہی اس کے تمام کام کرتے تھے۔

    تھوڑی دیر بعد فہیم کی امی نے کہا۔ “اب تم لوگ تھوڑی دیر کے لیے لیٹ جاؤ۔شام کو تازہ دم ہو کر پھر کھیلنا کودنا”۔

    واجد فہیم کے ساتھ اس کے کمرے میں آگیا۔واجد نے اس سے کہا۔ “میں خوش ہوں کہ آج تمہارے گھر آیا۔میں نے تم سے بہت ساری اچھی اچھی باتیں سیکھی ہیں۔اب میں گھر جاؤں گا تو ہر کام میں اپنی امی اور ابو کا ہاتھ بٹایا کروں گا جیسا کہ تم اور نادیہ کرتے ہو”۔

    فہیم اس کی بات سن کر خوش ہوگیا۔اس نے کہا۔ “واجد۔ہمارے ماں باپ ہمارے لیے جو کچھ بھی کرتے ہیں ہم اس کا بدلہ زندگی بھر بھی نہیں اتار سکتے۔ہاں ہم یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ خوب شوق اور لگن سے تعلیم حاصل کریں۔بچے دل لگا کر پڑھتے ہیں تو والدین بہت خوش ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹا کر ان کی مدد کریں۔نادیہ اور میں جب امی کا کوئی کام کرتے ہیں تو وہ ہمیں دل سے دعائیں دیتی ہیں اور خوش ہوتی ہیں۔پاپا بھی ہمیں بہت شاباش دیتے ہیں۔ماں باپ کی دعائیں دنیا کی سب سے قیمتی چیزیں ہوتی ہیں۔ان باتوں کی وجہ سے مجھ میں اور نادیہ میں یہ اچھی بات بھی پیدا ہوگئی ہے کہ ہم اپنا ہر کام اپنے بنائے ہوئے ٹائم ٹیبل کے مطابق کرتے ہیں جس سے ہمیں بڑی آسانی ہو جاتی ہے”۔اس کی یہ باتیں سن کر واجد بہت متاثر ہوا۔

    واجد کی امی اور ابو کی واپسی شام کو ہونا تھی۔واجد نے دیکھا کہ اس کی امی کسی کام سے ڈرائنگ روم میں آئی ہیں۔وہ دوڑ کر ان کے قریب گیا اور بولا۔“امی۔میں شام کو آپ کے ساتھ ہی واپس گھر جاؤں گا۔یہاں نہیں ٹھہروں گا”۔

    “کیوں؟ کیا فہیم سے لڑائی ہوگئی ہے؟” انہوں نے چونک کر پوچھا۔

    “فہیم تو دنیا کا سب سے اچھا لڑکا اور میرا پکّا دوست ہے۔اس کے ساتھ رہ کر مجھے اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا ہے۔میں گھر جا کر آپ کے ہر کام میں ہاتھ بٹایا کروں گا۔آپ کے پکائے ہوئے کھانوں میں کوئی عیب بھی نہیں نکالوں گا۔آپ جو کہا کریں گی میں کیا کروں گا۔اس کے علاوہ خوب دل لگا کر پڑھوں گا بھی”۔

    اس کی باتیں سن کر پہلے تو اس کی امی اسے بے یقینی سے دیکھنے لگیں پھر انہوں نے اسے محبّت سے اپنے گلے سے لگا لیا اور اس کی پیشانی چوم کر بولیں۔ “واجد۔میرے ہلکے سے چٹکی تو لو میں کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہی”۔

    “اپنی امی کے چٹکی بھرنا اچھی بات نہیں ہوتی”۔واجد نے ہنس کر کہا۔“آپ خواب نہیں دیکھ رہیں یہ حقیقت ہے۔میں خالہ جان کے گھر آیا تھا تو ایک برا لڑکا تھا، اب واپس جاؤں گا تو اچھا لڑکا بن کر جاؤں گا”۔

    شام کو ان کی روانگی کا وقت آیا تو نادیہ بولی۔ “واجد بھائی۔آپ تو تھوڑے دن ہمارے گھر ٹھہر جائیں۔خالہ خالو آپ کو بعد میں لے جائیں گے”۔

    فہیم بولا “ہاں واجد ہم ٹھنڈی سڑک بھی جائیں گے۔وہاں ٹھنڈا ٹھنڈا پانی ہوتا ہے۔چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی پکڑیں گے”۔

    “میں ٹھہر تو جاتا۔ہمارا پروگرام بھی یہ ہی تھا۔مگر اب مجھے امی ابّو کے بغیر ذرا بھی مزہ نہیں آئے گا۔کبھی ابّو کو آفس سے چھٹی ملے گی تو ہم سب دوبارہ آئیں گے اور کافی دن یہاں ٹھہریں گے”۔واجد نے کہا۔

    اس کی بات پر اس کے ابّو نے حیرت سے اس کی امی کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا کر منہ ان کے قریب لاکر دھیرے سے بولیں۔ “ہمارا واجد اب ایک اچھا لڑکا بن گیا ہے”۔

    تھوڑی دیر بعد جب اس کے ابّو نے گاڑی اسٹارٹ کی تو واجد نے جلدی سے آگے بڑھ کر گاڑی کا اگلا دروازہ کھولا اور تھوڑا سے جھک کر بڑے ادب سے اپنی امی سے بولا۔ “امی۔آئیے۔بیٹھیے”۔اس کی امی مسکرا کر گاڑی میں بیٹھ گئیں۔

    (ختم شد)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے